Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

سورہ حج کو دوسجدوں کی فضلیت حاصل ہے اس دوسرے سجدے کے بارے میں دو قول ہیں ۔ پہلے سجدے کی آیت کے موقعہ پر ہم نے وہ حدیث بیان کردی ہے جس میں ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سورہ حج کو دو سجدوں سے فضیلت دی گئی جو یہ سجدے نہ کرے وہ یہ پڑھے ہی نہیں ۔ پس رکوع سجدہ عبادت اور بھلائی کا حکم کرکے فرماتا ہے ۔ امت مسلمہ کو سابقہ امتوں پر فضیلت اپنے مال ، جان اور اپنی زبان سے راہ اللہ میں جہاد کرو اور حق جہاد ادا کرو ۔ جیسے حکم دیا ہے کہ اللہ سے اتنا ڈرو جتنا اس سے ڈرنے کا حق ہے ، اسی نے تمہیں برگزیدہ اور پسندیدہ کرلیا ہے ۔ اور امتوں پر تمہیں شرافت وکرامت عزت وبزرگی عطافرمائی ۔ کامل رسول اور کامل شریعت سے تمہیں سربرآوردہ کیا ، تمہیں آسان ، سہل اور عمدہ دین دیا ۔ وہ احکام تم پر نہ رکھے وہ سختی تم پر نہ کی وہ بوجھ تم پر نہ ڈالے جو تمہارے بس کے نہ ہوں جو تم پر گراں گزریں ۔ جنہیں تم بجا نہ لاسکو ۔ اسلام کے بعد سب سے اعلیٰ اور سب سے زیادہ تاکید والا ، رکن نماز ہے ۔ اسے دیکھئے گھر میں آرام سے بیٹھے ہوئے ہوں تو چار رکعت فرض اور پھر اگر سفر ہو تو وہ بھی دو ہی رہ جائیں ۔ اور خوف میں تو حدیث کے مطابق صرف ایک ہی رکعت وہ بھی سواری پر ہو تو اور پیدل ہو تو ، روبہ قلبہ ہو تو اور دوسری طرف توجہ ہو تو ، اسی طرح یہی حکم سفر کی نفل نماز کاہے کہ جس طرف سواری کا منہ ہو پڑھ سکتے ہیں ۔ پھر نماز کا قیام بھی بوجہ بیماری کے ساقط ہوجاتا ہے ۔ مریض بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے ، اس کی بھی طاقت نہ ہو تو لیٹے لیٹے ادا کرلے ۔ اسی طرح اور فرائض اور واجبات کو دیکھو کہ کس قدر ان میں اللہ تعالیٰ نے آسانیاں رکھی ہیں ۔ اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے میں یک طرفہ اور بالکل آسانی والا دین دے کر بھیجا گیا ہوں ۔ جب آپ نے حضرت معاذ اور حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو یمن کا امیر بنا کر بھیجا تو فرمایا تھا تو خوشخبری سنانا ، نفرت نہ دلانا ، آسانی کرناسختی نہ کرنا اور بھی اس مضمون کی بہت سی حدیثیں ہیں ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آیت کی تفسیر کرتے ہیں کہ تمہارے دین میں کوئی تنگی وسختی نہیں ۔ ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ملتہ کا نصب بہ نزع خفض ہے گویا اصل میں کملتہ ابیکم تھا ۔ اور ہوسکتا ہے کہ الزموا کو محذوف مانا جائے اور ملتہ کو اس کا مفعول قرار دیا جائے ۔ اس صورت میں یہ اسی آیت کی طرح ہوجائے گا دینا قیما الخ ، اس نے تمہارا نام مسلم رکھا ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے ، ابراہیم علیہ السلام سے پہلے ۔ کیونکہ ان کی دعا تھی کہ ہم دونوں باپ بیٹوں کو اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک گروہ کو مسلمان بنادے ۔ لیکن امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ قول کچھ جچتا نہیں کہ پہلے سے مراد حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پہلے سے ہو اس لئے کہ یہ تو ظاہر ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس امت کا نام اس قرآن میں مسلم نہیں رکھا ۔ پہلے سے کے لفظ کے معنی یہ ہیں کہ پہلی کتابوں میں ذکر میں اور اس پاک اور آخری کتاب میں ۔ یہی قول حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ کا ہے اور یہی درست ہے ۔ کیونکہ اس سے پہلے اس امت کی بزرگی اور فضیلت کا بیان ہے ان کے دین کے آسان ہونے کا ذکر ہے ۔ پھر انہیں دین کی مزید رغبت دلانے کے لئے بتایا جارہا ہے کہ یہ دین وہ ہے جو ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام لے کر آئے تھے پھر اس امت کی بزرگی کے لئے اور انہیں مائل کرنے کے لئے فرمایا جارہا ہے کہ تمہارا ذکر میری سابقہ کتابوں میں بھی ہے ۔ مدتوں سے انبیاء کی آسمانی کتابوں میں تمھارے چرچے چلے آرہے ہیں ۔ سابقہ کتابوں کے پڑھنے والے تم سے خوب آگاہ ہیں پس اس قرآن سے پہلے اور اس قرآن میں تمہارا نام مسلم ہے اور خود اللہ کا رکھا ہوا ہے ۔ نسائی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو شخص جاہلیت کے دعوے اب بھی کرے ( یعنی باپ دادوں پر حسب نسب پر فخر کرے دوسرے مسلمانوں کو کمینہ اور ہلکا خیال کرے ) وہ جہنم کا ایندھن ہے ۔ کسی نے پوچھا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگرچہ وہ روزے رکھتا ہو؟ اور نمازیں بھی پڑھتا ہو؟ آپ نے فرمایا ہاں ہاں اگرچہ وہ روزے دار اور نمازی ہو ۔ یعنی مسلمین ، مومنین اور عباد اللہ ۔ سورۃ بقرہ کی آیت ( يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِىْ خَلَقَكُمْ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ 21۝ۙ ) 2- البقرة:21 ) کی تفسیر میں ہم اس حدیث کو بیان کرچکے ہیں ۔ پھر فرماتا ہے ہم نے تمہیں عادل عمدہ بہتر امت اسلئے بنایا ہے اور اس لئے تمام امتوں میں تمہاری عدالت کی شہرت کردی ہے کہ تم قیامت کے دن اور لوگوں پر شہادت دو ۔ تمام اگلی امتیں امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بزرگی اور فضیلت کا اقرار کریں گی ۔ کہ اس امت کو اور تمام امتوں پر سرداری حاصل ہے اس لئے ان کی گواہی اس پر معتبر مانی جائے گی ۔ اس بارے میں کہ اس کے رسولوں نے اللہ کا پیغام انہیں پہنچایا ہے ، وہ تبلیغ کا فرض ادا کرچکے ہیں اور خود رسول صلی اللہ علیہ وسلم امت پر شہادت دیں گے کہ آپ نے انہیں دین پہنچا دیا اور حق رسالت ادا کردیا ۔ اس بابت جتنی حدیثیں ہیں اور اس بارے کی جتنی تفسیر ہے وہ ہم سب کی سب سورۃ بقرہ کے سترھویں رکوع کی آیت ( وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا ١٤٣؁ ) 2- البقرة:143 ) کی تفسیر میں لکھ آئے ہیں ۔ اس لئے یہاں اسے دوبارہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں وہیں دیکھ لی جائے ۔ وہیں حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی امت کا واقعہ بھی بیان کردیا ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ اتنی بڑی عظیم الشان نعمت کا شکریہ تمہیں ضرور ادا کرنا چاہے ۔ جس کا طریقہ یہ ہے کہ جو اللہ کے فرائض تم پر ہیں انہیں شوق خوشی سے بجا لاؤ خصوصا نماز اور زکوٰۃ کا پورا خیال رکھو ۔ جو کچھ اللہ نے واجب کیا ہے اسے دلی محبت سے بجالاؤ اور جو چیزیں حرام کردیں ہیں اس کے پاس بھی نہ پھٹکو ۔ پس نماز جو خالص رب کی ہے اور زکوٰۃ جس میں رب کی عبادت کے علاوہ مخلوق کے ساتھ احسان بھی ہے کہ امیر لوگ اپنے مال کا ایک حصہ فقیروں کو خوشی خوشی دیتے ہیں ۔ ان کا کام چلتا ہے دل خوش ہوجاتا ہے ۔ اس میں بھی ہے کہ اللہ کی طرف سے بہت آسانی ہے حصہ کم بھی ہے اور سال بھر میں ایک ہی مرتبہ ۔ زکوٰۃ کے کل احکام سورۃ توبہ کی آیت زکوٰۃ ( اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاۗءِ وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِيْنَ وَفِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ۭفَرِيْضَةً مِّنَ اللّٰهِ ۭوَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ 60؀ ) 9- التوبہ:60 ) کی تفسیر میں ہم نے بیان کردئے ہیں وہیں دیکھ لئے جائیں ۔ پھر حکم ہوتا ہے کہ اللہ پر پورا بھروسہ رکھو ، اسی پر توکل کرو ، اپنے تمام کاموں میں اس کی امداد طلب کیا کرو ، ہر وقت اعتماد اس پر رکھو ، اسی کی تائید پر نظریں رکھو ۔ وہ تمہارا مولیٰ ہے ، تمہارا حافظ ہے ناصر ہے ، تمہیں تمہارے دشمنوں پر کامیابی عطا فرمانے والا ہے ، وہ جس کا ولی بن گیا اسے کسی اور کی ولایت کی ضرورت نہیں ، سب سے بہتر والی وہی ہے سب سے بہتر مددگار وہی ہے ، تمام دنیا گو دشمن ہوجائے لیکن وہ سب قادر ہے اور سب سے زیادہ قوی ہے ۔ ابن ابی حاتم میں حضرت وہیب بن ورد سے مروی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے اے ابن آدم اپنے غصے کے وقت تو مجھے یاد کرلیا کر ۔ میں بھی اپنے غضب کے وقت تجھے معافی فرما دیا کروں گا ۔ اور جن پر میرا عذاب نازل ہوگا میں تجھے ان میں سے بچا لونگا ۔ برباد ہونے والوں کے ساتھ تجھے برباد نہ کروں گا ۔ اے ابن آدم جب تجھ پر ظلم کیا جائے تو صبروضبط سے کام لے ، مجھ پر نگاہیں رکھ ، میری مدد پر بھروسہ رکھ میری امداد پر راضی رہ ، یاد رکھ میں تیری مدد کروں یہ اس سے بہت بہتر ہے کہ تو آپ اپنی مدد کرے ۔ ( اللہ تعالیٰ ہمیں بھلائیوں کی توفیق دے اپنی امداد نصیب فرمائے آمین ) واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

77۔ 1 یعنی اس نماز کی پابندی کرو جو شریعت میں مقرر کی گئی ہے۔ آگے عبادت کا بھی حکم آرہا ہے۔ جس میں نماز بھی شامل تھی، لیکن اس کی اہمیت و افضلیت کے پیش نظر اس کا خصوصی حکم دیا۔ 77۔ 2 یعنی فلاح (کامیابی) اللہ کی عبادت اور اطاعت یعنی افعال خیر اختیار کرنے میں ہے، نہ کہ اللہ کی عبادت و اطاعت سے گریز کرکے محض مادی اسباب و وسائل کی فراہمی اور فراوانی میں، جیسا کہ اکثر لوگ سمجھتے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٠٧] اس آیت کے دو مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ یہ خطاب انفرادی طور پر ہو۔ اس صورت میں اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اخروی نجات اور کامیابی کے لئے تین کاموں کا سرانجام دینا نہایت ضروری ہے۔ نماز کی درست طور پر ادائیگی۔ خالصتؤہ اللہ تعالیٰ کی عبادت جس میں مشرک کی آمیزش نہ ہو۔ اور نیک اعمال کی بجا آوری اور اور یہ خطاب مجموعی طور پر بحیثیت امت سمجھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جس قوم میں یہ صفات موجود ہوں ان کی اخروی کامیابی تو یقینی ہے ہی، ان کی دنیا میں بھی کامیابی کی توقع کی جاسکتی ہے۔- سورة حج کے فضیلت یہ ہے کہ اس میں دو سجدے آئے ہیں (لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ١٨٩۔ ) 2 ۔ البقرة :189) بھی مقام سجدہ تلاوت ہے۔ اس سورة کا پہلا سجدہ تو متفق علیہ ہے۔ لیکن یہ دوسرا سجدہ اختلافی ہے سجدہ کے قائلین کی دلیل یہ ہے۔ یہاں ایمان لانے والوں کو سجدہ کا حکم دیا گیا ہے۔ اور دوسرے گروہ کی دلیل یہ ہے کہ یہاں رکوع اور سجدہ کا اکٹھا حکم آیا ہے۔ اور جہاں یہ دونوں الفاظ اکٹھے آئیں تو اس سے مراد پوری نماز لی جاتی ہے کیونکہ یہ دونوں نماز کے ہی جزء اشرف ہیں اور جزء اشرف بول کر اسے کل مراد لینا اہل عرب کا عام دستور ہے۔ بلکہ بعض دفعہ قرآن میں صرف رکوع یا صرف سجود کے لفظ سے بھی پوری نماز مراد لی گئی ہے۔ اس سلسلہ میں قائلین کا موقف ہی راجح معلوم ہوتا ہے کیونکہ بعض روایات بھی ان کی تائید کرتی ہیں اگرچہ وہ روایات اتنی قوی نہیں ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ارْكَعُوْا ۔۔ : یہ ساری سورت قیامت اور توحید کے حق ہونے کے دلائل اور انکار قیامت اور شرک کی تردید اور مذمت کے دلائل پر مشتمل ہے۔ آخر میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو خطاب فرمایا جو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آئے ہیں کہ ایمان لائے ہو تو اس کا ثبوت بھی پیش کرو۔ سب سے پہلا کام جو ایمان لانے کے بعد سب سے اہم اور ضروری ہے اور کافر و مسلم کی پہچان ہے، وہ نماز ہے، سو نماز ادا کرو۔ ” نماز ادا کرو “ کے بجائے ” رکوع کرو اور سجدہ کرو “ کے الفاظ استعمال فرمائے، کیونکہ یہ دونوں آدمی کی عام حالت مثلاً قیام و قعود وغیرہ سے مختلف ہیں اور ان سے اللہ تعالیٰ کے سامنے انتہائی عاجزی کا اظہا رہوتا ہے، اسی لیے کئی متکبر لوگوں نے اس لیے اسلام لانے سے انکار کردیا کہ انھیں اللہ کے سامنے عاجزی کی آخری حد تک جانا پڑتا ہے۔- وَاعْبُدُوْا رَبَّكُمْ : ایک خاص عبادت نماز کی تاکید کے بعد رب تعالیٰ کی تمام زبانی، بدنی اور مالی عبادات کا حکم دیا کہ ” اپنے رب کی عبادت کرو “ اس میں دوسری عبادات کے ساتھ نماز بھی شامل ہے۔- وَافْعَلُوا الْخَــيْرَ : عبادت کے حکم کے بعد ہر خیر یعنی ہر اچھے کام کا حکم دیا۔ خیر میں نماز اور تمام عبادات بھی شامل ہیں اور وہ اچھے اعمال بھی کہ نیت ہو تو عبادت ہوتے ہیں، نیت نہ ہو تو عبادت نہیں ہوتے، مثلاً صلہ رحمی، مہمان نوازی، بیماری پرسی اور دوسرے اخلاق عالیہ۔ مقصد یہ ہے کہ خیر کے خاص اور عام کام کرتے رہو، تاکہ وہ تمہاری عادت بن جائیں اور ان کی ادائیگی میں تمہیں کوئی تکلیف محسوس نہ ہو۔ ابوحیان نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے پہلے خاص چیزوں کا ذکر فرمایا پھر عام کا۔ “ (بقاعی)- لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ : تاکہ تمہیں دنیا اور آخرت کی کامیابی نصیب ہو۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

معارف و مسائل - سورة حج کا سجدہ تلاوت :- يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ارْكَعُوْا وَاسْجُدُوْا وَاعْبُدُوْا رَبَّكُمْ ، سورة حج میں ایک آیت تو پہلے گزر چکی ہے جس پر سجدہ تلاوت کرنا باتفاق واجب ہے۔ اس آیت پر جو یہاں مذکور ہے سجدہ تلاوت کے وجوب میں ائمہ کا اختلاف ہے۔ امام اعظم ابو حنیفہ، امام مالک، سفیان ثوری رحمہم اللہ کے نزدیک اس آیت پر سجدہ تلاوت واجب نہیں کیونکہ اس میں سجدہ کا ذکر رکوع وغیرہ کے ساتھ آیا ہے جس سے نماز کا سجدہ مراد ہونا ظاہر ہے جیسے واسْجُدِيْ وَارْكَعِيْ مَعَ الرّٰكِعِيْنَ میں سب کا اتفاق ہے کہ سجدہ نماز مراد ہے اس کی تلاوت کرنے سے سجدہ تلاوت واجب نہیں ہوتا اسی طرح آیت مذکورہ پر بھی سجدہ تلاوت واجب نہیں۔ امام شافعی، امام احمد وغیرہ کے نزدیک اس آیت پر بھی سجدہ تلاوت واجب ہے ان کی دلیل ایک حدیث ہے جس میں یہ ارشاد ہے کہ سورة حج کو دوسری سورتوں پر یہ فضیلت حاصل ہے کہ اس میں دو سجدہ تلاوت ہیں۔ امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک اس روایت کے ثبوت میں کلام ہے۔ تفصیل اس کی کتب فقہ و حدیث میں دیکھی جاسکتی ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ارْكَعُوْا وَاسْجُدُوْا وَاعْبُدُوْا رَبَّكُمْ وَافْعَلُوا الْخَــيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۝ ٧٧ۚ۞- أمن - والإِيمان - يستعمل تارة اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ويقال لكلّ واحد من الاعتقاد والقول الصدق والعمل الصالح : إيمان . قال تعالی: وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمانَكُمْ [ البقرة 143] أي : صلاتکم، وجعل الحیاء وإماطة الأذى من الإيمان - قال تعالی: وَما أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنا وَلَوْ كُنَّا صادِقِينَ [يوسف 17] قيل : معناه : بمصدق لنا، إلا أنّ الإيمان هو التصدیق الذي معه أمن، وقوله تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيباً مِنَ الْكِتابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ [ النساء 51] فذلک مذکور علی سبیل الذم لهم،- ( ا م ن ) الامن - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلما ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست (2 ۔ 62) میں امنوا کے یہی معنی ہیں اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید ہوۃ کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ اور کبھی ایمان کا لفظ بطور مدح استعمال ہوتا ہے اور اس سے حق کی تصدیق کرکے اس کا فرمانبردار ہوجانا مراد ہوتا ہے اور یہ چیز تصدیق بالقلب اقرار باللسان اور عمل بالجوارح سے حاصل ہوتی ہے اس لئے فرمایا ؛۔ وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَرُسُلِهِ أُولَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ ( سورة الحدید 19) اور جو لوگ خدا اور اس کے پیغمبر پر ایمان لائے ہیں روہی صدیق میں یہی وجہ ہے کہ اعتقاد قول صدق اور عمل صالح میں سے ہر ایک کو ایمان کہا گیا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ وَمَا كَانَ اللهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ ( سورة البقرة 143) ۔ اور خدا ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو یوں ہی کھودے (2 ۔ 143) میں ایمان سے مراد نماز ہے اور (16) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حیا اور راستہ سے تکلیف کے دور کرنے کو جزو ایمان قرار دیا ہے اور حدیث جبرائیل میں آنحضرت نے چھ باتوں کو کو اصل ایمان کہا ہے اور آیت کریمہ ؛۔ وَمَا أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ ( سورة يوسف 17) اور آپ ہماری بات کو گو ہم سچ ہی کہتے ہوں باور نہیں کریں گے (12 ۔ 17) میں مومن بمعنی مصدق ہے ۔ لیکن ایمان اس تصدیق کو کہتے ہیں جس سے اطمینان قلب حاصل ہوجائے اور تردد جاتا رہے اور آیت کریمہ :۔ أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ ( سورة النساء 44 - 51) من ان کی مذمت کی ہے کہ وہ ان چیزوں سے امن و اطمینان حاصل کرنا چاہتے ہیں جو باعث امن نہیں ہوسکتیں کیونکہ انسان فطری طور پر کبھی بھی باطل پر مطمئن نہیں ہوسکتا ۔ - ركع - الرُّكُوعُ : الانحناء، فتارة يستعمل في الهيئة المخصوصة في الصلاة كما هي، وتارة في التّواضع والتّذلّل، إمّا في العبادة، وإمّا في غيرها نحو : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا[ الحج 77] ، وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَٓ [ البقرة 43] ، وَالْعاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ [ البقرة 125] ، الرَّاكِعُونَ السَّاجِدُونَ [ التوبة 112] ، قال الشاعر : أخبّر أخبار القرون الّتي مضت ... أدبّ كأنّي كلّما قمت راکع - ( ر ک ع ) الرکوع اس کے اصل معنی انحناء یعنی جھک جانے کے ہیں اور نماز میں خاص شکل میں جھکنے پر بولا جاتا ہے اور کبھی محض عاجزی اور انکساری کے معنی میں آتا ہے خواہ بطور عبادت ہو یا بطور عبادت نہ ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا[ الحج 77] مسلمانوں ( خدا کے حضور ) سجدے اور رکوع کرو وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ [ البقرة 43] جو ہمارے حضور بوقت نماز جھکتے ہیں تم بھی انکے ساتھ جھکا کرو ۔ وَالْعاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ [ البقرة 125] مجاوروں اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں ( کے لئے ) الرَّاكِعُونَ السَّاجِدُونَ [ التوبة 112] رکوع کرنے والے اور سجدہ کرنے والے ۔ شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) أخبّر أخبار القرون الّتي مضت ... أدبّ كأنّي كلّما قمت راکع میں گذشتہ لوگوں کی خبر دیتا ہوں ( میں سن رسیدہ ہونے کی وجہ سے ) رینگ کر چلتا ہوں اور خمیدہ پشت کھڑا ہوتا ہوں - سجد - السُّجُودُ أصله : التّطامن «3» والتّذلّل، وجعل ذلک عبارة عن التّذلّل لله وعبادته، وهو عامّ في الإنسان، والحیوانات، والجمادات،- وذلک ضربان : سجود باختیار،- ولیس ذلک إلا للإنسان، وبه يستحقّ الثواب، نحو قوله : فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] ، أي : تذللوا له، - وسجود تسخیر،- وهو للإنسان، والحیوانات، والنّبات، وعلی ذلک قوله : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15] - ( س ج د ) السجود - ( ن ) اسکے اصل معنی فرو تنی اور عاجزی کرنے کے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی اور اس کی عبادت کرنے کو سجود کہا جاتا ہے اور یہ انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ( کیونکہ )- سجود کی دو قسمیں ہیں ۔ سجود اختیاری - جو انسان کے ساتھ خاص ہے اور اسی سے وہ ثواب الہی کا مستحق ہوتا ہے جیسے فرمایا :- ۔ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] سو اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اسی کی ) عبادت کرو ۔- سجود تسخیر ی - جو انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15]- اور فرشتے ) جو آسمانوں میں ہیں اور جو ( انسان ) زمین میں ہیں ۔ چار ونا چار اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں )- عبد - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- لعل - لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] - ( لعل ) لعل - ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔- فلح - الفَلْحُ : الشّقّ ، وقیل : الحدید بالحدید يُفْلَح أي : يشقّ. والفَلَّاحُ : الأكّار لذلک، والفَلَاحُ : الظَّفَرُ وإدراک بغية، وذلک ضربان : دنیويّ وأخرويّ ، فالدّنيويّ : الظّفر بالسّعادات التي تطیب بها حياة الدّنيا، وهو البقاء والغنی والعزّ ، - ( ف ل ح ) الفلاح - کے معنی پھاڑ نا کے ہیں مثل مشہور ہے الحدید بالحدید یفلح لوہالو ہے کو کاٹتا ہے اس لئے فلاح کسان کو کہتے ہیں ۔ ( کیونکہ وہ زمین کو پھاڑتا ہے ) اور فلاح کے معنی کامیابی اور مطلب وری کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔ فلاح دنیوی ان سعادتوں کو حاصل کرلینے کا نام ہے جن سے دنیوی زندگی خوشگوار بنتی ہو یعنی بقاء لمال اور عزت و دولت ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧٧) لہذا اے ایمان والو نماز میں رکوع کیا کرو اور سجدہ کیا کرو اور اپنے رب کی تابعداری کیا کرو اور نیک اعمال کیا کرو امید ہے کہ تم غضب الہی اور عذاب الہی سے نجات پاؤ گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧٧ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ارْکَعُوْا وَاسْجُدُوْا وَاعْبُدُوْا رَبَّکُمْ ) ” - یہاں صرف اصطلاحی رکوع اور سجدہ ہی مراد نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کے سامنے مکمل طور پر سر تسلیم خم کردینے کا حکم ہے۔ اسی طرح ” عبادت “ کے حکم میں بھی ” مکمل بندگی “ کا مفہوم پنہاں ہے۔ ؂ - زندگی آمد برائے بندگی زندگی بےبندگی شرمندگی - (وَافْعَلُوا الْخَیْرَ ) ” - یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ واعْبُدُوْا (بندگی کرو ) کے حکم میں تو گویا سب کچھ آگیا۔ اب اس کے بعد مزید نیک کام کون سے ہیں ؟ دراصل ” فعل خیر “ سے یہاں مراد خدمت خلق ہے۔ اس حکم سے مراد یہ ہے کہ اپنے آپ کو خدمت خلق میں لگا دو اور خدمت خلق صرف بھوکے کو کھانا کھلانے تک ہی محدود نہیں بلکہ سب سے بڑی خدمت خلق یہ ہے کہ لوگوں کی عاقبت سنوارنے کی کوشش کی جائے۔ چناچہ اس حکم میں یہ بھی شامل ہے کہ اے اللہ کے بندو ایمان و عمل کے جو حقائق تم پر منکشف ہوگئے ہیں ان سے دوسرے لوگوں کو بھی روشناس کراؤ ‘ تاکہ وہ جہنم کا ایندھن بننے سے بچ جائیں۔- (لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ) ” - سیاق وسباق کے اعتبار سے یہ بہت اہم بات ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اے ایمان کے دعوے دارو کہیں تم یہ نہ سمجھ بیٹھنا کہ ایمان کا اقرار کرلیا تو بس اب فلاح ہی فلاح ہے۔ بس کلمہ پڑھ لیا اور کامیابی ہوگئی۔ نہیں ایسا نہیں ع ” یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے “ تم لوگوں نے اس شہادت گاہ میں قدم رکھا ہے تو اب اس کے تقاضے پورے کرو گے تو تب کامیابی ہوگی۔ اگر تم یہ سمجھے بیٹھے ہو کہ بس ہم مسلمان ہوگئے ہیں اور اب بیٹھے بٹھائے ہمیں جنت مل جائے گی تو یہ تمہارا اپنا خیال ہے ‘ تمہاری اپنی دل خوش کن تمنا ( ) ہے۔ جیسے کہ بنی اسرائیل کے بارے میں فرمایا گیا : (تِلْکَ اَمَانِیُّہُمْ ط) (البقرہ : ١١١) ” یہ ان کی تمنائیں ہیں۔ “- امام شافعی (رح) کی رائے ہے کہ سورة الحج کی اس آیت کی تلاوت پر سجدۂ تلاوت کرنا چاہیے ‘ جبکہ امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک یہ آیت سجدہ نہیں ہے۔ اس ضمن میں یہ بھی واضح رہے کہ آیات سجدہ پر سجدۂ تلاوت کرنا امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک واجب جبکہ امام شافعی (رح) کے نزدیک مستحب ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :127 یعنی فلاح کی توقع اگر کی جا سکتی ہے تو یہ روش اختیار کرنے سے کی جا سکتی ہے ۔ لیکن جو شخص بھی یہ روش اختیار کرے اسے اپنے عمل پر گھمنڈ نہ ہونا چاہیے کہ میں جب ایسا عبادت گزر اور نیکو کار ہوں تو ضرور فلاح پاؤں گا ، بلکہ اسے اللہ کے فضل کا امیدوار رہنا چاہیے اور اسی کی رحمت سے توقعات وابستہ کرنی چاہییں ۔ وہ فلاح دے تب ہی کوئی شخص فلاح پا سکتا ہے ۔ خود فلاح حاصل کر لینا کسی کے بس کی بات نہیں ہے ۔ شاید کہ تم کو فلاح نصیب ہو ۔ یہ فقرہ ارشاد فرمانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس طرح فلاح نصیب ہونا مشکوک ہے ۔ بلکہ دراصل یہ شاہانہ انداز بیان ہے ۔ بادشاہ اگر اپنے کسی ملازم سے یہ کہے کہ فلاں کام کرو ، شاید کہ تمہیں فلاں منصب مل جائے ، تو ملازم کے گھر شادیانے بج جاتے ہیں کیونکہ یہ اشارۃً ایک وعدہ ہے اور ایک مہربان آقا سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ کسی خدمت پر ایک صلے کی امید وہ خود دلائے اور پھر اپنے وفادار خادم کو مایوس کرے ۔ امام شافعی ، امام احمد ، عبداللہ بن مبارک اور اسحاق بن راھَوَیہ کے نزدیک سورہ حج کی یہ آیت بھی آیت سجدہ ہے ۔ مگر امام ابو حنیفہ ، امام مالک ، حسن بصری ، سعید بن المسیب ، سعید بن جبیر ، ابرہیم نخعی اور سفیان ثوری اس جگہ سجدہ تلاوت کے قائل نہیں ہیں ۔ دونوں طرف کے دلائل ہم مختصراً یہاں نقل کر دیتے ہیں ۔ پہلے گروہ کا اولین استدلال ظاہر آیت سے ہے کہ اس میں سجدے کا حکم ہے ۔ دوسری دلیل عقبہ بن عامر کی وہ روایت ہے جسے احمد ، ابو داؤد ، ترمذی ، ابن مردویہ اور بیہقی نے نقل کیا ہے کہ : قلت یا رسول اللہ افضلت سورۃ الحج علیٰ سائر القراٰن بسجدتین؟ قال نعم فمن لم یسجدھما فلا یقرأھما ۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ، کیا سورہ حج کو سارے قرآن پر یہ فضیلت حاصل ہے کہ اس میں دو سجدے ہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں ، پس جو ان پر سجدہ نہ کرے وہ انہیں نہ پڑھے ۔ تیسری دلیل ابو داؤد اور ابن ماجہ کی وہ روایت ہے جس میں عمر ، علی ، عثمان ، ابن عمر ، ابن عباس ، ابو الدرداء ، ابو موسیٰ اشعری اور عمار بن یاسر رضی اللہ عنہم سے یہ بات منقول ہے کہ سورہ حج میں دو سجدے ہیں ۔ دوسرے گروہ کا استدلال یہ ہے کہ آیت میں محض سجدے کا حکم نہیں ہے بلکہ رکوع اور سجدے کا ایک ساتھ ہے اور قرآن میں رکوع و سجود ملا کر جب بولا جاتا ہے تو اس سے مراد نماز ہی ہوتی ہے ۔ نیز رکوع و سجود کا اجتماع نماز ہی کے ساتھ مخصوص ہے ۔ عقبہ بن عامر کی روایت کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ اس کی سند ضعیف ہے ۔ اس کو ابن لہیعہ ابو المصعب بصری سے روایت کرتا ہے اور یہ دونوں ضعیف راوی ہیں ۔ خاص کر ابو المصعب تو وہ شخص ہے جو حجاج بن یوسف کے ساتھ کعبے پر منجنیق سے پتھر برسانے والوں میں شامل تھا ۔ عمرو بن عاص والی روایت کو بھی وہ پایہ اعتبار سے ساقط قرار دیتے ہیں کیونکہ اس کو سعید العتقی عبداللہ بن منین الکلابی سے روایت کرتا ہے اور دونوں مجہول ہیں ، کچھ پتہ نہیں کہ کون تھے اور کس پایہ کے آدمی تھے ۔ اقوال صحابہ کے سلسلے میں وہ کہتے ہیں کہ ابن عباس نے سورہ حج میں دو سجدے ہونے کا یہ مطلب صاف بتایا ہے کہ : الاولیٰ عزمۃ و الاخرۃ تعلیم ، یعنی پہلا سجدہ لازمی ہے ، اور دوسرا سجدہ تعلیمی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

34: شافعی مذہب میں یہاں سجدہ ہے۔