78۔ 1 اس جہاد سے مراد بعض نے وہ جہاد اکبر لیا ہے جو اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے کفار و مشرکین سے کیا جاتا ہے اور بعض نے ادائے امر الٰہی کی بجاآوری، کہ اس میں بھی نفس امارہ اور شیطان کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ اور بعض نے ہر وہ کوشش مراد لی ہے جو حق اور صداقت کے غلبے اور باطل کی سرکوبی۔ 78۔ 2 یعنی ایسا حکم نہیں دیا گیا جس کا متحمل نفس انسانی نہ ہو بلکہ پچھلی شریعتوں کے بعض سخت احکام بھی اس نے منسوخ کردیئے علاوہ ازیں بہت سی آسانیاں مسلمانوں کو عطا کردیں جو پچھلی شریعتوں میں نہیں تھیں۔ 78۔ 3 عرب حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد سے تھے، اس اعتبار سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) عربوں کے باپ تھے اور غیر عرب بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ایک بزرگ شخصیت کے طور پر اسی طرح احترام کرتے تھے، جس طرح بیٹے باپ کا احترام کرتے ہیں، اس لئے وہ تمام ہی لوگوں کے باپ تھے، علاوہ ازیں پیغمبر اسلام کے (عرب ہونے کے ناطے سے) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) باپ تھے، اس لئے امت محمدیہ کے بھی باپ ہوئے، اس لئے کہا گیا، یہ دین اسلام، جسے اللہ نے تمہارے لئے پسند کیا ہے، تمہارے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کا دین ہے، اسی کی پیروی کرو۔ 78۔ 4 مسلم کا مرجع بعض کے نزدیک حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہیں یعنی نزول قرآن سے پہلے تمہارا نام مسلم بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہی نے رکھا ہے اور بعض کے نزدیک، مرجع اللہ تعالیٰ ہے۔ یعنی اس نے تمہارا نام مسلم رکھا ہے۔ 78۔ 5 یہ گواہی، قیامت والے دن ہوگی، جیسا کہ حدیث میں ہے۔ ملاحظہ ہو سورة بقرہ، آیت 143 کا حاشیہ۔
[١٠٨] جہاد کرنے کا حق یہ ہے کہ دامے، درمے، سخنے ہر طرح سے جہاد کیا جائے۔ جہاد دراصل ہر اس بھرپور کوشش کا نام ہے جو امت دین کے لئے اور اس کی راہ میں رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے کی جائے۔ اس کا پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان اپنے نفس سے جہاد کرے اور اسے مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کی مرضی اور اس کے دین کے تابع بنا دے۔ اس کا دوسرا درجہ اپنے اہل و عیال اور گھر بار کو پوری کوشش کے ساتھ اس راہ پر ڈالنا ہے۔ پھر اس کے بعد رشتہ داروں کی باری آتی ہے پھر عام لوگوں کی۔- جہاد کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جہاں موقع اور ضرورت ہو انسان زبان سے لوگوں کو اس راہ کی طرف دعوت دے اسلام کی تبلیغ اشاعت کرے۔ اور جہاں موقع اور ضرورت ہو تو صاحب قلم، قلم سے جہاد کریں۔ اسلام کی تعلیم کی اشاعت کرکے لوگوں میں پھیلائیں۔ اور اسلام کے مخالفوں کے اعتراضات کے مدلل جواب دیں۔ اور اس کا آخری درجہ یہ ہے کہ بوقت ضرورت جہاد بالسیف سے بھی دریغ نہ کریں۔ خواہ اس میں جان اور مال کی قربانی دینی پڑے۔ اور اس کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کے کلمہ کو سربلند کرنا ہو۔ اور یہ ساری اور ہر قسم کی کوششیں جہاد ہی کے ضمن میں آتی ہیں۔ اور ایک مومن کے ایمان کا تقاضا ہیں جس قدر کسی کا ایمان مضبوط ہوگا اس قدر وہ جہاد میں سرگرم عمل رہے گا۔ اس کا ایمان خود اسے ایسی کوششوں کی ترغیب دیتا رہے گا۔- [١٠٩] یعنی اسلام نے مسلمانوں پر جو فرائض عائد کئے ہیں ان میں ہر قسم کے لوگوں کی مجبوریوں کو بھی ملحوظ رکھا ہے اور سختی نہیں کی۔ مثلاً بوڑھوں، بچوں، عورتوں، اندھوں اور معذوروں کو جہاد بالسیف سے سبکدوش کیا گیا ہے۔ مسافروں کی نماز میں تخفیف کردی گئی ہے۔ مریضوں کو نماز بیٹھ کر اور زیادہ بیماری میں لیٹ کر، حتیٰ کہ اشارہ سے پڑھنے کی رخصت دی گئی ہے۔ پانی نہ ملنے پر تیمم کی اجازت ہے۔ اور ایسی مثالیں بیشمار ہیں اور اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ سابقہ شریعتوں میں جو سخت احکام تھے انھیں دور کرکے آسان کردیا گیا ہے اور اس کی مثالیں کسی دوسرے مقام پر گزر چکی ہیں۔ اور اس کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ رسم و رواج کی پابندیوں اور بعض بزرگان دین کی خود ساختہ عائد کردہ پابندیوں کو ساقط الاعتبار قرار دیا گیا ہے اور اس کی کچھ تفصیل سورة اعراف کی آیت نمبر ١٥٧ کے تحت گزر چکی ہے اور اس سے متعلق احادیث سورة بقرہ کی آیت نمبر ١٥٨ کے تحت درج کردی گئی ہیں۔- [١١٠] تمام انبیاء و رسل کا دین ایک ہی رہا ہے اور یہاں بالخصوص جو حضرت ابراہیم کے دین کا نام لیا، دین موسوی یا عیسوی وغیرہ کا نام نہیں لیا، تو اس کی چند وجوہ ہیں۔ جو یہ ہیں :- ١۔ آپ کو یہودی، عیسائی، مسلمان حتیٰ کہ صابی بھی اپنا پیشوا تسلیم کرتے ہیں اور آپ سب کے ہاں یکساں محترم ہیں۔- ٢۔ اہل عرب میں سے اکثر قبائل آپ کی ہی اولاد تھے اور آپ ان کے جد اعلیٰ ہیں۔- ٣۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام مسلمانوں کے روحانی باپ ہیں اور حضرت ابراہیم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جدامجد تھے۔ لہذا حضرت ابراہیم تمام مسلمانوں کے باپ ہوئے۔- واضح رہے کہ دین کے بجائے ملت کا لفظ آیا ہے۔ اور یہ دونوں مترادف الفاظ ہیں۔ اور دونوں میں فرق یہ ہے کہ دین صرف ان احکام و فرامین کا نام ہے جو کتاب و سنت یا کسی الہامی کتاب میں مذکور ہوتے ہیں۔ انہی احکام و فرامین کو جب عملی شکل دے کر رائج کردیا جائے تو ایسے نظام کا نام ملت ہے۔ یعنی دین کی عملی شکل جو حضرت ابراہیم نے پیش فرمائی تھی وہی اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے لہذا ہمیں انہی کی ملت کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے۔- [١١١] مسلم کے لغوی معنی ہیں اللہ کے احکام کے سامنے سرتسلیم ختم کردینے والا۔ اس لحاظ سے ہر نبی پر ایمان لانے والی قوم مسلم ہی تھی۔ ابراہیمی یا نوحی، یا موسوی، یا عیسوی، وغیرہ ناموں سے وہ لوگ نہیں پکارے جاتے تھے۔ اور نہ ہی اللہ تعالیٰ نے ان کے یہ نام رکھے تھے۔ ان کے یہ نام ان کے خود ساختہ تھے یا دوسروں کے تجویز کردہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا نام بھی مسلمان ہی رکھا تھا اور تمہارا نام بھی مسلمان ہی ہے۔- [١١٢] اس آیت کی تشریح کے لئے دیکھئے سورة بقرہ کی آیت نمبر ١٤ کا حاشیہ - [١١٣] یعنی تمہیں ہر قسم کے احکام و قوانین خواہ یہ درون خانہ سے تعلق رکھتے ہوں یا تمہاری معشیت و معاش سے یا معاشرت و تمدن سے یا داخلی و خارجی پالیسی سے اللہ کے دین سے لینے چاہئیں اور انہی پر پوری طرح عمل پیرا ہونا چاہئے۔ لہذا تم اپنے نام کی لاج رکھو اور جس ہدایت عامہ کے لئے تمہیں پیدا کیا گیا ہے اس کی تکمیل کے لئے سب سے پہلے اپنے آپ کو نمونہ بناؤ۔ بدنی اور مالی عبادات میں بھی کوتاہی نہ ہونے پائے۔ ہر کام میں شریعت سے دوستی حاصل کرو اور جادہ حق سے ادھر ادھر نہ جاؤ۔ اس کے فصل اور رحمت پر اعتماد رکھو اور تمام کمزور سہارے چھوڑ دو ۔ صرف اللہ کو ہی اپنا مالک اور مولی سمجھو۔ اس سے بہتر مالک اور مددگار تمہیں اور کون مل سکتا ہے ؟
ڋوَجَاهِدُوْا فِي اللّٰهِ حَقَّ جِهَادِهٖ : ” جِهَادِ “ ” جَھَدَ یَجْھَدُ “ (ف) میں سے باب مفاعلہ کا مصدر ہے۔ اس کا معنی ہے کسی کے مقابلے میں اپنی پوری کوشش صرف کرنا۔ یہ لفظ اصل میں اللہ کے راستے میں لڑائی کے متعلق بولا جاتا ہے، یہاں یہی مراد ہے، کیونکہ یہی سورة مبارکہ ہے جس میں سب سے پہلے کفار سے لڑنے کی اجازت دی گئی اور لڑنے والوں کو اللہ کی نصرت کی خوش خبری دی گئی۔ دیکھیے اس سورت کی آیت (٣٩) ”ۧاُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا ۔ “ اب اس آیت میں اذن سے بڑھ کر جہاد کا حکم دے دیا ہے۔ (ابن عاشور) ویسے جہاد کا لفظ ہر اس کوشش پر بھی بولا جاتا ہے جو کفار کے مقابلے میں اسلام کی سربلندی کے لیے جان، مال، زبان یا قلم کے ساتھ کی جائے، بلکہ نفس کی ناجائز خواہشوں کے مقابلے پر بھی بولا جاتا ہے، جیسا کہ فضالہ بن عبید (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع میں فرمایا : ( أَلاَ أُخْبِرُکُمْ بالْمُؤْمِنِ ؟ مَنْ آمَنَہُ النَّاسُ عَلٰی أَمْوَالِھِمْ وَأَنْفُسِھِمْ وَالْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ النَّاسُ مِنْ لِّسَانِہِ وَیَدِہِ وَالْمُجَاھِدُ مَنْ جَاھَدَ نَفْسَہُ فِيْ طَاعَۃِ اللّٰہِ وَالْمُھَاجِرُ مَنْ ھَجَرَ الْخَطَایَا وَالذُّنُوْبَ ) [ مسند أحمد : ٦؍٢١، ح : ٢٤٠١٣ ] ” کیا میں تمہیں مومن کے بارے میں بتاؤں ؟ مومن وہ ہے جس سے لوگ اپنی جانوں اور مالوں کے بارے میں بےخوف ہوں اور مسلم وہ ہے کہ لوگ اس کی زبان اور ہاتھ سے سلامت رہیں اور مجاہد وہ ہے جو اللہ کی فرماں برداری میں اپنے نفس سے جہاد کرے اور مہاجر وہ ہے جو خطائیں اور گناہ چھوڑ دے۔ “ علامہ البانی (رض) نے سلسلہ صحیحہ (٢؍٨١) میں لکھا ہے : ” اسے امام احمد نے اپنی مسند (٦؍٢١) میں روایت کیا ہے۔ سند صحیح ہے اور اس کے تمام راوی ثقہ ہیں۔ “ امام المفسرین طبری نے فرمایا، اہل تاویل کا اللہ کے فرمان ”ڋوَجَاهِدُوْا فِي اللّٰهِ حَقَّ جِهَادِهٖ “ کے متعلق اختلاف ہے، ان میں سے بعض نے فرمایا کہ اس کا معنی ہے کہ مشرکین سے اللہ کے راستے میں جہاد کرو، جیسا اس کے جہاد کا حق ہے۔ پھر طبری نے اپنی سند سے ابن عباس (رض) کا قول ذکر فرمایا : ”(ڋوَجَاهِدُوْا فِي اللّٰهِ حَقَّ جِهَادِهٖ ) کَمَا جَاھَدْتُّمْ أَوَّلَ مَرَّۃٍ “ ” یعنی اس آیت ” اللہ کے بارے میں جہاد کرو جیسا اس کے جہاد کا حق ہے “ کا مطلب ہے، جیسا کہ تم نے پہلی مرتبہ جہاد کیا تھا۔ “ اور بعض نے فرمایا کہ اللہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے مت ڈرو، یہی جہاد کا حق ہے۔ پھر طبری نے یہ قول بھی ابن عباس (رض) سے اپنی سند سے بیان فرمایا۔ کچھ اور نے فرمایا، اس کا معنی ہے کہ حق پر عمل کرو، جیسا کہ اس پر عمل کا حق ہے۔ طبری فرماتے ہیں، یہ قول ضحاک سے بعض ایسے راویوں نے ذکر کیا ہے جن کی روایت میں نظر ہے۔ آخر میں امام طبری اپنا فیصلہ بیان فرماتے ہیں : ” وَالصَّوَابُ مِنَ الْقَوْلِ فِيْ ذٰلِکَ قَوْلُ مَنْ قَالَ عُنِيَ بِہِ الْجِھَادَ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لِأَنَّ الْمَعْرُوْفَ مِنَ الْجِھَادِ ذٰلِکَ ، وَھُوَ الْأَغْلَبُ عَلٰی قَوْلِ الْقَاءِلِ جَاھَدْتُّ فِی اللّٰہِ “ ” اس آیت کی تفسیر میں درست بات اس کی ہے جس نے کہا کہ اس سے مراد جہاد فی سبیل اللہ ہے، کیونکہ جہاد کا معروف معنی یہی ہے اور جب کوئی کہے کہ میں نے اللہ (کے راستے) میں جہاد کیا تو اس کا اغلب معنی یہی ہے۔ “ امام طبری نے یہ بہت عمدہ بات فرمائی ہے، کیونکہ اگر ہر گناہ چھوڑنے والا مہاجر کہلا سکتا ہے تو انصار و مہاجرین کا فرق ختم ہوجاتا ہے اور اگر ہر دین پڑھانے والا، قرآن کا قاری، کسی دینی رسالے یا ادارے کا مدیر یا اپنے نفس سے جہاد کرنے والا مجاہد کہلا سکتا ہے تو کفار کے مقابلے میں جان و مال سب کچھ قربان کردینے والے اور کسی مفتی و مدرس اور اپنے نفس سے جہاد کرنے والے کسی مسلم کے درمیان مجاہد کہلانے میں کوئی فرق نہیں رہے گا، بلکہ سارے مسلمان ہی مجاہد کہلائیں گے، جب کہ مجاہد صرف مجاہد ہی کو کہتے ہیں، کسی مدرس، مبلغ، مفتی، مصنف یا نفس سے جہاد کرنے والے کو کوئی مجاہد نہیں کہتا۔ رہی حدیث کہ مجاہد وہ ہے جو اللہ کی فرماں برداری میں اپنے نفس سے جہاد کرے، تو اس میں مجاہدین کو نصیحت ہے کہ صرف کفار سے لڑنے کو کافی نہ سمجھنا، اصل مجاہد تم اس وقت بنو گے جب اللہ کی فرماں برداری میں اپنے نفس سے جہاد کرو گے اور مہاجرین کو نصیحت ہے کہ صرف ترک وطن کو کافی نہ سمجھنا، اصل مہاجر تم اس وقت بنو گے جب خطائیں اور گناہ چھوڑ دو گے۔