32۔ 1 زمین کے لئے محفوظ چھت، جس طرح خیمے اور قبے کی چھت ہوتی ہے یا اس معنی میں محفوظ کہ ان کو زمین پر گرنے سے روک رکھا ہے، ورنہ آسمان زمین پر گرپڑیں تو زمین کا سارا نظام تہ وبالا ہوسکتا ہے۔ یا شیاطین سے محفوظ جیسے فرمایا (وَحَفِظْنٰهَا مِنْ كُلِّ شَيْطٰنٍ رَّجِيْمٍ ) 45 ۔ الحجر :17)
[٣٠] یعنی کائنات میں اللہ تعالیٰ کی ایسی بیشمار نشانیاں موجود ہیں جن میں غور کرنے سے باسانی انسان اس نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے کہ ان اشیاء کو پیدا کرنے والی اور ان میں نظم و ضبط برقرار رکھنے والی ضرور کوئی نہ کوئی ہستی موجود ہے جو اتنی بااختیار، علیم اور مقتدر ہے کہ ان تمام اشیاء پر کنٹرول کر رہی ہے اور وہ ایک ہی ہوسکتی ہے اور یہ لوگ جو کسی نئی نشانی یا کسی نئے معجزہ کا مطالبہ کرتے ہیں تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان نشانیوں کی طرف توجہ ہی نہیں دیتے اگر وہ توجہ دیتے تو پھر انھیں کسی معجزہ کے مطالبہ کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔
وَجَعَلْنَا السَّمَاۗءَ سَقْفًا مَّحْفُوْظًا : زمین کے چند عجائب کے ذکر کے بعد آسمان کے عجائب کی طرف متوجہ فرمایا۔ لوگوں کی بنائی ہوئی چھوٹی سی چھتیں بھی دیواروں یا ستونوں کے بغیر قائم نہیں رہ سکتیں اور پھر ان میں ٹوٹ پھوٹ کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ان سے گرنے والی چیزیں کسی نہ کسی نقصان کا باعث بنتی ہیں، وہ جتنی دیر بھی رہیں آخر گر پڑتی ہیں۔ چور ان میں نقب لگا کر مال و متاع چرا کرلے جاتے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے آسمان کو زمین کے لیے ایسی چھت بنایا جو ستونوں کے بغیر قائم ہے۔ دیکھیے سورة رعد (٢) اور لقمان (١٠) اور گرنے سے ہر طرح سے محفوظ ہے۔ دیکھیے سورة فاطر (٤١) اور سورة حج (٦٥) اس سے کوئی نقصان دہ چیز نیچے آنے کے بجائے زندگی کو قائم رکھنے والی چیزیں، مثلاً سورج کی تیز روشنی (ضیا) اور حرارت، چاند اور ستاروں کا نور، رات دن کا آنا جانا، بادل، بارش، ہوائیں، فرشتے اور اللہ تعالیٰ کی بیشمار نظر نہ آنے والی رحمتیں اترتی ہیں۔ پھر نقب تو بہت دور، راز چرانے کی کوشش کرنے والے شیاطین سے بھی شہاب ثاقب کے ذریعے سے اس کی حفاظت کا زبردست انتظام کیا گیا ہے۔ دیکھیے سورة حجر (١٦ تا ١٨) اور صافات (٦ تا ١٠) ۔- وَّهُمْ عَنْ اٰيٰـتِهَا مُعْرِضُوْنَ : یعنی مشرک لوگ آسمان اور اس میں پائی جانے والی نشانیوں کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے، مثلاً سورج، چاند، ستارے، رات، دن، بارش، بادل، بجلی، ہوائیں اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کی بیشمار چیزیں۔ کیونکہ اگر وہ عبرت کی نظر سے ان تمام چیزوں کو دیکھیں تو یقین کرلیں کہ ان کا بنانے والا موجود ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں۔
وَجَعَلْنَا السَّمَاۗءَ سَقْفًا مَّحْفُوْظًا ٠ وَّہُمْ عَنْ اٰيٰـتِہَا مُعْرِضُوْنَ ٣٢- سقف - سَقْفُ البیت، جمعه : سُقُفٌ ، وجعل السماء سقفا في قوله تعالی: وَالسَّقْفِ الْمَرْفُوعِ [ الطور 5] ، وقال تعالی: وَجَعَلْنَا السَّماءَ سَقْفاً مَحْفُوظاً [ الأنبیاء 32] ، وقال :- لِبُيُوتِهِمْ سُقُفاً مِنْ فِضَّةٍ [ الزخرف 33] ، والسَّقِيفَةُ : كلّ مکان له سقف، کالصّفّة، والبیت، والسَّقَفُ : طول في انحناء تشبيها بالسّقف - ( س ق ف )- سقف البیت مکان کی چھت کر کہتے ہیں اس کی جمع سقف ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لِبُيُوتِهِمْ سُقُفاً مِنْ فِضَّةٍ [ الزخرف 33]( ہم ) ان کے گھروں کی چھتیں چاندی کی بنادیتے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالسَّقْفِ الْمَرْفُوعِ [ الطور 5] اور اونچی چھت کی ۃ قسم میں مراد آسمان ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَجَعَلْنَا السَّماءَ سَقْفاً مَحْفُوظاً [ الأنبیاء 32] میں آسمان کو محفوظ چھت فرمایا ہے ۔ اور ہر وہ جگہ جو مسقف ہو اسے سقیفہ کہا جاتا ہے جیسے صفۃ ( چبوترہ ) مکان وغیرہ ۔ اور چھت کے ساتھ تشبیہ دے کر ہر اس لمبی چیز - الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- اعرض - وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ- ( ع ر ض ) العرض - اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔
(٣٢) اور آسمان کو زمین کے اوپر چھت بنایا جو گرنے سے بھی اور بذریعہ ستاروں کی مار کے شیاطین سے بھی محفوظ ہے۔
آیت ٣٢ (وَجَعَلْنَا السَّمَآءَ سَقْفًا مَّحْفُوْظًاج وَّہُمْ عَنْ اٰیٰتِہَا مُعْرِضُوْنَ ) ” - اس سے پہلے یہ مضمون سورة الحجر میں اس طرح بیان ہوا ہے : (وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِی السَّمَآءِ بُرُوْجًا وَّزَیَّنّٰہَا للنّٰظِرِیْنَ ۔ وَحَفِظْنٰہَا مِنْ کُلِّ شَیْطٰنٍ رَّجِیْمٍ ) ” اور ہم نے آسمان میں برج بنائے ہیں اور اسے مزین کردیا ہے دیکھنے والوں کے لیے اور ہم نے حفاظت کی ہے اس کی ہر شیطان مردود سے “۔ یعنی آسمان دنیا پر جو ستارے ہیں وہ باعث زینت بھی ہیں ‘ لیکن دوسری طرف یہ شیاطین جن کے لیے میزائل سنٹر بھی ہیں۔ ان میں سے جو کوئی بھی اپنی حدود سے تجاوز کر کے غیب کی خبروں کی ٹوہ میں عالم بالا کی طرف جانے کی کوشش کرتا ہے اس پر شہاب ثاقب کی شکل میں میزائل داغا جاتا ہے اور یوں ان شیاطین کی پہنچ کے حوالے سے آسمان کو سَقْفًا مَّحْفُوْظًا کا درجہ دے دیا گیا ہے۔- اب تک کی سائنسی تحقیقات کے حوالے سے سَقْفًا مَّحْفُوْظًا کے دو پہلو اور بھی ہیں۔ ان میں سے ایک تو - کی فراہم کردہ حفاظتی چھتری ہے جس نے پورے کرۂ ارض کو ڈھانپ رکھا ہے اور یوں سورج سے نکلنے والی تمام مضر شعاعوں کو زمین تک آنے سے روکنے کے لیے یہ فلٹر کا کام کرتی ہے (ماحولیاتی سائنس کے ماہرین آج کل اس کے بارے میں بہت فکر مند ہیں کہ مختلف انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے اسے نقصان پہنچ رہا ہے اور یہ بتدریج کمزور ہوتی جا رہی ہے) ۔ اس کے ساتھ ساتھ ہماری فضا (زمین کے اوپر کرۂ ہوائی ) بھی حفاظتی چھت کا کام دیتی ہے۔ خلا میں تیرنے والے چھوٹی بڑی جسامتوں کے بیشمار پتھر (یہ پتھر یا پتھر نما ٹھوس اجسام مختلف ستاروں یا سیاروں میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ کے نتیجے میں ہر وقت خلا میں بکھرے رہتے ہیں) جب کرۂ ہوائی میں داخل ہوتے ہیں تو اپنی تیز رفتاری کے سبب ہوا کی رگڑ سے جل کر فضا میں ہی تحلیل ہوجاتے ہیں اور یوں زمین ان کے نقصانات سے محفوظ رہتی ہے۔
سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :33 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ الحجر ، حواشی نمبر 8 ، 10 ، 110 ۔ 120 ۔ سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :34 یعنی ان نشانیوں کی طرف جو آسمان میں ہیں ۔
16: یعنی وہ گرنے اور ٹوٹنے پھوٹنے سے بھی محفوظ ہے، اور شیطانوں کی دست برد سے بھی۔