Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

60۔ 1 یعنی یہ کہ مہاجرین بطور خاص شہادت یا طبعی موت پر ہم نے جو وعدہ کیا ہے، وہ ضرور پورا ہوگا۔ 60۔ 2 کسی نے اگر کسی کے ساتھ کوئی زیادتی کی ہے تو جس سے زیادتی کی گئی ہے، اسے بقدر زیادتی بدلہ لینے کا حق ہے۔ لیکن اگر بدلہ لینے کے بعد، جب کہ ظالم اور مظلوم دونوں برابر سربرا ہوچکے ہوں، ظالم، مظلوم پھر زیادتی کرے تو اللہ تعالیٰ اس مظلوم کی ضرور مدد فرماتا ہے۔ یعنی یہ شبہ نہ ہو کہ مظلوم نے معاف کردینے کی بجائے بدلہ لے کر غلط کام کیا ہے، نہیں، بلکہ اس کی بھی اجازت اللہ ہی نے دی ہے، اس لئے آئندہ بھی اللہ کی مدد کا مستحق رہے گا۔ 60۔ 3 اس میں پھر معاف کردینے کی ترغیب دی گئی ہے کہ اللہ درگزر کرنے والا ہے۔ تم بھی درگزر سے کام لو۔ ایک دوسرے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ بدلہ لینے میں۔ جو بقدر ظلم ظالم ہوگا۔ جتنا ظلم کیا جائے گا، اس کی اجازت چونکہ اللہ کی طرف سے ہے، اس لئے اس پر مؤاخذہ نہیں ہوگا، بلکہ وہ معاف ہے۔ بلکہ اسے ظلم اور سیئہ بطور مشاکلت کے کہا جاتا ہے، ورنہ انتقام یا بدلہ سرے سے ظلم یا سیئہ ہی نہیں ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٨] پچھلی دو آیات میں ان مہاجر مسلمانوں کا ذکر تھا۔ جو کفار کے ظلم و تشدد سے مجبور ہو کر گھر بار چھوڑنے پر آمادہ ہوگئے اور وہ ظلم کا بدلہ لے ہی نہ سکتے تھے۔ اب ان لوگوں کا ذکر ہے۔ جو بدلہ لینے کی طاقت رکھتے ہوں۔ انھیں یہ ہدایت کی جارہی ہے کہ اگر وہ بدلہ لینا چاہیں تو اتنا ہی بدلہ لیں جس قدر ان پر زیادتی ہوئی ہے۔ اور اگر بدلہ لینے میں زیادتی کریں گے تو یہ خود ظالم ٹھہریں گے اس صورت میں اللہ ان کی مدد کرے گا۔ جو مظلوم ہیں۔ کیونکہ اللہ ہمیشہ مظلوم کی مدد کرتا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب حضرت معاذ بن جبل کو جب یمن کا گورنر بنا کر بھیجا تو جہاں اور بہت سی نعمتیں ارشاد فرمائیں وہاں سب سے آخر میں اور بطور خاص جو نصیحت فرمائی یہ تھی۔ وَاتَّقِ دَعْوَۃَ الْمَظْلُوْمِ فَاِنَّہُ لَیْسَ بَیْنَھَا وَبَیْنَ اللّٰہِ حِجَابٌ (مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب الدعاء الی اعثہادتین و شرائع الاسلام) یعنی مظلوم کی بددعا سے بچے رہنا کیونکہ مظلوم کی پکار اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا۔ اسی مضمون کو شیخ سعدی رح نے بڑے خوبصورت انداز میں یوں بیان کیا ہے۔- برس از آہ مظلوماں کہ ہنگام دعا کردن - اجابت از در حق بہر استقبال می آید - یعنی مظلوموں کی آہ سے ڈرتے رہنا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے اس آہ کی قبولیت خود اسے لینے کو آگے آتی ہے۔- [٨٩] اس آیت میں صرف زیادتی کے برابر بدلہ لینے کی اجازت دی گئی ہے اور اگر اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے تو اللہ اس بات کو قطعاً پسند نہیں کرتا اور اسے ظلم شمار کیا جائے گا۔ اس اجازت کے باوجود اگر بدلہ نہ لیا جائے تو یہی بات اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ کیونکہ وہ خود بھی معاف کرنے والا اور درگزر کرنے والا ہے۔ لہذا بندوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے ذاتی اور معاشرتی معاملات میں عفو و درگزر کی عادت کو اپنائیں اور ہر وقت بدلہ لینے کے درپے نہ ہوا کریں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ذٰلِكَ ۚ وَمَنْ عَاقَبَ ۔۔ : ” ذٰلِكَ “ کا لفظ دو کلاموں کے درمیان فاصلے کے لیے ہوتا ہے، یعنی یہ تو ہوا، اب اگلی بات سنو کہ جو شخص اتنا ہی بدلہ لے جتنی اسے ایذا دی گئی ہے، پھر اس پر زیادتی کی جائے تو اللہ اس کی ضرور ہی مدد کرے گا۔ اس میں جہاد کی ترغیب ہے اور ” اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا “ اور ” وَلَيَنْصُرَنَّ اللّٰهُ مَنْ يَّنْصُرُهٗ “ کا مضمون دہرایا گیا ہے۔ عطف اس کا ” وَالَّذِيْنَ هَاجَرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۔۔ “ پر ہے، جس میں ان مظلوموں کا ذکر تھا جو بدلہ نہیں لے سکے، اب ان مظلوموں کا ذکر ہے جو ظالموں کے مقابلے میں قوت استعمال کریں۔ انھیں تاکید ہے کہ وہ اتنا ہی بدلہ لیں جتنی ان پر زیادتی ہوئی ہے، اگر اتنا بدلہ لینے کے بعد پھر ان پر زیادتی کی جائے تو اللہ تعالیٰ ان کی ضرور ہی مدد کرے گا۔ مشرکین مکہ نے مسلمانوں کو بیشمار ایذائیں دیں، انھیں دین سے مرتد کرنے کے لیے مسلسل عذاب سے دو چار رکھا، جو قتل سے بھی بڑھ کر تکلیف دہ تھا۔ انھیں ان کے گھروں سے نکالا، اس کے بعد بھی لڑائی کے لیے چڑھ کر آتے رہے۔ ان کی ایذا کے برابر بدلے کے لیے ہی اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَقَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ ١٩٠؁ وَاقْتُلُوْھُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوْھُمْ وَاَخْرِجُوْھُمْ مِّنْ حَيْثُ اَخْرَجُوْكُمْ وَالْفِتْنَةُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ۚ وَلَا تُقٰتِلُوْھُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰى يُقٰتِلُوْكُمْ فِيْهِ ۚ فَاِنْ قٰتَلُوْكُمْ فَاقْتُلُوْھُمْ ۭكَذٰلِكَ جَزَاۗءُ الْكٰفِرِيْنَ ) [ البقرۃ : ١٩٠، ١٩١ ] ” اور اللہ کے راستے میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں اور زیادتی مت کرو، بیشک اللہ زیادتی کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔ اور انھیں قتل کرو جہاں انھیں پاؤ اور انھیں وہاں سے نکالو جہاں سے انھوں نے تمہیں نکالا ہے اور فتنہ قتل سے زیادہ سخت ہے اور مسجد حرام کے پاس ان سے نہ لڑو، یہاں تک کہ وہ اس میں تم سے لڑیں، پھر اگر وہ تم سے لڑیں تو انھیں قتل کرو، ایسے ہی کافروں کی جزا ہے۔ “ اسی طرح حکم دیا : (وَاِنْ نَّكَثُوْٓا اَيْمَانَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ فَقَاتِلُوْٓا اَىِٕمَّةَ الْكُفْرِ ۙ اِنَّهُمْ لَآ اَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنْتَهُوْنَ 12؀ اَلَا تُقَاتِلُوْنَ قَوْمًا نَّكَثُوْٓا اَيْمَانَهُمْ وَهَمُّوْا بِاِخْرَاج الرَّسُوْلِ وَهُمْ بَدَءُوْكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ ۭ اَتَخْشَوْنَهُمْ ۚ فَاللّٰهُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشَوْهُ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ) [ التوبۃ : ١٢، ١٣ ] ” اور اگر وہ اپنے عہد کے بعد اپنی قسمیں توڑ دیں اور تمہارے دین میں طعن کریں تو کفر کے پیشواؤں سے جنگ کرو۔ بیشک یہ لوگ، ان کی کوئی قسمیں نہیں ہیں، تاکہ وہ باز آجائیں۔ کیا تم ان لوگوں سے نہ لڑو گے جنھوں نے اپنی قسمیں توڑ دیں اور رسول کو نکالنے کا ارادہ کیا اور انھوں نے ہی پہلی بار تم سے ابتدا کی ؟ کیا تم ان سے ڈرتے ہو ؟ تو اللہ زیادہ حق دار ہے کہ اس سے ڈرو، اگر تم مومن ہو۔ “- اِنَّ اللّٰهَ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌ : یہاں ان صفات کے تذکرے کا مطلب یہ نہیں کہ کفار کو معاف کر دو ، کیونکہ ان کے متعلق تو حکم ہے : (قَاتِلُوْهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِيْنَ ) [ التوبۃ : ١٤ ] ” ان سے لڑو، اللہ انھیں تمہارے ہاتھوں سے عذاب دے گا اور انھیں رسوا کرے گا اور ان کے خلاف تمہاری مدد کرے گا اور مومن لوگوں کے سینوں کو شفا دے گا۔ “ عفو و درگزر مسلمانوں کے باہمی معاملات میں ہے، کفار کے ساتھ نہیں، فرمایا : (وَالَّذِيْنَ مَعَهٗٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَهُمْ ) [ الفتح : ٢٩ ] ” اور وہ لوگ جو اس کے ساتھ ہیں، کافروں پر بہت سخت ہیں، آپس میں نہایت رحم دل ہیں۔ “ یہاں ان صفات کی مناسبت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف اتنا ہی بدلہ لینے کا جو حکم دیا ہے کہ جتنی ایذا دی جائے، یہ اس کے عفو و مغفرت کی وجہ سے ہے کہ اس نے کفار پر بھی حد سے بڑھ کر زیادتی کی اجازت نہیں دی، جس سے وہ مظلوم ٹھہریں، کیونکہ مظلوم کی مدد کرنا اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمے لے رکھا ہے، خواہ وہ مسلمان ہو یا کافر۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اِتَّقِ دَعْوَۃَ الْمَظْلُوْمِ فَإِنَّھَا لَیْسَ بَیْنَھَا وَبَیْنَ اللّٰہِ حِجَابٌ ) [ بخاري، المظالم، باب الاتقاء و الحذر من دعوۃ المظلوم : ٢٤٤٨، عن ابن عباس (رض) ] ” مظلوم کی بددعا سے بچ، کیونکہ اس کے درمیان اور اللہ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں۔ “ دوسری مناسبت یہ ہے کہ بدلہ لینے میں سو فیصد برابری تو انسان کے بس ہی میں نہیں، اس لیے فرمایا کہ کچھ کمی بیشی ہوجائے تو اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - یہ (مضمون تو) ہوچکا اور (آگے یہ سنو کہ) جو شخص (دشمن کو) اسی قدر تکلیف پہنچا دے جس قدر (دشمن کی طرف سے) اس کو تکلیف پہنچائی گئی تھی پھر (اس برابر سرابر ہوجانے کے بعد اگر اس دشمن کی طرف سے) اس شخص پر زیادتی کی جاوے تو اللہ تعالیٰ اس شخص کی ضرور امداد کرے گا بیشک اللہ تعالیٰ بہت معاف کرنے والا بہت مغفرت کرنے والا ہے۔- معارف و مسائل - چند آیات پہلے یہ مضمون مذکور ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ مظلوم کی مدد کرتا ہے ۭ وَاِنَّ اللّٰهَ عَلٰي نَصْرِهِمْ لَقَدِيْرُ مگر مظلوم کی دو قسم ہیں ایک تو وہ جس نے دشمن سے ظلم کا کوئی انتقام اور بدلہ لیا ہی نہیں بلکہ معاف کردیا یا چھوڑ دیا۔ دوسرا وہ شخص جس نے اپنے دشمن سے برابر سرابر بدلہ اور انتقام لے لیا جس کا مقتضی یہ تھا کہ اب دونوں برابر ہوگئے آگے یہ سلسلہ ختم ہو مگر دشمن نے اس کے انتقام لینے کی بنا پر مشتعل ہو کر دوبارہ حملہ کردیا اور مزید ظلم کیا تو یہ شخص پھر مظلوم ہی رہ گیا۔ اس آیت میں اس دوسری قسم کے مظلوم کی امداد کا بھی وعدہ ہے مگر چونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسند یہ ہے کہ آدمی پہلے ہی ظلم پر صبر کرے اور معاف کر دے انتقام نہ لے جیسا کہ بہت سی آیات میں اس کا ذکر ہے مثلاً فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ عَلَي اللّٰهِ اور وَاَنْ تَعْفُوْٓا اَقْرَبُ للتَّقْوٰى اور وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ اِنَّ ذٰلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ ، ان سب آیات میں ترغیب اس کی دی گئی ہے کہ ظلم کا بدلہ نہ لے بلکہ معاف کر دے اور صبر کرے۔ قرآن کریم کی ان ہدایات سے اسی طرز کا افضل و اولیٰ ہونا ثابت ہوا۔ شخص مذکور جس نے اپنے دشمن سے برابر کا بدلہ لے لیا اس نے اس افضل و اولیٰ اور قرآنی ہدایات مذکورہ پر عمل ترک کردیا تو اس سے شبہ ہوسکتا تھا کہ اب یہ شاید اللہ کی نصرت سے محروم ہوجائے اس لئے آخر آیت میں ارشاد فرما دیا اِنَّ اللّٰهَ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌ، یعنی اللہ تعالیٰ اس شخص کی اس کوتاہی پر کہ افضل و اولیٰ پر عمل نہیں کیا اس سے کوئی مواخذہ نہیں فرمائے گا بلکہ اب بھی اگر مخالف نے اس پر دوبارہ ظلم کردیا تو اس کی امداد اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوگی۔ (روح المعانی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ذٰلِكَ۝ ٠ۚ وَمَنْ عَاقَبَ بِمِثْلِ مَا عُوْقِبَ بِہٖ ثُمَّ بُغِيَ عَلَيْہِ لَيَنْصُرَنَّہُ اللہُ۝ ٠ۭ اِنَّ اللہَ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌ۝ ٦٠- عاقب - والعاقِبةَ إطلاقها يختصّ بالثّواب نحو : وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص 83] ، وبالإضافة قد تستعمل في العقوبة نحو : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم 10] ،- ( ع ق ب ) العاقب - اور عاقبتہ کا لفظ بھی ثواب کے لئے مخصوص ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص 83] اور انجام نیک تو پرہیز گاروں ہی کا ہے ۔ مگر یہ اضافت کی صورت میں کبھی آجاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔- مثل - والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] .- ( م ث ل ) مثل ( ک )- المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔- بغي - البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى،- والبَغْيُ علی ضربین :- أحدهما محمود، وهو تجاوز العدل إلى الإحسان، والفرض إلى التطوع .- والثاني مذموم، وهو تجاوز الحق إلى الباطل، أو تجاوزه إلى الشّبه، تعالی: إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ [ الشوری 42] - ( ب غ ی ) البغی - کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ روی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ - بغی دو قسم پر ہے ۔- ( ١) محمود - یعنی حد عدل و انصاف سے تجاوز کرکے مرتبہ احسان حاصل کرنا اور فرض سے تجاوز کرکے تطوع بجا لانا ۔- ( 2 ) مذموم - ۔ یعنی حق سے تجاوز کرکے باطل یا شبہات میں واقع ہونا چونکہ بغی محمود بھی ہوتی ہے اور مذموم بھی اس لئے آیت کریمہ : ۔ السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ( سورة الشوری 42) الزام تو ان لوگوں پر ہے ۔ جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور ملک میں ناحق فساد پھیلاتے ہیں ۔- نصر - النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ- [ الصف 13] - ( ن ص ر ) النصر والنصر - کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی - إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔- عفو - العَفْوُ : القصد لتناول الشیء، يقال : عَفَاه واعتفاه، أي : قصده متناولا ما عنده، وعَفَتِ الرّيحُ الدّار : قصدتها متناولة آثارها، وبهذا النّظر قال الشاعر :- 323-- أخذ البلی أبلادها - «1» وعَفَتِ الدّار : كأنها قصدت هي البلی، وعَفَا النبت والشجر : قصد تناول الزیادة، کقولک : أخذ النبت في الزّيادة، وعَفَوْتُ عنه : قصدت إزالة ذنبه صارفا عنه، فالمفعول في الحقیقة متروک، و «عن» متعلّق بمضمر، فالعَفْوُ : هو التّجافي عن الذّنب . قال تعالی: فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری 40] ، وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة 237] ، ثُمَّ عَفَوْنا عَنْكُمْ [ البقرة 52] ، إِنْ نَعْفُ عَنْ طائِفَةٍ مِنْكُمْ [ التوبة 66] ، فَاعْفُ عَنْهُمْ [ آل عمران 159] ، وقوله : خُذِ الْعَفْوَ [ الأعراف 199] ، أي : ما يسهل قصده وتناوله، وقیل معناه : تعاط العفو عن الناس، وقوله : وَيَسْئَلُونَكَ ماذا يُنْفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ [ البقرة 219] ، أي : ما يسهل إنفاقه . وقولهم : أعطی عفوا، فعفوا مصدر في موضع الحال، أي : أعطی وحاله حال العافي، أي : القاصد للتّناول إشارة إلى المعنی الذي عدّ بدیعا، وهو قول الشاعر :- 324-- كأنّك تعطيه الذي أنت سائله - «2» وقولهم في الدّعاء : «أسألک العفو والعافية» «3» أي : ترک العقوبة والسّلامة، وقال في وصفه تعالی: إِنَّ اللَّهَ كانَ عَفُوًّا غَفُوراً [ النساء 43] ، وقوله : «وما أكلت العافية فصدقة» «4» أي : طلّاب الرّزق من طير ووحش وإنسان، وأعفیت کذا، أي : تركته يعفو ويكثر، ومنه قيل : «أعفوا اللّحى» «5» والعَفَاء : ما کثر من الوبر والرّيش، والعافي : ما يردّه مستعیر القدر من المرق في قدره .- ( ع ف و ) العفو کے معنی کسی چیز کو لینے کا قصد کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ عفاہ واعتقادہ کسی کے پاس جو کچھ ہے وہ لینے کا قصد کیا عفت الریح الدرا ہوانے گھر کے نشانات مٹادیتے اسی معنی کے لحاظ سے شاعر نے کہا ہے ۔ ( 315 ) اخز البلی ایا تھا پوسید گی نے اس کے نشانات مٹا ڈالے عفت الدار گھر کے نشانات مٹ گئے گویا ان اثارنے ازخود مٹ جانے کا قصد کیا عفا النبت والشجرنباتات اور درخت بڑھ گئے جیسا کہ آخذ النبت فی الذیادۃ کا محاورہ ہے یعنی پودے نے بڑھنا شروع کیا ۔ عفوت عنہ کے معنی ہیں میں نے اس سے درگزر کرتے ہوئے اس کا گناہ متادینے کا قصد کیا ز لہذا یہاں اصل میں اس کا مفعول ترک کردیا گیا ہے اور عن کا متعلق مخذوف ہی یا قصدت ازالتہ ذنبہ سار فا عنہ پس عفو کے معنی گناہ سے درگزر کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری 40] مگر جو درگزر کرے اور معاملہ کو درست کرلے وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة 237] اور اگر تم ہی اپنا حق چھوڑ دو تو یہ پرہیز گاری کی بات ہے ۔ ثُمَّ عَفَوْنا عَنْكُمْ [ البقرة 52] ، پھر اس کے بعد ہم نے تم کو معاف کردیا ۔ إِنْ نَعْفُ عَنْ طائِفَةٍ مِنْكُمْ [ التوبة 66] اگر ہم تم میں سے ایک جماعت کو معاف کردیں ۔ فَاعْفُ عَنْهُمْ [ آل عمران 159] تو ان کی خطائیں معاف کردو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ خُذِ الْعَفْوَ [ الأعراف 199]( اے محمد ) عفو اختیار کرو میں العفو ہر اس چیز کو کہا گیا جس کا قصد کرنا اور لینا آسان ہو ۔ اور بعض نے اس کے معنی کئے ہیں درگزر کیجئے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَيَسْئَلُونَكَ ماذا يُنْفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ [ البقرة 219] ( اے محمد ) لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ خدا کی راہ میں کس طرح کا مال خرچ کریں کہہ دو جو مال خرچ کرو ۔ میں عفو سے ہر وہ چیز مراد ہے جو ضروریات سے زائد ہو اور اس کے خرچ سے تکلیف نہ ہو اور اعطی عفوا اس نے اسے بےمانگے دے دیا یہاں عفوا مصدر اسم فاعل کے معنی میں ہے اور حال واقع ہوا ہے یعنی بخشش کرتے وقت اس کی حالت یہ تھی کہ گویا خود لے رہا ہے اور اس میں اس عمدہ معنی کی طرف اشارہ ہے جسے شاعر نے بیان کرتے ہوئے کہا ہے ( الطویل ) ( 316 ) کانک تعطیہ الذی انت سائلہ یعنی جب سائل اس کے پاس آتا ہے تو اس طرح خوش ہوتا ہے گویا جو چیز تم اس سے لے رہے ہو وہ اسے دے رہے ہو ۔ اور دعائے ماثورہ میں ہے ( 43 ) اسئلک العفو والعافیتہ یعنی اے اللہ تجھ سے عفو اور تندرستی طلب کرتا ہوں اور قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کو عفو کہا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ اللَّهَ كانَ عَفُوًّا غَفُوراً [ النساء 43] بیشک خدا معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے ۔ اور حدیث میں ہے ( 44 ) مااکلکت العافیتہ فھو صدقتہ یعنی کھیتی سے جو کچھ پرندہ چرندا اور ضرورت مند انسان کھا جائیں وہ وہ صدقہ ہے ،۔ اعفیت کذا یعنی میں نے اسے بڑھنے دیا اسی سے اعفوا الحیي ہے ( 45 ) یعنی ڈاڑھی کے بال بڑھنے دو ۔ العفاء اون یا پرند کے پر جو بڑھ جائیں اور کسی سے دیگ مستعار لینے والا جو شوربہ اس کی دیگ میں اسے بھیجتا ہے اس شوربہ کو المعافی کہا جاتا ہے ۔- غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لوسخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٠) جو شخص دشمن کے ولی کو قتل کرے جیسا کہ اس نے اس کے ولی کو قتل کیا ہے اور پھر اس دشمن کی طرف سے اس شخص پر ظلم کیا جائے تو مظلوم کی اللہ تعالیٰ ضرور مدد فرمائے گا کہ وہ اسے قتل کردے گا تو اس سے دیت نہیں کی جائے گی، یہ جس شخص کے بھائی پر زیادتی کی گئی ہے یہ اس کے لیے انتقام ہے۔- شان نزول : ( آیت ) ” ذلک ومن عاقب بمثل ما عوقب۔ “۔ (الخ)- ابن ابی حاتم (رح) نے مقاتل سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت مبارکہ ایک چھوٹے لشکر کے بارے میں نازل ہوئی جس کو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے روانہ فرمایا تھا چناچہ راستے میں ان سے مشرکین ایسے وقت میں ملے جب کہ ماہ محرم الحرام کے اختتام میں دو راتیں باقی تھیں مشرکین نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا کہ اصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کر دو کیوں کہ یہ شہر حرام میں قتال کو حرام سمجھتے ہیں (اس لیے ہم سے جھگڑا نہیں کریں گے موقع اچھا ہے) صحابہ کرام (رض) نے ان کو قسمیں دلائیں اور اللہ تعالیٰ سے ڈرایا کہ ہمارے سے جھگڑا مت کرو کیوں کہ ہم شہر حرام میں قتال کو حلال نہیں سمجھتے مشرکین نے اس بات کے ماننے سے انکار کیا اور ان سے قتال کیا اور ان پر زیادتی کی چناچہ پھر مسلمانوں نے بھی ان سے قتال کیا اور مسلمانوں کی اللہ کی طرف سے مدد کی گئی، اسی کے بارے میں یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(اِنَّ اللّٰہَ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌ ) ” - یعنی مسلمانوں پر اس سے قبل جو زیادتیاں ہوچکی ہیں اب وہ ان کا بدلہ لے سکتے ہیں ‘ اور پھر مزید کسی زیادتی کی صورت میں بھی اللہ ان کی مدد فرمائے گا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :104 پہلے ان مظلوموں کا ذکر تھا جو ظلم کے مقابلے میں کوئی جوابی کارروائی نہ کر سکے ہوں ، اور یہاں ان کا ذکر ہے جو ظالموں کے مقابلے میں قوت استعمال کریں ۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے اس آیت سے یہ استدلال کیا ہے کہ قصاص اسی شکل میں لیا جائے گا جس شکل میں ظلم کیا گیا ہو ۔ مثلاً کسی شخص نے اگر آدمی کو ڈبو کر مارا ہے تو اسے بھی ڈبو کر مارا جائے گا ، اور کسی نے جلا کر مارا ہے تو اسے بھی جلا کر مارا جائے گا ۔ لیکن حنفیہ اس بات کے قائل ہیں کہ قاتل نے قتل خواہ کسی طریقے سے کیا ہو ، اس سے قصاص ایک ہی معروف طریقے پر لیا جائے گا ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :105 اس آیت کے دو مطلب ہو سکتے ہیں اور غالباً دونوں ہی مراد ہیں ۔ ایک یہ کہ ظلم کے مقابلے میں جو کشت و خون کیا جائے وہ اللہ کے ہاں معاف ہے ، اگرچہ کشت و خون بجائے خود اچھی چیز نہیں ہے ۔ دوسرے یہ کہ اللہ جس کے تم بندے ہو ، عفو و درگزر کرنے والا ہے ، اس لیے تم کو بھی ، جہاں تک بھی تمہارے بس میں ہو ، عفو و درگزر سے کام لینا چاہیے ۔ اہل ایمان کے اخلاق کا زیور یہی ہے کہ وہ حلیم ، عالی ظرف اور متحمل ہوں ۔ بدلہ لینے کا حق انہیں ضرور حاصل ہے ، مگر بالکل منتقمانہ ذہنیت اپنے اوپر طاری کر لینا ان کے لیے موزوں نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

28: اوپر آیت ٣٩ میں مسلمانوں کو ان کافروں سے لڑنے کی اجازت دی گئی تھی، جنہوں نے ان پر ظلم ڈھائے تھے ؛ حالانکہ اس سے پہلے ان کے ظلم کے جواب میں صبر اور درگزر کے احکام دئیے جاتے رہے تھے، اب یہاں صرف جنگ ہی کے معاملے میں نہیں بلکہ ہر قسم کے ظلم کا بدلہ لینے کی اجازت دی جارہی ہے، بشرطیکہ وہ اتنا ہو جتنا ظلم ہوا، اور بتایاجارہا ہے کہ اگرچہ درگزر کا معاملہ زیادہ افضل ہے ؛ لیکن برابر کا بدلہ لینا بھی جائز ہے، اور اس پر بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد کاو عدہ ہے ؛ بلکہ یہاں اور آگے بڑھ کر یہ فرمایا گیا ہے کہ اگر برابر کا بدلہ لینے کے بعد ظالم دوبارہ زیادتی کرے تو اس پر بھی اللہ تعالیٰ مدد فرمائیں گے۔