- 3 بعض لوگ کفار سے جہاد کی اہمیت کم کرنے کے لیے ایک روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تبوک سے واپسی پر فرمایا : ( رَجَعْنَا مِنَ الْجِھَادِ الْأَصْغَرِ إِلَی الْجِھَادِ الْأَکْبَرِ ) ” ہم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف واپس آئے ہیں۔ “ گویا کفار سے لڑائی چھوٹا جہاد ہے، حالانکہ یہ روایت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہرگز ثابت نہیں۔ شیخ البانی (رض) نے ” سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ (٢٤٦٠) “ میں اس پر مفصل بحث کی ہے اور اسے منکر قرار دیا ہے۔ اسی سلسلے میں انھوں نے مجموع الفتاویٰ (١١؍١٩٧) سے شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رض) کا کلام نقل کیا ہے، وہ فرماتے ہیں : ” اس کی کوئی اصل نہیں اور نہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اقوال و افعال کا علم رکھنے والوں میں سے کسی نے اسے روایت کیا ہے۔ کفار سے جہاد سب سے زیادہ عظمت والے اعمال میں سے ہے، بلکہ انسان اپنی خوشی سے جو عمل کرتا ہے ان سب سے افضل ہے۔ “ پھر کچھ آیات و احادیث نقل فرمائیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ جہاد افضل اعمال میں سے ہے۔ - هُوَ اجْتَبٰىكُمْ : اس خطاب کے اولین مخاطب صحابہ کرام (رض) ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنا دین قبول کرنے، اسے پھیلانے اور اسے نہ ماننے والوں کے ساتھ جہاد کے لیے چن لیا ہے۔ اور یہ حقیقت سب جانتے ہیں کہ یہ صحابہ ہی تھے جنھوں نے دعوت و جہاد کے ساتھ چند سالوں میں مشرق ومغرب تک اسلام پہنچا دیا۔ پھر ان کے بعد جو لوگ بھی ان کے نقش قدم پر چل کر دعوت و جہاد کے ساتھ کفر کو مغلوب اور اسلام کو غالب کرتے رہے وہ بھی اس کے مخاطب ہیں۔ یہ آیت صحابہ اور ان کے پیروکاروں کی فضیلت کی زبردست دلیل ہے۔ وہ لوگ بہت بڑی غلطی پر ہیں جو اللہ کے ان چنے ہوئے پیاروں سے بغض رکھتے ہیں اور ان پر زبان طعن دراز کرتے ہیں۔ یا پوری امت اس کی مخاطب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں تمام امتوں میں سے چن لیا ہے۔ دونوں صورتوں میں اس آیت کا اور ” كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ للنَّاسِ “ کا مفہوم ایک ہی ہے۔ دیکھیے سورة آل عمران (١١٠) کی تفسیر۔- وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ : امت کے چنیدہ ہونے کے ساتھ ہی اس کی افضلیت کی وجہ بھی بیان فرما دی کہ اس دین میں کوئی تنگی نہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ الدِّیْنَ یُسْرٌ ) [ بخاري، الإیمان، باب الدین یسر : ٣٩، عن أبي ہریرہ (رض)] ” یہ دین آسان ہے۔ “ اور فرمایا : ( أَحَبُّ الدِّیْنِ إِلَی اللّٰہِ الْحَنِیْفِیَّۃُ السَّمْحَۃُ ) [ بخاري، قبل ح : ٣٩ ] ” تمام دینوں میں سے اللہ کو سب سے پسند ابراہیم حنیف کی ملت ہے جو سادہ اور آسان ہے۔ “ بخاری (رض) نے پہلی حدیث سند کے ساتھ اور دوسری معلق بیان فرمائی ہے اور اللہ تعالیٰ نے بھی فرمایا : (يُرِيْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ ) [ البقرۃ : ١٨٥ ] ” اللہ تمہارے ساتھ آسانی کا ارادہ رکھتا ہے اور تمہارے ساتھ تنگی کا ارادہ نہیں رکھتا۔ “ ” وَجَاهِدُوْا فِي اللّٰهِ حَقَّ جِهَادِهٖ “ سے اس جملے کا تعلق یہ ہے کہ اگر تم میں جہاد کی طاقت نہیں تو تمہیں رخصت ہے، فرمایا : ( لَيْسَ عَلَي الْاَعْمٰى حَرَجٌ وَّلَا عَلَي الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّلَا عَلَي الْمَرِيْضِ حَرَجٌ ) [ الفتح : ١٧ ] ” نہیں ہے اندھے پر کوئی تنگی اور نہ لنگڑے پر کوئی تنگی اور نہ مریض پر کوئی تنگی۔ “ اسی طرح عورتوں بوڑھوں، کمزوروں اور نادانوں کو جہاد معاف کردیا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورة توبہ (٩١ تا ٩٣) ۔- دین میں کسی مشکل کے نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ انسان جو جی میں آئے کرتا پھرے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دین کے احکام ایسے رکھے ہیں جو انسانی طاقت کے اندر ہیں، اسی لیے فرمایا : (لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا ) [ البقرۃ : ٢٨٦ ] ” اللہ کسی جان کو تکلیف نہیں دیتا مگر اس کی گنجائش کے مطابق۔ “ پھر کمزوری یا بڑھاپے یا کسی اور عذر کی بنا پر انجام نہ دے سکنے کی صورت میں رخصت اور تخفیف کا قاعدہ مقرر کیا ہے (جیسے سفر میں قصر نماز، سفر اور بیماری میں روزہ افطار کرنے کی اجازت، پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کی اجازت، ساری زمین میں جہاں وقت ہوجائے نماز کی اجازت وغیرہ) پھر گناہوں کے ارتکاب کی صورت میں توبہ کا دروازہ کھلا رکھا جسے پچھلی امتوں کے فقیہوں نے اپنی موشگافیوں سے ختم کر ڈالا تھا۔ اسی طرح پہلی امتوں کے بعض سخت احکام منسوخ کردیے اور وہ رسوم و رواج بھی ختم کردیے جو لوگوں نے خود یا ان کے فقیہوں نے ان پر لازم کر رکھے تھے۔ دیکھیے سورة اعراف (١٥٧) ۔- مِلَّـةَ اَبِيْكُمْ اِبْرٰهِيْمَ : ” أَيْ مُتَّبِعِیْنَ مِلَّۃَ أَبِیْکُمْ إِبْرَاھِیْمَ “ یعنی اس حال میں کہ تم اپنے باپ ابراہیم کی پیروی کرنے والے ہو۔ ” اَبِيْكُمْ “ سے اگر مخاطب عرب سمجھے جائیں تو ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کا باپ اس لیے فرمایا کہ وہ اکثر ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد سے تھے اور اگر پوری امت مسلمہ مخاطب ہو تو ابراہیم (علیہ السلام) پوری امت مسلمہ کے اس لیے باپ ہیں کہ وہ اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے باپ ہیں۔- هُوَ سَمّٰىكُمُ الْمُسْلِـمِيْنَ مِنْ قَبْلُ وَفِيْ ھٰذَا : ” أَيْ مِنْ قَبْلِ الْقُرْآنِ وَ فِيْ ھٰذَا الْقُرْآنِ “ عام طور اس کی تفسیر یہ کی جاتی ہے کہ اس نے یعنی ابراہیم (علیہ السلام) نے قرآن سے پہلے اور اس قرآن میں تمہارا نام مسلمین رکھا۔ مگر امام طبری نے دو صحیح سندوں کے ساتھ نقل فرمایا ہے کہ ابن عباس (رض) نے ” هُوَ سَمّٰىكُمُ “ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے (تمھارا نام مسلم رکھا ہے) ۔ یعنی یہ نام ابراہیم (علیہ السلام) نے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے۔ ابن کثیر نے فرمایا کہ مجاہد، قتادہ، ضحاک، سدی اور مقاتل بن حیان نے بھی یہی فرمایا۔ اس کے بعد ابن کثیر نے طبری سے عبد الرحمان بن زید بن اسلم کا قول نقل فرمایا کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے تمہارا نام مسلمین رکھا اور اس پر ابن جریر کا تبصرہ نقل فرمایا کہ یہ کسی طرح صحیح نہیں، کیونکہ معلوم ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے قرآن میں اس امت کا نام مسلمین نہیں رکھا، جب کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے تمہارا نام اس سے پہلے اور اس میں مسلمین رکھا۔ مجاہد نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارا نام مسلمین رکھا، اس سے پہلے گزشتہ کتابوں میں اور اس ذکر (قرآن) میں بھی۔ مجاہد کے علاوہ بھی کئی مفسرین نے یہی فرمایا ہے۔ ابن کثیر کہتے ہیں کہ یہی بات درست ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے پہلے فرمایا : (هُوَ اجْتَبٰىكُمْ ) یعنی اس (اللہ) نے تمہیں چنا۔ پھر انھیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لائے ہوئے دین کی ترغیب یہ کہہ کر دلائی کہ یہ تمہارے باپ ابراہیم کی ملت ہے، پھر اس امت پر احسان جتلایا کہ اس نے پہلی تمام کتابوں میں اور اس قرآن میں تمہارا نام مسلمین رکھا ہے۔ آئندہ فائدے میں ایک حدیث آرہی ہے جس میں صراحت ہے کہ ہمارا نام اللہ تعالیٰ نے مسلمین، مؤمنین اور عباد اللہ رکھا ہے۔ قرآن میں مسلمین نام کے لیے دیکھیے سورة آل عمران (٦٤) اور سورة زمر (١٢) ۔- 3 کچھ سال پہلے ایک صاحب نے کہا کہ جو شخص ” مسلم “ کے سوا کوئی اور نام اختیار کرے وہ کافر ہے، خارج از اسلام ہے۔ اگرچہ ان کے فوت ہونے کے بعد وہ زور نہیں رہا مگر اب بھی ان کے کئی متاثرین کافر گری کا یہ شغل جاری رکھے ہوئے ہیں، اگرچہ وہ خود بھی کئی گروہوں میں بٹ کر ایک دوسرے پر فتوے لگا رہے ہیں۔ حالانکہ کوئی مسلم اگر اسلام کی کسی صفت کو بطور نام استعمال کرلے تو وہ ملت اسلام سے کیسے خارج ہوگیا ؟ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (اِنَّ الْمُسْلِمِيْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ وَالْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ وَالْقٰنِتِيْنَ وَالْقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِيْنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِيْنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالْخٰشِعِيْنَ وَالْخٰشِعٰتِ وَالْمُتَصَدِّقِيْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّاۗىِٕـمِيْنَ وَالـﮩـىِٕمٰتِ وَالْحٰفِظِيْنَ فُرُوْجَهُمْ وَالْحٰفِظٰتِ وَالذّٰكِرِيْنَ اللّٰهَ كَثِيْرًا وَّالذّٰكِرٰتِ ۙ اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِيْمًا) [ الأحزاب : ٣٥ ] ” بیشک مسلم مرد اور مسلم عورتیں اور مومن مرد اور مومن عورتیں اور فرماں بردار مرد اور فرماں بردار عورتیں اور سچے مرد اور سچی عورتیں اور صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں اور عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں اور صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں اور روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں اور اللہ کا بہت ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں، ان کے لیے اللہ نے بڑی بخشش اور بہت بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔ “ اور حارث اشعری (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَنِ ادَّعٰی دَعْوَی الْجَاھِلِیَّۃِ فَھُوَ جُثَا جَھَنَّمَ فَقَالَ رَجُلٌ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَإِنْ صَلّٰی وَصَامَ فَقَالَ وَإِنْ صَلّٰی وَصَامَ فَادْعُوْا بِدَعْوَی اللّٰہِ الَّذِيْ سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ عِبَاد اللّٰہِ ) [ ترمذي الأدب، باب ماجاء في مثل الصلاۃ۔۔ : ٢٨٦٣۔ مسند أحمد : ٥؍٣٤٤، ح : ٢٢٩٧٦ ] ” جو شخص جاہلیت کی دعوت کی آواز دے وہ جہنم کی ڈھیریوں میں سے ہے۔ “ ایک آدمی نے کہا : ” یارسول اللہ خواہ وہ نماز پڑھے اور روزے رکھے ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” خواہ وہ نماز پڑھے اور روزے رکھے۔ سو تم اللہ کی عبادت کی آواز دو جس کے ساتھ اس نے تمہارا نام ” مسلمین “ ، ” مومنین “ اور ” عباد اللہ “ رکھا ہے۔ “ اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ مسلمین کے علاوہ صفاتی نام (مثلاً مومنین، عباد اللہ) لینے میں کوئی حرج نہیں ۔- لِيَكُوْنَ الرَّسُوْلُ شَهِيْدًا : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (١٤٣) یہاں رسول کا ذکر پہلے ہے اور سورة بقرہ میں امت کا پہلے ہے۔ کیونکہ وہاں امت کی تعریف ہو رہی ہے جبکہ یہاں ملت ابراہیم کی پیروی کی تاکید ہے، جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لے کر آئے ہیں، اس لیے یہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر پہلے ہے۔ (ابن عاشور)- فَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ : یہ ” هُوَ اجْتَبٰىكُمْ “ اور ” هُوَ سَمّٰىكُمُ الْمُسْلِـمِيْنَ “ پر عطف ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے تم پر اتنے انعام کیے ہیں تو تم اس کا شکر ادا کرنے کے لیے ہمیشہ نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو۔ ان دو اعمال کی تاکید اس لیے فرمائی کہ کسی اسلام لانے والے کے ایمان کا ثبوت اقرار کے بعد ان دونوں عملوں سے ملتا ہے۔ دیکھیے سورة توبہ (٥، ١١) ۔- وَاعْتَصِمُوْا باللّٰهِ : اور اللہ تعالیٰ کو مضبوطی سے تھام لو، یعنی اس کے تمام احکام کو مضبوطی سے تھام لو، اسی طرح ہر مشکل اور مصیبت بلکہ اپنے ہر کام میں اسی کے سہارے کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور کسی غیر کی طرف نظر مت اٹھاؤ۔ - هُوَ مَوْلٰىكُمْ : یہ اللہ کو مضبوطی سے تھامنے کی وجہ بیان ہوئی ہے کہ تمہارا مالک اور تمہارے تمام کاموں کا ذمہ اٹھانے والا وہی ہے۔- فَنِعْمَ الْمَوْلٰى وَنِعْمَ النَّصِيْرُ : وہ بہت اچھا مالک اور بہت اچھا مددگار ہے، کیونکہ وہ کسی کا ذمہ اٹھا لے تو اسے ہر فکر سے کافی ہوجاتا ہے اور جب کسی کی مدد کر دے تو اسے اس کے تمام دشمنوں پر غالب کردیتا ہے۔ دعائے قنوت میں ہے : ( إِنَّہُ لَا یَذِلُّ مَنْ وَّالَیْتَ وَلَا یَعِزُّ مَنْ عَادَیْتَ ) [ أبوداوٗد، الوتر، باب القنوت في الوتر : ١٤٢٥ ] ” حقیقت یہ ہے کہ جس کا تو دوست بن جائے وہ کبھی ذلیل نہیں ہوتا اور جس کا تو دشمن ہوجائے وہ کبھی عزت نہیں پاتا۔ “
وَجَاهِدُوْا فِي اللّٰهِ حَقَّ جِهَادِهٖ ، لفظ جہاد اور مجاہدہ کسی مقصد کی تحصیل میں اپنی پوری طاقت خرچ کرنے اور اس کے لئے مشقت برداشت کرنے کے معنے میں آتا ہے۔ کفار کے ساتھ قتال میں بھی مسلمان اپنے قول فعل اور ہر طرح کی امکانی طاقت خرچ کرتے ہیں اس لئے اس کو بھی جہاد کہا جاتا ہے اور حق جہاد سے مراد اس میں پورا اخلاص اللہ کیلئے ہونا ہی ہے جس میں کسی دنیوی نام و نمود یا مال غنیمت کی طمع کا شائبہ نہ ہو۔ - حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ حق جہاد یہ ہے کہ جہاد میں اپنی پوری طاقت خرچ کرے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت پر کان نہ لگائے۔ اور بعض حضرات مفسرین نے اس جگہ جہاد کے معنی عام عبادات اور احکام الٰہیہ کی تعمیل میں اپنی پوری طاقت پورے اخلاص کے ساتھ خرچ کرنے کے لئے ہیں ضحاک اور مقاتل نے فرمایا کہ مراد آیت کی یہ ہے کہ اعملو اللہ حق عملہ واعبدوہ حق عبادتہ یعنی عمل کرو اللہ کے لئے جیسا کہ اس کا حق ہے اور عبادت کرو اللہ کی جیسا کہ اس کا حق ہے۔ اور حضرت عبداللہ ابن مبارک نے فرمایا کہ یہاں جہاد سے مراد اپنے نفس اور اس کی بیجا خواہشات کے مقابلہ میں جہاد کرنا ہے اور یہی حق جہاد ہے۔ امام بغوی وغیرہ نے اس قول کی تائید میں ایک حدیث بھی حضرت جابر بن عبداللہ سے نقل کی ہے کہ ایک مرتبہ صحابہ کرام کی ایک جماعت جو جہاد کفار کے لئے گئی ہوئی تھی واپس آئی تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، قدمتم خیر مقدم من الجھاد الاصغر الی الجھاد و الاکبر قال (یعنی الراوی) مجاہدة العبد لھواہ رواہ البیہقی و قال ھذا اسناد فیہ مضعف، یعنی تم لوگ خوب واپس آئے چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف یعنی اپنے نفس کی خواہشات بیجا کے مقابلہ کا جہاد اب بھی جاری ہے اس روایت کو بیہقی نے روایت کیا ہے مگر کہا ہے کہ اس کے اسناد میں ضعف ہے۔- فائدہ :- تفسیر مظہری میں اس دوسری تفسیر کو اختیار کر کے اس آیت سے یہ مسئلہ نکالا ہے کہ صحابہ کرام جب مقابلہ کفار میں جہاد کر رہے تھے خواہشات نفسانی کے مقابلہ کا جہاد تو اس وقت بھی جاری تھا مگر حدیث میں اس کو واپسی کے بعد ذکر کیا ہے اس میں اشارہ یہ ہے کہ اہواء نفس کے مقابلہ کا جہاد اگرچہ میدان کار زار میں بھی جاری تھا مگر عادةً یہ جہاد شیخ کامل کی صحبت پر موقوف ہے اس لئے وہ جہاد سے واپسی اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضری کے وقت ہی شروع ہوا۔- امت محمدیہ اللہ تعالیٰ کی منتخب امت ہے : - هُوَ اجْتَبٰىكُمْ ، حضرت واثلہ ابن اسقع (رض) کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ حق تعالیٰ نے تمام بنی اسماعیل میں کنانہ کا انتخاب فرمایا، پھر کنانہ میں سے قریش کا پھر قریش میں سے بنی ہاشم کا پھر بنی ہاشم میں سے میرا انتخاب فرمایا۔ (رواہ مسلم۔ مظھری)- وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ ، یعنی اللہ تعالیٰ نے دین کے معاملہ میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔ دین میں تنگی نہ ہونے کا مطلب بعض حضرات نے یہ بیان فرمایا کہ اس دین میں ایسا کوئی گناہ نہیں ہے جو توبہ سے معاف نہ ہو سکے اور عذاب آخرت سے خلاصی کی کوئی صورت نہ نکلے۔ بخلاف پچھلی امتوں کے کہ ان میں بعض گناہ ایسے بھی تھے جو توبہ کرنے سے بھی معاف نہ ہوتے تھے۔- حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ تنگی سے مراد وہ سخت و شدید احکام ہیں جو بنی اسرائیل پر عائد کئے گئے تھے جن کو قرآن میں اصر اور اغلال سے تعبیر کیا گیا ہے اس امت پر ایسا کوئی حکم فرض نہیں کیا گیا۔ بعض حضرات نے فرمایا کہ تنگی سے مراد وہ تنگی ہے جس کو انسان برداشت نہ کرسکے اس دین کے احکام میں کوئی حکم ایسا نہیں جو فی نفسہ ناقابل برداشت ہو۔ باقی رہی تھوڑی بہت محنت و مشقت تو وہ دنیا کے ہر کام میں ہوتی ہے۔ تعلیم حاصل کرنے پھر ملازمت، تجارت و صنعت میں کیسی کیسی محنتیں برداشت کرنا پڑتی ہیں مگر اس کی وجہ سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ کام بڑے سخت و شدید ہیں۔ ماحول کے غلط اور مخالف ہونے یا ملک و شہر میں اس کا رواج نہ ہونے کے سبب جو کسی عمل میں دشواری پیش آئے وہ عمل کی تنگی اور تشدد نہیں کہلائے گی۔ کرنے والے کو اس لئے بھاری معلوم ہوتی ہے کہ ماحول میں کوئی اس کا ساتھ دینے والا نہیں۔ جس ملک میں روٹی کھانے پکانے کی عادت نہ ہو وہاں روٹی حاصل کرنا کس قدر دشوار ہوجاتا ہے وہ سب جانتے ہیں مگر اس کے باوجود یہ نہیں کہا جاسکتا کہ روٹی پکانا بڑا سخت کام ہے۔- اور حضرت قاضی ثناء اللہ نے تفسیر مظہری میں فرمایا کہ دین میں تنگی نہ ہونے کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو ساری امتوں میں سے اپنے لئے منتخب فرما لیا ہے اس کی برکت سے اس امت کے لوگوں کو دین کی راہ میں بڑی سے بڑی مشقت اٹھانا بھی آسان بلکہ لذیذ ہوجاتا ہے۔ محنت سے راحت ملنے لگی ہے خصوصاً جب دل میں حلاوت ایمان پیدا ہوجائے تو سارے بھاری کام بھی ہلکے پھلکے محسوس ہونے لگتے ہیں۔ حدیث صحیح میں حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ جعلت قرة عینی فی الصلوة یعنی نماز میں میری آنکھوں کی ٹھنڈک کردی گئی ہے۔ (رواہ احمد والنسائی و الحاکم و صححہ)- مِلَّـةَ اَبِيْكُمْ اِبْرٰهِيْمَ ، یعنی یہ ملت ہے تمہارے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کی۔ یہ خطاب دراصل مومنین قریش کو ہے جو ابراہیم (علیہ السلام) کی نسل میں ہیں پھر سب لوگ قریش کے تابع ہو کر اس فضیلت میں شامل ہوجاتے ہیں جیسے حدیث میں ہے الناس تبع لقریش فی ھذا الشان مسلمھم تبع لمسلمھم و کافرھم تبع لکافرھم (رواہ البخاری و مسلم (مظھری) یعنی سب لوگ اس دین میں قریش کے تابع ہیں، مسلمان مسلمان قریش کے تابع اور کافر لوگ کافر قریش کے تابع ہیں۔ اور بعض حضرات نے فرمایا ابیکم ابراہیم کا خطاب سب امت کے مسلمانوں کو ہے اور ابراہیم (علیہ السلام) کا ان سب کے لئے باپ ہونا اس اعتبار سے ہے کہ حضرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امت کے روحانی باپ ہیں جیسا کہ ازواج مطہرات امہات المومنین ہیں اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں ہونا ظاہر و معروف ہے۔- هُوَ سَمّٰىكُمُ الْمُسْلِـمِيْنَ ڏ مِنْ قَبْلُ وَفِيْ ھٰذَا، یعنی حضرت ابراہیم ہی نے امت محمدیہ اور تمام اہل ایمان کا نام قرآن سے پہلے مسلم تجویز کیا ہے اور خود قرآن میں بھی، جیسا کہ ابراہیم کی دعا قرآن کریم میں یہ منقول ہے رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَآ اُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ ۔ اور قرآن میں جو اہل ایمان کا نام مسلم رکھا گیا ہے اس کے رکھنے والے اگرچہ براہ راست ابراہیم (علیہ السلام) نہیں مگر قرآن سے پہلے ان کا یہ نام تجویز کردینا قرآن میں اسی نام سے موسوم کرنے کا سبب بنا اس لئے اس کی نسبت بھی ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف کردی گئی ہے۔- لِيَكُوْنَ الرَّسُوْلُ شَهِيْدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ ، یعنی آپ محشر میں گواہی دیں گے کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے احکام اس امت کو پہنچا دیئے تھے۔ اور امت محمدیہ اس کا اقرار کرے گی مگر دوسرے انبیاء جب یہ کہیں گے تو ان کی امتیں مکر جائیں گی اس وقت امت محمدیہ شہادت دے گی کہ بیشک سب انبیاء نے اپنی اپنی قوم کو اللہ کے احکام پہنچا دیئے تھے دوسری امتوں کی طرف سے ان کی شہادت پر یہ جرح ہوگی کہ ہمارے زمانے میں تو امت محمدیہ کا وجود بھی نہ تھا یہ ہمارے معاملے میں کیسے گواہ بن سکتے ہیں۔ ان کی طرف سے جرح کا یہ جواب ہوگا کہ بیشک ہم موجود نہ تھے مگر ہم نے یہ بات اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی ہے جن کے صدق میں کوئی شک و شبہ نہیں اس لئے ہم یہ گواہی دے سکتے ہیں۔ تو ان کی شہادت قبول کی جائے گی یہ مضمون اس حدیث کا ہے جس کو بخاری وغیرہ نے حضرت ابو سعید خدری سے روایت کیا ہے۔- فَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ ، مراد یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں پر ایسے احسانات عظیمہ فرمائے ہیں جن کا ذکر اوپر آیا ہے تو تمہارا فرض ہے کہ احکام الٰہیہ کی پابندی میں پوری کوشش کرو ان میں سے اس جگہ نماز اور زکوٰة کے ذکر پر اکتفا اس لئے کیا گیا کہ بدن کے متعلقہ اعمال و احکام میں نماز سب سے اہم ہے اور مال سے متعلقہ احکام میں زکوٰة سب سے زیادہ اہم گویا مراد تمام ہی احکام شرعیہ کی پابندی کرنا ہے۔- وَاعْتَصِمُوْا باللّٰهِ ، یعنی اپنے سب کاموں میں صرف اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ کرو، اسی سے مدد مانگو اور حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا کہ مراد اس اعتصام سے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگا کرو کہ تم کو تمام مکروہات دنیا و آخرت سے محفوظ رکھے۔ اور بعض حضرات نے فرمایا کہ واعْتَصِمُوْا باللّٰهِ کے معنے یہ ہیں کہ قرآن و سنت کے ساتھ تمسّک کرو ان کو ہر حال میں لازم پکڑو جیسا کہ حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ :- ترکت فیکم امرین لن تضلوا ماتمسکتم بھما کتاب اللہ وسنة رسول رواہ مالک فی الموطاء مرسلا۔ (مظھری)- میں نے تمہارے لئے دو چیزیں ایسی چھوڑی ہیں کہ تم جب تک ان دونوں کو پکڑے رہو گے گمراہ نہ ہو گے ایک اللہ کی کتاب دوسرے اس کے رسول کی سنت۔- ثم تفسیر سورة الحج بعون اللہ سبحانہ و بہ نعتصم ھو مولانا و نعم النصیر - الحمد للہ سورة حج کی تفسیر کا اکثر حصہ اشہر حج کے آخری مہینہ ذی الحجہ میں پورا ہوا، پوری سورت کی تفسیر سات روز میں مکمل ہوئی پانچ روز ذی الحجہ ١٣٩٠ ھ کے اور دو روز محرم ١٣٩١ ھ کے وللہ الحمد اولہ وآخرہ و بہ استعین فی تکمیل الباقی و ما ذلک علی اللہ بعزیز۔
وَجَاہِدُوْا فِي اللہِ حَقَّ جِہَادِہٖ ٠ ۭ ہُوَاجْتَبٰىكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ ٠ۭ مِلَّـۃَ اَبِيْكُمْ اِبْرٰہِيْمَ ٠ۭ ہُوَسَمّٰىكُمُ الْمُسْلِـمِيْنَ ٠ۥۙ مِنْ قَبْلُ وَفِيْ ھٰذَا لِيَكُوْنَ الرَّسُوْلُ شَہِيْدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ ٠ ۚۖ فَاَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّكٰوۃَ وَاعْتَصِموْا بِاللہِ ٠ۭ ہُوَمَوْلٰىكُمْ ٠ۚ فَنِعْمَ الْمَوْلٰى وَنِعْمَ النَّصِيْرُ ٧٨ۧ- جهد - الجَهْدُ والجُهْد : الطاقة والمشقة، وقیل : الجَهْد بالفتح : المشقة، والجُهْد : الوسع .- وقیل : الجهد للإنسان، وقال تعالی: وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة 79] ، وقال تعالی: وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور 53] ، أي : حلفوا واجتهدوا في الحلف أن يأتوا به علی أبلغ ما في وسعهم . والاجتهاد : أخذ النفس ببذل الطاقة وتحمّل المشقة، يقال :- جَهَدْتُ رأيي وأَجْهَدْتُهُ : أتعبته بالفکر، والجِهادُ والمجاهدة : استفراغ الوسع في مدافعة العدو، والجِهَاد ثلاثة أضرب :- مجاهدة العدو الظاهر . - ومجاهدة الشیطان .- ومجاهدة النفس .- وتدخل ثلاثتها في قوله تعالی: وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج 78] ، وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة 41] ، إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال 72] ، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «جاهدوا أهواء کم کما تجاهدون أعداء کم» «1» . والمجاهدة تکون بالید واللسان، قال صلّى اللہ عليه وسلم «جاهدوا الکفار بأيديكم وألسنتکم» «2» .- ( ج ھ د ) الجھد - والجھد کے معنی وسعت و طاقت اور تکلف ومشقت کے ہیں ۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ الجھد ( فتح جیم کے معنی مشقت کے ہیں اور الجھد ( ( بضم جیم ) طاقت اور وسعت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ الجھد کا لفظ صرف انسان کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة 79] اور جنہیں اپنی محنت ومشقت ( کی کمائی ) کے سوا کچھ میسر نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور 53] کے معنی یہ ہیں کہ وہ بڑی زور زور سے قسمیں کھاکر کہتے ہیں کے وہ اس میں اپنی انتہائی کوشش صرف کریں گے الاجتھاد ( افتعال ) کے معنی کسی کام پر پوری طاقت صرف کرنے اور اس میں انتہائی مشقت اٹھانے پر طبیعت کو مجبور کرنا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے میں نے غور ومحکر سے اپنی رائے کو مشقت اور تعب میں ڈالا ۔ الجھاد والمجاھدۃ دشمن کے مقابلہ اور مدافعت میں اپنی انتہائی طاقت اور وسعت خرچ کرنا اور - جہا دتین قسم پر ہے - ( 1 ) ظاہری دشمن یعنی کفار سے جہاد کرنا ( 2 ) شیطان اور ( 3 ) نفس سے مجاہدہ کرنا اور آیت کریمہ : ۔ وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج 78] کہ اللہ کی راہ میں پوری طرح جہاد کرو ۔۔۔۔۔ تینوں قسم جہاد پر مشتمل ہے ۔ نیز فرمایا :۔ وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة 41] کہ خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرو ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال 72] جو لوگ ایمان لائے اور وطن چھوڑ گئے اور خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرتے رہے ۔ اور حدیث میں ہے (66) کہ جس طرح اپنے دشمن سے جہاد کرتے ہو اسی طرح اسی خواہشات سے بھی جہاد کیا کرو ۔ اور مجاہدہ ہاتھ اور زبان دونوں کے ساتھ ہوتا ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا (67) کہ کفار سے ہاتھ اور زبان دونوں کے ذریعہ جہاد کرو ۔- - اجتباء - : الجمع علی طریق الاصطفاء . قال عزّ وجل : فَاجْتَباهُ رَبُّهُ [ القلم 50] ، وقال تعالی: وَإِذا لَمْ تَأْتِهِمْ بِآيَةٍ قالُوا : لَوْلا اجْتَبَيْتَها [ الأعراف 203] ، أي : يقولون : هلّا جمعتها، تعریضا منهم بأنک تخترع هذه الآیات ولیست من اللہ . واجتباء اللہ العبد : تخصیصه إياه بفیض إلهيّ يتحصل له منه أنواع من النعم بلا سعي من العبد، وذلک للأنبیاء وبعض من يقاربهم من الصدیقین والشهداء، كما قال تعالی: وَكَذلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ [يوسف 6] ، فَاجْتَباهُ رَبُّهُ فَجَعَلَهُ مِنَ الصَّالِحِينَ [ القلم 50] ، وَاجْتَبَيْناهُمْ وَهَدَيْناهُمْ إِلى صِراطٍ مُسْتَقِيمٍ [ الأنعام 87] ، وقوله تعالی: ثُمَّ اجْتَباهُ رَبُّهُ فَتابَ عَلَيْهِ وَهَدى [ طه 122] ، وقال عزّ وجل : يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ يُنِيبُ [ الشوری 13] ، وذلک نحو قوله تعالی: إِنَّا أَخْلَصْناهُمْ بِخالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِ [ ص 46] .- الاجتباء ( افتعال )- کے معنی انتخاب کے طور پر کسی چیز کو جمع کرنے کے ہیں لہذا آیت کریمہ : ۔ وَإِذا لَمْ تَأْتِهِمْ بِآيَةٍ قالُوا : لَوْلا اجْتَبَيْتَها [ الأعراف 203] اور جب تم ان کے پاس ( کچھ دنوں تک ) کوئی آیت نہیں لاتے تو کہتے ہیں کہ تم نے ( اپنی طرف سے ) کیوں نہیں بنائی ہیں کے معنی یہ ہوں گے کہ تم خد ہی ان کو تالیف کیوں نہیں کرلیتے دراصل کفار یہ جملہ طنزا کہتے تھے کہ یہ آیات اللہ کی طرف سے نہیں ہیں بلکہ تم کود ہی اپنے طور بنالیتے ہو ۔ اور اللہ تعالیٰ کا کسی بندہ کو جن لینا کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ اسے اپنے فیض کے لئے برگزیدہ کرلیتا ہے جسے گونا گون نعمتیں جدو جہد کے بغیر حاصل ہوجاتی ہیں یہ انبیاء کے ساتھ خاص ہے اور صدیقوں اور شہدوں کے لئے جوان کئ قریب درجہ حاصل کرلیتے ہیں ۔ جیسا کہ یوسف کے متعلق فرمایا : ۔ وَكَذلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ [يوسف 6] اور اسی طرح خدا تمہیں برگزیدہ ( ممتاز ) کرے گا ۔ فَاجْتَباهُ رَبُّهُ فَجَعَلَهُ مِنَ الصَّالِحِينَ [ القلم 50] پھر پروردگار نے ان کو برگزیدہ کر کے نیکو کاروں میں کرلیا ۔ وَاجْتَبَيْناهُمْ وَهَدَيْناهُمْ إِلى صِراطٍ مُسْتَقِيمٍ [ الأنعام 87] ان کو برگزیدہ بھی کیا تھا اور سیدھا رستہ بھی دکھا یا تھا ۔ ثُمَّ اجْتَباهُ رَبُّهُ فَتابَ عَلَيْهِ وَهَدى [ طه 122] پھر ان کے پروردگار نے ان کو نواز اتو ان پر مہر بانی سے توجہ فرمائی اور سیدھی راہ بتائی ۔ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ يُنِيبُ [ الشوری 13] جس کو چاہتا ہے اپنی بارگاہ کا برگزیدہ کرلیتا ہے اور جو اس کی طرف رجوع کرے اسے اپنی طرف رستہ دکھا دیتا ہے اس احتیاء کو دوسرے مقام پر اخلاص سے تعبیر فرمایا ہے ۔ إِنَّا أَخْلَصْناهُمْ بِخالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِ [ ص 46] ہم نے ان کو ایک ( صفت ) خاص ( اخرت ) کے گھر کی یا سے ممتاز کیا تھا ۔- دين - والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19]- ( د ی ن ) دين - الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔- حرج - أصل الحَرَج والحراج مجتمع الشيئين، وتصوّر منه ضيق ما بينهما، فقیل للضيّق : حَرَج، وللإثم حَرَج، قال تعالی: ثُمَّ لا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجاً [ النساء 65] ، وقال عزّ وجلّ :- وَما جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ [ الحج 78] ، وقد حرج صدره، قال تعالی:- يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقاً حَرَجاً [ الأنعام 125] ، وقرئ حرجا «1» ، أي : ضيّقا بکفره، لأنّ الکفر لا يكاد تسکن إليه النفس لکونه اعتقادا عن ظن، وقیل : ضيّق بالإسلام کما قال تعالی:- خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة 7] ، وقوله تعالی: فَلا يَكُنْ فِي صَدْرِكَ حَرَجٌ مِنْهُ [ الأعراف 2] ، قيل : هو نهي، وقیل : هو دعاء، وقیل : هو حکم منه، نحو : أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ [ الشرح 1] ، والمُتَحَرِّج والمتحوّب : المتجنّب من الحرج والحوب .- ( ح ر ج ) الحرج والحراج ( اسم ) کے اصل معنی اشب کے مجتع یعنی جمع ہونے کی جگہ کو کہتے ہیں ۔ اور جمع ہونے میں چونکہ تنگی کا تصور موجود ہے اسلئے تنگی اور گناہ کو بھی حرج کہاجاتا ہے قرآن میں ہے ؛۔ ثُمَّ لا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجاً [ النساء 65] اور ۔۔۔ اپنے دل میں تنگ نہ ہوں ۔ وَما جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ [ الحج 78 اور تم پر دین ( کی کسی بات ) میں تنگی نہیں کی ۔ حرج ( س) حرجا ۔ صدرہ ۔ سینہ تنگ ہوجانا ۔ قرآن میں ہے ؛۔ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقاً حَرَجاً [ الأنعام 125] اس کا سینہ تنگ اور گھٹا ہوا کردیتا ہے ۔ ایک قرآت میں حرجا ہے ۔ یعنی کفر کی وجہ سے اس کا سینہ گھٹا رہتا ہے اس لئے کہ عقیدہ کفر کی بنیاد وظن پر ہوتی ہے جس کی وجہ سے انسان کو کبھی سکون نفس حاصل نہیں ہوتا اور بعض کہتے کہ اسلام کی وجہ سے اس کا سینہ تنگ ہوجاتا ہے جیسا کہ آیت خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة 7] سے مفہوم ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ فَلا يَكُنْ فِي صَدْرِكَ حَرَجٌ مِنْهُ [ الأعراف 2] اس سے تم کو تنگ دل نہیں ہونا چاہیے ۔ میں لایکن فعل نہی کے معنی میں بھی ہوسکتا ہے اور ۔۔۔۔ جملہ دعائیہ بھی ۔ بعض نے اسے جملہ خبر یہ کے معنی میں لیا ہے ۔ جیسا کہ آیت کریمہ ۔ أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ [ الشرح 1] سے مفہوم ہوتا ہے ،۔ المنحرج ( صفت فاعلی ) گناہ اور تنگی سے دور رہنے والا جیسے منحوب ۔ حوب ( یعنی گنا ہ) بچنے والا ۔- ملل - المِلَّة کالدّين، وهو اسم لما شرع اللہ تعالیٰ لعباده علی لسان الأنبیاء ليتوصّلوا به إلى جوار الله، والفرق بينها وبین الدّين أنّ الملّة لا تضاف إلّا إلى النّبيّ عليه الصلاة والسلام الذي تسند إليه . نحو : فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْراهِيمَ [ آل عمران 95] ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف 38] ولا تکاد توجد مضافة إلى الله، ولا إلى آحاد أمّة النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم، ولا تستعمل إلّا في حملة الشّرائع دون آحادها،- ( م ل ل ) الملۃ - ۔ دین کی طرح ملت بھی اس دستور نام ہے جو اللہ تعالیٰ نے انبیاء کی زبان پر بندوں کے لئے مقرر فرمایا تا کہ اس کے ذریعہ وہ قریب خدا وندی حاصل کرسکیں ۔ دین اور ملت میں فرق یہ ہے کی اضافت صرف اس نبی کی طرف ہوتی ہے جس کا وہ دین ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْراهِيمَ [ آل عمران 95] پس دین ابراہیم میں پیروی کرو ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف 38] اور اپنے باپ دادا کے مذہب پر چلتا ہوں ۔ اور اللہ تعالیٰ یا کسی اذا دامت کی طرف اسکی اضافت جائز نہیں ہے بلکہ اس قوم کی طرف حیثیت مجموعی مضاف ہوتا ہے جو اس کے تابع ہوتی ہے ۔ - أب - الأب : الوالد، ويسمّى كلّ من کان سببا في إيجاد شيءٍ أو صلاحه أو ظهوره أبا، ولذلک يسمّى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أبا المؤمنین، قال اللہ تعالی: النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب 6]- ( اب و ) الاب - ۔ اس کے اصل معنی تو والد کے ہیں ( مجازا) ہر اس شخص کو جو کسی شے کی ایجاد ، ظہور یا اصلاح کا سبب ہوا سے ابوہ کہہ دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ۔ النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ [ الأحزاب : 6] میں آنحضرت کو مومنین کا باپ قرار دیا گیا ہے ۔- اسْمُ- والِاسْمُ : ما يعرف به ذات الشیء، وأصله سِمْوٌ ، بدلالة قولهم : أسماء وسُمَيٌّ ، وأصله من السُّمُوِّ وهو الذي به رفع ذکر الْمُسَمَّى فيعرف به، قال اللہ : بِسْمِ اللَّهِ [ الفاتحة 1] ، وقال : ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها [هود 41] ، بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ [ النمل 30] ، وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ [ البقرة 31] ، أي : لألفاظ والمعاني مفرداتها ومرکّباتها .- وبیان ذلک أنّ الاسم يستعمل علی ضربین :- أحدهما : بحسب الوضع الاصطلاحيّ ، وذلک هو في المخبر عنه نحو : رجل وفرس .- والثاني : بحسب الوضع الأوّليّ.- ويقال ذلک للأنواع الثلاثة المخبر عنه، والخبر عنه، والرّابط بينهما المسمّى بالحرف، وهذا هو المراد بالآية، لأنّ آدم عليه السلام کما علم الاسم علم الفعل، والحرف، ولا يعرف الإنسان الاسم فيكون عارفا لمسمّاه إذا عرض عليه المسمّى، إلا إذا عرف ذاته . ألا تری أنّا لو علمنا أَسَامِيَ أشياء بالهنديّة، أو بالرّوميّة، ولم نعرف صورة ما له تلک الأسماء لم نعرف الْمُسَمَّيَاتِ إذا شاهدناها بمعرفتنا الأسماء المجرّدة، بل کنّا عارفین بأصوات مجرّدة، فثبت أنّ معرفة الأسماء لا تحصل إلا بمعرفة المسمّى، و حصول صورته في الضّمير، فإذا المراد بقوله : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31] ، الأنواع الثلاثة من الکلام وصور المسمّيات في ذواتها، وقوله : ما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها [يوسف 40] ، فمعناه أنّ الأسماء التي تذکرونها ليس لها مسمّيات، وإنما هي أسماء علی غير مسمّى إذ کان حقیقة ما يعتقدون في الأصنام بحسب تلک الأسماء غير موجود فيها، وقوله : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ [ الرعد 33] ، فلیس المراد أن يذکروا أساميها نحو اللّات والعزّى، وإنما المعنی إظهار تحقیق ما تدعونه إلها، وأنه هل يوجد معاني تلک الأسماء فيها، ولهذا قال بعده : أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِما لا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ [ الرعد 33] ، وقوله : تَبارَكَ اسْمُ رَبِّكَ [ الرحمن 78] ، أي : البرکة والنّعمة الفائضة في صفاته إذا اعتبرت، وذلک نحو : الكريم والعلیم والباري، والرّحمن الرّحيم، وقال : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى [ الأعلی 1] ، وَلِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الأعراف 180] ، وقوله : اسْمُهُ يَحْيى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا - [ مریم 7] ، لَيُسَمُّونَ الْمَلائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثى- [ النجم 27] ، أي : يقولون للملائكة بنات الله، وقوله : هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا - [ مریم 65] أي : نظیرا له يستحقّ اسمه، وموصوفا يستحقّ صفته علی التّحقیق، ولیس المعنی هل تجد من يتسمّى باسمه إذ کان کثير من أسمائه قد يطلق علی غيره، لکن ليس معناه إذا استعمل فيه كما کان معناه إذا استعمل في غيره .- الاسم - کسی چیز کی علامت جس سے اسے پہچانا جائے ۔ یہ اصل میں سمو ہے کیونکہ اس کی جمع اسماء اور تصغیر سمی آتی ہے ۔ اور اسم کو اسم اس لئے کہتے ہیں کہ اس سے مسمیٰ کا ذکر بلند ہوتا ہے اور اس کی معرفت حاصل ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها [هود 41] اور ( نوح (علیہ السلام) نے ) کہا کہ خدا کا نام لے کر ( کہ اس کے ہاتھ میں ) اس کا چلنا ( ہے ) سوار ہوجاؤ۔ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ [ النمل 30] وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور مضمون یہ ہے ) کہ شروع خدا کا نام لے کر جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے ۔ اور آیت : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ [ البقرة 31] اور اس آدم کو سب ( چیزوں کے ) نام سکھائے ۔ میں اسماء سے یہاں الفاظ و معانی دونوں مراد ہیں ۔ خواہ مفردہوں خواہ مرکب اس اجمال کی تفصیل یہ ہے ۔ کہ لفظ اسم دو طرح استعمال ہوتا ہے ۔ ایک اصطلاحی معنی میں اور اس صورت میں ہمیشہ مخبر عنہ بنتا ہے ۔ جیسے رجل وفرس دوم وضع اول کے لحاظ سے اس اعتبار سے ( کلمہ کی ) انواع ثلاثہ یعنی مخبر عنہ ( اسم ) خبر اور رابطہ ( حرف ) تینوں پر اس معنی مراد ہیں ۔ کیونکہ آدم (علیہ السلام) نے جس طرح اسماء کی تعلیم حاصل کی تھی ۔ اسی طرح افعال وحروف کا علم بھی نہیں حاصل ہوگیا تھا اور یہ ظاہر ہے کہ جب تک کسی چیز کی ذات کا علم حاصل نہ ہو محض نام کے جاننے سے انسان اسے دیکھ کر پہچان نہیں سکتا ہے مثلا اگر ہم ہندی یا رومی زبان میں چند چیزوں کے نام حفظ کرلیں تو ان چیزوں کے اسماء کے جاننے سے ہم ان کے مسمیات کو نہیں پہچان سکیں گے ۔ بلکہ ہمار علم انہیں چند اصوات تک محدود رہے گا اس سے ثابت ہوا کہ اسماء کی معرفت مسمیات کی معرفت کو مستلزم نہیں ہے اور نہ ہی محض اسم سے مسمی ٰ کی صورت ذہن میں حاصل ہوسکتی ہے ۔ لہذا آیت : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31] میں اسماء سے کلام کی انواع ثلاثہ اور صورۃ مسمیات بمع ان کی ذوات کے مراد ہیں اور آیت ما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها [يوسف 40] جن چیزوں کی تم خدا کے سوا پرستش کرتے ہو وہ صرف نام ہی نام ہیں جو تم نے رکھ لئے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں ک جن اسماء کی تم پرستش کرتے ہو ان کے مسمیات نہیں ہیں ۔ کیونکہ و اصنام ان اوصاف سے عاری تھے ۔ جن کا کہ وہ ان اسماء کے اعتبار سے ان کے متعلق اعتقاد رکھتے تھے ۔ اور آیت : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ [ الرعد 33] اور ان لوگوں نے خدا کے شریک مقرر کر رکھے ہیں ۔ ان سے کہو کہ ( ذرا ) انکے نام تولو ۔ میں سموھم سے یہ مراد نہیں ہے کہ لات ، عزی وغیرہ ان کے نام بیان کرو بلکہ آیت کے معنی پر ہیں کہ جن کو تم الاۃ ( معبود ) کہتے ہو ان کے متعلق تحقیق کرکے یہ تو بتاؤ کہ آیا ان میں ان اسماء کے معانی بھی پائے جاتے ہیں ۔ جن کے ساتھ تم انہیں موسوم کرتے ہو ( یعنی نہیں ) اسی لئے اس کے بعد فرمایا أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِما لا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ [ الرعد 33] ( کہ ) کیا تم اسے ایسی چیزیں بتاتے ہو جس کو وہ زمین میں ( کہیں بھی ) معلوم نہیں کرتا یا ( محض ) ظاہری ( باطل اور جھوٹی ) بات کی ( تقلید کرتے ہو ۔ ) اور آیت : تَبارَكَ اسْمُ رَبِّكَ [ الرحمن 78] تمہارے پروردگار ۔۔ کا نام برا بابر کت ہے ۔ میں اسم رب کے بابرکت ہونے کے معنی یہ ہیں ک اس کی صفات ۔ الکریم ۔ العلیم ۔ الباری ۔ الرحمن الرحیم کے ذکر میں برکت اور نعمت پائی جاتی ہے جیسا ک دوسری جگہ فرمایا : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى [ الأعلی 1] ( اے پیغمبر ) اپنے پروردگار جلیل الشان کے نام کی تسبیح کرو ۔ وَلِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الأعراف 180] اور خدا کے نام سب اچھے ہی اچھے ہیں ۔ اور آیت : اسْمُهُ يَحْيى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا[ مریم 7] اسمہ یحیٰ لم نجعل لہ من قبل سمیا َ (719) جس کا نام یحیٰ ہے ۔ اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی شخص پیدا نہیں کیا ۔ میں سمیا کے معنی ہم نام ، ، کے ہیں اور آیت :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم 65] بھلا تم اس کا کوئی ہم نام جانتے ہو ۔ میں سمیا کے معنی نظیر کے ہیں یعنی کیا اس کی کوئی نظیر ہے جو اس نام کی مستحق ہوا اور حقیقتا اللہ کی صفات کے ساتھ متصف ہو اور اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ کیا تم کسی بھی پاتے ہو جو اس کے نام سے موسوم ہوکیون کہ ایسے تو اللہ تعالیٰ کے بہت سے اسماء ہیں جن کا غیر اللہ پر بھی اطلاق ہوسکتا ہے یا ہوتا ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ ان سے معافی بھی وہی مراد ہوں جو اللہ تعالیٰ پر اطلاق کے وقت ہوتے ہیں ۔ اور آیت : لَيُسَمُّونَ الْمَلائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثى[ النجم 27] اور وہ فرشتوں کو ( خدا کی ) لڑکیوں کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔ میں لڑکیوں کے نام سے موسوم کرنے کے معنی یہ ہیں ۔ کہ وہ فرشتوں کو بنات اللہ کہتے ہیں ۔- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - شهد - وشَهِدْتُ يقال علی ضربین :- أحدهما - جار مجری العلم، وبلفظه تقام الشّهادة، ويقال : أَشْهَدُ بکذا، ولا يرضی من الشّاهد أن يقول : أعلم، بل يحتاج أن يقول :- أشهد . والثاني يجري مجری القسم،- فيقول : أشهد بالله أنّ زيدا منطلق، فيكون قسما، ومنهم من يقول : إن قال : أشهد، ولم يقل : بالله يكون قسما، - ( ش ھ د ) المشھود والشھادۃ - شھدت کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔- ( 1) علم کی جگہ آتا ہے اور اسی سے شہادت ادا ہوتی ہے مگر اشھد بکذا کی بجائے اگر اعلم کہا جائے تو شہادت قبول ہوگی بلکہ اشھد ہی کہنا ضروری ہے ۔ ( 2) قسم کی جگہ پر آتا ہے چناچہ اشھد باللہ ان زید ا منطلق میں اشھد بمعنی اقسم ہے - اقامت - والْإِقَامَةُ في المکان : الثبات . وإِقَامَةُ الشیء : توفية حقّه، وقال : قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 68] أي : توفّون حقوقهما بالعلم والعمل، وکذلک قوله : وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 66] ولم يأمر تعالیٰ بالصلاة حيثما أمر، ولا مدح بها حيثما مدح إلّا بلفظ الإقامة، تنبيها أنّ المقصود منها توفية شرائطها لا الإتيان بهيئاتها، نحو : أَقِيمُوا الصَّلاةَ [ البقرة 43] ، في غير موضع وَالْمُقِيمِينَ الصَّلاةَ [ النساء 162] . وقوله : وَإِذا قامُوا إِلَى الصَّلاةِ قامُوا كُسالی[ النساء 142] فإنّ هذا من القیام لا من الإقامة، وأمّا قوله : رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلاةِ [إبراهيم 40] أي : وفّقني لتوفية شرائطها، وقوله : فَإِنْ تابُوا وَأَقامُوا الصَّلاةَ [ التوبة 11] فقد قيل : عني به إقامتها بالإقرار بوجوبها لا بأدائها، والمُقَامُ يقال للمصدر، والمکان، والزّمان، والمفعول، لکن الوارد في القرآن هو المصدر نحو قوله : إِنَّها ساءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقاماً- [ الفرقان 66] ، والمُقَامةُ : لإقامة، قال : الَّذِي أَحَلَّنا دارَ الْمُقامَةِ مِنْ فَضْلِهِ [ فاطر 35] نحو : دارُ الْخُلْدِ [ فصلت 28] ، وجَنَّاتِ عَدْنٍ [ التوبة 72] وقوله : لا مقام لَكُمْ فَارْجِعُوا[ الأحزاب 13] ، من قام، أي : لا مستقرّ لكم، وقد قرئ : لا مقام لَكُمْ- «1» من : أَقَامَ. ويعبّر بالإقامة عن الدوام . نحو : عَذابٌ مُقِيمٌ- [هود 39] ، وقرئ : إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ «2» [ الدخان 51] ، أي : في مکان تدوم إقامتهم فيه، وتَقْوِيمُ الشیء : تثقیفه، قال : لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ [ التین 4]- الاقامتہ - ( افعال ) فی المکان کے معنی کسی جگہ پر ٹھہرنے اور قیام کرنے کے ہیں اوراقامتہ الشیی ( کسی چیز کی اقامت ) کے معنی اس کا پورا پورا حق ادا کرنے کے ہوتے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 68] کہو کہ اے اہل کتاب جب تک تم توراۃ اور انجیل ۔۔۔۔۔ کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہوسکتے یعنی جب تک کہ علم وعمل سے ان کے پورے حقوق ادا نہ کرو ۔ اسی طرح فرمایا : ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 66] اور اگر وہ توراۃ اور انجیل کو ۔۔۔۔۔ قائم کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں جہاں کہیں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے یا نماز یوں کی تعریف کی گئی ہے ۔ وہاں اقامتہ کا صیغۃ استعمال کیا گیا ہے ۔ جس میں اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کہ نماز سے مقصود محض اس کی ظاہری ہیبت کا ادا کرنا ہی نہیں ہے بلکہ اسے جملہ شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے اسی بنا پر کئی ایک مقام پر اقیموالصلوۃ اور المتقین الصلوۃ کہا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا قامُوا إِلَى الصَّلاةِ قامُوا كُسالی[ النساء 142] اوت جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو سست اور کاہل ہوکر ۔ میں قاموا اقامتہ سے نہیں بلکہ قیام سے مشتق ہے ( جس کے معنی عزم اور ارادہ کے ہیں ) اور آیت : ۔ رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلاةِ [إبراهيم 40] اے پروردگار مجھ کو ( ایسی توفیق عنایت ) کر کہ نماز پڑھتا رہوں ۔ میں دعا ہے کہ الہٰی مجھے نماز کو پورے حقوق کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق عطا فرما اور آیت کریمہ : ۔ فَإِنْ تابُوا وَأَقامُوا الصَّلاةَ [ التوبة 11] پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز پڑھنے ۔۔۔۔۔۔۔ لگیں ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں اقامۃ سے نماز کا ادا کرنا مراد نہیں ہے بلکہ اس کے معنی اس کی فرضیت کا اقرار کرنے کے ہیں ۔ المقام : یہ مصدر میمی ، ظرف ، مکان ظرف زمان اور اسم مفعول کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔ لیکن قرآن پاک میں صرف مصدر میمی کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّها ساءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقاماً [ الفرقان 66] اور دوزخ ٹھہرنے اور رہنے کی بہت بری جگہ ہے ۔ اور مقامتہ ( بضم الیم ) معنی اقامتہ ہے جیسے فرمایا : الَّذِي أَحَلَّنا دارَ الْمُقامَةِ مِنْ فَضْلِهِ [ فاطر 35] جس نے ہم کو اپنے فضل سے ہمیشہ کے رہنے کے گھر میں اتارا یہاں جنت کو دارالمقامتہ کہا ہے جس طرح کہ اسے دارالخلد اور جنات عمدن کہا ہے ۔ اور آیت کریمہ : لا مقام لَكُمْ فَارْجِعُوا[ الأحزاب 13] یہاں تمہارے لئے ( ٹھہرنے کا ) مقام نہیں ہے تو لوٹ چلو ۔ میں مقام کا لفظ قیام سے ہے یعنی تمہارا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے اور ایک قرات میں مقام ( بضم المیم ) اقام سے ہے اور کبھی اقامتہ سے معنی دوام مراد لیا جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ عَذابٌ مُقِيمٌ [هود 39] ہمیشہ کا عذاب ۔ اور ایک قرات میں آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ «2» [ الدخان 51] بیشک پرہیزگار لوگ امن کے مقام میں ہوں گے ۔ مقام بضمہ میم ہے ۔ یعنی ایسی جگہ جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ تقویم الشی کے معنی کسی چیز کو سیدھا کرنے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ [ التین 4] کہ ہم نے انسان کو بہت اچھی صورت میں پیدا کیا ۔ اس میں انسان کے عقل وفہم قدوقامت کی راستی اور دیگر صفات کی طرف اشارہ ہے جن کے ذریعہ انسان دوسرے حیوانات سے ممتاز ہوتا ہے اور وہ اس کے تمام عالم پر مستولی اور غالب ہونے کی دلیل بنتی ہیں ۔- صلا - أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] - والصَّلاةُ ،- قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] - وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق :- تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة 157] ، - ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار،- كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة،- أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103]- ( ص ل ی ) الصلیٰ- ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ - الصلوۃ - بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، - جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔- اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں - چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔- زكا - أصل الزَّكَاةِ : النّموّ الحاصل عن بركة اللہ تعالی، ويعتبر ذلک بالأمور الدّنيويّة والأخرويّة .- يقال : زَكَا الزّرع يَزْكُو : إذا حصل منه نموّ وبرکة . وقوله : أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف 19] ،- إشارة إلى ما يكون حلالا لا يستوخم عقباه، ومنه الزَّكاةُ : لما يخرج الإنسان من حقّ اللہ تعالیٰ إلى الفقراء، وتسمیته بذلک لما يكون فيها من رجاء البرکة، أو لتزکية النّفس، أي : تنمیتها بالخیرات والبرکات، أو لهما جمیعا، فإنّ الخیرین موجودان فيها . وقرن اللہ تعالیٰ الزَّكَاةَ بالصّلاة في القرآن بقوله : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة 43] ، وبِزَكَاءِ النّفس وطهارتها يصير الإنسان بحیث يستحقّ في الدّنيا الأوصاف المحمودة، وفي الآخرة الأجر والمثوبة . وهو أن يتحرّى الإنسان ما فيه تطهيره، وذلک ينسب تارة إلى العبد لکونه مکتسبا لذلک، نحو : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها[ الشمس 9] ، وتارة ينسب إلى اللہ تعالی، لکونه فاعلا لذلک في الحقیقة نحو : بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ [ النساء 49] ، وتارة إلى النّبيّ لکونه واسطة في وصول ذلک إليهم، نحو : تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها[ التوبة 103] ، يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ [ البقرة 151] ، وتارة إلى العبادة التي هي آلة في ذلك، نحو : وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً [ مریم 13] ، لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم 19] ، أي :- مُزَكًّى بالخلقة، وذلک علی طریق ما ذکرنا من الاجتباء، وهو أن يجعل بعض عباده عالما وطاهر الخلق لا بالتّعلّم والممارسة بل بتوفیق إلهيّ ، كما يكون لجلّ الأنبیاء والرّسل . ويجوز أن يكون تسمیته بالمزکّى لما يكون عليه في الاستقبال لا في الحال، والمعنی: سَيَتَزَكَّى، وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ [ المؤمنون 4] ، أي : يفعلون ما يفعلون من العبادة ليزكّيهم الله، أو لِيُزَكُّوا أنفسهم، والمعنیان واحد . ولیس قوله :- «للزّكاة» مفعولا لقوله : «فاعلون» ، بل اللام فيه للعلة والقصد .- وتَزْكِيَةُ الإنسان نفسه ضربان :- أحدهما : بالفعل، وهو محمود وإليه قصد بقوله : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس 9] ، وقوله : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى[ الأعلی 14] .- والثاني : بالقول، كتزكية العدل غيره، وذلک مذموم أن يفعل الإنسان بنفسه، وقد نهى اللہ تعالیٰ عنه فقال : فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ [ النجم 32] ، ونهيه عن ذلک تأديب لقبح مدح الإنسان نفسه عقلا وشرعا، ولهذا قيل لحكيم : ما الذي لا يحسن وإن کان حقّا ؟ فقال : مدح الرّجل نفسه .- ( زک و ) الزکاۃ - : اس کے اصل معنی اس نمو ( افزونی ) کے ہیں جو برکت الہیہ سے حاصل ہو اس کا تعلق دنیاوی چیزوں سے بھی ہے اور اخروی امور کے ساتھ بھی چناچہ کہا جاتا ہے زکا الزرع یزکو کھیتی کا بڑھنا اور پھلنا پھولنا اور آیت : ۔ أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف 19] کس کا کھانا زیادہ صاف ستھرا ہے ۔ میں ازکیٰ سے ایسا کھانا مراد ہے جو حلال اور خوش انجام ہو اور اسی سے زکوۃ کا لفظ مشتق ہے یعنی وہ حصہ جو مال سے حق الہیٰ کے طور پر نکال کر فقراء کو دیا جاتا ہے اور اسے زکوۃ یا تو اسلئے کہا جاتا ہے کہ اس میں برکت کی امید ہوتی ہے اور یا اس لئے کہ اس سے نفس پاکیزہ ہوتا ہے یعنی خیرات و برکات کے ذریعہ اس میں نمو ہوتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے تسمیہ میں ان ہر دو کا لحاظ کیا گیا ہو ۔ کیونکہ یہ دونوں خوبیاں زکوۃ میں موجود ہیں قرآن میں اللہ تعالیٰ نے نما ز کے ساتھ ساتھ زکوۃٰ کا بھی حکم دیا ہے چناچہ فرمایا : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة 43] نماز قائم کرو اور زکوۃ ٰ ادا کرتے رہو ۔ اور تزکیہ نفس سے ہی انسان دنیا میں اوصاف حمیدہ کا مستحق ہوتا ہے اور آخرت میں اجر وثواب بھی اسی کی بدولت حاصل ہوگا اور تزکیہ نفس کا طریق یہ ہے کہ انسان ان باتوں کی کوشش میں لگ جائے جن سے طہارت نفس حاصل ہوتی ہے اور فعل تزکیہ کی نسبت تو انسان کی طرف کی جاتی ہے کیونکہ وہ اس کا اکتساب کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس 9] کہ جس نے اپنی روح کو پاک کیا ( وہ ضرور اپنی ) مراد کو پہنچا ۔ اور کبھی یہ اللہ تعالےٰ کی طرف منسوب ہوتا ہے کیونکہ فی الحقیقت وہی اس کا فاعل ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ [ النساء 49] بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے پاک کردیتا ہے ۔ اور کبھی اس کی نسبت نبی کی طرف ہوتی ہے کیونکہ وہ لوگوں کو ان باتوں کی تعلیم دیتا ہے جن سے تزکیہ حاصل ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها[ التوبة 103] کہ اس سے تم ان کو ( ظاہر میں بھی ) پاک اور ( باطن میں بھی ) پاکیزہ کرتے ہو ۔ يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ [ البقرة 151] وہ پیغمبر انہیں ہماری آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں بذریعہ تعلیم ( اخلاق رذیلہ ) سے پاک کرتا ہے : ۔ اور کبھی اس کی نسبت عبادت کی طرف ہوتی ہے کیونکہ عبادت تزکیہ کے حاصل کرنے میں بمنزلہ آلہ کے ہے چناچہ یحیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً [ مریم 13] اور اپنی جناب سے رحمدلی اور پاگیزگی دی تھی ۔ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا [ مریم 19] تاکہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا بخشوں یعنی وہ فطرتا پاکیزہ ہوگا اور فطرتی پاکیزگی جیسا کہ بیان کرچکے ہیں ۔ بطریق اجتباء حاصل ہوتی ہے کہ حق تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو عالم اور پاکیزہ اخلاق بنا دیتا ہے اور یہ پاکیزگی تعلیم وممارست سے نہیں بلکہ محض توفیق الہی سے حاصل ہوتی ہے جیسا کہ اکثر انبیاء اور رسل کے ساتھ ہوا ہے ۔ اور آیت کے یہ معنی ہوسکتے ہیں کہ وہ لڑکا آئندہ چل کر پاکیزہ اخلاق ہوگا لہذا زکیا کا تعلق زمانہ حال کے ساتھ نہیں بلکہ استقبال کے ساتھ ہے قرآن میں ہے : ۔ - وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ [ المؤمنون 4] اور وہ جو زکوۃ دیا کرتے ہیں ۔ یعنی وہ عبادت اس غرض سے کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں پاک کر دے یا وہ اپنے نفوس کو پاک کرنے کی غرض سے عبادت کرتے ہیں والما ل واحد ۔ لہذا للزکوۃ میں لام تعلیل کے لیے ہے جسے لام علت و قصد کہتے ہیں اور لام تعدیہ نہیں ہے حتیٰ کہ یہ فاعلون کا مفعول ہو ۔ انسان کے تزکیہ نفس کی دو صورتیں ہیں ایک تزکیہ بالفعل یعنی اچھے اعمال کے ذریعہ اپنے نفس کی اصلاح کرنا یہ طریق محمود ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس 9] اور آیت : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى [ الأعلی 14] میں تزکیہ سے یہی مراد ہیں ۔ دوسرے تزکیہ بالقول ہے جیسا کہ ایک ثقہ شخص دوسرے کے اچھے ہونیکی شہادت دیتا ہے ۔ اگر انسان خود اپنے اچھا ہونے کا دعوے ٰ کرے اور خود ستائی سے کام لے تو یہ مذموم ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے تزکیہ سے منع فرمایا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے ۔ فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ [ النجم 32] اپنے آپ کو پاک نہ ٹھہراؤ ۔ اور یہ نہی تادیبی ہے کیونکہ انسان کا اپنے منہ آپ میاں مٹھو بننا نہ تو عقلا ہی درست ہے اور نہ ہی شرعا ۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک دانش مند سے پوچھا گیا کہ وہ کونسی بات ہے جو باوجود حق ہونے کے زیب نہیں دیتی تو اس نے جواب دیا مدح الانسان نفسہ کہ خود ستائی کرنا ۔- عصم - العَصْمُ : الإمساکُ ، والاعْتِصَامُ : الاستمساک . قال تعالی: لا عاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ [هود 43] ، أي : لا شيء يَعْصِمُ منه،- ( ع ص م ) العصم - کے معنی روکنے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ لا عاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ [هود 43] آج خدا کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں ۔ بعض نے لاعاصم کے معنی کا معصوم بھی کئے ہیں یعنی آج اللہ کے حکم سے کوئی بیچ نہیں سکے گا - نعم ( مدح)- و «نِعْمَ» كلمةٌ تُسْتَعْمَلُ في المَدْحِ بإِزَاءِ بِئْسَ في الذَّمّ ، قال تعالی: نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ [ ص 44] ، فَنِعْمَ أَجْرُ الْعامِلِينَ [ الزمر 74] ، نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال 40]- ( ن ع م ) النعمۃ - نعم کلمہ مدح ہے جو بئس فعل ذم کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ [ ص 44] بہت خوب بندے تھے اور ( خدا کی طرف ) رجوع کرنے والے تھے ۔ فَنِعْمَ أَجْرُ الْعامِلِينَ [ الزمر 74] اور اچھے کام کرنے والوں کا بدلہ بہت اچھا ہے ۔ نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال 40] وہ خوب حمایتی اور خوب مدد گار ہے - نصر - النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ- [ الصف 13] - ( ن ص ر ) النصر والنصر - کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی
جہاد فی سبیل اللہ - قول باری ہے (وجاھدوا فی اللہ حق جھادہ ھوا جتبکم وما جعل علیکم فی الدین من حرج ملۃ ابیکم ابراہیم اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے اس نے تمہیں اپنے کام کے لئے چن لیا ہے اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔ قائم ہو جائو اپنے باپ ابراہیم کی ملت پر) ایک قول کے مطابق آیت کا مفہوم یہ ہے کہ ” اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جاد کرنے کا حق ہے اور اپنے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت کی پیروی کرو۔ “ اسی بنا پر (ملۃ ابیکم) منصوب ہے بعض مفسرین کا قول ہے کہ اس کے منصوب ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہاں کملۃ ابیکم مراد ہے۔ تاہم جب حرف جار محذوف ہوگیا تو اسم فعل کے ساتھ متصل ہوگیا اور اس وجہ سے یہ منصوب ہوگیا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت میں یہ دلیل موجود ہے کہ ہم پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی شریعت کی پیروی لازم ہے البتہ جن احکامات کا نسخ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے ثابت ہوچکا ان کا اتباع لازم نہیں ہے۔ ایک قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے (ملۃ ابیکم ابراہیم) اس لئے فرمایا کہ یہ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ملت میں داخل ہے ۔ اگر چہ مفہوم یہ ہے کہ یہ ملت تمہارے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت کی طرح ہے تو اس سے پھر مراد یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا جیسا کرنے کا حق ہے تمہارے باپ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت کی طرح ہے۔ اس لئے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی اللہ کی راہ میں اس طرح جہاد کیا تھا جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے۔ حضرت ابن عباس نے قول باری (وجاھدوا فی اللہ حق جھادہ) کی تفسیر میں فرمایا :” مشرکین کے خلاف جہاد کرو۔ “ حضرت ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ ” اللہ کی راہ میں کسی ملامت گر کی ملامت سے نہ گھبرائو یہی اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ہے جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے۔ “ قول باری (وما جعل علیکم فی الدین من حرج) کی تفسیر میں حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ حرج سے مراد تنگی ہے۔ مجاہد کا بھی یہی قول ہے۔ اس آیت سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ حوادث یعنی نئے مسائل میں اگر اختلاف رائے ہو تو جس قول کے نتیجے میں تنگی پیدا ہوگی وہ قابل تسلیم نہیں ہوگا اور جس قول کے نتیجے میں حکم کے اندر وسعت اور گنجائش کا پہلو ہوگا وہ اولیٰ ہوگا۔- ایک قول ہے کہ (وما جعل علیکم فی الدین من حرج) کا مفہوم یہ ہے کہ دین میں کوئی ایسی تنگی نہیں ہے جس سے نکلنے کی کوئی راہ نہ ہو وہ اس طرح کہ تنگی کی بعض صورتیں ایسی ہیں جن سے توبہ کے ذریعے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے اور بعض ایسی ہیں کہ ظلماً لی ہوئی چیز کو واپس کر کے ان سے خلاصی مل سکتی ہے۔ اس لئے دین اسلام میں ایسی کوئی تنگی نہیں ہے کہ گناہ کی سزا سے چھٹکارے کی کوئی سیل نہ ہو۔ قول باری (ملۃ ابیکم ابراہیم) میں تمام مسلمانوں کو خطاب ہے۔ اگرچہ تمام مسلمانوں کا نسب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے جا کر نہیں ملتا اس سلسلے میں حسن بصری سے مروی ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ تمام مسلمانوں پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی حرمت اسی طرح لازم ہے جس طرح بیٹے پر باپ کی حرمت لازم ہے۔ جیسا کہ قول باری ہے (وازواجد امھاتکم اور نبی ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) کی ازواج تمہاری مائیں ہیں) بعض قرأت میں یہ ال فاظ بھی ہیں ” وھو اب لھم (اور وہ یعنی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ان کے یعنی مسلمانوں کے باپ ہیں۔ )- تمہارا نام مسلم رکھا گیا - قول باری ہے (ھو سما کم المسلمین من قبل و فی ھذا اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام مسلم رکھا تھا اور اس (قرآن) میں بھی (تمہارا یہی نام ہے) حضرت ابن عباس اور مجاہد کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارا نام مسلم رکھا ہے۔ ایک قول کے مطابق حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے تمہارا نام مسلم رکھا ہے کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ اسللام کی طرف سے حکایت کرتے ہوئے ارشاد باری ہے (ومن ذریتنا امۃ مسلمۃ لک اور ہماری اولاد میں سے ایک امت پیدا کر جو تیری اطاعت گزار ہو) قول باری (من قبل وفی ھذا) کی تفسیر میں مجاہد کا قول ہے۔ قرآن سے پہلے اور قرآن کے اندر “ قول باری (ھو جتبکم) اس پر دلالت کرتا ہے کہ آیت کے مخاطب اول یعنی صحابہ کرام سب کے سب عادل اور پسندیدہ تھے۔ اس سے ان لوگوں کے قول کا بطلان ہوجاتا ہے جو صحابہ کرام پر زبان طعن و تشنیع دراز کرتے ہیں اس لئے کہ اللہ تعالیٰ صرف ان لوگوں کو چن لیتا ہے جو اس کے مطیع اور فرمانبردار ہوتے ہیں اور اس کی خوشنودی کے حصول میں کوشاں ہوتے ہیں۔ اس میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مدح ہے جو اس آیت کے اولین مخاطب ہیں۔ یہ آیت ان کی پاکبازی کی دلیل ہے۔- قول باری ہے (لیکون الرسول شھیداً علیکم وتکونو اشھدآء علی الناس تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ) اس میں صحابہ کرام کے اجماع کی صحت پر دلالت موجود ہے اس لئے کہ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم پر گواہ بن کر ان لوگوں کی طاعت کی گواہی دیں جنہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تبلیغ پر اللہ کی اطاعت کی اور نافرمانوں کی نافرمانی کی بھی گواہی دیں اور تم لوگوں پر گواہ بن کر ان کے اعمال کی گواہی دو جو انہوں نے تمہاری طرف سے اللہ کی کتاب اور اس کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کی تبلیغ پر اختیار کیا۔ یہ آیت اس قول باری کی نظیر ہے (و کذلک جعلنا کم امۃ وسطالتکونوا شھدآء علی الناس ویکون الرسول علیکم شھیداً اور اسی طرح ہم نے تمہیں ایک ” امت وسط “ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو) اللہ تعالیٰ نے اس آیت کی ابتداء صحابہ کرام کی مدح سے کی اور انہیں عدالت کی صفت سے متصف فرمایا پھر یہ بتایا کہ وہ بعد میں آنے والے لوگوں پر گواہ اور حجت ہوں گے جس طرح آیت زیر بحث میں فرمایا (ھو اجتبکم) تا قول باری (وتکونوا شھدآء علی الناس)- قول باری ہے (وافعلوا الخیر اور نیک کام کرو) اس آیت سے بعض دفعہ ایسی قربت اور عبادت کے ایجاب پر استدلال کیا جاتا ہے جس کے وجوب میں اختلاف رائے ہے۔ ہمارے نزدیک آیت سے کسی چیز کے ایجاب پر نہ تو استدلال درست ہے اور نہ ہی اس میں عموم کا اعتقاد صحیح ہے۔
(٧٨) بلکہ اللہ کے کام میں خوب کوشش کیا کرو جیسا کہ کوشش کرنے کا حق ہے اسی نے تمہیں اپنے دین کے لیے منتخب فرمایا اور تم پر دین میں کسی قسم کی کوئی تنگی نہیں کی مثلا فرمایا کہ جو کھڑے ہونے کی طاقت نہ رکھے وہ بیٹھ کر نماز پڑھ لے اور جس میں بیٹھ کر بھی نماز پڑھنے کی طاقت نہ ہو وہ سیدھے لیٹ کر اشارہ سے پڑھ لے تم اپنے باپ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت کا اتباع کرو اس اللہ نے قرآن کریم کے نزول سے پہلے کتب انبیاء کرام (علیہ السلام) میں تمہارا لقب مسلمان رکھا اور اس قرآن میں بھی تاکہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہاری گواہی دینے اور تصدیق کرنے والے ہوں اور تم انبیاء کرام (علیہ السلام) کے لیے ان کی قوموں کے مقابلہ میں گواہ ہو، لہذا پانچوں نمازوں کو وضو، رکوع، و سجود کی تکمیل اور اوقات کی پوری رعایت کے ساتھ ادا کرتے رہو اور اپنے مالوں کی زکوٰۃ دیتے رہو اور دین الہی اور کتاب الہی کو مضبوطی سے پکڑے رہو، وہ تمہارا محافظ وکار ساز ہے، سو کیسا اچھا محافظ اور کیسا اچھا مددگار ہے۔
(ہُوَ اجْتَبٰٹکُمْ ) ” - اب نبوت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ختم ہوچکی ہے۔ آئندہ جبرائیل ( علیہ السلام) کسی کے پاس وحی لے کر نہیں آئیں گے۔ انہوں نے جو وحی پہچانی تھی پہنچا دی ہے اور اللہ تعالیٰ کے تمام احکام محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تم لوگوں تک پہنچا دیے ہیں۔ اب ان احکام کو ‘ اس دعوت کو تمام نوع انسانی تک پہنچانے کے لیے اللہ نے تمہارا انتخاب کیا ہے۔ تمام انسانوں میں سے تمہیں چن لیا گیا ہے ‘ اس عظیم الشان مشن کے لیے تمہارا سلیکشن ہوگیا ہے۔ چناچہ تم اپنے نصیب پر فخر کرو اور اس کام میں لگ جاؤ۔ - (ہُوَ سَمّٰٹکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ لا) ” - اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کو ” مسلم “ کا خطاب دیا ہے اور تمہارے جد امجد ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی تمہارا یہی نام رکھا تھا۔ سورة البقرۃ ‘ آیت ١٢٨ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کے یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں : (رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِنَآ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَص) ” پروردگار ہمیں بھی اپنا فرمانبردار (مسلم) بنا کر رکھیو اور ہماری اولاد سے بھی ایک امت مسلمہ اٹھائیو “- (لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَہِیْدًا عَلَیْکُمْ وَتَکُوْنُوْا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ ج) ” - یہ وہی مضمون ہے جو سورة البقرۃ کی آیت ١٤٣ میں آیا ہے : (وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا ط) ” اور (اے مسلمانو ) اسی طرح ہم نے تمہیں ایک امت وسط بنایا ہے ‘ تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم پر گواہ ہو “۔ صرف یہ فرق ہے کہ وہاں پہلے امت کا ذکر ہے اور پھر رسول کا ‘ جبکہ یہاں پہلے رسول اور بعد میں امت کا ذکر ہے۔ پس اے اہل ایمان اس ذمہ داری کو اچھی طرح سے سمجھ لو اور اب بسم اللہ کرو قدم آگے بڑھاؤ اور دیکھو تمہارا سب سے پہلا قدم کون سا اٹھنا چاہیے : - (فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَاعْتَصِمُوْا باللّٰہِ ط) ” - اللہ تمہارا حمایتی اور پشت پناہ ہے ‘ تم اس کے دامن سے وابستہ ہوجاؤ۔- (ہُوَ مَوْلٰٹکُمْج فَنِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِیْرُ ) ” - ” مولیٰ “ کے مفہوم میں آقا ‘ حمایتی ‘ پشت پناہ ‘ ملجا و ماویٰ اور مرجع کے معانی شامل ہیں۔- اس رکوع کے مضامین بہت اہم ہیں ‘ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ اس کے اہم نکات ایک دفعہ پھر ذہن میں تازہ کرلیے جائیں۔ اس رکوع میں پہلا سبق توحید سے متعلق ہے اور اس کالب لباب یہ ہے کہ ایک انسان کا مطلوب حقیقی ‘ محبوب حقیقی اور مقصود اصلی صرف اور صرف اللہ ہی ہو۔ اس کے بعد دوسرا نکتہ رسالت سے متعلق ہے۔ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت تک رسالت کا سلسلہ صرف دو واسطوں پر مشتمل تھا ‘ یعنی رسول ملک اور رسول بشر۔ لیکن اب دورمحمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں ایک تیسرے واسطے کا اضافہ کیا گیا اور امت مسلمہ کو بھی ایک مستقل کڑی کے طور پر رسالت کے سلسلۃ الذہب ( سنہری زنجیر) میں منسلک کردیا گیا ہے۔ اس ذمہ داری کے لیے امت مسلمہ کے انتخاب کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس رکوع (آیت ٧٨) میں (ہُوَ اجْتَبٰٹکُمْ ) کے الفاظ سے کیا ہے ‘ جبکہ قبل ازیں آیت ٧٥ میں رسول ملک اور رسول بشر کے لیے ” اِصطِفاء “ کا لفظ استعمال ہوا ہے : (اَللّٰہُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلآءِکَۃِ رُسُلًا وَّمِنَ النَّاسِ ط) ۔ اِصْطِفاء اور اِجْتِباء دونوں الفاظ معنی کے اعتبار سے آپس میں ملتے جلتے ہیں اور خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے (محمد مصطفیٰ اور احمد مجتبیٰ ) بھی مستعمل ہیں۔ - اس رکوع کا تیسرا مضمون ” شہادت علی الناس “ کے بارے میں ہے۔ اس ضمن میں سورة الحج کی آیت ٧٨ کے الفاظ کی سورة البقرۃ کی آیت ١٤٣ کے الفاظ سے بہت قریبی مشابہت ہے ‘ بلکہ دونوں مقامات پر الفاظ ایک جیسے ہیں ‘ صرف ترتیب کا فرق ہے۔ سورة البقرۃ کی آیت ١٤٣ کے الفاظ یہ ہیں : (لِتَکُوْنُوْا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا ط) جبکہ سورة الحج کی آیت ٧٨ میں الفاظ کی ترتیب یوں ہے : (لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَہِیْدًا عَلَیْکُمْ وَتَکُوْنُوْا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِج ) (مضمون اور الفاظ کے اعتبار سے جو نسبت ان دو آیات کی آپس میں ہے بالکل وہی نسبت سورة النساء کی آیت ١٣٥ کے ان الفاظ : (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بالْقِسْطِ شُہَدَآءَ لِلّٰہِ ) کی سورة المائدۃ کی آیت ٨ کے ان الفاظ : (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُہَدَآء بالْقِسْطِز) کے ساتھ ہے۔ )- چنانچہ اس اعتبار سے امت مسلمہ پر شہادت علی الناس اور پیغام رسالت کی دعوت و تبلیغ کی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ‘ جس کے بارے میں قیامت کے دن بہت سخت جواب دہی ہوگی۔ اس جواب دہی کے بارے میں سورة الاعراف کی یہ آیت بہت واضح ہے : (فَلَنَسْءَلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْہِمْ وَلَنَسْءَلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَ ) ۔ چناچہ وہاں امت مسلمہ سے بحیثیت مجموعی جواب طلبی ہوگی کہ تم لوگوں نے اپنی اس ذمہ داری کو کس حد تک نبھایا تھا ؟ یعنی جو دین تم لوگوں تک آخری نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعے پہنچا تھا کیا تم لوگوں نے اسے پوری نوع انسانی تک پہنچا دیا تھا ؟ اور اگر یہ ذمہ داری امت نے کماحقہ پوری نہیں کی ہوگی تو پوری امت بحیثیت مجموعی مجرم قرار پائے گی۔ اور چونکہ آج امت مسلمہ مجموعی طور پر اپنی اس ذمہ داری کا حق ادا نہیں کر رہی ہے اس لیے اپنے اسی جرم کی پاداش میں اجتماعی طور پر ذلیل و خوار ہو رہی ہے۔ اور بقول علامہ اقبالؔ آج اس کی کیفیت یہ ہے کہ : ع - حمیت نام تھا جس کا ‘ گئی تیمور کے گھر سے - دنیا کی ذلت و خواری کی یہی سزا اس سے پہلے بنی اسرائیل کو ان کے اجتماعی جرائم کی پاداش میں مل چکی ہے ‘ جس کا ذکر سورة البقرۃ کی آیت ٦١ میں اس طرح آیا ہے : (وَضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُق وَبَآءُ وْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ ط) ۔ اس لیے کہ اجتماعی جرائم کی سزا قوموں کو دنیا میں ہی دے دی جاتی ہے۔ - اُمت مسلمہ اجتماعی طور پر تو اس سلسلے میں قصور وار ہے ہی ‘ مگر اخروی محاسبے کے دوران ہر شخص اپنی انفرادی حیثیت میں بھی جواب دہ ہوگا۔ چناچہ اس کے لیے ہم میں سے ہر شخص کو فکر مندہونا چاہیے کہ وہ اپنے اوپر عائد ہونے والے اس فرض کو کس حد تک نبھا رہا ہے اور قیامت کے دن اس نے اس سلسلے میں کیا جواب دینا ہے۔ کیا وہ اپنی دنیا کی زندگی میں صرف دولت کمانے اور جائیدادیں بنانے کے ایک کبھی نہ ختم ہونے والے چکر میں پڑا رہا یا اس نے دعوت قرآن اور تبلیغ دین کے فریضہ کو ادا کرنے کی بھی کوشش کی اور اپنی دولت ‘ صلاحیتوں اور جان کی قربانیوں کے ذریعے استطاعت بھر اس کام میں بھی اپنا حصہ ڈالا ؟
سوْرَةُ الْحَجّ حاشیہ نمبر :128 جہاد سے مراد محض قتال ( جنگ ) نہیں ہے ، بلکہ یہ لفظ جد و جہد اور کشمکش اور انتہائی سعی و کوشش کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر جہاد اور مجاہد میں یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ مزاحمت کرنے والی کچھ طاقتیں ہیں جن کے مقابلے میں یہ جد و جہد مطلوب ہے ۔ اور اس کے ساتھ فی اللہ کی قید یہ متعین کر دیتی ہے کہ مزاحمت کرنے والی طاقتیں وہ ہیں جو اللہ کی بندگی اور اس کی رضا جوئی میں ، اور اس کی راہ پر چلنے میں مانع ہیں ، اور جد و جہد کا مقصود یہ ہے کہ ان کی مزاحمت کو شکست دے کر آدمی خود بھی اللہ کی ٹھیک ٹھیک بندگی کرے اور دنیا میں بھی اس کا کلمہ بلند اور کفر و الحاد کے کلمے پست کر دینے کے لیے جان لڑا دے ۔ اس مجاہدے کا اولین ہدف آدمی کا اپنا نفس امارہ ہے جو ہر وقت خدا سے بغاوت کرنے کے لیے زور لگاتا رہتا ہے اور آدمی کو ایمان و طاعت کی راہ سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے ۔ جب تک اس کو مسخر نہ کر لیا جائے ، باہر کسی مجاہدے کا امکان نہیں ہے ۔ اسی لیے ایک جنگ سے واپس آنے والے غازیوں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قد متم خیر مقدم من الجھاد الاصغر الی الجھاد الاکبر ۔ تم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف واپس آگئےہو ۔ عرض کیا گیا وہ بڑا جہاد کیا ہے فرمایا مجاھدۃ العبد ھواہ ۔ آدمی کی خود اپنی خواہش نفس کے خلاف جد و جہد ۔ اس کے بعد جہاد کا وسیع تر میدان پوری دنیا ہے جس میں کام کرنے والی تمام بغاوت کیش اور بغاوت آموز اور بغاوت انگیز طاقتوں کے خلاف دل اور دماغ اور جسم اور مال کی ساری قوتوں کے ساتھ سعی و جہد کرنا وہ حق جہاد ہے جسے ادا کرنے کا یہاں مطالبہ کیا جا رہا ہے ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :129 یعنی تمام نوع انسانی میں سے تم لوگ اس خدمت کے لیے منتخب کر لیے گئے ہو جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے ۔ اس مضمون کو قرآن مجید میں مختلف مقامات پر مختلف طریقوں سے بیان فرمایا گیا ہے ۔ مثلاً سورہ بقرہ میں فرمایا : جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطاً ( آیت 143 ) ۔ اور سورہ آل عمران میں فرمایا :کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ للِنَّاسِ ( آیت 110 ) ۔ یہاں اس امر پر بھی متنبہ کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت منجملہ ان آیات کے ہے جو صحابہ کرام کی فضیلت پر دلالت کرتی ہیں اور ان لوگوں کی غلطی ثابت کرتی ہیں جو صحابہ پر زبان طعن دراز کرتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ اس آیت کے براہ راست مخاطب صحابہ ہی ہیں ۔ دوسرے لوگوں کو اس کا خطاب بالتبع پہنچتا ہے ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :130 یعنی تمہاری زندگی کو ان تمام بے جا قیود سے آزاد کر دیا گیا ہے جو پچھلی امتوں کے فقیہوں اور فریسیوں اور پاپاؤں نے عائد کر دی تھیں ۔ نہ یہاں فکر و خیال پر وہ پابندیاں ہیں جو علمی ترقی میں مانع ہوں اور نہ عملی زندگی پر وہ پابندیاں ہیں جو تمدن اور معاشرے کی ترقی میں رکاوٹ بنیں ۔ ایک سادہ اور سہل عقیدہ و قانون تم کو دیا گیا ہے جس کو لے کر تم جتنا آگے چاہو بڑھ سکتے ہو ۔ یہاں جس مضمون کو ثبوتی و ایجابی انداز میں بیان کیا گیا ہے وہی ایک دوسری جگہ سلبی انداز میں ارشاد ہوا ہے کہ : یَأمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یْحِلَّ لَہُمْ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰئِثَ وَیَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ ، یہ رسول ان کو جانی پہچانی نیکیوں کا حکم دیتا ہے ، اور ان برائیوں سے روکتا ہے جن سے فطرت انسانی انکار کرتی ہے ، اور وہ چیزیں حلال کرتا ہے جو پاکیزہ ہیں اور وہ چیزیں حرام کرتا ہے جو گندی ہیں اور ان پر سے وہ بھاری بوجھ اتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ زنجیریں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے ( اعراف ۔ آیت 157 ) سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :131 اگرچہ اسلام کو ملت نوح ، موسیٰ ، ملت عیسیٰ بھی اسی طرح کہا جا سکتا ہے جس طرح ملت ابراہیم ۔ لیکن قرآن مجید میں اس کو بار بار ملت ابراہیم کہہ کر اس کے اتباع کی دعوت تین وجوہ سے دی گئی ہے ۔ ایک یہ کہ قرآن کے اولین مخاطب اہل عرب تھے اور وہ حضرت ابراہیم سے جس طرح مانوس تھے کسی اور سے نہ تھے ۔ ان کی تاریخ ، روایات اور معتقدات میں جس شخصیت کا رسوخ و اثر رچا ہوا تھا وہ حضرت ابراہیم ہی کی شخصیت تھی ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ہی وہ شخص تھے جن کی بزرگی پر یہودی ، عیسائی ، مسلمان ، مشرکین عرب ، اور شرق اوسط کے صابئ ، سب متفق تھے ۔ انبیاء میں کوئی دوسرا ایسا نہ تھا اور نہ ہے جس پر سب کا اتفاق ہو ۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ان سب ملتوں کی پیدائش سے پہلے گزرے ہیں ۔ یہودیت ، عیسائیت اور صائبیت کے متعلق تو معلوم ہی ہے کہ سب بعد کی پیداوار ہیں ۔ رہے مشرکین عرب ، تو وہ بھی یہ مانتے تھے کہ ان کے ہاں بت پرستی کا رواج عمر و بن لُحَیّ سے شروع ہوا جو بنی خزاعہ کا سردار تھا اور مَآب ( موآب ) کے علاقہ سے ہُبل نامی بت لے آیا تھا ۔ اس کا زمانہ زیادہ سے زیادہ پانچ چھ سو سال قبل مسیح کا ہے ۔ لہٰذا یہ ملت بھی حضرت ابراہیم کے صدیوں بعد پیدا ہوئی ۔ اس صورت حال میں قرآن جب کہتا ہے کہ ان ملتوں کے بجائے ملت ابراہیم علیہ السلام کو اختیار کرو ، تو وہ دراصل اس حقیقت پر متنبہ کرتا ہے کہ اگر حضرت ابراہیم برحق اور برسر ہدایت تھے ، اور ان ملتوں میں سے کسی کے پیرو نہ تھے ، تو لامحالہ پھر وہی ملت اصل ملت حق ہے نہ کہ یہ بعد کی ملتیں ، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اسی ملت کی طرف ہے ۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول ، البقرہ ، حواشی 134 ۔ 135 ۔ آل عمران ، حواشی 58 ۔ 79 ۔ جلد دوم ، النحل ، حاشیہ 120 ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :132 تمہارا کا خطاب مخصوص طور پر صرف انہی اہل یمان کی طرف نہیں ہے جو اس آیت کے نزول کے وقت موجود تھے ، یا اس کے بعد اہل ایمان کی صف میں داخل ہوئے ، بلکہ اس کے مخاطب تمام وہ لوگ ہیں جو آغاز تاریخ انسانی سے توحید ، آخرت ، رسالت اور کتب الہٰی کے ماننے والے رہے ہیں ۔ مدعا یہ ہے کہ اس ملت حق کے ماننے والے پہلے بھی نوحی ، ابراہیمی ، موسوی ، مسیحی وغیرہ نہیں کہلاتے تھے بلکہ انکا نام مسلم ( اللہ کے تابع فرمان ) تھا ، اور آج بھی وہ محمدی نہیں بلکہ مسلم ہیں ۔ اس بات کو نہ سمجھنے کی وجہ سے لوگوں کے لیے یہ سوال معما بن گیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروؤں کا نام قرآن سے پہلے کس کتاب میں مسلم رکھا گیا تھا ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :133 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول ، البقرہ ، حاشیہ 144 ۔ اس سے زیادہ شرح و بسط کے ساتھ اس مضمون پر ہم نے اپنے رسالہ شہادت حق میں روشنی ڈالی ہے ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :134 یا دوسرے الفاظ میں اللہ کا دامن مضبوطی کے ساتھ تھام لو ۔ ہدایت اور قانون زندگی بھی اسی سے لو ، اطاعت بھی اسی کی کرو ، خوف بھی اسی کا رکھو ، امیدیں بھی اسی سے وابستہ کرو ، مدد کے لیے بھی اسی کے آگے ہاتھ پھیلاؤ ، اور اپنے توکل و اعتماد کا سہارا بھی اسی کی ذات کو بناؤ ۔
35: ’’جہاد‘‘ کے لفظی معنیٰ جد و جہد اور کوشش کے ہیں، اور یہ لفظ دین کے راستے میں ہر کوشش کو شامل ہے۔ اس میں مسلّح جد و جہد یعنی اللہ کے راستے میں جنگ کرنا بھی داخل ہے، پُر امن جد و جہد بھی، اور اِنسان اپنی اِصلاح کے لئے جو محنت کرے، وہ بھی۔ 36: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے مؤمنوں کے حق میں گواہی دیں گے کہ یہ لوگ ایمان لے آئے تھے، اور مسلمان دوسری امتوں کے بارے میں گواہی دیں گے کہ پیغمبروں نے اُن کو اﷲ تعالیٰ کا پیغام پہنچا دیا تھا۔ یہ مضمون سورۂ بقرہ (۲:۱۴۷) میں گذر چکا ہے۔ وہاں اس کی تشریح دیکھ لی جائے۔