خضرعلیہ السلام مرچکے ہیں جتنے لوگ ہوئے سب کو ہی موت ایک روز ختم کرنے والی ہے ۔ تمام روئے زمین کے لوگ موت سے ملنے والے ہیں ۔ ہاں رب کی جلال واکرام والی ذات ہی ہمیشہ اور لازوال ہے ۔ اسی آیت سے علماء نے استدلال کیا ہے کہ حضرت خضرعلیہ السلام مرگئے ۔ یہ غلط ہے کہ وہ اب تک زندہ ہوں کیونکہ وہ بھی انسان ہی تھے ولی ہوں یانبی ہوں یا رسول ہوں تھے تو انسان ہی ۔ ان کفار کی یہ آرزو کتنی ناپاک ہے کہ تم مرجاؤ؟ تو کیا یہ ہمیشہ رہنے والے ہیں؟ ایسا تو محض ناممکن دنیا میں تو چل چلاؤ لگ رہا ہے ۔ کسی کو بجز ذات باری کے دوام نہیں ۔ کوئی آگے ہے کوئی پیچھے ۔ پھر فرمایا موت کا ذائقہ ہر ایک کوچکھنا پڑے گا ۔ حضرت امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ لوگ میری موت کے آرزو مند ہیں تو کیا اس کے بارے میں میں ہی اکیلا ہوں؟ یہ وہ ذائقہ نہیں جو کسی کو چھوڑ دے ۔ پھر فرماتا ہے بھلائی برائی سے ، سکھ دکھ سے ، مٹھاس کڑواہٹ سے ، کشادگی تنگی سے ۔ ہم اپنے بندوں کو آزمالیتے ہیں تاکہ شکر گزار اور ناشکرا صابر اور ناامید کھل جائے ۔ صحت وبیماری ، تونگری ، فقیری ، سختی ، نرمی ، حلال ، حرام ، ہدایت ، گمراہی ، اطاعت ، معصیت یہ سب آزمائشیں ہیں ، اس میں بھلے برے کھل جاتے ہیں ۔ تمہارا سب کا لوٹنا ہماری ہی طرف ہے اس وقت جوجیسا تھا کھل جائے گا ۔ بروں کو سزا نیکوں کو جزا ملے گی ۔
34۔ 1 یہ کفار کے جواب میں، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بابت کہتے تھے کہ ایک دن اسے مر ہی جانا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، موت تو ہر انسان کو آنی ہے اور اس اصول سے یقینا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی مستشنٰی نہیں۔ کیونکہ وہ بھی انسان ہی ہیں اور ہم نے انسان کے لئے بھی دوام اور ہمیشگی نہیں رکھی ہے۔ لیکن کیا بات کہنے والے خود نہیں مریں گے۔ ؟ اس سے صنم پرستوں کی بھی تردید ہوگئی جو دیوتاؤں کی اور انبیاء و اولیاء کی زندگی کے قائل ہیں اور اسی بنیاد پر ان کو حاجت روا مشکل کشا سمجھتے ہیں فنعوذ باللہ من ھذہ العقیدۃ الفاسدۃ التی تعارض القرآن۔
[٣٢] جب کفار مکہ کے ظلم و ستم اور چیرہ دستیوں سے تنگ آکر ٨٠ کے قریب مسلمان حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے۔ تو قریش مکہ کے سب گھروں میں کہرام مچ گیا۔ کیونکہ مشکل ہی سے کوئی گھرانا ایسا بچا رہ گیا ہوگا جس کے کسی لڑکے یا لڑکی نے ہجرت نہ کی ہو۔ ان لوگوں کو اپنی ایذا رسانیوں کا تو خیال تک نہ آتا تھا مگر یہ ضرور سمجھتے تھے کہ ہمارے گھروں کی بربادی کا باعث صرف یہ شخص (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے۔ لہذا وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ اگر یہ شخص مرجائے تو ہمارے گھر پھر سے آباد ہوسکتے ہیں۔ پھر وہ آپ کے لئے موت کی بددعا بھی کرتے تھے۔ اس آیت میں انہی لوگوں کو مخاطب کرکے بتلایا جارہا ہے کہ موت ہر ایک کو آنے والی ہے۔ پہلے بھی سب لوگ۔۔ اور اس نہی کو بھی اپنے وقت پر موت آنے والی ہے۔ مگر تم بتاؤ کہ تم موت سے بچ سکتے ہو۔ وہ تو تمہیں بھی آکے رہے گی اور کیا معلوم کہ تم سے اکثر اس سے پہلے ہی مرجائیں۔
وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ : اس سے پہلے چار آیات میں خالق کائنات کے وجود اور اس کی توحید کے چھ دلائل بیان فرمائے۔ اب یہاں سے بیان فرمایا کہ یہ نظام ہمیشہ قائم رہنے کے لیے نہیں بلکہ امتحان اور آزمائش کے لیے بنایا گیا ہے۔ (کبیر)- 3 بقاعی نے پچھلی آیت کے ساتھ یہ مناسبت ذکر کی ہے کہ اس میں رات دن کے آنے جانے کا ذکر ہے، جس سے ہر انسان کی عمر کا سلسلہ آخر منقطع ہوجاتا ہے، اس لیے فرمایا کہ ہم نے آپ سے پہلے کسی بشر کے لیے ہمیشگی نہیں رکھی، خواہ نیک ہو یا بد۔ یہ آیت خضر (علیہ السلام) کے زندہ نہ ہونے کی بھی ایک بہت مضبوط دلیل ہے۔ رہے عیسیٰ (علیہ السلام) ، تو ان کی عمر بہت طویل ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ انھیں ہمیشہ کی زندگی حاصل ہے، کیونکہ قیامت کے قریب زمین پر اترنے کے بعد انھوں نے بھی فوت ہونا ہے۔ [ بخاري، العلم، باب السمر في العلم : ١١٦، عن ابن عمر ] وہ حدیث بھی اس کی صریح دلیل ہے جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( فَإِنَّ رَأْسَ مِءَۃِ سَنَۃٍ مِنْھَا لَا یَبْقٰی مِمَّنْ ھُوَ عَلٰی ظَھْرِ الْأَرْضِ أَحَدٌ ) [ بخاري، في العلم، باب السمر فی العلم : ١١٦۔ مسلم : ٢٥٣٨ ] ” جو لوگ آج زمین کی پشت پر موجود ہیں آج سے ایک سو سال کے سرے پر ان میں سے کوئی باقی نہیں رہے گا۔ “ - اَفَا۟ىِٕنْ مِّتَّ فَهُمُ الْخٰلِدُوْنَ : اس میں ان لوگوں کا جواب ہے جو یہ کہہ کر خوشی کا اظہار کیا کرتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عنقریب مرجائیں گے تو ہماری جان چھوٹ جائے گی۔ دیکھیے سورة طور (٢٠) فرمایا، اس میں ان کے لیے خوشی کا موقع تو تب ہو جب انھیں ہمیشہ زندہ رہنا ہو۔
خلاصہ تفسیر - اور (یہ لوگ جو آپ کی وفات کی خوشیاں منا رہے ہیں لقولہ تعالیٰ نَّتَرَبَّصُ بِهٖ رَيْبَ الْمَنُوْنِ ، یہ وفات بھی منافی نبوت کی نہیں کیونکہ) ہم نے آپ سے پہلے بھی کسی بشر کے لئے (خواہ وہ نبی ہو یا غیر نبی دنیا میں) ہمیشہ رہنا تجویز نہیں کیا (لقولہ تعالیٰ وَمَا كَانُوْا خٰلِدِيْنَ ، پس جیسے آپ سے پہلے انبیاء کو موت آئی اس سے ان کی نبوت میں کسی کو شبہ نہیں ہوا اسی طرح آپ کی وفات سے آپ کی نبوت میں کوئی شبہ نہیں ہو سکتا۔ خلاصہ یہ ہے کہ نبوت اور موت دونوں ایک شخص میں جمع ہو سکتی ہیں) پھر (یہ کہ اگر آپ کا انتقال ہوجاوے تو کیا یہ لوگ (دنیا میں) ہمیشہ ہمیشہ کو رہیں گے (آخر یہ بھی مریں گے پھر خوشی کا کیا مقام ہے ؟ مطلب یہ کہ آپ کی وفات سے ان کی خوشی اگر ابطال نبوت کے لئے ہے۔ تب تو مَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ الخ اس کا جواب ہے اور اگر ذاتی بغض و عداوت سے ہے تو اَفَا۟ىِٕنْ مِّتَّ اس کا جواب ہے غرض ہر حالت میں یہ انتظار مہمل اور لغو ہے اور موت تو ایسی چیز ہے کہ تم میں) ہر جاندار موت کا مزا چکھے گا اور (یہ جو ہم نے چند روزہ تم کو زندگی دے رکھی ہے تو اس سے مقصود محض یہ ہے کہ) ہم تم کو بری بھلی حالتوں سے اچھی طرح آزماتے ہیں (بری حالت سے مراد جو کہ خلاف مزاج ہو جیسے مرض و فقر اور اچھی حالت سے مراد جو کہ موافق مزاج ہو جیسے صحت اور غنا زندگی میں یہی حالتیں مختلف طور پر پیش آتی ہیں۔ کوئی ان میں ایمان اور اطاعت بجا لاتا ہے اور کوئی کفر و معصیت کرتا ہے مطلب یہ کہ زندگی اس لئے دے رکھی ہے کہ دیکھیں کیسے کیسے عمل کرتے ہو) اور (اس زندگی کے ختم پر) پھر تم سب ہمارے پاس چلے آؤ گے (اور ہر ایک کو اس کے مناسب سزا و جزا دیں گے پس امر مہم تو موت اور مابعد الموت ہی ہوا اور زندگی محض عارضی پھر یہ لوگ اس پر اتراتے ہیں اور پیغمبر کی وفات پر خوشیاں مناتے ہیں یہ نہ ہوا کہ اس مستعار زندگی میں دولت ایمان و اطاعت کما لیتے جو ان کے کام آتی اور الٹا نامہ اعمال سیاہ اور آخرت کی منزل بھاری کر رہے ہیں ڈرتے نہیں) اور (ان منکرین کی یہ حالت ہے کہ) یہ کافر لوگ جب آپ کو دیکھتے ہیں تو بس آپ سے ہنسی مذاق کرنے لگتے ہیں (اور آپس میں کہتے ہیں) کہ کیا یہی (صاحب) ہیں جو تمہارے معبودوں (کا برائی سے) ذکر کیا کرتے ہیں (سو آپ پر تو بتوں کے انار کا بھی اعتراض ہے) اور (خود) یہ لوگ (حضرت) رحمان (جل شانہ) کے ذکر پر انکار (اور کفر) کیا کرتے ہیں (تو اعتراض کی بات تو درحقیقت یہ ہے اس لئے ان کو اپنی اس حالت پر استہزاء کرنا چاہئے تھا اور ان کی یہ حالت ہے کہ جب سزائے کفر کا مضمون سنتے ہیں جیسے اوپر ہی ذکر ہوا ہے اِلَيْنَا تُرْجَعُوْنَ تو بوجہ تکذیب کے اس کا تقاضا کرتے ہیں کہ یہ سزا جلد آجائے اور یہ تقاضا اور عجلت کچھ انسانی طبیعت کا خاصہ اکثریہ بھی ہے پس اس کا طبعی ہونا ایسا ہے جیسے گویا) انسان جلدی ہی (کے خمیر) کا بنا ہوا (ہے یعنی عجلت اور جلدی مثل اس کے اجزاء ترکیبیہ کے ہے اسی واسطے یہ لوگ عذاب جلدی جلدی مانگتے ہیں اور اس میں دیر ہونے کو دلیل عدم وقوع کی سمجھتے ہیں لیکن اے کافرو یہ تمہاری غلطی ہے کیونکہ اس کا وقت معین ہے سو ذرا صبر کرو) ہم عنقریب (اس کے وقت آنے پر) تم کو اپنی نشانیاں (قہر کی یعنی سزائیں) دکھائے دیتے ہیں، پس تم مجھ سے جلدی مت مچاؤ (کیونکہ عذاب وقت سے پہلے آتا نہیں اور وقت پر ٹلتا نہیں) اور یہ لوگ (جب یہ مضمون سنتے ہیں کہ وقت موعود پر عذاب آوے گا تو رسول اور مؤمنین سے یوں) کہتے ہیں کہ یہ وعدہ کس وقت آوے گا اگر تم (وقوع عذاب کی خبر میں) سچے ہو ( تو توقف کا ہے کا جلدی سے کیوں نہیں واقع کردیا جاتا۔ اصل یہ ہے کہ ان کو اس مصیبت کی خبر نہیں جو ایسی بےفکری کی باتیں کرتے ہیں) کاش ان کافروں کو اس وقت کی خبر ہوتی جبکہ (ان کو سب طرف سے دوزخ کی آگ گھیرے گی اور) یہ لوگ (اس) آگ کو نہ اپنے سامنے سے روک سکیں گے اور نہ اپنے پیچھے سے اور نہ ان کی کوئی حمایت کرے گا (یعنی اگر اس مصیبت کا علم ہوتا تو ایسی باتیں نہ بناتے اور یہ جو دنیا ہی میں عذاب نار کی فرمائش کر رہے ہیں سو یہ ضرور نہیں کہ ان کی فرمائش کے موافق عذاب نار آ جاوے، بلکہ وہ آگ (تو) ان کو ایک دم سے آلے گی سو ان کو بدحواس کر دے گی پھر نہ اس کے ہٹانے کی ان کو قدرت ہوگی اور نہ ان کو مہلت دی جائے گی اور (اگر وہ یوں کہیں کہ اگر یہ عذاب آخرت میں موعود ہونے کی وجہ سے دنیا میں نہیں ہوتا تو اچھا دنیا میں اس کا کوئی نمونہ تو دکھلا دو تو گو باقاعدہ مناظرہ نمونہ دکھلانا ضرور نہیں لیکن تبرعاً نمونہ کا پتہ بھی دیا جاتا ہے وہ یہ کہ آپ سے پہلے جو پیغمبر گزرے ہیں ان کے ساتھ بھی (کفار کی طرف سے) تمخسر کیا گیا سو جن لوگوں نے ان سے تمخسر کیا تھا ان پر وہ عذاب واقع ہوگیا جس کے ساتھ وہ استہزاء کرتے تھے (کہ عذاب کہاں ہے پس اس سے معلوم ہوا کہ کفر موجب عذاب ہے پس اگر دنیا میں وقوع نہ ہو تو آخرت میں ہوگا اور یہ بھی ان سے) کہہ دیجئے (کہ دنیا میں جو تم عذاب سے محفوظ ہو سو یہ حفاظت بھی حضرت رحمان ہی کر رہا ہے اس میں بھی اسی کا احسان اور دلالت علی التوحید ہے اور اگر تم اس کو تسلیم نہیں کرتے تو پھر بتلاؤ) کہ وہ کون ہے جو رات اور دن میں رحمان (کے عذاب) سے تمہاری حفاظت کرتا ہو (اور اس مضمون کا مسلم مقتضا یہ تھا کہ توحید کے قائل ہوجاتے مگر وہ اب بھی قائل نہ ہوئے) بلکہ وہ لوگ (اب بھی بدستور) اپنے رب (حقیقی) کے ذکر (توحید کے قبول کرنے) سے روگرداں (ہی) ہیں (ہاں ہم مَنْ يَّـكْلَـؤ ُ كُمْ کے مصداق کی توضیح کے لئے صریحاً دریافت کرتے ہیں کہ) کیا ان کے پاس ہمارے سوا اور ایسے معبود ہیں کہ (عذاب مذکور سے) ان کی حفاظت کرلیتے ہوں (وہ بیچارے ان کی تو کیا حفاظت کرتے ان کی بیچارگی دور ماندگی کی تو یہ حالت ہی کہ) وہ خود اپنی حفاظت کی قدرت نہیں رکھتے (مثلاً ان کو کوئی توڑنے پھوڑنے لگے تو مدافعت بھی نہیں کرسکتے کقولہ تعالیٰ وَاِنْ يَّسْلُبْهُمُ الذُّبَاب الخ پس نہ وہ ان کے معبود ان کی حفاظت کرسکتے ہیں) اور نہ ہمارے مقابلہ میں کوئی ان کا ساتھ دے سکتا ہے (اور یہ لوگ باوجود ان دلائل ساطعہ کے جو حق کو قبول نہیں کرتے تو یہ وجہ نہیں کہ دعوی یا دلیل میں کچھ خلل ہے) بلکہ (اصل وجہ اس کی یہ ہے کہ) میں نے ان کو اور ان کے باپ دادوں کو (دنیا کا) خوب سامان دیا یہاں تک کہ ان پر (اسی حالت میں) ایک عرصہ دراز گزر گیا (کہ پشتہائے پشت سے عیش آرام کرتے آ رہے ہیں پس کھا کھا کے غرانے لگے اور آنکھیں پتھرا گئیں مطلب یہ ہے کہ ان ہی میں خلل غفلت کا ہے لیکن باوجود منبہات تشریعیہ و تکوینیہ کے اتنی غفلت بھی نہ ہونا چاہئے چناچہ ایک امر منبہ کا ذکر کیا جاتا ہے وہ یہ کہ) کیا ان کو یہ نظر نہیں آتا کہ ہم (ان کی) زمین کو (بذریعہ فتوحات اسلامیہ کے) ہر چہار طرف سے برابر گھٹاتے چلے جاتے ہیں سو کیا یہ لوگ (یہ توقع رکھتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مؤمنین پر) غالب آویں گے (کیونکہ قرائن عادیہ اور دلائل تنزیلیہ متفق ہیں ان کے مغلوب اور اہل حق کے غالب ہوتے جانے پر تاوقتیکہ مسلمان اطاعت خداوندی سے منہ نہ موڑیں اور حمایت اسلام نہ چھوڑیں پس اس امر میں قائل کرنا بھی تنبیہ کے لئے کافی ہے اگر اس پر بھی عناد و جہالت سے وقوع عذاب ہی کی فرمائش کریں تو) آپ کہہ دیجئے کہ میں تو صرف وحی کے ذریعہ سے تم کو ڈراتا ہوں (عذاب کا آنا میرے بس سے باہر ہے) اور (گو یہ طریقہ دعوت الی الحق کا اور یہ انداز کافی ہے، مگر) یہ بہرے جس وقت (حق کی طرف بلائے جانے کے واسطے عذاب سے) ڈرائے جاتے ہیں سنتے ہی نہیں (اور طریق وضوح حق میں تامل ہی نہیں کرتے بلکہ وہی مرغی کی ایک ٹانگ عذاب ہی مانگے جاتے ہیں) اور (کیفیت عالی ہمتی کی یہ ہے کہ) اگر ان کو آپ کے رب کے عذاب کا ایک جھونکا بھی ذرا لگ جاوے تو (ساری بہادری ختم ہوجاوے اور) یوں کہنے لگیں کہ ہائے ہماری کمبختی (کیسی ہمارے سامنے آئی) واقعی ہم خطاوار تھے (بس اس ہمت پر عذاب کی فرمائش ہے واقعی ان کی اس شرارت کا تو یہی مقتضا تھا کہ دنیا ہی میں فیصلہ کردیتے مگر ہم بہت سی حکمتوں سے دنیا میں سزائے موعود دینا نہیں چاہتے بلکہ آخرت کے لئے اٹھا رکھا ہے اور (وہاں) قیامت کے روز ہم میزان عدل قائم کریں گے (اور سب کے اعمال کا وزن کریں گے) سو کسی پر اصلاً ظلم نہ ہوگا اور (ظلم نہ ہونے کا یہ ثمرہ ہوگا کہ) اور اگر (کسی کا کوئی) عمل رائی کے دانے کے برابر بھی ہو تو ہم اس کو (وہاں) حاضر کردیں گے (اور اس کا بھی وزن کریں گے) اور ہم حساب لینے والے کافی ہیں۔ (ہمارے اس وزن اور حساب کے بعد پھر کسی حساب و کتاب کی ضرورت نہ رہے گی بلکہ اسی پر سب فیصلہ ہوجاوے گا پس وہاں لوگوں کی شرارتوں کی بھی سزائے مناسب و کافی جاری کردی جاوے گی۔- معارف و مسائل - وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ ، سابقہ آیات میں کفار و مشرکین کے باطل دعو وں اور مشرکانہ عقیدوں کی جن میں حضرت مسیح یا عزیر وغیرہ کو خدائی کا شریک یا فرشتوں اور مسیح کو اللہ تعالیٰ کی اولاد کہا گیا ان گمراہ کن عقائد کی تردید و ابطال واضح دلائل کے ساتھ آیا ہے جس کا مخالفین کے پاس کوئی جواب نہ تھا ایسے مواقع میں جب مخالف حجت و دلیل سے مغلوب ہوجائے تو جھنجھلاہٹ پیدا ہوتی ہے اسی کا نتیجہ تھا کہ مشرکین مکہ اس کی تمنا کرتے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جلد وفات ہوجاوے جیسا کہ بعض آیات میں ہے نّتَرَبَّصُ بِهٖ رَيْبَ الْمَنُوْنِ ، اس آیت میں حق تعالیٰ نے ان کی اس بیہودہ تمنا کے دو جواب دیئے ہیں۔ وہ یہ کہ اگر ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جلد ہی وفات ہوگئی تو تمہیں کیا فائدہ پہنچے گا ؟ اگر تمہارا مقصد یہ ہے کہ ان کی موت ہوجائے گی تو ہم لوگوں کو بتلائیں گے کہ یہ نبی و رسول نہیں تھے ورنہ موت نہ آتی تو اس کا یہ جواب دیا کہ جن انبیاء کی نبوت کو تم بھی مانتے ہو کیا ان کو موت نہیں آئی، جب ان کی موت سے ان کی نبوت و رسالت میں کوئی فرق نہ آیا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات سے آپ کی نبوت کے خلاف کوئی پروپیگنڈہ کیسے کیا جاسکتا ہے اور اگر تمہارا مقصد آپ کی جلد وفات سے اپنا غصہ ٹھنڈا کرنا ہے تو یاد رکھو کہ یہ موت کا مرحلہ تمہیں بھی درپیش ہے آخر تمہیں بھی مرنا ہے۔ پھر کسی کی موت سے خوش ہونے کے کیا معنے۔- اگر بمرد عدو جائے شادمانی نیست کہ زندگانی مانیز جاودانی نیست
وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ ٠ۭ اَفَا۟ىِٕنْ مِّتَّ فَہُمُ الْخٰلِدُوْنَ ٣٤- بشر - وخصّ في القرآن کلّ موضع اعتبر من الإنسان جثته وظاهره بلفظ البشر، نحو : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان 54] ،- ( ب ش ر ) البشر - اور قرآن میں جہاں کہیں انسان کی جسمانی بناوٹ اور ظاہری جسم کا لحاظ کیا ہے تو ایسے موقع پر خاص کر اسے بشر کہا گیا ہے جیسے فرمایا : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان 54] اور وہی تو ہے جس نے پانی سے آدمی پیدا کیا ۔ إِنِّي خالِقٌ بَشَراً مِنْ طِينٍ [ ص 71] کہ میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں ۔ - خلد - الخُلُود : هو تبرّي الشیء من اعتراض الفساد، وبقاؤه علی الحالة التي هو عليها، والخُلُودُ في الجنّة : بقاء الأشياء علی الحالة التي عليها من غير اعتراض الفساد عليها، قال تعالی: أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 82] ،- ( خ ل د ) الخلودُ ( ن )- کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم - رہنے کے ہیں ۔ اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہو۔ قرآن میں ہے : ۔ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [ الشعراء 129] شاید تم ہمیشہ رہو گے ۔ جنت میں خلود کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 82] یہی صاحب جنت میں ہمشہ اسمیں رہیں گے ۔- موت - أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة :- فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات - . نحو قوله تعالی:- يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] .- الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا - [ مریم 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] .- الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة .- نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] .- الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة،- وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ- بِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] .- الخامس : المنامُ ،- فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] - ( م و ت ) الموت - یہ حیات کی ضد ہے - لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں - ۔ اول قوت نامیہ - ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔- دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں - ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ - سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے - چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔- چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے - چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔- پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے - اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے
(٣٤) اور ہم نے آپ سے پہلے اور انبیاء کرام میں سے کسی بھی نبی کو دنیا میں ہمیشہ رہنے کے لیے پیدا نہیں کیا، اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر آپ کا انتقال ہوجائے تو کیا یہ لوگ دنیا میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔- شان نزول : ( آیت ) ”۔ وما جعلنا لبشر من قبلک “۔ (الخ)- ابن منذر (رح) نے ابن جریج (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آپ کے انتقال فرمانے کی خبر دی گئی آپ نے عرض کیا اے میرے پروردگار میرے بعد میری امت کی کون نگرانی کرے گا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی، یعنی ہم نے آپ سے پہلے بھی کسی انسان کے لیے ہمیشہ رہنا تجویز نہیں کیا۔
(اَفَاْءِنْ مِّتَّ فَہُمُ الْخٰلِدُوْنَ ) ” - آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے یہ مخالفین ابوجہل ‘ ابولہب وغیرہ ہمیشہ کی زندگیاں لے کر تو نہیں آئے۔ ان سب کو ایک دن مرنا ہے اور ہمارے سامنے پیش ہونا ہے۔
سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :36 یہاں سے پھر سلسلہ تقریر اس کش مکش کی طرف مڑتا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے مخالفین کے درمیان برپا تھی ۔
18: سورۃ طور : 30 میں مذکور ہے کہ کفار مکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں کہتے تھے کہ ہم ان کی موت کا انتظار کر رہے ہیں۔ اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ آپ کے انتقال کے موقع پر وہ خوشی منائیں گے۔ اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی کہ اول تو موت ہر شخص کو آنی ہے، اور کیا خود یہ خوشی منانے والے موت سے بچ جائیں گے۔