Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

59۔ 1 کیونکہ جنت کی نعمتیں ایسی ہونگیں، جنہیں آج تک نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا۔ اور دیکھنا سننا تو کجا، کسی انسان کے دل میں ان کا وہم و گمان بھی نہیں گزرا، بھلا ایسی نعمتوں سے بہرا یاب ہو کر کون خوش نہیں ہوگا ؟ 59۔ 2 عَلِیْم وہ نیک عمل کرنے والوں کے درجات اور ان کے مراتب استحقاق کو جانتا ہے۔ کفر و شرک کرنے والوں کی گستاخیوں اور نافرمانیوں کو دیکھتا ہے۔ لیکن ان کا فوری مؤاخذہ نہیں کرتا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٧] یعنی اللہ خوب جانتا ہے کہ کسی نے کس کس قدر خلوص نیت کے ساتھ ہجرت کی تھی۔ لہذا وہ اتنا ہی اسے زیادہ اجر دے گا اور یہاں حلیم کے لفظ کے دو مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اگر کسی مہاجر سے کچھ خطا ہو بھی گئی تو اللہ تعالیٰ اس سے مواخذہ نہیں کرے گا اور دوسرا یہ کہ جن لوگوں نے مہاجرین کو ہجرت پر مجبور کیا تھا اللہ خوب جانتا ہے۔ لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ حلیم ہے۔ لہذا ایسے لوگوں پر اللہ تعالیٰ فوراً عذاب نازل نہیں کرتا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لَيُدْخِلَنَّهُمْ مُّدْخَلًا يَّرْضَوْنَهٗ : مراد جنت ہے جسے دیکھ کر وہ خوش ہوں گے اور اس میں اپنی ہر خواہش موجود پائیں گے۔ پسندیدہ رہائش بھی رزق حسن میں شامل ہے، اس کا الگ ذکر اس لیے فرمایا کہ خوبصورت اور بہترین گھر کا اہتمام لوگ کھانے پینے سے بھی زیادہ کرتے ہیں۔- وَاِنَّ اللّٰهَ لَعَلِيْمٌ حَلِيْمٌ : صفت ” عَلِیْمٌ“ کی مناسبت اس مقام کے ساتھ دو طرح سے ہے، ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ ہجرت کرنے والوں کے اعمال اور ان کی نیتوں کو خوب جاننے والا ہے، وہ ہر ایک کو ان کے مطابق جزا دے گا اور اسی طرح ہجرت پر مجبور کرنے والے کفار کے اعمال اور نیتوں سے بھی خوب واقف ہے، انھیں بھی ان کے مطابق سزا دے گا۔ اسی طرح ” حَلِيْمٌ“ کی مناسبت بھی دو طرح سے ہے، ایک یہ کہ ان مہاجرین سے جو کوتاہیاں ہوئیں اللہ تعالیٰ اپنے بےانتہا حلم کی وجہ سے ان سے چشم پوشی فرما کر انھیں رزق حسن اور پسندیدہ منزل عطا فرمائے گا۔ دوسری مناسبت یہ ہے کہ جن کفار نے انھیں نکالا، اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنے کمال حلم کی وجہ سے اتنے بڑے جرم کے باوجود مہلت دی اور فوراً گرفت نہیں فرمائی، جس کے نتیجے میں تقریباً وہ تمام لوگ جنھوں نے مہاجرین کو مکہ سے نکالا تھا مسلمان ہوگئے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لَيُدْخِلَنَّہُمْ مُّدْخَلًا يَّرْضَوْنَہٗ۝ ٠ۭ وَاِنَّ اللہَ لَعَلِيْمٌ حَلِيْمٌ۝ ٥٩- دخل - الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58]- ( دخ ل ) الدخول - ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔- رضي - يقال : رَضِيَ يَرْضَى رِضًا، فهو مَرْضِيٌّ ومَرْضُوٌّ. ورِضَا العبد عن اللہ : أن لا يكره ما يجري به قضاؤه، ورِضَا اللہ عن العبد هو أن يراه مؤتمرا لأمره، ومنتهيا عن نهيه، قال اللہ تعالی:- رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة 119] ، وقال تعالی: لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ، وقال تعالی: وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة 3] ، وقال تعالی: أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة 38] ، وقال تعالی: يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ- [ التوبة 8] ، وقال عزّ وجلّ : وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب 51] ، والرِّضْوَانُ :- الرّضا الکثير، ولمّا کان أعظم الرِّضَا رضا اللہ تعالیٰ خصّ لفظ الرّضوان في القرآن بما کان من اللہ تعالی: قال عزّ وجلّ : وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ- [ الحدید 27] ، وقال تعالی: يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح 29] ، وقال : يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة 21] ، وقوله تعالی: إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ- [ البقرة 232] ، أي : أظهر كلّ واحد منهم الرّضا بصاحبه ورَضِيَهُ.- ( ر ض و ) رضی - ( س ) رضا فھو مرضی و مرضو ۔ راضی ہونا ۔ واضح رہے کہ بندے کا اللہ تعالیٰ سے راضی ہونا یہ ہے کہ جو کچھ قضائے الہیٰ سے اس پر وارد ہو وہ اسے خوشی سے بر داشت کرے اور اللہ تعالیٰ کے بندے پر راضی ہونے کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اسے اپنے اوامر کا بجا لانے والا اور منہیات سے رکنے والا پائے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة 119] اللہ تعالیٰ ان سے خوش اور وہ اللہ تعالیٰ سے خوش ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] تو اللہ تعالیٰ ضرور ان مسلمانوں سے خوش ہوتا ہے وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة 3] اور ہم نے تمہارے لئے دین اسلام کو پسند فرمایا : ۔ أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة 38] کیا آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی پر قناعت کر بیٹھے ہو ۔ يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة 8] اپنی زبانی باتوں سے تو تم کو رضا مند کردیتے ہیں اور ان کے دل ہیں کہ ان باتوں سے انکار کرتے ہیں ۔ وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب 51] اور آزردہ خاطر نہ ہوں گی اور جو کچھ ( بھی ) تم ان کو دوگے وہ ( لے کر سب ) راضی ہوجائیں گی ۔ الرضوان رضائے کثیر یعنی نہایت خوشنودی کو کہتے ہیں ۔ چونکہ سب سے بڑی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہے اس لئے قرآن پاک میں خاص کر رضا الہی ٰ کے لئے رضوان کا لفظ استعما ل ہوا ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : ۔ وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید 27] اور ( لذت ) دنیا کا چھوڑ بیٹھنا جس کو انہوں نے از خود ایجاد کیا تھا ہم نے وہ طریق ان پر فرض نہیں کیا تھا مگر ( ہاں ) انہوں نے اس کو خدا ( ہی ) کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ایجاد کیا تھا ۔ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح 29] اور خدا کے فضل اور خوشنودی کی طلب گاری میں لگے رہتے ہیں ۔ يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة 21] ان کا پروردگار ان کو اپنی مہربانی اور رضامندی کی خوشخبری دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔۔ : إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة 232] ، جب جائز طور پر آپس میں وہ راضی ہوجائیں ۔ میں تراضوا باب تفاعل سے ہے جس کے معنی باہم اظہار رضامندی کے ہیں ،- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - حلم - الحِلْم : ضبط النّفس والطبع عن هيجان الغضب، وجمعه أَحْلَام، قال اللہ تعالی: أَمْ تَأْمُرُهُمْ أَحْلامُهُمْ بِهذا [ الطور 32] ، قيل معناه : عقولهم - ( ح ل م ) الحلم - کے معنی ہیں نفس وطبیعت پر ایسا ضبط رکھنا کہ غیظ وغضب کے موقع پر بھڑ کنہ اٹھے اس کی جمع احلام ہے اور آیت کریمہ : ۔ قال اللہ تعالی: أَمْ تَأْمُرُهُمْ أَحْلامُهُمْ بِهذا [ الطور 32] ، قيل معناه : عقولهم - کیا عقلیں ان کو سکھاتی ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ احلام سے عقلیں مراد ہیں۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٩) اور اللہ تعالیٰ ان کو ایسی جگہ داخل فرمائے گا جسے وہ اپنے لیے بہت ہی پسند کریں گے یعنی کہ ان کو جنت میں لے جائے گا اور اللہ تعالیٰ ان کے ثواب اور ان کی شرافت و بزرگی کو خوب جاننے والا اور جن لوگوں نے ایسے برگزیدہ لوگوں کو قتل کیا ان کی سزا کے موخر کرنے میں بڑا حلیم ہے۔- یہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ تھا جو اللہ تعالیٰ آخرت میں مسلمانوں اور کافروں کے درمیان فرمائے گا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :103 علیم ہے ، یعنی وہ جانتا ہے کہ کس نے فی الحقیقت اسی کی راہ میں گھر بار چھوڑا ہے اور وہ کس انعام کا مستحق ہے ۔ حلیم ہے یعنی ایسے لوگوں کی چھوٹی چھوٹی لغزشوں اور کمزوریوں کی وجہ سے ان کی بڑی بڑی خدمات اور قربانیوں پر پانی پھیر دینے والا نہیں ہے ۔ وہ ان سے درگزر فرمائے گا اور ان کے قصور معاف کر دے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani