Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

31۔ 1 یعنی اگر زمین پر یہ بڑے بڑے پہاڑ نہ ہوتے تو زمین جنبش اور لرزش ہوتی رہتی، جس کی وجہ سے انسانوں اور حیوانوں کے لئے زمین مسکن اور مستقر بننے کی صلاحیت سے محروم رہتی۔ ہم نے پہاڑوں کا بوجھ اس پر ڈال کر اسے ڈانوا ڈول ہونے سے محفوظ کردیا۔ 31۔ 2 اس سے مراد زمین یا پہاڑ ہیں، یعنی زمین میں کشادہ راستے بنا دیئے یا پہاڑوں میں درے رکھ دیئے، جس سے ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں آنا جانا آسان ہوگیا، دوسرا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے تاکہ ان کے ذریعے سے اپنی معاش کے مصالح و مفادات حاصل کرسکیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٧] اس جملہ کی تشریح کے لئے دیکھئے سورة نحل کی آیت نمبر ١٥ کا حاشیہ۔- [٢٨] یعنی پہاڑ پیدا کئے۔ پھر ان میں وادیاں اور ندی نالے بن گئے۔ انھیں ندی نالوں سے نشیب و فراز کو معلوم کرکے انسان کو ایک علاقہ سے دوسرے علاقہ تک پہنچنے کے لئے راستوں کی نشاندہی ہوتی گئی۔ پھر اس زمین میں اور کئی طرح کی علامات پیدا کردیں۔ کہیں گھاٹیاں ہیں، کہیں چھوٹے پہاڑ، کہیں درے، کہیں بڑے بڑے پہاڑ اور ندی نالے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے زمین کی ساخت بھی ایسی بنادی ہے کہ ایک علاقہ سے دوسرے علاقہ تک پہنچنے کی راہ بن جاتی ہے یا بنائی جاسکتی ہے۔- [٢٩] اس جملہ کے بھی دو مطلب ہیں۔ ایک تو واضح ہے کہ زمین میں چلنے پھرنے کے لئے راہ پالیں۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی ان نشانیوں میں غور و فکر کرکے اللہ کی معرفت اور حقیقت حال معلوم کرسکیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَجَعَلْنَا فِي الْاَرْضِ رَوَاسِيَ : ” رَوَاسِيَ “ ” رَاسِیَۃٌ“ کی جمع ہے جو ” رَسَا یَرْسُوْ رُسُوًّا “ سے اسم فاعل ہے، یعنی زمین میں گڑے ہوئے۔ ارضیات کے ماہروں پر اب یہ حقیقت ظاہر ہوئی ہے کہ پہاڑوں کا بہت بڑا حصہ زمین کے نیچے گڑا ہوا ہے۔- اَنْ تَمِيْدَ بِهِمْ : ” مَادَ یَمِیْدُ مَیْدًا وَ مَیْدَانًا “ حرکت کرنا، ٹیڑھا ہونا۔ (قاموس) ” اَنْ تَمِيْدَ بِهِمْ ۠“ اصل میں ” أَنْ لَا تَمِیْدَ “ ہے۔ یہ تیسری دلیل ہے، یعنی اگر زمین میں یہ بھاری پہاڑ نہ گاڑ دیے جاتے تو اس میں ہر وقت زلزلے اور حرکت کی حالت رہتی، اس میں نہ وہ توازن ہوتا اور نہ سکون جو مخلوق کے رہنے کے لیے ضروری ہے۔ وہ کسی وقت بھی ایک طرف جھک جاتی، یا زلزلے سے دو چار رہتی جس سے زمین کے ستر فیصد حصے پر پھیلا ہوا سمندر کا پانی خشکی پر چڑھ دوڑتا اور زمین پر ایک متنفس بھی باقی نہ رہتا۔ اب بھی کبھی کبھار اللہ تعالیٰ زلزلے کے ذریعے سے اپنی نعمت یاد دلاتا رہتا ہے، جس سے سمندر کا پانی خشکی پر چڑھ دوڑتا ہے اور میلوں تک آبادیوں کو نیست و نابود کردیتا ہے۔- وَجَعَلْنَا فِيْهَا فِجَـاجًا سُبُلًا : ” فِجَـاجًا “ ” فَجٌّ“ کی جمع ہے، یعنی پہاڑوں کے درمیان کھلا راستہ۔ زمخشری نے ” فِجَـاجًا “ کو ” سُبُلًا “ سے حال قرار دیا ہے، کیونکہ یہ نکرہ ” سُبُلاً “ کی صفت ہے جو پہلے آئی ہے، جیسا کہ فرمایا : (لِّتَسْلُكُوْا مِنْهَا سُبُلًا فِجَاجًا) [ نوح : ٢٠ ] ” تاکہ تم اس کے کھلے راستوں پر چلو۔ “ یعنی اگر یہ بلند اور ٹھوس پہاڑ اس طرح واقع ہوتے کہ ان میں کوئی راستہ نہ ہوتا، یا ان میں ڈھلوان نہ ہوتی بلکہ عموداً کھڑے ہوتے تو نہ زمین کی ایک طرف کے لوگ دوسری طرف جاسکتے، نہ ایک شہر کے لوگ دوسرے شہر کے لوگوں سے مل سکتے اور نہ خود پہاڑوں پر آبادی ہوسکتی۔ یہ ہماری قدرت کا کمال ہے کہ ہم نے پہاڑوں میں ندی نالوں، دروں اور ڈھلوانوں کی صورت میں آنے جانے کے کشادہ راستے بنا دیے ہیں، جس سے پہاڑ بھی میدانوں کی طرح آباد ہیں۔- لَّعَلَّهُمْ يَهْتَدُوْنَ : تاکہ وہ زمین میں جہاں جانا چاہیں اس کے لیے راہ پاسکیں اور تاکہ وہ زمین و آسمان اور پہاڑوں کی پیدائش میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے کرشمے دیکھ کر اس کی توحید کی راہ پاسکیں۔ ” يَهْتَدُوْنَ “ میں دونوں مفہوم شامل ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

وَجَعَلْنَا فِي الْاَرْضِ رَوَاسِيَ اَنْ تَمِيْدَ بِهِمْ لفظ مید عربی زبان میں اضطرابی حرکت کو کہا جاتا ہے اور مراد آیت کی یہ ہے کہ زمین پر پہاڑوں کا بوجھ حق تعالیٰ نے اس کا توازن برقرار رکھنے کے لئے ڈال دیا ہے تاکہ وہ اضطرابی حرکت نہ کرسکے جس سے اس کے اوپر بسنے والوں کو نقصان پہنچے۔ اس کی فلسفیانہ تحقیق کہ پہاڑوں کے بوجھ کو زمین کے قرار میں کیا دخل ہے اس کی یہاں ضرورت نہیں۔ تفسیر کبیر وغیرہ میں اس کا مفصل بیان اہل علم دیکھ سکتے ہیں اور بقدر ضرورت سورة نمل کی تفسیر میں حضرت حکیم الامۃ نے تفسیر بیان القرآن میں بھی لکھ دیا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَجَعَلْنَا فِي الْاَرْضِ رَوَاسِيَ اَنْ تَمِيْدَ بِہِمْ ٠۠ وَجَعَلْنَا فِيْہَا فِجَـاجًا سُـبُلًا لَّعَلَّہُمْ يَہْتَدُوْنَ۝ ٣١- رسا - يقال : رَسَا الشیء يَرْسُو : ثبت، وأَرْسَاهُ غيره، قال تعالی: وَقُدُورٍ راسِياتٍ- [ سبأ 13] ، وقال : رَواسِيَ شامِخاتٍ [ المرسلات 27] ، أي : جبالا ثابتات، وَالْجِبالَ أَرْساها[ النازعات 32] ،- ( ر س و )- رسا الشئی ۔ ( ن ) کے معنی کسی چیز کے کسی جگہ پر ٹھہرنے اور استوار ہونے کے ہیں اور ارسٰی کے معنی ٹھہرانے اور استوار کردینے کے ۔ قرآن میں ہے : وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ 13] اور بڑی بھاری بھاری دیگیں جو ایک پر جمی رہیں ۔ رَواسِيَ شامِخاتٍ [ المرسلات 27] اور انچے انچے پہاڑ یہاں پہاڑوں کو بوجہ ان کے ثبات اور استواری کے رواسی کہا گیا ہے ۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا :- وَالْجِبالَ أَرْساها[ النازعات 32] اور پہاڑوں کو ( اس میں گاڑ کر ) پلادیا ۔ - ميد - المَيْدُ : اضطرابُ الشیء العظیم کا ضطراب الأرض . قال تعالی: أَنْ تَمِيدَ بِكُمْ- [ النحل 15] ، أَنْ تَمِيدَ بِهِمْ [ الأنبیاء 31] . ومَادَتِ الأغصان تمید، وقیل المَيَدانُ في قول الشاعر :- 432-- نعیما ومَيَدَاناً من العیش أخضرا وقیل : هو الممتدُّ من العیش، وميَدان الدَّابة منه، والمائدَةُ : الطَّبَق الذي عليه الطّعام، ويقال لكلّ واحدة منها [ مائدة ] «2» ، ويقال : مَادَنِي يَمِيدُنِي، أي : أَطْعَمِني، وقیل : يُعَشِّينى، وقوله تعالی: أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة 114] قيل : استدعوا طعاما، وقیل : استدعوا علما، وسمّاه مائدة من حيث إنّ العلم غذاء القلوب کما أنّ الطّعام غذاء الأبدان .- ( م ی د ) المید - ۔ زمین کی طرح کی کسی بڑی چیز کا مضطرب ہونا ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَنْ تَمِيدَ بِكُمْ [ النحل 15] کہ تم کو نے کر کہیں جھک نہ جائے ۔ أَنْ تَمِيدَ بِهِمْ [ الأنبیاء 31] تاکہ لوگوں ( کے بوجھ سے ہلنے اور جھکنے نہ لگے ۔ مادت اکا غصان تمید شاخوں کا مضطرب ہونا بعض نے کہا ہے کہ شاعر کے کلام ( 417 ) فعیما ومیدا انا من العیش اخضرا نعمتیں اور سر سبز لہلہاتی ہوئی زندگی میں بھی میدا نا مادت الا غصبان سے ہے اور اس کے معنی کشادہ زندگی کے ہیں اور اسی سے میدان الدابۃ ہے جس کے منعی جانور کے کھلے میدان میں پھرنے کے ہیں ۔ المائدۃ اصل میں اس خوان کو کہتے ہیں جس پر کھانا چنا ہوا ہو ۔ اور ہر ایک پر یعنی کھانے اور خالی خوان پر انفراد بھی مائدۃ کا لفظ بولا جاتا ہے یہ مادنی یمیدنی سے ہے جس کے معنی رات کا کھانا کھلانا بھی کئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة 114] ہم پر آسمان سے خواں نازل فرما ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ انہوں نے کھانا طلب کیا تھا ۔ اور بعض نے کہا ہے علم کے لئے دعا کی تھی اور علم کو مائدۃ سے اس ؛لئے تعبیر فرمایا ہے کہ علم روح کی غذا بنتا ہے جیسا کہ طعام بدن کے لئے غذا ہوتا ہے ۔- فجج - الفَجُّ : شُقَّةٌ يکتنفها جبلان، ويستعمل في الطّريق الواسع، وجمعه فِجَاجٌ. قال : مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ [ الحج 27] ، فِيها فِجاجاً سُبُلًا[ الأنبیاء 31] . والفَجَجُ : تباعد الرّکبتین، وهو أَفَجُّ بيّن الفجج، ومنه : حافر مُفَجَّجٌ ، وجرح فَجٌّ: لم ينضج .- ( ف ج ج ) الفج دو پہاڑوں کے درمیان کشادگی کو کہتے ہیں اس کے بعد وسیع راستہ کے معنی میں استعمال ہونا لگا ہے ۔ اس کی جمع فجاج ہے قرآن میں ہے : مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ [ الحج 27] دور ( دراز ) راستوں سے ۔ فِيها فِجاجاً سُبُلًا[ الأنبیاء 31] اسمیں کشادہ رستے الگ انسان کے دونوں گھنٹوں میں کشادگی ہونا اور ایسے آدمی کو جس کے گھنٹوں میں کشادگی ہو افج کہتے ہیں ۔ اسی سے حافر مفج سے یعنی وہ گھوڑا جس کی ٹانگوں کے درمیان کشادگی ہو اور خام زخم کو جوج فیج کہ جاتا ہے ۔- سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔- هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣١) اور ہم نے زمین پر مضبوط پہاڑوں کو جو کہ زمین کے لیے میخیں ہیں، اس لیے بنایا کہ زمین ان کو لے کر ہلنے نہ لگے اور ہم نے اس زمین میں گھاٹیاں اور کھلے کھلے رستے بنائے تاکہ وہ لوگ ان رستوں کے ذریعے سے سفر کی آمد ورفت میں منزل مقصود کو پہنچ جائیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(وَجَعَلْنَا فِیْہَا فِجَاجًا سُبُلًا لَّعَلَّہُمْ یَہْتَدُوْنَ ) ” - میدانی راستوں کے علاوہ بڑے بڑے پہاڑی سلسلوں کے اندر بھی قدرتی راستے رکھے اور وادیاں بنائیں تاکہ ایسے علاقوں میں بھی لوگوں کے لیے سفر کرنا ممکن ہو سکے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :30 اس کی تشریح سورہ نحل حاشیہ نمبر 12 میں گزر چکی ہے ۔ سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :31 یعنی پہاڑوں کے درمیان ایسے درے رکھ دیے اور دریا نکال دیے جن کی وجہ سے پہاڑی علاقوں سے گزرنے اور زمین کے ایک خطے سے دوسرے خطے کی طرف عبور کرنے کے راستے نکل آتے ہیں ۔ اسی طرح زمین کے دوسرے حصوں کی ساخت بھی ایسی رکھی ہے کہ ایک علاقے سے دوسرے علاقے تک پہنچنے کے لیے راہ بن جاتی ہے یا بنا لی جا سکتی ہے ۔ سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :32 ذو معنی فقرہ ہے ۔ یہ مطلب بھی ہے کہ لوگ زمین میں چلنے کے لیے راہ پائیں ، اور یہ بھی کہ وہ اس حکمت اور اس کاریگری اور اس انتظام کو دیکھ کر حقیقت تک پہنچنے کا راستہ پالیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

15: یہ حقیقت قرآن کریم نے کئی مقامات پر بیان فرمائی ہے کہ جب زمین کو بچھایا گیا تو وہ ہلتی تھی، اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے پہاڑ پیدا کر کے اس پر جمائے تو اس کو قرار حاصل ہوا۔ جدید سائنس نے بھی صدیوں کے بعد یہ پتہ لگایا ہے کہ بڑے بڑے بر اعظم اب بھی بہت سست رفتار سے سمندر کے پانی پر سرکتے رہتے ہیں، مگر اب ان کی رفتار اتنی دھیمی ہے کہ عام آنکھیں ان کا ادراک نہیں کرسکتیں۔