Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

33۔ 1 یعنی رات کو آرام اور دن کو معاش کے لئے بنایا، سورج کو دن کی نشانی چاند کو رات کی نشانی بنایا، تاکہ مہینوں اور سالوں کا حساب کیا جاسکے، جو انسان کی اہم ضروریات میں سے ہے۔ 33۔ 2 جس طرح پیراک سطح آب پر تیرتا ہے، اسی طرح چاند اور سورج اپنے اپنے مدار پر تیرتے یعنی رواں دواں رہتے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣١] اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نام تو دو سیاروں سورج اور چاند کا لیا اور بعد میں فرمایا سب (اپنے اپنے) فلک میں تیر رہے ہیں۔ جس سے بہت سے حقائق کا پتہ چلتا ہے۔- (١) سبح کے معنی پانی یا فضا میں تیرنا یا تیز رفتاری سے گزر جانا ہے۔ گویا سیارے فضا یا خلا میں تیز رفتاری سے گردش کر رہے ہیں۔- (٢) سورج اور چاند کے علاوہ بھی جتنے سیارے ہیں وہ سب کے سب محو گردش ہیں۔- (٣) چاند کی طرح سورج ہی یقیناً محو گردش ہے۔ یہاں ایک نہایت اہم سوال سامنے آتا ہے۔ جو یہ ہے کہ آیا ہماری زمین ساکن ہے اور سورج اس کے گرد گھوم رہا ہے یا سورج ساکن ہے اور زمین اس کے گرد گھوم رہی ہے ؟ یہ ایسا سوال ہے جس کے جواب میں آج تک چار مختلف نظریات پیش آچکے ہیں۔ ابتدائی نظریہ یہی تھا کہ ہماری زمین ساکن ہے اور سورج اس کے گرد گھومتا ہے۔ جیسا کہ بظاہر سب کو نظر آتا ہے۔ تقریباً ساڑھے پانچ سو سال قبل مسیح میں یونان کے ایک فلاسفر اور ہیئت دان نے یہ نظریہ پیش کیا کہ سورج ساکن ہے اور ہماری زمین اس کے گرد گھوم رہی ہے۔ نیز ہماری زمین کے علاوہ اور بھی بہت سے سیارے ہیں۔ جو سورج کے گرد گھوم رہے ہیں۔ بعد ازاں چوتھی صدی قبل مسیح میں بطلیموس فلاسفر علم ہیئت کے متعلق وہی پہلا نظریہ پیش کیا کہ حقیقت میں ہماری زمین ساکن ہے اور سورج اس کے گرد گھوم رہا ہے۔ بطلیموس علم ہندسہ ہیئت اور نجوم میں استاد وقت اور یکتائے روزگار تھا۔ اس نے اجرام فلکی کی تحقیق کے لئے ایک رصد گاہ کی بھی تیار کی تھی۔ علم ہیئت پر اس کی کتاب مجسطی نہایت معتبر سمجھی جاتی ہے۔ یہ تیسرا بطلیموسی نظریہ اپنے تمام معتقدات سمیت تقریباً ١٨٠٠ سو سال تک دنیا بھر میں مشہور و مقبول رہا۔ بالآخر یورپ کے ایک ہیئت دان کو ہرنیکس (١٤٧٣۔ ١٥٤٣ ئ) نے سولہویں صدی کے آغاز میں یہ نظریہ پیش کیا کہ سورج متحرک نہیں بلکہ ساکن ہے اور ہماری زمین اپنے محور کے گرد بھی گھومتی ہے اور سورج کے گرد بھی سال بھر میں ایک چکر لگاتی ہے۔ لیکن کو ہرنیکس کے بعد ایک دوسرے ہیئت دان ٹیکو براہی نے کو ہرنیکس کے نظریے کو رد کردیا اور تھوڑی سی ترمیم کے بعد بطلیموسی نظریہ کو ہی صحیح قرار دیا۔ جس میں زمین کو ساکن قرار دیا گیا ہے اور سورج اور دوسرے تمام سیارے اس کے گرد حرکت کر رہے ہیں۔ بعد ازاں اٹلی کے ایک ہیئت دان گیلیلیو نے ایک دوسرے ہیئت دان جنسی (ہالھینڈ) کی مدد سے کئی قسم کی دوربینیں تیار کرکے اجرام فلی کا مشاہدہ کیا تو کو ہرنیکس کے نظریہ کو بہت درست پایا۔ جو اس بارے میں چوتھا نظریہ تھا۔ بعد ازاں کئی ہیئت دانوں نے اس نظریہ کی تائید کی اور آج کے دور میں یہی نظریہ رائج اور درست سمجھا جارہا ہے۔ یہ کہ سورج ساکن ہے اور نو ستارے اس کے گرد گھوم رہے ہیں اور یہ امکان بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ ممکن ہے کہ ہمارا سورج اپنے پورے خاندان (نظام شمسی) سمیت اپنے سے کسی بڑے سورج کے گرد گھوم رہا ہو۔ - زمین کی گردش کے متعلق ہمیں کتاب و سنت میں کوئی صراحت نہیں ملتی کہ آیا وہ ساکن ہے یا متحرک ؟ البتہ دلالہ ن یہی معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ زمین بھی ایک سیارہ ہے اور گول ہے لہذا وہ بھی کل کے حکم میں داخل ہو اور حرکت کر رہی ہو۔ البتہ سورج کے متعلق کتاب و سنت میں بالصراحت مذکور ہے کہ وہ حرکت کر رہا ہے اور اس حرکت سے مراد محض محوری گردش ہی نہیں۔ بلکہ جریان یا سبح کے الفاظ سے ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کرنا اور کرتے جانا مراد ہے۔ گویا موجودہ ہیئت دانوں کا احتمال محض احتمال نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ سورج بمعہ اپنے خاندان اپنے سے کسی بڑے سورج (یعنی شمس الشموس یا ثافت الثوایت) کے گرد گھوم رہا ہے۔- (٤) اس آیت میں فلک کا استعمال ہوا ہے۔ جس کا ترجمہ گو اردو زبان میں آسمان ہی کرلیا جاتا ہے تاہم اس سے مراد وہ سات آسمان نہیں جن کی تعداد کتاب و سنت میں (سبع سماوات) بتلائی گئی ہے۔ بلکہ اس سے مراد سیاروں کے مدار ( ) یا وہ راستے ہیں جن پر وہ گھوم رہے ہیں۔ بطلیموسی نظریہ کے مطابق سیارے سات تھے اور افلاک بھی سات ہی تھے۔ پہلے فلک پر چاند دوسرے پر عطارد، تیسرے پر زہر، چوتھے پر سورج، پانچویں پر مریخ، چھٹے پر مشتری اور ساتویں پر زحل ہے۔ ان سات افلاک کو سات سیاروں سے منسوب کیا گیا ہے۔ پھر ان کے اوپر آٹھواں فلک ہے جو کس فلک ہشتم، فلک ثوابت اور فلک البروج بھی کہتے ہیں۔ اس آٹھویں فلک کے دائرہ کو ١٢ حصوں میں تقسیم کرکے ہر حصہ کو ایک برج قرار دیا ہے۔- ٥۔ بطلیموسی نظریہ کے مطابق صرف سیارے ہی محو گردش نہیں بلکہ یہ افلاک بھی گردش کرتے ہیں۔ اور ان سیاروں اور افلاک کی گردش کے انسانی زندگی پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جیسا کہ غالب کے درج ذیل شعر سے بھی معلوم ہوتا ہے۔- رات دن گردش میں ہیں سات آسمان۔۔ ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا - اس آیت میں سیاروں کے گردش کا تو ذکر موجود ہے لیکن یہ بھی بتلا دیا گیا کہ یہ فلک (مدار) گردش نہیں کرتے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَهُوَ الَّذِيْ خَلَقَ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ : پچھلی آیت میں مشرکوں کے زمین و آسمان کی نشانیوں سے منہ موڑنے کا ذکر فرمایا، اس آیت میں ان میں سے چند نشانیاں ذکر فرمائی ہیں، یعنی رات، دن، سورج اور چاند۔ بڑی نشانیوں کے ذکر کے بعد چھوٹی نشانیوں، مثلاً ستاروں وغیرہ کے ذکر کی ضرورت نہیں رہی۔ ان کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة بنی اسرائیل (١٢) ، قصص (٧١، ٧٢) ، یونس (٥، ٦) ، فرقان (٦١، ٦٢) ، انعام (٩٦) اور یس (٣٧ تا ٤٠) ۔ ۭ كُلٌّ فِيْ فَلَكٍ يَّسْبَحُوْنَ : ” فَلَكٍ “ دراصل چرخے کے دھاگا بنانے والے تکلے پر گھومنے والے گول چمڑے کو کہتے ہیں، پھر ہر دائرے کو فلک کہہ لیتے ہیں۔ ” سَبَحَ یَسْبَحُ “ (ف) کا معنی تیرنا ہے۔ نہایت تیزی سے چلنے کو بھی تیرنے سے تشبیہ دیتے ہیں، جیسا کہ متنبی نے کہا ہے ؂ - أَعَزُّ مَکَانٍ فِی الدُّنْیَا سَرْجُ سَابِحٍ- وَ خَیْرُ جَلِیْسٍ فِی الزَّمَانِ کِتَابُ- ” دنیا میں سب سے زیادہ باعزت جگہ تیرنے والے گھوڑے کی زین ہے اور زمانے میں سب سے بہتر ہم نشین کتاب ہے۔ “ - مطلب یہ ہے کہ سورج، چاند اور تمام سیارے اپنے اپنے دائرے میں نہایت تیزی سے گھوم رہے ہیں۔ کوئی اپنے مقرر کردہ مدار سے نہ ادھر ادھر ہوتا ہے اور نہ خراب ہو کر رکتا ہے۔ نہ کسی میں کوئی حادثہ رونما ہوتا ہے اور نہ تصادم، فرمایا : (ذٰلِكَ تَــقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِــيْمِ ) [ یٰسٓ : ٣٨ ] ” یہ اس کا مقرر کردہ اندازہ ہے جو سب پر غالب، سب کچھ جاننے والا ہے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

كُلٌّ فِيْ فَلَكٍ يَّسْبَحُوْنَ لفظ فلک دراصل ہر دائرے اور گول چیز کو کہا جاتا ہے اسی وجہ سے چرغے میں جو گول چمڑا لگا ہوتا ہے اس کو فلکۃ المغزل کہتے ہیں (روح) اور اسی وجہ سے آسمان کو بھی فلک کہہ دیا جاتا ہے۔ یہاں مراد شمس و قمر کی وہ مداریں ہیں جن پر وہ حرکت کرتے ہیں۔ الفاظ قرآن میں اس کی کوئی تصریح نہیں ہے یہ مداریں آسمان کے اندر ہیں یا باہر فضاء میں حالیہ خلائی تحقیقات نے واضح کردیا ہے کہ یہ مداریں آسمان کے اندر ہیں یا باہر فضاء میں۔ حالیہ خلائی تحقیقات نے واضح کردیا ہے کہ یہ مداریں خلاء اور فضاء میں آسمان سے بہت نیچے ہیں۔- اس آیت کے ظاہر سے یہ بھی مفہوم ہوتا ہے کہ آفتاب بھی ایک مدار پر حرکت کرتا ہے جدید فلاسفہ پہلے اس کے منکر تھے اب وہ بھی اس کے قائل ہوگئے ہیں۔ مزید تفصیلات کی یہ جگہ نہیں۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَہُوَالَّذِيْ خَلَقَ الَّيْلَ وَالنَّہَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ۝ ٠ۭ كُلٌّ فِيْ فَلَكٍ يَّسْبَحُوْنَ۝ ٣٣- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - شمس - الشَّمْسُ يقال للقرصة، وللضّوء المنتشر عنها، وتجمع علی شُمُوسٍ. قال تعالی: وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَها [يس 38] ، وقال :- الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ [ الرحمن 5] ، وشَمَسَ يومَنا، وأَشْمَسَ : صار ذا شَمْسٍ ، وشَمَسَ فلان شِمَاساً : إذا ندّ ولم يستقرّ تشبيها بالشمس في عدم استقرارها .- ( ش م س ) الشمس - کے معنی سورج کی نکیر یا وہوپ کے ہیں ج شموس قرآن میں ہے ۔ وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَها [يس 38] اور سورج اپنے مقرر راستے پر چلتا رہتا ہے ۔ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ [ الرحمن 5] سورج اور چاند ایک حساب مقرر سے چل رہے ہیں ۔ شمس یومنا واشمس ۔ دن کا دھوپ ولا ہونا شمس فلان شماسا گھوڑے کا بدکنا ایک جگہ پر قرار نہ پکڑناز ۔ گویا قرار نہ پکڑنے ہیں میں سورج کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے ۔- قمر - القَمَرُ : قَمَرُ السّماء . يقال عند الامتلاء وذلک بعد الثالثة، قيل : وسمّي بذلک لأنه يَقْمُرُ ضوء الکواکب ويفوز به . قال : هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] - ( ق م ر ) القمر - ۔ چاند جب پورا ہورہا ہو تو اسے قمر کہا جاتا ہے اور یہ حالت تیسری رات کے بعد ہوتی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ چاندکو قمر اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ ستاروں کی روشنی کو خیاہ کردیتا ہے اور ان پر غالب آجا تا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا ۔- فلك - الْفُلْكُ : السّفينة، ويستعمل ذلک للواحد والجمع، وتقدیراهما مختلفان، فإنّ الفُلْكَ إن کان واحدا کان کبناء قفل، وإن کان جمعا فکبناء حمر .- قال تعالی: حَتَّى إِذا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ [يونس 22] ، وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ [ البقرة 164] ، وَتَرَى الْفُلْكَ فِيهِ مَواخِرَ [ فاطر 12] ، وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف 12] . والفَلَكُ : مجری الکواكب، وتسمیته بذلک لکونه کالفلک، قال : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [يس 40] . وفَلْكَةُ المِغْزَلِ ، ومنه اشتقّ : فَلَّكَ ثديُ المرأة «1» ، وفَلَكْتُ الجديَ : إذا جعلت في لسانه مثل فَلْكَةٍ يمنعه عن الرّضاع .- ( ف ل ک ) الفلک - کے معنی سفینہ یعنی کشتی کے ہیں اور یہ واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ لیکن دونوں میں اصل کے لحاظ سے اختلاف ہ فلک اگر مفرد کے لئے ہو تو یہ بروزن تفل ہوگا ۔ اور اگر بمعنی جمع ہو تو حمر کی طرح ہوگا ۔ قرآن میں ہے : حَتَّى إِذا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ [يونس 22] یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں سوار ہوتے ہو۔ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ [ البقرة 164] اور کشتیوں ( اور جہازوں ) میں جو دریا میں ۔۔ رواں ہیں ۔ وَتَرَى الْفُلْكَ فِيهِ مَواخِرَ [ فاطر 12] اور تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں دریا میں پانی کو پھاڑتی چلی جاتی ہیں ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف 12] اور تمہارے لئے کشتیاں اور چار پائے بنائے جن پر تم سوار ہوتے ہو۔ اور - فلک - کے معنی ستاروں کا مدار ( مجرٰی) کے ہیں اور اس فلک یعنی کشتی نما ہونے کی وجہ سے فلک کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [يس 40] سب اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں ۔ اور نلکتہ المغزل کے معنی چرخے کا دم کرہ کے ہیں اور اسی سے فلک ثدی المرءۃ کا محاورہ ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں عورت کی چھاتی کے دم کزہ طرح ابھر آنے کے ہیں اور فلقت الجدی کے معنی بکری کے بچے کی زبان پھاڑ کر اس میں پھر کی سی ڈال دینے کے ہیں ۔ تاکہ وہ اپنی ماں کے پستانوں سے دودھ نہ چوس سکے ۔- سبح - السَّبْحُ : المرّ السّريع في الماء، وفي الهواء، يقال : سَبَحَ سَبْحاً وسِبَاحَةً ، واستعیر لمرّ النجوم في الفلک نحو : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء 33] ، ولجري الفرس نحو : وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات 3] ، ولسرعة الذّهاب في العمل نحو : إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] ، والتَّسْبِيحُ : تنزيه اللہ تعالی. وأصله : المرّ السّريع في عبادة اللہ تعالی، وجعل ذلک في فعل الخیر کما جعل الإبعاد في الشّرّ ، فقیل : أبعده الله، وجعل التَّسْبِيحُ عامّا في العبادات قولا کان، أو فعلا، أو نيّة، قال : فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات 143] ،- ( س ب ح ) السبح - اس کے اصل معنی پانی یا ہوا میں تیز رفتار ری سے گزر جانے کے ہیں سبح ( ف ) سبحا وسباحۃ وہ تیز رفتاری سے چلا پھر استعارہ یہ لفظ فلک میں نجوم کی گردش اور تیز رفتاری کے لئے استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء 33] سب ( اپنے اپنے ) فلک یعنی دوائر میں تیز ی کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ اور گھوڑے کی تیز رفتار پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات 3] اور فرشتوں کی قسم جو آسمان و زمین کے درمیان ) تیر تے پھرتے ہیں ۔ اور کسی کام کو سرعت کے ساتھ کر گزرنے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] اور دن کے وقت کو تم بہت مشغول کا رہے ہو ۔ - التسبیح - کے معنی تنزیہ الہیٰ بیان کرنے کے ہیں اصل میں اس کے معنی عبادت الہی میں تیزی کرنا کے ہیں پھر اس کا استعمال ہر فعل خیر پر ہونے لگا ہے جیسا کہ ابعاد کا لفظ شر پر بولا جاتا ہے کہا جاتا ہے ابعد اللہ خدا سے ہلاک کرے پس تسبیح کا لفظ قولی ۔ فعلی اور قلبی ہر قسم کی عبادت پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات 143] قو اگر یونس (علیہ السلام) اس وقت ( خدا کی تسبیح ( و تقدیس کرنے والوں میں نہ ہوتے ۔ یہاں بعض نے مستحین کے معنی مصلین کئے ہیں لیکن انسب یہ ہے کہ اسے تینوں قسم کی عبادت پر محمول کیا جائے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٣) اور یہ اہل مکہ اس آسمان کے اندر کی نشانیوں سے یعنی چاند، سورج، ستاروں سے اعراض کیے ہوئے ہیں ان میں تدبر اور غور و فکر نہیں کرتے، اور اس نے چاند وسورج کو مسخر کیا کہ ہر ایک ایک، الگ الگ دائرے میں اسطرح چل رہیں گویا تیر رہے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :35 کُلٌّ اور یَسْبَحُوْنَ کے الفاظ بتاتے ہیں کہ مراد صرف سورج اور چاند ہی نہیں ہیں بلکہ دوسرے اَجرام فلکی ، یعنی تارے بھی مراد ہیں ، ورنہ جمع کے بجائے تثنیہ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ۔ فَلَکِ جو فارسی کے چرخ اور گردوں کا ٹھیک ہم معنی ہے ، عربی زبان میں آسمان کے معروف ناموں میں سے ہے ۔ سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں سے دو باتیں صاف سمجھ میں آتی ہیں ۔ ایک یہ کہ یہ سب تارے ایک ہی فلک میں نہیں ہیں بلکہ ہر ایک کا فلک الگ ہے ۔ دوسرے یہ کہ فلک کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس میں یہ تارے کھونٹیوں کی طرح جڑے ہوئے ہوں اور وہ خود انہیں لیے ہوئے گھوم رہا ہو ، بلکہ وہ کوئی سیال شے ہے یا فضا اور خلا کی سی نوعیت کی چیز ہے جس میں ان تاروں کی حرکت تیرنے کے فعل سے مشابہت رکھتی ہے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، یٰسین ، حاشیہ 37 ) ۔ قدیم زمانے میں لوگوں کے لیے آسمان و زمین کے رتق و فتق ، اور پانی سے ہر زندہ چیز کے پیدا کیے جانے ، اور تاروں کے ایک ایک فلک میں تیرنے کا مفہوم کچھ اور تھا ، موجودہ زمانے میں طبعیات ( ) ، حیاتیات ، ( ) اور علم ہیئت ( ) کی جدید معلومات نے ہمارے لیے ان کا مفہوم کچھ اور کر دیا ہے ، اور نہیں کہہ سکتے کہ آگے چل کر انسان کو جو معلومات حاصل ہونی ہیں وہ ان الفاظ کے کن معانی پر روشنی ڈالیں گی ۔ بہرحال موجودہ زمانے کا انسان ان تینوں آیات کو بالکل اپنی جدید ترین معلومات کے مطابق پاتا ہے ۔ اس مقام پر یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ : وَلَہ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْض ِ سے لے کر کَذٰلِکَ نَجْزِی الظّٰلِمِیْنَ تک کی تقریر شرک کی تردید میں ہے ، اور اَوَلَمْ یَرَا لَّذِیْنَ کَفَرُوْ سے لے کر فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ تک جو کچھ فرمایا گیا ہے اس میں توحید کے لیے ایجابی ( ) دلائل دیے گئے ہیں ۔ مدعا یہ ہے کہ یہ نظام کائنات جو تمہارے سامنے ہے ، کیا اس میں کہیں ایک اللہ رب العالمین کے سوا کسی اور کی بھی کوئی کاریگری تمہیں نظر آتی ہے ؟ کیا یہ نظام ایک سے زیادہ خداؤں کی کار فرمائی میں بن سکتا تھا اور اس باقاعدگی کے ساتھ جاری رہ سکتا تھا ؟ کیا اس حکیمانہ نظام کے متعلق کوئی صاحب عقل و خرد آدمی یہ تصور کر سکتا ہے کہ یہ ایک کھلندڑے کا کھیل ہے اور اس نے محض تفریح کے لیے چند گرویاں بنائی ہیں جن سے کچھ مدت کھیل کر بس وہ یونہی ان کو خاک میں ملا دے گا ؟ یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو اور پھر بھی نبی کی بات ماننے سے انکار کیے جاتے ہو؟ تم کو نظر نہیں آتا زمین و آسمان کی ایک ایک چیز اس نظریہ توحید کی شہادت دے رہی ہے جو یہ نبی تمہارے سامنے پیش کر رہا ہے ؟ ان نشانیوں کے ہوتے تم کہتے ہوکہ : فَلْیَاْتِنَا بِاٰیَۃٍ ، یہ نبی کوئی نشانی لے کر آئے کیا نبی کی دعوت توحید کے حق ہونے پر گواہی دینے کے لیے یہ نشانیاں کافی نہیں ہیں ؟

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

17: قرآنِ کریم میں اصل لفظ ’’فُلْک‘‘ ہے جو عربی زبان میں گول دائرے کو کہتے ہیں۔ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی، اس وقت فلکیات میں یہ بطلیموسی نظریہ دُنیا پر چھایا ہوا تھا کہ چاند سورج اور دوسرے سیارے آسمانوں میں جُڑے ہوئے ہیں، اور آسمان کی گردش کے ساتھ وہ سیارے بھی گردش کرتے ہیں۔ لیکن اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے جو الفاظ اختیار فرمائے، وہ اس بطلیموسی نظریے پر پوری طرح منطبق نہیں ہوتے، اس کے بجائے اس آیت کے مطابق ہر سیارے کا اپنا مدار ہے جس میں وہ ’’تیر رہا ہے‘‘۔ تیرنے کا لفظ بطور خاص قابل توجہ ہے، جو خلا میں تیرنے پر زیادہ صادق آتا ہے۔ سائنس اس حقیقت تک بھی بہت بعد میں پہنچی ہے کہ سیارے خلا میں تیر رہے ہیں۔