29۔ 1 یعنی ان فرشتوں میں سے بھی اگر کوئی اللہ ہونے کا دعویٰ کر دے تو ہم اسے بھی جہنم میں پھینک دیں گے۔ یہ شرطیہ کلام ہے، جس کا وقوع ضروری نہیں۔ مقصد، شرک کی تردید اور توحید کا اثبات ہے۔ جیسے (قُلْ اِنْ كَان للرَّحْمٰنِ وَلَدٌ ڰ فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِيْنَ ) 43 ۔ الزخرف :81) اگر بالفرض رحمٰن کی اولاد ہو تو میں سب سے پہلے اس کی عبادت کرنے والوں میں سے ہوں گا ( لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ ) 39 ۔ الزمر :65) اے پیغمبر اگر تو بھی شرک کرے تو تیرے عمل برباد ہوجائیں گے یہ سب مشروط ہیں جن کا وقوع غیر ضروری ہے۔
[٢٤] ان سب باتوں کے باوجود اگر کوئی شخص بالفرض اپنی خدائی کا دعویٰ کرتا ہے۔ جیسا کہ فرعون اور نمرود جیسے کئی سرکش انسانوں نے کیا تھا تو یہ ان کا اللہ تعالیٰ پر افتراء ہے اور وہ دوہرے تہرے مجرم ہیں۔ ان ظالموں کو ہم جہنم میں پھینک دیں گے اور ان کے جرائم کے مطابق انھیں قرار واقعی سزا دیں گے۔
وَمَنْ يَّقُلْ مِنْهُمْ اِنِّىْٓ اِلٰهٌ ۔۔ : یعنی بالفرض اگر ان فرشتوں یا انبیاء میں سے کوئی یہ کہے کہ اللہ کو چھوڑ کر میری بندگی کرو، تو ہم اسے اس کی جزا جہنم دیں گے۔ فرشتوں اور انبیاء سے یہ بات کبھی سرزد نہیں ہوسکتی۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور تمام انبیاء کو شرک کرنے کی صورت میں تمام اعمال ضائع ہونے کی وعید سنائی ہے، حالانکہ انھوں نے شرک کرنا ہی نہیں تھا۔ دیکھیے سورة انعام (٨٣ تا ٨٨) اور زمر (٦٥) ۔- كَذٰلِكَ نَجْزِي الظّٰلِمِيْنَ : اس سے بڑا ظلم کیا ہوگا کہ ہر لحاظ سے ناقص اور فقیر مخلوق اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں رب اور معبود ہونے کا دعویٰ کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ شرک سے بڑا ظلم اور بےانصافی کوئی نہیں (لقمان : ١٣) اور اسی لیے آخرت میں اس کی معافی کی کوئی صورت نہیں۔ دیکھیے سورة نساء (٤٨، ١١٦) اور مائدہ (٧٢) ۔
وَمَنْ يَّقُلْ مِنْہُمْ اِنِّىْٓ اِلٰہٌ مِّنْ دُوْنِہٖ فَذٰلِكَ نَجْزِيْہِ جَہَنَّمَ ۭ كَذٰلِكَ نَجْزِي الظّٰلِــمِيْنَ ٢٩ۧ- دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔- جزا - الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، - ( ج ز ی ) الجزاء ( ض )- کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ - جهنم - جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ- معرّب جهنام «1» ، وقال أبو مسلم : كهنّام «2» ، والله أعلم .- ( ج ھ ن م ) جھنم - ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں
(٢٩) اور ان فرشتوں میں سے یا یہ کہ مخلوق میں سے جو شخص نعوذ باللہ فرضایوں کہے کہ میں اللہ کے علاوہ معبود ہوں تو ہم اس کے بدلے اسے جہنم کی سزا دیں گیا اور ہم کافروں کو ایسی ہی سزا دیا کرتے ہیں۔
سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :27 مشرکین فرشتوں کو دو وجوہ سے معبود بناتے تھے ۔ ایک یہ کہ انکے نزدیک وہ خدا کی اولاد تھے ۔ دوسرے یہ کہ وہ انکی پرستش ( خوشامد ) کر کے انہیں خدا کے ہاں اپنا شفیع ( سفارشی ) بنانا چاہتے تھے ۔ : وَیَقُوْلُوْ نَ ھٰؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِندَ اللہِ ( یونس ۔ آیت ۔ 18 ۔ اور مَانَعْبُدُھُمْ اِلاَّ لِیُقَرِّبُوْنَآ اِلَی اللہِ زُلْفاً ہ ( الزمر ۔ آیت 3 ) ۔ ان آیات میں دونوں وجوہ کی تردید کر دی گئی ہے ۔ اس جگہ یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ قرآن بالعموم شفاعت کے مشرکانہ عقیدے کی تردید کرتے ہوئے اس حقیقت پر زور دیتا ہے کہ جنہیں تم شفیع قرار دیتے ہو وہ علم غیب نہیں رکھتے اور یہ اللہ تعالیٰ ان باتوں کو بھی جانتا ہے جو ان کے سامنے ہیں اور ان باتوں کو بھی جو ان سے اوجھل ہیں ۔ اس سے یہ ذہن نشین کرنا مقصود ہے کہ آخر ان کو سفارش کرنے کا مطلق اور غیر مشروط اختیار کیسے حاصل ہو سکتا ہے جب کہ وہ ہر شخص کے اگلے پچھلے اور پوشیدہ و ظاہر حالات سے واقف نہیں ہیں ۔ اس لیے ٰوہ فرشتے ہوں یا انبیاء و صالحین ، ہر ایک کا اختیار شفاعت لازماً اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو کسی کے حق میں شفاعت کی اجازت دے ۔ بطور خود ہر کس و ناکس کی شفاعت کر دینے کا کوئی بھی مجاز نہیں ہے ۔ اور جب شفاعت سننا یا نہ سننا اور اسے قبول کرنا یا نہ کرنا بالکل اللہ کی مرضی پر موقوف ہے تو ایسے بے اختیار شفیع اس قابل کب ہو سکتے ہیں کہ ان کے آگے سر نیاز جھکایا جائے اور دست سوال دراز کیا جائے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، طٰہٰ ، حاشیہ 85 ۔ 86 )