[٥٧] یعنی اصل دین میں چند موٹی موٹی باتیں شامل تھیں۔ اور ہر نبی یہی اصول دین پیش کرتا رہا۔ مگر لوگوں نے انھیں اصول دین میں اختلاف کرکے سینکڑوں فرقے بناڈالے۔ مثلاً پہلی شق توحید ہی کو لیجئے۔ شیطان نے شرک کی بیسیوں نئی سے نئی قسمیں ایجاد کرکے لوگوں کو اس راہ پر ڈال دیا بعض لوگوں نے کسی شخص، نبی یا فرشتوں کو اللہ کی اولاد قرار دیا۔ حلول اور اوتار کا عقیدہ وضع کیا اور اللہ تعالیٰ کو بعض لوگوں کے اجسام میں اتار دیا۔ کسی نے کہا کہ فلاں ہستی اللہ کے نور میں سے (جدا شدہ) نور ہے۔ کئی ہستیوں کو اللہ کے علاوہ عالم الغیب اور حاضر و ناظر تسلیم کیا گیا اور سب سے بڑھکر یہ کہ حضرت انسان نے جسے تمام مخلوق سے افضل و اشرف پیدا کیا گیا تھا، اپنے نفع و نقصان کو پتھروں، درختوں، مویشیوں، ستاروں، جن بھوتوں اور آستانوں سے وابستہ کردیا۔ اور ان کے آگے سرتسلیم خم کرنے لگا۔ انھیں سے مرادیں مانگنے لگا۔- دوسری شق آخرت پر ایمان ہے۔ بعض لوگوں نے تو روز آخرت اور دوبارہ جی اٹھنے کا انکار ہی کردیا۔ اور جنہوں نے اسے تسلیم کیا۔ انہوں نے بھی اس کے تقاضوں کو نہ سمجھا۔ بعض نے کہا کہ ہم چونکہ انبیاء کی اولاد یا سادات ہیں۔ لہذا ہمیں کیسے عذاب ہوسکتا ہے۔ بعض لوگوں نے سفارش کے عقیدے وضع کر لئے اور اگر فلاں حضرت کی بیعت کرلی جائے تو وہ شفاعت کرکے ہمیں چھڑا لیں گے۔ بعض نے یہی عقیدہ اپنے دیوتاؤں سے یا بتوں سے وابستہ کردیا۔ نصاریٰ نے کفارہ مسیح کا عقیدہ گھڑ لیا اور بعض پادری حضرات اس دنیا میں ہی لوگوں سے رقوم بٹور کرکے ان کے لئے معافی نامے جاری کرنے لگے۔ اور بعض لوگوں نے عقیدہ وضع کیا کہ اگر فلاں حضرت کے بہشتی دروازہ سے اس کے عرس کے دن نیچے سے گزرا جائے تو یقیناً نجات ہوجائے گی ایسے سستی نجات کے سب عقیدے لغو اور باطل ہیں۔ اور قرآن نے ایسے عقائد رکھنے والوں کو آخرت کے منکر یعنی کافر قرار دیا ہے۔- تیسری شق حلال اور پاکیزہ اشیاء کھانے سے متعلق تھی تو اس میں بھی لوگوں نے افراط وتفریط کی راہیں پیدا کرلیں۔ رہبان و مشائخ اور بعض صوفیاء نے اپنے اوپر حلال اشیاء کو حرام قرار دے لیا۔ اور بعض دوسروں نے حرام و حلال کی تمیز ہی ختم کردی اور سود جیسی حرام چیز کو جسے ساری شریعتوں میں حرام قرار دیا جاتا رہا ہے اسے حلال ثابت کرنے کی کوشش کی۔ بہت سے علماء و مشائخ اور بتوں کے مہنتوں اور مقبروں اور مزاروں کے مجاوروں نے حلت و حرمت کے اختیار خود سنبھال لئے اور ایسے لوگوں کا تذکرہ قرآن میں متعدد بار آیا ہے۔- چوتھی شق عمل صالح کی تھی۔ تو غالباً اس شق میں شرک سے بھی زیادہ فرقہ بازی ہوئی۔ دین کے بعض اصولی احکام کو مسخ کرکے بدعی عقائد و اعمال شامل کردیئے گئے اور ان باتوں کی اصل بنیاد حب حاہ وھل لتی اور بیشمار سیاسی اور بدعی قسم کے فرقے وجود میں آگئے۔ انہی میں سے ایک تقلید شخصی کا عقیدہ ہے جس کے ذریعہ اماموں کو نبیوں کا درجہ دے دیا گیا یا ان سے بھی بڑھ کر سمجھا گیا۔- گویا اس سادہ اور مختصر سی اصولی تعلیم سے اختلاف کرکے لوگ جو فی الحقیقت ایک ہی امت تھے سینکڑوں اور ہزاروں فرقوں میں بٹتے چلے گئے۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ ان میں ہر فرقہ اپنے آپ کو حق پر سمجھتا ہے اور اپنے علاوہ دوسرے فرقوں کو دوزخ کا ایندھن سمجھتا ہے۔ حالانکہ یہ اصولی تعلیم آج بھی موجود ہے اور اگر کوئی شخص یا کوئی فرقہ تعصب سے بالاتر ہو کو راہ حق کو تلاش کرنا چاہے تو راہ حق آج بھی اسی چھپی ہوئی چیز نہیں ہے جس کا سراغ نہ لگایا جاسکتا ہو۔
فَتَقَطَّعُوْٓا اَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ زُبُرًا : اصل دین تمام پیغمبروں کا ایک ہے، البتہ بعض وقتی احکام میں فرق ہوسکتا ہے۔ آدم (علیہ السلام) سے لے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک سب کا دین اسلام ہے اور ان کے پیروکار سب امت مسلمہ ہیں۔ جس کے چند بنیادی اصول یہ ہیں : 1 توحید، یعنی عبادت صرف اللہ کی ہے، اس کے سوا کسی کی عبادت جائز نہیں۔ 2 قیامت، یعنی مرنے کے بعد سب کو اللہ کے حضور پیش ہونا ہے اور اپنے عمل کا بدلا پانا ہے۔ 3 اکل حلال، یعنی صرف حلال اور طیب کھانا کھانا ہے، حرام سے پوری طرح اجتناب کرنا ہے۔ 4 عمل صالح، یعنی ریا سے بچ کر خالص اللہ کے لیے رسول کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق عمل کرنا ہے۔ ہر پیغمبر یہی اصول دین لے کر آیا، مگر لوگوں نے اصول دین ہی میں اختلاف کرکے سیکڑوں فرقے بنا لیے، مثلاً پہلے اصل توحید کو لے لیجیے، صرف ایک اللہ کی عبادت اور اسی سے استعانت کی جگہ کسی نے پیغمبر کو رب بنا لیا، کسی نے احبارو رہبان کو، کسی نے تین رب بنا لیے، کسی نے وحدت الوجود کا عقیدہ نکال لیا کہ ہر چیز میں رب ہے۔ کسی نے کہا، فلاں اللہ کا بیٹا ہے، کسی نے کہا، فلاں اللہ کے نور میں سے جدا شدہ نور ہے۔ کسی نے کہا، اللہ تعالیٰ بزرگوں اور ولیوں میں اتر آتا ہے۔ کسی نے کہا، بزرگ ترقی کرکے رب بن جاتے ہیں۔ اللہ کے سوا کئی ہستیوں کو عالم الغیب اور مختار کل تسلیم کیا گیا۔ حتیٰ کہ انسان نے، جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا، اپنے نفع و نقصان کو پتھروں، درختوں، مویشیوں، جن بھوتوں، قبروں اور آستانوں سے وابستہ کردیا اور ان کے آگے سر جھکانے اور انھی سے مرادیں مانگنے لگا۔ پیغمبروں کی لائی ہوئی توحید پر بہت کم لوگ قائم رہے۔ - دوسرا اصل قیامت پر ایمان ہے۔ بعض لوگوں نے دوبارہ جی اٹھنے ہی کا انکار کردیا اور جنھوں نے اسے تسلیم کیا انھوں نے بھی اس کے تقاضوں کو نہ سمجھا۔ کسی نے کہا، ہم چونکہ انبیاء کی اولاد یا سادات ہیں، لہٰذا ہمیں عذاب کیسے ہوسکتا ہے ؟ بعض لوگوں نے جبری سفارش کا عقیدہ وضع کرلیا کہ اگر فلاں مرشد کی بیعت کرلی جائے تو وہ شفاعت کرکے ہمیں چھڑا لیں گے۔ بعض نے یہی عقیدہ اپنے بتوں یا دیوتاؤں سے وابستہ کرلیا۔ نصاریٰ نے کفارے کا عقیدہ گھڑ لیا کہ مسیح (علیہ السلام) ہم گناہ گاروں کے کفارے کے طور پر سولی چڑھ گئے، اب ان کے نام لیواؤں کے سب گناہ معاف ہیں۔ بعض پادری حضرات اس دنیا ہی میں لوگوں سے رقمیں بٹور کر انھیں معافی نامے جاری کرنے لگے اور بعض لوگوں نے عقیدہ گھڑا کہ اگر فلاں قبر کے بہشتی دروازے کے نیچے سے عرس کے دن گزرا جائے تو یقیناً نجات ہوجائے گی۔ سستی نجات کے ایسے سب عقیدے لغو اور باطل ہیں اور قرآن نے ایسے عقائد رکھنے والوں کو آخرت کے منکر یعنی کافر قرار دیا ہے۔ - تیسرا اصل حلال و طیب کھانا تھا، اس میں بھی لوگوں نے افراط و تفریط کی راہ پیدا کرلی۔ راہبوں، جوگیوں اور بعض صوفیوں نے اپنے اوپر حلال اشیاء کو حرام قرار دے لیا اور بعض دوسروں نے حلال و حرام کی تمیز ہی ختم کردی اور سود اور قوم لوط کے عمل جیسی حرام اشیاء کو، جنھیں ساری شریعتوں میں حرام قرار دیا جاتا رہا، حلال ثابت کرنے کی کوشش کی۔ بہت سے علماء و مشائخ، بتوں کے مہنتوں اور مقبروں اور مزاروں کے مجاوروں نے حلت و حرمت کے اختیارات خود سنبھال لیے۔ ایسے لوگوں کا تذکرہ قرآن میں متعدد بار آیا ہے۔ - چوتھا اصل عمل صالح ہے، غالباً اس اصل میں شرک سے بھی زیادہ فرقہ بازی ہوئی، دین کے بعض اصولی احکام کو مسخ کرکے بدعی عقائد و اعمال شامل کردیے گئے اور ان باتوں کی اصل بنیاد حب جاہ و مال تھی۔ چناچہ بیشمار سیاسی اور بدعی قسم کے فرقے وجود میں آگئے، ہر فرقے نے اپنے پیشوا کی بات انبیاء کی بات کی طرح حرف آخر قرار دے دی۔- گویا اس سادہ اور مختصر سی اصولی تعلیم سے اختلاف کر کے لوگ جو فی الحقیقت ایک ہی امت تھے، سیکڑوں ہزاروں فرقوں میں بٹتے چلے گئے اور لطف کی بات یہ ہے کہ ان میں سے ہر فرقہ اپنے آپ کو حق پر سمجھتا ہے اور اپنے علاوہ دوسرے فرقوں کو دوزخ کا ایندھن سمجھتا ہے، حالانکہ یہ اصولی تعلیم آج بھی موجود ہے اور اگر کوئی شخص یا کوئی فرقہ تعصب سے بالاتر ہو کر راہ حق کو تلاش کرنا چاہے تو راہ حق آج بھی ایسی چھپی ہوئی چیز نہیں جس کا سراغ نہ لگایا جاسکتا ہو۔ (تیسیرالقرآن از کیلانی (رض) بتصرف)- كُلُّ حِزْبٍۢ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُوْنَ : ” فَرِحُوْنَ “ بہت خوش۔ یہ ٹکڑے ٹکڑے ہونے کا لازمی نتیجہ ہے کہ جب کوئی شخص ہر حال میں اپنے گروہ کو قائم رکھنے پر اڑ جاتا ہے تو اس کے دل میں حقیقت کی تلاش کا جذبہ بھی ختم ہوجاتا ہے اور اسے اپنے دھڑے ہی کی ہر بات درست معلوم ہوتی ہے اور وہ اسی پر خوش رہتا ہے، خواہ کتنی غلط ہو اور دوسرے کی بات خواہ کتنی صحیح ہو اسے غلط معلوم ہوتی ہے۔ افسوس مسلمان بھی خیر القرون کے بعد کتاب وسنت پر ایک جماعت رہنے کے بجائے فرقوں میں بٹ گئے۔ کچھ عقائدی فرقے، کچھ فقہی فرقے اور کچھ صوفی فرقے اور ہر ایک اپنے دھڑے پر اتنی سختی سے قائم ہے کہ اس کے مسلک کے خلاف قرآن مجید کی صریح آیت، یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحیح حدیث بھی پیش کی جائے تو وہ یہ کہہ کر اسے ماننے سے انکار کر دے گا کہ کیا ہمارے بڑوں کو اس کا علم نہ تھا ؟ اور اب یہ حال ہوگیا ہے کہ شاید مسیح (علیہ السلام) ہی اس امت کو کتاب و سنت پر جمع فرما سکیں گے۔
فَتَقَطَّعُوْٓا اَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ زُبُرًا، زبر، زبور کی جمع ہے جو کتاب کے معنے میں آتا ہے اس معنے کے اعتبار سے مراد آیت کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تو سب انبیاء اور ان کی امتوں کو اصول اور عقائد کے مسائل میں ایک ہی دین اور طریقہ پر چلنے کی ہدایت فرمائی تھی مگر امتوں نے اس کو نہ مانا اور آپس میں ٹکڑے مختلف ہوگئے ہر ایک نے اپنا اپنا طریقہ الگ اور اپنی کتاب الگ بنا لی۔ اور زبر کبھی زبرہ کی جمع بھی آتی ہے جس کے معنے قطعہ اور فرقہ کے ہیں۔ یہی معنے اس جگہ زیادہ واضح ہیں اور مراد آیت کی یہ ہے کہ یہ لوگ عقائد اور اصول میں بھی مختلف فرقے بن گئے لیکن فروعی اختلاف ائمہ مجتہدین کا اس میں داخل نہیں۔ کیونکہ ان اختلافات سے دین و ملت الگ نہیں ہوجاتا اور ایسا اختلاف رکھنے والے الگ الگ فرقے نہیں کہلاتے۔ اور اس اجتہادی اور فروعی اختلاف کو فرقہ واریت کا رنگ دینا خالص جہالت ہے جو کسی مجتہد کے نزدیک جائز نہیں۔
فَتَقَطَّعُوْٓا اَمْرَہُمْ بَيْنَہُمْ زُبُرًا ٠ۭ كُلُّ حِزْبٍؚبِمَا لَدَيْہِمْ فَرِحُوْنَ ٥٣- قطع - القَطْعُ : فصل الشیء مدرکا بالبصر کالأجسام، أو مدرکا بالبصیرة كالأشياء المعقولة، فمن ذلک قَطْعُ الأعضاء نحو قوله : لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف 124] ، - ( ق ط ع ) القطع - کے معنی کسی چیز کو علیحدہ کردینے کے ہیں خواہ اس کا تعلق حاسہ بصر سے ہو جیسے اجسام اسی سے اعضاء کا قطع کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف 124] میں پہلے تو ) تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسرے طرف کے پاؤں کٹوا دونگا - أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :- إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے - بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - زبر - الزُّبْرَةُ : قطعة عظیمة من الحدید، جمعه زُبَرٌ ، قال : آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف 96] ، وقد يقال : الزُّبْرَةُ من الشّعر، جمعه زُبُرٌ ، واستعیر للمجزّإ، قال : فَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ زُبُراً- [ المؤمنون 53] ، أي : صاروا فيه أحزابا .- وزَبَرْتُ الکتاب : کتبته کتابة غلیظة، وكلّ کتاب غلیظ الکتابة يقال له : زَبُورٌ ، وخصّ الزَّبُورُ بالکتاب المنزّل علی داود عليه السلام، قال : وَآتَيْنا داوُدَ زَبُوراً- [ النساء 163] ، وَلَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ- [ الأنبیاء 105] ، وقرئ زبورا «1» بضم الزاي، وذلک جمع زَبُورٍ ، کقولهم في جمع ظریف : ظروف، أو يكون جمع زِبْرٍ «2» ، وزِبْرٌ مصدر سمّي به کالکتاب، ثم جمع علی زُبُرٍ ، كما جمع کتاب علی كتب، وقیل : بل الزَّبُورُ كلّ کتاب يصعب الوقوف عليه من الکتب