Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اللہ تعالیٰ کا بہترین رزق پانے والے لوگ یعنی جو شخص اپنا وطن اپنے اہل وعیال اپنے دوست احباب چھوڑ کر اللہ کی رضامندی کے لئے اس کی راہ میں ہجرت کرجائے اس کے رسول کی اور اس کے دین کی مدد کے لئے پہنچے پھر وہ میدان جہاد میں دشمن کے ہاتھوں شہید کیا جائے یا بےلڑے بھڑے اپنی قضا کے ساتھ اپنے بستر پر موت آجائے اور اسے بہت بڑا اجر اور زبردست ثواب اللہ کی طرف سے ہے جیسے ارشاد ہے آیت ( وَمَنْ يَّخْرُجْ مِنْۢ بَيْتِهٖ مُھَاجِرًا اِلَى اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ثُمَّ يُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ اَجْرُهٗ عَلَي اللّٰهِ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا ١٠٠؀ۧ ) 4- النسآء:100 ) ۔ یعنی جو شخص اپنے گھر اور دیس کو چھوڑ کر اللہ رسول کی طرف ہجرت کرکے نکلے پھر اسے موت آجائے تو اسے اس کا اجر اللہ کے ذمے طے ہوچکا ۔ ان پر اللہ کا فضل ہوگا ، انہیں جنت کی روزیاں ملیں گی جس سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں ۔ اللہ تعالیٰ بہترین رازق ہے ۔ انہیں پروردگار جنت میں پہنچائے گا ۔ جہاں یہ خوش خوش ہونگے جسے فرمان ہے کہ جو ہمارے مقربوں میں سے ہے اس کے لئے راحت اور خوشبودار پھول اور نعمتوں بھرے باغات ہیں ایسے لوگوں کو راحت ورزق اور جنت ملے گی ۔ اپنی راہ کے سچے مہاجروں کو اپنی راہ میں جہاد کرنے والوں کو اپنی نعمتوں کے مستحق لوگوں کو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے ۔ وہ بڑے حکم والا ہے بندوں کے گناہ معاف فرماتا ہے ان کی خطاؤں سے درگزر فرماتا ہے ان کی ہجرت قبول کرتا ہے ان کے توکل کو خوب جانتا ہے ۔ جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید ہوں مہاجر ہوں یا نہ ہوں وہ رب کے پاس زندگی اور روزی پاتے ہیں ۔ جسے فرمان ہے آیت ( وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا ۭ بَلْ اَحْيَاۗءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ يُرْزَقُوْنَ ١٦٩؁ۙ ) 3-آل عمران:169 ) ، خدا کی راہ کے شہیدوں کو مردہ نہ سمجھو وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں روزیاں دیے جاتے ہیں ۔ اس بارے میں بہت سی حدیثیں ہیں جو بیان ہوچکیں ۔ پس فی سبیل اللہ شہید ہونے والوں کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ ثابت ہے اس آیت سے اور اسی بارے کی احادیث سے بھی ۔ حضرت شرجیل بن سمت فرماتے ہیں کہ روم کے ایک قلعے کے محاصرے پر ہمیں مدت گزر چکی اتفاق سے حضرت سلمان فار سی رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں سے گزرے تو فرمانے لگے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے جو شخص راہ اللہ کی تیاری میں مرجائے تو اس کا اجر اور رزق برابر اللہ کی طرف سے ہمیشہ اس پر جاری رہتا ہے اور وہ اتنے میں ڈالنے والوں سے محفوظ رہتا ہے ۔ اگر تم چاہو تو یہ آیت ( وَالَّذِيْنَ هَاجَرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ثُمَّ قُتِلُوْٓا اَوْ مَاتُوْا لَيَرْزُقَنَّهُمُ اللّٰهُ رِزْقًا حَسَنًاَ 58؀ ) 22- الحج:58 ) پڑھ لو ۔ حضرت ابو قبیل اور ربیع بن سیف مغافری کہتے ہیں ہم رودس کے جہاد میں تھے ہمارے ساتھ حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے ۔ دو جنازے ہمارے پاس سے گزرے جن میں ایک شہید تھا دوسرا اپنی موت مرا تھا لوگ شہید کے جنازے میں ٹوٹ پڑے ۔ حضرت فضالہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا یہ کیا بات ہے ؟ لوگوں نے کہا حضرت یہ شہید ہیں اور یہ دوسرے شہادت سے محروم ہیں آپ نے فرمایا واللہ مجھے تو دونوں باتیں برابر ہیں ۔ خواہ اس کی قبر میں سے اٹھوں خواہ اس کی میں سے ۔ سنو کتاب اللہ میں ہے پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ اور روایت میں ہے کہ آپ مرے ہوئے کی قبر پر ہی ٹہرے رہے اور فرمایا تمہیں اور کیا چاہیے جنت ، جگہ اور عمدہ روزی ۔ اور روایت میں ہے کہ آپ اس وقت امیر تھے ۔ یہ آخری آیت صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس چھوٹے سے لشکر کے بارے میں اتری ہے جن سے مشرکین کے ایک لشکر نے باوجود ان کے رک جانے کی حرمت کے مہینے میں لڑائی کی اللہ نے مسلمانوں کی امداد فرمائی اور مخالفین کو نیچا دکھایا اللہ تعالیٰ درگزر کرنے والا اور بخشنے والا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

58۔ 1 یعنی اسی ہجرت کی حالت میں موت آگئی یا شہید ہوگئے۔ 58۔ 2 یعنی جنت کی نعمتیں جو ختم نہ ہونگیں نہ فنا۔ 58۔ 3 کیونکہ وہ بغیر حساب کے، بغیر استحقاق کے اور بغیر سوال کے دیتا ہے۔ علاوہ ازیں انسان بھی جو ایک دوسرے کو دیتے ہیں تو اسی کے دیئے ہوئے میں سے دیتے ہیں۔ اس لئے اصل رازق وہی ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٦] اہل ایمان کا ذکر کرنے کے بعد خصوصی طور پر مہاجرین کا ذکر فرمایا۔ جنہوں نے اللہ اور اس کے دین کی خاطر اپنے گھر بار، جائیداد اور وطن مالوف کو خیرباد کہا اس کے بعد خواہ جہاد کرکے شہید ہوجائیں یا طبعی موت سے وفات پاجائیں۔ ان کی ہجرت کا عمل ہی اتنا گرانقدر ہے جس کے عوض اللہ انھیں ہزارہا گناہ بہترین کھانے پینے کا سامان اور بہترین رہائش عطا فرمائے گا۔ اتنا بہتر جس سے وہ خوش ہوجائیں گے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَالَّذِيْنَ هَاجَرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۔۔ : اس سے پہلے ” فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ “ کے ساتھ عام مومنوں کا ذکر فرمایا تھا، اب ان میں سے خاص لوگوں کا ذکر فرمایا جنھوں نے اللہ کی خاطر اپنے وطن، گھر بار اور خویش و اقارب کو چھوڑا۔ مقصد ہجرت کی شان اور اس کی فضیلت بیان کرنا ہے کہ یہ اتنا عظیم عمل ہے کہ ہجرت کرنے والے جہاد فی سبیل اللہ میں قتل ہوں یا لڑائی کے بغیر فوت ہوجائیں، دار الکفر سے ہجرت کے بعد آخرت کے درجات میں برابر ہیں۔ (ابن عاشور) پہلی آیات سے اس کی ایک اور مناسبت یہ ہے کہ چونکہ مشرکین ان شیطانی شبہات اور رکاوٹوں کے ساتھ، جن کا اوپر ذکر ہوا، بہت سے لوگوں کو ایمان لانے سے روکتے تھے اور وہ روک صرف انھی کو سکتے تھے جو ان کے قابو میں ہوں، اس لیے اللہ سبحانہ نے ہجرت کی ترغیب دلائی اور اس کی فضیلت بیان فرمائی۔ (بقاعی)- لَيَرْزُقَنَّهُمُ اللّٰهُ رِزْقًا حَسَنًا : لام تاکید اور نون ثقیلہ کے ساتھ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ انھیں برزخ میں اور جنت میں رزق حسن ہر صورت دے گا۔ شہداء کے متعلق دیکھیے سورة آل عمران (١٦٩) اور ہجرت کے بعد فوت ہونے کے متعلق دیکھیے سورة نساء (١٠٠) ۔- وَاِنَّ اللّٰهَ لَهُوَ خَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ : اللہ تعالیٰ خیر الرازقین ہے، اس لیے کہ 1 وہ کسی استحقاق کے بغیر رزق دیتا ہے۔ 2 مانگے بغیر دیتا ہے۔ 3 بےحساب دیتا ہے۔ 4 کسی سے فائدے کی امید یا کسی سے خوف کے بغیر دیتا ہے۔ 5 اور صرف وہی ہے جو اپنے پاس سے دیتا ہے، اس کے سوا کوئی دوسرا اگر دیتا ہے تو اسی کا دیا دیتا ہے، سو حقیقت میں دینے والا وہی ہے۔ سب دینے والوں سے بہتر ان لوگوں کے لحاظ سے فرمایا جو دنیا میں ایک دوسرے کو کچھ دے دیتے ہیں، مگر ان میں ” خَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ “ کی صفات میں سے ایک صفت بھی نہیں جو اوپر گزری ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور جن لوگوں نے اللہ کی راہ میں (یعنی دین کی حفاظت کے لئے) اپنا وطن چھوڑا (جن کا ذکر پچھلی آیت میں بھی الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ کے الفاظ سے آ چکا ہے) پھر وہ لوگ (کفار کے مقابلہ میں) قتل کئے گئے یا (ویسے ہی طبعی موت سے) مر گئے (وہ ناکام و محروم نہیں، گو ان کو دنیاوی فوائد نہ ملے مگر آخرت میں) اللہ تعالیٰ ان کو ضرور ایک عمدہ رزق دے گا (یعنی جنت کی بیشمار نعمتیں) اور یقیناً اللہ تعالیٰ سب دینے والوں سے اچھا (دینے والا) ہے (اور اس اچھے رزق کے ساتھ) اللہ تعالیٰ ان کو (مسکن بھی اچھا دے گا یعنی) ایسی جگہ لے جا کر داخل کرے گا جس کو وہ (بہت ہی) پسند کریں گے (رہی یہ بات کہ بعض مہاجرین اس طرح دنیاوی فتح و نصرت اور اس کے فوائد سے محروم کیوں ہوئے اور ان کے مقابلے کے کفار ان کے قتل کرنے پر قادر کیوں ہوگئے وہ قہر الٰہی سے کیوں نہ ہلاک کردیئے گئے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ) بلاشبہ اللہ تعالیٰ (ہر کام کی حکمت و مصلحت کو) خوب جاننے والا ہے (ان کی اس ظاہری ناکامی میں بھی بہت سی مصلحتیں اور حکمتیں ہیں اور) بہت حلم والا ہے (اس لئے دشمنوں کو فوراً سزا نہیں دیتا) ۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ ہَاجَرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ ثُمَّ قُتِلُوْٓا اَوْ مَاتُوْا لَيَرْزُقَنَّہُمُ اللہُ رِزْقًا حَسَـنًا۝ ٠ۭ وَاِنَّ اللہَ لَہُوَخَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ۝ ٥٨- هجر - الهَجْرُ والهِجْرَان : مفارقة الإنسان غيره، إمّا بالبدن، أو باللّسان، أو بالقلب . قال تعالی:- وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضاجِعِ [ النساء 34] كناية عن عدم قربهنّ ، وقوله تعالی: إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هذَا الْقُرْآنَ مَهْجُوراً [ الفرقان 30] فهذا هَجْر بالقلب، أو بالقلب واللّسان . وقوله :- وَاهْجُرْهُمْ هَجْراً جَمِيلًا [ المزمل 10] يحتمل الثلاثة، ومدعوّ إلى أن يتحرّى أيّ الثلاثة إن أمكنه مع تحرّي المجاملة، وکذا قوله تعالی: وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا [ مریم 46] ، وقوله تعالی:- وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ [ المدثر 5] ، فحثّ علی المفارقة بالوجوه كلّها . والمُهاجرَةُ في الأصل :- مصارمة الغیر ومتارکته، من قوله عزّ وجلّ : وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا[ الأنفال 74] ، وقوله : لِلْفُقَراءِ الْمُهاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوالِهِمْ [ الحشر 8] ، وقوله :- وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ [ النساء 100] ، فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِياءَ حَتَّى يُهاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ النساء 89] فالظاهر منه الخروج من دار الکفر إلى دار الإيمان کمن هاجر من مكّة إلى المدینة، وقیل : مقتضی ذلك هجران الشّهوات والأخلاق الذّميمة والخطایا وترکها ورفضها، وقوله : إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى رَبِّي [ العنکبوت 26] أي : تارک لقومي وذاهب إليه . وقوله : أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً فَتُهاجِرُوا فِيها [ النساء 97] ، وکذا المجاهدة تقتضي مع العدی مجاهدة النّفس کما روي في الخبر : «رجعتم من الجهاد الأصغر إلى الجهاد الأكبر» «1» ، وهو مجاهدة النّفس . وروي :- (هاجروا ولا تهجّروا) «2» أي : کونوا من المهاجرین، ولا تتشبّهوا بهم في القول دون الفعل، والهُجْرُ : الکلام القبیح المهجور لقبحه .- وفي الحدیث : «ولا تقولوا هُجْراً» «3» وأَهْجَرَ فلان : إذا أتى بهجر من الکلام عن قصد،- ( ھ ج ر ) الھجر - والھجران کے معنی ایک انسان کے دوسرے سے جدا ہونے کے ہیں عام اس سے کہ یہ جدائی بدنی ہو یا زبان سے ہو یا دل سے چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضاجِعِ [ النساء 34] پھر ان کے ساتھ سونا ترک کر دو ۔ میں مفا رقت بدنی مراد ہے اور کنایتا ان سے مجامعت ترک کردینے کا حکم دیا ہے اور آیت : ۔ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هذَا الْقُرْآنَ مَهْجُوراً [ الفرقان 30] کہ میری قوم نے اس قران کو چھوڑ رکھا تھا ۔ میں دل یا دل اور زبان دونوں کے ذریعہ جدا ہونا مراد ہے یعنی نہ تو انہوں نے اس کی تلاوت کی اور نہ ہی اس کی تعلیمات کی طرف دھیان دیا اور آیت : ۔ وَاهْجُرْهُمْ هَجْراً جَمِيلًا [ المزمل 10] اور وضع داری کے ساتھ ان سے الگ تھلگ رہو ۔ میں تینوں طرح الگ رہنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن ساتھ ہی جملا کی قید لگا کر اس طرف اشارہ کردیا ہے کہ حسن سلوک اور مجاملت کیس صورت میں بھی ترک نہ ہونے پائے ۔ اس طرح آیت وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا [ مریم 46] اور تو ہمیشہ کے لئے مجھ سے دور ہوجا ۔ میں بھی ترک بوجوہ ثلا ثہ مراد ہے اور آیت : ۔ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ [ المدثر 5] اور ناپاکی سے دور رہو ۔ میں بھی ہر لحاظ سے رجز کو ترک کردینے کی ترغیب ہے ۔ المھاجر رۃ کے اصل معنی تو ایک دوسرے سے کٹ جانے اور چھوڑ دینے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا[ الأنفال 74] خدا کے لئے وطن چھوڑ گئے اور ۃ کفار سے ) جنگ کرتے رہے ۔ اور آیات قرآنیہ : ۔ لِلْفُقَراءِ الْمُهاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوالِهِمْ [ الحشر 8] فے کے مال میں محتاج مہاجرین کا ( بھی ) حق ہے ۔ جو کافروں کے ظلم سے ) اپنے گھر اور مال سے بید خل کردیئے گئے ۔ وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ [ النساء 100] اور جو شخص خدا اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کر کے گھر سے نکل جائے ۔ فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِياءَ حَتَّى يُهاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ النساء 89] تو جب تک یہ لوگ خدا کی راہ میں ( یعنی خدا کے لئے ) ہجرت نہ کر آئیں ان میں سے کسی کو بھی اپنا دوست نہ بنانا ۔ میں مہاجرت کے ظاہر معنی تو دار الکفر سے نکل کر وادلاسلام کی طرف چلے آنے کے ہیں جیسا کہ صحابہ کرام نے مکہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تھی لیکن بعض نے کہا ہے کہ ہجرت کا حقیقی اقتضاء یہ ہے کہ انسان شہوات نفسانی اخلاق ذمیمہ اور دیگر گناہوں کو کلیۃ تر ک کردے اور آیت : ۔ إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى رَبِّي [ العنکبوت 26] اور ابراہیم نے کہا کہ میں تو دیس چھوڑ کر اپنے پروردگاع کی طرف ( جہاں کہیں اس کو منظور ہوگا نکل جاؤ نگا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ میں اپنی قوم کو خیر باد کہ کر اللہ تعالیٰ کی طرف چلا جاؤں گا ۔ اور فرمایا : ۔ أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً فَتُهاجِرُوا فِيها [ النساء 97] کیا اللہ تعالیٰ کی ( اتنی لمبی چوڑی ) زمین اس قدر گنجائش نہیں رکھتی تھی کہ تم اس میں کسی طرف کو ہجرت کر کے چلے جاتے ۔ ہاں جس طرح ظاہری ہجرت کا قتضا یہ ہے کہ انسان خواہشات نفسانی کو خیر باد کہہ دے اسی طرح دشمنوں کے ساتھ جہاد کرنے میں بھی مجاہدۃ بالنفس کے معنی پائے جاتے ہیں چناچہ ایک حدیث میں مروی ہے آنحضرت نے ایک جہاد سے واپسی کے موقع پر صحابہ کرام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : ۔ کہ تم جہاد اصغر سے جہاد اکبر کیطرف لوٹ رہے ہو یعنی دشمن کے ساتھ جہاد کے بعد اب نفس کے ساتھ جہاد کرنا ہے ایک اور حدیث میں ہے - سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔- قتل - أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] - ( ق ت ل ) القتل - ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144]- موت - أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة :- فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات - . نحو قوله تعالی:- يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] .- الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا - [ مریم 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] .- الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة .- نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] .- الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة،- وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ- بِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] .- الخامس : المنامُ ،- فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] - ( م و ت ) الموت - یہ حیات کی ضد ہے - لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں - ۔ اول قوت نامیہ - ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔- دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں - ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ - سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے - چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔- چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے - چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔- پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے - اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے - رزق - الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، - ( ر ز ق) الرزق - وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو - حسن - الحُسْنُ : عبارة عن کلّ مبهج مرغوب فيه، وذلک ثلاثة أضرب :- مستحسن من جهة العقل .- ومستحسن من جهة الهوى.- ومستحسن من جهة الحسّ.- والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله،- فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78]- ( ح س ن ) الحسن - ہر خوش کن اور پسندیدہ چیز کو حسن کہا جاتا ہے اس کی تین قسمیں ہیں ۔ ( 1) وہ چیز جو عقل کے اعتبار سے مستحسن ہو ۔ ( 2) وہ جو خواہش نفسانی کی رو سے پسندیدہ ہو ۔ ( 3) صرف نگاہ میں بھی معلوم ہو ۔ الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ - خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٨) جن لوگوں نے اطاعت خداوندی میں مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی پھر ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے راستہ میں کفار نے قتل بھی کیا یا سفر یا حضر میں وہ انتقال کر گئے تو ان لوگوں میں سے انتقال فرمانے والوں کو اللہ تعالیٰ جنت میں بہترین ثواب اور ان میں سے جو زندہ ہیں ان کو پاکیزہ اور حلال اموال غنیمت عطا فرمائے گا اور یقینا اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں سب دینے والوں سے اچھا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٨ (وَالَّذِیْنَ ہَاجَرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ) ” - ہجرت کا یہ مضمون یہاں پر موقع محل کی مناسبت سے آیا ہے۔ یہ مکی دور کے آخری زمانے کی سورت ہے اور جس طرح ہجرت سے متصلاً بعد سورة البقرۃ کا نزول ہوا اسی طرح ہجرت سے متصلاً قبل سورة الحج نازل ہوئی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani