4 9 1امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات، فرعون اور اس کی قوم کو غرق کرنے کے بعد دی گئی۔ اور نزول تورات کے بعد اللہ نے کسی قوم کو عذاب عام سے ہلاک نہیں کیا۔ بلکہ مومنوں کو حکم دیا جاتا رہا کہ وہ کافروں سے جہاد کریں۔
[٥٠] اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب تورات فرعون اور اس کے سرداروں کی غرقابی کے بعد دی گئی تھی۔ دوسرے یہ کہ جو کہ احکام موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات کے نازل ہونے سے پہلے دیئے گئے تھے وہ بھی موسیٰ (علیہ السلام) اور آپ پر ایمان لانے والوں کے لئے اسی طرح قابل اتباع تھے جس طرح تورات کے احکام۔ اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نبی ہر کتاب اللہ کے علاوہ اللہ کی طرف سے اور بھی بہت کچھ نازل ہوتا ہے۔ اور اس کی اتباع بھی اسی طرح واجب ہوتی ہے جیسے کتاب اللہ کی اور اس میں ان لوگوں کا پورا رد موجود ہے جو کہتے ہیں کہ ہمیں ہدایت کے لئے صرف قرآن ہی کافی ہے۔
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُوْنَ : موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب تورات فرعونیوں کو غرق کرنے کے بعد ملی، جیسا کہ سورة اعراف (١٣٦ تا ١٤٥) میں فرعون کے غرق ہونے کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کے چالیس راتوں کے لیے طور پر اعتکاف اور دیدارِ الٰہی والے معاملے کے بعد الواح کی صورت میں کتاب عطا فرمانے کا ذکر ہے۔ ابن کثیر (رض) نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات فرعون اور قبطیوں کو غرق کرنے کے بعد نازل فرمائی اور تورات نازل کرنے کے بعد کسی امت کو عام عذاب کے ساتھ ہلاک نہیں فرمایا، بلکہ ایمان والوں کو کفار کے ساتھ لڑنے کا حکم دیا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِ مَآ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰى بَصَاۗىِٕرَ للنَّاسِ وَهُدًى وَّرَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ ) [ القصص : ٤٣ ] ” اور بلاشبہ یقیناً ہم نے موسیٰ کو کتاب دی، اس کے بعد کہ ہم نے پہلی نسلوں کو ہلاک کردیا، جو لوگوں کے لیے دلائل اور ہدایت اور رحمت تھی، تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ “ اس لیے ” لَعَلَّهُمْ “ (تاکہ وہ) میں ضمیر ” ھُمْ “ بنی اسرائیل ہی کے لیے قرار دی جائے گی، فرعونیوں کے لیے نہیں۔ - يَهْتَدُوْنَ : یعنی کتاب تو اس لیے تھی کہ بنی اسرائیل ہدایت حاصل کریں، مگر اپنے آپ میں نبی کو موجود پا کر، اس کے معجزوں کو آنکھوں سے دیکھ کر اور اس پر نازل ہونے والی کتاب کو سن کر بھی ان کے اکثر سیدھی راہ پر نہیں آئے۔ جیسا کہ قرآن میں جا بجا ان کی نافرمانی کے قصے مذکور ہیں۔ امت مسلمہ کو تنبیہ ہے کہ دیکھنا تمہارا حال بھی ان کی طرح نہ ہوجائے۔
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ لَعَلَّہُمْ يَہْتَدُوْنَ ٤٩- كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - لعل - لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] - ( لعل ) لعل - ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔- هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