الإلهيّة، قال : وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الْأَوَّلِينَ [ الشعراء 196] ، وقال :- وَالزُّبُرِ وَالْكِتابِ الْمُنِيرِ [ آل عمران 184] ، أَمْ لَكُمْ بَراءَةٌ فِي الزُّبُرِ [ القمر 43] ، وقال بعضهم : الزَّبُورُ : اسم للکتاب المقصور علی الحکم العقليّة دون الأحكام الشّرعيّة، والکتاب : لما يتضمّن الأحكام والحکم، ويدلّ علی ذلك أنّ زبور داود عليه السلام لا يتضمّن شيئا من الأحكام . وزِئْبُرُ الثّوب معروف «1» ، والْأَزْبَرُ : ما ضخم زُبْرَةُ كاهله، ومنه قيل : هاج زَبْرَؤُهُ ، لمن يغضب «2» .- ( زب ر) الزبرۃ - لوہے کی کڑی کو کہتے ہیں اور اس کی جمع زبر آتی ہے قرآن میں ہے :۔ آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف 96]( اچھا ) لوہے کی سلیں ہم کو لادو ۔ اور کبھی زبرۃ کا لفظ بالوں کے گچھا پر بولا جاتا ہے اس کی جمع ، ، زبر ، ، آتی ہے اور استعارہ کے طور پر پارہ پارہ کی ہوئی چیز کو زبر کہاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ فَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ زُبُراً [ المؤمنون 53] پھر لوگوں نے آپس میں پھوٹ کرکے اپنا ( اپنا ) دین جدا جدا کرلیا ۔ زبرت الکتاب میں نے کتاب کو موٹے خط میں لکھا اور ہر وہ کتاب جو جلی اور گاڑھے خط میں لکھی ہوئی ہو اسے زبور کہاجاتا ہے لیکن عرف میں زبور کا لفظ اس آسمانی کتاب کے لئے مخصوص ہوچکا ہے ۔ جو حضرت داؤد (علیہ السلام) پر نازل ہوئی تھی چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَآتَيْنا داوُدَ زَبُوراً [ النساء 163] اور ہم نے داود (علیہ السلام) کو زبور عطا کی ۔ وَلَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء 105] اور ہم نے نصیحت ( کی کتاب یعنی توراۃ ) کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا ۔ اس میں ایک قرات زبور ( بضمہ زاء ) بھی ہے ۔ جو یا تو زبور بفتحہ زا کی جمع ہے جیسے طریف جمع ظرورف آجاتی ہے اور یا زبر ( بکسر ہ زا) کی جمع ہے ۔ اور زبد گو اصل میں مصدر ہے لیکن بطور استعارہ اس کا اطاق کتاب پر ہوتا ہے جیسا کہ خود کتاب کا لفظ ہے کہ اصل میں مصدر ہے ۔ لیکن بطور اسم کے استعمال ہوتا ہے پھر جس طرح کتاب کی جمع کتب آتی ہے اسطرح زبر کی جمع زبد آجاتی ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ زبور کتب الہیہ میں سے ہر اس کتاب کو کہتے ہیں جس پر واقفیت دشوار ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الْأَوَّلِينَ [ الشعراء 196] اس میں شک نہیں کہ یہ ( یعنی اس کی پیشین گوئی ) اگلے پیغمبروں کی کتابوں میں موجود ہے ۔ وَالزُّبُرِ وَالْكِتابِ الْمُنِيرِ [ آل عمران 184] اور صحیفے اور روشن کتاب لائے تھے ۔ أَمْ لَكُمْ بَراءَةٌ فِي الزُّبُرِ [ القمر 43] یا تمہارے لئے صحیفوں میں معافی ( لکھی ہوئی ) ہے ۔ اور بعض کا قول ہے کہ زبور اس کتاب کا نام ہے جو صرف حکم عقلیہ پر مشتمل ہو اور اس میں احکام شرعیہ نہ ہوں ۔ اور الکتاب ہر اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو احکام حکم دونوں پر مشتمل ہو ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی زبور میں کوئی حکم شرعی نہیں ہے ۔ زئبرالثوب کپڑے کارواں ۔ اسی سے کہاجاتا ہے ھاج زئبرہ وہ غصہ سے بھڑک اٹھا ۔ اور بڑے کندھوں والے شخص کو ازبر کہاجاتا ہے ۔- حزب - الحزب : جماعة فيها غلظ، قال عزّ وجلّ : أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف 12] - ( ح ز ب ) الحزب - وہ جماعت جس میں سختی اور شدت پائی جائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف 12] دونوں جماعتوں میں سے اس کی مقدار کسی کو خوب یاد ہے - فرح - الْفَرَحُ : انشراح الصّدر بلذّة عاجلة، وأكثر ما يكون ذلک في اللّذات البدنيّة الدّنيوية، فلهذا قال تعالی: لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ وَلا تَفْرَحُوا بِما آتاکُمْ [ الحدید 23] ، وَفَرِحُوا بِالْحَياةِ الدُّنْيا[ الرعد 26] ، ذلِكُمْ بِما كُنْتُمْ تَفْرَحُونَ [ غافر 75] ،- ( ف ر ح ) ا لفرح - کے معنی کسی فوری یا دینوی لذت پر انشراح صدر کے ہیں ۔ عموما اس کا اطلاق جسمانی لذتوں پر خوش ہونے کے معنی میں ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ وَلا تَفْرَحُوا بِما آتاکُمْ [ الحدید 23] اور جو تم کو اس نے دیا ہوا اس پر اترایا نہ کرو ۔ وَفَرِحُوا بِالْحَياةِ الدُّنْيا[ الرعد 26] اور ( کافر ) لوگ دنیا کی زندگی پر خوش ہورہے ہیں ۔ ذلِكُمْ بِما كُنْتُمْ تَفْرَحُونَ [ غافر 75] یہ اس کا بدلہ ہے کہ تم ۔۔۔۔۔ خوش کرتے تھے
(٥٣) تو ان امتوں نے اپنے دین میں اپنا طریقے سے الگ الگ مختلف فرقے بنائے، جیسے یہود، نصاری، مشرکین، مجوس، ہر ایک گروہ اور جماعت کے پاس جو دین ہے وہ اسی سے خوش ہے۔
آیت ٥٣ (فَتَقَطَّعُوْٓا اَمْرَہُمْ بَیْنَہُمْ زُبُرًا ط) ” - اَمر سے یہاں مراد ” دین “ ہے۔ یعنی انہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا ‘ اور وہ یہودیت ‘ عیسائیت وغیرہ ناموں پر مختلف گروہوں میں بٹ گئے۔
سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :48 یہ محض بیان واقعہ ہی نہیں ہے بلکہ اس استدلال کی ایک کڑی بھی ہے جو آغاز سورہ سے چلا آ رہا ہے ۔ دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ جب نوح علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ تک تمام انبیاء یہ توحید اور عقیدہ آخرت کی تعلیم دیتے رہے ہیں ، تو لا محالہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نوع انسانی کا اصل دین یہی اسلام ہے ، اور دوسرے تمام مذاہب جو آج پائے جاتے ہیں وہ اسی کی بگڑی ہوئی صورتیں ہیں جو اس کی بعض صداقتوں کو مسخ کر کے اور اس کے اندر بعض من گھڑت باتوں کا اضافہ کر کے بنالی گئی ہیں ۔ اب اگر غلطی پر ہیں تو وہ لوگ ہیں جو ان مذاہب کے گرویدہ ہو رہے ہیں ، نہ کہ وہ جو ان کو چھوڑ کر اصل دین کی طرف بلا رہا ہے ۔