یہاں بھی انکار کے لیے دلیل انہوں نے حضرت موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) کی بشریت ہی پیش کی اور اسی بشریت کی تاکید کے لیے انہوں نے کہا کہ یہ دونوں اسی قوم کے افراد ہیں جو ہماری غلام ہے۔
[٤٩] یعنی دوسرے انبیاء کا تکذیب کرنے والے چودھری حضرات تو اپنے انکار کی صرف ایک وجہ بتلاتے تھے کہ یہ نبی بھی ہم جیسا ہی انسان ہے اور اس میں ایسی کون سی خوبی ہے کہ ہم اس پر ایمان لائیں فرعون اور اس کے سرداروں نے اس وجہ کے ساتھ ایک اور وجہ بھی بیان کردی کہ ان نبیوں کی برادری تو ہماری غلام ہے۔ لہذا ہم ان پر ایمان لاکر دوہری رسوائی کیسے قبول کریں۔- یہاں عٰبِدُوْنَ کے لفظ سے عبارت کا مفہوم کھل کر سامنے آجاتا ہے کہ عبادت محض پوجا پاٹ کا نام نہیں۔ کیونکہ بنی اسراویل فرعونیوں کا پوجا پاٹ نہیں کرتے تھے۔ بلکہ عبادت کا لفظ اپنے وسیع معنوں میں ہمہ وقت کی غلامی اور فرمانبرداری کے لئے استعمال ہوتا ہے۔
فَقَالُوْٓا اَنُؤْمِنُ لِبَشَرَيْنِ مِثْلِنَا ۔۔ : تکبر اور سرکشی کے نتیجے میں انھوں نے موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) کی بات ماننے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ کیا ہم اپنے جیسے دو انسانوں کی بات پر ایمان لے آئیں، جب کہ ان کے لوگ ہمارے غلام ہیں اور ہم ان سے بلند تر ہیں۔ پہلا اعتراض موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) کی ذات پر ہے اور دوسرا ان کی قوم پر ہے۔ تعجب ہوتا ہے کہ انھوں نے کھانے پینے اور چلنے پھرنے میں رسولوں کو اپنے جیسا بشر تو دیکھ لیا اور اسے جھٹلانے کا بہانہ بھی بنا لیا، مگر یہ نہ دیکھا کہ وہ ان کے دلائل و معجزات کے سامنے لاجواب ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں ہونے کے باوجود انھیں قتل کرنے سے عاجز ہیں۔ کم از کم وہ یہی سوچ لیتے کہ کوئی بشر وہ ہے جو جاہل اور عقل سے خالی ہے اور کوئی بشر وہ ہے جو اتنا علم اور اتنی عقل رکھتا ہے کہ بیان سے باہر ہے۔ جب علم و عقل میں اتنا تفاوت ہوسکتا ہے تو رسالت کا تفاوت کیوں نہیں ہوسکتا ؟ اور اللہ اپنے کسی بندے پر یہ احسان کیوں نہیں کرسکتا۔ دیکھیے سورة ابراہیم (١٠، ١١) ۔
فَقَالُوْٓا اَنُؤْمِنُ لِبَشَرَيْنِ مِثْلِنَا وَقَوْمُہُمَا لَنَا عٰبِدُوْنَ ٤٧ۚ- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- بشر - وخصّ في القرآن کلّ موضع اعتبر من الإنسان جثته وظاهره بلفظ البشر، نحو : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان 54] ،- ( ب ش ر ) البشر - اور قرآن میں جہاں کہیں انسان کی جسمانی بناوٹ اور ظاہری جسم کا لحاظ کیا ہے تو ایسے موقع پر خاص کر اسے بشر کہا گیا ہے جیسے فرمایا : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان 54] اور وہی تو ہے جس نے پانی سے آدمی پیدا کیا ۔ إِنِّي خالِقٌ بَشَراً مِنْ طِينٍ [ ص 71] کہ میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں ۔ - عبد - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔
(٤٧) اور کہنے لگے کیا ہم ایسے دو شخصوں پر یعنی موسیٰ (علیہ السلام) و ہارون (علیہ السلام) پر جو کہ ہماری ہی طرح ہیں ایمان لے آئیں حالانکہ ان کی قوم کے لوگ ہمارے غلام ہیں۔
آیت ٤٧ (فَقَالُوْٓا اَنُؤْمِنُ لِبَشَرَیْنِ مِثْلِنَا وَقَوْمُہُمَا لَنَا عٰبِدُوْنَ ) ” - فرعون اور اس کے درباریوں نے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہ السلام) پر ایک اعتراض تو وہی کیا جو حضرت نوح ‘ حضرت ہود اور حضرت صالح (علیہ السلام) کی قومیں اپنے رسولوں کے بارے میں کرچکی تھیں۔ یعنی یہ کہ وہ ہماری طرح کے انسان ہیں۔ لیکن یہاں ایک دوسرا مسئلہ بھی تھا اور وہ یہ کہ حضرت موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) کا تعلق فرعون کی محکوم قوم سے تھا۔ بنی اسرائیل مصر میں فرعون کے غلام تھے اور وہ کیسے برداشت کرسکتا تھا کہ اس کی غلام قوم کے دو اشخاص اس کے سامنے کھڑے ہو کر اس سے دو بدو بات کریں۔ - سیاق وسباق کے حوالے سے یہاں پر لفظ ” عبادت “ کے اصل مفہوم کو بھی سمجھ لیں۔ ظاہر ہے کہ اس لفظ کا جو مفہوم آج ہمارے ذہنوں میں ہے بنی اسرائیل اس مفہوم میں فرعون یا اس کی قوم کی عبادت نہیں کرتے تھے ‘ یعنی وہ ان کی پرستش یا پوجا نہیں کرتے تھے ‘ بلکہ وہ ان کی اطاعت کرتے تھے اور یہاں فرعون نے اسی اطاعت کو لفظ ” عبادت “ سے تعبیر کیا ہے۔ چناچہ فرعون کے اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی قوم ہماری غلام ہے ‘ ہماری اطاعت شعار ہے ‘ ہم ان پر مطلق اختیار رکھتے ہیں ‘ ہم جو چاہیں انہیں حکم دیں اور جیسا قانون ہم چاہیں ان پر لاگو کریں۔ ہم چاہیں تو ان کے لڑکوں کو قتل کرواتے رہیں اور چاہیں تو ان کی بیٹیوں کو زندہ رہنے دیا کریں۔ یہ لوگ ہمارے غلام اور محکوم ہونے کے باعث ہمارے کسی حکم سے سرتابی کی جرأت نہیں کرسکتے۔
سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :40 اصل میں وَکَانُوْا قَوْماً عٓالِیْنَ کے الفاظ ہیں ، جن کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ بڑے گھمنڈی ، ظالم اور دراز دست تھے ۔ دوسرے یہ کہ وہ بڑے اونچے بنے اور انہوں نے بڑی دوں کی لی ۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :40 ( الف ) تشریح کے لئے ملاحظہ ہو حاشیہ ۲٦ ۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :41 اصل الفاظ ہیں جن کی قوم ہماری عابد ہے ۔ عربی زبان میں کسی کا مطیع فرمان ہونا اور اس کا عبادت گزار ہونا ، دونوں تقریباً ہم معنی الفاظ ہیں ، جو کسی کی بندگی و اطاعت کرتا ہے وہ گویا اس کی عبادت کرتا ہے ۔ اس سے بڑی اہم روشنی پڑتی ہے لفظ عبادت کے معنی پر اور انبیاء علیہم السلام کی اس دعوت پر کہ صرف اللہ کی عبادت کرنے اور اس کے سوا ہر ایک کی عبادت چھوڑ دینے کی تلقین جو وہ کرتے تھے اس کا پورا مفہوم کیا تھا عبادت ان کے نزدیک صرف پوجا نہ تھی ۔ ان کی دعوت یہ نہیں تھی کہ صرف پوجا اللہ کی کرو ، باقی بندگی و اطاعت جس کی چاہو کرتے رہو ۔ بلکہ وہ انسان کو اللہ کا پرستار بھی بنانا چاہتے تھے اور مطیع فرمان بھی ، اور ان دونوں معنوں کے لحاظ سے دوسروں کی عبادت کو غلط ٹھہراتے تھے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، الکہف حاشیہ 50 )
19: حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کی قوم بنی اسرائیل تھی جسے فرعون نے غلام بنایا ہوا تھا۔