Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

42۔ 1 یعنی تمہارے جو کرتوت ہیں، وہ تو ایسے ہیں کہ دن یا رات کی کسی گھڑی میں تم پر عذاب آسکتا ہے ؟ اس عذاب سے دن اور رات تمہاری کون حفاطت کرتا ہے ؟ کیا اللہ کے سوا بھی کوئی اور ہے جو عذاب الٰہی سے تمہاری حفاظت کرسکے ؟

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٨] یعنی ان کافروں کی کرتوتیں تو اس لائق ہیں کہ انھیں کسی وقت بھی رات کو یا دن کو اللہ کا عذاب آلے۔ یہ تو اللہ کی رحمت واسعہ اور اس کی خاص مہربانی ہے کہ لوگوں کی خطاؤں پر فوری گرفت نہیں کرتا۔ اور اگر اس کا عذاب آجائے تو ان کے پاس وہ کون سا ذریعہ ہے جس سے وہ اللہ کے عذاب سے بچ سکیں گے ؟ یا وہ کون سی ہستی ہے جو اللہ کے علاوہ انھیں عذاب سے بچا سکتی ہے۔ دراصل یہ اللہ کے قانون تدریح و امہال کا، جو لوگوں کے لئے سراسر رحمت ہے، مذاق اڑا رہے ہیں۔ حالانکہ انھیں چاہئے یہ تھا کہ ایسے مالک کے احسان مند ہوتے جو ان کی خطاؤں کے باوجود مہلت دیئے جاتا ہے۔ لیکن ان کی یہ حالت ہے کہ اس کا ذکر تک سننا بھی گوارا نہیں کرتے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قُلْ مَنْ يَّـكْلَـؤُكُمْ بالَّيْلِ ۔۔ :” کَلَأَ یَکْلَؤُ “ (ف) پہرا دینا، حفاظت کرنا۔ (قاموس) ” مِنَ الرَّحْمٰنِ “ سے مراد ” مِنْ أَمْرِ الرَّحْمَانِ “ یا ” مِنْ عَذَاب الرَّحْمٰنِ “ ہے۔ (طبری وغیرہ) پچھلی آیت میں رسولوں کا مذاق اڑانے والی گزشتہ اقوام کو اللہ تعالیٰ کے عذاب کے گھیر لینے کا ذکر تھا، اس آیت میں موجود کفار سے خطاب ہے کہ وہ کون ہے جو رات یا دن کسی وقت آنے والے رحمٰن کے عذاب سے تمہاری حفاظت کرتا ہے ؟ درحقیقت یہ سوال کفار کو لاجواب کرنے کے لیے ہے، کیونکہ اگر وہ اس کا جواب دیں تو انھیں ماننا پڑے گا کہ دن رات پیش آنے والی بیشمار آفات و مصائب سے اللہ تعالیٰ کے سوا نہ کوئی ان کی حفاظت کرتا ہے اور نہ بچا سکتا ہے، اس لیے وہ اس سوال کا جواب ہی نہیں دیں گے۔ ”ۭ بَلْ هُمْ عَنْ ذِكْرِ رَبِّهِمْ مُّعْرِضُوْنَ “ بلکہ وہ ایسا جواب دینے سے گریز ہی کریں گے جس میں ان کے رب کا ذکر آئے۔ (التسہیل) زمحشری نے فرمایا : ” بلکہ انھوں نے اپنے رب کے ذکر (یاد یا نصیحت) ہی سے منہ موڑ رکھا ہے، وہ اس کے عذاب سے کیا ڈریں گے۔ “- ابن کثیر (رض) نے ” مِنَ الرَّحْمٰنِ “ کا معنی ” بَدْلَ الرَّحْمَانِ “ فرمایا ہے، یعنی وہ کون ہے جو دن رات میں آنے والی بیشمار آفات سے رحمٰن کے بجائے تمہاری حفاظت کرتا ہو ؟ ظاہر ہے ایسا کوئی نہیں۔- ” الرَّحْمٰنِ “ کے لفظ میں اشارہ ہے کہ رات دن میں پیش آنے والی بیشمار آفات و حوادث سے تمام انسانوں حتیٰ کہ کفار کی بھی ایک وقت تک حفاظت کرنا اللہ تعالیٰ کی صفت رحمت کا نتیجہ ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (لَهٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهٖ يَحْفَظُوْنَهٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ ) [ الرعد : ١١ ] ” اس کے لیے اس (انسان) کے آگے اور اس کے پیچھے یکے بعد دیگرے آنے والے کئی پہرے دار ہیں، جو اللہ کے حکم (یعنی عذاب اور دوسری آفات) سے اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ “ - ”ۧقُلْ مَنْ يَّـكْلَـؤُكُمْ “ میں کفار کو مخاطب فرمایا، پھر نفرت کے اظہار کے لیے انھیں غائب کے صیغے سے ذکر فرمایا کہ ” بَلْ هُمْ عَنْ ذِكْرِ رَبِّهِمْ مُّعْرِضُوْنَ “ یعنی یہ خطاب کے قابل ہی نہیں۔ اسے التفات کہتے ہیں، اس کی ایک اور مثال کے لیے دیکھیے سورة یونس (٢٢) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قُلْ مَنْ يَّـكْلَـؤُكُمْ بِالَّيْلِ وَالنَّہَارِ مِنَ الرَّحْمٰنِ۝ ٠ۭ بَلْ ہُمْ عَنْ ذِكْرِ رَبِّہِمْ مُّعْرِضُوْنَ۝ ٤٢- كلأ - الْكِلَاءَةُ : حفظ الشیء وتبقیته، يقال : كَلَأَكَ الله، وبلغ بك أَكْلَأَ العُمرِ ، واكْتَلَأْتُ بعیني كذا . قال : قُلْ مَنْ يَكْلَؤُكُمْ الآية [ الأنبیاء 43] .- والْمُكَلَّأُ : موضع تحفظ فيه السُّفُنُ ، والْكَلَّاءُ : موضع بالبصْرَةِ ، سمّي بذلک لأنهم يَكْلَئُونَ سفنهم هناك، وعبّر عن النّسيئة بِالْكَالِئِ. وروي أنه عليه الصلاة والسلام : «نهى عن الْكَالِئِ بالکالئ» «3» . والْكَلأُ : العِشْبُ الذي يحفظ . ومکان مُكْلَأٌ وكَالِئٌ: يكثر كَلَؤُهُ- ( ک ل ء ) الکلاء ۃ - کے معنی کسی چیز کی حفاظت کرنے اور اسے رکھنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ کلاک اللہ ۔ اللہ تعالیٰ تمہیں محفوظ رکھے وبلغ بک اکلاء العمر انتہائی عمر تک بحفاظت پہنچائے ۔ اکتلات بعینی کنا میں نے بذات خود فلاں چیز کی نگرانی کی قرآن میں : ۔ قُلْ مَنْ يَكْلَؤُكُمْالآية [ الأنبیاء 43] کہو کہ رات اور دن میں خدا سے تمہاری کون حفاظت کرسکتا ہے ۔ الملاء ( گودی ) ہر وہ مقام جہاں کشتیوں کو محفوظ رکھا جاسکے ۔ الکلاء ۔ بصرہ میں ایک مقام کا نام ہے کیونکہ وہاں کشتیوں کو محفوظ رکھنے کے لئے لے جاتے تھے اور کالی کے معنی ادھار کے ہیں ۔ چناچہ حدیث میں ہے ۔ کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیع الکالی با لکالی یعنی ادھار کی ادھار کے ساتھ بیع کرنے سے منع فرمایا : الکلا ۔ اس گھاس کو کہتے ہیں جسے محفوظ کرلیا گیا ہو ۔ اور ہر وہ مقام جہاں گھاس زیادہ ہوا سے مکلا یا مکان کائی کہا جاتا ہے ۔- رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه»- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- اعرض - وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ- ( ع ر ض ) العرض - اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤٢) اور اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان مکہ والوں سے یہ بھی فرمائیے کہ وہ کون ہے جو رات میں اور دن میں اللہ کے عذاب سے تمہاری حفاظت کرتا ہے یا یہ کہ اللہ کے علاوہ اور کون ہے جو اس کے عذاب سے حفاظت کرتا ہے بلکہ یہ لوگ اب بھی اپنے رب حقیقی کی توحید اور اس کی کتاب کو جھٹلانے والے اور اسے پس پشت ڈالنے والے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٢ (قُلْ مَنْ یَّکْلَؤُکُمْ بالَّیْلِ وَالنَّہَارِ مِنَ الرَّحْمٰنِ ط) ” - یعنی اللہ تعالیٰ ہی نے تمہارے لیے محافظ ( ) مقرر کر رکھے ہیں۔ یہ مضمون دو مرتبہ اس سے پہلے بھی آچکا ہے۔ سورة الانعام : ٦١ میں فرمایا گیا : (وَیُرْسِلُ عَلَیْکُمْ حَفَظَۃً ط) کہ وہ فرشتوں کی صورت میں تمہارے لیے محافظ مقرر کرتا ہے۔ سورة الرعد : ١١ میں ارشاد ہوا : (لَہٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْم بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ یَحْفَظُوْنَہٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ ط) ” اس (انسان) کے لیے باری باری آنے والے (پہرے دار) ہیں ‘ وہ اس کے سامنے اور اس کے پیچھے سے اس کی حفاظت کرتے رہتے ہیں اللہ کے حکم سے “۔ مراد یہ ہے کہ جب تک اللہ کو منظور ہوتا ہے وہ موت سے یا مصائب و حادثات سے خود انسان کی حفاظت کرتا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :43 یعنی اگر اچانک دن کو یا رات کو کسی وقت خدا کا زبردست ہاتھ تم پر پڑ جائے تو آخر وہ کون سا زور آور حامی و ناصر ہے جو اس کی پکڑ سے تم کو بچا لے گا ؟

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani