Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

78۔ 1 یعنی اس خشک راستے پر جب فرعون اور اس کا لشکر چلنے لگا، تو اللہ نے سمندر کو حکم دیا کہ حسب سابق رواں دواں ہوجا، چناچہ وہ خشک راستہ چشم زدن پانی کی موجوں میں تبدیل ہوگیا اور فرعون سمیت سارا لشکر غرق ہوگیا۔ غشیھم، کے معنی ہیں علاھم وأصابھم سمندر کا پانی ان پر غالب آگیا۔ ماغشیھم یہ تکرار تعثیم وتہویل یعنی ہولناکی کے بیان کے لیے ہے یا اس کے معنی ہیں جو کہ مشہور و معروف ہے۔۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٥] اس مقام پر جادوگروں کے مقابلہ کے بعد پھر بہت سے واقعات چھوڑ دیئے گئے ہیں۔ دریں عرصہ آپ کی تبلیغ سے بہت سے اسرائیلی اور غیر اسرائیلی آپ پر ایمان لاچکے تھے۔ لیکن ان ایمان لانے والوں کی جان پر بنی ہوئی تھی۔ بالخصوص بنی اسرائیل کے لئے تو وہی سزاشروع ہوچکی تھی جو موجودہ دور کے فرعون کے باپ نے اپنے دور میں بنی اسرائیل کو دی تھی۔ یعنی بنی اسرائیل کے ہاں جو لڑکے پیدا ہوں فورا ً مار ڈالے جائیں اور لڑکیوں کو زندہ رکھا جائے۔ اگرچہ باپ اور بیٹے دونوں کے مقاصد میں فرق تھا۔ باپ یہ چاہتا تھا کہ بنی اسرائیل میں سے میری سلطنت کو زیر و زبر کرنے والا بچہ پیدا ہوتے ہی مار ڈالا جائے اور بیٹے کا مقصد یہ تھا کہ موسیٰ اور ہارون جو بنی اسرائیل کی آزادی کا اور ہمراہی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ تو ان کی نسل ہی ختم کردو تاکہ اس مطالبہ کی نوبت ہی نہ آئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے ارادے پورے ہو کے رہتے ہیں اور وہ خود ہی ان کے لئے راہ بتلا دیتا ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ کو وحی کی کہ آج میرے بندوں کو لے کر راتوں رات نکل جاؤ۔ آپ نے دارالسطنت کے مختلف مقامات میں بکھرے ہوئے ایمان لانے والوں کو انتہائی خفیہ طریقہ سے اطلاع کردی۔ ان میں غیر اسرائیلی بھی شامل تھے۔ اگرچہ تھوڑے سے تھے اور ایک مخصوص مقام بتلا دیا گیا کہ رات کے فلاں وقت فلاں مقام پر سب لوگ اکٹھے ہوجائیں۔ وہاں سے ہجرت کرکے آپ شام و فلسطین کی طرف جانا چاہتے تھے۔ جو بنی اسرائیل کا آبائی وطن تھا وہ سیدنا یوسف (علیہ السلام) کے زمانہ میں یہاں آکر آباد ہوئے تھے اور اس دور تک ان کی نسل کے افراد ایک سے بہت زیادہ ہوچکے تھے۔ سیدنا موسیٰ نے اس قافلہ کو لے کر بحراحمر کا رخ اختیار کیا۔ ان دنوں نہر سویز (موجود نہیں تھی اور آپ کا ارادہ یہ تھا کہ بحر احمر کے کنارے کنارے میں چل کر جزیرہ نمائے سینا میں داخل ہوجائیں گے۔ ابھی اس سمندر کے کنارے ہی جارہے تھے کہ فرعون اپنے لاؤ لشکر سمیت ان کے تعاقب میں سر پر آپہنچا۔ اب صورت حال یہ تھی کہ سامنے سمندر تھا اور پیچھے فرعون کا لشکر۔ ہر طرف موت نظر آرہی تھی۔ بنی اسرائیل یہ صورت حال دیکھ کر سخت گھبرا گئے اور کہنے لگے : موسیٰ ہم تو مارے گئے اس وقت اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ پر وحی نازل فرمائی کہ اپنا وہی سانپ بن جانے والا عصا سمندر کے پانی پر مارو۔ عصا کو پانی پر مارنا تھا کہ سمندر میں کشادہ سڑک بن گئی۔ پانی کی ایک دیوار ایک طرف کھڑی تھی اور دوسری طرف اللہ نے ہواؤں کو حکم دیا جس سے نچلی زمین خشک ہوگئی اور اس سڑک کے راستہ سے بنی اسرائیل اس سمندر کو عبور کرگئے۔ یہ لوگ ابھی دوسرے کنارے پر پہنچے ہی تھے کہ فرعون کا لشکر بھی کنارے پر پہنچ گیا۔ اس نے کھلا راستہ دیکھا تو فورا ً اپنے گھوڑے اس میں ڈال دیئے۔ بنی اسرائیل دوسرے کنارے کھڑے یہ سب صورت حال دیکھ رہے تھے۔ اور سخت دہشت زدہ تھے۔ جب فرعون کا لشکر عین وسط میں پہنچ گیا تو اللہ تعالیٰ نے پانی کو رواں ہونے کا حکم دیا۔ پانی برے زور سے غراتا ہوا بہہ نکلا۔ اب فرعون اور فرعونیوں کو اپنی موت نظر آنے لگی تو فرعون فورا ً پکار اٹھا کہ میں بنی اسرائیل کے رب پر ایمان لاتا ہوں مگر اب ایمان لانے کا وقت گزر چکا تھا۔ اس طرح یہ فرعون کا یہ سارا عظیم الشان لشکر اس سمندر کی تہہ میں ڈوب گیا اور اوپر سے سمندر اپنی پوری روانی سے بہنے لگا اس طرح اللہ تعالیٰ نے بنو اسرائیل پر بیک وقت تین احسان فرمائے (١) فرعونیوں سے نجات، (٢) سر پر کھڑی موت کے بعد زندگی، (٣) دشمن کی مکمل طور پر ہلاکت۔ اور یہ واقعہ ١٠ محرم کو پیش آیا تھا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَغَشِيَهُمْ مِّنَ الْيَمِّ مَا غَشِيَهُمْ : یعنی ان کو سمندر سے ایسی عظیم چیز نے ڈھانپ لیا جو انسانی بیان میں نہیں آسکتی اور اگر اللہ تعالیٰ اسے اس طرح بیان فرمائے جس طرح اسے بیان کرنے کا حق ہے تو انسان کی کوتاہ عقل میں وہ سما نہیں سکتی، اس لیے اس کی تفصیل مت پوچھو۔ مراد ان سب کا سمندر میں غرق ہونا، پانی کی راہ سے آگ کا ایندھن بننا اور مرتے وقت اور بعد میں فرشتوں کی مار بےحساب و بیشمار ہے جو بیان سے باہر ہے۔ دیکھیے سورة مومن (٤٥، ٤٦) اس کی مزید مثالیں یہ ہیں : (ۭاِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشٰى ) [ النجم : ١٦ ] اور : (وَالْمُؤْتَفِكَةَ اَهْوٰى 53؀ۙفَغَشّٰـىهَا مَا غَشّٰى ) [ النجم : ٥٣، ٥٤ ] اور : (فَاَوْحٰٓى اِلٰى عَبْدِهٖ مَآ اَوْحٰى ) [ النجم : ١٠ ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَاَتْبَعَہُمْ فِرْعَوْنُ بِجُنُوْدِہٖ فَغَشِيَہُمْ مِّنَ الْيَمِّ مَا غَشِيَہُمْ۝ ٧٨ۭ- تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلك - قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] ، - ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے - فِرْعَوْنُ- : اسم أعجميّ ، وقد اعتبر عرامته، فقیل : تَفَرْعَنَ فلان : إذا تعاطی فعل فرعون، كما يقال : أبلس وتبلّس، ومنه قيل للطّغاة : الفَرَاعِنَةُ والأبالسة .- فرعون - یہ علم عجمی ہے اور اس سے سرکش کے معنی لے کر کہا جاتا ہے تفرعن فلان کہ فلاں فرعون بنا ہوا ہے جس طرح کہ ابلیس سے ابلس وتبلس وغیرہ مشتقات استعمال ہوتے ہیں اور ایس سے سرکشوں کو فراعنۃ ( جمع فرعون کی اور ابا لسۃ ( جمع ابلیس کی ) کہا جاتا ہے ۔- جند - يقال للعسکر الجُنْد اعتبارا بالغلظة، من الجند، أي : الأرض الغلیظة التي فيها حجارة ثم يقال لكلّ مجتمع جند، نحو : «الأرواح جُنُودٌ مُجَنَّدَة» «2» . قال تعالی: إِنَّ جُنْدَنا لَهُمُ الْغالِبُونَ [ الصافات 173] - ( ج ن د ) الجند - کے اصل معنی سنگستان کے ہیں معنی غفلت اور شدت کے اعتبار سے لشکر کو جند کہا جانے لگا ہے ۔ اور مجازا ہر گروہ اور جماعت پر جند پر لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے ( حدیث میں ہے ) کہ ارواح کئ بھی گروہ اور جماعتیں ہیں قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ جُنْدَنا لَهُمُ الْغالِبُونَ [ الصافات 173] اور ہمارا لشکر غالب رہے گا ۔