جرائم کی سزا پانے کی باوجود نیک نہ بن سکے فرماتا ہے کہ ہم نے انہیں ان کی برائیوں کی وجہ سے سختیوں اور مصیبتوں میں بھی مبتلا کیا لیکن تاہم نہ تو انہوں نے اپنا کفر چھوڑا نہ اللہ کی طرف جھکے بلکہ کفر و ضلالت پر اڑے رہے ۔ نہ ان کے دل نرم ہوئے نہ یہ سچے دل سے ہماری طرف متوجہ ہوئے نہ دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( فَلَوْلَآ اِذْ جَاۗءَهُمْ بَاْسُنَا تَضَرَّعُوْا وَلٰكِنْ قَسَتْ قُلُوْبُهُمْ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطٰنُ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ 43 ) 6- الانعام:43 ) ہمارا عذاب دیکھ کر یہ ہماری طرف عاجزی سے کیوں نہ جھکے ؟ بات یہ ہے کہ ان کے دل سخت ہوگئے ہیں ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اس آیت میں اس قحط سالی کا ذکر ہے جو قریشیوں پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نہ ماننے کے صلے میں آئی تھی ، جس کی شکایت لے کر ابو سفیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے اور آپ کو اللہ کی قسمیں دے کر ، رشتے داریوں کے واسطے دے کر کہا تھا کہ ہم تو اب لید اور خون کھانے لگے ہیں ۔ ( نسائی ) بخاری ومسلم میں ہے کہ قریش کی شرارتوں سے تنگ آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدعا کی تھی کہ جیسے حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے میں سات سال کی قحط سالی آئی تھی ، ایسے ہی قحط سے اے اللہ تو ان پر میری مدد فرما ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضرت وہب بن منبہ رحمتہ اللہ علیہ کو قید کردیا گیا ۔ وہاں ایک نوعمر شخص نے کہا میں آپ کو جی بہلانے کے لئے اشعار سناؤں ؟ تو آپ نے فرمایا اس وقت ہم عذاب اللہ میں ہیں اور قرآن نے ان کی شکایت کی ہے جو ایسے وقت بھی اللہ کی طرف نہ جھکیں پھر آپ نے تین روزے برابر رکھے ۔ ان سے سوال کیا گیا کہ یہ بیچ میں افطار کئے بغیر روزے کیسے ؟ تو جواب دیا کہ ایک نئی چیز ادھر سے ہوئی یعنی قید ، تو ایک نئی چیز ہم نے کی یعنی زیادتی عبادت ۔ یہاں تک کہ حکم الٰہی آ پہنچا اچانک وقت آگیا اور جس عذاب کا وہم وگمان بھی نہ تھا وہ آپڑا تو تمام خیر سے مایوس ہوگئے آس ٹوٹ گئی اور حیرت زدہ رہ گئے اللہ کی نعمتوں کو دیکھو ، اس نے کان دئیے ، آنکھیں دیں ، دل دیا ، عقل فہم عطا فرمائی کہ غور وفکر کرسکو ، اللہ کی وحدانیت کو اس کے اختیار کو سمجھ سکو ۔ لیکن جیسے جیسے نعمتیں بڑھیں شکر کم ہوئے جیسے فرمان ہے تو گوحرص کر لیکن ان میں سے اکثر بے ایمان ہیں پھر اپنی عظیم الشان سلطنت اور قدرت کا بیان فرما رہا ہے کہ اس نے مخلوق کو پیدا کرکے وسیع زمین پر پھیلا دیا ہے پھر قیامت کے دن بکھرے ہوؤں کو سمیٹ کر اپنے پاس جمع کرے گا اب بھی اسی نے پیدا کیا ہے پھر بھی وہی جلائے گا کوئی چھوٹا بڑا آگے پیچھے کا باقی نہ بچے گا ۔ وہی بوسیدہ اور کھوکھلی ہڈیوں کا زندہ کرنے والا اور لوگوں کو مار ڈالنے والا ہے اسی کے حکم سے دن چڑھتا ہے رات آتی ہے ایک ہی نظام کے مطابق ایک کے بعد ایک آتا جاتا ہے نہ سورج چاند سے آگے نکلے نہ رات دن پر سبقت کرے کیا تم میں اتنی بھی عقل نہیں ؟ کہ اتنے بڑے نشانات دیکھ کر اپنے اللہ کو پہچان لو ؟ اور اس کے غلبے اور اس کے علم کے قائل بن جاؤ بات یہ ہے کہ اس زمانہ کے کافر ہوں یا گذشتہ زمانوں کے ان سب کے دل یکساں ہیں زبانیں بھی ایک ہی ہیں وہی بکواس جو گذشتہ لوگوں کی تھی وہی ان کی ہے کہ مر کر مٹی ہوجانے اور صرف بوسیدہ ہڈیوں کی صورت میں باقی رہ جانے کے بعد بھی دوبارہ پیدا کئے جائیں یہ سمجھ سے باہر ہے ہم سے بھی یہی کہا گیا ہمارے باپ دادوں کو بھی اس سے دھمکایا گیا لیکن ہم نے تو کسی کو مر کر زندہ ہوتے نہیں دیکھا ہمارے خیال میں تو یہ صرف بکواس ہے ۔ دوسری آیت میں ہے کہ انہوں نے کہا کیا جب ہم بوسیدہ ہڈیاں ہوجائیں گے اس وقت بھی پھر زندہ کئے جائیں گے؟ جناب باری نے فرمایا جسے تم انہونی بات سمجھ رہے ہو وہ تو ایک آواز کے ساتھ ہوجائے گی اور ساری دنیا اپنی قبروں سے نکل کر ایک میدان میں ہمارے سامنے آجائے گی ۔ سورۃ یاسین میں بھی یہ اعتراض اور جواب ہے ۔ کہ کیا انسان دیکھتا نہیں کہ ہم نے نطفے سے پیدا کیا پھر وہ ضدی جھگڑالو بن بیٹھا اور اپنی پیدائش کو بھول بسرگیا اور ہم پر اعتراض کرتے ہوئے مثالیں دینے لگا کہ ان بوسیدہ ہڈیوں کو کون جلائے گا ؟ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم انہیں جواب دو کہ انہیں نئے سرے سے وہ اللہ پیدا کرے گا جس نے انہیں اول بار پیدا کیا ہے اور جو ہر چیز کی پیدائش کا عالم ہے ۔
7 6 1عذاب سے مراد یہاں وہ شکست ہے جو جنگ بدر میں کفار مکہ کو ہوئی، جس میں ان کے ستر آدمی مارے گئے تھے یا وہ قحط سالی کا عذاب ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بد دعا کے نتیجے میں ان پر آیا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا فرمائی تھی اے اللہ، جس طرح حضرت یوسف کے زمانے میں سات سال قحط رہا، اسی طرح قحط سالی میں انھیں مبتلا کر کے ان کے مقابلے میں میری مدد فرما چناچہ کفار مکہ اس قحط سالی میں مبتلا ہوگئے جس پر حضرت سفیان نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور انھیں اللہ کا اور رشتہ داری کا واسطہ دے کر کہا کہ اب تو ہم جانوروں کی کھالیں اور خون تک کھانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ جس پر آیت نازل ہوئی (ابن کثیر)
[٧٦] جب ابتدائے اسلام میں ہی کفار مکہ نے مسلمانوں اور پیغمبر اسلام پر مصائب ڈھانا شروع کئے اور یہاں تک مخالفت کی کہ ان پر عرصہ حیات تنگ کردیا۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کے حضور ان کے حق میں بددعا کی اور فرمایا : یا اللہ ان پر حضرت یوسف (علیہ السلام) والے قحط کے سات سال مسلط کر چناچہ آپ کی دعا قبول ہوگئی تو ان پر قحط کا عذاب آگیا۔ بارشیں رک گئیں۔ باہر سے غلہ آنا بھی رک گیا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ یہ لوگ مردار، ہڈیاں اور خون تک کھانے پر مجبور ہوگئے مگر بھوک پھر بھی نہ مٹتی تھی۔ لوگ بھوکوں مرنے لگے اور بھوک کی وجہ سے اتنے کمزور ہوگئے تو آسمان کی طرف نظر اٹھاتے تو انھیں دھواں نظر آتا تھا۔ اس واقعہ کا ذکر قرآن میں متعدد مقامات پر آیا ہے اور سورة دخان میں صراحت سے مذکور ہے۔ بالآخر ابو سفیان آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگاہ تم تو رشتہ جوڑنے کی تاکید کرتے رہتے ہو اور ہم تمہاری ہی برادری ہو کر بھوکوں مر رہے ہیں ہمارے لئے اللہ سے رحم کی دعا کرو چناچہ آپ نے دعا فرمائی اور اللہ نے رحم کردیا۔ بارشیں بھی شروع ہوگئیں اور باہر سے غلہ آنا بھی اور بھلے دن آگئے پھر کفار مکہ سب باتیں بھول گئے اور پھر پہلے کی طرح مسلمانوں کو دکھ دینا شروع کردیا۔
وَلَقَدْ اَخَذْنٰهُمْ بالْعَذَابِ ۔۔ : ” اَخَذْنٰهُمْ “ (ہم نے انھیں پکڑا) میں ” ھُمْ “ (اُن) سے مراد موجودہ کفار و منکرین نہیں بلکہ اس سے مراد ان جیسے وہ منکرین ہیں جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں اور جو اپنے اپنے دور میں اسی طرح کے کفر و انکار پر اڑے ہوئے تھے۔ موجودہ دور کے منکرین کو تاریخ کے اس سبق کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ کے لیے آنے والے عذابوں سے سبق نہیں لیتے، یہاں تک کہ وہ اپنے آخری ہولناک انجام کو پہنچ کر رہتے ہیں۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ وہ پہلے کمتر درجے کا عذاب بھیجتا ہے، تاکہ لوگ سنبھل جائیں، فرمایا : (وَلَنُذِيْـقَنَّهُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰى دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَكْبَرِ ) [ السجدۃ : ٢١ ] ” اور یقیناً ہم انھیں قریب ترین عذاب کا کچھ حصہ سب سے بڑے عذاب سے پہلے ضرور چکھائیں گے۔ “ پھر جب لوگ اس عذاب سے عبرت نہیں پکڑتے تو ان کی رسی دراز کردی جاتی ہے اور انھیں نافرمانی کے باوجود خوش حالی عطا کردی جاتی ہے، تاکہ ان پر حجت تمام ہوجائے۔ قرآن مجید میں یہ مضمون کثرت سے بیان ہوا ہے۔ دیکھیے سورة انعام ( ٤٢ تا ٤٤) ، اعراف (٩٤ تا ٩٨) ، یونس (١٢ تا ٢١) اور دخان (١٠ تا ١٦) ۔- بعض مفسرین نے اس عذاب سے مراد وہ قحط لیا ہے جو ہجرت سے پہلے مکہ والوں پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بد دعا سے مسلط ہوا اور سخت عذاب والے دروازے سے مراد یوم بدر لیا ہے، جبکہ بعض نے اس عذاب سے مراد بدر اور سخت عذاب والے دروازے سے مراد ہجرت کے بعد ثمامہ بن اثال (رض) کے گندم روک لینے سے واقع ہونے والا قحط لیا ہے۔ ابن جزی ” التسہیل “ میں فرماتے ہیں : ” زیادہ راجح یہ ہے کہ پہلے عذاب سے مراد دنیا کا عذاب ہے اور شدید عذاب سے مراد موت اور آخرت کا عذاب ہے۔ کیونکہ شدید عذاب وہی ہے، دنیا کا عذاب اس کے مقابلے میں ادنیٰ ہے۔ “ اور فرمایا : (اِذَا هُمْ فِيْهِ مُبْلِسُوْنَ ) یعنی ہر خیر سے ناامید ہوں گے۔ کفار کو یہ ناامیدی آخرت کے دن ہوگی، جیسا کہ فرمایا : (وَيَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ يُبْلِسُ الْمُجْرِمُوْنَ ) [ الروم : ١٢ ] ” اور جس دن قیامت قائم ہوگی مجرم ناامید ہوجائیں گے۔ “ بدر اور قحط کے بعد تو وہ بار بار حملہ آور ہوتے رہے تھے۔
وَلَقَدْ اَخَذْنٰهُمْ بالْعَذَابِ فَمَا اسْتَكَانُوْا لِرَبِّهِمْ وَمَا يَتَـضَرَّعُوْنَ ، اس سے پہلی آیت میں مشرکین کے بارے میں یہ کہا گیا تھا کہ یہ لوگ جو عذاب میں مبتلا ہونے کے وقت اللہ سے یا رسول سے فریاد کرتے ہیں اگر ہم ان کی فریاد پر رحم کھا کر عذاب ہٹا دیں تو ان کی جبلی شرارت و سرکشی کا عالم یہ ہے کہ عذاب سے نجات پانے کے بعد پھر اپنی سرکشی اور نافرمانی میں مشغول ہوجائیں گے اس آیت میں ان کے ایک اسی طرح کے واقعہ کا بیان ہے کہ ان کو ایک عذاب میں پکڑا گیا مگر عذاب سے بدعا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نجات پانے کے بعد بھی یہ اللہ کے سامنے نہیں جھکے اور برابر اپنے کفر و شرک پر جمے رہے۔- اہل مکہ پر قحط کا عذاب اور روسل اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا سے اس کا دفع ہونا :- پہلے معلوم ہوچکا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل مکہ پر قحط کا عذاب مسلط ہونے کی دعا کی تھی۔ اس کی وجہ سے یہ سخت قحط میں مبتلا ہوئے اور مردار وغیرہ کھانے پر مجبور ہوگئے۔ یہ دیکھ کر ابو سفیان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں مدینہ طیبہ حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں اور صلہ رحمی کی، کیا آپ نے یہ نہیں کہا کہ میں اہل عالم کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں، آپ نے فرمایا بیشک کہا ہے اور واقعہ بھی یوں ہی ہے۔ ابو سفیان نے کہا کہ آپ نے اپنی قوم کے بڑوں کو تو بدر کے معرکہ میں تلوار سے قتل کردیا اور جو اب رہ گئے ہیں ان کو بھوک سے قتل کر رہے ہیں اللہ سے دعا کیجئے کہ یہ عذاب ہم سے ہٹ جائے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا فرمائی یہ عذاب اسی وقت ختم ہوگیا اسی پر یہ آیت مذکورہ نازل ہوئی وَلَقَدْ اَخَذْنٰهُمْ بالْعَذَابِ فَمَا اسْتَكَانُوْا لِرَبِّهِمْ ۔- اس آیت میں یہ ارشاد ہے کہ عذاب میں مبتلا ہونے پھر اس سے نجات پانے کے بعد بھی یہ لوگ اپنے رب کے سامنے نہیں جھکے چناچہ واقعہ یہی تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا سے قحط رفع بھی ہوگیا مگر مشرکین مکہ اپنے شرک و کفر پر اسی طرح جمے رہے۔ (مظھری وغیرہ)
وَلَقَدْ اَخَذْنٰہُمْ بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَكَانُوْا لِرَبِّہِمْ وَمَا يَتَضَرَّعُوْنَ ٧٦- أخذ - الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة 255] - ( اخ ذ) الاخذ - ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔- عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - «مَكَانُ»( استکان)- قيل أصله من : كَانَ يَكُونُ ، فلمّا كثر في کلامهم توهّمت المیم أصليّة فقیل :- تمكّن كما قيل في المسکين : تمسکن، واسْتَكانَ فلان : تضرّع وكأنه سکن وترک الدّعة لضراعته . قال تعالی: فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون 76] .- المکان ۔ بعض کے نزدیک یہ دراصل کان یکون ( ک و ن ) سے ہے مگر کثرت استعمال کے سبب میم کو اصلی تصور کر کے اس سے تملن وغیرہ مشتقات استعمال ہونے لگے ہیں جیسا کہ مسکین سے تمسکن بنا لیتے ہیں حالانکہ یہ ( ص ک ن ) سے ہے ۔ استکان فلان فلاں نے عاجز ی کا اظہار کیا ۔ گو یا وہ ٹہھر گیا اور ذلت کی وجہ سے سکون وطما نینت کو چھوڑدیا قرآن میں ہے : ۔ فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون 76] تو بھی انہوں نے خدا کے آگے عاجزی نہ کی ۔- ضرع - الضَّرْعُ : ضَرْعُ الناقةِ ، والشاة، وغیرهما، وأَضْرَعَتِ الشاةُ : نزل اللّبن في ضَرْعِهَا لقرب نتاجها، وذلک نحو : أتمر، وألبن : إذا کثر تمره ولبنه، وشاةٌ ضَرِيعٌ: عظیمةُ الضَّرْعِ ، وأما قوله : لَيْسَ لَهُمْ طَعامٌ إِلَّا مِنْ ضَرِيعٍ [ الغاشية 6] ، فقیل : هو يَبِيسُ الشَّبْرَقِ «1» ، وقیل : نباتٌ أحمرُ منتنُ الرّيحِ يرمي به البحر، وكيفما کان فإشارة إلى شيء منكر . وضَرَعَ إليهم : تناول ضَرْعَ أُمِّهِ ، وقیل منه : ضَرَعَ الرّجلُ ضَرَاعَةً : ضَعُفَ وذَلَّ ، فهو ضَارِعٌ ، وضَرِعٌ ، وتَضَرّعَ :- أظهر الضَّرَاعَةَ. قال تعالی: تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأنعام 63] ، لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ- [ الأنعام 42] ، لَعَلَّهُمْ يَضَّرَّعُونَ [ الأعراف 94] ، أي : يَتَضَرَّعُونَ فأدغم، فَلَوْلا إِذْ جاءَهُمْ بَأْسُنا تَضَرَّعُوا[ الأنعام 43] ، والمُضَارَعَةُ أصلُها : التّشارک في الضَّرَاعَةِ ، ثمّ جرّد للمشارکة، ومنه استعار النّحويّون لفظَ الفعلِ المُضَارِعِ.- ( ض ر ع ) الضرع اونٹنی اور بکری وغیرہ کے تھن اضرعت الشاۃ قرب دلادت کی وجہ سے بکری کے تھنوں میں دودھ اتر آیا یہ اتمر والبن کی طرح کا محاورہ ہے جس کے معنی ہیں زیادہ دودھ یا کھجوروں والا ہونا اور شاۃ ضریع کے معنی بڑے تھنوں والی بکری کے ہیں مگر آیت کریمہ : ۔ لَيْسَ لَهُمْ طَعامٌ إِلَّا مِنْ ضَرِيعٍ [ الغاشية 6] اور خار جھاڑ کے سوا ان کے لئے کوئی کھانا نہیں ہوگا میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں ضریع سے خشک شبرق مراد ہے اور بعض نے سرخ بدبو دار گھاس مراد لی ہے ۔ جسے سمندر باہر پھینک دیتا ہے بہر حال جو معنی بھی کیا جائے اس سے کسی مکرو ہ چیز کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے ۔ ضرع البھم چوپایہ کے بچہ نے اپنی ماں کے تھن کو منہ میں لے لیا بعض کے نزدیک اسی سے ضرع الرجل ضراعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی کمزور ہونے اور ذلت کا اظہار کرنے کے ہیں الضارع والضرع ( صفت فاعلی کمزور اور نحیف آدمی تضرع اس نے عجز وتزلل کا اظہار کیا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأنعام 63] عاجزی اور نیاز پنہانی سے ۔ لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ [ الأنعام 42] تاکہ عاجزی کریں لَعَلَّهُمْ يَضَّرَّعُونَ [ الأعراف 94] تاکہ اور زاری کریں ۔ یہ اصل میں یتضرعون ہے تاء کو ضاد میں ادغام کردیا گیا ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ فَلَوْلا إِذْ جاءَهُمْ بَأْسُنا تَضَرَّعُوا[ الأنعام 43] تو جب ان پر ہمارا عذاب آتا رہا کیوں نہیں عاجزی کرتے رہے ۔ المضارعۃ کے اصل معنی ضراعۃ یعنی عمز و تذلل میں باہم شریک ہونے کے ہیں ۔ پھر محض شرکت کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے اسی سے علماء نحو نے الفعل المضارع کی اصطلاح قائم کی ہے کیونکہ اس میں دوز مانے پائے جاتے ہیں )
(٧٦) اور ہم نے ان کو بھوک اور قحط سالی کے عذاب میں گرفتار بھی کیا ہے سو یہ لوگ نہ اپنے پروردگار کے سامنے توحید کے قائل ہو کر جھکے اور نہ عاجزی اختیار کر کے ایمان لائے - شان نزول : ( آیت ) ”۔ ولقد اخذنھم بالعذاب “۔ (الخ)- امام نسائی (رح) اور حاکم (رح) نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ ابوسفیان (رض) رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں آپ کو اللہ کی اور رشتہ داری کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ ہم نے خون اور مردار تک کھالیا ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یعنی ہم نے ان کو گرفتار عذاب بھی کیا ہے سو ان لوگوں نے نہ اپنے رب کے سامنے فروتنی کی اور عاجزی اختیار کی اور امام بیہقی (رح) نے دلائل میں ان الفاظ میں روایت نقل کی ہے کہ ابن ایاز حنفی جب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لائے گئے تو وہ قیدی تھے آپ نے ان کو رہا کردیا چناچہ وہ اسلام قبول کر کے مکہ مکرمہ چلے گئے پھر وہاں سے واپس آئے تو مکہ والوں اور یمامہ والوں کے درمیان کوئی رکاوٹ ہوگئی یہاں تک نوبت آگئی کہ قریش نے مردار تک کھائے اس کے بعد ابوسفیان رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے اور کہنے لگے کہ کیا آپ یہ نہیں کہتے کہ میں رحمۃ العالمین بنا کر بھیجا گیا ہوں ؟ آپ نے فرمایا یقینا تو ابوسفیان کہنے لگے تو باپ دادا تو تلواروں سے قتل دیے گئے اور اولاد بھوک سے مرگئی اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
آیت ٧٦ (وَلَقَدْ اَخَذْنٰہُمْ بالْعَذَابِ ) ” - اس سے مراد شاید قحط اور خشک سالی کا وہ عذاب ہے جس میں اہل مکہ کئی سال تک مبتلا رہے اور جس کی وجہ سے ہر شخص کو جان کے لالے پڑگئے تھے۔