بنی اسرائیل کی ہجرت اور فرعون کا تعاقب ۔ چونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس فرمان کو بھی فرعون نے ٹال دیا تھا کہ وہ بنی اسرائیل کو اپنی غلامی سے آزاد کر کے انہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سپرد کردے اس لئے جناب باری نے آپ کو حکم فرمایا کہ آپ راتوں رات ان کی بےخبری میں تمام بنی اسرائیل کوچپ چاپ لے کریہاں سے چلے جائیں جیسے کہ اس کا تفصیلی بیان قرآن کریم میں اور بہت سی جگہ پر ہوا ہے چنانچہ حسب ارشاد آپ نے بنی اسرائیل کو اپنے ساتھ لے کر یہاں ہجرت کی ۔ صبح جب فرعونی جاگے اور سارے شہر میں ایک بنی اسرائیل نہ دیکھا ۔ فرعون کو اطلاع دی وہ مارے غصے کے چکر کھا گیا اور ہر طرف منادی دوڑا دئیے کہ لشکرجمع ہوجائیں اور دانت پیس پیس کر کہنے لگا کہ اس مٹھی بھر جماعت نے ہمارے ناک میں دم کر رکھا ہے آج ان سب کو تہ تیغ کردوں گا ۔ سورج نکلتے ہی لشکر آ موجود ہوا اسی وقت خود سارے لشکرکو لے کر ان کے تعاقب میں روانہ ہو گیا ۔ بنی اسرائیل دریا کے کنارے پہنچے ہی تھے کہ فرعونی لشکر انہیں دکھائی دے گیا گھبرا کر اپنے نبی سے کہنے لگے لو حضرت اب کیا ہو گا سامنے دریا ہے پیچے فرعونی ہیں ۔ آپ نے جواب دیا گھبرانے کی بات نہیں میری مدد پر خود میرا رب ہے وہ ابھی مجھے راہ دکھا دے گا اسی وقت وحی الہی آئی کہ موسیٰ دریا پر اپنی لکڑی مار وہ ہٹ کر تمہیں راستہ دے دے گا ۔ چنانچہ آپ نے یہ کہ کر لکڑی ماری کے اے دریا بحکم الہی تو ہٹ جا اسی وقت اس کا پانی پتھر کی طرح ادھر اْدھر جم گیا اور بیچ میں راستے نمایاں ہو گئے ۔ ادھرادھر پانی مثل پہاڑوں کے کھڑا ہو گیا اور تیز اور خشک ہواؤں کے جھونکوں نے راستوں کو بالکل سوکھی زمین کے راستوں کی طرح کر دیا ۔ نہ تو فرعون کی پکڑ کا خوف رہا نہ دریا میں ڈوب جانے کا خطرہ رہا ۔ فرعون اور اس کے لشکری یہ حال دیکھ رہے تھے ۔ فرعون نے حکم دیا کہ انہی راستوں سے تم بھی پار ہو جاؤ ۔ چیختا کودتا مع تمام لشکر کے ان ہی راہوں میں اتر پڑا ان کے اترتے ہی پانی کو بہنے کا حکم ہوگیا اور چشم زون میں تمام فرعونی ڈبو دیئے گئے ۔ دریا کی موجوں نے انہیں چھپا لیا ۔ یہاں جو فرمایا کہ انہیں اس چیزنے ڈھانپ لیا جس نے ڈھانپ لیا یہ اس لئے کہ یہ مشہور ومعروف ہے ٫نام لینے کی ضرورت نہیں یعنی دریا کی موجوں نے اسی آیت ( وَالْمُؤْتَفِكَةَ اَهْوٰى فَغَشّٰـىهَا مَا غَشّٰى 54ۚ ) 53- النجم:54 ) ہے یعنی قوم لوط کی بستیوں کو بھی اسی نے دے پٹکا تھا ۔ پھر ان پر جو تباہی آئی سو آئی ۔ عرب کے اشعار میں بھی ایسی مثالیں موجود ہیں ۔ الغرض فرعون نے اپنی قوم کو بہکا دیا اور راہ راست انہیں نہ دکھائی جس طرح دنیا میں انہیں اس نے آگے بڑھ کر دریا برد کیا اسی طرح آگے ہو کر قیامت کے دن انہیں جہنم میں جا جھونکے گا جو بدترین جگہ ہے ۔
77۔ 1 جب فرعون ایمان بھی نہیں لایا اور بنی اسرائیل کو بھی آزاد کرنے پر آمادہ نہیں ہوا، تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ حکم دیا۔ 77۔ 2 اس کی تفصیل سورة الشعرا میں آئے گی کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم سے سمندر میں لاٹھی ماری، جس سے سمندر میں گزرنے کے لئے خشک راستہ بن گیا۔ 77۔ 3 خطرہ فرعون اور اس کے لشکر کا اور ڈر پانی میں ڈوبنے کا۔
وَلَقَدْ اَوْحَيْنَآ اِلٰى مُوْسٰٓى ڏ اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِيْ فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيْقًا فِي الْبَحْرِ يَبَسًا ۙ لَّا تَخٰفُ دَرَكًا وَّلَا تَخْشٰى ۔۔ : فرعون کے جادوگروں کے مقابلے میں ناکام ہونے اور ان کے ایمان قبول کرلینے کے بعد ایک لمبی مدت گزری، جس میں بنی اسرائیل پر ظلم کے کئی پہاڑ ٹوٹتے رہے، ساتھ ہی فرعون اور اس کی قوم پر قحط، طوفان، ٹڈی دل، جوؤں، مینڈکوں اور خون کی صورت میں معجزے کے طور پر کئی عذاب آئے، جن میں سے ہر عذاب آنے پر وہ لوگ اپنے ایمان لانے کا اور بنی اسرائیل کو آزادی دینے کا وعدہ کرتے مگر عذاب ٹل جانے پر صاف مکر جاتے۔ آخر میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو راتوں رات بنی اسرائیل کو ساتھ لے جانے کا حکم دیا۔ اس کا ذکر سورة اعراف (١٣٠ تا ١٣٥) میں تفصیل سے ہے۔ یہاں وہ ساری بات حذف کرکے فرعون کا انجام ذکر فرما دیا۔ اس لیے اس آیت کا عطف آیت (٥٦) (وَلَقَدْ اَرَيْنٰهُ اٰيٰتِنَا كُلَّهَا فَكَذَّبَ وَاَبٰى ) پر ہے کہ فرعون کے تمام آیات (نشانیوں) کو جھٹلانے اور انکار کا انجام کیا ہوا ؟ اس کا عطف موسیٰ (علیہ السلام) اور جادوگروں کے مقابلے کے واقعہ پر نہیں۔ (بقاعی)- اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِيْ ۔۔ : یہ قصہ تفصیل کے ساتھ سورة شعراء (٥٢ تا ٦٦) اور یونس (٩٠ تا ٩٢) میں مذکور ہے۔ یہاں ” فَاجْعَلْ لَہُمْ طَرِیْقًا “ (پس ان کے لیے راستہ بنا) کے بجائے ” فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيْقًا فِي الْبَحْرِ يَبَسًا “ (پس ان کے لیے سمندر میں ایک خشک راستہ مار) فرمایا، مقصود لمبی بات کو مختصر کرنا ہے، یعنی ” اِجْعَلْ لَھُمْ بِضَرْبِ الْبَحْرِ بِعَصَاکَ طَرِیْقًا “ (سمندر پر اپنی لاٹھی مارنے کے ساتھ ان کے لیے اس میں خشک راستہ بنا) ۔ گویا ” اِضْرِبْ “ میں ” اِجْعَلْ “ کا معنی سمو دیا ہے، اسے تضمین کہتے ہیں۔- لَّا تَخٰفُ دَرَكًا وَّلَا تَخْشٰى : ” وَّلَا تَخْشٰى“ کا مفعول ذکر نہیں فرمایا، تاکہ وہ عام رہے۔ معنی یہ ہوگا کہ نہ تو پکڑے جانے سے خوف کھائے گا اور نہ کسی بھی دوسری چیز سے ڈرے گا، مثلاً غرق ہونے، راستہ بھول جانے، بھوک پیاس سے ہلاک ہونے یا کسی اور دشمن کے حملے سے، غرض کسی بھی خطرے کا تجھے ڈر نہیں ہوگا۔ بعض مفسرین نے اس کا مفعول ” غَرْقًا “ محذوف مانا ہے، یعنی تو غرق ہونے سے نہیں ڈرے گا، مگر محذوف مفعول مقام کی مناسبت سے کوئی بھی ہوسکتا ہے، اس لیے اسے عام رکھنا بہتر ہے اور پھر اس میں غرق ہونا بھی آجاتا ہے۔
خلاصہ تفسیر - اور (جب فرعون اس پر بھی ایمان نہ لایا اور ایک عرصہ تک مختلف معاملات و واقعات ہوتے رہے اس وقت) ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس وحی بھیجی کہ ہمارے (ان) بندوں کو (یعنی بنی اسرائیل کو مصر سے) راتوں رات (باہر) لے جاؤ ( اور دور چلے جاؤ تاکہ فرعون کے ظلم و شدائد سے ان کو نجات ہو) پھر (راہ میں جو دریا ملے گا تو) ان کے لئے دریا میں (عصا مار کر) خشک راستہ بنادینا (یعنی عصا مارنا کہ اس سے خشک راستہ بن جاوے گا) نہ تو تم کو کسی کے تعاقب کا اندیشہ ہوگا (کیونکہ اہل تعاقب کامیاب نہ ہوں گے گو تعاقب کریں) اور نہ اور کسی قسم کا (مثلاً غرق وغیرہ کا) خوف ہوگا (بلکہ امن و اطمینان سے پار ہوجاؤ گے۔ چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) موافق حکم کے ان کو شباشب نکال لے گئے اور صبح مصر میں خبر مشہور ہوئی) پس فرعون اپنے لشکروں کو لے کر ان کے پیچھے چلا (اور بنی اسرائیل موافق وعدہ الہیہ کے دریا سے پار ہوگئے اور ہنوز وہ دریائی راستے اسی طرح اپنی حالت پر تھے جیسا دوسری آیت میں ہے واتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْوً آ اِنَّهُمْ جُنْدٌ مُّغْرَقُوْنَ ، فرعونیوں نے جلدی میں کچھ آگا پیچھا سوچا نہیں، ان رستوں پر ہو لئے، جب سب اندر آگئے) تو (اس وقت چاروں طرف سے) دریا (کا پانی سمٹ کر) ان پر جیسا ملنے کو تھا آ ملا ( اور سب غرق ہو کر رہ گئے) اور فرعون نے اپنی قوم کو بری راہ پر لگایا اور نیک راہ ان کو نہ بتلائی (جس کا اس کو دعویٰ تھا وَمَآ اَهْدِيْكُمْ اِلَّا سَبِيْلَ الرَّشَادِ ، اور بری راہ ہونا ظاہر ہے کہ دنیا کا بھی ضرر ہوا کہ سب ہلاک ہوئے اور آخرت کا بھی، کیونکہ جہنم میں گئے جیسا کہ آیت میں ہے اَدْخِلُوْٓا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ ، پھر بنی اسرائیل کو فرعون کے تعاقب اور غرق دریا سے نجات کے بعد اور نعمتیں عنایت ہوئیں مثلاً عطائے توراة اور من وسلوی ان نعمتوں کو عطا کر کے ہم نے بنی اسرائیل سے فرمایا کہ) اے بنی اسرائیل (دیکھو) ہم نے (تم کو کیسی کیسی نعمتیں دیں کہ) تم کو تمہارے (ایسے بڑے) دشمن سے نجات دی اور ہم نے تم سے (یعنی تمہارے پیغمبر سے تمہارے نفع کے واسطے) کوہ طور کی داہنی جانب آنے کا (اور وہاں آنے کے بعد توراة دینے کا) وعدہ کیا اور وادی تیہ میں) ہم نے تم پر من وسلوی نازل فرمایا ( اور اجازت دی کہ) ہم نے جو نفیس چیزیں (شرعاً بھی کہ خلال ہیں اور طبعاً بھی کہ لذیذ ہیں) تم کو دی ہیں ان کو کھاؤ اور اس (کھانے) میں حد (شرعی) سے مت گزرو (مثلاً یہ کہ حرام سے حاصل کیا جاوے، کذا فی الدریا کھا کر معصیت کی جاوے) کہیں میرا غضب تم پر واقع ہوجائے اور جس شخص پر میرا غضب واقع ہوتا ہے وہ بالکل گیا گزرا ہوا اور (نیز اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ) میں ایسے لوگوں کے لئے بڑا بخشنے والا بھی ہوں جو (کفر و معصیت سے) توبہ کرلیں اور ایمان لے آویں اور نیک عمل کریں پھر (اسی راہ) پر قائم (بھی) رہیں (یعنی ایمان و عمل صالح پر مداومت کریں یہ مضمون ہم نے بنی اسرائیل سے کہا تھا کہ تذکیر نعمت اور امر بالشکر و نہی عن المعصیت اور وعد وعید یہ خود بھی دینی نعمت ہے۔- معارف و مسائل - اَوْحَيْنَآ اِلٰى مُوْسٰٓى، حق و باطل معجزہ اور جادو کے فیصلہ کن معرکہ نے فرعون اور آل فرعون کی کمر توڑی دی اور بنی اسرائیل حضرت موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) کی قیادت میں جمع ہوگئے تو اب ان کو یہاں سے ہجرت کا حکم ملتا ہے اور چونکہ فرعون کے تعاقب اور آگے دریا کے راستہ میں حائل ہونے کا خطرہ سامنے تھا اس لئے دونوں چیزوں سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو مطمئن کردیا گیا کہ دریا پر اپنی لاٹھی ماریں گے تو درمیان سے خشک راستے نکل آئیں گے اور پیچھے سے فرعون کے تعاقب کا خطرہ نہ رہے گا جس کا تفصیلی واقعہ حدیث الفتون کے تحت میں اسی سورة میں گزر چکا ہے۔- حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دریا پر لاٹھی ماری تو اس میں بارہ سڑکیں اس طرح بن گئیں کہ پانی کے تودے بحر منجمد کی طرح دونوں طرف پہاڑ کی برابر کھڑے رہے اور درمیان سے راستے خشک نکل آئے جیسا کہ سورة شعراء میں ہے فَكَانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيْمِ ، اور درمیان میں جو یہ پانی کی دیواریں ان بارہ سڑکوں کے درمیان تھیں ان کو قدرت نے ایسا بنادیا کہ ایک سڑک سے گزرنے والے دوسری سڑکوں سے گزرنے والوں کو دیکھتے بھی جاتے تھے اور باہم باتیں بھی کر رہے تھے تاکہ ان کے دلوں میں یہ خوف و ہراس بھی نہ رہے کہ ہمارے دوسرے قبیلوں کا کیا حال ہوا (قرطبی) - مصر سے نکلنے کے وقت بنی اسرائیل کے بعض حالات اور ان کی تعداد اور لشکر فرعون کی تعداد :- تفسیر روح المعانی میں یہ روایت ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) شروع رات میں بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر مصر سے دریائے قلزم کی طرف نکلے۔ بنی اسرائیل نے اس سے پہلے شہر کے لوگوں میں یہ شہرت دے دیتھی کہ ہماری عید ہے ہم عید منانے کے لئے باہر جائیں گے اور اس بہانے سے قبطی لوگوں سے کچھ زیورات عاریۃً مانگ لئے کہ عید سے آ کر واپس کردیں گے۔ بنی اسرائیل کی تعداد اس وقت چھ لاکھ تین ہزار اور دوسری روایت میں چھ لاکھ ستر ہزار تھی (یہ اسرائیلی روایات ہیں جن میں مبالغہ ہوسکتا ہے لیکن اتنی بات قرآن کریم کے اشارات اور روایات حدیث سے ثابت ہے کہ ان کے بارہ قبیلے تھے اور ہر قبیلے کی بہت بڑی تعداد تھی۔ یہ بھی قدرت حق تعالیٰ کا ایک عظیم مشاہدہ تھا کہ جب یہ حضرات یوسف (علیہ السلام) کے زمانے میں مصر آئے تو بارہ بھائی تھے، اب بارہ بھائیوں کے بارہ قبیلوں کی اتنی عظیم الشان تعداد مصر سے نکلی جو چھ لاکھ سے زائد بتلائی جاتی ہے۔ فرعون کو جب ان کے نکل جانے کی اطلاع ملی تو اپنی فوجیں جمع کیں جن میں ستر ہزار سیاہ گھوڑے تھے اور لشکر کے مقدمہ میں سات لاکھ سوار تھے۔ جب پیچھے سے اس فوجی سیلاب کو اور آگے دریائے قلزم کو بنی اسرائیل نے دیکھا تو گھبرا اٹھے اور موسیٰ (علیہ السلام) سے فریاد کی اِنَّا لَمُدْرَكُوْنَ کہ ہم تو پکڑ لئے گئے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے تسلی دی کہ اِنَّ مَعِيَ رَبِّيْ سَيَهْدِيْنِ کہ میرے ساتھ میرا رب ہے وہ مجھے راستہ دے گا، پھر بحکم ربانی دریا پر لاٹھی ماری اور اس میں بارہ سڑکیں خشک نکل آئیں۔ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے ان سے گزر گئے۔ جس وقت فرعون اور اس کا لشکر یہاں پہنچا تو لشکر فرعون یہ حیرت انگیز منظر دیکھ کر سہم گیا کہ ان کے لئے دریا میں کس طرح راستے بن گئے مگر فرعون نے ان کو کہا کہ یہ سب کرشمہ میری ہیبت کا ہے جس سے دریا کی روانگی رک کر راستے بن گئے ہیں یہ کہہ کر فوراً آگے بڑھ کر اپنا گھوڑا دریا کے اس راستہ میں ڈال دیا اور سب لشکر کو پیچھے آنے کا حکم دیا۔ جس وقت فرعون مع اپنے تمام لشکر کے ان دریائی راستوں کے اندر سما چکے اسی وقت حق تعالیٰ نے دریا کو روانی کا حکم دے دیا اور دریا کے سب حصے مل گئے فَغَشِيَهُمْ مِّنَ الْيَمِّ مَا غَشِيَهُمْ کا یہی حاصل ہے (روح المعانی)
وَلَقَدْ اَوْحَيْنَآ اِلٰى مُوْسٰٓى ٠ۥۙ اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِيْ فَاضْرِبْ لَہُمْ طَرِيْقًا فِي الْبَحْرِ يَبَسًا ٠ۙ لَّا تَخٰفُ دَرَكًا وَّلَا تَخْشٰى ٧٧- وحی - أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی،- ( و ح ی ) الوحی - کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔- اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے - سری - السُّرَى: سير اللّيل، يقال : سَرَى وأَسْرَى. قال تعالی: فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ [هود 81] ، وقال تعالی: سُبْحانَ الَّذِي أَسْرى بِعَبْدِهِ لَيْلًا [ الإسراء 1] 232-- بسرو حمیر أبوال البغال به - «1» فأسری نحو أجبل وأتهم، وقوله تعالی:- سُبْحانَ الَّذِي أَسْرى بِعَبْدِهِ- [ الإسراء 1] ، أي : ذهب به في سراة من الأرض، وسَرَاةُ كلّ شيء : أعلاه، ومنه : سَرَاةُ النهار، أي : ارتفاعه، وقوله تعالی: قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيًّا[ مریم 24] أي : نهرا يسري «2» ، وقیل : بل ذلک من السّرو، أي : الرّفعة . يقال، رجل سَرْوٌ. قال : وأشار بذلک إلى عيسى عليه السلام وما خصّه به من سروه، يقال : سَرَوْتُ الثوبَ عنّي، أي : نزعته، وسَرَوْتُ الجُلَّ عن الفرس «3» ، وقیل : ومنه : رجل سَرِيٌّ ، كأنه سَرَى ثوبه بخلاف المتدثّر، والمتزمّل، والزّمّيل «4» ، وقوله : وأَسَرُّوهُ بِضاعَةً [يوسف 19] ، أي : خمّنوا في أنفسهم أن يحصّلوا من بيعه بضاعة، والسَّارِيَةُ يقال للقوم الذین يَسْرُونَ باللیل، وللسّحابة التي تسري، وللأسطوانة .- ( س ر ی و ) السریٰ- کے معنی رات کو سفر کرنے کے ہیں اور اس معنی میں سریٰ ( ض ) واسریٰ ( افعال ) دونوں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ [هود 81] تو کچھ رات رہے سے اپنے گھر والوں کو لے کر چل دو ۔ سُبْحانَ الَّذِي أَسْرى بِعَبْدِهِ لَيْلًا [ الإسراء 1] ( وہ ذات ) پاک ) ہے جو ایک رات اپنے بندے کو لے گیا ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ اسریٰ ( باب افعال ) سریٰ یسری سے نہیں ہے ۔ جس کے معنی رات کو سفر کرنے کے ہیں بلکہ یہ سراۃ سے مشتق ہے جس کے معنی کشادہ زمین کے ہیں ۔ اور اصل میں اس کے لام کلمہ میں واو ہے اور اسی سے شاعر نے کہا ہے ۔ ( البسیط ) بسرو حمیر أبوال البغال بهحمیر کی کشادہ زمین میں جہاں خچروں کا پیشاب یعنی کہ سراب نظر آتے ہیں ۔ پس اسری کے معنی کشادہ زمین چلے جانا ہیں ۔ جیسے اجبل کے معنی ہیں وہ پہاڑ پر چلا گیا اور اتھم کے معنی ، وہ تہامہ میں چلا گیا ۔ لہذا آیت ؛۔ سُبْحانَ الَّذِي أَسْرى بِعَبْدِهِ [ الإسراء 1] کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو وسیع اور کشادہ سر زمین میں لے گیا ۔ نیز سراۃ ہر چیز کے افضل اور اعلیٰ حصہ کو بھی کہتے ہیں ۔ اسی سے سراۃ النھار ہے جس کے معنی دن کی بلندی کے ہیں ۔ اور آیت : قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيًّا [ مریم 24] تمہارے پروردگار نے تمہارے سے نیچے ایک چشمہ پیدا کردیا ہے میں سری سے نہر جاری مراد ہے بعض نے کہا ہے کہ یہ سرو سے مشتق ہے جس کے معنی رفعت کے ہیں اور بلند قدر آدمی کو رجل سرو ۔ کہا جاتا ہے تو لفظ سری سے عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے اس شرف کی طرف اشارہ ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے انہیں خاص طور پر نوازا تھا ۔ محاورہ ہے : سَرَوْتُ الثوبَ عنّي : میں نے اپنے اوپر سے کپڑا اتار دیا ۔ وسَرَوْتُ الجُلَّ عن الفرس : میں گھوڑے سے جھول اتار دیا ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسی سے رجل سری ۔ ہے کیونکہ بلند قدر آدمی ہوشیار رہتا ہے گویا وہ کپڑے اتارے ہوئے ہے اسکے برعکس کاہل سست اور ناتوان آدمی کو متدثر متزمل اور زمیل وغیرہ کہا جاتا ہے گویا وہ اپنے کپڑوں میں لپٹا پڑا ہے اور الساریۃ اس جماعت کو کہتے ہیں جو رات کو سفر کرتی ہو اور اس کے معنی رات کے بادل اور ستون بھی آتے ہیں ۔- عبد - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - ضرب - الضَّرْبُ : إيقاعُ شيءٍ علی شيء، ولتصوّر اختلاف الضّرب خولف بين تفاسیرها، كَضَرْبِ الشیءِ بالید، والعصا، والسّيف ونحوها، قال : فَاضْرِبُوا فَوْقَ الْأَعْناقِ وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ كُلَّ بَنانٍ- [ الأنفال 12] ، فَضَرْبَ الرِّقابِ [ محمد 4] ، فَقُلْنا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِها[ البقرة 73] ، أَنِ اضْرِبْ بِعَصاكَ الْحَجَرَ [ الأعراف 160] ، فَراغَ عَلَيْهِمْ ضَرْباً بِالْيَمِينِ [ الصافات 93] ، يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ [ محمد 27] ، وضَرْبُ الأرضِ بالمطر، وضَرْبُ الدّراهمِ ، اعتبارا بِضَرْبِ المطرقةِ ، وقیل له : الطّبع، اعتبارا بتأثير السّمة فيه، وبذلک شبّه السّجيّة، وقیل لها : الضَّرِيبَةُ والطَّبِيعَةُ. والضَّرْبُ في الأَرْضِ : الذّهاب فيها وضَرْبُهَا بالأرجلِ. قال تعالی: وَإِذا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ [ النساء 101] ، وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ إِذا ضَرَبُوا فِي الْأَرْضِ [ آل عمران 156] ، وقال : لا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْباً فِي الْأَرْضِ [ البقرة 273] ، ومنه : فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ- [ طه 77] ، وضَرَبَ الفحلُ الناقةَ تشبيها بالضَّرْبِ بالمطرقة، کقولک : طَرَقَهَا، تشبيها بالطّرق بالمطرقة، وضَرَبَ الخیمةَ بضرب أوتادها بالمطرقة، وتشبيها بالخیمة قال : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ [ آل عمران 112] ، أي : التحفتهم الذّلّة التحاف الخیمة بمن ضُرِبَتْ عليه، وعلی هذا : وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ [ آل عمران 112] ، ومنه استعیر : فَضَرَبْنا عَلَى آذانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَداً [ الكهف 11] ، وقوله : فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ [ الحدید 13] ، وضَرْبُ العودِ ، والناي، والبوق يكون بالأنفاس، وضَرْبُ اللَّبِنِ بعضِهِ علی بعض بالخلط، وضَرْبُ المَثلِ هو من ضَرْبِ الدّراهمِ ، وهو ذکر شيء أثره يظهر في غيره . قال تعالی: ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر 29] ، وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف 32] ، ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم 28] ، وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم 58] ، وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا - [ الزخرف 57] ، ما ضَرَبُوهُ لَكَ إِلَّا جَدَلًا[ الزخرف 58] ، وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلَ الْحَياةِ الدُّنْيا - [ الكهف 45] ، أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحاً [ الزخرف 5] .- والمُضَارَبَةُ : ضَرْبٌ من الشَّرِكَةِ. والمُضَرَّبَةُ :- ما أُكْثِرَ ضربُهُ بالخیاطة . والتَّضْرِيبُ : التّحریضُ ، كأنه حثّ علی الضَّرْبِ الذي هو بعد في الأرض، والاضْطِرَابُ : كثرةُ الذّهاب في الجهات من الضّرب في الأرض، واسْتِضَرابُ الناقةِ : استدعاء ضرب الفحل إيّاها .- ( ض ر ب ) الضرب - کے معنی ایک چیز کو دوسری چیز پر واقع کرنا یعنی مارنا کے ہیں اور مختلف اعتبارات سے یہ لفظ بہت سے معانی میں استعمال ہوتا ہے (1) ہاتھ لاٹھی تلوار وغیرہ سے مارنا ۔ قرآن میں ہے : فَاضْرِبُوا فَوْقَ الْأَعْناقِ وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ كُلَّ بَنانٍ [ الأنفال 12] ان کے سر مارکراڑا دو اور ان کا پور پور مارکر توڑدو ۔ فَضَرْبَ الرِّقابِ [ محمد 4] تو انکی گردنین اڑا دو ۔ فَقُلْنا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِها[ البقرة 73] تو ہم نے کہا کہ اس بیل کا سا ٹکڑا مقتول کو مارو أَنِ اضْرِبْ بِعَصاكَ الْحَجَرَ [ الأعراف 160] اپنی لاٹھی پتھر پر مارو ۔ فَراغَ عَلَيْهِمْ ضَرْباً بِالْيَمِينِ [ الصافات 93] پھر ان کو داہنے ہاتھ سے مارنا اور توڑنا شروع کیا ۔ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ [ محمد 27] ان کے مونہوں ۔۔۔۔ پر مارتے ہیں ۔ اور ضرب الارض بالمطر کے معنی بارش پر سنے کے ہیں ۔ اور ضرب الدراھم ( دراہم کو ڈھالنا ) کا محاورہ الضرب بالمطرقۃ کی مناسبت سے استعمال ہوتا ہے ۔ اور نکسال کے سکہ میں اثر کرنے کے مناسبت سے طبع الدرھم کہاجاتا ہے اور تشبیہ کے طور پر انسان کی عادت کو ضریبۃ اور طبیعۃ بھی کہہ دیتے ہیں ۔ ضرب فی الارض کے معنی سفر کرنے کے ہیں ۔ کیونکہ انسان پیدل چلتے وقت زمین پر پاؤں رکھتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَإِذا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ [ النساء 101] اور جب سفر کو جاؤ ۔ وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ إِذا ضَرَبُوا فِي الْأَرْضِ [ آل عمران 156] اور ان کے مسلمان بھائی جب خدا کی راہ میں سفر کریں ۔۔۔۔ تو ان کی نسبت کہتے ہیں ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْباً فِي الْأَرْضِ [ البقرة 273] اور ملک میں کسی طرف جانے کی طاقت نہیں رکھتے ۔ اور یہی معنی آیت : فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ [ طه 77] کے ہیں یعنی انہیں سمندر میں ( خشک راستے سے لے جاؤ ۔ ضرب الفحل ناقۃ ( نرکا مادہ سے جفتی کرنا ) یہ محاورہ ضرب بالمطرقۃ ( ہتھوڑے سے کوٹنا) کی مناسبت سے طرق الفحل الناقۃ کا محاورہ بولا جاتا ہے ۔ ضرب الخیمۃ خیمہ لگانا کیونکہ خیمہ لگانے کیلئے میخوں کو زمین میں ہتھوڑے سے ٹھونکاجاتا ہے اور خیمہ کی مناسبت سے آیت : ۔ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ [ آل عمران 112] اور آخر کار ذلت ۔۔۔۔۔۔ ان سے چمٹا دی گئی۔ میں ذلۃ کے متعلق ضرب کا لفظاستعمال ہوا ہے جس کے معنی کہ ذلت نے انہیں اس طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا جیسا کہ کیس شخص پر خیمہ لگا ہوا ہوتا ہے اور یہی معنی آیت : ۔ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ [ آل عمران 112] اور ناداری ان سے لپٹ رہی ہے ۔ کے ہیں اور آیت : ۔ فَضَرَبْنا عَلَى آذانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَداً [ الكهف 11] تو ہم نے غارکئی سال تک ان کے کانوں پر نیند کا پردہ ڈالے ( یعنی ان کو سلائے ) رکھا ۔ نیز آیت کر یمہ : ۔ فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ [ الحدید 13] پھر ان کے بیچ میں ایک دیوار کھڑی کردی جائیگی ۔ میں ضرب کا لفظ ضرب الخیمۃ کے محاورہ سے مستعار ہے ۔ ضرب العود والنای والبوق عود اور نے بجان یا نر سنگھے میں پھونکنا ۔ ضرب اللبن : اینٹیں چننا، ایک اینٹ کو دوسری پر لگانا ضرب المثل کا محاورہ ضرب الدراھم ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں : کسی بات کو اس طرح بیان کرنا کہ اس سے دوسری بات کی وضاحت ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر 29] خدا ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف 32] اور ان سے ۔۔۔۔۔۔۔ قصہ بیان کرو ۔ ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم 28] وہ تمہارے لئے تمہارے ہی حال کی ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم 58] اور ہم نے ۔۔۔۔۔۔۔ ہر طرح مثال بیان کردی ہے ۔ وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا[ الزخرف 57] اور جب مریم (علیہ السلام) کے بیٹے ( عیسٰی کا حال بیان کیا گیا ۔ ما ضَرَبُوهُ لَكَ إِلَّا جَدَلًا[ الزخرف 58] انہوں نے عیسٰی کی جو مثال بیان کی ہے تو صرف جھگڑنے کو وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلَ الْحَياةِ الدُّنْيا[ الكهف 45] اور ان سے دنیا کی زندگی کی مثال بھی بیان کردو ۔ أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحاً [ الزخرف 5] بھلا ( اس لئے کہ تم حد سے نکلے ہوے لوگ ہو ) ہم تم کو نصیحت کرنے سے باز رہیں گے ۔ المضاربۃ ایک قسم کی تجارتی شرکت ( جس میں ایک شخص کا سرمایہ اور دوسرے کی محنت ہوتی ہے اور نفع میں دونوں شریک ہوتے ہیں ) المضربۃ ( دلائی رضائی ) جس پر بہت سی سلائی کی گئی ہو ۔ التضریب اکسانا گویا اسے زمین میں سفر کی ترغیب دی جاتی ہے ۔ الا ضطراب کثرت سے آنا جانا حرکت کرنا یہ معنی ضرب الارض سے ماخوذ ہیں ۔ استضرب الناقۃ سانڈھے نے ناقہ پر جفتی کھانے کی خواہش کی ۔- طرق - الطَّرِيقُ : السّبيل الذي يُطْرَقُ بالأَرْجُلِ ، أي يضرب . قال تعالی: طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ- [ طه 77] ، وعنه استعیر کلّ مسلک يسلكه الإنسان في فِعْلٍ ، محمودا کان أو مذموما . قال :- وَيَذْهَبا بِطَرِيقَتِكُمُ الْمُثْلى[ طه 63] ، وقیل : طَرِيقَةٌ من النّخل، تشبيها بالطَّرِيقِ في الامتداد، والطَّرْقُ في الأصل : کا لضَّرْبِ ، إلا أنّه أخصّ ، لأنّه ضَرْبُ تَوَقُّعٍ كَطَرْقِ الحدیدِ بالمِطْرَقَةِ ، ويُتَوَسَّعُ فيه تَوَسُّعَهُم في الضّرب، وعنه استعیر : طَرْقُ الحَصَى للتَّكَهُّنِ ، وطَرْقُ الدّوابِّ الماءَ بالأرجل حتی تكدّره، حتی سمّي الماء الدّنق طَرْقاً «2» ، وطَارَقْتُ النّعلَ ، وطَرَقْتُهَا، وتشبيها بِطَرْقِ النّعلِ في الهيئة، قيل : طَارَقَ بين الدِّرْعَيْنِ ، وطَرْقُ الخوافي «3» : أن يركب بعضها بعضا، والطَّارِقُ : السالک للطَّرِيقِ ، لکن خصّ في التّعارف بالآتي ليلا، فقیل : طَرَقَ أهلَهُ طُرُوقاً ، وعبّر عن النّجم بالطَّارِقِ لاختصاص ظهوره باللّيل . قال تعالی: وَالسَّماءِ وَالطَّارِقِ- [ الطارق 1] ، قال الشاعر :- 299 ۔ نحن بنات طَارِقٍ«4» وعن الحوادث التي تأتي ليلا بالطَّوَارِقِ ، وطُرِقَ فلانٌ: قُصِدَ ليلًا . قال الشاعر :۔ كأنّي أنا المَطْرُوقُ دونک بالّذي ... طُرِقْتَ به دوني وعیني تهمل - «5» وباعتبار الضّرب قيل : طَرَقَ الفحلُ النّاقةَ ، وأَطْرَقْتُهَا، واسْتَطْرَقْتُ فلاناً فحلًا، کقولک :- ضربها الفحل، وأضربتها، واستضربته فحلا .- ويقال للنّاقة : طَرُوقَةٌ ، وكنّي بالطَّرُوقَةِ عن المرأة .- وأَطْرَقَ فلانٌ: أغضی، كأنه صار عينه طَارِقاً للأرض، أي : ضاربا له کا لضّرب بالمِطْرَقَةِ ،- وباعتبارِ الطَّرِيقِ ، قيل : جاءت الإبلُ مَطَارِيقَ ، أي : جاءت علی طَرِيقٍ واحدٍ ، وتَطَرَّقَ إلى كذا نحو توسّل، وطَرَّقْتُ له : جعلت له طَرِيقاً ، وجمعُ الطَّرِيقِ طُرُقٌ ، وجمعُ طَرِيقَةٍ طرَائِقُ. قال تعالی:- كُنَّا طَرائِقَ قِدَداً [ الجن 11] ، إشارة إلى اختلافهم في درجاتهم، کقوله : هُمْ دَرَجاتٌ عِنْدَ اللَّهِ [ آل عمران 163] ، وأطباق السّماء يقال لها : طَرَائِقُ. قال اللہ تعالی: وَلَقَدْ خَلَقْنا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرائِقَ [ المؤمنون 17] ، ورجلٌ مَطْرُوقٌ: فيه لين واسترخاء، من قولهم : هو مَطْرُوقٌ ، أي : أصابته حادثةٌ لَيَّنَتْهُ ، أو لأنّه مضروب، کقولک : مقروع، أو مدوخ، أو لقولهم : ناقة مَطْرُوقَةٌ تشبيها بها في الذِّلَّةِ.- ( ط رق ) الطریق - کے معنی راستہ ہیں جس پر چلا جاتا ہے ۔ قرآں میں ہے ؛طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ [ طه 77] پھر ان کے لئے دریا میں راستہ بناؤ ۔ اسی سے بطور استعارہ ہر اس مسلک اور مذہب کو طریق کہاجاتا ہے جو انسان کوئی کام کرنے کے لئے اختیار کرتا ہے اس سے کہ وہ قتل محمود ہو یا مذموم ۔ قرآن میں ہے : وَيَذْهَبا بِطَرِيقَتِكُمُ الْمُثْلى[ طه 63] اور تمہارے بہتر مذہب کو نابود کردیں ۔ اور امتداد میں راستہ کے ساتھ تشبیہ دے کر کھجور کے لمبے درخت کو بھی طریقۃ کہہ دیتے ہیں ۔ الطرق کے اصل معنی مارنے کے ہیں مگر یہ ضرب سے زیادہ خاص ہے ۔ کیونکہ طرق کا لفظ چٹاخ سے مارنے پر بولا جاتا ہے جیسے ہتھوڑے سے لوہے کو کوٹنا بعد ازاں ضرب کی طرح طرق کے لفظ میں بھی وسعت پیدا ہوگئی چناچہ بطور استعارہ کہاجاتا ہے ۔ طرق الحصی ٰ کا ہن کا اپنی کہانت کے لئے کنکر مارنا طرق الدواب چوپائے جانورون کا پانی میں داخل ہوکر اسے پاؤں سے گدلا کردینا ۔ طارقت النعل وطرق تھا میں نے جوتے ایک پر تلہ پر دوسرا رکھ کر اسے سی دیا ۔ پھر طرق النعل کی مناسبت سے طارق بین الدرعین کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی ایک زرہ کے اوپر دوسری زرہ پہننا کے ہیں ۔ طرق الخوارج پرند کے اندورنی پروں کا تہ برتہ ہونا اور الطارق کے معنی ہیں راستہ پر چلنے والا ۔ مگر عرف میں بالخصوص اس مسافر کو کہتے ہیں جو رات میں آئے چناچہ طرق اھلہ طروقا کے معنی ہیں وہ رات کو آیا اور النجم ستارے کو بھی الطارق کہاجاتا ہے کیونکہ وہ بالخصوص رات کو ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَالسَّماءِ وَالطَّارِقِ [ الطارق 1] آسمان اور رات کو آنے والے کی قسم ۔ شاعر نے کہاے ُ ۔ ( الرجز) (291) نحن بنات طارق ہم طارق یعنی سردار کی بیٹیاں ہیں ۔ طوارق اللیل وہ مصائب جو رات کو نازل ہوں ۔ طرق فلان رات میں صدمہ پہنچا ۔ شاعرنے کہا ہے ( الطویل ) (292) کانی انا المطروق دونک بالذی طرقت بہ دونی وعینی تھمل میں اس طرح بےچین ہوتا ہوں کہ وہ مصیبت جو رات کو تجھ پر آتی ہے مجھے پہنچ رہی ہے ۔ اور میری آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہوتے ہیں ۔ اور معنی ضرف یعنی مجفتی کرنے کے اعتبار سے کہاجاتا ہے ۔ صرق الفحل الناقۃ ( اونٹ کا ناقہ سے جفتی کرنا ) اطرق تھا میں نے سانڈہ کو اونٹنی پر چھوڑا۔ استطرقت فلانا الفحل : میں نے فلاں سے جفتی کے لئے سانڈھ طلب کیا اور یہ محاورات ضربھا الفحل واضرب تھا واستضربتہ کی طرح استعمال ہوتے ہیں اور اس ناقہ کو جو گابھن ہونے کے قابل ہوجائے اسے طروقۃ کہاجاتا ہے اور بطور کنایہ طروقۃ بمعنی عورت بھی آجاتا ہے ۔ اطرق فلان فلاں نے نگاہیں نیچی کرلیں ۔ گویا اس کی نگاہ زمین کو مارنے لگی جیسا کہ مطرقۃ ( ہتھوڑے ) سے کو ٹا جاتا ہے اور طریق بمعنی راستہ کی مناسبت سے جاءت الابل مطاریق کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی اونٹ ایک ہی راستہ سے آئے اور تطرقالیٰ کذا کے معنی ہیں : کسی چیز کی طرف رستہ بنانا طرقت لہ کسی کے لئے راستہ ہموار کرنا ۔ الطریق کی جمع طرق آتی ہے اور طریقۃ کی جمع طرائق ۔ چناچہ آیت کریمہ : كُنَّا طَرائِقَ قِدَداً [ الجن 11] کے معنی یہ ہیں کہ ہم مختلف مسلک رکھتے تھے اور یہ آیت کریمہ : هُمْ دَرَجاتٌ عِنْدَ اللَّهِ [ آل عمران 163] ان لوگوں کے خدا کے ہاں ( مختلف اور متقارب ) درجے ہیں ۔ کی مثل ہے یعنی جیسا کہ یہاں دربات سے مراد اصحاب الدرجات ہیں اسی طرح طرئق سے اصحاب طرائق مراد ہیں ) اور آسمان کے طبقات کو بھی طرائق کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَلَقَدْ خَلَقْنا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرائِقَ [ المؤمنون 17] ہم نے تمہارے اوپر کی جانب سات طبقے پیدا کئے ) رجل مطروق نرم اور سست آدمی پر ھو مطروق کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی مصیبت زدہ کے ہیں یعنی مصائب نے اسے کمزور کردیا جیسا کہ مصیبت زدہ آدمی کو مقروع یا مدوخکہاجاتا ہے یا یہ ناقۃ مطروقۃ کے محاورہ سے ماخوذ ہے اور یہ ذلت میں اونٹنی کیساتھ تشبیہ دیکر بولا جاتا ہے ۔- بحر - أصل البَحْر : كل مکان واسع جامع للماء الکثير، هذا هو الأصل، ثم اعتبر تارة سعته - المعاینة، فيقال : بَحَرْتُ كذا : أوسعته سعة البحر، تشبيها به، ومنه : بَحرْتُ البعیر : شققت أذنه شقا واسعا، ومنه سمیت البَحِيرَة . قال تعالی: ما جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ [ المائدة 103] ، وذلک ما کانوا يجعلونه بالناقة إذا ولدت عشرة أبطن شقوا أذنها فيسيبونها، فلا ترکب ولا يحمل عليها، وسموا کلّ متوسّع في شيء بَحْراً ، حتی قالوا : فرس بحر، باعتبار سعة جريه، وقال عليه الصلاة والسلام في فرس ركبه : «وجدته بحرا» «1» وللمتوسع في علمه بحر، وقد تَبَحَّرَ أي : توسع في كذا، والتَبَحُّرُ في العلم : التوسع واعتبر من البحر تارة ملوحته فقیل : ماء بَحْرَانِي، أي : ملح، وقد أَبْحَرَ الماء . قال الشاعر :- 39-- قد عاد ماء الأرض بحرا فزادني ... إلى مرضي أن أبحر المشرب العذب - «2» وقال بعضهم : البَحْرُ يقال في الأصل للماء الملح دون العذب «3» ، وقوله تعالی: مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان 53] إنما سمي العذب بحرا لکونه مع الملح، كما يقال للشمس والقمر : قمران، وقیل السحاب الذي كثر ماؤه : بنات بحر «4» . وقوله تعالی: ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ- [ الروم 41] قيل : أراد في البوادي والأرياف لا فيما بين الماء، وقولهم : لقیته صحرة بحرة، أي : ظاهرا حيث لا بناء يستره .