Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤١] آخرت سے انکار کرنے والوں کے پاس سب سے بڑی دلیل یہ ہوتی ہے کہ چونکہ کوئی بھی مرا ہوا انسان آج تک دوبارہ زندہ ہو کر واپس نہیں آیا۔ لہذا ہم کیسے مان لیں کہ مرنے اور مر کر مٹی میں مل جانے کے بعد دوبارہ اٹھائے جائیں گے ؟ گویا ان کے انکار کی اصل بنیاد ان کا اپنا تجربہ یا مشاہدہ ہوتا ہے۔ قوم عاد مشرکین مکہ کی طرح اللہ کی ہستی کے قائل تھے حالانکہ اللہ کی ہستی بھی کسی تجربہ اور مشاہدہ میں نہیں آتی۔ اور اللہ کی ہستی کے قائل ہونے کی وجہ بھی یہ نہیں ہوتی کہ وہ کسی پیغمبر کی تعلیم سے متاثر ہو کر اللہ پر ایمان بالغیب لاتے ہیں۔ بلکہ اس لئے فلاسفروں اور حکماء نے اللہ کی ہستی کو علت العلل کے طور پر تسلیم کیا ہے یعنی جس طرح ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہر چیز کے لئے صانع یا اس کے بنانے والے کا ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح اس کارخانہ کائنات کا بنانے والا ہونا بھی ضروری ہے۔ بالفاظ دیگر اللہ کی ہستی کو عقلی دلیل کی بنا پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ عقلی دلیل کی بنا پر بھی ایسی اشیاء کو تسلیم کرنا ضروری ہے جو مشاہدہ اور تجربہ میں نہ آئی ہوں یا نہ آسکتی ہوں۔ اور دوبارہ زندگی کے قیام پر چونکہ بہت سے عقلی دلائل موجود ہیں۔ جن کا ذکر قرآن کریم میں بھی بیشمار مقامات پر ہوا ہے۔ لہذا جو لوگ آخرت اور دوبارہ زندگی کا انکار محض اس بنا پر کرتے ہیں کہ کوئی آدمی مر کر واپس نہیں آیا۔ یا انسان کا جسم مٹی میں مل کر مٹی ہوجاتا ہے تو پر کیسے زندہ ہوسکتا ہے، تو یہ عقلی دلائل کا انکار اور محض جہالت ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنْ هِىَ اِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا : ” هِىَ “ سے مراد ” حَیَاۃٌ“ ہے، جو ” حَيَاتُنَا الدُّنْيَا “ سے واضح ہو رہی ہے، یعنی مرنے کے بعد زندگی کہاں ؟ زندگی ہے تو صرف یہ دنیا کی زندگی، باقی سب خیال و محال ہے۔- نَمُوْتُ وَنَحْيَا : ” ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں “ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ مرنے کے بعد جینے کے قائل ہوگئے تھے، کیونکہ وہ اس دنیا کے سوا کسی زندگی کو مانتے ہی نہ تھے۔ اس لیے اس کا مطلب یہ ہے کہ یہیں ہم مرتے جاتے ہیں اور پچھلے پیدا ہوتے رہتے ہیں، دنیا کا یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا ہے اور جاری رہے گا۔- وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِيْنَ : باء کی وجہ سے نفی میں تاکید پیدا ہوگئی، اس لیے ترجمہ ہے ” اور ہم ہرگز اٹھائے جانے والے نہیں۔ “ اگرچہ ان سرداروں کی پچھلی تمام باتوں کا مطلب بھی رسول اور قیامت کو جھٹلانا تھا، پھر بھی کوئی کمی باقی تھی تو انھوں نے نہایت تاکید کے ساتھ صاف لفظوں میں قیامت کا انکار کرکے اور رسول کو مفتری کہہ کر پوری کردی، جیسا کہ اگلی آیت میں ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اِنْ هِىَ اِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوْتُ وَنَحْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِيْنَ (اس دنیا کی زندگی کے سوا اور کوئی زندگی نہیں۔ پس مرنا جینا اسی دنیا کا ہے اور پھر دوبارہ زندہ ہونا نہیں) یہی قول عام کفار کا ہے جو قیامت کے منکر ہیں۔ یہ انکار جو زبان سے کرتے ہیں وہ تو کھلے کافر ہیں ہی، لیکن افسوس اور بہت فکر کی چیز یہ ہے کہ اب بہت سے مسلمانوں میں بھی عملی طور پر یہ انکار ان کے ہر قول و فعل سے مترشح ہوتا ہے کہ آخرت اور قیامت کے حساب کی طرف کبھی دھیان بھی نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو اس مصیبت سے نجات عطا فرماویں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنْ ہِىَ اِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوْتُ وَنَحْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِيْنَ۝ ٣٧۠ۙ- بعث - أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال : بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام 36] ، أي : يخرجهم ويسيرهم إلى القیامة، يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً [ المجادلة 6] ، زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن 7] ، ما خَلْقُكُمْ وَلا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ واحِدَةٍ [ لقمان 28] ،- فالبعث ضربان :- بشريّ ، کبعث البعیر، وبعث الإنسان في حاجة .- وإلهي، وذلک ضربان :- أحدهما : إيجاد الأعيان والأجناس والأنواع لا عن ليس «3» ، وذلک يختص به الباري تعالی، ولم يقدر عليه أحد .- والثاني : إحياء الموتی، وقد خص بذلک بعض أولیائه، كعيسى صلّى اللہ عليه وسلم وأمثاله، ومنه قوله عزّ وجل : فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم 56] ، يعني : يوم الحشر، وقوله عزّ وجلّ : فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ [ المائدة 31] ، أي : قيّضه، وَلَقَدْ بَعَثْنا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا [ النحل 36] ، نحو : أَرْسَلْنا رُسُلَنا [ المؤمنون 44] ، وقوله تعالی: ثُمَّ بَعَثْناهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف 12] ، وذلک إثارة بلا توجيه إلى مکان، وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ النحل 84] ، قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ [ الأنعام 65] ، وقالعزّ وجلّ : فَأَماتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ [ البقرة 259] ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ ما جَرَحْتُمْ بِالنَّهارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ [ الأنعام 60] ، والنوم من جنس الموت فجعل التوفي فيهما، والبعث منهما سواء، وقوله عزّ وجلّ : وَلكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعاثَهُمْ [ التوبة 46] ، أي : توجههم ومضيّهم .- ( ب ع ث ) البعث - ( ف ) اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بھیجنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا ۔ يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً [ المجادلة 6] جس دن خدا ان سب کو جلا اٹھائے گا ۔ زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن 7] جو لوگ کافر ہوئے ان کا اعتقاد ہے کہ وہ ( دوبارہ ) ہرگز نہیں اٹھائے جائیں گے ۔ کہدو کہ ہاں ہاں میرے پروردیگا کی قسم تم ضرور اٹھائے جاؤگے ۔ ما خَلْقُكُمْ وَلا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ واحِدَةٍ [ لقمان 28] تمہارا پیدا کرنا اور جلا اٹھا نا ایک شخص د کے پیدا کرنے اور جلانے اٹھانے ) کی طرح ہے - پس بعث دو قسم پر ہے - بعث بشری یعنی جس کا فاعل انسان ہوتا ہے جیسے بعث البعیر ( یعنی اونٹ کو اٹھاکر چلانا ) کسی کو کسی کام کے لئے بھیجنا - دوم بعث الہی - یعنی جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو پھر اس کی بھی دوقسمیں ہیں اول یہ کہ اعیان ، اجناس اور فواع کو عدم سے وجود میں لانا ۔ یہ قسم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور اس پر کبھی کسی دوسرے کو قدرت نہیں بخشی ۔ دوم مردوں کو زندہ کرنا ۔ اس صفت کے ساتھ کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو بھی سرفراز فرمادیتا ہے جیسا کہ حضرت عیسٰی (علیہ السلام) اور ان کے ہم مثل دوسری انبیاء کے متعلق مذکور ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم 56] اور یہ قیامت ہی کا دن ہے ۔ بھی اسی قبیل سے ہے یعنی یہ حشر کا دن ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ [ المائدة 31] اب خدا نے ایک کوا بھیجا جو زمین کو کرید نے لگا ۔ میں بعث بمعنی قیض ہے ۔ یعنی مقرر کردیا اور رسولوں کے متعلق کہا جائے ۔ تو اس کے معنی مبعوث کرنے اور بھیجنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَلَقَدْ بَعَثْنا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا [ النحل 36] اور ہم نے ہر جماعت میں پیغمبر بھیجا ۔ جیسا کہ دوسری آیت میں أَرْسَلْنا رُسُلَنا [ المؤمنون 44] فرمایا ہے اور آیت : ۔ ثُمَّ بَعَثْناهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف 12] پھر ان کا جگا اٹھایا تاکہ معلوم کریں کہ جتنی مدت وہ ( غار میں ) رہے دونوں جماعتوں میں سے اس کو مقدار کس کو خوب یاد ہے ۔ میں بعثنا کے معنی صرف ۃ نیند سے ) اٹھانے کے ہیں اور اس میں بھیجنے کا مفہوم شامل نہیں ہے ۔ وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ النحل 84] اور اس دن کو یا د کرو جس دن ہم ہر امت میں سے خود ان پر گواہ کھڑا کریں گے ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ [ الأنعام 65] کہہ و کہ ) اس پر بھی ) قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے ۔۔۔۔۔۔۔۔ عذاب بھیجے ۔ فَأَماتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ [ البقرة 259] تو خدا نے اس کی روح قبض کرلی ( اور ) سو برس تک ( اس کو مردہ رکھا ) پھر اس کو جلا اٹھایا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ ما جَرَحْتُمْ بِالنَّهارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو رات کو ( سونے کی حالت میں ) تمہاری روح قبض کرلیتا ہے اور جو کبھی تم دن میں کرتے ہو اس سے خبر رکھتا ہے پھر تمہیں دن کو اٹھادیتا ہے ۔ میں نیند کے متعلق تونی اور دن کو اٹھنے کے متعلق بعث کا لفظ استعمال کیا ہے کیونکہ نیند بھی ایک طرح کی موت سے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعاثَهُمْ [ التوبة 46] لیکن خدا نے ان کا اٹھنا ( اور نکلنا ) پسند نہ کیا ۔ میں انبعاث کے معنی جانے کے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٧) بس زندگی تو یہی ہماری دنیوی زندگی ہے اس میں باپ دادا مرتے ہیں اور اولاد پیدا ہوتی ہے اور ہم مرنے کے بعد دوبارہ زندہ نہیں کیے جائیں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani