Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

22۔ 1 یعنی اگر واقع آسمان و زمین میں دو معبود ہوتے تو کائنات میں تصرف کرنے والی دو ہستیاں ہوتیں، دو کا ارادہ و شعور اور مرضی کار فرما ہوتی اور جب دو ہستیوں کا ارادہ اور فیصلہ کائنات میں چلتا تو یہ نظم کائنات اس طرح قائم رہ ہی نہیں سکتا تھا جو ابتدائے آفرینش سے، بغیر کسی ادنیٰ توقف کے قائم چلا آرہا ہے۔ کیونکہ دونوں کا ارادہ ایک دوسرے سے ٹکراتا۔ دونوں کی مرضی کا آپس میں تصادم ہوتا، دونوں کے اختیارات ایک دوسرے کے مخالف سمت میں استعمال ہوتے۔ جس کا نتیجہ ابتری اور فساد کی صورت میں رونما ہوتا اور اب تک ایسا نہیں ہوا تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ کائنات میں صرف ایک ہی ہستی ہے جس کا ارادہ ومشیت کار فرما ہے جو کچھ بھی ہوتا ہے صرف اور صرف اسی کے حکم پر ہوتا ہے اس کے دئیے ہوئے کو کوئی روک نہیں سکتا اور جس سے وہ اپنی رحمت روک لے اس کو دینے والا کوئی نہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٨] بڑی موٹی سی بات ہے کہ ایک میان میں دو تلواریں نہیں سما سکتیں۔ ایک اقلیم کے دو فرمانروا نہیں ہوسکتے۔ حتیٰ کہ کوئی بھی ادارہ اس وقت تک چل ہی نہیں سکتا جب تک کہ اس کا کرتا دھرتا صرف ایک شخص نہ ہو۔ جبکہ ایک گھر تک کا بھی انتظام اس وقت تک چل نہیں سکتا جب تک کہ سربراہ ایک نہ ہو۔ اور اگر میاں بیوی میں بھی اقتدار کی جنگ ہو تو اس کا نظام بھی تباہ و برباد ہوجائے گا۔ پھر اس عظیم کارخانہ کائنات کے لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کے سربراہ ایک سے زیادہ ہوں ؟ چونکہ یہ ایسی عام مثال ہے جس سے ہر شخص کو سابقہ پڑتا ہے۔ لہذا اس کے مختلف پہلوؤں پر ہر شخص خود بھی غور کرسکتا ہے یہاں تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں۔ البتہ ایک شبہ کا ازالہ ضروری ہے۔ جاہل لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح ایک بادشاہ نے اپنے تحت بیشمار امیر وزیر رکھے ہوتے ہیں۔ جو تدبیر مملکت میں اس کی مدد کرتے ہیں اور وہ اس کے محکوم ہی ہوتے ہیں۔ اس کے برابر کی چوٹ نہیں ہوتے یہی صورت ہمارے معبودوں کی ہے۔ اللہ نے کچھ برگزیدہ ہستیوں کو کچھ اختیارات تفویض کر رکھے ہیں۔ جو اس کے محکوم اور اس کے بندے ہی ہیں۔ تاہم اللہ نے انھیں بھی کچھ اختیارات تفویض کر رکھے ہیں۔ اس دلیل میں سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ ان لوگوں نے اللہ کی معرفت کو سمجھا ہی نہیں۔ بادشاہ ایک عاجز مخلوق ہے۔ وہ خود نہ ہر ایک کی فریاد سن سکتا ہے اور نہ سالمیت کا انتظام چلا سکتا ہے۔ اسے مددگاروں کی احتیاج ہے، ان کے بغیر اس کا کام چل ہی نہیں سکتا۔ جبکہ اللہ تعالیٰ ایسی تمام کمزوریوں سے پاک ہے۔ اسے کسی طرح کے مددگاروں کی ضرورت نہیں۔ وہ ہر ایک کی فرید خود سنتا ہے اور قبول کرتا ہے اور سارے نظام کائنات کو خود ہی چلا رہا ہے اور ان کاموں کے لئے اسے کسی کی۔۔ احتیاج نہیں ہے اور جو فرشتے مدبرات امر ہیں۔ انھیں بھی کچھ اختیارات تفویض نہیں کئے گئے بلکہ وہ اللہ ہی کے حکم کے پابند اور اس حکم کے سامنے مجبور و بےبس ہوتے ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لَوْ كَانَ فِيْهِمَآ اٰلِهَةٌ اِلَّا اللّٰهُ ۔۔ : یعنی ان لوگوں نے تو زمین سے لے کر کئی معبود بنا رکھے ہیں، جب کہ زمین اور آسمان دونوں میں ایک اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، فرمایا : (وَهُوَ الَّذِيْ فِي السَّمَاۗءِ اِلٰهٌ وَّفِي الْاَرْضِ اِلٰهٌ ۭ وَهُوَ الْحَكِيْمُ الْعَلِيْمُ ) [ الزخرف : ٨٤ ] ” اور وہی ہے جو آسمانوں میں معبود ہے اور زمین میں بھی معبود ہے اور وہی کمال حکمت والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔ “ کیونکہ معبود برحق تو وہ ہے جو پوری قدرت اور مکمل اختیار رکھنے والا ہو اور کسی معاملے میں عاجز نہ ہو۔ اب اگر زمین و آسمان میں اللہ تعالیٰ کے سوا اور بھی قادر و مختار ہوتے تو کائنات کا یہ سلسلہ کبھی کا درہم برہم ہوچکا ہوتا۔ کیونکہ ان سب کی ہمیشہ کشمکش رہتی اور کوئی چیز اپنی مرتب شکل میں نہ بن سکتی اور نہ چل سکتی، جیسا کہ فرمایا : (مَا اتَّخَذَ اللّٰهُ مِنْ وَّلَدٍ وَّمَا كَانَ مَعَهٗ مِنْ اِلٰهٍ اِذًا لَّذَهَبَ كُلُّ اِلٰهٍۢ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلٰي بَعْضٍ ۭ سُبْحٰنَ اللّٰهِ عَمَّا يَصِفُوْن) [ المؤمنون : ٩١ ] ” نہ اللہ نے (اپنی) کوئی اولاد بنائی اور نہ کبھی اس کے ساتھ کوئی معبود تھا، اس وقت ضرور ہر معبود، جو کچھ اس نے پیدا کیا تھا، اسے لے کر چل دیتا اور یقیناً ان میں سے بعض بعض پر چڑھائی کردیتا۔ پاک ہے اللہ اس سے جو وہ بیان کرتے ہیں۔ “ اسی طرح ان میں سے ہر ایک اپنی قوت و اختیار منوانے کے لیے پوری کائنات کا اختیار حاصل کرنے کی کوشش کرتا اور عرش پر قبضے کی جدو جہد کرتا، نتیجہ پوری کائنات کی تباہی ہوتا، فرمایا : (قُلْ لَّوْ كَانَ مَعَهٗٓ اٰلِـهَةٌ كَمَا يَقُوْلُوْنَ اِذًا لَّابْتَغَوْا اِلٰى ذِي الْعَرْشِ سَبِيْلًا) [ بني إسرائیل : ٤٢ ] ” کہہ دے اگر اس کے ساتھ کچھ اور معبود ہوتے، جیسا کہ یہ کہتے ہیں تو اس وقت وہ عرش والے کی طرف کوئی راستہ ضرور ڈھونڈتے۔ “ - خلاصہ یہ کہ زمین و آسمان میں کسی فساد کا نہ ہونا اور پوری کائنات میں زبردست ترتیب اور ہم آہنگی کا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ ان کا مالک اور انھیں چلانے والا ایک ہی ہے۔ یہ دلیل بہت زبردست، نہایت ہی سادہ اور آسانی سے سمجھ میں آنے والی ہے۔ ایک چھوٹے سے گھر کا نظام کبھی درست نہیں چل سکتا اگر اس کا ذمہ دار ایک نہ ہو اور نہ ایک مملکت میں دو فرماں روا رہ سکتے ہیں، تو اتنی بڑی کائنات کا نظام دو فرماں رواؤں کی صورت میں کیسے چل سکتا ہے ؟ علمائے اسلام نے اس دلیل کی کئی طرح سے تشریح فرمائی ہے، میں ان میں سے صرف دو تشریحات نقل کرتا ہوں۔ ایک یہ کہ اگر ہم دو معبود فرض کریں تو کسی چیز کو حرکت دینے یا ساکن رکھنے میں اگر دونوں میں اختلاف ہوجائے تو یہ ناممکن ہے کہ دونوں کا ارادہ پورا ہوجائے اور یہ بھی ناممکن ہے کہ کسی کا ارادہ بھی پورا نہ ہو (کیونکہ پھر وہ قادر و مختار ہی کیا ہوئے ؟ ) اگر صرف ایک کا ارادہ پورا ہو تو دوسرا عاجز ٹھہرا، جو کسی صورت معبود برحق نہیں ہوسکتا اور دونوں کے اختلاف کا ممکن ہونا اس کے واقع ہونے کے قائم مقام ہے۔ دوسری تشریح یہ ہے کہ عدم سے وجود میں آنے والا ہر جز ناممکن ہے کہ دو قدرتوں کے نتیجے میں پیدا ہو۔ جب وہ دونوں میں سے ایک کی قدرت سے وجود میں آیا، تو دوسرا زائد اور بےکار ٹھہرا، جس کا اس جز میں کوئی دخل نہیں۔ اسی طرح کائنات کے ہر جز اور ہر ذرے میں غور کرتے جائیں، نتیجہ صرف ایک قادر و مختار نکلے گا۔ [ ابن عطیہ فی المحرّر الوجیز ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

لَوْ كَانَ فِيْهِمَآ اٰلِهَةٌ یہ توحید کی دلیل عادی ہے جو عام عادات کے اعتبار پر مبنی ہے اور دلیل عقلی کی طرف بھی اشارہ ہے جس کی مختلف تقریریں علم کلام کی کتابوں میں مذکور ہیں اور دلیل عادی اس بنا پر ہے کہ اگر زمین و آسمان کے دو خدا اور دونوں مالک و مختار ہوں تو ظاہر یہ ہے کہ دونوں کے احکام پورے پورے زمین و آسمان میں نافذ ہونے چاہئیں اور عادة یہ ممکن نہیں کہ جو حکم ایک دے وہی دوسرا بھی دے یا جس چیز کو ایک پسند کرے دوسرا بھی اس کو پسند کرے اس لئے کبھی کبھی اختلاف رائے اور اختلاف احکام ہونا ناگزیر ہے اور جب دو خداؤں کے احکام زمین و آسمان میں مختلف ہوئے تو نتیجہ ان دونوں کے فساد کے سوا کیا ہے۔ ایک خدا چاہتا ہے کہ اس وقت دن ہو، دوسرا چاہتا ہے رات ہو، ایک چاہتا ہے بارش ہو دوسرا چاہتا ہے نہ ہو، تو دونوں کے متضاد احکام کس طرح جاری ہوں گے اور اگر ایک مغلوب ہوگیا تو مالک مختار اور خدا نہ رہا۔ اس پر یہ شبہ کہ دونوں آپس میں مشورہ کر کے احکام جاری کیا کریں اس میں کیا بعد ہے اس کے جوابات علم کلام کی کتابوں میں بڑی تفصیل سے آئے ہیں۔ اتنی بات یہاں بھی سمجھ لی جائے کہ اگر دونوں مشورہ کے پابند ہوئے ایک بغیر دوسرے کے مشورے کے کوئی کام نہ کرسکے تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ ان میں سے ایک بھی مالک و مختار نہیں، دونوں ناقص ہیں اور ناقص خدا نہیں ہوسکتا اور شاید اگلی آیت

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لَوْ كَانَ فِيْہِمَآ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللہُ لَفَسَدَتَا۝ ٠ۚ فَسُبْحٰنَ اللہِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُوْنَ۝ ٢٢- كان - كَانَ «3» : عبارة عمّا مضی من الزمان، وفي كثير من وصف اللہ تعالیٰ تنبئ عن معنی الأزليّة، قال : وَكانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيماً [ الأحزاب 40] ، وَكانَ اللَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيراً- [ الأحزاب 27] وما استعمل منه في جنس الشیء متعلّقا بوصف له هو موجود فيه فتنبيه علی أن ذلک الوصف لازم له، قلیل الانفکاک منه . نحو قوله في الإنسان : وَكانَ الْإِنْسانُ كَفُوراً [ الإسراء 67] وَكانَ الْإِنْسانُ قَتُوراً [ الإسراء 100] ، وَكانَ الْإِنْسانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا [ الكهف 54] فذلک تنبيه علی أن ذلک الوصف لازم له قلیل الانفکاک منه، وقوله في وصف الشّيطان : وَكانَ الشَّيْطانُ لِلْإِنْسانِ خَذُولًا [ الفرقان 29] ، وَكانَ الشَّيْطانُ لِرَبِّهِ كَفُوراً [ الإسراء 27] . وإذا استعمل في الزمان الماضي فقد يجوز أن يكون المستعمل فيه بقي علی حالته كما تقدّم ذكره آنفا، ويجوز أن يكون قد تغيّر نحو : كَانَ فلان کذا ثم صار کذا . ولا فرق بين أن يكون الزمان المستعمل فيه کان قد تقدّم تقدما کثيرا، نحو أن تقول : کان في أوّل ما أوجد اللہ تعالی، وبین أن يكون في زمان قد تقدّم بآن واحد عن الوقت الذي استعملت فيه کان، نحو أن تقول : کان آدم کذا، وبین أن يقال : کان زيد هاهنا، ويكون بينک وبین ذلک الزمان أدنی وقت، ولهذا صحّ أن يقال : كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا - [ مریم 29] فأشار بکان أنّ عيسى وحالته التي شاهده عليها قبیل . ولیس قول من قال : هذا إشارة إلى الحال بشیء، لأنّ ذلك إشارة إلى ما تقدّم، لکن إلى زمان يقرب من زمان قولهم هذا . وقوله : كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ [ آل عمران 110] فقد قيل : معنی كُنْتُمْ معنی الحال «1» ، ولیس ذلک بشیء بل إنما ذلک إشارة إلى أنّكم کنتم کذلک في تقدیر اللہ تعالیٰ وحكمه، وقوله : وَإِنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ [ البقرة 280] فقد قيل : معناه : حصل ووقع، والْكَوْنُ يستعمله بعض الناس في استحالة جو هر إلى ما هو دونه، وكثير من المتکلّمين يستعملونه في معنی الإبداع . وكَيْنُونَةٌ عند بعض النّحويين فعلولة، وأصله :- كَوْنُونَةٌ ، وكرهوا الضّمة والواو فقلبوا، وعند سيبويه «2» كَيْوِنُونَةٌ علی وزن فيعلولة، ثم أدغم فصار كَيِّنُونَةً ، ثم حذف فصار كَيْنُونَةً ، کقولهم في ميّت : ميت . وأصل ميّت : ميوت، ولم يقولوا كيّنونة علی الأصل، كما قالوا : ميّت، لثقل لفظها . و «الْمَكَانُ» قيل أصله من : كَانَ يَكُونُ ، فلمّا كثر في کلامهم توهّمت المیم أصليّة فقیل :- تمكّن كما قيل في المسکين : تمسکن، واسْتَكانَ فلان : تضرّع وكأنه سکن وترک الدّعة لضراعته . قال تعالی: فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون 76] .- ( ک و ن ) کان ۔- فعل ماضی کے معنی کو ظاہر کرتا ہے پیشتر صفات باری تعا لےٰ کے متعلق استعمال ہو تو ازلیت ( یعنی ہمیشہ سے ہے ) کے معنی دیتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَكانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيماً [ الأحزاب 40] اور خدا ہر چیز واقف ہے ۔ وَكانَ اللَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيراً [ الأحزاب 27] اور خدا ہر چیز پر قادر ہے ۔ اور جب یہ کسی جنس کے ایسے وصف کے متعلق استعمال ہو جو اس میں موجود ہو تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ یہ وصف اس اسم کے ساتھ لازم وملزوم رہتا ہے اور بہت ہی کم اس علیحدہ ہوتا ہے ۔ چناچہ آیات : ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ كَفُوراً [ الإسراء 67] اور انسان ہے ہی ناشکرا ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ قَتُوراً [ الإسراء 100] اور انسان دل کا بہت تنگ ہے ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا [ الكهف 54] اور انسان سب چیزوں سے بڑھ کر جھگڑا لو ہے ، میں تنبیہ کی ہے کہ یہ امور انسان کے اوصاف لازمہ سے ہیں اور شاذ ونا ور ہی اس سے منفک ہوتے ہیں اسی طرح شیطان کے متعلق فرمایا : ۔ كانَ الشَّيْطانُ لِلْإِنْسانِ خَذُولًا[ الفرقان 29] اور شیطان انسان کی وقت پر دغا دینے والا ہے ۔ وَكانَ الشَّيْطانُ لِرَبِّهِ كَفُوراً [ الإسراء 27] اور شیطان اپنے پروردگار کی نعمتوں کا کفران کرنے والا یعنی نا قدرا ہے ۔ جب یہ فعل زمانہ ماضی کے متعلق استعمال ہو تو اس میں یہ بھی احتمال ہوتا ہے کہ وہ چیز تا حال اپنی پہلی حالت پر قائم ہو اور یہ بھی کہ اس کی وہ حالت متغیر ہوگئی ہو مثلا کان فلان کذا ثم صار کذا ۔ یعنی فلاں پہلے ایسا تھا لیکن اب اس کی حالت تبدیل ہوگئی ہے نیز یہ ماضی بعید کے لئے بھی آتا ہے جیسے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے فلاں چیز پیدا کی تھی اور ماضی قریب کے لئے بھی حتی کہ اگر وہ حالت زمانہ تکلم سے ایک لمحہ بھی پہلے - ہوتو اس کے متعلق کان کا لفظ استعمال ہوسکتا ہے لہذا جس طرح کان ادم کذا کہہ سکتے ہیں اسی طرح کان زید ھھنا بھی کہہ سکتے ہیں ۔ اس بنا پر آیت : ۔ كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا[ مریم 29]( وہ بولے کہ ) ہم اس سے کہ گود کا بچہ ہے کیونکہ بات کریں ۔ کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ جو ابھی گو د کا بچہ تھا یعنی کم عمر ہے اور یہ بھی کہ جو ابھی گود کا بچہ ہے یعنی ماں کی گود میں ہے لیکن یہاں زمانہ حال مراد لینا بےمعنی ہے اس میں زمانہ قریب ہے جیسے آیت : ۔ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ [ آل عمران 110] جتنی امتیں ہوئیں تم ان سب سے بہتر ہو ۔ میں بھی بعض نے کہا ہے کہ کنتم زمانہ حالپر دلالت کرتا ہے لیکن یہ معنی صحیح نہیں ہیں بلکہ معنی یہ ہیں کہ تم اللہ کے علم اور حکم کے مطابق بہتر تھے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ [ البقرة 280] اور اگر ( قرض لینے والا ) تنگ دست ہو ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں کان کے معنی کسی چیز کا واقع ہوجانا کے ہیں اور یہ فعل تام ہے ۔ یعنی اگر وہ تنگدست ہوجائے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کون کا لفظ کسی جوہر کے اپنے سے پست تر جو میں تبدیل ہونے کے لئے آتا ہے اور اکثر متکلمین اسے معنی ابداع میں استعمال کرتے ہیں بعض علامائے نحو کا خیال ہے کہ کینونۃ کا لفظ اصل میں کو نو نۃ بر وزن فعلولۃ ہے ۔ ثقل کی وجہ سے واؤ سے تبدیل ہوگئی ہے مگر سیبو کے نزدیک یہ اصل میں کیونو نۃ بر وزن فیعلولۃ ہے ۔ واؤ کو یا میں ادغام کرنے سے کینونۃ ہوگیا پھر ایک یاء کو تخفیف کے لئے گرادیا تو کینونۃ بن گیا جیسا کہ میت سے میت بنا لیتے ہیں جو اصل میں میوت ہے ۔ فرق صرف یہ ہے ۔ کہ کینو نۃ ( بتشدید یاء کے ساتھ اکثر استعمال ہوتا ہے المکان ۔ بعض کے نزدیک یہ دراصل کان یکون ( ک و ن ) سے ہے مگر کثرت استعمال کے سبب میم کو اصلی تصور کر کے اس سے تملن وغیرہ مشتقات استعمال ہونے لگے ہیں جیسا کہ مسکین سے تمسکن بنا لیتے ہیں حالانکہ یہ ( ص ک ن ) سے ہے ۔ استکان فلان فلاں نے عاجز ی کا اظہار کیا ۔ گو یا وہ ٹھر گیا اور ذلت کی وجہ سے سکون وطما نینت کو چھوڑدیا قرآن میں ہے : ۔ فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون 76] تو بھی انہوں نے خدا کے آگے عاجزی نہ کی ۔- فسد - الفَسَادُ : خروج الشیء عن الاعتدال، قلیلا کان الخروج عنه أو كثيرا،. قال تعالی: لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون 71] ، - ( ف س د ) الفساد - یہ فسد ( ن ) الشئی فھو فاسد کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کے حد اعتدال سے تجاوز کر جانا کے ہیں عام اس سے کہ وہ تجاوز کم ہو یا زیادہ قرآن میں ہے : ۔ لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون 71] تو آسمان و زمین ۔۔۔۔۔ سب درہم برہم ہوجائیں ۔- سبحان - و ( سُبْحَانَ ) أصله مصدر نحو : غفران، قال فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم 17] ، وسُبْحانَكَ لا عِلْمَ لَنا [ البقرة 32] ، وقول الشاعرسبحان من علقمة الفاخر - «1» قيل : تقدیره سبحان علقمة علی طریق التّهكّم، فزاد فيه ( من) ردّا إلى أصله «2» ، وقیل : أراد سبحان اللہ من أجل علقمة، فحذف المضاف إليه . والسُّبُّوحُ القدّوس من أسماء اللہ تعالیٰ «3» ، ولیس في کلامهم فعّول سواهما «4» ، وقد يفتحان، نحو : كلّوب وسمّور، والسُّبْحَةُ : التّسبیح، وقد يقال للخرزات التي بها يسبّح : سبحة .- ( س ب ح ) السبح - ۔ سبحان یہ اصل میں غفران کی طرح مصدر ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم 17] سو جس وقت تم لوگوں کو شام ہو اللہ کی تسبیح بیان کرو ۔ تو پاک ذات ) ہے ہم کو کچھ معلوم نہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( سریع) (218) سبحان من علقمۃ الفاخر سبحان اللہ علقمہ بھی فخر کرتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں سبحان علقمۃ ہے اس میں معنی اضافت کو ظاہر کرنے کے لئے زائد ہے اور علقمۃ کی طرف سبحان کی اضافت بطور تہکم ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں ، ، سبحان اللہ من اجل علقمۃ ہے اس صورت میں اس کا مضاف الیہ محذوف ہوگا ۔ السبوح القدوس یہ اسماء حسنیٰ سے ہے اور عربی زبان میں فعول کے وزن پر صرف یہ دو کلمے ہی آتے ہیں اور ان کو فاء کلمہ کی فتح کے ساتھ بھی پڑھا جاتا ہے جیسے کلوب وسمود السبحۃ بمعنی تسبیح ہے اور ان منکوں کو بھی سبحۃ کہاجاتا ہے جن پر تسبیح پڑھی جاتی ہے ۔- عرش - العَرْشُ في الأصل : شيء مسقّف، وجمعه عُرُوشٌ. قال تعالی: وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة 259] والعَرْشُ : شبهُ هودجٍ للمرأة شبيها في الهيئة بِعَرْشِ الکرمِ ، وعَرَّشْتُ البئرَ : جعلت له عَرِيشاً. وسمّي مجلس السّلطان عَرْشاً اعتبارا بعلوّه . قال : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف 100]- ( ع رش ) العرش - اصل میں چھت والی چیز کو کہتے ہیں اس کی جمع عروش ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة 259] اور اس کے مکانات اپنی چھتوں پر گرے پڑے تھے ۔ العرش چھولدادی جس کی ہیت انگور کی ٹٹی سے ملتی جلتی ہے اسی سے عرشت لبئر ہے جس کے معنی کو یں کے اوپر چھولداری سی بنانا کے ہیں بادشاہ کے تخت کو بھی اس کی بلندی کی وجہ سے عرش کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف 100] اور اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٢) اور زمین میں یا آسمان میں اگر اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور خالق ہوتا تو دونوں کی مخلوقات بھی کبھی کی درہم برہم ہوجاتیں، سو ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ جو کہ مالک ہے عرش کا وہ ان کی باتوں سے جو اس کے لیے اولاد اور شریک ثابت کر رہے ہیں پاک ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٢ (لَوْ کَانَ فِیْہِمَآ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللّٰہُ لَفَسَدَتَا ج) ” - اس کائنات کا نظم و ضبط زبان حال سے گواہی دے رہا ہے کہ یہ ایک وحدت ( ) ہے۔ اس کا مدبر ومنتظم ایک ہی ہے اور اس کے انتظام میں ایک سے زیادہ آراء کی تعمیل و تنفیذ کا کوئی امکان نہیں ہے۔ جیسا کہ سورة بنی اسرائیل میں فرمایا گیا : (قُلْ لَّوْ کَانَ مَعَہٗٓ اٰلِہَۃٌ کَمَا یَقُوْلُوْنَ اِذًا لاَّبْتَغَوْا اِلٰی ذِی الْعَرْشِ سَبِیْلاً ) ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ( ان سے) کہیے کہ اگر اللہ کے ساتھ دوسرے معبود ہوتے جیسا کہ یہ کہتے ہیں تب تو وہ ضرورتلاش کرتے صاحب عرش کی طرف کوئی راستہ “۔ اس سے یہ دلیل بھی نکلتی ہے کہ کوئی بھی ادارہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا اس کا سربراہ ایک ہی ہونا چاہیے اور اگر کسی ادارے کے ایک سے زیادہ سربراہ ہوں گے تو اس کا نظم و نسق تباہ ہوجائے گا۔ یہی مثال مرد کی قوامیت کی دلیل بھی ہے۔ ظاہر ہے کہ خاندان جیسا اہم اور حساس ادارہ ایک جیسے اختیارات کے حامل دو سربراہوں کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اور جب یہ ثابت ہوگیا کہ سربراہ ایک ہی ہونا چاہیے تو پھر اس کا زیادہ حق دار مرد ہی ہے ‘ کیونکہ قرآن کے فرمان کے مطابق مرد ہی ” قوام “ ہے : (اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ ط) (النساء : ٣٤) ” مرد حاکم ہیں عورتوں پر اس بنا پر کہ اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور اس لیے بھی کہ وہ اپنا مال خرچ کرتے ہیں “۔ ہمارے ہاں ملکی سطح پر زیادہ تر انتظامی مسائل پارلیمانی نظام حکومت میں اختیارات کی ثنویت ( ) کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ اس نظام میں سربراہ مملکت اور سربراہ حکومت کے عہدے الگ الگ ہیں۔ ان دو عہدوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم اصولی طور پر ممکن ہی نہیں۔ چناچہ اگر وزیر اعظم با اختیار ہوگا تو صدر کے عہدے کی حیثیت لازمی طور پر نمائشی ہوگی اور اگر صدر فعال ہوگا تو وزیر اعظم کٹھ پتلی بن کر رہ جائے گا۔ اس کے مقابلے میں صدارتی نظام منطقی اور توحیدی نظام ہے جس میں ایک ہی شخصیت سربراہ مملکت بھی ہے اور سربراہ حکومت بھی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :22 یہ استدلال سادہ بھی ہے اور بہت گہرا بھی ۔ سادہ سی بات ، جس کو ایک بدوی ، ایک دیہاتی ، ایک موٹی سی سمجھ کا آدمی بھی بآسانی سمجھ سکتا ہے ، یہ ہے کہ ایک معمولی گھر کا نظام بھی چار دن بخیریت نہیں چل سکتا اگر اس کے دو صاحب خانہ ہوں ۔ اور گہری بات یہ ہے کہ کائنات کا پورا نظام ، زمین کی تہوں سے لے کر بعید ترین سیاروں تک ، ایک ہمہ گیر قانون پر چل رہا ہے ۔ یہ ایک لمحہ کے لیے بھی قائم نہیں رہ سکتا اگر اس کی بے شمار مختلف قوتوں اور بے حد و حساب چیزوں کے درمیان تناسب اور توازن اور ہم آہنگی اور تعاون نہ ہو ۔ اور یہ سب کچھ اس کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ کوئی اٹل اور غالب و قاہر ضابطہ ان بے شمار اشیاء اور قوتوں کو پوری مناسبت کے ساتھ باہم تعاون کرتے رہنے پر مجبور کر رہا ہو ۔ اب یہ کس طرح تصور کیا جا سکتا ہے کہ بہت سے مطلق العنان فرمانرواؤں کی حکومت میں ایک ضابطہ اس باقاعدگی کے ساتھ چل سکے ؟ نظم کا وجود خود ہی ناظم کی وحدت کو مستلزم ہے ۔ قانون اور ضابطہ کی ہمہ گیری آپ ہی اس بات پر شاہد ہے کہ اختیارات ایک ہی حاکمیت میں مرکوز ہیں اور وہ حاکمیت مختلف حاکموں میں بٹی ہوئی نہیں ہے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو ، تفہیم القرآن ، جلد دوم ، بنی اسرائیل ، حاشیہ 47 جلد سوم ، المومنون ، حاشیہ 85 ) ۔ سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :23 رب العرش ، یعنی کائنات کے تخت سلطنت کا مالک ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

10: یہ توحید کی ایک عام فہم دلیل ہے۔ اور وہ یہ کہ اگر اس کائنات میں ایک سے زیادہ خدا ہوتے تو ہر خدا مستقل خدائی کا حامل ہوتا، اور کوئی کسی کا تابع نہ ہوتا۔ اس صورت میں ان کے فیصلوں کے درمیان اختلاف بھی ہوسکتا تھا۔ اب اگر ایک خدا نے ایک فیصلہ کیا، اور دوسرے خدا نے دوسرا فیصلہ تو یا تو ان میں سے ایک دوسرے کے آگے ہار مان لیتا، تو پھر وہ خدا ہی کیا ہوا جو کسی سے ہار مان لے، یا دونوں اپنے اپنے فیصلے کو نافذ کرنے کے لیے زور لگاتے تو متضاد فیصلوں کی تنفیذ سے آسمان اور زمین کا نظام درہم برہم ہوجاتا۔ اسی دلیل کی ایک دوسری تشریح یہ بھی کی جاسکتی ہے کہ جو لوگ آسمان اور زمین کے لیے الگ الگ خدا مانتے ہیں، ان کا یہ عقیدہ اس لیے بالکل باطل ہے کہ مشاہدے سے یہ بات ثابت ہے کہ یہ پوری کائنات ایک ہی مربوط نظام میں بندھی ہوئی ہے۔ چاند، سورج اور ستاروں سے لے کر دریاؤں، پہاڑوں اور زمین کی نباتات اور جمادات تک سب میں ایک ہم آہنگی پائی جاتی ہے جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ان سب کو ایک ہی ارادے، ایک ہی مشیت اور ایک ہی منصوبہ بندی نے کام پر لگا رکھا ہے۔ اگر آسمان اور زمین کے خدا الگ الگ ہوتے تو کائنات میں اس ربط اور ہم آہنگی کا فقدان ہوتا، جس کے نتیجے میں یہ سارا نظام درہم برہم ہوجاتا۔