Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

احسانات کی یاد دہانی ۔ اللہ تبارک وتعالی نے بنی اسرائیل پر جو بڑے بڑے احسان کئے تھے انہیں یاددلارہا ہے ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ انہیں ان کے دشمن سے نجات دی ۔ اور اتنا ہی نہیں بلکہ ان کے دشمنوں کو ان کے دیکھتے ہوئے دریا میں ڈبو دیا ۔ ایک بھی ان میں سے باقی نہ بچا جیسے فرمان ہے ( واغرقنا ال فرعون وانتم تنظرون ) ۔ یعنی ہم نے تمہارے دیکھتے ہوئے فرعونیوں کو ڈبو دیا ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ مدینے کے یہودیوں کو عاشورے کے دن کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس کا سبب معلوم فرمایا انہوں نے جواب دیا کہ اسی دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون پر کامیاب کیا تھا ۔ آپ نے فرمایا پھر توہمیں بہ نسبت تمہارے ان سے زیادہ قرب ہے چنانچہ آپ نے مسلمانوں کو اس دن کے روزے کا حکم دیا ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے کلیم کو کوہ طور کی دائیں جانب کا وعدہ دیا ۔ آپ وہاں گئے اور پیچھے سے بنو اسرائیل نے گوسالہ پرستی شروع کردی ۔ جس کا بیان ابھی آگے آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اسی طرح ایک احسان ان پر یہ کیا کہ من وسلوی کھانے کو دیا اس کا پورا بیان سورۃ بقرۃ وغیرہ کی تفیسر میں گزر چکا ہے من ایک میٹھی چیز تھی جو ان کے لئے آسمان سے اترتی تھی اور سلوی ایک قسم کے پرند تھے جو بہ حکم خداوندی ان کے سامنے آجاتے تھے یہ بقدر ایک دن کی خوراک کے انہیں لے لیتے تھے ۔ ہماری یہ دی ہوئی روزی کھاؤ اس میں حد سے نہ گزر جاؤ حرام چیزیا حرام ذریعہ سے اسے نہ طلب کرو ۔ ورنہ میرا غضب نازل ہو گا اور جس پر میرا غضب اترے یقین مانو کہ وہ بدبخت ہو گیا ۔ حضرت شغی بن مانع رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جہنم میں ایک اونچی جگہ بنی ہوئی ہے جہاں کافر کو جہنم میں گرایا جاتا ہے تو زنجیروں کی جگہ تک چالیس سال میں پہنچتا ہے یہی مطلب اس آیت کاہے کہ وہ گڑھے میں گر پڑا ۔ ہاں جو بھی اپنے گناہوں سے میرے سامنے توبہ کرے میں اس کی توبہ قبول کرتا ہوں ۔ دیکھو بنی اسرائیل میں سے جہنوں نے بچھڑے کی پوجا کی تھی ان کی توبہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کو بخش دیا ۔ غرض جس کفر و شرک گناہ و معصیت پر کوئی ہو پھر وہ اسے بخوف الہی چھوڑ دے اللہ تعالیٰ اسے معاف فرما دیتا ہے ہاں دل میں ایمان اور اعمال صالحہ بھی کرتا ہو اور ہو بھی راہ راست پر ۔ شکی نہ ہو سنت رسول اور جماعت صحابہ کی روش پر ہو اس میں ثواب جانتا ہو یہاں پر ثم کا لفظ خبر کی خبر پر ترتیب کرنے کے لئے آیا ہے جیسے فرمان ( ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ 17؀ۭ ) 90- البلد:17 )

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

80۔ 1 اس کا مطلب یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کوہ طور پر تمہیں یعنی تمہارے نمائندے بھی ساتھ لے کر آئیں تاکہ تمہارے سامنے ہی ہم موسیٰ (علیہ السلام) سے ہم کلام ہوں، یا ضمیر جمع اس لئے لائی گئی کہ کوہ طور پر موسیٰ (علیہ السلام) کو بلانا، بنی اسرائیل ہی کی خاطر اور انہی کی ہدایت و رہنمائی کے لئے تھا۔ 80۔ 2 من وسلویٰ کے نزول کا واقعہ، سورة بقرہ کے آغاز میں گزر چکا ہے۔ من کوئی میٹھی چیز تھی جو آسمان سے نازل ہوئی تھی اور سلویٰ سے مراد بٹیر پرندے ہیں جو کثرت سے ان کے پاس آتے اور وہ حسب ضرورت انھیں پکڑ کر پکاتے اور کھالیتے۔ (ابن کثیر)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

يٰبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ قَدْ اَنْجَيْنٰكُمْ ۔۔ : یہ تین آیتیں موسیٰ (علیہ السلام) کے قصے کے درمیان جملہ معترضہ کے طور پر آئی ہیں، جیسا کہ اس سے پہلے دو آیات (٥٥، ٥٦) گزر چکی ہیں۔ اس آیت میں موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے کے بنی اسرائیل مخاطب ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے کے یہود کو اللہ تعالیٰ کی نعمتیں یاد کروائی جا رہی ہوں، جیسا کہ : (يٰبَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِىَ الَّتِىْٓ اَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ ) [ البقرۃ : ٤٠، ٤٧، ١٢٢ ] میں ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو تین نعمتیں یاد دلائیں۔ سب سے پہلے غلامی سے نجات کی عظیم نعمت، اس کے بعد طور پر بلا کر دینی احکام پر مشتمل کتاب عطا کرنے کی نعمت اور آخر میں بلامشقت من وسلویٰ کا پاکیزہ اور لذیذ ترین رزق عطا کرنے کی نعمت۔ من وسلویٰ کی تفسیر کے لیے دیکھیں سورة بقرہ (٥٧) ۔- وَوٰعَدْنٰكُمْ جَانِبَ الطُّوْرِ الْاَيْمَنَ ۔۔ : اس واقعہ کا ذکر سورة بقرہ (٥٢) میں بھی ہے اور اس کی تفصیل سورة اعراف (١٤٢ تا ١٤٧) میں ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پہاڑ کی دائیں جانب سے مراد کیا ہے ؟ کیونکہ پہاڑ کی ہر جانب ہی کھڑے ہونے والے شخص کے لحاظ سے دائیں بھی ہوسکتی ہے اور بائیں بھی۔ جواب اس کا یہ ہے کہ زمانۂ جاہلیت اور اسلام میں جغرافیہ اور محل وقوع میں جہتوں کے تعین کے لیے مشرق کو اصل قرار دیا گیا ہے، چناچہ یمن اور شام کے نام اسی مناسبت سے رکھے گئے ہیں کہ کعبہ سے مشرق کی طرف رخ کریں تو دائیں طرف یمن ہے، جس کا معنی دایاں ہے اور بائیں طرف شام۔ امرؤ القیس نے بھی ایک بادل کے برسنے کا محل وقوع بیان کرتے ہوئے کہا ہے ؂- عَلٰی قَطَنٍ بالشَّیْمِ أَیْمَنُ صَوْبِہِ- وَ أَیْسَرَہُ عَلَی السِّتَارِ فَیَذْبُلِ- ” غور سے دیکھنے پر اس کی بارش کا دایاں حصہ قطن مقام پر تھا اور اس کا بایاں حصہ ستار پھر یذبل نامی مقام پر تھا۔ “ - اس صورت میں اگر ” الْاَيْمَنَ “ سے مراد دائیں جانب لیں تو موسیٰ (علیہ السلام) کے طور کی مغربی جانب اس کی طرف رخ کرکے کھڑے ہونے پر پہاڑ کی دائیں طرف (جنوب) مراد ہوگی، جیسا کہ مدین سے مصر کو آتے ہوئے پہلی وحی کے وقت وہ پہاڑ کی مغربی جانب میں تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : (وَمَا كُنْتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِيِّ اِذْ قَضَيْنَآ اِلٰى مُوْسَى الْاَمْرَ وَمَا كُنْتَ مِنَ الشّٰهِدِيْنَ ) [ القصص : ٤٤ ] ” اور اس وقت تو مغربی جانب میں نہیں تھا جب ہم نے موسیٰ کی طرف حکم کی وحی کی۔ “ اور اگر ” الْاَيْمَنَ “ کو ” یَمِیْنٌ“ (دائیں) کے بجائے ” یُمْنٌ“ (برکت) سے اسم تفضیل مانیں تو دائیں بائیں کی تعیین کی ضرورت ہی نہیں بلکہ طور کی جانب ایمن (بابرکت جانب) اور اس سورت کی آیت (١٢) : (اِنَّكَ بالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى ) میں مذکور وادی مقدس دونوں سے مراد وادی طویٰ ہوگی۔ (ابن عاشور)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

وَوٰعَدْنٰكُمْ جَانِبَ الطُّوْرِ الْاَيْمَنَ ، فرعون سے نجات اور دریا سے پار ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے اور ان کے واسطے سے تمام بنی اسرائیل سے یہ وعدہ فرمایا کہ وہ کوہ طور کی داہنی جانب چلے آئیں تاکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات عطا کی جائے اور بنی اسرائیل خود بھی ان کے شرف ہم کلامی کا مشاہدہ کرلیں۔- وَنَزَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوٰى یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب بنی اسرائیل عبور دریا کے بعد آگے بڑھے اور ایک مقدس شہر میں داخل ہونے کا ان کو حکم ملا۔ انہوں نے خلاف ورزی کی اس کی یہ سزا دی گئی کہ اس وادی میں جس کو وادی تیہ کہتے ہیں قید کردیئے گئے۔ یہاں سے چالیس سال تک باہر نہ نکل سکے۔ اس سزا کے باوجود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی برکت سے ان پر اس قید کے زمانے میں بھی طرح طرح کے انعامات ہوتے رہے انہیں میں سے من وسلوی کا انعام تھا جو ان کی غذا کے لئے دیا جاتا تھا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يٰبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ قَدْ اَنْجَيْنٰكُمْ مِّنْ عَدُوِّكُمْ وَوٰعَدْنٰكُمْ جَانِبَ الطُّوْرِ الْاَيْمَنَ وَنَزَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوٰى۝ ٨٠- نجو - أصل النَّجَاء : الانفصالُ من الشیء، ومنه : نَجَا فلان من فلان وأَنْجَيْتُهُ ونَجَّيْتُهُ. قال تعالی: وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل 53]- ( ن ج و )- اصل میں نجاء کے معنی کسی چیز سے الگ ہونے کے ہیں ۔ اسی سے نجا فلان من فلان کا محاورہ ہے جس کے معنی نجات پانے کے ہیں اور انجیتہ ونجیتہ کے معنی نجات دینے کے چناچہ فرمایا : ۔- وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل 53] اور جو لوگ ایمان لائے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کو ہم نے نجات دی ۔- عدو - العَدُوُّ : التّجاوز ومنافاة الالتئام، فتارة يعتبر بالقلب، فيقال له : العَدَاوَةُ والمُعَادَاةُ ، وتارة بالمشي، فيقال له : العَدْوُ ، وتارة في الإخلال بالعدالة في المعاملة، فيقال له : العُدْوَانُ والعَدْوُ. قال تعالی: فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] ، وتارة بأجزاء المقرّ ، فيقال له : العَدْوَاءُ. يقال : مکان ذو عَدْوَاءَ «3» ، أي : غير متلائم الأجزاء . فمن المُعَادَاةِ يقال :- رجلٌ عَدُوٌّ ، وقومٌ عَدُوٌّ. قال تعالی: بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123]- ( ع د و ) العدو - کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونا ہیں اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃ اور معاداۃ کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدو کہا جاتا ہے اور اگر عدل و انصاف میں خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عدوان اور عدو کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بےسمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں ۔ اور اگر اس کا تعلق کسی جگہ کے اجزاء کے ساتھ ہو تو اسے عدواء کہہ دیتے ہیں جیسے مکان ذوعدوء ناہموار مقام چناچہ معاداۃ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے رجل عدو وقوم عدو اور یہ واحد جمع دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123] اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ - وعد - الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ- [ القصص 61] ،- ( وع د ) الوعد - ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ - جنب - أصل الجَنْب : الجارحة، وجمعه : جُنُوب، قال اللہ عزّ وجل : فَتُكْوى بِها جِباهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ [ التوبة 35] ، وقال تعالی: تَتَجافی جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضاجِعِ [ السجدة 16] ، وقال عزّ وجلّ : قِياماً وَقُعُوداً وَعَلى جُنُوبِهِمْ [ آل عمران 191] . ثم يستعار من الناحية التي تليها کعادتهم في استعارة سائر الجوارح لذلک، نحو : الیمین والشمال،- ( ج ن ب ) الجنب - اصل میں اس کے معنی پہلو کے ہیں اس کی جمع جنوب ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ قِياماً وَقُعُوداً وَعَلى جُنُوبِهِمْ [ آل عمران 191] جو کھڑے اور بیٹھے اور پہلوؤں پر لیٹے ہوئے ۔ فَتُكْوى بِها جِباهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ [ التوبة 35] پھر اس سے ان ( بخیلوں ) کی پیشانیاں اور پہلو داغے جائیں گے ۔ تَتَجافی جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضاجِعِ [ السجدة 16] ان کے پہلو بچھو نوں سے الگ رہنے ہیں ۔ پھر بطور استعارہ پہلو کی سمت کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسا کہ یمین ، شمال اور دیگر اعضا میں عرب لوگ استعارات سے کام لیتے ہیں ۔ - طور - طَوَارُ الدّارِ وطِوَارُهُ : ما امتدّ منها من البناء، يقال : عدا فلانٌ طَوْرَهُ ، أي : تجاوز حدَّهُ ، ولا أَطُورُ به، أي : لا أقرب فناء ه . يقال : فعل کذا طَوْراً بعد طَوْرٍ ، أي : تارة بعد تارة، وقوله :- وَقَدْ خَلَقَكُمْ أَطْواراً [ نوح 14] ، قيل : هو إشارة إلى نحو قوله تعالی: خَلَقْناكُمْ مِنْ تُرابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُضْغَةٍ [ الحج 5] ، وقیل : إشارة إلى نحو قوله : وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم 22] ، أي : مختلفین في الخَلْقِ والخُلُقِ. والطُّورُ اسمُ جبلٍ مخصوصٍ ، وقیل : اسمٌ لكلّ جبلٍ وقیل : هو جبل محیط بالأرض «2» . قال تعالی: وَالطُّورِ وَكِتابٍ مَسْطُورٍ [ الطور 1- 2] ، وَما كُنْتَ بِجانِبِ الطُّورِ [ القصص 46] ، وَطُورِ سِينِينَ- [ التین 2] ، وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم 52] ، وَرَفَعْنا فَوْقَهُمُ الطُّورَ [ النساء 154] .- ( ط و ر )- طوارا لدار وطوارھ کے معنی گھر کی عمارت کے امتداد یعنی لمبا ہونے اور پھیلنے کے ہیں محاورہ ہے : ۔ عدا فلان طوارہ فلاں اپنی حدود سے تجاوز کر گیا ۔ لاوطور بہ میں اسکے مکان کے صحن کے قریب تک نہیں جاؤں گا ۔ فعل کذا طورا بعد طور اس نے ایک بار کے بعد دوسری باریہ کام کیا اور آیت کریمہ : ۔ وَقَدْ خَلَقَكُمْ أَطْواراً [ نوح 14] کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ کہ اطوارا سے ان مختلف منازل ومدارج کی طرف اشارہ ہے جو کہ آیت : ۔ خَلَقْناكُمْ مِنْ تُرابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُضْغَةٍ [ الحج 5] ہم نے تم کو ( پہلی بار بھی ) تو پیدا کیا تھا ( یعنی ابتداء میں ) مٹی سے پھر اس سے نطفہ بناکر پھر اس سے خون کا لوتھڑا بناکر پھر اس سے بوٹی بناکر ۔ میں مذکور ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ اس سے مختلف احوال مراد ہیں جن کی طرف آیت : ۔ وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم 22] اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا جدا جدا ہونا ۔ میں اشارہ فرمایا ہے یعنی جسمانی اور اخلاقی تفاوت جو کہ ہر معاشرہ میں نمایاں طور پر پا یا جاتا ہے ۔ الطور ( ایلہ کے قریب ایک خاص پہاڑ کا نام ہے) اور بعض نے کہا ہے کہ ہر پہاڑ کو طور کہہ سکتے ہیں اور بعض کے نزدیک طور سے وہ سلسلہ کوہ مراد ہے جو کرہ ارض کو محیط ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَالطُّورِ وَكِتابٍ مَسْطُورٍ [ الطور 1- 2] کوہ طور کی قسم اور کتاب کی جو لکھی ہوئی ہے ۔ وَما كُنْتَ بِجانِبِ الطُّورِ [ القصص 46] اور نہ تم اس وقت طور کے کنارے تھے ۔ وَطُورِ سِينِينَ [ التین 2] اور طورسنین کی ۔ وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم 52] اور ہم نے ان کو طور کی داہنی جانب سے پکارا ۔ وَرَفَعْنا فَوْقَهُمُ الطُّورَ [ النساء 154] اور کوہ طور کو تم پر اٹھا کر کھڑا کیا ۔- يمین ( دائیں طرف)- اليَمِينُ : أصله الجارحة، واستعماله في وصف اللہ تعالیٰ في قوله : وَالسَّماواتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ- [ الزمر 67] علی حدّ استعمال الید فيه، و تخصیص اليَمِينِ في هذا المکان، والأرض بالقبضة حيث قال جلّ ذكره : وَالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 67] «1» يختصّ بما بعد هذا الکتاب . وقوله :إِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَأْتُونَنا عَنِ الْيَمِينِ- [ الصافات 28] أي : عن الناحية التي کان منها الحقّ ، فتصرفوننا عنها، وقوله : لَأَخَذْنا مِنْهُ بِالْيَمِينِ [ الحاقة 45] أي : منعناه ودفعناه . فعبّر عن ذلک الأخذ باليَمِينِ کقولک : خذ بِيَمِينِ فلانٍ عن تعاطي الهجاء، وقیل : معناه بأشرف جو ارحه وأشرف أحواله، وقوله جلّ ذكره : وَأَصْحابُ الْيَمِينِ [ الواقعة 27] أي : أصحاب السّعادات والمَيَامِنِ ، وذلک علی حسب تعارف الناس في العبارة عن المَيَامِنِ باليَمِينِ ، وعن المشائم بالشّمال . واستعیر اليَمِينُ للتَّيَمُّنِ والسعادة، وعلی ذلک وَأَمَّا إِنْ كانَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة 90- 91] ، وعلی هذا حمل :- 477-- إذا ما راية رفعت لمجد ... تلقّاها عرابة باليَمِين - ( ی م ن ) الیمین - کے اصل معنی دایاں ہاتھ یا دائیں جانب کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَالسَّماواتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ [ الزمر 67] اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لیپٹے ہوں گے ۔ میں حق تعالیٰ کی طرف یمن نسبت مجازی ہے ۔ جیسا کہ ید وغیر ہا کے الفاظ باری تعالیٰ کے متعلق استعمال ہوتے ہیں یہاں آسمان کے لئے یمین اور بعد میں آیت : ۔ وَالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 67] اور قیامت کے دن تمام زمین اس کی مٹھی میں ہوگی ۔ میں ارض کے متعلق قبضۃ کا لفظ لائے میں ایک باریک نکتہ کی طرف اشارہ ہے جو اس کتاب کے بعد بیان ہوگا اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَأْتُونَنا عَنِ الْيَمِينِ [ الصافات 28] تم ہی ہمارے پاس دائیں اور بائیں ) اسے آتے تھے ۔ میں یمین سے مراد جانب حق ہے یعنی تم جانب حق سے ہمیں پھیرتے تھے اور آیت کریمہ : ۔ لَأَخَذْنا مِنْهُ بِالْيَمِينِ [ الحاقة 45] تو ہم ان کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے ۔ میں دایاں ہاتھ پکڑ لینے سے مراد روک دینا ہے جیسے محاورہ ہے : ۔ یعنی فلاں کو ہجو سے روک دو ۔ بعض نے کہا ہے کہ انسان کا دینا ہاتھ چونکہ افضل ہے سمجھاجاتا ہے اسلئے یہ معنی ہو نگے کہ ہم بہتر سے بہتر حال میں بھی اسے با شرف اعضاء سے پکڑ کر منع کردیتے اور آیت کریمہ : ۔ وَأَصْحابُ الْيَمِينِ [ الواقعة 27] اور دہنے ہاتھ والے ۔ میں دہنی سمت والوں سے مراد اہل سعادت ہیں کو ین کہ عرف میں میامن ( با برکت ) ) کو یمین اور مشاے م ( منحوس ) کو شمالی کے لفظ سے یاد کیا جاتا ہے اور استعارہ کے طور پر یمین کا لفظ بر کت وسعادت کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَأَمَّا إِنْ كانَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة 90- 91] اگر وہ دائیں ہاتھ والوں یعنی اصحاب خیر وبر کت سے ہے تو کہا جائیگا تجھ پر داہنے ہاتھ والوں کی طرف سے سلام اور ایس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( 426 ) اذا ما رایۃ رفعت ملجد تلقا ھا عرا بۃ بالیمین جب کبھی فضل ومجد کے کاموں کے لئے جھنڈا بلند کیا جاتا ہے تو عرابۃ اسے خیر و برکت کے ہاتھ سے پکڑ لیتا ہے - نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - منّ ( من و سلوي)- في قوله : وَأَنْزَلْنا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوى[ البقرة 57] فقد قيل : المنّ شيء کالطّلّ فيه حلاوة يسقط علی الشجر، والسّلوی: طائر، وقیل : المنّ والسّلوی، كلاهما إشارة إلى ما أنعم اللہ به عليهم، وهما بالذّات شيء واحد لکن سماه منّا بحیث إنه امتنّ به عليهم، وسماه سلوی من حيث إنّه کان لهم به التّسلّي . ومَنْ عبارة عن النّاطقین، ولا يعبّر به عن غير النّاطقین إلا إذا جمع بينهم وبین غيرهم، کقولک : رأيت مَنْ في الدّار من النّاس والبهائم، أو يكون تفصیلا لجملة يدخل فيهم النّاطقون، کقوله تعالی: فَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي الآية [ النور 45] . ولا يعبّر به عن غير النّاطقین إذا انفرد،- بعض نے کہا ہے منۃ بالقول بھی اسی سے ہے کیونکہ احسان جتلانے نعمت کو قطع کر دیاتا ہے اور شکر گزرای کئ انقطاع کو مقتضی ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَأَنْزَلْنا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوى[ البقرة 57] اور تمہارے لئے من سلوی اتارتے رہے ۔ میں من سے شبنمی گوند مراد ہے جو رات کو درخت کو درخت کے پے وں پر چم جاتی تھی اور سلویٰ ایک پرند کا نام ہے بعض نے کہا ہے کہ من اور سلوی سے احسانات کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان پر کئے تھے اور یہ دونوں اصل میں ایک ہی چیز سے عبارت ہیں ؛لیکن ان پر احسان کرنے کے لحاظ سے اسے من کہا ہے اور اس لحاظ سے کہ وہ نعمت ان کے لئے باعث اطمینا ن تھی اسے سلویٰ فرمایا ہے جو کہ تسلی سے ماخوذ ہے ۔ اس سے ذوی العقول مراد ہوتے ہیں اور غیر ذوی العقول پر اس کا اطلاق یا تو اس وقت ہوتا ہے ۔ جب وہ ذوی العقول کے ملتبع مراد ہوں مثلا رایت من فی الدار کہہ کر گھر کے لوگ اور بہا ئم دونوں مراد لئے جائیں ۔ اور یا اس وقت جب اہل نطق کے ساتھ شامل کر کے پھر ان کی تفصیل بیان کرنا مقصود ہوتی ہے جیسے فرمایا : ۔ فَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي الآية [ النور 45] تو ان میں سے بعض ایسے ہیں جو پیٹ کے بل چلتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو دو پاؤں پر چلتے ہیں اور یہ یہ تنہا غیر ذوی العقول کے لئے استعمال نہیں ہوتا

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨٠) اے بنی اسرائیل دیکھو ہم نے تمہیں فرعون سے نجات دی اور ہم نے تمہارے پیغمبر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کوہ طور کے دائیں جانب آنے کا اور وہاں آنے کے بعد کتاب توریت دینے کا وعدہ کیا اور وادی تیہ میں تم پر من وسلوی نازل فرمایا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨٠ (یٰبَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ قَدْ اَنْجَیْنٰکُمْ مِّنْ عَدُوِّکُمْ وَوٰعَدْنٰکُمْ جَانِبَ الطُّوْرِ الْاَیْمَنَ ) ” - یہ اسی مقام کا ذکر ہے جہاں پہلے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت سے سرفراز کیا گیا تھا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :56 سمندر کو عبور کرنے سے لے کر کوہ سینا کے دامن میں پہنچنے تک کی داستان بیچ میں چھوڑ دی گئی ہے ۔ اس کی تفصیلات سورۂ اعراف رکوع 16 ۔ 17 میں گزر چکی ہیں ۔ اور وہاں یہ بھی گزر چکا ہے کہ مصر سے نکلتے ہی بنی اسرائیل جزیرہ نمائے سینا کے ایک مندر کو دیکھ کر اپنے لیے ایک بناوٹی خدا مانگ بیٹھے تھے ( تفہیم القرآن ۔ جلد دوم ، الاعراف ، حاشیہ 98 ) سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :57 یعنی طور کے مشرقی دامن میں ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :58 سورہ بقرہ رکوع 6 ، اور سورہ اعراف رکوع 17 میں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو شریعت کا ہدایت نامہ عطا کرنے کے لیے چالیس دن کی میعاد مقرر کی تھی جس کے بعد حضرت موسیٰ کو پتھر کی تختیوں پر لکھے ہوئے احکام عطا کیے گئے ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :59 من و سلویٰ کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول البقرہ ، حاشیہ 73 ۔ الاعراف ، حاشیہ 118 ۔ بائیبل کا بیان ہے کہ مصر سے نکلنے کے بعد جب بنی اسرائیل دشت سین میں ایلیم اور سینا کے درمیان گزر رہے تھے اور خوراک کے ذخیرے ختم ہو کر فاقوں کی نوبت آ گئی تھی ، اس وقت من و سلویٰ کا نزول شروع ہوا ، اور فلسطین کے آباد علاقے میں پہنچنے تک پورے چالیس سال یہ سلسلہ جاری رہا ( خروج ، باب 16 ۔ گنتی باب 11 ، آیت 7 ۔ 9 ۔ یشوع ، باب 5 ، آیت 12 ) کتاب خروج میں من و سلویٰ کی یہ کیفیت بیان کی گئی ہے اور یوں ہوا کہ شام کو اتنی بٹیریں آئیں کہ ان کی خیمہ گاہ کو ڈھانک لیا ۔ اور صبح کو خیمہ گاہ کے آس پاس اوس پڑی ہوئی تھی اور جب وہ اوس جو پڑی تھی سوکھ گئی تو کیا دیکھتے ہیں کہ بیابان میں ایک چھوٹی چھوٹی گول گول چیز ، ایسی چھوٹی جیسے پالے کے دانے ہوتے ہیں ، زمین پر پڑی ہے ۔ بنی اسرائیل اسے دیکھ کر آپس میں کہنے لگے مَن؟ کیونکہ وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ کیا ہے ( باب 16 ۔ آیت 13 ۔ 15 ) ۔ اور بنی اسرائیل نے اس کا نام من رکھا اور وہ دھنیے کے بیج کی طرح سفید اور اس کا مزہ شہد کے بنے ہوئے پوئے کی طرح تھا ( آیت 31 ) ۔ گنتی میں اس کی مزید تشریح یہ ملتی ہے ؟ لوگ ادھر ادھر جا کر اسے جمع کرتے اور اسے چکی میں پیستے یا اوکھلی میں کوٹ لیتے تھے ۔ پھر اسے ہانڈیوں میں ابال کر روٹیاں بناتے تھے ۔ اس کا مزہ تازہ تیل کا سا تھا ۔ اور رات کو جب لشکر گاہ میں اوس پڑتی تو اس کے ساتھ من بھی گرتا تھا اب 11 ۔ آیت 8 ۔ 9 ) یہ بھی ایک معجزہ تھا ۔ کیونکہ 40 برس بعد جب بنی اسرائیل کے لیے خوراک کے فطری ذرائع بہم پہنچ گئے تو یہ سلسلہ بند کر دیا گیا ۔ اب نہ اس علاقے میں بٹیروں کی وہ کثرت ہے ، نہ من ہی کہیں پایا جاتا ہے ۔ تلاش و جستجو کرنے والوں نے ان علاقوں کو چھان مارا ہے جہاں بائیبل کے بیان کے مطابق بنی اسرائیل نے 40 سال تک دشت نوردی کی تھی ۔ من ان کو کہیں نہ ملا ۔ البتہ کاروباری لوگ خریداروں کو بیوقوف بنانے کے لیے من کا حلوا ضرور بیچتے پھرتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani