اکل حلال کی فضیلت اللہ تعالیٰ اپنے تمام انبیاء علیہ السلام کو حکم فرتا ہے کہ وہ حلال لقمہ کھائیں اور نیک اعمال بجالایا کریں پس ثابت ہوا کہ لقمہ حلال عمل صالحہ کا مددگار ہے پس انبیاء نے سب بھلائیاں جمع کرلیں ، قول ، فعل ، دلالت ، نصیحت ، سب انہوں نے سمیٹ لی ۔ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے سب بندوں کی طرف سے نیک بدلے دے ۔ یہاں کوئی رنگت مزہ بیان نہیں فرمایا بلکہ یہ فرمایا کہ حلال چیزیں کھاؤ ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنی والدہ کے بننے کی اجرت میں سے کھاتے تھے صحیح حدیث میں ہے کوئی نبی ایسا نہیں جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں لوگوں نے پوچھا آپ سمیت؟ آپ نے فرمایا ہاں میں بھی چند قیراط پر اہل مکہ کی بکریاں چرایا کرتا تھا ؟ اور حدیث میں ہے حضرت داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ کی محنت کا کھایا کرتے تھے ۔ بخاری ومسلم کی حدیث میں ہے اللہ کو سب سے زیادہ پسند روزہ داؤد علیہ السلام کا روزہ ہے اور سب سے زیادہ پسندیدہ قیام داؤد علیہ السلام کا قیام ہے ۔ آدھی رات سوتے تھے اور تہائی رات نماز تہجد پڑھتے تھے اور چھٹا حصے سوجاتے تھے اور ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن نہ رکھتے تھے میدان جنگ میں کبھی پیٹھ نہ دکھاتے ۔ ام عبداللہ بن شداد رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دودھ کا ایک پیالہ شام کے وقت بھیجا تاکہ آپ اس سے اپنا روزہ افطار کریں دن کا آخری حصہ تھا اور دھوپ کی تیزی تھی تو آپ نے قاصد کو واپس کردیا اگر تیری بکری کا ہوتا تو خیر اور بات تھی ۔ انہوں نے پیغام بھیجا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے یہ دودھ اپنے مال سے خرید کیا ہے پھر آپ نے پی لیا دوسرے دن مائی صاحبہ حاضر خدمت ہو کر عرض کرتی ہیں کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس گرمی میں میں نے دودھ بھیجا ، بہت دیر سے بھیجا تھا آپ نے میرے قاصد کو واپس کردیا ۔ آپ نے فرمایا ہاں مجھے یہی فرمایا گیا ہے ۔ انبیاء صرف حلال کھاتے ہیں اور صرف نیک عمل کرتے ہیں ، اور حدیث میں ہے آپ نے فرمایا لوگو اللہ تعالیٰ پاک ہے وہ صرف پاک کو ہی قبول فرماتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو بھی وہی حکم دیا ہے جو رسول کو دیا ہے کہ اے رسولو پاک چیز کھاؤ اور نیک کام کرو میں تمہارے اعمال کا عالم ہوں یہی حکم ایمان والوں کو دیا کہ اے ایماندارو جو حلال چیزیں ہم نے تمہیں دے رکھی ہیں انہیں کھاؤ ۔ پھر آپ نے ایک شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے پراگندہ بالوں والا غبار آلود چہرے والا ہوتا ہے لیکن کھانا پہنناحرام کا ہوتا ہے وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف پھیلا کر اے رب اے رب کہتا ہے لیکن ناممکن ہے کہ اس کی دعا قبول فرمائی جائے ۔ امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اس حدیث کو حسن غریب بتلاتے ہیں ۔ پھر فرمایا اے پیغمبرو تمہارا یہ دین ایک ہی دین ہے ایک ہی ملت ہے یعنی اللہ واحد لاشریک لہ کی عبادت کی طرف دعوت دینا ۔ اسی لئے اسی کے بعد فرمایا کہ میں تمہارا رب ہوں ۔ پس مجھ سے ڈرو ۔ سورۃ انبیاء میں اس کی تفسیر وتشریح ہوچکی ہے آیت ( امتہ واحدۃ ) پر نصب حال ہونے کی وجہ ہے ۔ جن امتوں کی طرف حضرت انبیاء علیہم السلام بھیجے گئے تھے انہوں نے اللہ کے دین کے ٹکڑے کردئے اور جس گمراہی پر اڑگئے اسی پر نازاں وفرحاں ہوگئے اس لئے کہ اپنے نزدیک اسی کو ہدایت سمجھ بیٹھے ۔ پس بطور ڈانٹ کے فرمایا انہیں ان کے بہکنے بھٹکنے میں ہی چھوڑ دیجئے یہاں تک کہ ان کی تباہی کا وقت آجائے ۔ کھانے پینے دیجئے ، مست وبے خود ہونے دیجئے ، ابھی ابھی معلوم ہوجائے گا ۔ کیا یہ مغرور یہ گمان کرتے ہیں کہ ہم جو مال واولاد انہیں دے رہے ہیں وہ ان کی بھلائی اور نیکی کی وجہ سے ان کے ساتھ سلوک کررہے ہیں؟ ہرگز نہیں ۔ یہ تو انہیں دھوکا لگا ہے یہ اس سے سمجھ بیٹھے ہیں کہ ہم جیسے یہاں خوش حال ہیں وہاں بھی بےسزا رہ جائیں گے یہ محض غلط ہے جو کچھ انہیں دنیا میں ہم دے رہے ہیں وہ تو صرف ذرا سی دیر کی مہلت ہے لیکن یہ بےشعور ہیں ۔ یہ لوگ اصل تک پہنچے ہی نہیں ۔ جیسے فرمان ہے ۔ آیت ( فَلَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُهُمْ وَلَآ اَوْلَادُهُمْ ۭ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَتَزْهَقَ اَنْفُسُهُمْ وَهُمْ كٰفِرُوْنَ 55 ) 9- التوبہ:55 ) تجھے ان کے مال واولاد دھوکے میں نہ ڈالیں اللہ کا ارادہ تو یہ ہے کہ اس سے انہیں دنیا میں عذاب کرے ۔ اور آیت میں ہے یہ ڈھیل صرف اس لئے دی گئی ہے کہ وہ اپنے گناہوں میں اور بڑھ جائیں ۔ اور جگہ ہے ۔ مجھے اور اس بات کے جھٹلانے والوں کو چھوڑ دے ہم انہیں اس طرح بتدریج پکڑیں گے کہ انہیں معلوم بھی نہ ہو ۔ اور آیتوں میں فرمایا ہے آیت ( ذَرْنِيْ وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِيْدًا 11ۙ ) 74- المدثر:11 ) ، یعنی مجھے اور اسے چھوڑ دے جس کو میں نے تنہا پیدا کیا ہے اور بہ کثرت مال دیا ہے اور ہمہ وقت موجود فرزند دئیے ہیں اور سب طرح کا سامان اس لئے مہیا کردیا ہے پھر اسے ہوس ہے کہ میں اسے اور زیادہ دوں ، ہرگز نہیں وہ ہماری باتوں کا مخالف ہے اور آیت میں ہے ( وَمَآ اَمْوَالُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ بِالَّتِيْ تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْفٰٓي اِلَّا مَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ۡ فَاُولٰۗىِٕكَ لَهُمْ جَزَاۗءُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوْا وَهُمْ فِي الْغُرُفٰتِ اٰمِنُوْنَ 37 ) 34- سبأ:37 ) تمہارے مال اور تمہاری اولادیں تمہیں مجھ سے قربت نہیں دے سکتیں مجھ سے قریب تو وہ ہے جو ایماندار اور نیک عمل ہو ۔ اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں حضرت قتادہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہی اللہ کا شکر ہے پس تم انسانوں کو مال اور اولاد سے نہ پرکھو بلکہ انسان کی کسوٹی ایمان اور نیک عمل ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے اخلاق بھی تم میں اسی طرح تقسیم کئے ہیں جس طرح روزیاں تقسیم فرمائی ہیں اللہ تعالیٰ دنیا تو اسے بھی دیتا ہے جس سے محبت رکھے اور اسے بھی دیتا ہے جس سے محبت نہ رکھے ہاں دین صرف اسی کو دیتا ہے جس سے پوری محبت رکھتا ہو پس جسے اللہ دین دے سمجھو کہ اللہ تعالیٰ اس سے محبت رکھتا ہے اس کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے بندہ مسلمان نہیں ہوتا جب تک کہ اس کا دل اور زبان مسلمان نہ ہوجائے اور بندہ مومن نہیں ہوتا جب تک کہ اس کے پڑوسی اس کی ایذاؤں سے بےفکر نہ ہوجائیں ۔ لوگوں نے پوچھا کہ ایذاؤں سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا دھوکے بازی ، ظلم وغیرہ ۔ سنو جو بندہ حرام مال حاصل کرلے اس کے خرچ میں برکت نہیں ہوتی اس کا صدقہ قبول نہیں ہوتا جو چھوڑ کر جاتا ہے وہ اس کا جہنم کا توشہ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ برائی کو برائی سے نہیں مٹاتا ہاں برائی کو بھلائی سے رفع کرتا ہے ۔ خبیث خبیث کو نہیں مٹاتا ۔
5 1 1طِیِّبٰت سے مراد پاکیزہ اور لذت بخش چیزیں ہیں، بعض نے اس کا ترجمہ حلال چیزیں کیا ہے۔ دونوں ہی اپنی جگہ صحیح ہیں کیونکہ ہر پاکیزہ چیز اللہ نے حلال کردی ہے اور ہر حلال چیز پاکیزہ اور لذت بخش ہے۔ خبائث کو اللہ نے اس لئے حرام کیا ہے کہ وہ اثرات و نتائج کے لحاظ سے پاکیزہ نہیں ہیں۔ حلال روزی کے ساتھ عمل صالح کی تاکید سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور یہ ایک دوسر کے معاون ہیں۔ اسی لئے اللہ نے تمام پیغمبروں کو ان دونوں باتوں کا حکم دیا۔ چناچہ تمام پیغمبر محنت کر کے حلال روزی کمانے اور کھانے کا اہتمام کرتے رہے، جس طرح حضرت داؤد (علیہ السلام) کے بارے میں آتا ہے کہ وہ اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر نبی نے بکریاں چرائی ہیں، میں بھی اہل مکہ کی بکریاں چند سکوں کے عوض چراتا رہا (صحیح بخاری)
[٥٣] خطاب کا یہ انداز اس لحاظ سے نہیں کہ سارے رسول کسی ایک جگہ اکٹھے کئے گئے تھے تو انھیں اس طرح مخاطب کیا گیا ہے۔ بلکہ اس لحاظ سے ہے کہ چونکہ سارے رسولوں کی اصولی تعلیم ایک ہی جیسی رہی ہے۔ لہذا بطور اختصار یہاں خطاب کا مشترکہ انداز اختیار کیا گیا ہے۔ نیز اس آیت میں اگرچہ خطاب رسولوں کو ہے تاہم اس کا حکم عام ہے۔ اور قرآن کریم نے بعض مقامات پر تو یٰاایُّھَا النَّاس کہہ کر حلال اور پاکیزہ چیزیں کھانے کا حکم دیا ہے اور بعض مقامات پر اس حکم کے مخاطب ایمان لانے والے ہیں۔- [٥٤] پاکیزہ چیزوں سے مراد وہ چیزیں ہیں جن کا کھانا شریعت نے حلال قرار دیا ہو اور انھیں حلال ذرائع سے ہی حاصل کیا گیا ہو۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ مرغی بذات خود حلال چیز ہے مگر جب یہ چوری کی ہو تو حرام ہوجائے گی۔ اسی طرح سود یا دوسرے ناجائز ذرائع سے حاصل شدہ حرام مال تصور ہوگا۔ کسب حلال اور حرام سے اجتناب اس قدر اہم حکم ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے نیک اعمال سے پہلے ذکر فرمایا۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کسی کی کمائی حرام کی ہو تو اس کے نیک اعمال بھی قبول نہیں ہوتے۔ اس سلسلہ میں ہم سورة بقرہ کی آیت نمبر ١٦٨ کے تحت آٹھ حدیثیں درج کرچکے ہیں جن کو دوبارہ دیکھ لینا مفید ہوگا۔ تاکہ اس اہم شرعی حکم کی اہمیت پوری طرح معلوم ہوجائے۔- [٥٥] یعنی اگر کسی نے کسب حلال میں حرام کی آمیزش کی ہو تو اسے میں خوب جانتا ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ تمہارے اعمال میں اللہ کی رضا مندی اور خلوص کا حصہ کتنا تھا۔ یہ مطلب اس لحاظ سے ہوگا جب اس خطاب کا روئے سخن عام لوگوں یا ایمانداروں کی طرف سے سمجھا جائے کیونکہ انبیاء سے کسی قسم کی نافرمانی کا انکان نہیں اور اگر اس کا روئے سخن انبیاء کی طرف سمجھا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ میں خوب جانتا ہوں کہ تم نے حق تبلیغ کس حد تک ادا کیا ہے۔
يٰٓاَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّيِّبٰتِ ۔۔ : ابن کثیر (رض) نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ تمام رسولوں کو حکم دے رہے ہیں کہ حلال کھاؤ اور صالح اعمال کرتے رہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ اکل حلال عمل صالح کے لیے مددگار ہے۔ “ (ابن کثیر) ظاہر ہے حلال حاصل کرنے کے لیے محنت بھی کرنا پڑے گی۔ چناچہ نبوت سے پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اجرت پر بکریاں چرائی ہیں اور تجارت بھی کی ہے اور آخر میں تو آپ کو اللہ تعالیٰ نے پاکیزہ ترین رزق مال غنیمت کے ساتھ غنی فرما دیا، چناچہ فرمایا : (فَكُلُوْا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلٰلًا طَيِّبًا) [ الأنفال : ٦٩ ] ” سو اس میں سے کھاؤ جو تم نے غنیمت حاصل کی، اس حال میں کہ حلال، طیب ہے۔ “ مقدام (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَا أَکَلَ أَحَدٌ طَعَامًا قَطُّ خَیْرًا مِنْ أَنْ یَّأْکُلَ مِنْ عَمَلِ یَدِہِ وَ إِنَّ نَبِيَّ اللّٰہِ دَاوٗدَ عَلَیْہِ السَّلَامُ کَانَ یَأْکُلُ مِنْ عَمَلِ یَدِہِ ) [ بخاري، البیوع، باب کسب الرجل و عملہ بیدہ : ٢٠٧٢ ] ” کسی شخص نے کوئی کھانا اس کھانے سے بہتر نہیں کھایا جو وہ اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھائے اور اللہ کے نبی داؤد (علیہ السلام) اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے۔ “ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( کَانَ زَکَرِیَّا نَجَّارًا ) [ ابن ماجہ، التجارات، باب الصناعات : ٢١٥٠، عن أبي ہریرہ (رض) و صححہ الألباني ] ” زکریا (علیہ السلام) نجار (ترکھان) تھے۔ “ اس کی مزید تفصیل اور حرام کھانے والے کی دعا قبول نہ ہونے کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (١٧٢) ۔- اس آیت میں رہبانیت کا بھی رد ہے، جو اللہ کی نعمتیں اپنے آپ پر حرام کرلیتے ہیں۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کے تذکرے کے بعد شاید اسی لیے اس حکم کا ذکر کیا ہے کہ رہبانیت کا حکم کسی بھی رسول کو نہ تھا۔ - اِنِّىْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيْمٌ : اس میں حلال کھانے اور عمل صالح پر جزا کا وعدہ ہے اور اس کے خلاف پر سزا کی وعید ہے۔
خلاصہ تفسیر - ہم نے جس طرح تم کو اپنی نعمتوں کے استعمال کی اجازت دی اور عبادت کا حکم دیا اسی طرح سب پیغمبروں کو اور ان کے واسطے سے ان کی امتوں کو بھی حکم دیا کہ) اے پیغمبرو تم (اور تمہاری امتیں) نفیس چیزیں کھاؤ (کہ خدا کی نعمت ہیں) اور (کھا کر شکر ادا کرو کہ) نیک کام کرو (یعنی عبادت اور) میں تم سب کے کئے ہوئے کاموں کو خوب جانتا ہوں (تو عبادت اور نیک کاموں پر ان کی جزا اور ثمرات عطا کروں گا) اور (ہم نے ان سے یہ بھی کہا کہ جو طریقہ تمہیں ابھی بتایا گیا ہے) یہ ہے تمہارا طریقہ (جس پر تم کو چلنا اور رہنا واجب ہے) کہ وہ ایک ہی طریقہ ہے (سب انبیاء اور ان کی امتوں کا کسی شریعت میں یہ طریقہ نہیں بدلا) اور (حاصل اس طریقہ کا یہ ہے کہ) میں تمہارا رب ہوں تم مجھ سے ڈرتے رہو (یعنی میرے احکام کی مخالفت نہ کرو کیونکہ رب ہونے کی حیثیت سے تمہارا خالق ومالک بھی ہوں اور منعم ہونے کی حیثیت سے تم کو بیشمار نعمتیں بھی دیتا ہوں، ان سب چیزوں کا تقاضا اطاعت و فرمانبرداری ہے) سو (اس کا نتیجہ تو یہ ہونا تھا کہ سب ایک ہی طریقہ مذکورہ پر رہتے مگر ایسا نہ کیا بلکہ) ان لوگوں نے اپنے دین اپنا طریق الگ الگ کر کے اختلاف پیدا کرلیا ہر گروہ کے پاس جو دین (یعنی اپنا بنایا ہوا طریقہ) ہے وہ اسی پر مگن اور خوش ہے (اس کے باطل ہونے کے باوجود اسی کو حق سمجھتا ہے) تو آپ ان کو ان کی جہالت میں ایک خاص وقت تک رہنے دیجئے (یعنی ان کی جہالت پر آپ غم نہ کیجئے جب مقرر وقت ان کی موت کا آ جاوے گا تو سب حقیقت کھل جاوے گی اور اب جو فوری طور پر ان پر عذاب نہیں آتا تو) کیا (اس سے) یہ لوگ یوں گمان کر رہے ہیں کہ ہم ان کو جو کچھ مال و اولاد دیتے ہیں تو ہم ان کو جلدی جلدی فائدے پہنچا رہے ہیں (یہ بات ہرگز نہیں) بلکہ یہ لوگ (اس ڈھیل دینے کی وجہ) نہیں جانتے (یعنی یہ ڈھیل تو ان کو بطور استدراج کے دی جا رہی ہے جو انجام کار ان کے لئے اور زیادہ عذاب کا سبب بنے گی کیونکہ ہماری مہلت اور ڈھیل دینے سے یہ اور مغرور ہو کر سرکشی اور گناہوں میں زیادتی کریں گے اور عذاب زیادہ ہوگا) ۔- معارف و مسائل - يٰٓاَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّيِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا، لفظ طیبات کے لغوی معنی ہیں پاکیزہ نفیس چیزیں۔ اور چونکہ شریعت اسلام میں جو چیزیں حرام کردی گئی ہیں نہ وہ پاکیزہ ہیں نہ اہل عقل کے لئے نفیس و مرغوب۔ اس لئے طیبات سے مراد صرف حلال چیزیں ہیں جو ظاہری اور باطنی ہر اعتبار سے پاکیزہ و نفیس ہیں۔ اس آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ تمام انبیاء (علیہم السلام) کو اپنے اپنے وقت میں دو ہدایات دی گئی ہیں ایک یہ کہ کھانا حلال اور پاکیزہ کھاؤ، دوسرے یہ کہ عمل نیک صالح کرو۔ اور جب انبیاء (علیہم السلام) کو یہ خطاب کیا گیا ہے جن کو اللہ نے معصوم بنایا ہے تو ان کی امت کے لوگوں کے لئے یہ حکم زیادہ قابل اہتمام ہے اور اصل مقصود بھی امتوں ہی کو اس حکم پر چلانا ہے۔- علماء نے فرمایا کہ ان دونوں حکموں کو ایک ساتھ لانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ حلال غذا کا عمل صالح میں بڑا دخل ہے جب غذا حلال ہوتی ہے تو نیک اعمال کی توفیق خود بخود ہونے لگتی ہے اور غذا حرام ہو تو نیک کام کا ارادہ کرنے کے باوجود بھی اس میں مشکلات حائل ہوجاتی ہیں۔ حدیث میں ہے کہ بعض لوگ لمبے لمبے سفر کرتے ہیں اور غبار آلود رہتے ہیں پھر اللہ کے سامنے دعا کے لئے ہاتھ پھیلاتے ہیں اور یا رب یا رب پکارتے ہیں مگر ان کا کھانا بھی حرام ہوتا ہے پینا بھی، لباس بھی حرام ہی تیار ہوتا ہے اور حرام ہی کی ان کو غذا ملتی ہے ایسے لوگوں کی دعا کہاں قبول ہو سکتی ہے۔ (قرطبی)- اس سے معلوم ہوا کہ عبادت اور دعا کے قبول ہونے میں حلال کھانے کو بڑا دخل ہے جب غذا حلال نہ ہو تو عبادت اور دعا کی مقبولیت کا بھی استحقاق نہیں رہتا۔
يٰٓاَيُّہَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّيِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا ٠ۭ اِنِّىْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيْمٌ ٥ ١ۭ- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - أكل - الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد 35] - ( ا ک ل ) الاکل - کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے أُكُلُهَا دَائِمٌ ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔- طيب - يقال : طَابَ الشیءُ يَطِيبُ طَيْباً ، فهو طَيِّبٌ. قال تعالی: فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء 3] ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء 4] ، وأصل الطَّيِّبِ : ما تستلذّه الحواسّ ، وما تستلذّه النّفس، والطّعامُ الطَّيِّبُ في الشّرع : ما کان متناولا من حيث ما يجوز، ومن المکان الّذي يجوز فإنّه متی کان کذلک کان طَيِّباً عاجلا وآجلا لا يستوخم، وإلّا فإنّه۔ وإن کان طَيِّباً عاجلا۔ لم يَطِبْ آجلا، وعلی ذلک قوله : كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة 172] - ( ط ی ب ) طاب ( ض )- الشئی یطیب طیبا فھم طیب ( کے معنی کسی چیز کے پاکیزہ اور حلال ہونے کے ہیں ) قرآن میں ہے : : فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء 3] تو ان کے سوا عورتیں تم کو پسند ہوں ان سے نکاح کرلو ۔ ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء 4] ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے تم کو چھوڑدیں ۔ اصل میں طیب اسے کہا جاتا ہے جس سے انسان کے حواس بھی لذت یاب ہوں اور نفس بھی اور شریعت کی رو سے الطعام الطیب اس کھانے کو کہا جائے گا جو جائز طریق سے حاصل کیا جائے اور جائز جگہ سے جائز انداز کے مطابق لیا جائے کیونکہ جو غذا اس طرح حاصل کی جائے وہ دنیا اور آخرت دونوں میں خوشگوار ثابت ہوگی ورنہ دنیا کی خوشگوار چیزیں آخرت میں نقصان وہ ثابت ہونگی اسی بنا پر قرآن طیب چیزوں کے کھانے کا حکم دیتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة 172] جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں عطا فرمائی ہیں اور ان کو کھاؤ ۔- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - صالح - الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] - ( ص ل ح ) الصالح - ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ - علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا
(٥١) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حلال چیزیں کھاؤ اور خوب نیک کام کرو، آپ اور آپ کی امت جو نیک کام کرتی ہے میں اس کے ثواب سے خوب واقف ہوں۔
سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :45 پچھلے دو رکوعوں میں انبیاء کا ذکر کرنے کے بعد اب یٰٓاَیُّھَا الُّرُسُل کہہ کر تمام پیغمبروں کو خطاب کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کہیں یہ سارے پیغمبر یکجا موجود تھے اور ان سب کو خطاب کر کے یہ مضمون ارشاد فرمایا گیا ۔ بلکہ اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ ہر زمانے میں مختلف قوموں اور مختلف ملکوں میں آنے والے انبیاء کو ایک امت ، ایک جماعت ایک گروہ قرار دیا گیا ہے ، اس لیے طرز بیان یہاں ایسا اختیار کیا گیا کہ نگاہوں کے سامنے ان سب کے ایک گروہ ہونے کا نقشہ کھنچ جائے ۔ گویا وہ سارے کے سارے ایک جگہ جمع ہیں اور سب کو ایک ہی ہدایت دی جا رہی ہے ۔ مگر اس طرز کلام کی لطافت اس دور کے بعض کند ذہن لوگوں کی سمجھ میں نہ آ سکی اور وہ اس سے یہ نتیجہ نکال بیٹھے کہ یہ خطاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آنے والے انبیاء کی طرف ہے اور اس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی سلسلہ نبوت کے جاری ہونے کا ثبوت ملتا ہے ۔ تعجب ہے جو لوگ زبان و ادب کے ذوق لطیف سے اس قدر کورے ہیں وہ قرآن کی تفسیر کرنے کی جرأت کرتے ہیں ۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :46 پاک چیزوں سے مراد ایسی چیزیں ہیں جو بجائے خود بھی پاکیزہ ہوں ، اور پھر حلال طریقے سے بھی حاصل ہوں ۔ طیبات کھانے کی ہدایت کر کے رہبانیت اور دنیا پرستی کے درمیان اسلام کی راہ اعتدال کی طرف اشارہ کر دیا گیا ۔ مسلمان نہ تو راہب کی طرح اپنے آپ کو پاکیزہ رزق سے محروم کرتا ہے ، اور نہ دنیا پرست کی طرح حرام و حلال کی تمیز کے بغیر ہر چیز پر منہ مار دیتا ہے ۔ عمل صالح سے پہلے طیبات کھانے کی ہدایت سے صاف اشارہ اس طرف نکلتا ہے کہ حرام خوری کے ساتھ عمل صالح کے کوئی معنی نہیں ہیں ۔ صلاح کے لیے شرط اول یہ ہے کہ آدمی رزق حلال کھائے ۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگو ، اللہ خود پاک ہے اس لیے پاک ہی چیز کو پسند کرتا ہے پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی اور اس کے بعد فرمایا الرجل یطیل السفر اشعث اغبر و مطعمہ حرام و مشربہ حرام و ملبسہ حرام و غذی بالحرام یمد یدیہ الی السماء یا رب یا رب فانی یستجاب لذالک ۔ ایک شخص لمبا سفر کر کے غبار آلود و پراگندہ حال آتا ہے اور آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر دعائیں مانگتا ہے ، یا رب یا رب ، مگر حال یہ ہوتا ہے کہ روٹی اس کی حرام ، کپڑے اس کے حرام ، اور جسم اس کا حرام کی روٹیوں سے پلا ہوا ۔ اب کس طرح ایسے شخص کی دعا قبول ہو ۔ ( مسلم ، ترمذی ، احمد من حدیث ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ ) ۔