43۔ 1 اس معنی ہیں وَلَا ھُمْ یَجْارُوْنَ مِنْ عَذَابِنَا نہ وہ ہمارے عذاب سے ہی محفوظ ہیں، یعنی وہ خود اپنی مدد پر اور اللہ کے عذاب سے بچنے پر قادر نہیں ہیں، پھر ان کی طرف سے ان کی مدد کیا ہوئی ہے اور وہ انھیں عذاب سے کس طرح بچا سکتے ہیں ؟
اَمْ لَـهُمْ اٰلِـهَةٌ تَمْــنَعُهُمْ مِّنْ دُوْنِنَا : ” اَمْ “ کا عطف اس سے پہلے محذوف جملہ استفہامیہ پر ہوتا ہے۔ (بقاعی) یعنی کیا حقیقت وہی ہے جو اوپر گزری کہ ہمارے عذاب سے انھیں کوئی بچانے والا نہیں، یا ہمارے سوا ان کے کوئی ایسے معبود ہیں جو ان کو بچاتے اور ان کا دفاع کرتے ہیں ؟ ” مِّنْ دُوْنِنَا “ کا ایک معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” یا ان کے کوئی ایسے معبود ہیں جو ہمارے مقابلے میں ان کو بچاتے اور ان کا دفاع کرتے ہیں۔ “- لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ نَـصْرَ اَنْـفُسِهِمْ : یہ اس کا رد ہے کہ ان کے معبود انھیں بچا سکتے ہیں، یعنی ان کے بنائے ہوئے معبود اپنی مدد نہیں کرسکتے تو ان کی یا کسی اور کی کیا مدد کریں گے ؟- وَلَا هُمْ مِّنَّا يُصْحَبُوْنَ : ” اور نہ ہماری طرف سے ان کا ساتھ دیا جاتا ہے “ یہ کفار کے اس عقیدے کا رد ہے کہ ہمارے معبود ہمیں بچانے کی طاقت نہ بھی رکھتے ہوں تو انھیں اللہ تعالیٰ کی تائید اور اس کا ساتھ حاصل ہے، جس کی بدولت وہ جو چاہیں کروا لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کے معبود نہ خود اپنی مدد کرسکتے ہیں اور نہ انھیں ہمارا کسی قسم کا ساتھ یا تائید حاصل ہے۔ اس کے قریب معنی والی آیت دیکھیے سورة زمر (٣) ۔ (ابن عاشور)
اَمْ لَـہُمْ اٰلِـہَۃٌ تَمْــنَعُہُمْ مِّنْ دُوْنِنَا ٠ۭ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ نَصْرَ اَنْـفُسِہِمْ وَلَا ہُمْ مِّنَّا يُصْحَبُوْنَ ٤٣- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔- منع - المنع يقال في ضدّ العطيّة، يقال : رجل مانع ومنّاع . أي : بخیل . قال اللہ تعالی: وَيَمْنَعُونَ- الْماعُونَ [ الماعون 7] ، وقال : مَنَّاعٍ لِلْخَيْرِ [ ق 25] ، ويقال في الحماية، ومنه :- مكان منیع، وقد منع وفلان ذو مَنَعَة . أي : عزیز ممتنع علی من يرومه . قال تعالی: أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعْكُمْ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ النساء 141] ، وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَساجِدَ اللَّهِ [ البقرة 114] ، ما مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ [ الأعراف 12] أي : ما حملک ؟- وقیل : ما الذي صدّك وحملک علی ترک ذلک ؟- يقال : امرأة منیعة كناية عن العفیفة . وقیل :- مَنَاعِ. أي : امنع، کقولهم : نَزَالِ. أي : انْزِلْ.- ( م ن ع ) المنع ۔- یہ عطا کی ضد ہے ۔ رجل مانع امناع بخیل آدمی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَيَمْنَعُونَالْماعُونَ [ الماعون 7] اور برتنے کی چیزیں عاریۃ نہیں دیتے ۔ مَنَّاعٍ لِلْخَيْرِ [ ق 25] جو مال میں بخل کر نیوالا ہے اور منع کے معنی حمایت اور حفاظت کے بھی آتے ہیں اسی سے مکان منیع کا محاورہ ہے جس کے معنی محفوظ مکان کے ہیں اور منع کے معنی حفاظت کرنے کے فلان ومنعۃ وہ بلند مر تبہ اور محفوظ ہے کہ اس تک دشمنوں کی رسائی ناممکن ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعْكُمْ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ النساء 141] کیا ہم تم پر غالب نہیں تھے اور تم کو مسلمانون کے ہاتھ سے بچایا نہیں ۔ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَساجِدَ اللَّهِ [ البقرة 114] اور اس سے بڑھ کر کون ظالم ہے جو خدا کی سجدوں سے منع کرے ۔ اور آیت : ۔ ما مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ [ الأعراف 12] میں مانععک کے معنی ہیں کہ کسی چیز نے تمہیں اکسایا اور بعض نے اس کا معنی مالذی سدک وحملک علٰی ترک سجود پر اکسایا او مراۃ منیعۃ عفیفہ عورت ۔ اور منا ع اسم بمعنی امنع ( امر ) جیسے نزل بمعنی انزل ۔- دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔- الاستطاعۃ - . وَالاسْتِطَاعَةُ : استفالة من الطَّوْعِ ، وذلک وجود ما يصير به الفعل متأتّيا، الاسْتِطَاعَةُ أخصّ من القدرة . قال تعالی: لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء 43] - ( ط و ع ) الطوع - الاستطاعۃ ( استفعال )- یہ طوع سے استفعال کے وزن پر ہے اور اس کے معنی ہیں کسی کام کو سر انجام دینے کے لئے جن اسباب کی ضرورت ہوتی ہے ان سب کا موجہ ہونا ۔ اور استطاعت قدرت سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء 43] وہ نہ تو آپ اپنی مدد کرسکتے ہیں ۔ - نصر - النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ- [ الصف 13] - ( ن ص ر ) النصر والنصر - کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی - إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی - صحب - الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، - ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40]- ( ص ح ب ) الصاحب - ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔
(٤٣) کیا ان کے پاس ہمارے علاوہ ایسے معبود ہیں جو ہمارے عذاب سے ان کو بچا لیتے ہوں وہ بےچارے دوسروں کے عذاب سے کیا حفاظت کرتے اور ان کی درماندگی کی تو یہ حالت ہے کہ وہ خود اپنی جانوں کی حفاظت نہیں کرسکتے اور نہ ہمارے عذاب کے مقابلہ میں کوئی ان کا ساتھ دے سکا تو پھر وہ بیچارے دوسروں کیا ساتھ دیتے۔
(لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ نَصْرَ اَنْفُسِہِمْ وَلَا ہُمْ مِّنَّا یُصْحَبُوْنَ ) ” - یعنی ہمارے مقابلے میں ان کے خودساختہ معبودوں کی دوستی ان کے کسی کام نہیں آسکتی۔