Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

521اُ مَّۃ سے مراد دین ہے، اور ایک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سب انبیاء نے ایک اللہ کی عبادت ہی کی دعوت پیش کی ہے۔ لیکن لوگ دین توحید چھوڑ کر الگ الگ فرقوں میں بٹ گئے اور ہر گروہ اپنے عقیدہ و عمل پر خوش ہے، چاہے وہ حق سے کتنا بھی دور ہو۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٦] امت سے مراد ایسا گروہ ہے جو ہم عقیدہ و ہم خیال ہو۔ اور یہاں تمہاری امت سے مراد انبیاء و رسل کی جماعت بھی ہوسکتی ہے اور ان کے ساتھ ان پر ایمان لانے والے بھی۔ اور یہ پوری کی پوری جماعت متحد العقیدہ تھی۔ یعنی ان سب کی اصولی تعلیم اور اصولی عقائد ایک ہی جیسے رہے ہیں اور وہ یہ ہیں کہ (١) اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا خالق ومالک ہے لہذا وہی اس بات کا مستحق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے اور اس کی ذات وصفات اور عبادات میں کسی دورے کو شریک نہ کیا جائے۔ (٢) یہ دنیا دار الامتحان ہے۔ مرنے کے بعد ہر انسان کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور اسے اللہ کے حضور پیش ہونا پڑے گا۔ دنیا میں جو اعمال وہ کرتا رہا اس کے متعلق اس سے باز پرس ہوگی۔ پھر ہر ایک کو اس کے اچھے یا برے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ لہذا تمہیں صرف مجھ سے ڈرنا چاہئے۔ (٣) کسب حرام سے مکمل طور پر اجتناب یعنی کسی صورت میں بھی دوسرے کے حقوق یا اموال پر ڈاکہ نہ ڈالا جائے اور (٤) اور نیک اعمال بجا لائے جائیں یہ چار باتیں ایسی ہیں جو اصولی نوعیت کی ہیں اور ان کا حکم ہر نبی کو دیا جاتا رہا ہے اور انہی باتوں کا نام دین ہے۔ رہے جزئی احکام جن کا تعلق بالخصوص شق نمبر ٣ سے ہے تو اس میں انبیاء کی شریعتوں میں اختلاف بھی رہا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاِنَّ هٰذِهٖٓ اُمَّتُكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً ۔۔ : اس آیت کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة انبیاء (٩٢) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

وَاِنَّ هٰذِهٖٓ اُمَّتُكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً ، لفظ امت، ایک جماعت اور کسی خاص پیغمبر کی قوم کے معنی میں معروف و مشہور ہے اور کبھی یہ لفظ طریقہ اور دین کے معنی میں بھی آتا ہے جیسے قرآن کی ایک آیت (آیت) وجدنا ابآءنا علی امة، اس میں امت سے مراد ایک دین اور طریقہ ہے۔ یہی معنے اس جگہ بھی مراد ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِنَّ ہٰذِہٖٓ اُمَّتُكُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّاَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّــقُوْنِ۝ ٥٢- الأُمّة :- كل جماعة يجمعهم أمر ما إمّا دين واحد، أو زمان واحد، أو مکان واحد سواء کان ذلک الأمر الجامع تسخیرا أو اختیارا، وجمعها : أمم، وقوله تعالی: وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثالُكُمْ [ الأنعام 38] - - الامۃ - ہر وہ جماعت جن کے مابین رشتہ دینی ہو یا وہ جغرافیائی اور عصری وحدت میں منسلک ہوں پھر وہ رشتہ اور تعلق اختیاری اس کی جمع امم آتی ہے اور آیت کریمہ :۔ وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ ( سورة الأَنعام 38) اور زمین پر جو چلنے پھر نے والے ( حیوان ) دو پروں سے اڑنے والے پرند ہیں وہ بھی تمہاری طرح جماعتیں ہیں - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- وقی - الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35]- ( و ق ی ) وقی ( ض )- وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٢) یہ ہے تمہارا طریقہ اور وہ ایک ہی طریقہ ہے اور یہ ہے تمہارا پسندیدہ دین اور میں تمہارا رب حقیقی وحدہ لاشریک ہوں کہ اس عظیم نعمت کے ساتھ میں نے تمہیں کو سرفراز کیا، سو تم میری ہی اطاعت کرو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٢ (وَاِنَّ ہٰذِہٖٓ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً ) ” - تمام پیغمبروں کا تعلق ایک ہی امت یا جماعت سے ہے۔ بعض روایات کے مطابق انبیاء ورسل ( علیہ السلام) کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے۔ ان میں سے تین سو تیرہ رسول ( علیہ السلام) ہیں اور باقی انبیاء ( علیہ السلام) ۔ ان انبیاء ( علیہ السلام) ورسل ( علیہ السلام) میں سے بعض کا ذکر قرآن میں بھی آیا ہے جبکہ اکثر کا ذکر قرآن میں نہیں ہے۔ سورة النساء ‘ آیت ١٦٤ میں اس بارے میں یوں وضاحت فرمائی گئی ہے : (وَرُسُلاً قَدْ قَصَصْنٰہُمْ عَلَیْکَ مِنْ قَبْلُ وَرُسُلاً لَّمْ نَقْصُصْہُمْ عَلَیْکَ ط) ” اور (بھیجے) وہ رسول ( علیہ السلام) جن کا ہم اس سے پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے تذکرہ کرچکے ہیں ‘ اور ایسے رسول بھی جن کے حالات ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے بیان نہیں کیے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :47 تمہاری امت ایک ہی امت ہے یعنی تم ایک ہی گروہ کے لوگ ہو ۔ امت کا لفظ اس مجموعہ افراد پر بولا جاتا ہے جو کسی اصل مشترک پر جمع ہو ۔ انبیاء چونکہ اختلاف زمانہ و مقام کے باوجود ایک عقیدے ، ایک دین اور ایک دعوت پر جمع تھے ، اس لیے فرمایا گیا کہ ان سب کی ایک ہی امت ہے ۔ بعد کا فقرہ خود بتا رہا ہے کہ وہ اصل مشترک کیا تھی جس پر سب انبیاء جمع تھے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو البقرہ ، آیات 130 تا 133 ۔ 213 ۔ آل عمران ، 19 ۔ 20 ۔ 23 ۔ 34 ۔ 64 ۔ 79 تا 85 ۔ النساء ، 1550 تا 152 ۔ الاعراف 59 ۔ 65 ۔ 73 ۔ 85 ۔ یوسف 37 تا 40 ۔ مریم ، 49 تا 59 ۔ الانبیاء 71 تا 93 ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani