ربوہ کے معنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور مریم کو اللہ نے اپنی قدرت کاملہ کے اظہار کی ایک زبردست نشانی بنایا آدم کو مرد وعورت کے بغیر پیدا کیا حوا کو صرف مرد سے بغیر عورت کے پیدا کیا عیسیٰ علیہ السلام کو صرف عورت سے بغیر مرد کے پیدا کیا ۔ بقیہ تمام انسانوں کو مرد وعورت سے پیدا کیا ۔ ربوہ کہتے ہیں بلند زمین کو جو ہری اور پیداوار کے قابل ہو وہ جگہ گھاس پانی والی تروتازہ اور ہری بھری تھی ۔ جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے اس غلام اور نبی کو اور انکی صدیقہ والدہ کو جو اللہ کی بندی اور لونڈی تھیں جگہ دی تھی ۔ وہ جاری پانی والی صاف ستھری ہموار زمین تھی ۔ کہتے ہیں یہ ٹکڑا مصر کا تھا یا دمشق کا یا فلسطین کا ۔ ربوۃ ریتلی زمین کو بھی کہتے ہیں ۔ چنانچہ ایک بہت ہی غریب حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا تھا کہ تیرا انتقال ربوہ میں ہوگا ۔ وہ ریتلی زمین میں فوت ہوئے ۔ ان تمام اقوال میں زیادہ قریب قول وہ ہے کہ مراد اس سے نہر ہے جیسے اور آیت میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے آیت ( قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيًّا 24 ) 19-مريم:24 ) تیرے رب نے تیرے قدموں تلے ایک جاری نہر بہادی ہے ۔ پس یہ مقام بیت المقدس کا مقام ہے تو گویا اس آیت کی تفسیر یہ آیت ہے اور قرآن کی تفسیر اولاً قرآن سے پھر حدیث سے پھر آثار سے کرنی چاہے ۔
5 0 1کیونکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت بغیر باپ کے ہوئی، جو رب کی قدرت کی ایک نشانی ہے، جس طرح آدم (علیہ السلام) کو بغیر ماں باپ کے اور ہوا کو بغیر مادہ کے حضرت آدم (علیہ السلام) سے اور دیگر تمام انسانوں کو ماں اور باپ سے پیدا کرنا اس کی نشانیوں میں سے ہے۔ 5 0 2رَبْوَۃٍ (بلند جگہ) سے بیت المقدس اور مَعِیْنٍ (چشمہ جاری) سے وہ چشمہ مراد ہے جو ایک قول کے مطابق ولادت عیسیٰ (علیہ السلام) کے وقت اللہ نے بطور معجزہ، حضرت مریم کے پیروں کے نیچے سے جاری فرمایا تھا۔ جیسا سورة مریم میں گزرا۔
[٥١] اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ابن مریم بھی ایک نشانی تھے اور ان کی والدہ بھی ایک نشانی تھی۔ بلکہ یوں فرمایا ان دونوں کو ملا کر ایک نشانی بنایا۔ اور اس کی صورت صرف یہی رہ جاتی ہے کہ حضرت عیسیٰ کی ولادت کو بن باپ تسلیم کیا جاوے نیز یہ بھی کہ حضرت مریم کسی مرد کے چھوئے بغیر ہی نفحہ الٰہی سے حاملہ ہوئی تھیں۔- [٥٢] ربوۃ سے مراد ایسی زمین ہے جو عام سطح زمین سے قدرے بلند ہو اور اس کی بھربھری اور ریتلی قسم کی ہو۔ ایسی زمین پانی کو اپنے اندر جذب کرکے خوب پھول جاتی ہے۔ پنجابی میں ایسی زمین کو میرا زمین کہتے ہیں۔ اس زمین کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ عام زمین کی نسبت سرسبز و شاداب بھی زیادہ ہوتی ہے اور بلند بھی ہوتی ہے۔- اب اس ربوۃ کی تعین میں مفسرین کا اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہی بلند مقام ہے جہاں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش واقع ہوئی تھی اور اللہ تعالیٰ نے وہاں ایک چشمہ بھی جاری کردیا تھا اور کھجور کے ٹنڈ درخت سے اللہ کے حکم سے تازہ کھجوریں گرنے لگی تھیں۔ اور بعض کہتے ہیں کہ اس وقت کا ظالم یہودی بادشاہ ہیروڈس حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا دشمن بن گیا تھا۔ حضرت مریم ان کی حفاظت کی خاطر اللہ کے حکم سے مصر کی طرف ہجرت کر گئیں۔ اور ایک بلند چشمہ دار جگہ پر قصبہ میں مقیم ہوئیں جسے رطہ کہتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) وہیں جوان ہوئے پھر جب ہیروڈس مرگیا تو حضرت مریم انھیں لے کر اپنے وطن واپس آگئیں۔ اسرائیل روایات اسی توجیہ کی تائید کرتی ہیں۔- اور ربوۃ کے ساتھ ذات قرار سے مراد ایسی جگہ ہے جہاں ضروریات زندگی مہیا ہوسکتی ہوں اور انسان کو وہاں قیام کرنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ اور معین کا لفظ تائید مزید کے لئے ہے۔ جس کا معنی جاری پانی، نتھرا پانی، بہتا ہوا چشمہ، ٹھنڈا اور میٹھا پانی سب کچھ آتا ہے۔- بیسویں صدی عیسوی کے آغاز میں ہندوستان کے ضلع گورداسپور میں واقع ایک قصبہ قادیان میں ایک شخص مرزا غلام احمد نے نبوت کا دعویٰ کردیا۔ وہ خود تو وہیں قادیان میں دفن ہوا اور ان کا مقبرہ بھی وہیں بنا۔ ١٩٤٧ ء میں پاکستان بنا تو مرزا صاحب کی امت وہاں سے پاکستان کے ضلع جھنگ میں منتقل ہوئی اسی طرح ایک بلند زمین اپنے ہیڈکوارٹر کے لئے منتخب کی اور اس کا نام ربوہ رکھ لیا۔ مرزا صاحب کے خلیفے اور اولاد وہیں اقامت پذیر ہیں۔- مرزا صاحب نے صرف نبوت کا ہی دعویٰ نہیں کیا بلکہ مسیح موعود ہونے کا دعویٰ بھی کیا تھا۔ آپ عیسیٰ (علیہ السلام) کی معجزانہ پیدائش کے تو قائل تھے لیکن رفع عیسیٰ کے قائل نہیں تھے۔ کیونکہ اگر وہ اس کے قائل ہوتے تو آپ کو مسیح موعود بننے میں مشکل پیش آتی تھی۔ آپ کی امت نے تو جھنگ میں ایک ربوہ بنالیا لیکن آپ نے کشمیر کو ربوہ قرار دیا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طبعی موت قرار دینے کے بعد فرمایا کہ ان کی قبر کشمیر میں ہے۔ کشمیر کے صدر مقام سری نگر کے محلہ خانیار میں ایک قبر یوسف آز کے نام سے مشہور ہے۔ عوام میں یہ بات مشہور ہے کہ یہ کسی نبی کی قبر ہے جو کوئی شہزادہ تھا اور کسی دوسرے ملک سے یہاں آیا تھا۔ مرزا صاحب کے مقصد کے لئے یہ بےسروپا افواہیں ہی کافی تھیں۔ چناچہ آپ کو الہام ہوگیا کہ یہ قبر تو عیسیٰ (علیہ السلام) ہی کی ہے۔ اب اگر آپ کی امت کے بقول آپ کے الہام کو درست سمجھ بھی لیا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس آیت میں صرف حضرت عیسیٰ کا ذکر نہیں بلکہ ان کی والدہ کا بھی ذکر ہے لہذا آپ کو الہام تو دو قبروں کا ہونا چاہئے تھا۔ مگر افسوس ہے کہ وہاں قبر صرف ایک ہی ہے۔ اس سے آپ کی نبوت اور الہامات کی بھی قلعی کھل جاتی ہے۔
وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَاُمَّهٗٓ اٰيَةً : ” اٰيَةً “ میں تنوین تعظیم کی ہے ” عظیم نشانی۔ “ یہ نہیں فرمایا کہ ہم نے ابن مریم کو نشانی بنایا، نہ یہ فرمایا کہ ہم نے ابن مریم اور اس کی ماں کو دو نشانیاں بنایا، بلکہ دونوں کو ملاکر ایک عظیم نشانی قرار دیا، کیونکہ ان دونوں کا وجود اللہ تعالیٰ کی قدرت کا عظیم نشان تھا کہ اس نے آدم (علیہ السلام) کو ماں باپ دونوں کے بغیر پیدا فرمایا، حوا [ کو صرف مرد سے پیدا فرمایا اور مریم [ کے بطن سے عیسیٰ (علیہ السلام) کو بغیر باپ کے پیدا فرمایا۔ جب کہ عام پیدائش ماں باپ دونوں سے ہوتی ہے اور وہ بھی اللہ کی قدرت کا نشان ہے۔- 3 یہاں اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کا نام لینے کے بجائے ” ابن مریم “ فرمایا کہ انھیں خدا قرار دینے والوں کو توجہ دلائی جائے کہ وہ ایک خاتون کے بطن سے پیدا ہوئے تھے، سو خدا کیسے ہوگئے ؟- وَّاٰوَيْنٰهُمَآ اِلٰى رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّمَعِيْنٍ : ” رَبْوَةٍ “ ٹیلا، اونچی جگہ۔ ” ذَاتِ قَرَارٍ “ ہموار، جہاں رہنا آسان ہو۔ ” َّمَعِيْنٍ “ جاری پانی، یہ ” عَانَ یَعِیْنُ “ (بَاعَ یَبِیْعُ ) سے ہو تو ” مَبِیْعٌ“ کے وزن پر اسم مفعول ہے، اصل اس کا ” مَعْیُوْنٌ“ ہے، میم زائد ہے۔ زجاج نے فرمایا : ” َّمَعِيْنٍ “ چشموں میں جاری پانی، گویا یہ ” عَیْنٌ“ (چشمہ) سے مشتق ہے۔ “ ابن الاعرابی نے فرمایا : ” مَعَنَ الْمَاءُ “ ” پانی بہ پڑا۔ “ اس صورت میں اس کا وزن ” فَعِیْلٌ“ ہے اور میم اصلی ہے، جاری پانی۔ (قرطبی)- 3 اس ربوہ (ٹیلا) سے کیا مراد ہے۔ بعض مفسرین نے اس سے مراد سرزمین مصر لی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس زمانے میں ملک شام (جہاں عیسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے) کا حاکم ہیروڈس تھا، وہ نجومیوں سے سن کر کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو سرداری ملے گی، بچپن ہی سے ان کا دشمن ہوگیا تھا اور ان کے قتل کے در پے تھا۔ مریم [ انھیں لے کر مصر چلی گئیں اور جب تک ہیروڈس زندہ رہا واپس نہ آئیں۔ انجیل متیّٰ میں یہ واقعہ اسی طرح مذکور ہے، لیکن حافظ ابن کثیر (رض) نے فرمایا : ” زیادہ ظاہر بات یہ ہے کہ اس سے مراد بیت المقدس کے قریب کھجور والی وہ بلند جگہ ہے جہاں عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت ہوئی اور مریم [ کو نیچے سے آواز دی گئی کہ غم نہ کر، تیرے نیچے تیرے رب نے ایک ندی جاری کردی ہے اور کھجور کے تنے کو اپنی طرف ہلا تو وہ تجھ پر تازہ پکی ہوئی کھجوریں گرائے گی، پس کھا، پی اور ٹھنڈی آنکھ سے رہ۔ (دیکھیے مریم : ٢٣ تا ٢٦) کیونکہ قرآن کی سب سے صحیح تفسیر وہ ہے جو قرآن کی کسی آیت سے ہو، پھر صحیح احادیث سے اور پھر آثار سے۔ “ (ابن کثیر) اسرائیلی روایات کو جب ہم نہ سچا کہہ سکتے نہ جھوٹا تو ان سے کوئی بات کیسے ثابت ہوسکتی ہے ؟
وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَاُمَّہٗٓ اٰيَۃً وَّاٰوَيْنٰہُمَآ اِلٰى رَبْوَۃٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّمَعِيْنٍ ٥٠ۧ- ( ابْنُ )- أصله : بنو، لقولهم في الجمع :- أَبْنَاء، وفي التصغیر : بُنَيّ ، قال تعالی: يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف 5] ، يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات 102] ، يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان 13] ، يا بنيّ لا تعبد الشیطان، وسماه بذلک لکونه بناء للأب، فإنّ الأب هو الذي بناه وجعله اللہ بناء في إيجاده، ويقال لكلّ ما يحصل من جهة شيء أو من تربیته، أو بتفقده أو كثرة خدمته له أو قيامه بأمره : هو ابنه، نحو : فلان ابن الحرب، وابن السبیل للمسافر، وابن اللیل، وابن العلم، قال الشاعر - أولاک بنو خير وشرّ كليهما - وفلان ابن بطنه وابن فرجه : إذا کان همّه مصروفا إليهما، وابن يومه : إذا لم يتفكّر في غده . قال تعالی: وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة 30] - وقال تعالی: إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود 45] ، إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف 81] ، وجمع ابْن : أَبْنَاء وبَنُون، قال عزّ وجل : وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل 72] ، وقال عزّ وجلّ : يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف 67] ، يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف 31] ، يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] ، ويقال في مؤنث ابن : ابْنَة وبِنْت، وقوله تعالی: هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود 78] ، وقوله : لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود 79] ، فقد قيل : خاطب بذلک أکابر القوم وعرض عليهم بناته «1» لا أهل قریته كلهم، فإنه محال أن يعرض بنات له قلیلة علی الجمّ الغفیر، وقیل : بل أشار بالبنات إلى نساء أمته، وسماهنّ بنات له لکون کلّ نبيّ بمنزلة الأب لأمته، بل لکونه أكبر وأجل الأبوین لهم كما تقدّم في ذکر الأب، وقوله تعالی: وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل 57] ، هو قولهم عن اللہ : إنّ الملائكة بنات اللہ .- الابن ۔- یہ اصل میں بنو ہے کیونکہ اس کی جمع ابناء اور تصغیر بنی آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف 5] کہ بیٹا اپنے خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا ۔ يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات 102] کہ بیٹا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ ( گویا ) تم کو ذبح کررہاہوں ۔ يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان 13] کہ بیٹا خدا کے ساتھ شریک نہ کرنا ۔ يا بنيّ لا تعبد الشیطانبیٹا شیطان کی عبادت نہ کرنا ۔ اور بیٹا بھی چونکہ اپنے باپ کی عمارت ہوتا ہے اس لئے اسے ابن کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ باپ کو اللہ تعالٰٰ نے اس کا بانی بنایا ہے اور بیٹے کی تکلیف میں باپ بمنزلہ معمار کے ہوتا ہے اور ہر وہ چیز جو دوسرے کے سبب اس کی تربیت دیکھ بھال اور نگرانی سے حاصل ہو اسے اس کا ابن کہا جاتا ہے ۔ نیز جسے کسی چیز سے لگاؤ ہوا است بھی اس کا بن کہا جاتا جسے : فلان ابن حرب ۔ فلان جنگ جو ہے ۔ ابن السبیل مسافر ابن اللیل چور ۔ ابن العلم پروردگار وہ علم ۔ شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) یہ لوگ خیر وزر یعنی ہر حالت میں اچھے ہیں ۔ فلان ابن بطنہ پیٹ پرست فلان ابن فرجہ شہوت پرست ۔ ابن یومہ جو کل کی فکر نہ کرے ۔ قرآن میں ہے : وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة 30] اور یہود کہتے ہیں کہ عزیز خدا کے بیٹے ہیں اور عیسائی کہتے میں کہ مسیح خدا کے بیٹے ہیں ۔ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود 45] میرا بیٹا بھی میرے گھر والوں میں ہے ۔ إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف 81] کہ اب آپکے صاحبزادے نے ( وہاں جاکر ) چوری کی ۔ ابن کی جمع ابناء اور بنون آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل 72] اور عورتوں سے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کئے يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف 67] کہ بیٹا ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا ۔ يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف 31] ( 3 ) اے نبی آدم ہر نماز کے وقت اپنے تیئں مزین کیا کرو ۔ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] اے نبی آدم ( دیکھنا کہیں ) شیطان تمہیں بہکانہ دے ۔ اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع بنات آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود 78] ( جو ) میری ) قوم کی ) لڑکیاں ہیں تمہارے لئے جائز اور ) پاک ہیں ۔ لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود 79] تمہاری ۃ قوم کی ) بیٹیوں کی ہمیں کچھ حاجت نہیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت لوط (علیہ السلام) نے اکابر قوم خطاب کیا تھا اور ان کے سامنے اپنی بیٹیاں پیش کی تھیں ۔ مگر یہ ناممکن سی بات ہے کیونکہ نبی کی شان سے بعید ہے کہ وہ اپنی چند لڑکیاں مجمع کثیر کے سامنے پیش کرے اور بعض نے کہا ہے کہ بنات سے ان کی قوم کی عورتیں مراد ہیں اور ان کو بناتی اس لئے کہا ہے کہ ہر نبی اپنی قوم کے لئے بمنزلہ باپ کے ہوتا ہے بلکہ والدین سے بھی اس کا مرتبہ بڑا ہوتا ہے جیسا کہ اب کی تشریح میں گزر چکا ہے اور آیت کریمہ : وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل 57] اور یہ لوگ خدا کے لئے تو بیٹیاں تجویز کرتے ہیں ۔ کے مونی یہ ہیں کہ وہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتی ہیں ۔- أوى- المَأْوَى مصدر أَوَى يَأْوِي أَوِيّاً ومَأْوًى، تقول : أوى إلى كذا : انضمّ إليه يأوي أويّا ومأوى، وآوَاهُ غيره يُؤْوِيهِ إِيوَاءً. قال عزّ وجلّ : إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ [ الكهف 10] ، وقال : سَآوِي إِلى جَبَلٍ [هود 43] - ( ا و ی ) الماویٰ ۔- ( یہ اوی ٰ ( ض) اویا و ماوی کا مصدر ہے ( جس کے معنی کسی جگہ پر نزول کرنے یا پناہ حاصل کرنا کے ہیں اور اویٰ الیٰ کذا ۔ کے معنی ہیں کسی کے ساتھ مل جانا اور منضم ہوجانا اور آواہ ( افعال ) ایواء کے معنی ہیں کسی کو جگہ دینا قرآن میں ہے إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ ( سورة الكهف 10) جب وہ اس غار میں جار ہے قَالَ سَآوِي إِلَى جَبَلٍ ( سورة هود 43) اس نے کہا کہ میں ( ابھی ) پہاڑ سے جا لگوں گا ۔ - ربو - رَبْوَة ورِبْوَة ورُبْوَة ورِبَاوَة ورُبَاوَة، قال تعالی:إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ- [ المؤمنون 50] ، قال (أبو الحسن) : الرَّبْوَة أجود لقولهم ربی - فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَداً رابِياً [ الرعد 17] ، فَأَخَذَهُمْ أَخْذَةً رابِيَةً- [ الحاقة 10] ،- ( ر ب و ) ربوۃ - ( مثلثلہ الراء ) ورباوۃ ( بفتح الرء وکسر ھما ) بلند جگہ یا ٹیلے کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔- إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون 50] ایک اونچی جگہ پر جو ٹھہر نے کے قابل اور شاداب ( بھی تھی ) ابوا حسن نے کہا ہے کہ ربوۃ کا لفظ زیادہ جید ہے ۔ فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَداً رابِياً [ الرعد 17] پھر نالے پر پھولا ہوا اجھاگ آگیا ۔- قرار - قَرَّ في مکانه يَقِرُّ قَرَاراً ، إذا ثبت ثبوتا جامدا، وأصله من القُرِّ ، وهو البرد، وهو يقتضي السّكون، والحرّ يقتضي الحرکة، وقرئ : وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ [ الأحزاب 33] «1» قيل «2» : أصله اقْرِرْنَ فحذف إحدی الرّاء ین تخفیفا نحو : فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ [ الواقعة 65] ، أي : ظللتم . قال تعالی: جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ قَراراً [ غافر 64] - ( ق ر ر ) قرر - فی مکانہ یقر قرار ا ( ض ) کے معنی کسی جگہ جم کر ٹھہر جانے کے ہیں اصل میں یہ فر سے ہے جس کے معنی سردی کے ہیں جو کہ سکون کو چاہتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ [ الأحزاب 33 اور اپن گھروں میں ٹھہری رہو ۔ میں ایک قرات وقرن فی بیوتکن ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں اقررن ہے ایک راء کو تخفیف کے لئے خلاف کردیا گیا ہے جیسا کہ آیت ؛ فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ [ الواقعة 65] ، ہے اور ایک ) لام کو تخفیفا حذف کردیا گیا ہے ۔ القرار ( اسم ) ( ٹھہرنے کی جگہ ) قرآن میں ہے : جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ قَراراً [ غافر 64]( جس نے ) زمین کو قرار لگا دبنا یا - عين - ويقال لذي العَيْنِ : عَيْنٌ «3» ، وللمراعي للشیء عَيْنٌ ، وفلان بِعَيْنِي، أي : أحفظه وأراعيه، کقولک : هو بمرأى منّي ومسمع، قال : فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور 48] ، وقال : تَجْرِي بِأَعْيُنِنا - [ القمر 14] ، وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنا[هود 37] ، أي : بحیث نریونحفظ . وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه 39] ، أي : بکلاء تي وحفظي . ومنه : عَيْنُ اللہ عليك أي : كنت في حفظ اللہ ورعایته، وقیل : جعل ذلک حفظته وجنوده الذین يحفظونه، وجمعه : أَعْيُنٌ وعُيُونٌ. قال تعالی: وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود 31] ، رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ- [ الفرقان 74] .- ويستعار الْعَيْنُ لمعان هي موجودة في الجارحة بنظرات مختلفة،- واستعیر للثّقب في المزادة تشبيها بها في الهيئة، وفي سيلان الماء منها فاشتقّ منها : سقاء عَيِّنٌ ومُتَعَيِّنٌ: إذا سال منها الماء، وقولهم : عَيِّنْ قربتک «1» ، أي : صبّ فيها ما ينسدّ بسیلانه آثار خرزه، وقیل للمتجسّس : عَيْنٌ تشبيها بها في نظرها، وذلک کما تسمّى المرأة فرجا، والمرکوب ظهرا، فيقال : فلان يملك كذا فرجا وکذا ظهرا لمّا کان المقصود منهما العضوین، وقیل للذّهب : عَيْنٌ تشبيها بها في كونها أفضل الجواهر، كما أنّ هذه الجارحة أفضل الجوارح ومنه قيل : أَعْيَانُ القوم لأفاضلهم، وأَعْيَانُ الإخوة : لنبي أب وأمّ ، قال بعضهم : الْعَيْنُ إذا استعمل في معنی ذات الشیء فيقال : كلّ ماله عَيْنٌ ، فکاستعمال الرّقبة في المماليك، وتسمية النّساء بالفرج من حيث إنه هو المقصود منهنّ ، ويقال لمنبع الماء : عَيْنٌ تشبيها بها لما فيها من الماء، ومن عَيْنِ الماء اشتقّ : ماء مَعِينٌ. أي : ظاهر للعیون، وعَيِّنٌ أي : سائل . قال تعالی: عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان 18] ، وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر 12] ، فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن 50] ، يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن 66] ، وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ 12] ، فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر 45] ، مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء 57] ، وجَنَّاتٍ وَعُيُونٍ وَزُرُوعٍ [ الدخان 25- 26] . وعِنْتُ الرّجل : أصبت عَيْنَهُ ، نحو : رأسته وفأدته، وعِنْتُهُ : أصبته بعیني نحو سفته : أصبته بسیفي، وذلک أنه يجعل تارة من الجارحة المضروبة نحو : رأسته وفأدته، وتارة من الجارحة التي هي آلة في الضّرب فيجري مجری سفته ورمحته، وعلی نحوه في المعنيين قولهم : يديت، فإنه يقال : إذا أصبت يده، وإذا أصبته بيدك، وتقول : عِنْتُ البئر أثرت عَيْنَ مائها، قال :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون 50] ، فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک 30] . وقیل : المیم فيه أصليّة، وإنما هو من : معنت «2» . وتستعار العَيْنُ للمیل في المیزان ويقال لبقر الوحش : أَعْيَنُ وعَيْنَاءُ لحسن عينه، وجمعها : عِينٌ ، وبها شبّه النّساء . قال تعالی: قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ- [ الصافات 48] ، وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة 22] .- ( ع ی ن ) العین - اور عین کے معنی شخص اور کسی چیز کا محافظ کے بھی آتے ہیں اور فلان بعینی کے معنی ہیں ۔ فلاں میری حفاظت اور نگہبانی میں ہے جیسا کہ ھو بمر ا ئ منی ومسمع کا محاورہ ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور 48] تم تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہو ۔ وہ ہماری آنکھوں کے سامنے چلتی تھی ۔ وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه 39] اور اس لئے کہ تم میرے سامنے پر دریش پاؤ ۔ اور اسی سے عین اللہ علیک ہے جس کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت اور نگہداشت فرمائے یا اللہ تعالیٰ تم پر اپنے نگہبان فرشتے مقرر کرے جو تمہاری حفاظت کریں اور اعین وعیون دونوں عین کی جمع ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود 31] ، اور نہ ان کی نسبت جن کو تم حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو یہ کہتا ہوں کہ ۔ رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان 74] اے ہمارے پروردگار ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے آ نکھ کی ٹھنڈک عطا فرما ۔ اور استعارہ کے طور پر عین کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جو مختلف اعتبارات سے آنکھ میں پائے جاتے ہیں ۔ مشکیزہ کے سوراخ کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ہیئت اور اس سے پانی بہنے کے اعتبار سے آنکھ کے مشابہ ہوتا ہے ۔ پھر اس سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے ۔ سقاء عین ومعین پانی کی مشک جس سے پانی ٹپکتا ہو عین قر بتک اپنی نئی مشک میں پانی ڈالواتا کہ تر ہو کر اس میں سلائی کے سوراخ بھر جائیں ، جاسوس کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ دشمن پر آنکھ لگائے رہتا ہے جس طرح کو عورت کو فرج اور سواری کو ظھر کہا جاتا ہے کیونکہ ان دونوں سے مقصود یہی دو چیزیں ہوتی ہیں چناچنہ محاورہ ہے فلان یملک کذا فرجا وکذا ظھرا ( فلاں کے پاس اس قدر لونڈ یاں اور اتنی سواریاں ہیں ۔ (3) عین بمعنی سونا بھی آتا ہے کیونکہ جو جواہر میں افضل سمجھا جاتا ہے جیسا کہ اعضاء میں آنکھ سب سے افضل ہوتی ہے اور ماں باپ دونوں کی طرف سے حقیقی بھائیوں کو اعیان الاخوۃ کہاجاتا ہے ۔ (4) بعض نے کہا ہے کہ عین کا لفظ جب ذات شے کے معنی میں استعمال ہوجی سے کل مالہ عین تو یہ معنی مجاز ہی ہوگا جیسا کہ غلام کو رقبۃ ( گردن ) کہہ دیا جاتا ہے اور عورت کو فرج ( شرمگاہ ) کہہ دیتے ہیں کیونکہ عورت سے مقصود ہی یہی جگہ ہوتی ہے ۔ (5) پانی کے چشمہ کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ کیونکہ اس سے پانی ابلتا ہے جس طرح کہ آنکھ سے آنسو جاری ہوتے ہیں اور عین الماء سے ماء معین کا محاورہ لیا گیا ہے جس کے معنی جاری پانی کے میں جو صاف طور پر چلتا ہوا دکھائی دے ۔ اور عین کے معنی جاری چشمہ کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان 18] یہ بہشت میں ایک چشمہ ہے جس کا نام سلسبیل ہے ۔ وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر 12] اور زمین میں چشمے جاری کردیئے ۔ فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن 50] ان میں دو چشمے بہ رہے ہیں ۔ يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن 66] دو چشمے ابل رہے ہیں ۔ وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ 12] اور ان کیلئے ہم نے تانبے کا چشمہ بہا دیا تھا ۔ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر 45] باغ اور چشموں میں ۔ مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء 57] باغ اور چشمے اور کھیتیاں ۔ عنت الرجل کے معنی ہیں میں نے اس کی آنکھ پر مارا جیسے راستہ کے معنی ہوتے ہیں میں نے اس کے سر پر مارا فادتہ میں نے اس کے دل پر مارا نیز عنتہ کے معنی ہیں میں نے اسے نظر بد لگادی جیسے سفتہ کے معنی ہیں میں نے اسے تلوار سے مارا یہ اس لئے کہ اہل عرب کبھی تو اس عضو سے فعل مشتق کرتے ہیں جس پر مارا جاتا ہے اور کبھی اس چیز سے جو مار نے کا آلہ ہوتی ہے جیسے سفتہ ورمحتہ چناچہ یدیتہ کا لفظ ان ہر دومعنی میں استعمال ہوتا ہے یعنی میں نے اسے ہاتھ سے مارا یا اس کے ہاتھ پر مارا اور عنت البئر کے معنی ہیں کنواں کھودتے کھودتے اس کے چشمہ تک پہنچ گیا قرآن پاک میں ہے :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون 50] ایک اونچی جگہ پر جو رہنے کے لائق تھی اور ہوا پانی جاری تھا ۔ فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک 30] تو ( سوائے خدا کے ) کون ہے جو تمہارے لئے شیریں پال کا چشمہ بہالائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ معین میں لفظ میم حروف اصلیہ سے ہے اور یہ معنت سے مشتق ہے جسکے معنی ہیں کسی چیز کا سہولت سے چلنا یا بہنا اور پر بھی بولا جاتا ہے اور وحشی گائے کو آنکھ کی خوب صورتی کہ وجہ سے اعین دعیناء کہاجاتا ہے اس کی جمع عین سے پھر گاواں وحشی کے ساتھ تشبیہ دے کر خوبصورت عورتوں کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ [ الصافات 48] جو نگاہیں نیچی رکھتی ہوں ( اور ) آنکھیں بڑی بڑی ۔ وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة 22] اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں ۔
(٥٠) اور ہم نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ کو بڑی نشانی بنایا کہ بغیر باپ کے اور بغیر کسی انسانی تعلق کے پیدا ہوئے یہ دونوں کے لیے قدرت کاملہ کی عظیم نشانی ہے اور ہم نے ان دونوں کو ایسی بلند زمین میں لے جا کر پناہ دی جو پھلوں کی وجہ سے اور نہر جاری ہونے کی وجہ سے سرسبز و شاداب جگہ تھی یعنی دمشق۔
(وَّاٰوَیْنٰہُمَآ اِلٰی رَبْوَۃٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّمَعِیْنٍ ) ” - یہاں جس جگہ کا ذکر ہوا ہے اس کے مقام اور زمانے کے بارے میں اختلاف ہے۔ اس بارے میں ایک رائے تو یہ ہے کہ اس سے مراد وہی ٹیلا ہے جہاں ایک کھجور کے سایے میں حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی ولادت ہوئی تھی۔ شاید آپ ( علیہ السلام) کی ولادت کے بعد ماں بیٹا کچھ عرصہ اسی جگہ پر قیام پذیر رہے ہوں۔ اس کے برعکس کچھ لوگوں کی رائے میں یہ کسی اور جگہ کا ذکر ہے۔ اس دوسری رائے کی بنیاد جن معلومات پر ہے ان کے مطابق حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی پیدائش کے وقت اس علاقے میں ہیرودیس بادشاہ کی حکومت تھی جو یہودی تھا۔ جس طرح برصغیر میں انگریزوں کی طرف سے راجوں اور نوابوں کو ان کے علاقوں میں حکمران بنا دیا جاتا تھا اسی طرح رومن شہنشاہ نے اس علاقے میں اس شخص کو بادشاہ مقرر کر رکھا تھا۔ اس کٹھ پتلی بادشاہ کو ایک خواب آیا تھا جس کی بنا پر نجومیوں نے اس کے دل میں یہ وہم ڈال دیا کہ تمہاری سلطنت میں ایک ایسا بچہ پیدا ہونے والا ہے جو بڑا ہو کر تمہاری ہلاکت کا باعث بنے گا۔ چناچہ اس نے حکم دے رکھا تھا کہ اس کی سلطنت میں جو لڑکا بھی پیدا ہو ‘ اسے قتل کردیا جائے۔ اِن حالات میں حضرت مریم ‘ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ٰ کو لے کر مصر چلی گئیں اور اس یہودی بادشاہ کے انتقال کے بعد اس وقت واپس آئیں جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ٰ دس بارہ سال کی عمر کو پہنچ چکے تھے۔ اس واقعہ کا ذکر بائبل میں بھی ہے۔ چناچہ جو لوگ اس روایت کو درست سمجھتے ہیں ان کا خیال ہے کہ اپنی اس جلاوطنی کے دوران مصر میں جس جگہ پر انہوں نے قیام کیا تھا آیت زیر نظر میں اس جگہ کا ذکر کیا گیا ہے۔
سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :43 یہ نہیں فرمایا کہ ایک نشانی ابن مریم تھے اور ایک نشانی خود مریم ۔ اور یہ بھی نہیں فرمایا کہ ابن مریم اور اس کی ماں کو دو نشانیاں بنایا ۔ بلکہ فرمایا یہ ہے کہ وہ دونوں مل کر ایک نشانی بنائے گئے ۔ اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہو سکتا ہے کہ باپ کے بغیر ابن مریم کا پیدا ہونا ، اور مرد کی صحبت کے بغیر مریم کا حاملہ ہونا ہی وہ چیز ہے جو ان دونوں کو ایک نشانی بناتی ہے ۔ جو لوگ حضرت عیسیٰ کی پیدائش بے پدر کے منکر ہیں وہ ماں اور بیٹے کے ایک آیت ہونے کی کیا توجیہ کریں گے ؟ ( مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، آل عمران ، حواشی 44 ۔ 53 ۔ النساء حواشی 190 ۔ 212 ۔ 213 ۔ جلد سوم ، مریم ، حواشی 15 تا 22 الانبیاء ، حواشی 89 ۔ 90 ) ۔ یہاں دو باتیں اور بھی قابل توجہ ہیں ۔ اول یہ کہ حضرت عیسیٰ اور ان کی والدہ ماجدہ کا معاملہ جاہل انسانوں کی ایک دوسری کمزوری کی نشان دہی کرتا ہے ۔ اوپر جن انبیاء کا ذکر تھا ان پر تو ایمان لانے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا گیا کہ تم بشر ہو ، بھلا بشر بھی کہیں نبی ہو سکتا ہے ۔ مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ کے جب لوگ معتقد ہوئے تو پھر ایسے ہوئے کہ انہیں بشریت کے مقام سے اٹھا کر خدائی کے مرتبے تک پہنچا دیا ۔ دوم یہ کہ جن لوگوں نے حضرت عیسیٰ کی معجزانہ پیدائش ، اور ان کی گہوارے والی تقریر سے اس کے معجزہ ہونے کا کھلا کھلا ثبوت دیکھ لینے کے باوجود ایمان لانے سے انکار کیا اور حضرت مریم پر تہمت لگائی انکو پھر سزا بھی ایسی دی گئی کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دنیا کے سامنے ایک نمونہ عبرت بن گئی ۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :44 مختلف لوگوں نے اس سے مختلف مقامات مراد لیے ہیں ۔ کوئی دمشق کہتا ہے ، کوئی الرَّملہ ، کوئی بیت المقدس ، اور کوئی مصر مسیحی روایات کے مطابق حضرت مریم حضرت عیسیٰ کی پیدائش کے بعد ان کی حفاظت کے لیے دو مرتبہ وطن چھوڑنے پر مجبور ہوئیں ۔ پہلے ہیرو دیس بادشاہ کے عہد میں وہ انہیں مصر لے گئیں اور اس کی موت تک وہیں رہیں ۔ پھر اَز خِلاؤس کے عہد حکومت میں ان کو گلیل کے شہر ناصرہ میں پناہ لینی پڑی ( متی2 ۔ 13 تا 23 ) ۔ اب یہ بات یقین کے ساتھ نہیں کہی جا سکتی کہ قرآن کا اشارہ کس مقام کی طرف ہے لغت میں ربوہ اس بلند زمین کو کہتے ہیں جو ہموار ہو اور اپنے گرد و پیش کے علاقے سے اونچی ہو ۔ ذات قرار سے مراد یہ ہے کہ اس جگہ ضرورت کی سب چیزیں پائی جاتی ہوں اور رہنے والا وہاں بفراغت زندگی بسر کر سکتا ہو ۔ اور معین سے مراد ہے بہتا ہوا پانی یا چشمہ جاری ۔
20: حضرت عیسیٰ علیہ السلام اﷲ تعالیٰ کی قدرت کی ایک نشانی کے طور پر بغیر باپ کے بیت اللحم کے مقام پر پیدا ہوئے تھے۔ بیت اللحم کا بادشاہ ان کا اور ان کی والدہ کا دُشمن ہوگیا تھا، اس لئے حضرت مریم علیہاالسلام کو وہاں سے نکل کر کسی ایسی جگہ اپنے آپ کو اور اپنے صاحبزادے کو چھپانا پڑا جہاں اُس بادشاہ کی پہنچ نہ ہو۔ قرآنِ کریم فرماتا ہے کہ ہم نے انہیں ایک ایسی بلند جگہ پر پناہ دی جو اُن کے لئے پرسکون بھی تھی، اور وہاں چشمے کا پانی بھی بہتا تھا جو ان کی ضروریات پوری کرسکے۔