Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

25۔ 1 یعنی تمام پیغمبر بھی یہی توحید کا پیغام لے کر آئے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢١] مشرکوں سے ایسی دلیل کے مطالبہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے خود ہی یہ وضاحت فرما دی کہ میں نے تو جو بھی رسول بھیجا اس کی طرف یہی وحی کرتا رہا کہ میرے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ پھر ان منزل من اللہ کتابوں میں کوئی ایسی بات نکل بھی کیسے سکتی ہے جس میں شرک کے لئے جواز کی سند موجود ہو ؟ اور اتفاق کی بات ہے کہ سابقہ الہامی کتب میں اگرچہ بہت سی تحریف ہوچکی ہے پھر بھی وہ توحید ہی کے دلائل مہیا کرتی ہیں ان میں ایسی کوئی بات نہیں ملتی جس سے شرک کی تائید ہوسکے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ ۔۔ : پچھلی آیت میں ” ھٰذَا ذِكْرُ مَنْ مَّعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِيْ “ کہہ کر جو بات اختصار کے ساتھ کہی گئی تھی اب وہ واضح الفاظ میں تاکید کے ساتھ دہرائی گئی ہے اور جس بات کا حوالہ صرف چند کتابوں کے ساتھ خاص تھا اب تمام رسولوں کے ذکر کے ساتھ اسے عام کرکے بیان کیا گیا ہے۔ چناچہ فرمایا کہ آپ سے پہلے جو بھی رسول ہم نے بھیجا، خواہ اسے کتاب دی یا نہ دی، اسے یہی وحی کرتے رہے کہ میرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، سو میری عبادت کرو۔ مزید دیکھیے سورة نحل (٣٦) معلوم ہوا تمام رسول توحید الوہیت کی دعوت دینے کے لیے مبعوث کیے گئے تھے کہ عبادت صرف اللہ کی کرو اور اسی سے دعا اور فریاد کرو، کیونکہ توحید ربوبیت کے تو اکثر کفار بھی قائل تھے، یعنی وہ اللہ تعالیٰ کو خالق، مالک اور رازق مانتے تھے، مگر پکارتے وقت غیر اللہ کو بھی پکارتے اور انھیں نفع نقصان کا مالک سمجھتے تھے، یا یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ وہ اپنی بات اللہ تعالیٰ سے منوا سکتے ہیں اور ہماری حاجتیں پوری کروا سکتے ہیں۔ دیکھیے سورة یونس (١٨) اور سورة زمر (٣) ۔ - 3 اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنا ذکر پہلے اپنی صفات کے تعدد کی بنا پر جمع متکلم کے ساتھ کیا ہے، مراد اپنی عظمت کا اظہار ہے، پھر جب توحید کا ذکر آیا تو اپنا ذکر واحد متکلم کے ساتھ فرمایا کہ ” لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ “ اس میں ” فَاعْبُدُوْنِ “ (میں) بھی واحد ہے اور ” فاعبدون “ (جو اصل میں ” فَاعْبُدُوْنِيْ “ تھا) کی یائے متکلم بھی واحد ہے، یہاں جمع کا صیغہ استعمال نہیں فرمایا، تاکہ شبہ بھی پیدا نہ ہو کہ معبود ایک سے زیادہ ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْہِ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ۝ ٢٥- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - وحی - أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی،- ( و ح ی ) الوحی - کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔- اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے - عبد - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٥) ہم نے آپ سے پہلے کوئی ایسا پیغمبر نہیں بھیجا جس کے پاس یہ وحی نہ بھیجی ہو کہ اپنی قوم کو تبلیغ کرو کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، تاکہ وہ اس کے قائل ہوجائیں اور میری ہی عبادت کیا کرو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani