Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٩] یعنی اللہ تعالیٰ اس کائنات کا ایسا مطلق العنان اور مختار کل فرمانروا ہے کہ اس کائنات میں جو کچھ بھی کرے کسی کے سامنے جواب دہ نہیں۔ جبکہ اس کے سوا جتنی بھی مخلوق ہے سب اس کے سامنے جوابدہ ہیں۔ اور الٰہ وہی ذات ہوسکتی ہے۔ جس میں یہ صفت بدرجہ اتم پائی جاتی ہو۔ یعنی وہ کسی کے سامنے جواب دہ نہ ہو۔ اور جس سے باز پرس ہوسکتی ہے وہ الٰہ نہیں ہوسکتا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لَا يُسْــَٔـلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْــَٔــلُوْنَ ۔۔ : اللہ تعالیٰ کی اس صفت کے دو مطلب ہیں، ایک یہ کہ ہر چیز کا مالک اور سلطان وہ خود ہے، کسی کی کیا جرأت کہ اس کے کسی کام کے متعلق پوچھے کہ ایسا کیوں کیا ؟ کیونکہ اپنی ملکیت میں وہ جو چاہے کرے۔ اگر وہ زمین و آسمان کی تمام مخلوق کو عذاب دے تو بھی عین عدل ہوگا، کیونکہ وہ مالک ہے اور اپنی چیز سے جو چاہے کرے۔ جس طرح انسان اپنی خریدی ہوئی ایک اینٹ کو مکان کی پیشانی پر لگا دیتا ہے، دوسری کو چولھے یا بھٹی میں لگا دیتا ہے اور کوئی اسے ظالم نہیں کہتا، حالانکہ وہ اینٹ کا خالق بھی نہیں، صرف عارضی مالک ہے اور اگر اللہ تعالیٰ مخلوق پر رحم فرمائے تو اس کا فضل ہے۔ دوسرا یہ کہ اس کا ہر کام اتنا محکم اور درست ہے کہ اس میں کوئی خامی یا خلل نہیں، اس نے جو کیا اور جو فرمایا سب نہایت عمدہ اور کمال حسن و خوبی والا ہے۔ اس لیے اس کے کسی کام کے متعلق سوال یا اعتراض کی گنجائش نہیں۔ مفسر بقاعی نے ایک قدیم فلسفی سے نقل کیا ہے کہ کسی نے اس سے پوچھا، جب اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے ہے اور اس کے سوا کوئی چیز نہ تھی تو اس نے یہ جہان کیوں بنایا ؟ اس نے جواب دیا کہ اس سے ” کیوں “ کا سوال ہو ہی نہیں سکتا، کیونکہ کوئی اس سے اوپر ہو تو یہ سوال کرے۔ اس کے برعکس لوگوں سے دونوں وجہوں سے سوال ہوسکتا ہے اور ہوگا، کیونکہ وہ مالک نہیں غلام ہیں اور مالک غلام سے پوچھ سکتا ہے اور پوچھتا ہے کہ اس نے کوئی کام کیوں کیا اور اس لیے کہ ان کے ہر کام میں خامی اور خلل موجود ہے۔ قیامت کے دن سوال کا ذکر کئی آیات میں ہے، دیکھیے سورة حجر (٩٢) اور صافات (٢٤) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

لَا يُسْــَٔـلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْــَٔــلُوْنَ میں بھی اس طرف اشارہ پایا جاتا ہے کہ جو شخص کسی قانون کا پابند ہو جس کے افعال و اعمال پر کسی کو مواخذہ کرنے کا حق ہو وہ خدا نہیں ہو سکتا۔ خدا وہ ہی ہے جو کسی کا پابند نہ ہو، جس سے کسی کو سوال کرنے کا حق نہ ہو۔ اگر دو خدا ہوں اور دونوں مشورہ کے پابند ہوں تو ہر ایک کو دوسرے سے سوال کرنے اور ترک مشورہ پر مواخذہ کرنے کا حق لازمی ہے جو خود منصب خدائی کے منافی ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لَا يُسْــَٔـلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَہُمْ يُسْــَٔــلُوْنَ۝ ٢٣- سأل - السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. - ( س ء ل ) السؤال - ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔- فعل - الفِعْلُ : التأثير من جهة مؤثّر، وهو عامّ لما کان بإجادة أو غير إجادة، ولما کان بعلم أو غير علم، وقصد أو غير قصد، ولما کان من الإنسان والحیوان والجمادات، والعمل مثله، - ( ف ع ل ) الفعل - کے معنی کسی اثر انداز کی طرف سے اثر اندازی کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ تاثیر عمدگی کے ساتھ ہو یا بغیر عمدگی کے ہو اور علم سے ہو یا بغیر علم کے قصدا کی جائے یا بغیر قصد کے پھر وہ تاثیر انسان کی طرف سے ہو یا دو سے حیوانات اور جمادات کی طرف سے ہو یہی معنی لفظ عمل کے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٣) اللہ تعالیٰ جو کچھ کہتا کرتا اور حکم دیتا ہے اس سے کوئی باز پرس نہیں کرسکتا اور بندوں کے اعمال واقوال پر باز پرس کی جاسکتی ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani