Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

621یعنی رات جاتی ہے تو دن آجاتا ہے اور دن آتا ہے تو رات چلی جاتی ہے۔ دونوں بیک وقت جمع نہیں ہوتے، اس کے فوائد و مصالح محتاج وضاحت نہیں۔ بعض نے خِلْفَۃً کے معنی ایک دوسرے کے مخالف کے کئے ہیں یعنی رات تاریک ہے تو دن روشن۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧٩] خلفہ کے معنی ایک دوسرے کے پیچھے آنے والے۔ رات کے پیچھے دن آتا ہے۔ اور دن کے پیچھے رات۔ اور یہ بار بار ایک دوسرے کے پیچھے آتے رہتے ہیں۔ موجودہ نظریہ ہیئت کے مطابق دن رات سورج کے سامنے زمین کی محوری یک روزہ گردش کی بنا پر پیدا ہوتے ہیں۔ زمین کا محیط پچیس ہزار میل ہے اور زمین اپنی محوری گردش پورے چوبیس گھنٹہ میں پوری کرتی ہے۔ بالفاظ دیگر ہم نے زمین کی محوری گردش کی مدت کو چوبیس گھنٹہ میں تقسیم کر رکھا ہے۔ اور دن اور رات کی اوقات میں کمی بیشی زمین کی سورج کے گرد سالانہ گردش کی وجہ سے ہوتی ہے اس نظریہ کی رو سے اللہ کی قدرت کے یہ کرشمے اور بھی محیرالعقول بن جاتے ہیں۔ جس نے اتنے بڑے بڑے عظیم الجثہ کروں کو بجلی کی تیز رفتاری سے اس طرح محو گردش بنا رکھا ہے کہ ان کے نتائج میں کبھی ایک سیکنڈ کی بھی تقدیم و تاخیر نہیں ہوسکتی۔ نہ ہی ان کروں کا آپس میں کہیں تصادم ہوتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَهُوَ الَّذِيْ جَعَلَ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ خِلْفَةً : اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ کی توحید، اس کی قدرت کا کمال اور نعمتوں کی یاد دہانی تینوں چیزیں موجود ہیں۔ یعنی رات اور دن ایک دوسرے کے پیچھے آتے ہیں، رات جاتی ہے تو دن آجاتا ہے اور دن جاتا ہے تو رات آجاتی ہے۔ اگر ہمیشہ دن رہتا یا ہمیشہ رات رہتی تو زندگی اور اس کی مصروفیات کا سلسلہ باقی نہ رہ سکتا۔ (دیکھیے قصص : ٧١ تا ٧٣) دن رات کے اس بدلنے میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ (دیکھیے بقرہ : ١٦٤۔ آل عمران : ١٩٠) ایک مطلب اس کا یہ ہے کہ دن اور رات گھٹتے بڑھتے اور ایک دوسرے کی جگہ آتے جاتے رہتے ہیں، جیسا کہ فرمایا : (ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ يُوْلِجُ الَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُوْلِجُ النَّهَارَ فِي الَّيْلِ وَاَنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌۢ بَصِيْرٌ) [ الحج : ٦١ ] ” یہ اس لیے کہ اللہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور اللہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔ “ طبری نے معتبر سند کے ساتھ علی بن ابی طلحہ سے ابن عباس (رض) کی تفسیر نقل فرمائی ہے : ” جس کا کوئی کام رات کو رہ جائے تو وہ دن کو پورا کرلیتا ہے اور دن کو رہ جائے تو رات کو پورا کرلیتا ہے۔ “ (طبری : ٢٦٦٦٠) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ یَبْسُطُ یَدَہُ باللَّیْلِ ، لِیَتُوْبَ مُسِيْءُ النَّھَارِ ، وَیَبْسُطُ یَدَہُ بالنَّھَارِ ، لِیَتُوْبَ مُسِيْءُ اللَّیْلِ ، حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِھَا ) [ مسلم، التوبۃ، باب قبول التوبۃ من الذنوب ۔۔ : ٢٧٥٩ ] ” اللہ تعالیٰ رات کو اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے، تاکہ دن کو برائی کرنے والا شخص توبہ کرلے اور دن کو اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے، تاکہ رات کو برائی کرنے والا توبہ کرلے، یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہوجائے۔ “ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (مَنْ نَسِيَ صَلَاۃً أَوْ نَامَ عَنْھَا، فَکَفَّارَتُھَا أَنْ یُصَلِّیَھَا إِذَا ذَکَرَھَا ) [ مسلم، المساجد، باب قضاء الصلاۃ الفائتۃ۔۔ : ٣١٥؍٦٨٤ ]” جو شخص کسی نماز سے سویا رہ جائے یا بھول جائے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ جب اسے وہ یاد آئے پڑھ لے۔ “ امیر المومنین عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَنْ نَامَ عَنْ حِزْبِہِ أَوْ عَنْ شَيْءٍ مِنْہُ فَقَرَأَہُ فِیْمَا بَیْنَ صَلَاۃِ الْفَجْرِ وَ صَلَاۃِ الظُّھْرِ ، کُتِبَ لَہُ کَأَنَّمَا قَرَأَہُ مِنَ اللَّیْلِ ) [ مسلم، صلاۃ المسافرین، باب جامع صلاۃ اللیل : ٧٤٧ ] ” جو شخص اپنے مقرر کردہ وظیفے سے یا اس کے کچھ حصے سے سویا رہ جائے، پھر اسے فجر کی نماز اور ظہر کی نماز کے درمیان پڑھ لے تو گویا اس نے اسے رات ہی میں پڑھا ہے۔ “ - ” خِلْفَهً “ کا ایک معنی ” مختلف “ بھی ہے، قاموس میں ہے : ” اَلْخِلْفُ وَالْخِلْفَۃُ بالْکَسْرِ الْمُخْتَلِفُ “ اس کے مطابق معنی یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے رات اور دن کو روشنی اور اندھیرے میں، گرمی اور سردی میں، کام اور آرام میں ایک دوسرے سے مختلف بنایا ہے۔ - لِّمَنْ اَرَادَ اَنْ يَّذَّكَّرَ اَوْ اَرَادَ شُكُوْرًا : یعنی کہ اگر کوئی کفر یا فسق کی وجہ سے غفلت میں مبتلا ہے اور چاہتا ہے کہ اسے کسی طرح نصیحت ہو تو دن رات کے ایک دوسرے کے پیچھے آنے میں اس کے لیے بہت بڑی نصیحت ہے کہ اتنی بڑی تبدیلی وہی کرسکتا ہے جو لا محدود قدرت والا اور ہر طرح صاحب اختیار ہے، اور اگر کوئی مومن اور صالح ہے اور اللہ کا شکر ادا کرنا چاہتا ہے تو دن رات کی یہ تبدیلی بہت بڑی نعمت ہے، جس پر اسے شکر ادا کرنا لازم ہے۔ رات دن کے سلسلے میں ایک نصیحت ابن العربی نے ذکر فرمائی ہے کہ ایک آدمی جس کی عمر ساٹھ (٦٠) برس ہے، وہ رات سو کر گزار دیتا ہے، تو اس کی آدھی عمر بےکار گئی، پھر دن کا تقریباً چھٹا حصہ آرام میں گزر جاتا ہے، یوں کل دو تہائی چلا گیا۔ اس کے پاس ساٹھ (٦٠) سال کی عمر میں سے بیس (٢٠) برس رہ گئے۔ کتنی بڑی جہالت اور بےوقوفی ہے کہ آدمی اپنی عمر کا دو تہائی حصہ فانی لذت میں گزار دے اور عمر عزیز کو اس دائمی لذت کے حصول کے لیے خرچ نہ کرے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس اس کے لیے تیار کر رکھی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَہُوَ الَّذِيْ جَعَلَ الَّيْلَ وَالنَّہَارَ خِلْفَۃً لِّمَنْ اَرَادَ اَنْ يَّذَّكَّرَ اَوْ اَرَادَ شُكُوْرًا۝ ٦٢- ليل - يقال : لَيْلٌ ولَيْلَةٌ ، وجمعها : لَيَالٍ ولَيَائِلُ ولَيْلَاتٌ ، وقیل : لَيْلٌ أَلْيَلُ ، ولیلة لَيْلَاءُ. وقیل :- أصل ليلة لَيْلَاةٌ بدلیل تصغیرها علی لُيَيْلَةٍ ، وجمعها علی ليال . قال اللہ تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] - ( ل ی ل ) لیل ولیلۃ - کے معنی رات کے ہیں اس کی جمع لیال ولیا ئل ولیلات آتی ہے اور نہایت تاریک رات کو لیل الیل ولیلہ لیلاء کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ لیلۃ اصل میں لیلاۃ ہے کیونکہ اس کی تصغیر لیلۃ اور جمع لیال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر 1] ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل ( کرنا شروع ) وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] اور رات اور دن کو تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔ - نهار - والنهارُ : الوقت الذي ينتشر فيه الضّوء، وهو في الشرع : ما بين طلوع الفجر إلى وقت غروب الشمس، وفي الأصل ما بين طلوع الشمس إلى غروبها . قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان 62]- ( ن ھ ر ) النھر - النھار ( ن ) شرعا طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب کے وقت گو نھار کہاجاتا ہے ۔ لیکن لغوی لحاظ سے اس کی حد طلوع شمس سے لیکر غروب آفتاب تک ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان 62] اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بیانا ۔- خلفۃ : خلف بمعنی پیچھے قدام کی ضد ہے۔ خلف یخلف ( نصر) خلافۃ جانشین ہونا۔ خلف جو کسی کا جانشین اور قائم مقام ہو۔ خلفۃ ایک کا دوسرے کے بعد آنا یا قائم مقام ہونا۔ ھن یمشین خلفۃ وہ سب ایک دوسرے کے بعد آجاری ہیں۔ جعل الیل والنھار خلفۃ۔ اس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بنایا۔- رود - والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17]- ( ر و د ) الرود - الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ - شكر - الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها، ودابّة شکور : مظهرة بسمنها إسداء صاحبها إليها، وقیل : أصله من عين شكرى، أي :- ممتلئة، فَالشُّكْرُ علی هذا هو الامتلاء من ذکر المنعم عليه . - والشُّكْرُ ثلاثة أضرب :- شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة .- وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم .- وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه .- وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] ،- ( ش ک ر ) الشکر - کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں اور دابۃ شکور اس چوپائے کو کہتے ہیں جو اپنی فربہی سے یہ ظاہر کر رہا ہو کہ اس کے مالک نے اس کی خوب پرورش اور حفاظت کی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ عین شکریٰ سے ماخوذ ہے جس کے معنی آنسووں سے بھرپور آنکھ کے ہیں اس لحاظ سے شکر کے معنی ہوں گے منعم کے ذکر سے بھرجانا ۔ - شکر تین قسم پر ہے - شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجورح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکانات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

رات دن ایک دوسرے کے جانشین ہیں - قول باری ہے : (وھوالذی جعل اللیل والنھار خلفۃ) وہی ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کا جانشین بنایا۔ تاآخر آیت۔ شمر بن عطیہ نے ابن سلمہ سے روایت کی ہے کہ ایک شخص حضرت عمر (رض) کے پاس آکر کہنے لگا۔ امیر المومنین مجھ سے نماز رہ گئی ہے۔ “ آپ نے سن کر فرمایا ” رات کے وقت جو نماز تم سے رہ گئی ہے اس کے بدلے میں دن کے وقت نماز پڑھ لو۔ “ یعنی اس کی قضا دا کرلو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے جانشین بنایا ہے ہر اس شخص کے لئے جو سبق لینا چاہے یا شکر گزار ہونا چاہے۔ “- یونس نے ابن شہاب سے انہوں نے السائب بن زید اور عبداللہ بن عتبہ سے، انہوں نے عبدالرحمن بن عبدالقاری سے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر (رض) کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے :” جو شخص رات کے وقت اپنی معمول کی تلاوت وغیرہ یاس اس کے کسی جز سے یا کسی بنا پر رہ جائے اور پھر صبح کی نماز سے لے کر ظہر کی نماز کے دوران پڑھ لے تو اس کا شمار یوں ہوگا گویا کہ اس نے رات کے وقت حسب معمول تلاوت کی ہے۔- حسن کا قول ہے کہ (جعل اللیل والنھار خلفۃ) کا مفہوم یہ ہے کہ ایک کو دوسرے کا جانشین بنادیا گیا ہے۔ اگر دن کے اوقات میں کوئی عبادت وغیرہ رہ جائے تو وہ اسے رات کے وقت ادا کرسکتا ہے اور اس کے برعکس بھی۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ یہ بات قول باری (واقم الصلوٰۃ لذکری ) اور میری یاد میں نماز قائم کرو، سے ملتی جلتی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : (من تام عن صلونۃ وانسیھا فلیصلھا اذاذ کرھا فان ذلک وقتھا۔ جو شخص سوتار ہ جائے اور نماز ادا نہ کرے یا نماز ادا کرنا بھول جائے تو جس وقت اسے یاد آجائے اس وقت ہی وہ اس نماز کی ادائیگی کرکے کیونکہ یہی وقت اس نماز کا وقت ہے) ۔- مجاہد سے (خلفۃ) کی تفسیر میں مروی ہے کہ ان میں سے ایک تاریک اور دوسرا روشن ہے ایک قول کے مطابق ایک چلا جاتا ہے اور اس کی جگہ دوسرا آجاتا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٢) اور وہ ایسا ہے جس نے رات اور دن ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والے بنائے اس شخص کے لیے جو ان کی آمد ورفت سے نصیحت حاصل کرنا چاہے اور شکر خداوندی میں خوب نیک عمل کرنا چاہے وہ رات کی عبادت دن میں کرنے کے لیے نہ چھوڑے اور دن کی عبادت کو ٹال کر رات پر نہ ڈالے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦٢ (وَہُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الَّیْلَ وَالنَّہَارَ خِلْفَۃً لِّمَنْ اَرَادَ اَنْ یَّذَّکَّرَ اَوْ اَرَادَ شُکُوْرًا ) ” - دن ‘ رات اور ان کا الٹ پھیر آیات الٰہیہ میں سے ہیں اور آیات الٰہیہ پر غور کرنے سے انسان کو اللہ کی ذات ‘ اس کے علم اور اس کی قدرت و حکمت کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ پھر جب انسان اللہ کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرتا ہے تو اسے کائنات کا ذرہ ذرہ اللہ کی توحید ‘ اس کی صناعی اور اس کی قدرت پر دلالت کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ - ایمان کے ضمن میں یہ دو آیات گویا اس مضمون کی تمہید ہے جس میں ” عباد الرحمن “ یعنی اللہ کے محبوب اور چہیتے بندوں کی سیرت کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ ان آیات کا مطالعہ کرتے ہوئے ہر بندۂ مسلمان کو اپنے دل میں ایک خواہش اور امنگ ضرور پیدا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اسے بھی اپنے ان خاص بندوں میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور پھر اسے ان بندوں کی صف میں شامل ہونے کے لیے عملی طور پر کوشش بھی کرنی چاہیے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :77 یہ دو مراتب ہیں جو اپنی نوعیت کے لحاظ سے الگ اور اپنے مزاج کے اعتبار سے لازم و ملزوم ہیں ۔ گردش لیل و نہار کے نظام پر غور کرنے کا پہلا نتیجہ یہ ہے کہ آدمی اس سے توحید کا درس لے اور اگر خدا سے غفلت میں پڑا ہوا تھا تو چونک جائے ۔ اور دوسرا نتیجہ یہ ہے کہ خدا کی ربوبیت کا احساس کر کے سر نیاز جھکا دے اور سراپا امتنان بن جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani