Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

زبردست غالب اللہ تعالیٰ اس بات کو بیان فرماتا ہے کہ اس کی قدرت پوری ہے اور اس کا غلبہ زبردست ہے ۔ فرماتا ہے کہ جو کافر اللہ کے سوا اوروں کی پوجا پاٹ کرتے ہیں کیا انہیں اتنا بھی علم نہیں کہ تمام مخلوق کا پیدا کرنے والا اللہ ہی ہے اور سب چیز کا نگہبان بھی وہی ہے پھر اس کے ساتھ دوسروں کی عبادت تم کیوں کرتے ہو؟ ابتدا میں زمین وآسمان ملے جلے ایک دوسرے سے پیوست تہ بہ تہ تھے اللہ تعالیٰ نے انہیں الگ الگ کیا زمینیں پیدا کیں اور سات ہی آسمان بنائے ۔ زمین اور پہلے آسمان کے درمیان جوف اور خلا رکھا ۔ آسمان سے پانی برسایا اور زمین سے پیداوار اگائی ۔ ہر زندہ چیز پانی سے پیدا کی ۔ کیا یہ تمام چیزیں جن میں سے ہر ایک صانع کی خود مختاری ، قدرت اور وحدت پر دلالت کرتی ہے اپنے سامنے موجود پاتے ہوئے بھی یہ لوگ اللہ کی عظمت کے قائل ہو کر شرک کو نہیں چھوڑتے؟ ففی کل شئلہ ایتہ تدل علی انہ واحد یعنی ہر چیز میں اللہ کی حکمرانی اور اس کی وحدانیت کا نشان موجود ہے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال ہوا کہ پہلے رات تھی یا دن؟ تو آپ نے فرمایا کہ پہلے زمین وآسمان ملے جلے تہ بہ تہ تھے تو ظاہر ہے کہ ان میں اندھیرا ہوگا اور اندھیرے کا نام ہی رات ہے تو ثابت ہوا کہ رات پہلے تھی ۔ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جب اس آیت کی تفسیر پوچھی گئی تو آپ نے فرمایا تم حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال کرو اور جو وہ جواب دیں مجھ سے بھی کہو ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا زمین وآسمان سب ایک ساتھ تھے ، نہ بارش برستی تھی ، نہ پیداوار اگتی ۔ جب اللہ تعالیٰ نے ذی روح مخلوق پیدا کی تو آسمان کو پھاڑ کر اس سے پانی برسایا اور زمین کو چیر کر اس میں پیداوار اگائی ۔ جب سائل نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ جواب بیان کیا تو آپ بہت خوش ہوئے اور فرمانے لگے آج مجھے اور بھی یقین ہوگیا کہ قرآن کے علم میں حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت ہی بڑھے ہوئے ہیں ۔ میرے جی میں کبھی خیال آتا تھا کہ ایسا تو نہیں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جرات بڑھ گئی ہو؟ لیکن آج وہ وسوسہ دل سے جاتا رہا ۔ آسمان کو پھاڑ کر سات آسمان بنائے ۔ زمین کے مجموعے کو چیر کر سات زمینیں بنائیں ۔ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ کی تفسیر میں یہ بھی ہے کہ یہ ملے ہوئے تھے یعنی پہلے ساتوں آسمان ایک ساتھ تھے اور اسی طرح ساتوں زمینیں بھی ملی ہوئی تھیں پھر جدا جدا کردی گئیں ۔ حضرت سعید رحمتہ اللہ علیہ کی تفسیر ہے کہ یہ دونوں پہلے ایک ہی تھے پھر الگ الگ کردیئے گئے ۔ زمین وآسمان کے درمیان خلا رکھ دی گئی پانی کو تمام جانداروں کی اصل بنا دیا ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب میں آپ کو دیکھتا ہوں میرا جی خوش ہوجاتا ہے اور میری آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں آپ ہمیں تمام چیزوں کی اصلیت سے خبردار کردیں ۔ آپ نے فرمایا ابو ہریرہ تمام چیزیں پانی سے پیدا کی گئی ہیں ۔ اور روایت میں ہے کہ پھر میں نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کوئی ایسا عمل بتادیجئے جس سے میں جنت میں داخل ہوجاؤں ؟ آپ نے فرمایا لوگوں کو سلام کیا کرو اور کھانا کھلایا کرو اور صلہ رحمی کرتے رہو اور رات کو جب لوگ سوتے ہوئے ہوں تو تم تہجد کی نماز پڑھا کرو تاکہ سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤ ۔ زمین کو جناب باری عزوجل نے پہاڑوں کی میخوں سے مضبوط کردیا تاکہ وہ ہل جل کر لوگوں کو پریشان نہ کرے مخلوق کو زلزلے میں نہ ڈالے ۔ زمین کی تین چوتھائیاں تو پانی میں ہیں اور صرف چوتھائی حصہ سورج اور ہوا کے لئے کھلا ہوا ہے ۔ تاکہ آسمان کو اور اس کے عجائبات کو بچشم خود ملاحظہ کر سکیں ۔ پھر زمین میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کاملہ سے راہیں بنا دیں کہ لوگ باآسانی اپنے سفر طے کرسکیں اور دور دراز ملکوں میں بھی پہنچ سکیں ۔ شان الٰہی دیکھئے اس حصے اور اس کے ٹکڑے کے درمیان بلند پہاڑی حائل ہے یہاں سے وہاں پہنچنا بظاہر سخت دشوار معلوم ہوتا ہے لیکن قدرت الہٰی خود اس پہاڑ میں راستہ بنادیتی ہے کہ یہاں کے لوگ وہاں اور وہاں کے یہاں پہنچ جائیں اور اپنے کام کاج پورے کرلیں ۔ آسمان کو زمین پر مثل قبے کے بنا دیا جیسے فرمان ہے کہ ہم نے آسمان کو اپنے ہاتھوں سے بنایا اور ہم وسعت اور کشادگی والے ہیں فرماتا ہے قسم آسمان کی اور اس کی بناوٹ کی ۔ ارشاد ہے کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان کے سروں پر آسمان کو کس کیفیت کا بنایا ہے اور کس طرح زینت دے رکھی ہے اور لطف یہ ہے کہ اتنے بڑے آسمان میں کوئی سوارخ تک نہیں ۔ بنا کہتے ہیں قبے یا خیمے کے کھڑا کرنے کو جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اسلام کی بنائیں پانچ ہیں جیسے پانچ ستون پر کوئی قبہ یا خیمہ کھڑا ہوا ہو ۔ پھر آسمان جو مثل چھت کے ہے ۔ یہ ہے بھی محفوظ بلند پہرے چوکی والا کہ کہیں سے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچتا ۔ بلندوبالا اونچا اور صاف ہے جیسے حدیث میں ہے کہ کسی شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ یہ آسمان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا رکی ہوئی موج ہے ۔ یہ روایت سنداً غریب ہے لیکن لوگ اللہ کی ان زبردست نشانیوں سے بھی بےپرواہ ہیں ۔ جیسے فرمان ہے آسمان وزمین کی بہت سی نشانیاں ہیں جو لوگوں کی نگاہوں تلے ہیں لیکن پھر بھی وہ ان سے منہ موڑے ہوئے ہیں ۔ کوئی غور و فکر ہی نہیں کرتے کبھی نہیں سوچتے کہ کتنا پھیلا ہوا کتنا بلند کس قدر عظیم الشان یہ آسمان ہمارے سروں پر بغیر ستون کے اللہ تعالیٰ نے قائم کر رکھا ہے ۔ پھر اس میں کس خوبصورتی سے ستاروں کاجڑاؤ ہو رہا ہے ۔ ان میں بھی کوئی ٹھیرا ہوا ہے کوئی چلتا پھرتا ہے ۔ پھر سورج کی چال مقرر ہے ۔ اس کی موجودگی دن ہے اس کا نظر نہ آنا رات ہے ۔ پورے آسمان کا چکر صرف ایک دن رات میں سورج پورا کرلیتا ہے ۔ اس کی چال کو اس کی تیزی کو بجز اللہ کے کوئی نہیں جانتا ۔ یوں قیاس آرائیاں اور اندازے کرنا اور بات ہے ۔ بنی اسرائیل کے عابدوں میں سے ایک نے اپنی تیس سال کی مدت عبادت پوری کر لی مگر جس طرح اور عابدوں پر تیس سال کی عبادت کے بعد ابر کا سایہ ہوجایا کرتا تھا اس پر نہ ہوا تو اس نے اپنی والدہ سے یہ حال بیان کیا ۔ اس نے کہا بیٹے تم نے اپنی اس عبادت کے زمانے میں کوئی گناہ کرلیا ہوگا ؟ اس نے کہا اماں ایک بھی نہیں ۔ کہا پھر تم نے کسی گناہ کا پورا قصد کیا ہوگاجواب دیا کہ ایسا بھی مطلقا نہیں ہوا ۔ ماں نے کہا بہت ممکن ہے کہ تم نے آسمان کی طرف نظر کی ہو اور غور وتدبر کے بغیر ہی ہٹالی ہو ۔ عابد نے جواب دیا ایسا تو برابر ہوتا رہا فرمایا بس یہی سبب ہے ۔ پھر اپنی قدرت کاملہ کی بعض نشانیاں بیان فرماتا ہے کہ رات اور اس کے اندھیرے کو دیکھو ، دن اور اس کی روشنی پر نظر ڈالو ، پھر ایک کے بعد دوسرے کا بڑھنا دیکھو ، سورج چاند کو دیکھو ۔ سورج کا نور ایک مخصوص نور ہے اور اس کا آسمان اس کا زمانہ اس کی حرکت اس کی چال علیحدہ ہے ۔ چاند کا نور الگ ہے ، فلک الگ ہے ، چال الگ ہے ، انداز اور ہے ۔ ہر ایک اپنے اپنے فلک میں گویا تیرتا پھرتا ہے اور حکم الٰہی کی بجا آوری میں مشغول ہے ۔ جیسے فرمان ہے وہی صبح کاروشن کرنے والا ہے وہی رات کو پرسکون بنانے والاہے ۔ وہی سورج چاند کا انداز مقرر کرنے والا ہے ۔ وہی ذی عزت غلبے والا اور ذی علم علم والاہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

30۔ 1 یعنی آسمان و زمین، ابتدائے امر ہیں، باہم ملے ہوئے اور ایک دوسرے کے ساتھ پیوست تھے۔ ہم نے ان کو ایک دوسرے سے الگ کیا، آسمانوں کو اوپر کردیا جس سے بارش برستی ہے اور زمین کو اپنی جگہ پر رہنے دیا، تاہم وہ پیداوار کے قابل ہوگئی۔ 30۔ 2 اس سے مراد اگر بارش اور چشموں کا پانی ہے، تب بھی واضح ہے کہ اس کی روئیدگی ہوتی ہے اور ہر ذی روح کو حیات نو ملتی ہے اور اگر مراد نطفہ ہے، تو اس میں بھی کوئی اشکال نہیں کہ ہر زندہ چیز کے وجود کے باعث وہ قطرہ آب ہے جو نر کی پیٹھ کی ہڈیوں سے نکلتا اور مادہ کے رحم میں جاکر قرار پکڑتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٥] اس آیت میں رتق اور فتق کے الفاظ استمعال ہوئے ہیں۔ اور یہ دونوں الفاظ ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ رتق کے معنی دو چیزوں یا کئی چیزوں کا مل کر جڑ جانا اور چیدہ ہوتا ہے اور فتق کے معنی ایسی گڈ مڈ شدہ اور جڑی ہوئی چیزوں کو الگ الگ کردیتا ہے۔ اس آیت میں کائنات کا نقطہ آغاز بیان کیا گیا ہے کہ ابتداء صرف ایک گڈ مڈ اور کئی چیزوں سے مخلوط مادہ تھا۔ اسی کو کھول کر اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان اور دوسرے اجرام فلکی کو پیدا فرمایا۔- [٢٦] ہر وہ چیز جس میں زندگی کے آثار پائے جاتے ہوں اس کی زندگی کا سبب پانی ہی ہوتی ہے اور اس میں نباتات، حیوانات سب شامل ہیں۔ اور ایسی تمام اشیاء پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتیں۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ہم نے ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا ہے جیسے فرمایا : (وَاللّٰهُ خَلَقَ كُلَّ دَاۗبَّةٍ مِّنْ مَّاۗءٍ ۚ فَمِنْهُمْ مَّنْ يَّمْشِيْ عَلٰي بَطْنِهٖ ۚ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّمْشِيْ عَلٰي رِجْلَيْنِ ۚ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّمْشِيْ عَلٰٓي اَرْبَعٍ ۭ يَخْلُقُ اللّٰهُ مَا يَشَاۗءُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ 45؀) 24 ۔ النور :45) اس لحاظ سے اس کا یہ مطلب ہوگا کہ ہر چیز کی پیدائش میں پانی کی موجودگی ضروری ہے اگرچہ یہ غالب عنصر کے طور پر نہ ہو۔ جیسے انسان کی پیدائش میں غالب عنصر مٹی ہے اور جنوں کی پیدائش میں آگ۔ اور اس کا تیسرا مطلب یہ ہے کہ تمام موجودات میں پانی کا عنصر شامل ہوتا ہے۔ جیسا کہ کتاب و سنت میں یہ صراحت میں ہے کہ ایک وقت ایسا تھا جب صرف پانی ہی پانی تھا اور اس پر اللہ کا عرش تھا اور پانی کے علاوہ کوئی دوسری چیز موجود نہ تھی۔ پھر ہر طرح کی تخلیق کا آغاز پانی سے ہی ہوا۔ حتیٰ کہ جمادات میں بھی پانی کا کچھ نہ کچھ حصہ موجود ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ جڑی ہوئی ہے اگر اس سے پانی کو ختم کردیا جائے تو وہ چیز ریزہ ریزہ ہوجائے گی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا ۔۔ : ” رَتْقًا “ کا معنی دو یا کئی چیزوں کا آپس میں سختی سے جڑا اور چپکا ہوا ہونا ہے، خواہ وہ فطری ہو (جیسے پتھر) یا کسی کے بنانے سے۔ (راغب) یہ مصدر بمعنی اسم فاعل برائے مبالغہ ہے، یعنی بالکل بند۔ ” فَتْقٌ“ کا معنی ایسی جڑی ہوئی چیزوں کو الگ الگ کرنا ہے۔ ” اَوَلَمْ يَرَ “ کا معنی ہے ” اور کیا دیکھا نہیں “ اور جہاں دیکھی جانے والی چیز نہ ہو وہاں معنی ہے ” اور کیا جانا نہیں۔ “ (دیکھیے سورة فیل) اس آیت کے دو معنی ہیں اور دونوں درست ہیں۔ طبری نے حسن سند کے ساتھ ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے : ( کَانَتَا مُلْتَزِقَتَیْنِ ) ” سارے آسمان اور زمین آپس میں سختی سے ملے ہوئے تھے۔ “ یعنی کیا یہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی توحید کا انکار کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ بےبس ہستیوں کو شریک بنا رہے ہیں، انھیں معلوم نہیں کہ سارے آسمان اور زمین ایک ٹھوس تودہ تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی بےپناہ قوت اور کمال قدرت کے ساتھ ان کو الگ الگ کرکے درمیان میں ہوا اور خلا کا فاصلہ کردیا اور آسمانوں کو سات آسمان اور زمین کو سات زمینیں بنادیا۔ دیکھیے سورة طلاق (١٢) بھلا اس کے سوا کسی کی یہ مجال ہے ؟ آج کل سائنس بھی تسلیم کرتی ہے کہ کائنات پہلے ایک تودے کی شکل میں تھی، پھر ایک بہت بڑے دھماکے کے ساتھ جدا جدا ہوئی، مگر بےچارے سائنس دان وہ دھماکا کرنے والے سے ناآشنا ہی رہے۔ (الا ما شاء اللہ)- دوسرا معنی یہ ہے کہ کیا اللہ کی توحید کے منکروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان بند تھا، اس سے ایک قطرہ نہیں برستا تھا اور زمین بند تھی، اس سے ایک پتا نہیں اگتا تھا ؟ ہم نے اپنی قدرت کاملہ کے ساتھ اپنی مخلوق کے فائدے کے لیے بارش کے ساتھ آسمان کے دہانے کھول دیے اور اس کے ساتھ زمین کے مسام کھول کر طرح طرح کی نباتات پیدا فرما دیں۔- وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ : اس میں انسان، حیوان، پودے اور درخت سب شامل ہیں۔ پانی سے جاندار چیز کی پیدائش کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة نور (٤٥) اور نباتات کی پیدائش کے لیے دیکھیے سورة انعام (٩٩) ۔- 3 ہمارے استاذ محمد عبدہ (رض) امام رازی سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ” یعنی جن چیزوں میں جان ہے، جیسے حیوانات اور نباتات، ان سب کی پیدائش پانی سے ہے، لیکن فرشتے اور جن یا دوسری کوئی چیز جس کے متعلق ثابت ہوجائے کہ اس کے مادہ میں پانی کو دخل نہیں ہے، وہ اس سے مستثنیٰ قرار پائیں گی۔ “ (کبیر) دراصل یہ اس سوال کا جواب ہے کہ فرشتے اور جن تو پانی سے نہیں بلکہ نور اور آگ سے پیدا ہوئے ہیں، ان کی پیدائش پانی سے کیسے تسلیم کی جاسکتی ہے ؟ اس جواب کی بنیاد اس بات پر ہے کہ ” کُلٌّ“ سے مراد کائنات کی ہر چیز نہیں ہوتی، بلکہ ہر موقع کی مناسبت سے ” کُلٌّ“ کا معنی کیا جاتا ہے، جیسا کہ ملکہ سبا کے متعلق ہد ہد نے کہا تھا : (وَاُوْتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ وَّ لَهَا عَرْشٌ عَظِيْمٌ) [ النمل : ٢٣ ] ” اور اسے ہر چیز میں سے حصہ دیا گیا ہے۔ “ اور قوم عاد پر آنے والی آندھی کے متعلق اللہ نے فرمایا : (تُدَمِّرُ كُلَّ شَيْءٍۢ بِاَمْرِ رَبِّهَا ) [ الأحقاف : ٢٥ ] ” جو ہر چیز کو اپنے رب کے حکم سے برباد کر دے گی۔ “ مفسر رازی کا یہ جواب معقول ہے۔ تاہم اگر ” كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ “ ہر زندہ چیز کا وجود پانی سے مان لیا جائے، جس میں انسان کے ساتھ جن اور فرشتے بھی شامل ہوں تو کچھ بعید نہیں، جب مٹی سے بننے والے انسان کا اصل پانی ہے تو آگ اور نور سے بننے والے جنوں اور فرشتوں کا اصل بھی پانی ہوسکتا ہے۔ آج جب ایٹم کو پھاڑنے کی صورت میں مادے کا توانائی میں بدلنا مشاہدے سے ثابت ہوچکا ہے، جس سے انسان کو بےپناہ تعمیری اور تخریبی قوت حاصل ہوئی ہے اور قیامت کے دن سمندر کے پانی آگ کی صورت اختیار کر جائیں گے (دیکھیے سورة تکویر : ٦) تو اللہ کے حکم سے پانی آگ کے علاوہ نور کی صورت بھی اختیار کرسکتا ہے۔ (واللہ اعلم)- اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ : یعنی زمین و آسمان میں حیرت انگیز نظام قائم کرنے والے ہم ہیں، کوئی اور نہیں، کیا اس پر بھی یہ لوگ توحید کا راستہ اختیار نہیں کرتے، بلکہ دوسروں کو ہمارا شریک سمجھ رہے ہیں ؟- رازی فرماتے ہیں : ” اس آیت (٣٠) سے آیت (٣٣) تک چار آیات میں کائنات کو بنانے والے کے وجود اور اس کے صرف ایک ہونے کے چھ قسم کے دلائل مذکور ہیں۔ “ (کبیر)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - کیا ان کافروں کو یہ معلوم نہیں ہوا کہ آسمان اور زمین (پہلے) بند تھے (یعنی نہ آسمان سے بارش ہوتی تھی نہ زمین سے کچھ پیداوار، اسی کو بند ہونا فرمایا جیسا کہ اب بھی اگر کسی جگہ یا کسی زمانے میں آسمان سے بارش اور زمین سے پیداوار نہ ہو تو اس جگہ یا اس زمانے کے اعتبار سے ان کو بند کہا جاسکتا ہے) پھر ہم نے دونوں کو (اپنی قدرت) کھول دیا (کہ آسمان سے بارش اور زمین سے نباتات کا اگنا شروع ہوگیا) اور (بارش سے صرف نباتات ہی کو نمو نہیں ہوتا بلکہ ہم نے (بارش کے) پانی سے ہر جاندار چیز کو بنایا ہے (یعنی ہر زندہ جاندار کے وجود اور بقاء میں پانی کا دخل ضرور ہے خواہ بلاواسطہ ہو یا کسی واسطہ سے جیسا کہ دوسری آیت میں ہے وَمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ السَّمَاۗءِ مِنْ مَّاۗءٍ فَاَحْيَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيْهَا مِنْ كُلِّ دَاۗبَّةٍ ) یا (ان باتوں کو سن کر) پھر بھی ایمان نہیں لاتے اور ہم نے (اپنی قدرت سے) زمین میں پہاڑ اس لئے بنائے کہ زمین ان لوگوں کو لے کر ہلنے نہ لگے اور ہم نے اس (زمین) میں کشادہ کشادہ رستے بنائے تاکہ لوگ (ان کے ذریعہ) منزل (مقصود) کو پہنچ جاویں اور ہم نے (اپنی قدرت سے) آسمان کو (بمقابلہ زمین کے اس کے اوپر مثل) ایک چھت (کے) بنایا جو (ہر طرح سے) محفوظ ہے۔ (یعنی گرنے سے بھی ٹوٹنے پھوٹنے سے بھی اور اس سے بھی کہ شیطان وہاں تک پہنچ کر آسمان کی باتیں سن سکیں مگر یہ آسمان کا محفوظ و مضبوط ہونا بھی دائمی نہیں ایک زمانہ معین تک ہے) اور یہ لوگ اس (آسمان) کے (اندر کی موجودہ) نشانیوں سے اعراض کئے ہوئے ہیں (یعنی ان میں غور و فکر اور تدبر نہیں کرتے) اور وہ ایسا (قادر) ہے کہ اس نے رات اور دن اور سورج اور چاند بنائے (وہ نشانیاں آسمان کی یہی ہیں اور شمس و قمر میں سے) ہر ایک، ایک ایک دائرے میں (اس طرح چل رہے ہیں کہ گویا) تیر رہے ہیں۔- معارف و مسائل - اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا، اس جگہ لفظ رؤ یت بمعنے علم عام ہے خواہ وہ آنکھوں سے دیکھ کر حاصل ہو یا استدلال عقلی سے کیونکہ آگے جو مضمون آ رہا ہے اس کا تعلق کچھ مشاہدہ اور دیکھنے سے ہے کچھ علم استدلالی سے۔- اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا لفظ رتق کے معنے بند ہونے اور فتق کے معنے کھول دینے کے ہیں۔ ان دو لفظوں کا مجموعہ رتق و فتق کسی کام کے انتظام اور اس کے پورے اختیار کے معنے میں استعمال ہوتا ہے۔ الفاظ آیت کا ترجمہ یہ ہوا کہ آسمان اور زمین بند تھے ہم نے ان کو کھول دیا۔ اس میں بند ہونے اور کھول دینے سے مراد کیا ہے اس کی مراد میں حضرات مفسرین نے مختلف اقوال نقل کئے ہیں مگر ان سب میں جو معنے صحابہ کرام اور جمہور مفسرین نے اختیار فرمائے وہ وہی ہیں جو خلاصہ تفسیر میں لئے گئے ہیں کہ بند ہونے سے مراد آسمان کی بارش اور زمین کی پیداوار کا بند ہونا ہے اور کھولنے سے مردا ان دونوں کو کھول دینا ہے۔- تفسیر ابن کثیر میں ابن ابی حاتم کی سند سے حضرت عبداللہ بن عمر کا یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک شخص ان کے پاس آیا اور ان سے اس آیت کی تفسیر دریافت کی انہوں نے حضرت ابن عباس کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ اس شیخ کے پاس جاؤ ان سے دریافت کرو اور وہ جو جواب دیں مجھے بھی اس کی اطلاع کرو۔ یہ شخص حضرت ابن عباس کے پاس گیا اور دریافت کیا کہ اس آیت میں رتقا اور فتقنا سے کیا مراد ہے ؟ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ پہلے آسمان بند تھے بارش برساتے تھے اور زمینیں بند تھی کہ اس میں نباتات نہیں اگتی تھی جب اللہ تعالیٰ نے زمین پر انسان کو آباد کیا تو آسمان کی بارش کھول دی اور زمین کا نشو و نما۔ یہ شخص آیت کی تفسیر معلوم کر کے حضرت ابن عمر کے پاس واپس گیا اور جو کچھ ابن عباس سے سنا تھا وہ بیان کیا تو حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا کہ اب مجھے ثابت ہوگیا کہ واقعی ابن عباس کو قرآن کا علم عطا کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے میں تفسیر قرآن کے بارے میں ابن عباس کے بیانات کو ایک جرأت سمجھا کرتا تھا جو مجھے پسند نہ تھی اب معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو علوم قرآن کا خاص ذوق عطا فرمایا ہے انہوں نے رتق و فتق کی تفسیر صحیح فرمائی ہے۔- روح المعانی میں ابن عباس کی اس روایت کو ابن المنذر اور ابونعیم اور ایک جماعت محدثین کے حوالہ سے نقل کیا ہے جن میں حاکم صاحب مستدرک بھی ہیں، حاکم نے اس روایت کو صحیح کہا ہے۔- ابن عطیہ عوفی اس روایت کو نقل کر کے کہتے ہیں کہ یہ تفسیر حسن اور جامع اور سیاق وسباق قرآن کے مناسب ہے اس میں منکرین کے خلاف عبرت اور حجت بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کی خاص نعمتوں اور قدرت کاملہ کا اظہار بھی جو معرفت و توحید کی بنیاد ہے اور بعد کی آیت میں جو وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ فرمایا ہے اس سے اسی معنے کے اعتبار سے مناسبت ہے۔ بحر محیط میں بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔ قرطبی نے اسی کو عکرمہ کا قول بھی قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ ایک دوسری آیت سے بھی اس معنے کی تائید ہوتی ہے یعنی والسَّمَاۗءِ ذَات الرَّجْعِ ، وَالْاَرْضِ ذَات الصَّدْعِ طبری نے بھی اسی تفسیر کو اختیار کیا ہے۔- وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ، مراد یہ ہے کہ ہر جاندار کی تخلیق میں پانی کا دخل ضرور ہے اور جاندار و ذی روح اہل تحقیق کے نزدیک صرف انسان اور حیوانات ہی نہیں بلکہ نباتات بلکہ جمادات میں روح اور حیات محققین کے نزدیک ثابت ہے اور ظاہر ہے کہ پانی کو ان سب چیزوں کی تخلیق و ایجاد اور ارتقاء میں بڑا دخل ہے۔- ابن کثیر نے امام احمد کی سند سے بروایت ابوہریرہ نقل کیا ہے کہ ابوہریرہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا یا رسول اللہ میں جب آپ کی زیارت کرتا ہوں تو میرا دل باغ باغ اور آنکھیں ٹھنڈی ہوجاتی ہیں، آپ مجھے ہر شی (کی تخلیق) کے بارے میں بتلا دیجئے، آپ نے فرمایا کہ ہر چیز پانی سے پیدا کی گئی ہے، اس کے بعد ابوہریرہ نے سوال کیا کہ مجھے کوئی ایسا عمل بتلا دیجئے جس پر عمل کرنے سے میں جنت میں پہنچ جاؤ ں، آپ نے فرمایا۔- افش السلام واطعم الطعام وصل الارحام وقم باللیل والناس نیام ثم ادخل الجنۃ بسلام تفرد بہ احمد وھذا اسناد علی شرط الشیخین الخ۔- سلام کرنے کو عام کرو (خواہ مخاطب اجنبی ہو) اور کھانا کھلایا کرو (اس کو بھی حدیث میں عام رکھا ہے کھانا کھلانا ہر شخص کو خواہ کافر فاسق ہی ہو ثواب سے خالی نہیں) اور صلہ رحمی کیا کرو اور رات کو تہجد کی نماز پڑھا کرو جب سب لوگ سوتے ہوں تو جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہوجاؤ گے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰہُمَا۝ ٠ۭ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ۝ ٠ ۭ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ۝ ٣٠- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- رتق - الرَّتْقُ : الضمّ والالتحام، خلقة کان أم صنعة، قال تعالی: كانَتا رَتْقاً فَفَتَقْناهُما [ الأنبیاء 30] ، أي : منضمّتين، والرَّتْقَاءُ : الجارية المنضمّة الشّفرین، وفلان رَاتِقٌ وفاتق في كذا، أي : هو عاقد وحالّ. ( ر ت ق ) الرتق ۔ اس کے اصل معنی جوڑنا اور ملانا کے ہیں خواہ خلقی طور پر ہو یا صناعی طریقہ سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ كانَتا رَتْقاً فَفَتَقْناهُما [ الأنبیاء 30] ( کہ آسمان و زمین ) دونوں ایک ہیولٰی تھے تو ہم نے ( اس کو توڑ کر ) زمین و آسمان کو الگ الگ کیا ۔ رتقاء وہ عورت جس کی شرمگاہ کے دونوں کنارے باہم چسپیدہ ہوں اور اس سے ہم بستری نہ ہو سکے مشہور محاورہ ہے فلان رَاتِقٌ وفاتق في کذافلاں اس معاملہ میں کرتا دھرتا ہے ۔- فتق - الفَتْقُ : الفصل بين المتّصلین، وهو ضدّ الرّتق، قال تعالی: أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّماواتِ وَالْأَرْضَ كانَتا رَتْقاً فَفَتَقْناهُما[ الأنبیاء 30] ، والفَتْقُ والفَتِيقُ : الصّبح، وأَفْتَقَ القمر : صادف فتقا فطلع منه، ونصل فَتِيقُ الشّفرتین : إذا کان له شعبتان كأنّ إحداهما فُتِقَتْ من الأخری. وجمل فَتِيقٌ: تَفَتَّقَ سمنا، وقد فَتِقَ فَتْقاً.- ( ف ت ق ) الفتق ( ض ) کے معنی دو متصل چیزوں کو الگ الگ کردینے کے ہیں اور یہ ( رتق کی ضد ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّماواتِ وَالْأَرْضَ كانَتا رَتْقاً فَفَتَقْناهُما[ الأنبیاء 30] آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے ان کو جدا جدا کردیا ۔ الفتق والفتیق صبح کو کہتے ہیں ( کیونکہ وہ تاریکی سے نمودار ہوتی ہے ۔ افتق القمر چاند کا بادل سے ظاہر ہونا ۔ نصل فتیق الشفر تین بھالا جس کی دو شاخیں ہوں گویا ایک کو دوسری سے پھاڑ کر بنایا گیا ہے ۔ جمل فتیق اونٹ جس کا چمڑا موٹا پے کی وجہ سے پھٹ گیا ہو اور یہ فتق ( س ) لازم ) تفقا سے ہے - ماء - قال تعالی: وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء 30] ، وقال : وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان 48] ، ويقال مَاهُ بني فلان، وأصل ماء مَوَهٌ ، بدلالة قولهم في جمعه :- أَمْوَاهٌ ، ومِيَاهٌ. في تصغیره مُوَيْهٌ ، فحذف الهاء وقلب الواو،- ( م ی ہ ) الماء - کے معنی پانی کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء 30] اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں ۔ وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان 48] پاک ( اور نتھرا ہوا پانی اور محاورہ ہے : ۔ ماء بنی فلان فلاں قبیلے کا پانی یعنی ان کی آبادی ماء اصل میں موہ ہے کیونکہ اس کی جمع امراۃ اور میاہ آتی ہے ۔ اور تصغیر مویۃ پھر ہا کو حزف کر کے واؤ کو الف سے تبدیل کرلیا گیا ہے - حيى- الحیاة تستعمل علی أوجه :- الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] ، - الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا،- قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] ،- الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی:- أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] - والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ،- وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء - والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة،- وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] - والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري،- فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ.- ( ح ی ی ) الحیاۃ )- زندگی ، جینا یہ اصل میں - حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔- ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے - ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ - ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں - اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ - ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے - چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔- ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے - ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ - ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے - ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔- ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے - ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٠) کیا یہ لوگ جو کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کے منکر ہیں نہیں جانتے کہ آسمان اور زمین پہلے بند تھے یعنی نہ آسمان سے بارش کا ایک قطرہ گرتا تھا اور نہ زمین سے کچھ پیداوار ہوتی تھی ایک دوسرے کے اس اعتبار سے ملے ہوئے تھے پھر ہم نے دونوں کو کھول دیا اور ایک دوسرے سے جدا کردیا کہ آسمان سے بارش ہونے لگی اور زمین میں نباتات اگنے لگے، بلکہ ہم نے مرد و عورت کے پانی سے ہر ایک چیز کو بنایا جو بارش کے پانی کی محتاج ہے کیا ان باتوں کو سن کر بھی مکہ والے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان نہیں لاتے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٠ (اَوَلَمْ یَرَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰہُمَا ط) ” - یعنی شدید گرمی اور حبس کی صورت حال جس میں لوگوں کی جان پر بنی ہوئی ہوتی ہے۔ اس کیفیت میں بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ آسمان کے دروازے بھی بند ہیں ‘ زمین کے سوتے بھی خشک ہیں ‘ بارش کا دور دور تک کوئی امکان نہیں ‘ ہر طرف خشک سالی کا راج ہے اور پھر یکا یک اللہ کی رحمت سے یہ صورت حال تبدیل ہوجاتی ہے۔ آسمان کے دہانے کھل جاتے ہیں اور بارش کے پانی سے زمین پر نباتاتی اور حیواناتی زندگی کی چہل پہل شروع ہوجاتی ہے۔- اس کے علاوہ اس آیت میں یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ کے بعد مادے کا جو ایک بہت بڑا گولا وجود میں آیا تو وہ ایک یکجا وجود ( ) کی صورت میں تھا۔ پھر مادے کے اس گولے میں تقسیم ہوئی ‘ مختلف ستاروں اور سیاروں کے گچھے بنے ‘ کہکشائیں ( ) وجود میں آئیں ‘ سورج اور اس کے سیاروں کی تخلیق ہوئی ‘ اور یوں ہماری زمین بھی پیدا ہوئی۔ گویا اس سارے تخلیقی عمل کا اظہار اس ایک فقرے میں ہوگیا کہ آسمان اور زمین بند تھے ‘ یعنی باہم ملے ہوئے تھے اور ہم نے انہیں کھول دیا ‘ جدا کردیا۔- (وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ کُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ ط) ” - یہاں پر خَلَقْنَا کے بجائے جَعَلْنَا فرمایا۔ زمین کے اوپر زندگی جس کسی شکل میں بھی ہے ‘ چاہے وہ نباتاتی حیات ہو یا حیوانی ‘ ہر جاندار چیز کا مادۂ تخلیق مٹی اور مبدأ حیات پانی ہے۔ مٹی (تُراب) اور پانی مل کر گارا (طِین) بنا۔ پھر یہ طینٍ لَّازب میں تبدیل ہوا۔ پھر اس نے حماأ مسنون کی شکل اختیار کی۔ اس کے بعد صلصالٍ مّنْ حَمَاأ مسنونکا مرحلہ آیا۔ پھر صلصا لٍ کا لفخّار بنا۔ (اس سلسلے میں سورة الحجر ‘ آیت ٢٦ کی تشریح بھی مد نظر رہے) ۔ گویا مٹی سے ہر جاندار چیز کی تخلیق ہوئی اور ان سب کی زندگی کا دارومدار پانی پر رکھا گیا۔ چناچہ ہر جاندار کے لیے مبدأ حیات پانی ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :28 اصل میں لفظ رتق اور فتق کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ۔ رتق کے معنی ہیں یکجا ہونا ، اکٹھا ہونا ، ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہونا ، متصل اور متلاصق ہونا ۔ اور فتق کے معنی پھاڑنے اور جدا کرنے کے ہیں ۔ بظاہر ان الفاظ سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ کائنات کی ابتدائی شکل ایک تودے ( ) کی سی تھی ، بعد میں اس کو الگ الگ حصوں میں تقسیم کر کے زمین اور دوسرے اجرام فلکی جدا جدا دنیاؤں کی شکل میں بنائے گئے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد چہارم حٰمٓ السجدہ ، حاشیہ 13 ۔ 14 ۔ 15 ) ۔ سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :29 اس سے جو مفہوم سمجھ میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ پانی کو خدا نے سبب زندگی اور اصل حیات بنایا ، اسی میں اور اسی سے زندگی کا آغاز کیا ۔ دوسری جگہ اس مطلب کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے ، : وَاللہُ خَلَقَ کُلَّ دَآبَّۃٍ مِّنْ مَآءٍ ( النور ۔ آیت 45 ) اور خدا نے ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

13: اکثر مفسرین کی تفسیر کے مطابق اس آیت میں آسمان کے بند ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اُس سے بارش نہیں ہوتی تھی، اور زمین کے بند ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اُس سے کوئی پیداوار نہیں ہوتی تھی، اور ان دونوں کو کھولنے کا مطلب یہ ہے کہ آسمان سے پانی برسنے لگا، اور زمین سے سبزیاں اگنے لگیں، یہ تفسیر متعدّد صحابہ اور تابعین سے منقول ہے۔ لیکن دوسرے بعض مفسرین نے اِس کی یہ تفسیر بھی کی ہے کہ آسمان اور زمین دونوں ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے اور یک جان تھے، اﷲ تعالیٰ نے اُن کو الگ الگ کیا۔ 14: اس آیت نے واضح کردیا ہے کہ ہر جان دار چیز کی تخلیق میں پانی کا کوئی نہ کوئی دخل ضرور ہے