Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اس پر کوئی حاکم نہیں اللہ تعالیٰ بیان فرما رہا ہے کہ خالق اور متصرف صرف وہی ہے ، اپنی ساری مخلوق میں جو چاہتا ہے کرتا ہے فرمان ہے آیت ( قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاۗءُ ۡ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ ۭبِيَدِكَ الْخَيْرُ ۭ اِنَّكَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ 26؀ ) 3-آل عمران:26 ) الٰہی توہی مالک الملک ہے جسے چاہے ملک دے جس سے چاہے لے لے جسے چاہے عزت کا جھولا جھلائے ، جسے چاہے دردر سے ذلیل منگائے ، ساری بھلائیاں تیرے ہی ہاتھ میں ہیں ، تو ہی ہر چیز پر قادر ہے ۔ دن کو رات ، رات کو دن میں توہی لے جاتا ہے ۔ زندے کو مردے سے مردے کو زندے سے توہی نکالتا ہے جسے چاہتا ہے بےحساب روزیاں پہنچاتا ہے ۔ پس کبھی دن بڑے راتیں چھوٹی کبھی راتیں بڑی دن چھوٹے جیسے گرمیوں اور جاڑوں میں ہوتا ہے ۔ بندوں کی تمام باتیں اللہ سنتا ہے ان کی تمام حرکات وسکنات دیکھتا ہے کوئی حال اس پر پوشیدہ نہیں ۔ اس کا کوئی حاکم نہیں بلکہ کوئی چوں چرا بھی اس کے سامنے نہیں کرسکتا ۔ وہی سچا معبود ہے ۔ عبادتوں کے لائق اس کے سوا کوئی اور نہیں ۔ زبردست غلبے والا ، بڑی شان والا وہی ہے ، جو چاہتا ہے ہوتا ہے ، جو نہیں چاہتا ناممکن ہے کہ وہ ہوجائے ۔ ہر شخص اس کے سامنے فقیر ، ہر ایک اس کے آگے عاجز ۔ اس کے سوا جسے لوگ پوجیں وہ باطل ، کوئی نفع نقصان کسی کے ہاتھ نہیں ، وہ بلندیوں والا ، عظمتوں والا ہے ۔ ہر چیز اس کے ماتحت ، اس کے زیر حکم ۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، نہ اس کے سوا کوئی رب ، نہ اس سے کوئی بڑا ، نہ اس پر کوئی غالب ۔ وہ تقدس والا ، وہ عزت وجلال والا ، ظالموں کی کہی ہوئی تمام فضول باتوں پاک ، سب خوبیوں والا تمام نقصانات سے دور ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

61۔ 1 یعنی جو اللہ اس طرح کام کرنے پر قادر ہے، وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ اس کے جن بندوں پر ظلم کیا جائے ان کا بدلہ وہ ظالموں سے لے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩٠] کائنات میں اللہ تعالیٰ کے تصرف اور قدرت کا یہ عالم ہے کہ دن اور رات کو الٹتا پلٹتا رہتا ہے کبھی دن بڑے اور راتیں چھوٹی ہونا شروع ہوجاتی ہیں اور کبھی راتیں گھٹنا اور دن بڑے ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ اب جو ہستی کائنات میں اس قدر تصرف کی قدرت رکھتی ہے کیا وہ ظالم سے بدلہ نہ لے سکے گی۔ لہذا جہاں تک ہوسکے ظلم اور زیادتی سے اجتناب کرو اور اس سے بہتر یہ روش ہے کہ اگر کوئی زیادتی کرے تو اسے معاف کردیا کرو۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ يُوْلِجُ الَّيْلَ فِي النَّهَارِ ۔۔ : یعنی اللہ تعالیٰ جو مظلوم اور بےنوا کی مدد کرتا ہے، وہ اس لیے ہے کہ یہ اس کے لیے کچھ مشکل نہیں، وہ ہر چیز پر قادر ہے، رات کو دن میں داخل کرکے دن کو رات پر غالب کردیتا ہے اور دن بڑا ہوجاتا ہے اور دن کو رات میں داخل کر کے رات کو دن پر غالب کردیتا ہے اور رات بڑی ہوجاتی ہے۔ تو اس کے لیے مظلوموں کو ظالموں پر غالب کرنا کیا مشکل ہے ؟- وَاَنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌۢ بَصِيْرٌ : یعنی اللہ تعالیٰ کے مظلوم کی مدد کی دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ ہر ایک کے حال سے پوری طرح باخبر ہے، سب کچھ سن رہا ہے اور دیکھ رہا ہے، سنتے اور دیکھتے ہوئے وہ ظلم کو کس طرح برداشت کرے گا ؟

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - یہ (مومنین کا غالب کردینا) کہ اللہ تعالیٰ (کی قدرت بڑی کامل ہے وہ) رات (کے اجزاء) کو دن میں اور دن (کے اجزاء) کو رات میں داخل کردیتا ہے (یہ کائناتی انقلاب ایک قوم کو دوسری پر غالب کرنے والے انقلاب سے زیادہ عجیب ہے) اور اس سبب سے ہے کہ اللہ تعالیٰ (ان سب کے اقوال و احوال کو) خوب سننے والا اور خوب دیکھنے والا ہے (وہ کفار کے ظلم اور مومنین کی مظلومیت کو سنتا دیکھتا ہے اس لئے وہ سب حالات سے باخبر بھی ہے اور قوت وقدرت بھی اس کی سب سے بڑی ہے یہ مجموعہ سبب ہوگیا کمزوروں کو غالب کرنے کا) اور (نیز) یہ (نصرت) اس سبب سے (یقینی) ہے کہ (اس میں کسی طاقت کی مجال نہیں جو اس میں اللہ تعالیٰ کی مزاحمت کرے کیونکہ) اللہ ہی ہستی میں کامل ہے اور جن چیزوں کی اللہ کے سوا یہ لوگ عبادت کر رہے وہ ہی لچر ہیں۔ (کہ وہ خود اپنے وجود میں محتاج بھی ہیں کمزور بھی وہ کیا اللہ کی مزاحمت کرسکتے ہیں) اور اللہ ہی عالیشان سب سے بڑا ہے (اس میں غور کرنے سے توحید کا حق ہونا اور شرک کا باطل ہونا ہر شخص سمجھ سکتا ہے اس کے علاوہ) کیا تجھ کو خبر نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی برسایا جس سے زمین سرسبز ہوگئی (پھر) بیشک اللہ تعالیٰ بہت مہربان سب باتوں کی خبر رکھنے والا ہے (اس لئے بندوں کی ضرورتوں پر مطلع ہو کر ان کے مناسب مہربانی فرماتا ہے) سب اسی کا جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور بیشک اللہ تعالیٰ ہی ایسا ہے جو کسی کا محتاج نہیں ہر طرح کی تعریف کے لائق ہے (اور اے مخاطب) کیا تجھ کو خبر نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کے کام میں لگا رکھا ہے زمین کی چیزوں کو اور کشتی کو (بھی) کہ وہ دریا میں اس کے حکم سے چلتی ہے اور وہی آسمانوں کو زمین پر گرنے سے تھامے ہوئے ہے ہاں مگر یہ کہ اسی کا حکم ہوجاوے (تو یہ سب کچھ ہوسکتا ہے اور بندوں کے گناہ اور برے اعمال اگرچہ ایسا حکم ہوجانے کے مقتضی ہیں مگر پھر بھی جو ایسا حکم نہیں دیتا تو وجہ یہ ہے کہ) بالیقین اللہ تعالیٰ لوگوں پر بڑی شفقت اور رحمت فرمانے والا ہے اور وہی ہے جس نے تم کو زندگی دی پھر (وقت موعود پر) تم کو موت دے گا پھر (قیامت میں) تم کو زندہ کرے گا (ان انعامات و احسانات کا تقاضا تھا کہ لوگ توحید اور اللہ کے شکر کو اختیار کرتے مگر) واقعی انسان ہے بڑا ناشکر (کہ اب بھی کفر و شرک سے باز نہیں آتا۔ مراد سب انسان نہیں بلکہ وہی جو اس ناشکری میں مبتلا ہوں) ۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ذٰلِكَ بِاَنَّ اللہَ يُوْلِجُ الَّيْلَ فِي النَّہَارِ وَيُوْلِجُ النَّہَارَ فِي الَّيْلِ وَاَنَّ اللہَ سَمِيْعٌۢ بَصِيْرٌ۝ ٦١- ولج - الوُلُوجُ : الدّخول في مضیق . قال تعالی: حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِياطِ- [ الأعراف 40] ، وقوله : يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهارِ وَيُولِجُ النَّهارَ فِي اللَّيْلِ- [ الحج 61] فتنبيه علی ما ركّب اللہ عزّ وجلّ عليه العالم من زيادة اللیل في النهار، وزیادة النهار في اللیل، وذلک بحسب مطالع الشمس ومغاربها .- ( و ل ج ) الولوج ( ض ) کے معنی کسی تنک جگہ میں داخل ہونے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِياطِ [ الأعراف 40] یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں سے نکل جائے ۔ اور آیت : ۔ يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهارِ وَيُولِجُ النَّهارَ فِي اللَّيْلِ [ الحج 61]( کہ خدا ) رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے ۔ میں اس نظام کائنات پت متنبہ کیا گیا ہو جو اس عالم میں رات کے دن اور دن کے رات میں داخل ہونے کی صورت میں قائم ہے اور مطالع شمسی کے حساب سے رونما ہوتا رہتا ہے ۔- ليل - يقال : لَيْلٌ ولَيْلَةٌ ، وجمعها : لَيَالٍ ولَيَائِلُ ولَيْلَاتٌ ، وقیل : لَيْلٌ أَلْيَلُ ، ولیلة لَيْلَاءُ. وقیل :- أصل ليلة لَيْلَاةٌ بدلیل تصغیرها علی لُيَيْلَةٍ ، وجمعها علی ليال . قال اللہ تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] - ( ل ی ل ) لیل ولیلۃ - کے معنی رات کے ہیں اس کی جمع لیال ولیا ئل ولیلات آتی ہے اور نہایت تاریک رات کو لیل الیل ولیلہ لیلاء کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ لیلۃ اصل میں لیلاۃ ہے کیونکہ اس کی تصغیر لیلۃ اور جمع لیال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر 1] ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل ( کرنا شروع ) وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] اور رات اور دن کو تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔ - نهار - والنهارُ : الوقت الذي ينتشر فيه الضّوء، وهو في الشرع : ما بين طلوع الفجر إلى وقت غروب الشمس، وفي الأصل ما بين طلوع الشمس إلى غروبها . قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان 62]- ( ن ھ ر ) النھر - النھار ( ن ) شرعا طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب کے وقت گو نھار کہاجاتا ہے ۔ لیکن لغوی لحاظ سے اس کی حد طلوع شمس سے لیکر غروب آفتاب تک ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان 62] اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بیانا ۔- بصیر - البَصَر يقال للجارحة الناظرة، وللقوّة التي فيها، ويقال لقوة القلب المدرکة :- بَصِيرَة وبَصَر، نحو قوله تعالی: فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] ، ولا يكاد يقال للجارحة بصیرة، ويقال من الأوّل : أبصرت، ومن الثاني : أبصرته وبصرت به «2» ، وقلّما يقال بصرت في الحاسة إذا لم تضامّه رؤية القلب، وقال تعالیٰ في الأبصار : لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم 42] ومنه : أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف 108] أي : علی معرفة وتحقق . وقوله : بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة 14] أي : تبصره فتشهد له، وعليه من جو ارحه بصیرة تبصره فتشهد له وعليه يوم القیامة، - ( ب ص ر) البصر - کے معنی آنکھ کے ہیں ، نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ اور آنکھ سے دیکھنے کے لئے بصیرۃ کا لفظ استعمال نہیں ہوتا ۔ بصر کے لئے ابصرت استعمال ہوتا ہے اور بصیرۃ کے لئے ابصرت وبصرت بہ دونوں فعل استعمال ہوتے ہیں جب حاسہ بصر کے ساتھ روئت قلبی شامل نہ ہو تو بصرت کا لفظ بہت کم استعمال کرتے ہیں ۔ چناچہ ابصار کے متعلق فرمایا :۔ لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم 42] آپ ایسی چیزوں کو کیوں پوجتے ہیں جو نہ سنیں اور نہ دیکھیں ۔- اور اسی معنی میں فرمایا ؛ ۔ أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف 108] یعنی پوری تحقیق اور معرفت کے بعد تمہیں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں ( اور یہی حال میرے پروردگار کا ہے ) اور آیت کریمہ ؛۔ بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة 14] کے معنی یہ ہیں کہ انسان پر خود اس کے اعضاء میں سے گواہ اور شاہد موجود ہیں جو قیامت کے دن اس کے حق میں یا اس کے خلاف گواہی دینگے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦١) اس لیے کہ اللہ تعالیٰ رات کو دن میں داخل کرتا ہے تو بعض اوقات دن رات سے لمبا ہوتا ہے اور دن کے اجزا کو رات میں داخل کرتا ہے تو بسا اوقات رات دن سے زیادہ لمبی ہوتی ہے اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو باتوں کو خوب سننے والا اور ان کے اعمال کو خوب دیکھنے والا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦١ (ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ یُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّہَارِ وَیُوْلِجُ النَّہَارَ فِی الَّیْلِ ) ” - یعنی اس کائنات کا پورا نظام عدل و انصاف پر مبنی ہے۔ رات دن کا یہ الٹ پھیر اس نظام کے اندر موجود اعتدال و توازن کی ایک مثال ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کائنات کا یہ نظام ایسے ہی چل رہا ہے جیسے کہ اسے چلنا چاہیے۔ اس نظام کو درست رکھنے کے لیے قدرت کی طرف سے جو تدابیر اختیار کی جاتی ہیں ان سے متعلق قبل ازیں آیت ٤٠ میں ایک راہنما اصول بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا کے نظام میں ظالم اور مفسد قوتوں کو مستقلاً برداشت نہیں کرتا اور دوسری قوتوں کے ذریعے انہیں نیست و نابود کرتا رہتا ہے : (وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لَّہُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ یُذْکَرُ فِیْہَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْرًا ط) ” اور اگر اللہ بعض لوگوں کو بعض دوسرے لوگوں کے ذریعے دور نہ کرتا رہتا ‘ تو ڈھا دیا جاتا خانقاہوں ‘ گرجوں ‘ معبدوں اور مسجدوں کو ‘ جن میں کثرت سے اللہ کا نام لیا جاتا ہے “۔ چناچہ جس طرح اللہ تعالیٰ انسانی معاشرے کے نظام کو عدل پر قائم رکھنے کے لیے انتظامات کرتا ہے اسی طرح اس نے کائناتی اور آفاقی نظام کو بھی ٹھیک ٹھیک چلانے کا اہتمام کر رکھا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :106 اس پیرا گراف کا تعلق اوپر کے پورے پیراگراف سے ہے نہ کہ صرف قریب کے آخری فقرے سے ۔ یعنی کفر و ظلم کی روش اختیار کرنے والوں پر عذاب نازل کرنا ، مومن و صالح بندوں کو انعام دینا ، مظلوم اہل حق کی داد رسی کرنا ، اور طاقت سے ظلم کا مقابلہ کرنے والے اہل حق کی نصرت فرمانا ، یہ سب کس وجہ سے ہے ؟ اس لیے کہ اللہ کی صفات یہ اور یہ ہیں ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :107 یعنی تمام نظام کائنات پر وہی حاکم ہے اور گردش لیل و نہار اسی کے قبضہ قدرت میں ہے ۔ اس ظاہری معنی کے ساتھ اس فقرے میں ایک لطیف اشارہ اس طرف بھی ہے کہ جو خدا رات کی تاریکی میں سے دن کی روشنی نکال لاتا ہے اور چمکتے ہوئے دن پر رات کی ظلمت طاری کر دیتا ہے ، وہی خدا اس پر بھی قادر ہے کہ آج جن کے اقتدار کا سورج نصف النہار پر ہے ان کے زوال و غروب کا منظر بھی دنیا کو جلدی ہی دکھاوے ، اور کفر و جہالت کی جو تاریکی اس وقت حق و صداقت کی فجر کا راستہ روک رہی ہے وہ دیکھتے ہی دیکھتے اس کے حکم سے چھٹ جائے اور وہ دن نکل آئے جس میں راستی اور علم و معرفت کے نور سے دنیا روشن ہو جائے ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :108 یعنی وہ دیکھنے اور سننے والا خد ہے ، اندھا بہرا نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

29: یعنی ایک موسم میں جو دن کا وقت تھا، دوسرے موسم میں اللہ تعالیٰ نے اسے رات بنا دیا، اور ایک موسم میں جو رات کا وقت تھا، اسے دوسرے موسم میں دن بنادیا۔ چاند سورج کی گردش کا یہ نظام اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے اس طرح بنایا ہے کہ اس میں ذرہ برابر فرق نہیں آتا۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے بیشمار مظاہر میں سے یہاں خاص طور پر اس کو شاید اس لیے ذکر کیا گیا ہو کہ یہاں مظلوم کی مدد فرمانے کا ذکر ہے، اور جس طرح رات دن کے اوقات بدلتے رہتے ہیں، اسی طرح جو کبھی مظلوم تھا، اللہ تعالیٰ اس کی مدد کر کے اسے فتح دلا دیتے ہیں، اور جو ظالم اور بالا دست تھا، اسے نیچا دکھا دیتے ہیں۔