Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٥] فرعونیوں کے خفیہ مشورے اور مقابلہ کے متحد دینے کی تلقین :۔ اس علیحدہ مجلس میں ان لوگوں نے، جو جادوگروں کو اکٹھا کرنے میں پیش پیش تھے، اس بات پر زور دیا کہ اب اختلاف کرنے کا موقع نہیں رہا۔ اب تو سب کو اس مقابلہ کے انعقاد پر متفق ہونا ہی بہتر ہے۔ مقابلہ نہ کرنا یا اسے ملتوی کرنا دونوں باتیں ہمارے لئے نقصان دہ اور ہماری شکست کے مترادف ہیں۔ کچھ دوسروں نے کہا کہ اگر تم نے مقابلہ نہ کیا یا تم ہار گئے تو سمجھ لو کہ تمہاری شامت آجائے گی۔ حکومت تم سے چھن جائے گی۔ بنی اسرائیل کے تم غلام بن جاؤ گے۔ پھر جو سلوک وہ چاہیں تم سے کریں تمہیں اس ملک میں رہنے بھی دیں یا نکال باہر کریں۔ تم انھیں کے رحم و کرم پر ہوگے۔ تمہاری یہ تہذیب اور تمدن، تمہاری یہ ثقافت اور عیش و طرب کی محفلیں ایسی سب چیزوں کا جنازہ نکل جائے گا۔ لہذا اب صرف ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرو اور جادوگروں کی خوب حوصلہ افزائی کرو اور یہ سمجھ لو کہ آج کا دن شعبدہ بازی کے مقابلے کا دن نہیں بلکہ تمہاری ہار جیت کا دن ہے۔ جو ہار گیا سو مارا گیا اور جو جیت گیا بالآخر اسی کا بول بالا ہوگا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَاَجْمِعُوْا كَيْدَكُمْ ۔۔ : ” جَمَعَ یَجْمَعُ “ (ف) جمع کرنا اور ” أَجْمَعَ “ (افعال) پختہ کرنا، پختہ ارادہ کرنا، اتفاق کرنا۔ لہٰذا ” فَاَجْمِعُوْا “ (افعال) کا ترجمہ ” جمع کرو یا اکٹھا کرو “ درست نہیں۔ یعنی یہ تذبذب اور اختلاف چھوڑو کہ موسیٰ ( (علیہ السلام) ) کا مقابلہ کیا جائے یا نہ کیا جائے، تم اپنا ارادہ اور اپنی خفیہ تدبیر پختہ اور مستحکم کرو اور پھر صف کی صورت میں اکٹھے ہو کر میدان میں آؤ، تاکہ سب پر تمہارا رعب پڑے اور دفعتاً ایسا حملہ کرو کہ حریف کے قدم اکھڑ جائیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ جادوگر بہت بڑی تعداد میں تھے اور انھوں نے ایک بےہنگم ہجوم کی صورت میں سامنے آنے کے بجائے باقاعدہ فوجی ترتیب سے آگے پیچھے صفیں باندھ کر اپنی ہیبت اور شان و شوکت کے اظہار کا فیصلہ کیا۔ ” فَاَجْمِعُوْا “ یہاں جنس کے معنی میں ہے اور اس سے ایک صف مراد نہیں، جیسا کہ فرمایا : (يَوْمَ يَقُوْمُ الرُّوْحُ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ صَفًّا ) [ النبا : ٣٨ ] ” جس دن روح اور فرشتے صف بنا کر کھڑے ہوں گے۔ “ فرعون کے حکم سے مصر کے تمام شہروں میں سے ہر ماہر جادوگر وہاں لایا گیا تھا، اس لیے مراد کئی صفیں ہیں۔- وَقَدْ اَفْلَحَ الْيَوْمَ مَنِ اسْتَعْلٰى : ” اسْتَعْلٰى“ ” عَلَا یَعْلُوْ “ سے استفعال ہے۔ زائد حروف مبالغے کے لیے ہیں، یعنی آج کے مقابلے کی اتنی اہمیت ہے کہ جس نے اس میں واضح اور نمایاں غلبہ حاصل کرلیا اس کا سکہ ہمیشہ کے لیے بیٹھ گیا اور جو اس میں رہ گیا پھر کبھی سر نہ اٹھا سکے گا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(فَاَجْمِعُوْا كَيْدَكُمْ ثُمَّ ائْتُوْا صَفًّا) صف بستہ ہونے کو مقابل پر رعب ڈالنے کا ایک خاص اثر ہوتا ہے اس لئے جادوگروں نے اپنی صف بندی کر کے مقابلہ کیا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَاَجْمِعُوْا كَيْدَكُمْ ثُمَّ ائْتُوْا صَفًّا۝ ٠ۚ وَقَدْ اَفْلَحَ الْيَوْمَ مَنِ اسْتَعْلٰى۝ ٦٤- جمع - الجَمْع : ضمّ الشیء بتقریب بعضه من بعض، يقال : جَمَعْتُهُ فَاجْتَمَعَ ، وقال عزّ وجل : وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة 9] ، وَجَمَعَ فَأَوْعى [ المعارج 18] ، جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة 2] ،- ( ج م ع ) الجمع ( ف )- کے معنی ہیں متفرق چیزوں کو ایک دوسرے کے قریب لاکر ملا دینا ۔ محاورہ ہے : ۔ چناچہ وہ اکٹھا ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة 9] اور سورج اور چاند جمع کردیئے جائیں گے ۔ ( مال ) جمع کیا اور بند رکھا ۔ جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة 2] مال جمع کرتا ہے اور اس کو گن گن کر رکھتا ہے - كيد - الْكَيْدُ : ضرب من الاحتیال، وقد يكون مذموما وممدوحا، وإن کان يستعمل في المذموم أكثر، وکذلک الاستدراج والمکر، ويكون بعض ذلک محمودا، قال : كَذلِكَ كِدْنا لِيُوسُفَ [يوسف 76]- ( ک ی د ) الکید - ( خفیہ تدبیر ) کے معنی ایک قسم کی حیلہ جوئی کے ہیں یہ اچھے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور برے معنوں میں بھی مگر عام طور پر برے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اسی طرح لفظ استد راج اور مکر بھی کبھی اچھے معنوں میں فرمایا : ۔ كَذلِكَ كِدْنا لِيُوسُفَ [يوسف 76] اسی طرح ہم نے یوسف کے لئے تدبیر کردی ۔ - صف - الصَّفُّ : أن تجعل الشیء علی خط مستو، کالناس والأشجار ونحو ذلك، وقد يجعل فيما قاله أبو عبیدة بمعنی الصَّافِّ «1» . قال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا[ الصف 4] ، ثُمَّ ائْتُوا صَفًّا [ طه 64] ، يحتمل أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الصَّافِّينَ ، وقال تعالی: وَإِنَّا لَنَحْنُ الصَّافُّونَ [ الصافات 165] ، وَالصَّافَّاتِ صَفًّا[ الصافات 1] ، يعني به الملائكة . وَجاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا [ الفجر 22] ، وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور 41] ، فَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْها صَوافَ [ الحج 36] ، أي : مُصْطَفَّةً ، وصَفَفْتُ كذا : جعلته علی صَفٍّ. قال : عَلى سُرُرٍ مَصْفُوفَةٍ [ الطور 20] ، وصَفَفْتُ اللّحمَ : قدّدته، وألقیته صفّا صفّا، والصَّفِيفُ : اللّحمُ المَصْفُوفُ ، والصَّفْصَفُ : المستوي من الأرض كأنه علی صفٍّ واحدٍ. قال : فَيَذَرُها قاعاً صَفْصَفاً لا تَرى فِيها عِوَجاً وَلا أَمْتاً- [ طه 106] ، والصُّفَّةُ من البنیان، وصُفَّةُ السَّرج تشبيها بها في الهيئة، والصَّفُوفُ :- ناقةٌ تُصَفُّ بين مَحْلَبَيْنِ فصاعدا لغزارتها، والتي تَصُفُّ رجلَيْها، والصَّفْصَافُ : شجرُ الخلاف .- ( ص ف ف ) الصف - ( ن ) کے اصل معنی کسی چیز کو خط مستوی پر کھڑا کرنا کے ہیں جیسے انسانوں کو ایک صف میں کھڑا کرنا یا ایک لائن میں درخت وغیرہ لگانا اور بقول ابوعبیدہ کبھی صف بمعنی صاف بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ آیات : ۔ نَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا[ الصف 4] جو لوگ خدا کی راہ میں ایسے طور پر ) پرے جما کر لڑتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بیشک محبوب کرو گار ہیں ۔ ثُمَّ ائْتُوا صَفًّا [ طه 64] پھر قطار باندھ کر آؤ ۔ وَجاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا [ الفجر 22] اور فرشتے قطار باندھ کر آموجود ہوں گے ۔ میں صفا مصدر بھی ہوسکتا ہے اور بمعنی صافین ( اسم فاعل ) بھی اور آیات : ۔ وَإِنَّا لَنَحْنُ الصَّافُّونَ [ الصافات 165] اور ہم صف باندھتے رہتے ہیں ۔ وَالصَّافَّاتِ صَفًّا[ الصافات 1] قسم ہے صف بستہ جماعتوں ن کی میں صافون اور صافات سے مراد فرشتے ہیں نیز فرمایا : ۔ وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور 41] اور پرند بازو پھیلائے ہوئے ۔ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْها صَوافَ [ الحج 36] تو ( قربانی کرنے کے وقت قطار میں کھڑے ہوئے اونٹوں پر خدا کا نام لو ۔ اور صففت کذا کے معنی کسیچیز کی صف لگانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ عَلى سُرُرٍ مَصْفُوفَةٍ [ الطور 20] صف میں لگائے تختوں پر ۔ صفقت اللحم کے معنی گوشت کے پار چوں کو بریاں کرنے کے لئے سیخ کشیدہ کرنے کے ہیں اور سیخ کشیدہکئے ہوئے پار چوں کو صفیف کہا جاتا ہے : ۔ الصفصف ہموار میدان گویا وہ ایک صف کی طرح ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَذَرُها قاعاً صَفْصَفاً لا تَرى فِيها عِوَجاً وَلا أَمْتاً [ طه 106] اور زمین کو ہموار میدان کر چھوڑے گا جس میں نہ تم کجی ( اور پستی ) دیکھو گے اور نہ ٹیلا ) اور نہ بلندی ۔ الصفۃ کے معنی سایہ دار چبوتر ہ یا بر آمدہ کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر زین کی گدی کو صفۃ السراج کہا جاتا ہے ۔ الصفوف وہ اونٹنی جو زیادہ دودھ دینے کی وجہ سے دو یا تین برتن بھرے یا وہ جو دودھ دوہنے کے وقت اپنی ٹانگوں کو ایک قطار میں رکھ کر کھڑی ہوجائے ۔ الصفصاف بید کا درخت ۔- فلح - الفَلْحُ : الشّقّ ، وقیل : الحدید بالحدید يُفْلَح أي : يشقّ. والفَلَّاحُ : الأكّار لذلک، والفَلَاحُ : الظَّفَرُ وإدراک بغية، وذلک ضربان :- دنیويّ وأخرويّ ، فالدّنيويّ : الظّفر بالسّعادات التي تطیب بها حياة الدّنيا، وهو البقاء والغنی والعزّ ، - ( ف ل ح ) الفلاح - کے معنی پھاڑ نا کے ہیں مثل مشہور ہے الحدید بالحدید یفلح لوہالو ہے کو کاٹتا ہے اس لئے فلاح کسان کو کہتے ہیں ۔ ( کیونکہ وہ زمین کو پھاڑتا ہے ) اور فلاح کے معنی کامیابی اور مطلب وری کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔ فلاح دنیوی ان سعادتوں کو حاصل کرلینے کا نام ہے جن سے دنیوی زندگی خوشگوار بنتی ہو یعنی بقاء لمال اور عزت و دولت ۔ - اسْتِعْلاءُ :- قد يكون طلب العلوّ المذموم، وقد يكون طلب العلاء، أي : الرّفعة، وقوله : وَقَدْ أَفْلَحَ الْيَوْمَ مَنِ اسْتَعْلى [ طه 64] ، يحتمل الأمرین جمیع - الاستعلاء ( استفعال ) کبھی یہ مذموم غلبہ کی طلب کے لئے آتا ہے اور کبھی اس کے معنی طلب رفعت کے ہوتے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَقَدْ أَفْلَحَ الْيَوْمَ مَنِ اسْتَعْلى[ طه 64] اور آج جو غالب رہا وہی کامیاب ہے ۔ میں دونوں معنی مراد ہوسکتے ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٤) لہذا اب تم مل کر اپنی تدبیر اور اپنے جادو اور اپنے علم کا انتظام کرو اور سب صفیں آراستہ کرکے مقابلہ کے لیے آؤ، آج وہی کامیاب ہوگا جو غالب ہوگا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦٤ (فَاَجْمِعُوْا کَیْدَکُمْ ثُمَّ اءْتُوْا صَفًّا ج) ” - تم لوگ اپنے تمام دستیاب مادی و فنی وسائل بروئے کار لاتے ہوئے موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہوجاؤ۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :38 یعنی ان کے مقابلے میں متحدہ محاذ پیش کرو ۔ اگر اس وقت تمہارے درمیان آپس ہی میں پھوٹ پڑ گئی اور عین مقابلے کے وقت مجمع عام کے سامنے یہ ہچکچاہٹ اور سرگوشیاں ہونے لگیں تو ابھی ہوا اکھڑ جائے گی اور لوگ سمجھ لیں گے کہ تم خود اپنے حق پر ہونے کا یقین نہیں رکھتے ، بلکہ دلوں میں چور لیے ہوئے مقابلے پر آئے ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani