فَكَذَّبُوْهُمَا فَكَانُوْا مِنَ الْمُهْلَكِيْنَ : فاء سببیہ ہے، یعنی تکبر جھٹلانے کا سبب بنا اور جھٹلانا ہلاک کیے جانے والوں میں شامل ہونے کا باعث بنا۔- فَكَانُوْا مِنَ الْمُهْلَكِيْنَ : یعنی بجائے اس کے کہ وہ عام عادت کے مطابق یکے بعد دیگرے فوت ہوں، جھٹلانے کے باعث سمندر میں ڈبو کر ہلاک کیے جانے والوں میں شامل ہوگئے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة یونس (٩٠ تا ٩٢) ” مِنَ الْمُهْلَكِيْنَ “ میں قریش کے لیے بھی دھمکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ اپنے رسولوں کو جھٹلانے والوں کو ہلاک کردیا کرتا ہے۔
فَكَذَّبُوْہُمَا فَكَانُوْا مِنَ الْمُہْلَكِيْنَ ٤٨- هلك - الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه :- افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله :- وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] ويقال : هَلَكَ الطعام .- والثالث :- الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار :- وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية 24] .- ( ھ ل ک ) الھلاک - یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ایک یہ کہ - کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔- دوسرے یہ کہ - کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ - موت کے معنی میں - جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔
(٤٨۔ ٤٩) غرض کہ وہ لوگ ان دونوں کی رسالت کو جھٹلاتے رہے، نتیجہ یہ ہوا کہ سب کے سب دریا میں غرق کیے گئے اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو توریت عطا کی تاکہ وہ لوگ گمراہی سے ہدایت پائیں۔
سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :42 قصۂ موسیٰ و فرعون کی تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو البقرہ ، آیات 49 ۔ 50 ۔ الاعراف 103 تا 136 ۔ یونس 75 تا 92 ۔ ہود 96 تا 99 ۔ بنی اسرائیل 101 تا 104 ۔ ظٰہٰ 9 ۔ 80 ۔