Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

76۔ 1 جب تمام معاملات کا مرجع اللہ ہی ہے تو پھر انسان اس کی نافرمانی کرکے کہاں جاسکتا ہے اور اس کے عذاب سے کیونکر بچ سکتا ہے ؟ کیا اس کے لئے یہ بہتر نہیں ہے کہ وہ اس کی اطاعت اور فرماں برداری کا راستہ اختیار کر کے اس کی رضا حاصل کرے ؟ چناچہ اگلی آیت میں اس کی صراحت کی جا رہی ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٠٥] ( يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِهٖ عِلْمًا ١١٠۔ ) 20 ۔ طه :110) یہ جملہ قرآن کریم میں چار مقامات سورة بقرہ آیت ٢٥٥ (آیہ الکرسی) سورة طٰہ، آیت نمبر ١١٠، سورة انبیائ، آیت نمبر ٢٨، اور یہاں سورة حج کی آیت نمبر ٧٦ میں استعمال ہوا ہے۔ اور ہر مقام پر اس جملہ سے پہلے یا آخر میں سفارش اور معبودان باطل کا ذکر ہے۔- اس جملہ میں سفارش پر پابندیوں کی وجہ بیان کی گئی ہے۔ سفارش پر پابندیاں یہ ہیں۔ (١) کوئی شخص اللہ کے اذن کے بغیر سفارش نہ کرسکے گا (٢) سفارش اسی کے حق میں کی جاسکے گی جس کے حق میں اللہ چاہے گا اور (٣) صرف اس جرم یا خطا کے لئے جاسکے گی جس اللہ کو معاف کرنا منظور ہوگا۔ اب سب پابندیوں کو ملانے منطقی نتیجہ یہی حاصل ہوتا ہے کہ سفارش پر ہرگز تکیہ نہ کر بیٹھنا چاہئے۔ اور اس جملہ میں سفارش پر تکیہ نہ کرنے کی وجہ یہ بیان کی جارہی ہے کہ مثلاً ایک بااثر شخص کسی افسر سے مل کر کہتا ہے کہ حضور آپ کا فلاں ملازم جس جرم میں ماخوذ ہے اسے معاف کردیں۔ یہ میرا خاص آدمی ہے۔ اور اسر اسے یہ جواب دیتا ہے کہ تمہاری نظر تو صرف اس کے حالیہ جرم پر ہے۔ لیکن اس کا سابقہ ریکارڈ بھی بہت گندا ہے۔ لہذا اب مجھے اس کا موجودہ جرم بھی معاف کرنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ جس پر سفارش کرنے والا لاجواب اور بےبس ہوجاتا ہے۔ بالکل یہی صورت حال اللہ کے حضور سفارش کی ہے۔ اللہ تو ہر انسان کے پورے ریکارڈ سے واقف ہے اور یہی اس جملہ کا مطلب ہے لیکن سفارش کرنے والے کو اس کی پوری ہسٹری شیٹ کا علم ہو ہی نہیں سکتا جس کی وہ سفارش کرنا چاہتا ہے اسی لئے سفارش پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلے ہی پابندیاں عائد کردی گئی ہیں۔- [١٠٦] اگرچہ یہ جملہ عام ہے اور تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کے سپرد ہے۔ مگر یہاں ربط مضمون کے لحاظ سے اس کا مطلب یہی ہوسکتا ہے کہ جن معبودوں یا بزرگوں کی سفارش پر تکیہ کیا جاتا ہے یا لوگوں کو جھوٹے دعوے دیئے جاتے ہیں یا لوگ خود ہی خود فریبی میں مبتلا ہوچکے ہیں ان کے یہ محض توہمات ہیں جو لغو اور باطل ہیں۔ ہر شخص کا انجام وہی کچھ ہوگا جو اللہ کو منظور ہوگا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ۚيَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ : یہ جملہ قرآن مجید میں چار مقامات پر آیا ہے، سورة بقرہ (٢٥٥) ۔ سورة طٰہٰ (١١٠) ، سورة انبیاء (٢٨) اور یہاں سورة حج میں۔ ہر مقام پر اس جملے سے پہلے یا بعد میں سفارش یا معبودان باطلہ کا ذکر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ فرشتوں اور انبیاء و اولیاء کو اگر بذات خود حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ کر نہیں بلکہ اللہ کے ہاں سفارشی سمجھ کر پکارتے ہو، تو یہ بھی غلط ہے، کیونکہ سب کچھ دیکھنے اور سننے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ ہر شخص کے ظاہر اور مخفی حالات وہی جانتا ہے، دنیا کی کھلی اور چھپی ضرورتیں اور مصلحتیں بھی وہی جانتا ہے، فرشتوں اور نبیوں سمیت کسی مخلوق کو بھی پوری طرح معلوم نہیں کہ کس وقت کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے سب سے زیادہ مقرب بندوں کو بھی یہ حق نہیں دیا کہ وہ اس کے اذن کے بغیر جو سفارش چاہیں کر بیٹھیں اور ان کی سفارش قبول بھی ہو۔ مزید دیکھیے سورة بقرہ کی آیت (٢٥٥) (مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا بِاِذْنِهٖ ) کی تفسیر۔- وَاِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ : شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” یعنی وہ (پیغمبر خود) کوئی اختیار نہیں رکھتے، اختیار ہر چیز میں اللہ کا ہے۔ “ (موضح)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ۝ ٠ۭ وَاِلَى اللہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ۝ ٧٦- خلف ( پیچھے )- خَلْفُ : ضدّ القُدَّام، قال تعالی: يَعْلَمُ ما بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَما خَلْفَهُمْ [ البقرة 255] ، وقال تعالی: لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد 11]- ( خ ل ف ) خلف ( پیچھے )- یہ قدام کی ضد ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ يَعْلَمُ ما بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَما خَلْفَهُمْ [ البقرة 255] جو کچھ ان کے روبرو ہو راہا ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہوچکا ہے اسے سب معلوم ہے ۔ لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد 11] اس کے آگے پیچھے خدا کے جو کیدار ہیں ۔- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔- رجع - الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، - ( ر ج ع ) الرجوع - اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے - أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :- إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧٦) اور وہ ان فرشتوں اور انسانوں کے امور آخرت دنیا اور ان سب چیزوں کو اچھی طرح جانتا ہے اور آخرت میں تمام کاموں کا انجام اللہ تعالیٰ بتا دے گا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(وَاِلَی اللّٰہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ ) ” - اس آیت میں آخرت کا ذکر بھی آگیا اور یوں اس دعوت عمومی میں امور ثلاثہ یعنی توحید ‘ رسالت اور آخرت کا ذکر کردیا گیا۔ یاد رہے کہ اس دعوت میں یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ (آیت ٣٧) کے الفاظ سے نوع انسانی کے تمام افراد کو مخاطب کیا گیا ہے۔- اب دوسرے مرحلے کی دعوت ان خصوصی لوگوں کے لیے ہے جنہوں نے اس پہلی دعوت پر لبیک کہا کہ ہم ایک اللہ کو معبود مانتے ہیں ‘ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ کا رسول تسلیم کرتے ہیں ‘ بعث بعد الموت پر بھی یقین رکھتے ہیں اور اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ کے فلسفے پر بھی ایمان رکھتے ہیں ‘ وہ لوگ اہل ایمان قرار پائے۔ اب اگلے مرحلے میں انہی لوگوں کو عمل کی دعوت دی جا رہی ہے۔ اس انداز دعوت میں ایک واضح فرق یہ ہے کہ اس میں فعل امر کا استعمال کیا گیا ہے ‘ یعنی اس دعوت کا اندازحکمیہ ہے۔ پہلی دعوت میں فعل امر کا استعمال صرف مثال سنانے کی حد تک ہوا تھا : (فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ ط) کہ یہ مثال جو بیان کی جا رہی ہے اسے غور سے سنو لیکن جو لوگ اس دعوت کو مان کر اسلام کے دائرہ میں آگئے ہیں انہیں اب باقاعدہ حکم دیا جا رہا ہے :

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :125 یہ فقرہ قرآن مجید میں بالعموم شفاعت کے مشرکانہ عقیدے کی تردید کے لیے آیا کرتا ہے ۔ لہٰذا اس مقام پر پچھلے فقرے کے بعد اسے ارشاد فرمانے کا مطلب یہ ہوا کہ ملائکہ اور انبیاء و صلحاء کو بذات خود حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ کر نہ سہی ، اللہ کے ہاں سفارشی سمجھ کر بھی اگر تم پوجتے ہو تو یہ غلط ہے ۔ کیونکہ سب کچھ دیکھنے اور سننے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے ، ہر شخص کے ظاہر اور مخفی حالات وہی جانتا ہے ، دنیا کے کھلے اور چھپے مصالح سے بھی وہی واقف ہے ، ملائکہ اور انبیاء سمیت کسی مخلوق کو بھی ٹھیک معلوم نہیں ہے کہ کس وقت کیا کرنا مناسب ہے اور کیا مناسب نہیں ہے ، لہٰذا اللہ نے اپنی مقرب ترین مخلوق کو بھی یہ حق نہیں دیا ہے کہ وہ اس کے اذن کے بغیر جو سفارش چاہیں کر بیٹھیں اور ان کی سفارش قبول ہو جائے ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :126 یعنی تدبیر امر بالکل اس کے اختیار میں ہے ۔ کائنات کے کسی چھوٹے یا بڑے معاملے کا مرجع کوئی دوسرا نہیں ہے کہ اس کے پاس تم اپنی درخواستیں لے جاؤ ۔ ہر معاملہ اسی کے آگے فیصلے کے لیے پیش ہوتا ہے ۔ لہٰذا دست طلب بڑھانا ہے تو اس کی طرف بڑھاؤ ۔ ان بے اختیار ہستیوں سے کیا مانگتے ہو جو خود اپنی بھی کوئی حاجت آپ پوری کرلینے پر قادر نہیں ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani