Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

حق سے غافل مشرک ان لوگوں نے اللہ کے سوا جن جن کو معبود بنا رکھا ہے ان کی عبادت پر ان کے پاس کوئی دلیل نہیں اور ہم جس اللہ کی عبادت کررہے ہیں اس میں سچے ہیں ہمارے ہاتھوں میں اعلیٰ تر دلیل کلام اللہ موجود ہے اور اس سے پہلے کی تمام الہامی کتابیں اسی کی دلیل میں باآواز بلند شہادت دیتی ہیں جو توحید کی موافقت میں اور کافروں کی خود پرستی کے خلاف میں ہیں ۔ جو کتاب جس پیغمبر پر اتری اس میں یہ بیان موجود رہا کہ اللہ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں لیکن اکثر مشرک حق سے غافل ہیں اور اللہ کی باتوں سے منکر ہیں ۔ تمام رسولوں کو توحید الٰہی کی ہی تلقین ہوتی رہی ۔ فرمان ہے آیت ( وَسْـَٔــلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُّسُلِنَآ اَجَعَلْنَا مِنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ اٰلِهَةً يُّعْبَدُوْنَ 45؀ۧ ) 43- الزخرف:45 ) تجھ سے پہلے جو انبیاء گزرے ہیں تو خود پوچھ لے کہ ہم نے ان کے لئے اپنے سوا اور کوئی معبود مقرر کیا تھا کہ وہ اس کی عبادت کرتے ہوں؟ اور آیت میں ہے ( وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ 36؀ ) 16- النحل:36 ) ہم نے ہر امت میں اپنا پیغمبر بھیجا جس نے لوگوں میں اعلان کیا کہ تم سب ایک اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے سوا ہر ایک کی عبادت سے الگ رہو ۔ پس انبیاء کی شہادت بھی یہی ہے اور خود فطرت اللہ بھی اسی کی شاہد ہے ۔ اور مشرکین کی کوئی دلیل نہیں ۔ ان کی ساری حجتیں بیکار ہیں اور ان پر اللہ کا غضب ہے اور ان کے لئے سخت عذاب ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

24۔ 1 مطلب یہ ہے کہ قرآن میں اور اس سے قبل کی دیگر کتابوں میں سب میں صرف ایک ہی معبود کی الوہیت و ربوبیت کا ذکر ملتا ہے۔ لیکن مشرکین اس حق کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں اور بدستور اس توحید سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٠] پہلے دو دلائل عقلی تھے جو اثبات توحید اور شرک کے ابکال پر پیش کئے گئے تھے۔ اب نقلی دلیل کا ذکر کیا کہ ان سے پوچھو کہ ان معبودوں کے جواز پر تمہارے پاس کوئی نقلی دلیل ہے ؟ اگر ہے تو لاؤ دکھاؤ۔ یہ قرآن بھی موجود ہے۔ جو میرے دور کے لوگوں اور میرے بعد آنے والوں کے لئے الہامی کتاب ہے اور تورات و انجیل بھی موجود ہے جو مجھ سے پہلے کے لوگوں کے لئے راہ ہدایت تھے۔ ان میں سے کسی میں بھی یہ بات لکھی ہوئی دکھلا دو کہ اللہ نے فلاں فلاں کو فلاں فلاں اختیارات تفویض کر رکھے ہیں۔ کیونکہ قاعدہ ہے کہ کوئی فرمانروا اگر اپنے لئے کوئی نائب یا مددگار یا امیر وزیر مقرر کرتا ہے تو ان کا ریکارڈ بھی اس کے پاس موجود ہوتا ہے لیکن لوگوں کی اکثریت اتنی جاہل ہے کہ ان باتوں کی طرف غور ہی نہیں کرتی۔ بس تقلید اتباء کی گھسی پٹی راہ پر اندھا دھند بھاگے جارہے ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَمِ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖٓ اٰلِهَةً : یہ بات شرک کے نہایت قبیح اور باطل ہونے کے بیان کے لیے پھر دہرائی۔ - قُلْ هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ : اس سے پہلے شرک کے باطل ہونے کی دو عقلی دلیلیں بیان فرمائیں، ایک ” لَوْ كَانَ فِيْهِمَآ اٰلِهَةٌ“ اور دوسری ” لَا يُسْــَٔـلُ عَمَّا يَفْعَلُ “ ، اس آیت میں اس کی دو نقلی دلیلیں بیان فرمائیں اور کفار سے مطالبہ فرمایا کہ تم بھی اپنی کوئی عقلی یا نقلی دلیل پیش کرو۔ ظاہر ہے کفار کے پاس شرک کی کوئی عقلی دلیل ہے نہ نقلی، ان کا سرمایہ محض وہم و گمان اور نفس کی خواہشیں ہیں (سورۂ نجم : ٢٣، ٢٨۔ یونس : ٦٦) یا آبا و اجداد کی تقلید (زخرف : ٢١ تا ٢٤) اور دونوں میں سے کوئی بھی دلیل یا برہان نہیں ہے۔- ھٰذَا ذِكْرُ مَنْ مَّعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِيْ : یہ توحید کے حق ہونے اور شرک کے باطل ہونے کی دو نقلی دلیلیں ہیں۔ ” مَنْ مَّعِيَ “ (جو میرے ساتھ ہیں) سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے والے مسلم مراد ہیں اور ان کے ذکر سے مراد قرآن کریم ہے جو اس امت کے لیے نصیحت ہے، جیسا کہ فرمایا : (لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكُمْ كِتٰبًا فِيْهِ ذِكْرُكُمْ ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ) [ الأنبیاء : ١٠ ] ” بلاشبہ یقیناً ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا ذکر (تمھاری نصیحت) ہے، تو کیا تم نہیں سمجھتے ؟ “ ” وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِيْ “ (اور مجھ سے پہلے لوگوں کی نصیحت) سے مراد پہلی امتوں پر نازل ہونے والی کتابیں تورات، انجیل، زبور اور صحف ابراہیم وغیرہ ہیں۔ مطلب اس کا یہ ہے کہ یہ قرآن مجید اور پہلی کتابیں تمہاری دسترس میں ہیں، کسی میں شرک کی کوئی دلیل ہے تو دکھا دو ۔ پہلے پچھلے تمام اہل علم کی شہادت یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، فرمایا : (شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۙ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ وَاُولُوا الْعِلْمِ قَاۗىِٕمًۢا بالْقِسْطِ ۭ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ) [ آل عمران : ١٨ ] ” اللہ نے اس بات کی شہادت دی کہ بیشک حقیقت یہ ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتوں نے اور علم والوں نے بھی، اس حال میں کہ وہ انصاف پر قائم ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، سب پر غالب ہے، کمال حکمت والا ہے۔ “ قرآن مجید میں کفار سے شرک کی نقلی دلیل پیش کرنے کا مطالبہ کئی آیات میں آیا ہے۔ دیکھیے سورة احقاف (٣) اور زخرف (٤٥) ۔- بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ ۙ الْحَقَّ : لفظ ” بَلْ “ کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کے سامنے عقلی یا نقلی دلیلیں پیش کرکے یہ امید نہ رکھیں کہ وہ قبول کرلیں گے، کیونکہ یہ جاہل ہیں اور انھیں حق کا علم ہی نہیں۔ ” وَالنَّاسُ أَعْدَاءٌ لِمَا جَھِلُوْا “ (لوگ جس چیز کا علم نہ رکھتے ہوں اس کے دشمن ہوتے ہیں) ۔ ” اَكْثَرُهُمْ “ سے معلوم ہوا کہ وہ سب ایسے نہیں بلکہ ان میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو حق جانتے ہیں مگر عناد کی وجہ سے تسلیم نہیں کرتے اور کچھ ایسے لوگوں کی طرف بھی اشارہ ہے جن کی طبیعتیں حق جان کر اسے قبول کرنے کے لیے آمادہ ہوچکی ہوتی ہیں، جیسے عمر بن خطاب اور ان جیسے دیگر اصحاب ( رض ) تھے اور ایسے لوگوں کی امید پر ہی داعیان حق کا حوصلہ قائم رہتا ہے۔ - فَهُمْ مُّعْرِضُوْنَ : اس میں ان کے جہل کا سبب بیان فرمایا کہ وہ حق معلوم کرنے کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے اور نہ کسی دلیل پر غور کرتے ہیں، جیسے فرمایا : (وَكَاَيِّنْ مِّنْ اٰيَةٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ يَمُرُّوْنَ عَلَيْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُوْنَ ) [ یوسف : ١٠٥ ] ” اور آسمانوں اور زمین میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر سے گزرتے ہیں اور وہ ان سے بےدھیان ہوتے ہیں۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ھٰذَا ذِكْرُ مَنْ مَّعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِيْ ، اس کا ایک مفہوم تو وہ ہے جو خلاصہ تفسیر میں بیان ہوا ہے کہ ذِكْرُ مَنْ مَّعِيَ سے مراد قرآن اور ذِكْرُ مَنْ قَبْلِيْ سے مراد تورات و انجیل اور زبور وغیرہ کتب سابقہ ہیں اور معنی آیت کے یہ ہیں کہ میرا اور میرے ساتھ والوں کا قرآن اور پچھلی امتوں کی کتابیں تورات و انجیل وغیرہ موجود ہیں کیا ان میں سے کسی کتاب میں اللہ کے سوا کسی کی عبادت کی تلقین موجود ہے۔ تورات و انجیل وغیرہ میں تحریف ہوجانے کے باوجود یہ تو اب تک بھی کہیں صاف نہیں کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کر کے دوسرا معبود بنا لو۔ بحر محیط میں اس کا یہ مفہوم بھی بیان کیا گیا ہے کہ یہ قرآن ذکر ہے میرے ساتھ والوں کے لئے بھی اور ذکر ہے مجھ سے پہلوں کے لئے بھی۔ مطلب یہ ہے کہ اپنے ساتھ والوں کے لئے تو دعوت اور تشریح احکام کے لحاظ سے ذکر ہے اور سابقین کے لئے ذکر بایں معنے ہے کہ اس کے ذریعہ سابقین کے احوال و معاملات اور قصص زندہ ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَمِ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اٰلِہَۃً۝ ٠ۭ قُلْ ہَاتُوْا بُرْہَانَكُمْ۝ ٠ۚ ھٰذَا ذِكْرُ مَنْ مَّعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِيْ۝ ٠ۭ بَلْ اَكْثَرُہُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ۝ ٠ۙ الْحَقَّ فَہُمْ مُّعْرِضُوْنَ۝ ٢٤- أخذ ( افتعال، مفاعله)- والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر - ( اخ ذ) الاخذ - الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔- دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔- بره - البُرْهَان : بيان للحجة، وهو فعلان مثل :- الرّجحان والثنیان، وقال بعضهم : هو مصدر بَرِهَ يَبْرَهُ : إذا ابیضّ ، ورجل أَبْرَهُ وامرأة بَرْهَاءُ ، وقوم بُرْهٌ ، وبَرَهْرَهَة «1» : شابة بيضاء .- والبُرْهَة : مدة من الزمان، فالبُرْهَان أوكد الأدلّة، وهو الذي يقتضي الصدق أبدا لا محالة، وذلک أنّ الأدلة خمسة أضرب :- دلالة تقتضي الصدق أبدا .- ودلالة تقتضي الکذب أبدا .- ودلالة إلى الصدق أقرب .- ودلالة إلى الکذب أقرب .- ودلالة هي إليهما سواء .- قال تعالی: قُلْ : هاتُوا بُرْهانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صادِقِينَ [ البقرة 111] ، قُلْ : هاتُوا بُرْهانَكُمْ هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ [ الأنبیاء 24] ، قَدْ جاءَكُمْ بُرْهانٌ مِنْ رَبِّكُمْ [ النساء 174] .- ( ب ر ہ ) البرھان - کے معنی دلیل اور حجت کے ہیں اور یہ ( رحجان وثنیان کی طرح فعلان کے وزن پر ہے ۔ بعض کے نزدیک یہ برہ یبرہ کا مصدر ہے جس کے معنی سفید اور چمکنے کے ہیں صفت ابرہ مونث برھاء ج برۃ اور نوجوان سپید رنگ حسینہ کو برھۃ کہا جاتا ہے البرھۃ وقت کا کچھ حصہ لیکن برھان دلیل قاطع کو کہتے ہیں جو تمام دلائل سے زدر دار ہو اور ہر حال میں ہمیشہ سچی ہو اس لئے کہ دلیل کی پانچ قسمیں ہیں ۔ ( 1 ) وہ جو شخص صدق کی مقتضی ہو ( 2 ) وہ جو ہمیشہ کذب کی مقتضی ہو ۔ ( 3) وہ جو اقرب الی الصدق ہو ( 4 ) جو کذب کے زیادہ قریب ہو ( 5 ) وہ جو اقتضاء صدق وکذب میں مساوی ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ قُلْ : هاتُوا بُرْهانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صادِقِينَ [ البقرة 111] اے پیغمبر ان سے ) کہدو کہ اگر تم سچے ہو تو دلیل پیش کرو ۔ قُلْ : هاتُوا بُرْهانَكُمْ هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ [ الأنبیاء 24] کہو کہ اس بات پر ) اپنی دلیل پیش کرویہ ( میری اور ) میرے ساتھ والوں کی کتاب بھی ہے - كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔- اعرض - وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ- ( ع ر ض ) العرض - اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٤) کیا ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اور معبود بنا رکھے ہیں، آپ ان سے کہہ دیجیے کہ تم اپنی دلیل ان جھوٹے معبودوں کے دعوی پر پیش کرو، یہ میری اور مجھ جیسوں کی کتاب ہے یعنی قرآن کریم ہے اور مجھ سے پہلے جو مومنین، کافرین گزرے ہیں ان کی کتابیں موجود ہیں، ان کی کتابوں میں یہ قطعا موجود نہیں کہ معاذ اللہ، اللہ تعالیٰ کی اولاد ہے یا اس کا کوئی شریک ہے بلکہ ان لوگوں میں زیادہ وہی ہیں جو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کی تصدیق نہیں کرتے، اس وجہ سے کہ وہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کی تصدیق نہیں کرتے، اس وجہ سے کہ وہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کو جھٹلا نے پر تلے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :24 پہلے دو استدلال عقلی تھے ۔ اور یہ استدلال نقلی ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آج تک جتنی کتابیں بھی خدا کی طرف سے دنیا کے کسی ملک میں کسی قوم کے پیغمبر پر نازل ہوئی ہیں ، ان میں سے کسی اور کو بھی بندگی و عبادت کا حق پہنچتا ہے ۔ پھر یہ کیسا مذہب تم لوگوں نے بنا رکھا ہے جس کی تائید میں نہ عقل سے کوئی دلیل ہے اور نہ آسمانی کتابیں ہی جس کے لیے کوئی شہادت فراہم کرتی ہیں ۔ سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :25 یعنی نبی کی بات پر ان کا توجہ نہ کرنا علم پر نہیں بلکہ جہل پر مبنی ہے ۔ حقیقت سے بے خبر ہیں اس لیے سمجھانے والے کی بات کو ناقابل التفات سمجھتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

11: اللہ تعالیٰ کے ایک ہونے پر ایک عقلی دلیل تو پچھلی آیت میں بیان فرما دی گئی ہے جس کی تشریح اوپر کے حاشیے میں گذری۔ اب اس آیت میں نقلی دلیل بیان کی جا رہی ہے کہ تمام آسمانی کتابوں میں توحید کے عقیدے پر ہی زور دیا گیا ہے اس قرآن کریم کے علاوہ جتنی کتابیں پچھلی قوموں پر نازل کی گئیں، ان سب میں یہی عقیدہ بیان ہوا ہے۔