- غشي - غَشِيَهُ غِشَاوَةً وغِشَاءً : أتاه إتيان ما قد غَشِيَهُ ، أي : ستره . والْغِشَاوَةُ : ما يغطّى به الشیء، قال : وَجَعَلَ عَلى بَصَرِهِ غِشاوَةً [ الجاثية 23] - ( غ ش و ) غشیۃ غشاوۃ وغشاء - اس کے پاس اس چیز کی طرح آیا جو اسے چھپائے غشاوۃ ( اسم ) پر دہ جس سے کوئی چیز ڈھانپ دی جائے قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ عَلى بَصَرِهِ غِشاوَةً [ الجاثية 23] اور اس کی آنکھوں پر پر دہ ڈال دیا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧٨۔ ٧٩) چناچہ فرعون مع اپنے لشکر کے ان سے جا ملا، اس وقت دریا کا پانی چاروں طرف سے سمٹ کر ان پر آملا، غرض کہ فرعون نے اپنی قوم کر بھی لا کر ہلاک کیا اور ان کو غرق ہونے سے نہ بچا سکا، یا یہ مطلب ہے کہ فرعون نے اپنی قوم کو دین خداوندی سے بےراہ کیا اور ان کو نیک راہ نہ بتلائی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧٨ (فَاَتْبَعَہُمْ فِرْعَوْنُ بِجُنُوْدِہٖ فَغَشِیَہُمْ مِّنَ الْیَمِّ مَا غَشِیَہُمْ ) ” - اس کی تفصیل قرآن میں دوسرے مقامات پر موجود ہے ‘ یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم سے سمندر پر عصا مارا۔ اس سے سمندر پھٹ گیا ‘ دونوں طرف کا پانی بڑی بڑی چٹانوں کی طرح ] کَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِ ۔ (الشعراء) [ کھڑا ہوگیا اور درمیان میں خشک راستہ بن گیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس راستے سے اپنی قوم کو لے کر نکل گئے۔ لیکن جب فرعون اپنے لشکروں سمیت اس میں داخل ہوا تو دونوں طرف کا پانی مل گیا اور اس طرح سے وہ سب کے سب غرق ہوگئے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :54 سورہ شعراء میں بیان ہوا ہے کہ مہاجرین کے گزرتے ہی فرعون اپنے لشکر سمیت سمندر کے اس درمیانی راستے میں اتر آیا ( آیات 64 ۔ 66 ) یہاں بیان کیا گیا ہے کہ سمندر نے اس کو اور اس کے لشکر کو دبوچ لیا ۔ سورہ بقرہ میں ارشاد ہوا ہے کہ بنی اسرائیل سمندر کے دوسرے کنارے پر سے فرعون اور اس کے لشکر کو غرق ہوتے ہوئے دیکھ رہے تھے ۔ ( آیت 50 ) اور سورہ یونس میں بتایا گیا ہے کہ ڈوبتے وقت فرعون پکار اٹھا: اٰمَنْتُ اَنَّہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا الَّذِیْٓ اٰمَنَتْ بِہ بَنُوآ اِسْرَ آئِیْلَ وَ اَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ، میں مان گیا کہ کوئی خدا نہیں ہے اس خدا کے سوا جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں ، اور میں بھی مسلمانوں میں سے ہوں ۔ مگر اس آخری لمحہ کے ایمان کو قبول نہ کیا گیا اور جواب ملا : اٰلْئٰنَ وَقَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَکُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ ‏‏َِّہ فَالیَومَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰیَۃً ، اب ایمان لاتا ہے ؟ اور پہلے یہ حال تھا کہ نافرمانی کرتا رہا اور فساد کیے چلا گیا ۔ اچھا ، آج ہم تیری لاش کو بچائے لیتے ہیں تاکہ تو بعد کی نسلوں کے لیے نشان عبرت بنا رہے ۔ آیات 90 ۔ 92 ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

30: عربی محاورے کے مطابق ’’ وہ چیز‘‘ کہہ کر اس کے ناقابل بیان حد تک خوفناک ہونے کی طرف اشارہ ہے۔