7 5 1اسلام کے خلاف ان کے دلوں میں جو بغض وعناد تھا اور کفر و شرک کی دلدل میں جس طرح وہ پھنسے ہوئے تھے، اس میں ان کا بیان ہے۔
وَلَوْ رَحِمْنٰهُمْ وَكَشَفْنَا مَا بِهِمْ مِّنْ ضُرٍّ ۔۔ : اس آیت کی ایک تفسیر وہ ہے جو ابن عاشور نے ” التحریر والتنویر “ میں اور بقاعی نے ” نظم الدرر “ میں فرمائی ہے۔ روح المعانی میں بھی اسے ایک امکان کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ وہ تفسیر یہ ہے کہ اس آیت کا عطف آیت (٦٤) : (حَتّيٰٓ اِذَآ اَخَذْنَا مُتْرَفِيْهِمْ بالْعَذَابِ اِذَا هُمْ يَجْــــَٔــرُوْنَ ) (یہاں تک کہ جب ہم ان کے خوش حال لوگوں کو عذاب میں پکڑیں گے، اچانک وہ بلبلا رہے ہوں گے) پر ہے اور اس آیت اور اس آیت کے درمیان کی آیات جملہ ہائے معترضہ ہیں، جن سے مقصود ان کے خلاف دلائل کا ذکر اور ان کے عذر بہانے ختم کرنا ہے۔ یعنی اگر ہم ان کے چیخنے، پکارنے اور بلبلانے پر رحم کرکے ان پر آنے والا عذاب دور کردیں، تب بھی وہ اپنی سرکشی سے باز نہیں آئیں گے، بلکہ اسی پر اڑے رہیں گے اور اسی میں سر مارتے پھریں گے، کیونکہ کفر اور سرکشی ان کی طبعی خصلت بن چکی ہے، جو کسی طرح ان سے جدا نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح فرمایا : ( وَلَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُهُوْا عَنْهُ وَاِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ ) [ الأنعام : ٢٨ ] ” اور اگر انھیں واپس بھیج دیا جائے تو ضرور پھر وہی کریں گے جس سے انھیں منع کیا گیا تھا اور بلاشبہ وہ یقیناً جھوٹے ہیں۔ “ آیات کے سیاق سے یہ تفسیر نہایت مناسب ہے۔ - دوسری تفسیر شیخ عبد الرحمان سعدی نے کی ہے کہ اس میں کفار کی شدید سرکشی اور ہٹ دھرمی کا بیان ہے کہ جب وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی مصیبت میں گرفتار ہوتے ہیں، مثلاً قحط پڑجاتا ہے، بھوک سے لاچار ہوجاتے ہیں، سمندری طوفان میں گھر جاتے ہیں، یا کوئی وبا آ گھیرتی ہے تو خلوص دل کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے اسے دور کرنے کی دعا کرتے ہیں، پھر اگر اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرما کر وہ مصیبت دور کر دے تو بھی وہ اپنے کفر اور سرکشی پر اڑے رہتے ہیں اور اسی میں سر مارتے پھرتے ہیں، جیسا کہ فرمایا : (وَاِذَآ اَذَقْــنَا النَّاسَ رَحْمَةً مِّنْۢ بَعْدِ ضَرَّاۗءَ مَسَّتْھُمْ اِذَا لَھُمْ مَّكْرٌ فِيْٓ اٰيَاتِنَا ۭ قُلِ اللّٰهُ اَسْرَعُ مَكْرًا ۭ اِنَّ رُسُلَنَا يَكْتُبُوْنَ مَا تَمْكُرُوْنَ 21 ھُوَ الَّذِيْ يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۭ حَتّٰى اِذَا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ ۚ وَجَرَيْنَ بِهِمْ بِرِيْحٍ طَيِّبَةٍ وَّفَرِحُوْا بِهَا جَاۗءَتْهَا رِيْحٌ عَاصِفٌ وَّجَاۗءَھُمُ الْمَوْجُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ وَّظَنُّوْٓا اَنَّھُمْ اُحِيْطَ بِهِمْ ۙ دَعَوُا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ ڬ لَىِٕنْ اَنْجَيْـتَنَا مِنْ هٰذِهٖ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِيْنَ 22 فَلَمَّآ اَنْجٰىھُمْ اِذَا ھُمْ يَبْغُوْنَ فِي الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ) [ یونس : ٢١ تا ٢٣ ] ” اور جب ہم لوگوں کو کوئی رحمت چکھاتے ہیں، کسی تکلیف کے بعد، جو انھیں پہنچی ہو، تو اچانک ان کے لیے ہماری آیات کے بارے میں کوئی نہ کوئی چال ہوتی ہے۔ کہہ دے اللہ چال میں زیادہ تیز ہے۔ بیشک ہمارے بھیجے ہوئے لکھ رہے ہیں جو تم چال چلتے ہو۔ وہی ہے جو تمہیں خشکی اور سمندر میں چلاتا ہے، یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں ہوتے ہو اور وہ انھیں لے کر عمدہ ہوا کے ساتھ چل پڑتی ہیں اور وہ اس پر خوش ہوتے ہیں تو ان (کشتیوں) پر سخت تیز ہوا آجاتی ہے اور ان پر ہر جگہ سے موج آجاتی ہے اور وہ یقین کرلیتے ہیں کہ ان کو گھیر لیا گیا ہے، تو اللہ کو اس طرح پکارتے ہیں کہ ہر عبادت کو اس کے لیے خالص کرنے والے ہوتے ہیں، یقیناً اگر تو نے ہمیں اس سے نجات دے دی تو ہم ضرور ہی شکر کرنے والوں سے ہوں گے۔ پھر جب اس نے انھیں نجات دے دی اچانک وہ زمین میں ناحق سرکشی کرنے لگتے ہیں۔ “
وَلَوْ رَحِمْنٰہُمْ وَكَشَفْنَا مَا بِہِمْ مِّنْ ضُرٍّ لَّـــلَجُّوْا فِيْ طُغْيَانِہِمْ يَعْمَہُوْنَ ٧٥- رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه»- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - كشف - كَشَفْتُ الثّوب عن الوجه وغیره، ويقال : كَشَفَ غمّه . قال تعالی: وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلا کاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ [ الأنعام 17]- ( ک ش ف ) الکشف - كَشَفْتُ الثّوب عن الوجه وغیره، کا مصدر ہے جس کے معنی چہرہ وغیرہ سے پر دہ اٹھا نا کے ہیں ۔ اور مجازا غم وانداز ہ کے دور کرنے پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلا کاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ [ الأنعام 17] اور خدا تم کو سختی پہچائے تو اس کے سوا کوئی دور کرنے والا نہیں ہے ۔ - ضر - الضُّرُّ : سوءُ الحال، إمّا في نفسه لقلّة العلم والفضل والعفّة، وإمّا في بدنه لعدم جارحة ونقص، وإمّا في حالة ظاهرة من قلّة مال وجاه، وقوله : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء 84] ، فهو محتمل لثلاثتها،- ( ض ر ر) الضر - کے معنی بدحالی کے ہیں خواہ اس کا تعلق انسان کے نفس سے ہو جیسے علم وفضل اور عفت کی کمی اور خواہ بدن سے ہو جیسے کسی عضو کا ناقص ہونا یا قلت مال وجاہ کے سبب ظاہری حالت کا برا ہونا ۔ اور آیت کریمہ : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء 84] اور جوان کو تکلیف تھی وہ دورکردی ۔ میں لفظ ضر سے تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں - لج - اللَّجَاجُ : التّمادي والعناد في تعاطي الفعل المزجور عنه، وقد لَجَّ في الأمر يَلجُّ لَجَاجاً ، قال تعالی: وَلَوْ رَحِمْناهُمْ وَكَشَفْنا ما بِهِمْ مِنْ ضُرٍّ لَلَجُّوا فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ المؤمنون 75] ، بَلْ لَجُّوا فِي عُتُوٍّ وَنُفُورٍ [ الملک 21] ومنه : لَجَّةُ الصّوت بفتح اللام . أي : تردّده، ولُجَّةُ البحر بالضّم : تردّد أمواجه، ولُجَّةُ اللیل : تردّد ظلامه، ويقال في كلّ واحد لَجَّ والْتَجَّ.- قال : فِي بَحْرٍ لُجِّيٍ [ النور 40] منسوب إلى لجّة البحر، وما روي : ( وضع اللّجّ علی قفيّ ) ، أصله : قفاي، فقلب الألف ياء، وهو لغة فعبارة عن السّيف المتموّج ماؤه، واللَّجْلَجَةُ : التّردّد في الکلام وفي ابتلاع الطّعام، قال الشاعر : يُلَجْلِجَ مضغة فيها أنيض - «5» أي : غير منضج، ورجل لَجْلَجٌ ولَجْلَاجٌ: في کلامه تردّد، وقیل : الحقّ أبلج والباطل لَجْلَجٌ. أي : لا يستقیم في قول قائله، وفي فعل فاعله بل يتردّد فيه .- ( ل ج ج ) اللجاج ( مصدر ض س ) کے معنی کسی ممنوع کام کے کرنے میں بڑھتے چلے جاتے اور اس پر ضد کرنے کے ہیں اس سے فعل لج فی الامر استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ رَحِمْناهُمْ وَكَشَفْنا ما بِهِمْ مِنْ ضُرٍّ لَلَجُّوا فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ المؤمنون 75] اور اگر ہم ان پر رحم کریں اور جو تکلیفیں انہیں پہنچ رہی ہیں وہ دور کردیں تو اپنی سر کشی پر اڑے رہیں اور بھٹکے ( پھریں ) بَلْ لَجُّوا فِي عُتُوٍّ وَنُفُورٍ [ الملک 21] لیکن یہ سرکشی اور نفرت میں بڑھتے چلے جاتے ہیں ۔ اسی سے لجۃ الصوف مشہور ہے جس کے معنی اواز کے بار بار آنے جانے اور پلٹنے کے ہیں ۔ لجۃ البحر ( بضم اللام ) سمندر کی موجوں کا تلاطم ( ان کا بار بار آنا اور پلٹنا ) لجۃ اللیل ۔ رات کی تاریکی کا آنا جان اور سخت ہونا ۔ اور لجۃ و لجۃ میں ایک لغت لج ولج بھی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍ [ النور 40] دریائے عمیق میں میں لجی بھی لجۃ البحر کی طرف منسوب ہے اور روایت اس نے میری گر دن پر تلوار رکھ دی ) میں لج کے معنی آبد ار تلوار کے ہیں اور قفی اصل میں قفای ہے الف یاء سے مبدل ہو کر یاء میں ادغام ہوگیا ہے ۔ اللجلجۃ کے معنی ہکلاپن کے ہیں اور نیز لقمہ کو بغیر چبائے منہ میں پھر انے کو بھی لجلجۃ کہتے ہیں کسی شاعر نے کہا ہے ۔ ( 392 ) یلجلج مضغۃ فیھا انیض یعنی منہ میں گوشت کا نیم پختہ ٹکڑا پھر ا رہا ہے ۔ رجل لجلج ہکلا رک رک کر بات کرنے والا ۔ الحق ایلج والباطل لجلج حق واضح ہے اور باطل مشتبہ یعنی کوئی شخص باطل کو نہ تو صاف طور پر بیان کرسکتا ہے اور نہ انشراح صدر کے ساتھ اسے انجام دے سکتا ہے ۔ بلکہ اس میں ہمیشہ متردور رہتا ہے ۔- طغی - طَغَوْتُ وطَغَيْتُ «2» طَغَوَاناً وطُغْيَاناً ، وأَطْغَاهُ كذا : حمله علی الطُّغْيَانِ ، وذلک تجاوز الحدّ في العصیان . قال تعالی: اذْهَبْ إِلى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغى[ النازعات 17] - ( ط غ ی) طغوت وطغیت طغوانا وطغیانا - کے معنی طغیان اور سرکشی کرنے کے ہیں اور أَطْغَاهُ ( افعال) کے معنی ہیں اسے طغیان سرکشی پر ابھارا اور طغیان کے معنی نافرمانی میں حد سے تجاوز کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : إِنَّهُ طَغى[ النازعات 17] وہ بےحد سرکش ہوچکا ہے ۔ - عمه - الْعَمَهُ : التّردُّدُ في الأمر من التّحيّر . يقال : عَمَهَ فهو عَمِهٌ وعَامِهٌ «2» ، وجمعه عُمَّهٌ. قال تعالی: فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ الأعراف 186] ، فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة 15] ، وقال تعالی: زَيَّنَّا لَهُمْ أَعْمالَهُمْ فَهُمْ يَعْمَهُونَ [ النمل 4] .- ( ع م ہ ) العمۃ - کے معنی حیر انگی کی وجہ سے کسی کام میں تردد سے کام لینا کے ہیں ۔ عمہ ( س) صیغہ صفت فاعل عمہ وعامہ اور عامہ کی جمع عمہ ہے ۔ قرآن میں ہے : فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ الأعراف 186] وہ اپنی شرارت وسرکشی میں پڑے بہک رہے ہیں ۔ زَيَّنَّا لَهُمْ أَعْمالَهُمْ فَهُمْ يَعْمَهُونَ [ النمل 4] ہم نے ان کے اعمال ان کے لئے آراستہ کردیئے تو وہ سرگردان ہو رہے ہیں ۔
(٧٥) اور اگر ہم ان مکہ والوں پر مہربانی فرما دیں اور ان کو بھوک کی جو تکلیف ہے اس کو ہم دور بھی کردیں تو یہ لوگ پھر بھی کفر اور گمراہی میں بھٹکتے رہیں گے کہ حق اور ہدایت ان کو کچھ بھی نظر نہیں آئے گا۔
آیت ٧٥ (وَلَوْ رَحِمْنٰہُمْ وَکَشَفْنَا مَا بِہِمْ مِّنْ ضُرٍّ لَّلَجُّوْا فِیْ طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُوْنَ ) ” - ان الفاظ سے یوں لگتا ہے کہ اس سورت کے نزول کے زمانہ میں اہل مکہّ کسی مصیبت میں گرفتار تھے۔ سورة الانعام اور سورة الاعراف میں اللہ تعالیٰ کی اس سنت کا ذکر گزر چکا ہے جس کے تحت ہر رسول کی بعثت کے بعد متعلقہ قوم پر چھوٹے چھوٹے عذاب بھیجے جاتے تھے اور انہیں مختلف قسم کی تکالیف میں مبتلا کیا جاتا تھا تاکہ وہ خواب غفلت سے جاگیں اور ان کے ذہن حق کی دعوت پر غور و فکر کرنے کے لیے تیار ہوجائیں۔
سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :72 اشارہ ہے اس تکلیف و مصیبت کی طرف جس میں وہ قحط کی بدولت پڑے ہوئے تھے ۔ اس قحط کے متعلق روایات نقل کرتے ہوئے بعض لوگوں نے دو قحطوں کے قصوں کو خلط ملط کر دیا ہے جس کی وجہ سے آدمی کو یہ سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ ہجرت سے پہلے کا واقعہ ہے یا بعد کا ۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اہل مکہ کو دو مرتبہ قحط سے سابقہ پیش آیا ہے ۔ ایک نبوت کے آغاز سے کچھ مدت بعد ۔ دوسرا ، ہجرت کے کئی سال بعد جب کہ ثُمامہ بن اُثال نے یمامہ سے مکے کے طرف غلے کی بر آمد روک دی تھی ۔ یہاں ذکر دوسرے قحط کا نہیں بلکہ پہلے قحط کا ہے ۔ اس کے متعلق صحیحین میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ روایت ہے کہ جب قریش نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قبول کرنے سے پیہم انکار کیا اور سخت مزاحمت شروع کر دی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ : اللھم اعنی علیہم بسبع کسبع یوسف ، خدایا ، ان کے مقابلے میں میری مدد یوسف کے ہفت سالہ قحط جیسے سات برسوں سے کر ۔ چنانچہ ایسا سخت قحط شروع ہوا کہ مردار تک کھانے کی نوبت آ گئی ۔ اس قحط کی طرف مکی سورتوں میں بکثرت اشارات ملتے ہیں ۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو الانعم ، 42 تا 44 ۔ الاعراف 94 تا 99 ۔ یونس ، 11 ۔ 12 ۔ 21 ۔ النحل ، 112 ۔ 113 ۔ الدخان 10 ۔ 16 مع حواشی ۔
26: اﷲ تعالیٰ نے مشرکینِ مکہ کو جھنجھوڑنے کے لئے دو ایک مرتبہ اُنہیں قحط اور معاشی بدحالی میں مبتلا کیا۔ یہ آیت کسی ایسے ہی موقع پر نازل ہوئی تھی۔