- ( ب ح ر) البحر - ( سمندر ) اصل میں اس وسیع مقام کو کہتے ہیں جہاں کثرت سے پانی جمع ہو پھر کبھی اس کی ظاہری وسعت کے اعتبار سے بطور تشبیہ بحرت کذا کا محارہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی سمندر کی طرح کسی چیز کو وسیع کردینا کے ہیں اسی سے بحرت البعیر ہے یعنی میں نے بہت زیادہ اونٹ کے کان کو چیز ڈالا یا پھاڑ دیا اور اس طرح کان چر ہے ہوئے اونٹ کو البحیرۃ کہا جا تا ہے قرآن میں ہے ما جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ [ المائدة 103] یعنی للہ تعالیٰ نے بحیرہ جانور کا حکم نہیں دیا کفار کی عادت تھی کہ جو اونٹنی دس بچے جن چکتی تو اس کا کان پھاڑ کر بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے نہ اس پر سواری کرتے اور نہ بوجھ لادیتے ۔ اور جس کو کسی صنعت میں وسعت حاصل ہوجائے اسے بحر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ بہت زیادہ دوڑ نے والے گھوڑے کو بحر کہہ دیا جاتا ہے ۔ آنحضرت نے ایک گھوڑے پر سواری کے بعد فرمایا : ( 26 ) وجدتہ بحرا کہ میں نے اسے سمندر پایا ۔ اسی طرح وسعت علمی کے اعتبار سے بھی بحر کہہ دیا جاتا ہے اور تبحر فی کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں چیز میں بہت وسعت حاصل کرلی اور البتحرفی العلم علم میں وسعت حاصل کرنا ۔ اور کبھی سمندر کی ملوحت اور نمکین کے اعتبار سے کھاری اور کڑوے پانی کو بحر انی کہد یتے ہیں ۔ ابحرالماء ۔ پانی کڑھا ہوگیا ۔ شاعر نے کہا ہے : ( 39 ) قدعا دماء الا رض بحر فزادنی الی مرض ان ابحر المشراب العذاب زمین کا پانی کڑوا ہوگیا تو شریں گھاٹ کے تلخ ہونے سے میرے مرض میں اضافہ کردیا اور آیت کریمہ : مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان 53] بحرین ھذا عذاب فرات ولھذا وھذا ملح اجاج ( 25 ۔ 53 ) دو دریا ایک کا پانی شیریں ہے پیاس بجھانے والا اور دوسرے کا کھاری ہے چھاتی جلانے والا میں عذاب کو بحر کہنا ملح کے بالمقابل آنے کی وجہ سے ہے جیسا کہ سورج اور چاند کو قمران کہا جاتا ہے اور بنات بحر کے معنی زیادہ بارش برسانے والے بادلوں کے ہیں ۔ اور آیت : ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم 41] کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ بحر سے سمندر مراد نہیں ہے بلکہ بر سے جنگلات اور بحر سے زرخیز علاقے مراد ہیں ۔ لقیتہ صحرۃ بحرۃ میں اسے ایسے میدان میں ملا جہاں کوئی اوٹ نہ تھی ؟ - يبس - يَبِسَ الشیءُ يَيْبَسُ ، واليَبْسُ : يَابِسُ النّباتِ ، وهو ما کان فيه رطوبة فذهبت، واليَبَسُ : المکانُ يكون فيه ماء فيذهب . قال تعالی: فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ يَبَساً- [ طه 77] والأَيْبَسَانِ «1» : ما لا لحم عليه من الساقین إلى الکعبین .- ( ی ب س ) یبس - ( س ) الشئی کے معنی کسی چیز کا خشک ہوجانا کے ہیں ۔ اور ترگھاس جب خشک ہوجائے تو اسے یبس ( بسکون الباء ) کہاجاتا ہے اور جس جگہ پر پانی ہو اور پھر خشک ہوجائے اسے یبس ( بفتح الباء ) کہتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ يَبَساً [ طه 77] تو انکے لیے دریا میں لائٹس مارکر خشک راستہ بنادو ۔- خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ - درك - الدَّرْكُ کالدّرج، لکن الدّرج يقال اعتبارا بالصّعود، والدّرک اعتبارا بالحدور، ولهذا قيل :- درجات الجنّة، ودَرَكَات النار، ولتصوّر الحدور في النار سمّيت هاوية، وقال تعالی: إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء 145] ، والدّرك «3» أقصی قعر البحر . ويقال للحبل الذي يوصل به حبل آخر ليدرک الماء دَرَكٌ ، ولما يلحق الإنسان من تبعة دَرَكٌ کالدّرک في البیع . قال تعالی: لا تخافُ دَرَكاً وَلا تَخْشى [ طه 77] ، أي : تبعة . وأَدْرَكَ : بلغ أقصی الشیء، وأَدْرَكَ الصّبيّ : بلغ غاية الصّبا، وذلک حين البلوغ، قال : حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس 90] ، وقوله : لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، فمنهم من حمل ذلک علی البصر الذي هو الجارحة، ومنهم من حمله علی البصیرة، وذکر أنه قد نبّه به علی ما روي عن أبي بکر رضي اللہ عنه في قوله : (يا من غاية معرفته القصور عن معرفته) إذ کان غاية معرفته تعالیٰ أن تعرف الأشياء فتعلم أنه ليس بشیء منها، ولا بمثلها بل هو موجد کلّ ما أدركته . - ( درک ) الدرک - اور درج کا لفظ اوپر چڑھنے کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اور الدرک کا لفظ نیچے اترنے کے لحاظ سے اس لئے درجات الجنۃ اور درکات النار کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جیسا کہ پستی کے اعتبار سے دوذخ کو ھاویۃ کہا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء 145] کچھ شک نہیں کہ منافق لوگ دوزخ کے سب سے نیچے کے طبقہ میں ہوں گے ۔ اور سمندر کی گہرائی کی تہہ اور اس رسی کو جس کے ساتھ پانی تک پہنچنے کے لئے دوسری رسی ملائی جاتی ہے بھی درک کہا جاتا ہے اور درک بمعنی تاوان بھی آتا ہے مثلا خرید وفروخت میں بیضانہ کو درک کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ لا تخافُ دَرَكاً وَلا تَخْشى [ طه 77] پھر تم کو نہ تو ( فرعون کے ) آپکڑے نے کا خوف ہوگا اور نہ غرق ہونے کا ( ڈر ۔ ادرک ۔ کسی چیز کی غایت کو پہچنا ، پالنا جیسے ادرک الصبی لڑکا بچپن کی آخری حد کو پہنچ گیا یعنی بالغ ہوگیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس 90] یہاں تک کہ اس کو غرق ( کے عذاب ) نے آپکڑا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] وہ ایسا ہے کہ ( نگا ہیں اس کا اور اک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا اور اک کرسکتا ہے ۔ کو بعض نے ادارک بصری کی نفی پر حمل کیا ہے اور بعض نے ادارک کی نفی ملحاظ بصیرت مراد دلی ہے اور کہا ہے کہ اس آیت سے اس معنی پر تنبیہ کی ہے جو کہ حضرت ابوبکر کے قول اے وہ ذات جس کی غایت معرفت بھی اس کی معرفت سے کوتاہی کا نام ہے ) میں پایا جاتا ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کی غایت یہ ہے کہ انسان کو تمام اشیاء کا کماحقہ علم حاصل ہونے کے بعد یہ یقین ہوجائے کہ ذات باری تعالیٰ نہ کسی کی جنس ہے اور نہ ہی کسی چیز کی مثل ہے بلکہ وہ ان تمام چیزو ن کی موجد ہی ۔- خشی - الخَشْيَة : خوف يشوبه تعظیم، وأكثر ما يكون ذلک عن علم بما يخشی منه، ولذلک خصّ العلماء بها في قوله : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28]- ( خ ش ی ) الخشیۃ - ۔ اس خوف کو کہتے ہیں جو کسی کی عظمت کی وجہ سے دل پر طاری ہوجائے ، یہ بات عام طور پر اس چیز کا علم ہونے سے ہوتی ہے جس سے انسان ڈرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ؛۔ - إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] اور خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ میں خشیت الہی کے ساتھ علماء کو خاص کیا ہے ۔
(٧٧) (فرعون جب کسی کسی صورت میں ایمان نہیں لایا) تو ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس وحی بھیجی کہ بنی اسرائیل کو راتوں رات مصر سے باہر لے جاؤ، پھر عصا مار کر ان کے لیے دریا میں خشک راستہ بنا دیا کہ اس میں نہ فرعون کے تعاقب کا خدشہ ہوگا اور نہ غرق ہونے کا خوف ہوگا۔
آیت ٧٧ (وَلَقَدْ اَوْحَیْنَآ اِلٰی مُوْسٰٓیلا اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِیْ ) ” - ان کے مصر سے نکلنے کے لیے ایک رات کا مخصوص وقت طے کردیا گیا تھا کہ اس رات جب قبطی لوگ اپنے اپنے گھروں میں نیند کے مزے لے رہے ہوں تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تمام اسرائیلیوں کو لے کر چپکے سے صحرائے سینا کی طرف نکل کھڑے ہوں۔
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :52 بیچ میں ان حالات کی تفصیل چھوڑ دی گئی ہے جو اس کے بعد مصر کے طویل زمانہ قیام میں پیش آئے ۔ ان تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ اعراف رکوع 15 ۔ 16 ، سورۂ یونس رکوع 9 ، سورۂ مومن رکوع 3 تا 5 ، اور سورۂ زخرف رکوع 5 ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :53 اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آخر کار ایک رات مقرر فرما دی جس میں تمام اسرائیلی اور غیر اسرائیلی مسلمانوں کو ( جن کے لیے میرے بندوں ‘’ کا جامع لفظ استعمال کیا گیا ہے ) مصر کے ہر حصے سے ہجرت کے لیے نکل پڑنا تھا ۔ یہ سب لوگ ایک طے شدہ مقام پر جمع ہو کر ایک قافلے کی صورت میں روانہ ہو گئے ۔ اس زمانے میں نہر سویز موجود نہ تھی ۔ بحر احمر سے بحر روم ( میڈیٹرینین ) تک کا پورا علاقہ کھلا ہوا تھا ۔ مگر اس علاقے کے تمام راستوں پر فوجی چھاؤنیاں تھیں جن سے بخیریت نہیں گزرا جا سکتا تھا ۔ اس لیے حضرت موسیٰ نے بحر احمر کی طرف جانے والا راستہ اختیار کیا ۔ غالباً ان کا خیال یہ تھا کہ سمندر کے کنارے کنارے چل کر جزیرہ نمائے سینا کی طرف نکل جائیں ۔ لیکن ادھر سے فرعون ایک لشکر عظیم لے کر تعاقب کرتا ہوا ٹھیک اس موقع پر آ پہنچا جبکہ یہ قافلہ ابھی سمندر کے ساحل ہی پر تھا ۔ سورۂ شعراء میں بیان ہوا ہے کہ مہاجرین کا قافلہ لشکر فرعون اور سمندر کے درمیان بالکل گھر چکا تھا ۔ عین اس وقت اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو حکم دیا کہ : اِضْرِبْ بِعَصَاکَ الْبَحْرَ ، اپنا عصا سمندر پر مار : فَاَنْفَلَقَ فَکَانَ کُلُّ فِرْقٍ کَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِ ، فوراً سمندر پھٹ گیا اور اس کا ہر ٹکڑا ایک بڑے ٹیلے کی طرح کھڑا ہو گیا ۔ اور بیچ میں صرف یہی نہیں کہ قافلے کے گزرنے کے لیے راستہ نکل آیا ، بلکہ بیچ کا یہ حصہ ، اوپر کی آیت کے مطابق خشک ہو کر سوکھی سڑک کی طرح بن گیا ۔ یہ صاف اور صریح معجزے کا بیان ہے اور اس سے ان لوگوں کے بیان کی غلطی واضح ہو جاتی ہے جو کہتے ہیں کہ ہوا کے طوفان یا جوار بھاٹے کی وجہ سے سمندر ہٹ گیا تھا ۔ اس طرح جو پانی ہٹتا ہے وہ دونوں طرف ٹیلوں کی صورت میں کھڑا نہیں ہو جاتا ، اور بیچ کا حصہ سوکھ کر سڑک کی طرح نہیں بن جاتا ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم الشعراء حاشیہ 47 ) ۔
28: جادوگروں سے مقابلے میں فتح پانے کے بعد بھی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کافی عرصے مصر میں رہے۔ اور اس دوران فرعون کو ان کی تبلیغ بھی جاری رہی، اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے متعدد نشانیاں بھی دکھائی جاتی رہیں، جن کا ذکر سورۃ اعراف میں گذرا ہے۔ آخر میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ٰیہ حکم دیا کہ تمام بنی اسرائیل کو لے کر راتوں رات مصر سے نکل جائیں 29: یعنی تمہارے راستے میں سمندر آئے گا، تم اپنا عصا اس پر مارو گے تو اس میں تمہاری قوم کے گذرنے کے لیے خشک راستہ بن جائے گا۔ اس کی تفصیل سورۃ یونس : 89 تا 92 میں بھی گذری ہے، اور سورۃ شعراء : 60 تا 66 میں بھی آئے گی۔ چونکہ یہ راستہ اللہ تعالیٰ نے صرف تمہارے لیے پیدا کیا ہوگا۔ اس لیے فرعون کا لشکر اس سے گذر کر تمہیں نہیں پکڑ سکے گا۔ لہذا نہ تمہیں پکڑے جانے کا خوف ہوگا، نہ ڈوب جانے کا