Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

141اس کی کچھ تفصیل سورة حج میں گزر چکی ہے۔ یہاں پھر اسے بیان کیا گیا ہے۔ تاہم وہاں مخلَّقَۃ کا جو ذکر تھا، یہاں اس کی وضاحت، مُضْغَۃ کو ہڈیوں میں تبدیل کرنے اور ہڈیوں کو گوشت پہنانے، سے کردی ہے۔ مُضْغَۃ گوشت کو ہڈیوں سے تبدیل کرنے کا مقصد، انسانی ڈھانچے کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کرنا ہے کیونکہ محض گوشت میں تو کوئی سختی نہیں ہوتی، پھر اگر اسے ہڈیوں کا ڈھانچہ ہی رکھا جاتا، تو انسان میں وہ حس و رعنائی نہ آتی، جو ہر انسان کے اندر موجود ہے۔ اس لئے ہڈیوں پر ایک خاص تناسب اور مقدار سے گوشت چڑھا دیا گیا کہیں کم اور کہیں زیادہ۔ تاکہ قدو قامت میں غیر موزونیت اور بھدا پن پیدا نہ ہو۔ بلکہ حسن و جمال کا ایک پیکر اور قدرت کی تخلیق کا ایک شاہ کار ہو۔ اسی چیز کو قرآن نے ایک دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا (لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْٓ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ ) 95 ۔ التین :4) ہم نے انسان کو احسن تقویم یعنی بہت اچھی ترکیب یا بہت اچھے ڈھانچے میں بنایا 142اس سے مراد وہ بچہ ہے جو نو مہینے کے بعد ایک خاص شکل و صورت لے کر ماں کے پیٹ سے باہر آتا ہے اور حرکت و اضطراب کے ساتھ دیکھنے اور سننے اور ذہنی قوتیں بھی ساتھ ہوتی ہیں۔ 143خَالِقِیْنَ یہاں ان صالحین کے معنی میں ہے۔ جو خاص خاص مقداروں میں اشیا کو جوڑ کر کوئی ایک چیز تیار کرتے ہیں۔ یعنی ان تمام صنعت گروں میں، اللہ جیسا بھی کوئی صنعت گر ہے جو اس طرح کی صنعت کاری کا نمونہ پیش کرسکے جو اللہ تعالیٰ نے انسانی پیکر کی صورت میں پیش کیا ہے۔ پس سب سے زیادہ خیر و برکت والا وہ اللہ ہی ہے، جو تمام صنعت کاروں سے بڑا اور سب سے اچھا صنعت کار ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٣] رحم مادر میں نطفہ کی نشوونما کے دوران جو مراحل پیش ہوتے ہیں۔ ان کی تشریح سورة حج کی آیت نمبر ٥ کے تحت کی جاچکی ہے۔- [١٤] یعنی نطفہ اور بےجان گوشت کے لوتھڑے سے ایک جیتا جاگتا عقل و شعور رکھنے والا انسان بنا کر پیدا کردیا۔ جس کا ایک ایک عضو اور رگ حدیشہ کئی مقاصد کی تکمیل کر رہا ہے اور اس کا کوئی بھی حصہ بیکار پیدا نہیں کیا گیا۔ اب انسان کی اندرونی ساخت پر عور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان کئی قسم کی آٹو میٹک کلوں اور مشینوں کی مجموعہ ہے کہیں چکی لگی ہے، کہیں چھلنی ہے، کہیں پیسنے کی کل، کہیں کوٹنے کی، کہیں توڑنے کی کہیں جذب کرنے والی کہیں فضلات کو باہر پھینکنے والی، کہیں اچھالنے والی اور کہیں اتارنے والی اور یہ خودکار مشینیں اس قدر مضبوط، مربوط اور منظم طریقے سے کام کر رہی ہیں جن کا مطالعہ کرکے انسان اللہ تعالیٰ کی قدرتوں اور حکمتوں پر عش عش بھی کر اٹھتا ہے اور ورطہ ئ حیرت میں گم بھی ہوجاتا ہے۔ معدہ خالی ہوجائے تو از خود انسان کو بھوک اور پیاس لگتی ہے اور وہ کھانے پینے پر مجبور ہوتا ہے۔ اور جب غذا معدہ میں پہنچ جاتی ہے تو یہ سب خود کار مشینیں اپنا اپنا کام شروع کردیتی ہیں۔ اگر ان میں سے کسی کل میں خرابی واقع ہوجائے تو انسان بیمار پڑجاتا ہے اور اگر خرابی درست نہ ہو بلکہ بڑھ جائے تو انسان مرجاتا ہے۔- یہ تو تھا جسم کی اندرونی ساخت کا قصہ، اب اس کے قوی پر نظر دوڑائیے۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس میں زندگی کی ابتدائی خصوصیات کے سوا کسی بھی نہیں ہوتا نہ سماعت، نہ بصارت، نہ گویائی، نہ چلنے یا بیٹھنے کی طاقت، نہ عقل و خرد، نہ کوئی اور خوبی۔ مگر وہ رحم مادر سے باہر آکر کوئی اور ہی چیز بننا شروع ہوجاتا ہے۔ جس کو پیٹ والے جنین سے کوئی مناسب نہیں ہوتی۔ تھوڑی ہی مدت میں وہ ایک سمیع وبصیر اور ناطن بچہ بن جاتا ہے۔ اب وہ کچھ علم ماحول سے حاصل کرتا ہے اور کچھ اپنے ذاتی تجربہ اور مشاہدہ سے۔ ذرا اس میں عقل آتی ہے تو اس میں دوسروں سے سابقت یا آگے نکل جانے کا فن پیدا ہوتا ہے۔ اس کی یہ بیداری اور خودی اسے ہر اس چیز پر اپنا تحکم جتانے اور اپنا زور منوانے کی کوشش کرتی ہے۔ جس پر اس کا بس چل سکتا ہو اور اس کی یہی بیداری اور خودی اس میں کوئی اور ہی چیز ہونے کی کیفیت کو نمایاں تر اور افزوں تر کوئی چلی جاتی ہے۔ پھر وہ جوان اور پختہ عمر کا ہوتا ہے تو اس تمام قوتیں، طاقت اور قابلیتیں بھی بڑھتی جاتی ہیں اور ایک وقت آتا ہے جب اس میں بمچوما دیگرے نیست کا تصور پیدا ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ بسا اوقات بعض انسان ایسے محیرالعقول کارنامے بھی سرانجام دیتے ہیں جو عام انسانوں کی بساط سے باہر ہوتے ہیں۔- [١٥] اب اگر انسان ذرا سا بھی غور کرے کہ کس طرح ایک حقیر پانی کی بوند سے اس کی زندگی کا آغاز ہوا۔ اور مختلف مراحل طے کرانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اسے کیا سے کیا بنادیا۔ تو بےاختیار اس کی زبان سے یہ الفاظ نکل آتے ہیں کہ (فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَ 14؀ۭ ) 23 ۔ المؤمنون :14) یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات مقدس کس قدر خیرو خوبی والی اور حکمتوں اور قدرتوں والی ہے جس نے انسانی تخلیق کا آغاز مٹی سے یا نطفہ سے کیا پھر مختلف مراحل طے کراکر محیرالعقول طریقوں سے اسے ایک باشعور اور صاحب ادارہ و اختیار انسان بنادیا۔ واضح رہے کہ تبارک کا لفظ عموماً اللہ تعالیٰ سے مخصوص ہے اور ان خیر کے کاموں کے سلسلہ میں آتا ہے جو صرف اللہ تعالیٰ سے مختص ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

۠ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً ۔۔ :” عَلَقَةً “ کا معنی جمے ہوئے خون کا ٹکڑا بھی ہے اور جونک بھی۔ پھر اللہ تعالیٰ پانی کے سفید سیال قطرے کو سرخ جمے ہوئے خون کے جامد ٹکڑے کی شکل دے دیتا ہے جو جونک کی شکل کا ہوتا ہے اور جونک ہی کی طرح رحم کی دیوار کے ساتھ چپکا ہوا ہوتا ہے۔ مزید دیکھیے سورة حج (٥) ۔- ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ : یعنی پھر ہم اس میں روح پھونکتے ہیں تو وہ نہایت خوب صورت دیکھنے، سننے، سمجھنے اور حرکت کرنے والا انسان بن جاتا ہے۔ جس کی شکل و صورت ہی اور ہوتی ہے۔ اب پہلی صورت کے ساتھ اس کی کوئی مناسبت نہیں، یعنی مٹی سے اس کا دور کا بھی کوئی تعلق نہیں، پہلے بےجان تھا اب جاندار ہے۔ پہلے اندھا، بہرا اور گونگا تھا اب آنکھ، کان اور زبان والا ہے۔ پہلے گوشت کا بےحس ٹکڑا تھا، اب اس کے ذرّے ذرّے میں اللہ تعالیٰ کی عجیب و غریب باریکیاں اور ہزاروں قسم کے احساسات ہیں۔ اس پر آنے والا ہر لمحہ نئی سے نئی تبدیلی لے کر آ رہا ہے، پہلے جنین پھر دودھ پیتا بچہ، جو پیدا ہوتے ہی اپنا اختیار استعمال کرنا شروع کردیتا ہے، پھر لڑکا پھر نوجوان پھر جوان پھر ادھیڑ عمر پھر بوڑھا، پھر ایسا بوڑھا کہ بچپن کی کمزوری کی طرف پلٹ جاتا ہے۔ انھی منزلوں میں سے کسی منزل میں اسے موت اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔- فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَ : اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے انسان کی پیدائش کا ذکر ایسے مدلل اور خوب صورت انداز میں فرمایا ہے کہ خود بخود یہ جملہ زبان پر آجاتا ہے : (تَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَ ) ” سو بہت برکت والا ہے اللہ جو بنانے والوں میں سب سے اچھا ہے۔ “ حقیقت یہ ہے کہ یہ کسی کلام کی خوبی کی انتہا ہے۔ چناچہ ایک شاعر نے چند قصیدوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے ؂- قَصَاءِدٌ إِنْ تَکُنْ تُتْلٰی عَلٰی مَلإٍَ- صُدُوْرُھَا عُلِمَتْ مِنْھَا قَوَافِیْھَا - ” وہ ایسے قصیدے ہیں کہ لوگوں کے سامنے ان کے ابتدائی اشعار پڑھے جائیں تو ان کے آخری اشعار خود بخود معلوم ہوجاتے ہیں۔ “ - غالب نے کیا خوب کہا ہے ؂ - دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا - میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے - الْخٰلِقِيْنَ : یہاں ” خَلْقٌ“ کا لفظ ظاہری شکل و صورت بنانے کے معنی میں استعمال ہوا ہے، جیسا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : (وَاِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّيْنِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ بِاِذْنِيْ ) [ المائدۃ : ١١٠ ] ” اور جب تو مٹی سے پرندے کی شکل کی مانند میرے حکم سے بناتا تھا۔ “ اور جیسا کہ حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تصویر بنانے والوں سے فرمائے گا : ( أَحْیُوْا مَا خَلَقْتُمْ ) [ بخاري، البیوع، باب التجارۃ فیما یکرہ۔۔ ٢١٠٥، عن عائشۃ (رض) ] ” تم نے جو خلق کیا ہے اسے زندہ کرو۔ “ پیدا کرنے اور زندگی بخشنے کے معنی میں خالق صرف اللہ تعالیٰ ہے۔- ” اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَ “ کے لفظ میں انسان کے حسن و جمال کی طرف بھی واضح اشارہ ہے۔ (بقاعی)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اسی طرح اس کے بعد تیسرا درجہ نطفہ کا گوشت کے ٹکڑے کی شکل میں تبدیل ہونا، یہ بھی ایک طویل وقت چاہتا ہے اس کو بھی ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً سے تعبیر فرمایا۔ اس کے بعد کے تین دور علقہ سے مضغہ مضغہ سے ہڈیاں اور ہڈیوں پر گوشت چڑھانا ان سب کا تھوڑی تھوڑی مدت میں ہوجانا مستبعد نہیں معلوم ہوتا تو ان تینوں کو حرف فاء سے بیان فرمایا ہے۔ پھر آخری دور جو نفخ روح اور زندگی پیدا کرنے کا ہے اس کو بھی لفظ ثم سے تعبیر فرمایا کیونکہ ایک غیر ذی روح جماد میں روح اور حیات پیدا کرنا قیاس عقل میں بڑی مدت چاہتا ہے اس لئے یہاں پھر لفظ ثم لایا گیا۔- خلاصہ یہ ہے کہ ایک دور سے دوسرے دور کی طرف انقلاب جن صورتوں میں انسانی عقل و قیاس کے مطابق دیر طلب اور مدت کا کام تھا وہاں لفظ ثم سے اس کی طرف اشارہ کردیا گیا اور جہاں عام انسانی قیاس کی رو سے زیادہ مدت درکار نہیں تھی وہاں حرف فاء سے تعبیر کر کے اس کی طرف اشارہ کردیا گیا۔ اس لئے اس پر اس حدیث سے شبہ نہیں ہوسکتا جس میں یہ بیان فرمایا ہے کہ ہر دور سے دوسرے دور تک منقلب ہونے میں چالیس چالیس دن صرف ہوتے ہیں کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا کام ہے جو انسانی قیاس کے تابع نہیں۔- تخلیق انسانی کا آخری مقام یعنی اس میں روح وحیات پیدا کرنا :- اس کا بیان قرآن کریم نے ایک خاص اور ممتاز انداز سے اس طرح فرمایا ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ ، یعنی پھر ہم نے اس کو ایک خاص قسم کی اور پیدائش عطا کی۔ اس امتیاز بیان کی وجہ یہ ہے کہ پہلے چھ دور تخلیق کے عالم عناصر اور مادیات سے اور ان میں انقلاب و تبدیل سے متعلق تھے اور یہ آخری ساتواں دور دوسرے عالم یعنی عالم ارواح سے روح کو اس کے جسم میں منتقل کرنے کا دور تھا اس لئے اس کو خلقاً آخر سے تعبیر کیا گیا۔- روح حقیقی اور روح حیوانی :- یہاں خَلْقًا اٰخَرَ کی تفسیر حضرت ابن عباس، مجاہد، شعبی، عکرمہ، ضحاک، ابو العالیہ (رحمہم اللہ) وغیرہ نے نفخ روح سے فرمائی ہے۔ تفسیر مظہری میں ہے کہ غالباً مراد اس روح سے روح حیوانی ہے کہ وہ بھی مادی اور ایک جسم لطیف ہے جو جسم حیوانی کے ہر ہر جزو میں سمایا ہوا ہوتا ہے جس کو اطباء اور فلاسفہ روح کہتے ہیں۔ اس کی تخلیق بھی تمام اعضاء انسانی کی تخلیق کے بعد ہوتی ہے اس لئے اس کو لفظ ثم سے تعبیر فرمایا ہے۔ اور روح حقیقی جس کا تعلق عالم ارواح سے ہے، وہیں سے لا کر اس روح حیوانی کے ساتھ اس کا کوئی رابطہ حق تعالیٰ اپنی قدرت سے پیدا فرما دیتے ہیں جس کی حقیقت کا پہچاننا انسان کے بس کا نہیں اس روح حقیقی کی تخلیق تو تمام انسانوں کی تخلیق سے بہت پہلے ہے انہیں ارواح کو حق تعالیٰ نے ازل میں جمع کر کے اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ فرمایا اور سب نے بَلٰي کے لفظ سے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا اقرار کیا۔ ہاں اس کا تعلق جسم انسانی کے ساتھ تخلیق اعضاء انسانی کے بعد ہوتا ہے۔ اس جگہ نفح روح سے اگر یہ مراد لی جائے کہ روح حیوانی کے ساتھ روح حقیقی کا تعلق اس وقت قائم فرمایا گیا تو یہ بھی ممکن ہے۔ اور درحقیقت حیات انسان اسی روح حقیقی سے متعلق ہے جب اس کا تعلق روح حیوانی کے ساتھ ہوجاتا ہے تو انسان زندہ کہلاتا ہے جب منقطع ہوجاتا ہے تو انسان مردہ کہلاتا ہے وہ روح حیوانی بھی اپنا عمل چھوڑ دیتی ہے۔- فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَ ، خلق و تخلیق کے اصلی معنے کسی چیز کو ازسرنو بغیر کسی مادہ سابقہ کے پیدا کرنا ہے جو حق تعالیٰ جل شانہ، کی مخصوص صفت ہے۔ اس معنے کے اعتبار سے خالق صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے کوئی دوسرا شخص فرشتہ ہو یا انسان کسی ادنیٰ چیز کا خالق نہیں ہو سکتا۔ لیکن کبھی کبھی یہ لفظ خلق و تخلیق صنعت کے معنی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے اور صنعت کی حقیقت اس سے زائد نہیں کہ اللہ جل شانہ نے جو مواد اور عناصر اس جہان میں اپنی قدرت کاملہ سے پیدا فرما دیئے ہیں ان کو جوڑ توڑ کر ایک دوسرے کے ساتھ مرکب کر کے ایک نئی چیز بنادی جائے یہ کام ہر انسان کرسکتا ہے اور اسی معنے کے لحاظ سے کسی انسان کو بھی کسی خاص چیز کا خالق کہہ دیا جاتا ہے۔ خود قرآن کریم نے فرمایا تَخْلُقُوْنَ اِفْكًا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں فرمایا اَنِّىْٓ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّيْنِ كَهَيْــــَٔــةِ الطَّيْرِ ، ان تمام مواقع میں لفظ خلق مجازی طور پر صنعت کے معنے میں بولا گیا ہے۔- اسی طرح یہاں لفظ خٰلِقِيْنَ بصیغہ جمع اسی لئے لایا گیا ہے کہ عام انسان جو اپنی صنعت گری کے اعتبار سے اپنے کو کسی چیز کا خالق سمجھتے ہیں اگر ان کو مجازاً خالق کہا بھی جائے تو اللہ تعالیٰ ان سب خالقوں یعنی صنعت گروں میں سب سے بہتر صنعت کرنے والے ہیں۔ واللہ اعلم

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَـلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَـلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظٰمًا فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْــمًا۝ ٠ۤ ثُمَّ اَنْشَاْنٰہُ خَلْقًا اٰخَرَ۝ ٠ۭ فَتَبٰرَكَ اللہُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَ۝ ١٤ۭ- علق - العَلَقُ : التّشبّث بالشّيء، يقال : عَلِقَ الصّيد في الحبالة، وأَعْلَقَ الصّائد : إذا علق الصّيد في حبالته، والمِعْلَقُ والمِعْلَاقُ : ما يُعَلَّقُ به، وعِلَاقَةُ السّوط کذلک، وعَلَقُ القربة كذلك، وعَلَقُ البکرة : آلاتها التي تَتَعَلَّقُ بها، ومنه : العُلْقَةُ لما يتمسّك به، وعَلِقَ دم فلان بزید : إذا کان زيد قاتله، والعَلَقُ : دود يتعلّق بالحلق، والعَلَقُ : الدّم الجامد ومنه : العَلَقَةُ التي يكون منها الولد . قال تعالی: خَلَقَ الْإِنْسانَ مِنْ عَلَقٍ [ العلق 2] ، وقال : وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ إلى قوله :- فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً «1» والعِلْقُ : الشّيء النّفيس الذي يتعلّق به صاحبه فلا يفرج عنه، والعَلِيقُ : ما عُلِّقَ علی الدّابّة من القضیم، والعَلِيقَةُ : مرکوب يبعثها الإنسان مع غيره فيغلق أمره . قال الشاعر : أرسلها علیقة وقد علم ... أنّ العلیقات يلاقین الرّقم - «2» والعَلُوقُ : النّاقة التي ترأم ولدها فتعلق به، وقیل للمنيّة : عَلُوقٌ ، والعَلْقَى: شجر يتعلّق به، وعَلِقَتِ المرأة : حبلت، ورجل مِعْلَاقٌ: يتعلق بخصمه .- ( ع ل ق ) العلق کے معنی کسی چیز میں پھنس جانیکے ہیں کہا جاتا ہے علق الصید فی الحبالتہ شکار جال میں پھنس گیا اور جب کسی کے جال میں شکار پھنس جائے تو کہا جاتا ہے اعلق الصائد ۔ المعلق والمعلاق ہر وہ چیز جس کے ساتھ کسی چیز کا لٹکا یا جائے اسی طرح علاقتہ السوط وعلق القریتہ اس رسی یا تسمیہ کو کہتے ہیں جس سے کوڑے کا یا مشک کا منہ باندھ کر اسے لٹکا دیا جاتا ہے ۔ علق الکبرۃ وہ لکڑی وغیرہ جس پر کنوئیں کی چرخی لگی رہتی ہے ۔ اسی سے العلقتہ ہر اس چیز کہا کہا جاتا ہے جسے سہارا کے لئے پکڑا جاتا ہے ۔ علق دم فلان بزید فلاں کا خون زید کے ساتھ چمٹ گیا یعنی زید اس کا قاتل ہے ۔ العلق ( جونک ) ایک قسم کا کیڑا جو حلق کے ساتھ وابستہ ہوجاتا ہے ۔ نیز جما ہوا خون اسی سے لوتھڑے کی قسم کے خون کو علقہ کہا جاتا جس سے بچہ بنتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ خَلَقَ الْإِنْسانَ مِنْ عَلَقٍ [ العلق جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے بنایا ؛ اور آیت کریمہ : ۔ وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ إلى قوله کے آخر میں فرمایا : فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةًپھر لو تھڑے کی بوٹی بنائی ۔ العلق اس عمدہ چیز کو کہتے ہیں جس کے ساتھ مالک کا دل چمٹا ہوا ہو اور اس کی محبت دل سے اترتی نہ ہو العلیق ۔ جو وغیرہ جو سفر میں جو نور کے کھانے کے لئے اس پر باندھ دیتے ہیں اور العلیقتہ اس اونٹ کو کہتے ہیں جو دوسروں کے ساتھ بھیجا جائے ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( رجز ) ( ارسلھا علیقتہ وقد علم ان العلیقات یلاقیں الرقم اس نے غلہ لینے کے لئے لوگوں کے ساتھ اپنا اونٹ بھیجد یا حالانکہ اسے معلوم تھا کہ دوسروں کے ساتھ بھیجے ہوئے اونٹ تکالیف سے دوچار ہوتے ہیں ۔ العلوق وہ اونٹنی جو اپنے بچے پر مہربان ہو اور اس سے لپٹی رہے اور موت کو بھی علوق کہا جاتا ہے العلقی درخت جس میں انسان الجھ جائے تو اس سے نکلنا مشکل علقت المرءۃ عورت حاملہ ہوگئی ۔ رجل معلاق جھگڑالو آدمی جو اپنے مخالف کا پیچھا نہ چھوڑے اور اس سے چمٹار ہے ۔- مضغ - المُضْغَةُ : القطعة من اللّحم قدر ما يُمْضَغُ ولم ينضج . قال الشاعر :- يلجلج مضغة فيها أنيض أي : غير منضج، وجعل اسما للحالة التي ينتهي إليها الجنین بعد العلقة . قال تعالی: فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظاماً [ المؤمنون 14] ، وقال : مُضْغَةٍ مُخَلَّقَةٍ وَغَيْرِ مُخَلَّقَةٍ [ الحج 5] . والمضاغة : ما يبقی عن المَضْغ في الفم، والمَاضِغان : الشّدقان لمضغهما الطّعام، والمَضَائِغ : العقبات اللّواتي علی طرفي هيئة القوس الواحدة مَضِيغَة .- ( م ض غ ) المضغۃ گوشت کا چھوٹا سا ٹکڑا جو چبانے کے لئے منہ میں ڈالا جاسکے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 410 ) یلجع مضغۃ فیھا انیض یوہ گویا نیم پختہ گوشت کی بوٹی کو منہ میں پھیرا تا ہے ۔ پھر جنین کی اس حالت کو جو علقہ کے بعد ہوتی ہے ۔ مضغۃ کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظاماً [ المؤمنون 14] اور لوتھڑے کی بوٹی کی ہڈیاں بنائیں ۔ اور فرمایا : ۔ مُضْغَةٍ مُخَلَّقَةٍ وَغَيْرِ مُخَلَّقَةٍ [ الحج 5] بوٹی بنا کر جس کی بناوٹ کامل بھی ہوتی ہے اور ناقص بھی ۔ المضاغۃ چبانے اسے جو آخر کار منہ میں باقی رہ جائے ۔ الما ضغان دونوں جبڑے کیونکہ ان سے کھانا چبایا جاتا ہے المضائغ واحد مضیغۃ ) وہ تانت جو کمان کے دونوں سروں پر کسی ہوتی ہے ۔- عظم - العَظْمُ جمعه : عِظَام . قال تعالی: عِظاماً فَكَسَوْنَا الْعِظامَ لَحْماً [ المؤمنون 14] ، وقرئ : عظاما «1» فيهما، ومنه قيل : عَظْمَة الذّراع لمستغلظها،- ( ع ظ م ) العظم - کے معنی ہڈی کے ہیں اس کی جمع عظا م آتی ہے ۔ قرآن پا ک میں ہے : ۔ عِظاماً فَكَسَوْنَا الْعِظامَ لَحْماً [ المؤمنون 14] ہڈیاں ( بنائیں ) پھر ہڈیوں پر گوشت ( پوست ) چڑھا یا ۔ ایک قرات میں دونوں جگہ عظم ہے اور اسی سے عظمۃ الذراع ہے جس کے معنی بازو کا موٹا حصہ کے ہیں عظم الرجل بغیر تنگ کے پالان کی لکڑی عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے ہو یا عقل سے ۔- كسا - الكِسَاءُ والْكِسْوَةُ : اللّباس . قال تعالی: أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ [ المائدة 89] ، وقد كَسَوْتُهُ واكْتَسَى. قال : وَارْزُقُوهُمْ فِيها وَاكْسُوهُمْ [ النساء 5] ، فَكَسَوْنَا الْعِظامَ لَحْماً- [ المؤمنون 14] ، واكْتَسَتِ الأرض بالنّبات، وقول الشاعر :- 385-- فبات له دون الصّبا وهي قرّة ... لحاف ومصقول الکساء رقیق - «5» فقد قيل : هو كناية عن اللّبن إذا علته الدّواية «6» ، وقول الآخر : 386-- حتی أرى فارس الصّموت علی ... أَكْسَاءِ خيل كأنها الإبل«1» قيل : معناه : علی أعقابها، وأصله أن تعدی الإبل فتثیر الغبار، ويعلوها فيكسوها، فكأنه تولّى إِكْسَاءَ الإبل، أي : ملابسها من الغبار .- ( ک س و ) الکساء والکسوۃ کے معنی لباس کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ [ المائدة 89] یا ان کو کپڑا دینا کسوتہ ۔ میں نے اسے لباس پہنایا ۔ اکتسیٰ ( افتعال ) اس نے پہن لیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَارْزُقُوهُمْ فِيها وَاكْسُوهُمْ [ النساء 5] ہاں اس میں سے ان کو کھلاتے اور پہناتے رہو ۔ فَكَسَوْنَا الْعِظامَ لَحْماً [ المؤمنون 14] پھر ہڈیوں پر فوشت پوست چڑھا تا ۔ اکتست الارض بالنیات زمین نے نباتات کا لباس پہن لیا ۔ شاعر نے کہا ہے ( 376 ) فبات لہ دون الصباوھی قرۃ لخاف ومصقول الکساء رقیق بعض نے کہا ہے ۔ کہ یہاں مصقول الکسائ سے مراد دودھ ہے جس پر لائی کی تہ آچکی ہو ۔ دوسرے شاعر نے کہا ہے ( 373 ) حتیٰ ارٰی فارس الص موت علٰی اکساء خیل کا فھا الا بل یہ ان تک کہ ہیں صموت کے شہسور کو دیکھوں کہ وہ اونٹ جیسے قد آور گھوڑوں کا تعاقب کر رہا ہے بعض نے کہا ہے کہ اکساء بمعنی اعقاب کے ہے لیکن اصل میں اونٹ کے تیز دوڑ انے سے جو فبار اٹھتا ہے اور وہ بلند ہو کر انہیں چھپا لیتا ہے ۔ اسے اکسائ کہا جاتا ہے ۔ یہاں علی اکساء ابل سے مراد یہ ہے کہ وہ اس کے لباس کے غبار میں متصل آرہا ہے ۔- لحم - اللَّحْمُ جمعه : لِحَامٌ ، ولُحُومٌ ، ولُحْمَانٌ. قال : وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ [ البقرة 173] . ولَحُمَ الرّجل : كثر عليه اللّحم فضخم، فهو لَحِيمٌ ، ولَاحِمٌ وشاحم : صار ذا لَحْمٍ وشحم . نحو :- لابن وتامر، ولَحِمَ : ضري باللّحم، ومنه : باز لَحِمٌ ، وذئب لحم . أي : كثيرُ أَكْلِ اللّحم . وبیت لَحْمٍ : أي : فيه لحم، وفي الحدیث : «إنّ اللہ يبغض قوما لَحِمِينَ» «1» . وأَلْحَمَهُ : أطعمه اللّحم، وبه شبّه المرزوق من الصّيد، فقیل : مُلْحِمٌ ، وقد يوصف المرزوق من غيره به، وبه شبّه ثوب مُلْحَمٌ: إذا تداخل سداه «2» ، ويسمّى ذلک الغزل لُحْمَةٌ تشبيها بلحمة البازي، ومنه قيل : «الولاء لُحْمَةٌ کلحمة النّسب» «3» . وشجّة مُتَلَاحِمَةٌ:- اکتست اللّحم، ولَحَمْتُ اللّحم عن العظم :- قشرته، ولَحَمْتُ الشیءَ ، وأَلْحَمْتُهُ ، ولَاحَمْتُ بين الشّيئين : لأمتهما تشبيها بالجسم إذا صار بين عظامه لحمٌ يلحم به، واللِّحَامُ : ما يلحم به الإناء، وأَلْحَمْتُ فلانا : قتلته وجعلته لحما للسّباع، وأَلْحَمْتُ الطائر : أطعمته اللّحم، وأَلْحَمْتُكَ فلانا : أمکنتک من شتمه وثلبه، وذلک کتسمية الاغتیاب والوقیعة بأكل اللَّحْمِ. نحو قوله تعالی: أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتاً [ الحجرات 12] ، وفلان لَحِيمٌ فعیل كأنّه جعل لحما للسّباع، والمَلْحَمَةُ : المعرکة، والجمع المَلَاحِمُ.- ( ل ح م ) اللحم - ( گوشت ) کی جمع لحام ، لحوم ، اور لحمان آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ [ البقرة 173] اور سور کا گوشت لحم الرجل فھولحیم کے معنی ہیں وہ پر گوشت اور موٹا ہوگیا ۔ اور ہوئے چربی چڑھے ہوئے آدمی کو لاحم شاحم کہاجاتا ہے جیسے : لابن وتامر ۔ لحم ( س) کے معنی گوشت کھانے کا حریص ہونا کے ہیں اسی سے بہت زیادہ گوشت خور باز یا بھیڑیئے کو لحم کہاجاتا ہے ۔ بیت لحم ۔ وہ گھر جہاں لوگوں کی اکثر غیبتیں کی جائیں ۔ حدیث میں ہے ۔ (107) ان اللہ یبغض قوما لحمین کہ اللہ تعالیٰ بہت گوشت خور لوگوں کو ناپسند کرتا ہے ۔ یعنی جو ہر وقت لوگوں کی غیبت کرتے رہتے ہیں ۔ الحمہ کے معنی کسی کو گوشت کھلانے کے ہیں ۔ اور اسی سے تشبیہ کے طور پر اس آدمی کو جس کی گزراں شکار پر ہو رجل ملحم کہاجاتا ہے ۔ پھر مطلقا تشبیہا ہر کھاتے پییتے آدمی کو ملحم کہہ دیتے ہیں اور اسی سے ثوب ملحم لگا محاورہ ہے جس کے معنی بنے ہوئے کپڑا کے ہیں کپڑے کے بانا کو لحمہ کہاجاتا ہے جو کہ لحمہ البازی سے مشتق ہے ۔ اسی سے کہاجاتا ہے ؛ (108) الولآء لحمۃ کلحمۃ النسب کہ والا کا رشتہ بھی نسب کے رشتہ کیطرح ہے شجۃ متلاحمۃ رخم جس پر گوشت چڑھ گیا ہو ۔ لحمت اللحم عن العظم میں نے ہڈی سے گوشت کو الگ کردیا ۔ لحمت الشیئین میں نے ایک چیز کو دوسری کے ساتھ اس طرح گھتی کردیا ۔ جیسے ہڈی گے ساتھ گوشت پیوست ہوتا ہے ۔ اللحام ۔ وہ چیز جس سے برتن کو ٹا نکا لگا جائے ۔ الحمت فلانا کسی کو قتل کرکے اس کا گوشت درندوں کو کھلا دیا ۔ الحمت الطائر ۔ میں نے پرند کا گوشت کھلایا ۔ الحمتک فلانا ۔ میں نے فلاں کی غیبت کا موقع دیا ۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسے غیبت وبدگوئی کو اکل اللحم یعنی گوشت کھانے سے تعبیر کرلیتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتاً [ الحجرات 12] کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے ۔ فلان لحیم فلاں کو قتل کردیا گیا ۔ گویا اسے درندوں کی خوراک بنادیا گیا ۔ الملحمۃ معرکن ملاحم ۔ - نشأ - النَّشْءُ والنَّشْأَةُ : إِحداثُ الشیءِ وتربیتُهُ. قال تعالی: وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْأَةَ الْأُولی - [ الواقعة 62] . يقال : نَشَأَ فلان، والنَّاشِئُ يراد به الشَّابُّ ، وقوله : إِنَّ ناشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئاً [ المزمل 6] يريد القیامَ والانتصابَ للصلاة، ومنه : نَشَأَ السَّحابُ لحدوثه في الهواء، وتربیته شيئا فشيئا . قال تعالی: وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد 12] والإنْشَاءُ : إيجادُ الشیءِ وتربیتُهُ ، وأكثرُ ما يقال ذلک في الحَيَوانِ. قال تعالی: قُلْ هُوَ الَّذِي أَنْشَأَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [ الملک 23] ، وقال : هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنْشَأَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ [ النجم 32] ، وقال : ثُمَّ أَنْشَأْنا مِنْ بَعْدِهِمْ قَرْناً آخَرِينَ [ المؤمنون 31] ، وقال : ثُمَّ أَنْشَأْناهُ خَلْقاً آخَرَ [ المؤمنون 14] ، وَنُنْشِئَكُمْ فِي ما لا تَعْلَمُونَ [ الواقعة 61] ، ويُنْشِئُ النَّشْأَةَالْآخِرَةَ [ العنکبوت 20] فهذه كلُّها في الإيجاد المختصِّ بالله، وقوله تعالی: أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها أَمْ نَحْنُ الْمُنْشِؤُنَ [ الواقعة 71- 72] فَلِتشبيه إيجادِ النَّارِ المستخرَجة بإيجادِ الإنسانِ ، وقوله : أَوَمَنْ يُنَشَّؤُا فِي الْحِلْيَةِ [ الزخرف 18] أي : يُرَبَّى تربيةً کتربيةِ النِّسَاء، وقرئ : يَنْشَأُ «1» أي :- يَتَرَبَّى.- ( ن ش ء) النشا والنشاۃ کسی چیز کو پیدا کرنا اور اس کی پرورش کرنا ۔ قرآن میں ہے : وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْأَةَ الْأُولی[ الواقعة 62] اور تم نے پہلی پیدائش تو جان ہی لی ہے ۔ نشافلان کے معنی کے بچہ کے جوان ہونے کے ہیں ۔ اور نوجوان کو ناشی کہاجاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : إِنَّ ناشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئاً [ المزمل 6] کچھ نہیں کہ رات کا اٹھنا دنفس بہیمی کی سخت پامال کرتا ہے ۔ میں ناشئۃ کے معنی نماز کے لئے اٹھنے کے ہیں ۔ اسی سے نشاء السحاب کا محاورہ ہے جس کے معنی فضا میں بادل کے رونما ہونے اور آہستہ آہستہ بڑھنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے َ : وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد 12] اور بھاری بھاری بادل پیدا کرتا ہے ۔ الانشاء ۔ ( افعال ) اس کے معنی کسی چیز کی ایجاد اور تربیت کے ہیں ۔ عموما یہ لفظ زندہ چیز ۔۔ کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : قُلْ هُوَ الَّذِي أَنْشَأَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [ الملک 23] وہ خدا ہی جس نے تمہیں پیدا کیا ۔ اور تمہاری کان اور آنکھیں اور دل بنائے ۔ نیز فرمایا : هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنْشَأَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ [ النجم 32] وہ تم کو خوب جانتا ہے جسب اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ۔ ثُمَّ أَنْشَأْنا مِنْ بَعْدِهِمْ قَرْناً آخَرِينَ [ المؤمنون 31] پھر ان کے بعد ہم نے ایک اور جماعت پیدا کی ۔ وَنُنْشِئَكُمْ فِي ما لا تَعْلَمُونَ [ الواقعة 61] اور تم کو ایسے جہان میں جس کو تم نہیں جانتے پیدا کردیں ۔ ثُمَّ أَنْشَأْناهُ خَلْقاً آخَرَ [ المؤمنون 14] پھر اس کو نئی صورت میں بنا دیا ويُنْشِئُ النَّشْأَةَ الْآخِرَةَ [ العنکبوت 20] پھر خدا ہی پچھلی پیدائش پیدا کرے گا ۔ ان تمام آیات میں انسشاء بمعنی ایجاد استعمال ہوا ہے جو ذات باری تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها أَمْ نَحْنُ الْمُنْشِؤُنَ [ الواقعة 71- 72] بھلا دیکھو جو آگ تم درخت سے نکالتے ہو کیا تم نے اس کے درخت کو پیدا کیا ہے یا ہم پیدا کرتے ہیں ۔ میں آگ کا درخت اگانے پر بطور تشبیہ انشاء کا لفظ بولا گیا ہے اور آیت کریمہ ) أَوَمَنْ يُنَشَّؤُا فِي الْحِلْيَةِ [ الزخرف 18] کیا وہ جوز یور میں پرورش پائے ۔ میں ینشا کے معنی تربیت پانے کے ہیں نفی عورت جو زبور میں تربیت ۔ ایک قرآت میں پنشاء ہے یعنی پھلے پھولے ۔- تبارک - وقوله تعالی: تَبارَكَ الَّذِي جَعَلَ فِي السَّماءِ بُرُوجاً [ الفرقان 61] فتنبيه علی ما يفيضه علینا من نعمه بواسطة هذه البروج والنيّرات المذکورة في هذه الآية، وكلّ موضع ذکر فيه لفظ «تبارک» فهو تنبيه علی اختصاصه تعالیٰ بالخیرات المذکورة مع ذکر «تبارک» . وقوله تعالی:- فَتَبارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخالِقِينَ [ المؤمنون 14] ، تَبارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقانَ [ الفرقان 1] ، تَبارَكَ الَّذِي إِنْ شاءَ جَعَلَ لَكَ خَيْراً مِنْ ذلِكَ جَنَّاتٍ [ الفرقان 10] ، فَتَبارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعالَمِينَ [ غافر 64] ، تَبارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ [ الملک 1] . كلّ ذلک تنبيه علی اختصاصه تعالیٰ بالخیرات المذکورة مع ذکر «تبارک» .- اور آیت کریمہ : تَبارَكَ الَّذِي جَعَلَ فِي السَّماءِ بُرُوجاً [ الفرقان 61] برکت والا ہے جس نے آسمانوں میں برج بنائے ۔ میں ان نعمتوں پر تنبیہ کی ہے جو ان برجوں اور نیرات کے ذریعہ ہم پر نازل ہوتی ہیں اور آیات کریمہ : فَتَبارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخالِقِينَ [ المؤمنون 14] تو خدا جو سب سے بہتر بنانے والا ہے بڑا با برکت ہے تبارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقانَ [ الفرقان 1] وہ خدائے عزوجل ) بہت ہی با برکت ہے ۔ تَبارَكَ الَّذِي إِنْ شاءَ جَعَلَ لَكَ خَيْراً مِنْ ذلِكَ جَنَّاتٍ [ الفرقان 10] وہ خدا بہت بابرکت ہے جو اگر چاہے تو تمہارے لئے اس سے بہتر ( چیزیں ) بناد ی ۔ فَتَبارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعالَمِينَ [ غافر 64] پس خدائے پر دیگار عالم بہت ہی بابرکت ہے ۔ تَبارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ [ الملک 1] وہ خدا ) جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے بڑی برکت والا ہے میں تنبیہ کی ہے کہ وہ تمام خیرات جن کو لفظ تبارک کے تحت ذکر کیا ہے ذات باری تعالیٰ ہی کے ساتھ مختص ہیں ۔- احسان - الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» .- فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل - واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] - ( ح س ن ) الحسن - الاحسان ( افعال )- احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٤ (ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً ) ” - عَلَقہ کا ترجمہ عام طور پر ” جما ہوا خون “ ہوتا آیا ہے جو کہ غلط ہے۔ لغوی اعتبار سے عربی مادہ علق - (ع ل ق) سے معلق ‘ تعلق ‘ متعلق ‘ علاقہ وغیرہ الفاظ تو مشتق ہیں لیکن اس لفظ کا جمے ہوئے خون کے مفہوم و معانی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ دراصل جس زمانے میں یہ تراجم ہوئے ہیں اس میں نہ تو کا کوئی تصور تھا اور نہ ہی ابھی مائیکروسکوپ ایجاد ہوئی تھی ‘ لہٰذا علم الجنین کے بارے میں تمام تر معلومات کی بنیاد ظاہری مشاہدے پر تھی۔ اور چونکہ ابتدائی ایام کا حمل گرنے کی صورت میں رحم سے بظاہر خون کے لوتھڑے ہی برآمد ہوتے تھے ‘ اس لیے اس سے یہی سمجھا گیا کہ رحم مادر میں انسانی تخلیق کی ابتدائی شکل جمے ہوئے خون کے لوتھڑے کی سی ہوتی ہے۔ آج جب ہم جنینیات ( ) کے بارے میں جدید سائنسی معلومات کی روشنی میں لفظ ” عَلَقہ “ پر غور کرتے ہیں تو اس کا مفہوم بالکل واضح ہوجاتا ہے۔ جدید سائنسی معلومات کے مطابق ابتدائی مرحلے میں رحم کی دیوار کے اندر جما ہوا ( ) ہوتا ہے ‘ جبکہ اگلے مرحلے میں وہ اس سے ابھر کر ‘ کر کے دیوار کے ساتھ جونک کی طرح لٹکنے لگ جاتا ہے۔ اور یہی دراصل ” علقہ “ ہے۔- (فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً ) ” - پھر اگلے مرحلے میں یہ ” علقہ “ گوشت کے ایک نیم چبائے ہوئے لوتھڑے کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ بلکہ ڈاکٹر کیتھ ایل مور ( موصوف دور حاضر میں علم الجنین پر سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے ان کا ذکر بیان القرآن کے حصہ اوّل ‘ تعارف قرآن کے باب پنجم میں بھی آچکا ہے) کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے اس کی وضاحت کے لیے کچے گوشت کا ایک ٹکڑا لیا اور واقعتا اسے دانتوں سے چبا کر دکھایا کہ دانتوں کے نشان پڑجانے سے اس گوشت کے ٹکڑے کی جو شکل بنی ہے بعینہٖ وہی شکل اس مرحلے میں ” مُضغۃ “ کی ہوتی ہے۔ - (فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظٰمًا فَکَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًاق) ” - اور اس کے بعد ” ثُمّ “ کے ساتھ چوتھے اور آخری دور کا ذکر ہے :- (ثُمَّ اَنْشَاْنٰہُ خَلْقًا اٰخَرَ ط) ” - آیت کے اس حصے میں معنی کا ایک جہان آباد ہے ‘ مگر اسے بہت کم لوگوں نے سمجھا ہے۔ عام لوگ قرآن کی ایسی بہت سی آیات کو پڑھتے ہوئے بیخبر ی سے یوں آگے گزر جاتے ہیں جیسے ان میں کوئی خاص بات نہ ہو ‘ مگر جس پر حقیقت منکشف ہوتی ہے اسے کلام اللہ کے ایک ایک حرف کے اندر قیامت مضمر دکھائی دیتی ہے۔ کتنے ہی مفسرین ہیں جو سورة الحدید کی تیسری آیت (ہُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ ج) کی تفسیر کیے بغیر آگے گزر گئے ہیں ‘ لیکن امام رازی (رح) جب اسے پڑھتے ہیں تو ان کی نظر کسی اور ہی جہان کا نظارہ کرتی ہے ‘ اس کا اظہار وہ اس طرح کرتے ہیں : اِعْلَمْ اَنَّ ھٰذَا الْمَقَامَ مَقامٌ غَامِضٌ عَمِیْقٌ مُہِیبٌ (جان لو کہ یہ مقام بہت مشکل ‘ بہت گہرا اور بہت پرہیبت ہے ) یہ قرآن کا معجزاتی پہلو ہے اور اس کا تعلق دیکھنے والی آنکھ سے ہے۔ بہر حال ان آیات کو پھر سے پڑھیے اور تخلیق کے مراحل میں ” فَ “ اور ” ثُمَّ “ کے نازک فرق کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ غور کیجیے یہاں ” ثُمَّ “ کا وقفہ ایک پورے دور کو ظاہر کرتا ہے ‘ جبکہ تخلیقی عمل کے اندرونی مراحل کے بیان کو ” فَ “ سے الگ کیا گیا ہے : (وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ طِیْنٍ ) یعنی مٹی کے جوہر سے نطفے کی تخلیق ایک مکمل دور ہے۔ (ثُمَّ جَعَلْنٰہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ ) یہ دوسرا دور ہے۔ یعنی نطفے کا قرار مکین میں پہنچ کر ایک بیج کی حیثیت سے دفن ہوجانا۔ (ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً ) یہ تیسرے دور کا ذکر ہے اور اس دور کے اندر تین مراحل ہیں ‘ ہر مرحلے کے ذکر کے ساتھ ” فَ “ کا استعمال ہوا ہے : (فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظٰمًا فَکَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًاق) ۔ اس کے بعد ” ثُمَّ “ کے ساتھ چوتھے اور آخری دور کا ذکر ہے : (ثُمَّ اَنْشَاْنٰہُ خَلْقًا اٰخَرَ ط) ” پھر ہم نے اسے ایک اور دوسری مخلوق بنا کھڑا کیا “۔ یعنی اب یہ ایک بالکل نئی مخلوق ہے۔ یہاں ” بالکل نئی مخلوق “ سے کیا مراد ہے ؟ اس کی تفصیل اس حدیث میں ملتی ہے جس کے راوی حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) ہیں۔ یہ حدیث صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بایں الفاظ نقل ہوئی ہے :- (اِنَّ اَحَدَکُمْ یُجْمَعُ خَلْقُہٗ فِیْ بَطْنِ اُمِّہٖ اَرْبَعِیْنَ یَوْمًا نُطْفَۃً ، ثُمَّ یَکُوْنُ عَلَقَۃً مِّثْلَ ذٰلِکَ ، ثُمَّ یَکُوْنُ مُضْغَۃً مِّثْلَ ذٰلِکَ ، ثُمَّ یُرْسَلُ اِلَیْہِ الْمَلَکُ فَیَنْفُخُ فِیْہِ الرُّوْحَ ۔۔ ) (١)- ” تم میں سے ہر ایک کی تخلیق یوں ہوتی ہے کہ وہ اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس یوم تک نطفہ کی صورت ‘ میں ‘ اس کے بعد اتنے ہی روز تک علقہ کی صورت میں ‘ اور اس کے بعد اتنے ہی روز گوشت کے لوتھڑے کی صورت میں رہتا ہے۔ بعد ازاں اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجا جاتا ہے ‘ پس وہ اس میں روح پھونکتا ہے۔۔ “- یعنی چالیس دن تک نطفہ ‘ پھر چالیس دن تک علقہ اور اس کے بعد چالیس دن تک مضغۃ ‘ ایک سو بیس دن (چار ماہ) میں یہ تین مراحل مکمل ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ ایک فرشتے کو بھیجتے ہیں۔ وہ کو لڈ سٹوریج (عالم ارواح) سے اس کی روح کو لا کر اس مادی جسم کے ساتھ ملا دیتا ہے اور یوں ایک نئی مخلوق وجود میں آجاتی ہے۔ یعنی اب تک وہ ایک حیوانی جسم تھا ‘ لیکن اس روح کے پھونکے جانے کے بعد وہ انسان بن گیا۔ البتہ اس حدیث کے مفہوم کو سمجھنے میں بھی لوگوں سے غلطی ہوئی ہے۔ عام طور پر یہی سمجھا گیا ہے کہ ایک سو بیس دن کے بعد اس جسم میں جان ڈال - دی جاتی ہے۔ یعنی روح کو ” جان “ ( ) سمجھا گیا ہے۔ گویا چار ماہ تک تخلیقی مراحل سے گزرتا ہوا یہ وجود بےجان تھا ؟ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ زندگی یا جان اس میں پہلے دن سے ہی موجود تھی۔ حتیٰ کہ باپ کے نطفے کا خلیہ ( ) اور ماں کا بیضہ ( ) بھی اپنی اپنی جگہ پر زندہ وجود ہیں اور ان دونوں کے اختلاط سے وجود میں آنے والا جفتہ ( ) بھی۔ بہر حال ایک سو بیس دن کے بعد اس جسد حیوانی میں ” روح “ پھونکی جاتی ہے ‘ جو ایک نورانی چیز ہے اور وہی اسے حیوان سے انسان بناتی ہے۔ اور اسی تبدیلی یا تخلیقی مرحلے کو آیت زیر نظر میں ” خَلْقًا اٰخَرَ “ (ایک نئی تخلیق) سے تعبیر کیا گیا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :12 تشریح کے لیے ملاحظہ ہوں سورہ حج کے حواشی 5 ۔ 6 ۔ 9 ۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :13 یعنی کوئی خالی الذہن آدمی بچے کو ماں کے رحم میں پرورش پاتے دیکھ کر یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ یہاں وہ انسان تیار ہو رہا ہے جو باہر جا کر عقل اور دانائی اور صنعت کے یہ کچھ کمالات دکھائے گا اور ایسی ایسی حیرت انگیز قوتیں اور صلاحیتیں اس سے ظاہر ہوں گی ۔ وہاں وہ ہڈیوں اور گوشت پوست کا ایک پلندا سا ہوتا ہے جس میں وضع حمل کے آغاز تک زندگی کی ابتدائی خصوصیات کے سوا کچھ نہیں ہوتا ۔ نہ سماعت ، نہ بصارت ، نہ گویائی ، نہ عقل و خرد ، نہ اور کوئی خوبی ۔ مگر باہر آ کر وہ چیز ہی کچھ اور بن جاتا ہے جس کو پیٹ والے جنین سے کوئی مناسبت نہیں ہوتی ۔ اب وہ ایک سمیع و بصیر اور ناطق وجود ہوتا ہے ۔ اب وہ تجربے اور مشاہدے سے علم حاصل کرتا ہے ۔ اب اس کے اندر ایک ایسی خودی ابھرنی شروع ہوتی ہے جو بیداری کے پہلے ہی لمحہ سے اپنی دسترس کی ہر چیز پر تحکم جتاتی اور اپنا زور منوانے کی کوشش کرتی ہے ۔ پھر وہ جوں جوں بڑھتا جاتا ہے ، اس کی ذات میں یہ چیزے دیگر ہونے کی کیفیت نمایاں تر اور افزوں تر ہوتی چلی جاتی ہے ۔ جوان ہوتا ہے تو بچپن کی بہ نسبت کچھ اور ہوتا ہے ۔ ادھیڑ ہوتا ہے تو جوانی کے مقابلے میں کوئی اور چیز ثابت ہوتا ہے ۔ بڑھاپے کو پہنچتا ہے تو نئی نسلوں کے لیے یہ اندازہ کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے کہ اس کا بچپن کیا تھا اور جوانی کیسی تھی ۔ اتنا بڑا تغیر کم از کم اس دنیا کی کسی دوسری مخلوق میں واقع نہیں ہوتا ۔ کوئی شخص ایک طرف کسی پختہ عمر کے انسان کی طاقتیں اور قابلیتیں اور کام دیکھے ، اور دوسری طرف یہ تصور کرے کہ پچاس ساٹھ برس پہلے ایک روز جو بوند ٹپک کر رحم مادر میں گری تھی اس کے اندر یہ کچھ بھرا ہوا تھا ، تو بے اختیار اس کی زبان سے وہی بات نکلے گی جو آگے کے فقرے میں آ رہی ہے ۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :14 اصل میں فَتَبَارَکَ اللہُ کے الفاظ ارشاد ہوئے ہیں جن کی پوری معنویت ترجمے میں ادا کرنا محال ہے ۔ لغت اور استعمالات زبان کے لحاظ سے اس میں دو مفہوم شامل ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ نہایت مقدس اور منزہ ہے ۔ دوسرے یہ کہ وہ اس قدر خیر اور بھلائی اور خوبی کا مالک ہے کہ جتنا تم اس کا اندازہ کرو اس سے زیادہ ہی اس کو پاؤ حتی کہ اس کی خیرات کا سلسلہ کہیں جا کر ختم نہ ہو ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، الفرقان حواشی 1 ۔ 19 ) ۔ ان دونوں معنوں پر غور کیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ تخلیق انسانی کے مراتب بیان کرنے کے بعد فَتَبَارَکَ اللہُ کا فقرہ محض ایک تعریفی فقرہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ دلیل کے بعد نتیجہ دلیل بھی ہے ۔ اس میں گویا یہ کہا جا رہا ہے کہ جو خدا مٹی کے ست کو ترقی دے کر ایک پورے انسان کے مرتبے تک پہنچا دیتا ہے وہ اس سے بدرجہا زیادہ منزہ ہے کہ خدائی میں کوئی اس کا شریک ہو سکے ، اور اس سے بدرجہا مقدس ہے اسی انسان کو پھر پیدا نہ کر سکے ، اور اس کی خیرات کا یہ بڑا ہی گھٹیا اندازہ ہے کہ بس ایک دفعہ انسان بنا دینے ہی پر اس کے کمالات ختم ہو جائیں ، اس سے آگے وہ کچھ نہ بنا سکے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani