79۔ 1 اس لئے کہ سمندر میں غرق ہونا ان کا مقدر تھا
[٥٦] اپنی قوم کے سامنے فرعون کا دعویٰ توبہ تھا کہ میں تمہیں سیدھی راہ دکھاتا ہوں۔ مگر وہ سیدھی نہ تھی بلکہ گمراہی کی تھی اور ظاہری طور پر بھی وہ قوم کے آگے چلا تو انھیں سمندر میں لا ڈبویا اور قیامت کو بھی اپنی قوم کے آتے آگے چلے گا تو انھیں جہنم میں جا داخل کرے گا۔
وَاَضَلَّ فِرْعَوْنُ قَوْمَهٗ وَمَا هَدٰى : یہاں ایک سوال ہے کہ ” اَضَلَّ “ (گمراہ کیا) اور ” مَا هَدٰى“ (سیدھے راستے پر نہ ڈالا) دونوں کا مطلب ایک ہی ہے تو تکرار کا کیا فائدہ ؟ اس سوال کے کئی جواب ہیں، ایک تو یہ کہ یہ تاکید کے لیے ہے، جیسا کہ فرمایا : (اَمْوَاتٌ غَيْرُ اَحْيَاۗءٍ ) [ النحل : ٢١ ] ” مردے ہیں، زندہ نہیں ہیں۔ “ دوسرا یہ کہ ” فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ کیا “ میں امکان تھا کہ اگر بعض چیزوں میں اس نے اپنی قوم کو غلط راستے پر ڈالا تو بعض میں درست سمت پر بھی چلایا ہو، چلو دنیا ہی کا کچھ فائدہ پہنچایا ہو۔ فرمایا، نہیں کسی چیز میں بھی درست راستے پر نہیں ڈالا، بلکہ انھیں اتنا بیوقوف اور بےوقعت بنادیا کہ وہ اس کی سراسر حماقتوں میں بھی اس کے پیچھے ہی چلتے رہے۔ (زخرف : ٤٥) (بقاعی) جیسا کہ آج کل دہریہ ملک چین میں حکومت کے حکم پر ایک یا دو بچوں سے زیادہ بچے پیدا ہونے پر عموماً انھیں ہسپتال ہی میں زہر کا ٹیکہ لگا کر مار دیا جاتا ہے اور اگر کوئی اپنا بچہ مرنے سے بچا لے تو اس کا پیدائش کے رجسٹر میں اندراج ہوسکتا ہے نہ اسے رجسٹرڈ شہری کی مراعات حاصل ہوسکتی ہیں۔ کوئی اولاد والا ہی اس دردناک کیفیت کا ادراک کرسکتا ہے۔ اس کے باوجود پوری قوم خوشی یا بےبسی سے ان احکام کے پیچھے چل رہی ہے، اس سے بڑھ کر ” وَمَا هَدٰى“ کیا ہوگا ؟- تیسرا جواب یہ کہ دراصل یہ فرعون کے اس دعویٰ پر طنز ہے جو اس نے کیا تھا : ( مَآ اُرِيْكُمْ اِلَّا مَآ اَرٰى وَمَآ اَهْدِيْكُمْ اِلَّا سَبِيْلَ الرَّشَادِ ) [ المؤمن : ٢٩ ] ” میں تو تمہیں وہی رائے دے رہا ہوں جو خود رائے رکھتا ہوں اور میں تمہیں بھلائی کا راستہ ہی بتارہا ہوں۔ “ اور زیر تفسیر سورت کی آیت (٦٣) میں بھی اس کے چیلوں نے اپنے طریقے کو سب سے افضل قرار دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے رد میں فرمایا کہ ” فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ کیا اور انھیں سیدھے راستے پر نہ ڈالا۔ “ (زمخشری)
وَاَضَلَّ فِرْعَوْنُ قَوْمَہٗ وَمَا ہَدٰى ٧٩- ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :55 بڑے لطیف انداز میں کفار انداز میں کفار مکہ کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ تمہارے سردار اور لیڈر بھی تم کو اسی راستے پر لیے جا رہے ہیں جس پر فرعون اپنی قوم کو لے جا رہا تھا ۔ اب تم خود دیکھ لو کہ یہ کوئی صحیح رہنمائی نہ تھی ۔ اس قصے کے خاتمے پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بائیبل بیانات کا بھی جائزہ لے لیا جائے تاکہ ان لوگوں کے جھوٹ کی حقیقت کھل جائے جو کہتے ہیں کہ قرآن میں یہ قصے بنی اسرائیل سے نقل کر لیے گئے ہیں ۔ بائیبل کی کتاب خروج ( ) میں اس قصے کی جو تفصیلات بیان ہوئی ہیں ، ان کے حسب ذیل اجزاء قابل توجہ ہیں : 1 ) ۔ باب 4 ، آیت 2 ۔ 5 میں بتایا گیا ہے کہ عصا کا معجزہ حضرت موسیٰ کو دیا گیا تھا ۔ اور آیت 17 میں انہیں کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ تو اس لاٹھی کو اپنے ہاتھ میں لیے جا اور اسی سے ان معجزوں کو دکھانا ۔ مگر آگے جا کر نہ معلوم یہ لاٹھی کس طرح حضرت ہارون کے قبضے میں چلی گئی اور وہی اس سے معجزے دکھانے لگے ۔ باب 7 سے لے کر بعد کے ابواب میں مسلسل ہم کو حضرت ہارون ہی لاٹھی کے معجزے دکھاتے نظر آتے ہیں ۔ 2 ) ۔ باب 5 میں فرعون سے حضرت موسیٰ کی پہلی ملاقات کا حال بیان کیا گیا ہے ، اور اس میں سرے سے اس بحث کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی ربوبیت کے مسئلے پر ان کے اور فرعون کے درمیان ہوئی تھی ۔ فرعون کہتا ہے کہ خداوند کون ہے کہ میں اس کی بات مانوں اور بنی اسرائیل کو جانے دوں ؟ میں خداوند کو نہیں جانتا ۔ مگر حضرت موسیٰ اور ہارون اس کے سوا کچھ جواب نہیں دیتے کہ عبرانیوں کا خدا ہم سے ملا ہے ۔ ( باب 5 ۔ آیت 2 ۔ 3 ) ۔ 3 ) ۔ جادوگروں سے مقابلے کی پوری داستان میں ان چند فقروں میں سمیٹ دی گئی ہے ، اور خداوند نے موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام سے کہا کہ جب فرعون تم کو کہے کہ اپنا معجزہ دکھاؤ تو ہارون سے کہنا کہ اپنی لاٹھی کو لے کر فرعون کے سامنے ڈال دے تاکہ وہ سانپ بن جائے ۔ اور موسی اور ہارون فرعون کے پاس گئے اور انہوں نے خداوند کے حکم کے مطابق کی اور ہارون نے اپنی لاٹھی فرعون اور اس کے خادموں کے سامنے ڈال دی اور وہ سانپ بن گئی ۔ تب فرعون نے بھی داناؤں اور جادوگروں کو بلوایا اور مصر کے جادوگروں نے بھی اپنے جادو سے ایسا ہی کیا ۔ کیونکہ انہوں نے بھی اپنی اپنی لاٹھی سامنے ڈالی اور وہ سانپ بن گئیں ۔ لیکن ہارون کی لاٹھی ان کی لاٹھیوں کو نگل گئی ۔ ( باب 7 ۔ آیت 8 ۔ 12 ) ۔ اس بیان کا مقابلہ قرآن کے بیان سے کر کے دیکھ لیا جائے کہ قصے کی ساری روح یہاں کس بری طرح فنا کی گئی ہے ۔ سب سے زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ جشن کے دن کھلے میدان میں باقاعدہ چیلنج کے بعد مقابلہ ہونا ، اور پھر شکست کے بعد جادوگروں کا ایمان لانا ، جو قصے کی اصل جان تھا ، سرے سے یہاں مذکور ہی نہیں ہے ۔ 4 ) ۔ قرآن کہتا ہے کہ حضرت موسیٰ کا مطالبہ بنی اسرائیل کی رہائی اور آزادی کا تھا ۔ بائیبل کا بیان ہے کہ مطالبہ صرف یہ تھا ہم کو اجازت دے کہ ہم تین دن کی منزل بیابان میں جا کر خداوند اپنے خدا کے لیئے قربانی کریں ۔ ( باب 5 ۔ آیت 3 ) 5 ) ۔ مصر سے نکلنے اور فرعون کے غرق ہونے کا مفصل حال باب 11 سے 14 تک بیان کیا گیا ہے ۔ اس میں بہت سی مفید معلومات ، اور قرآن کے اجمال کی تفصیلات بھی ہمیں ملتی ہیں اور ان کے ساتھ متعدد عجیب باتیں بھی ۔ مثلاً باب 14 کی آیات 15 ۔ 16 میں حضرت موسیٰ کو حکم دیا جاتا ہے کہ تو اپنی لاٹھی ( جی ہاں ، اب لاٹھی حضرت ہارون سے لے کر پھر حضرت موسیٰ کو دے دی گئی ہے ) اٹھا کر اپنا ہاتھ سمندر کے اوپر بڑھا اور اسے دو حصے کر اور بنی اسرائیل سمندر کے بیچ میں سے خشک زمین پر چل کر نکل جائیں گے ۔ لیکن آگے چل کر آیت 21 ۔ 22 میں کہا جاتا ہے کہ پھر موسیٰ نے اپنا ہاتھ سمندر کے اوپر بڑھایا اور خداوند نے رات بھر تند پور بی آندھی چلا کر اور سمندر کو پیچھے ہٹا کر اسے خشک زمین بنا دیا اور پانی دو حصے ہو گیا اور بنی اسرائیل سمندر کے بیچ میں سے خشک زمین پر چل کر نگل گئے اور ان کے داہنے اور بائیں ہاتھ پانی دیوار کی طرح تھا ۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ آیا یہ معجزہ تھا یا طبعی واقعہ اگر معجزہ تھا تو عصا کی ضرب سے ہی رونما ہو گیا ہو گا ، جیسا کہ قرآن میں کہا گیا ہے ۔ اور اگر طبعی واقعہ تھا تو یہ عجیب صورت ہے کہ مشرقی آندھی نے سمندر کو بیچ میں سے پھاڑ کر پانی کو دونوں طرف دیوار کی طرح کھڑا کر دیا اور بیچ میں سے خشک راستہ بنا دیا ۔ کیا فطری طریقے سے ہوا کبھی ایسے کرشمے دکھاتی ہے ؟ تلمود کا بیان نسبۃً بائیبل سے مختلف اور قرآن سے قریب تر ہے ، مگر دونوں کا مقابلہ کرنے سے صاف محسوس ہو جاتا ہے ایک جگہ براہ راست علم وحی کی بنا پر واقعات بیان کیے جا رہے ہیں ، اور دوسری جگہ صدیوں کی سینا بسینہ روایات میں واقعات کی صورت اچھی خاصی مسخ ہو گئی ہے ۔ ملاحظہ ہو : . . . 150-54