Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

مومنوں کا کردار اللہ کے مومن بندوں کے اوصاف بیان ہورہے ہیں کہ وہ زمین پر سکون و وقار کے ساتھ ، تواضع ، عاجزی ، مسکینی اور فروتنی سے چلتے پھرتے ہیں ۔ تکبر ، تجبر ، فساد اور ظلم وستم نہیں کرتے ، جیسے حضرت لقمان رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے لڑکے سے فرمایا تھا کہ اکڑ کر نہ چلاکر ۔ مگر اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ تصنع اور بناوٹ سے کمر جھکا کر بیماروں کی طرح قدم قدم چلنا ، یہ تو ریاکاروں کا کام ہے کہ وہ اپنے آپ کو دکھانے کے لئے اور دنیا کی نگاہیں اپنی طرف اٹھانے کے لئے ایسا کرتے ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت اسکے بالکل برعکس تھی ۔ آپ کی چال ایسی تھی کہ گویا آپ کسی اونچائی سے اتر رہے ہیں اور گویا کہ زمین آپ کے لئے لپٹی جارہی ہے ۔ سلف صالحین نے بیماروں کی سی تکلف والی چال کو مکروہ فرمایا ہے ۔ فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک نوجوان کو دیکھا کہ وہ بہت آہستہ آہستہ چل رہا ہے آپ نے اس سے دریافت فرمایا کہ کیا تو کچھ بیمار ہے؟ اس نے کہا نہیں ۔ آپ نے فرمایا پھر یہ کیا چال ہے ؟ خبردار جو اب اس طرح چلا تو کوڑے کھائے گا ۔ طاقت کے ساتھ جلدی جلدی چلا کرو ۔ پس یہاں مراد تسکین اور وقار کے ساتھ شریفانہ چال چلنا ہے نہ کہ ضعیفانہ اور مریضانہ ۔ چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ جب نماز کے لئے آؤ تو دوڑ کر نہ آؤ بلکہ تسکین کے ساتھ آؤ ۔ جو جماعت کے ساتھ مل جائیں ادا کرلو اور جو فوت ہوجائی پوری کرلو ۔ امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت کی تفسیر میں نہایت ہی عمدہ بات ارشاد فرمائی ہے کہ مومنوں کی آنکھیں اور ان کے کان اور ان کے اعضاء جھکے ہوئے اور رکے ہوئے رہتے ہیں ، یہاں تک کہ گنوار اور بےقوف لوگ انہیں بیمار سمجھ لیتے ہیں حالانکہ وہ بیمار نہیں ہوتے بلکہ خوف الٰہی سے جھکے جاتے ہیں ۔ ویسے پورے تندرست ہیں لیکن دل اللہ کے خوف سے پر ہیں ۔ آخرت کا علم دنیا طلبی سے اور یہاں کے ٹھاٹھ سے انہیں روکے ہوئے ہے ۔ یہ قیامت کے دن کہیں گے کہ اللہ کا شکر ہے جس نے ہم سے غم کو دور کردیا ۔ اس سے کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ انہیں دنیا میں کھانے پینے وغیرہ کا غم لگا رہتا تھا ، نہیں نہیں اللہ کی قسم دنیا کا کوئی غم ان کے پاس بھی نہیں پھٹکتا تھا ۔ ہاں انہیں آخرت کا کھٹکا ہر وقت لگا رہتا تھا جنت کے کسی کام کو وہ بھاری نہیں سمجھتے تھے ہاں جہنم کا خوف انہیں رلاتا رہتا تھا جو شخص اللہ کے خوف دلانے سے بھی خوف نہ کھائے اس کا نفس حسرتوں کا مالک ہے جو شخص کھانے پینے کو ہی اللہ کی نعمت سمجھے وہ کم علم ہے اور عذابوں میں پھنسا ہوا ہے ۔ پھر اپنے نیک بندوں کا اور وصف بیان فرمایا کہ جب جاہل لوگ ان سے جہالت کی باتیں کرتے ہیں تو یہ بھی ان کی طرح جہالت پر نہیں اترتے بلکہ درگزر کرلیتے ہیں معاف فرمادیتے ہیں اور سوائے بھلی بات کے گندی باتوں سے اپنی زبان آلودہ نہیں کرتے ۔ جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ جوں جوں دوسرا آپ پر تیز ہوتا آپ اتنے ہی نرم ہوتے ۔ یہی وصف قرآن کریم کی اس آیت میں بیان ہوا ہے آیت ( وَاِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْهُ وَقَالُوْا لَنَآ اَعْمَالُنَا وَلَكُمْ اَعْمَالُكُمْ ۡ سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ ۡ لَا نَبْتَغِي الْجٰهِلِيْنَ 55؀ ) 28- القصص:55 ) مومن لوگ بیہودہ باتیں سن کر منہ پھیر لیتے ہیں ۔ ایک حسن سند سے مسند احمد میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کسی شخص نے دوسرے کو برا بھلا کہا لیکن اس نے پلٹ کر جواب دیا کہ تجھ پر سلام ہو ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم دونوں کے درمیاں فرشتہ موجود تھا وہ تیری طرف سے گالیاں دینے والے کو جواب دیتا تھا وہ جو گالی تجھے دیتا تھا فرشتہ کہتا تھا یہ نہیں بلکہ تو اور جب تو کہتا تھا تجھ پر سلام تو فرشتہ کہتا تھا اس پر نہیں بلکہ تجھ پر تو ہی سلامتی کو پورا حق دار ہے ۔ پس فرمان ہے کہ یہ اپنی زبان کو گندی نہیں کرتے برا کہنے والوں کو برا نہیں کہتے سوائے بھلے کلمے کے زبان سے اور کوئی لفظ نہیں نکالتے ۔ امام حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں دوسرا ان پر ظلم کرے یہ صلح اور برداشت کرتے ہیں ۔ اللہ کے بندوں کے ساتھ دن اس طرح گزارتے ہیں کہ ان کی کڑوی کسیلی سن لیتے ہیں رات کو جس حالت میں گزارتے ہیں اس کا بیان اگلی آیت میں ہے ۔ فرماتا ہے کہ رات اللہ کی عبادت اور اس کی اطاعت میں بسر ہوتی ہے بہت کم سوتے ہیں صبح کو استغفار کرتے ہیں کروٹیں بستروں سے الگ رہتی ہیں دلوں میں اللہ کا خوف ہوتا ہے امید رحمت ہوتی ہے اور راتوں کی گھڑیوں کو اللہ کی عبادتوں میں گزارتے ہیں ۔ دعائیں مانگتے ہیں کہ اے اللہ عذاب جہنم ہم سے دور رکھ وہ تو دائمی اور لازمی عذاب ہے ۔ جیسے شاعر نے اللہ کی شان بتائی ہے کہ شعر ( ان یعذیکن غراما وان یعط جزیلا فانہ لایبالی ) یعنی اس کے عذاب بھی سخت اور لازمی اور ابدی اور اسکی عطا اور انعام بھی بیحد ان گنت اور بےحساب جو چیز آئے اور ہٹ جائے وہ غرام نہیں ۔ غرام وہ ہے جو آنے کے بعد ہٹنے اور دور ہونے کا نام ہی نہ لے ۔ یہ معنی بھی کئے گئے ہیں کہ عذاب جہنم تاوان ہے جو کافران نعمت سے لیا جائے گا ۔ انہوں نے اللہ کے دیئے کو اس کی راہ میں نہیں لگایا لہذا آج اسکا تاوان یہ بھرنا پڑے گا جہنم کو پرُ کردیں ۔ وہ بری جگہ ہے بد منظر ہے تکلیف دہ ہے مصیبت ناک ہے ۔ حضرت مالک بن حارث کا بیان ہے کہ جب دوزخی دوزخ میں پھینک دیا جائے گا تو اللہ ہی جانتا ہے کہ کتنی مدت تک وہ نیچے ہی نیچے چلا جائے گا اسکے بعد جہنم کے ایک دروازے پر اسے روک دیا جائے گا اور کہا جائے گا تم بہت پیاسے ہو رہے ہو گے لو ایک جام تو نوش کرلو ۔ یہ کہہ کر انہیں کالے ناگ اور زہریلے بچھوؤں کے زہر کا ایک پیالہ پلایا جائے گا جس کے پیتے ہی ان کی کھالیں الگ جھڑ جائیں گی بال الگ ہوجائیں گے رگیں الگ جاپڑیں گی ہڈیاں جداجدا ہوجائیں گی ۔ حضرت عبید بن عمیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جہنم میں گڑھے ہیں کنویں ہیں ان میں سانپ ہیں جیسے بختی اونٹ اور بچھو ہیں جیسے خچر جب کسی جہنمی کو جہنم میں ڈالا جاتا ہے تو وہ وہاں سے نکل کر آتے اور انہیں لپٹ جاتے ہیں ، ہونٹوں پر سروں پر اور جسم کے اور حصوں پر ڈستے اور ڈنک مارتے ہیں جس سے ان کے سارے بدن میں زہر پھیل جاتا ہے اور پھکنے لگتے ہیں سارے سر کی کھال جھلس کر گر پڑتی ہے پھر وہ سانپ چلے جاتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جہنمی ایک ہزار سال تک جہنم میں چلاتا رہے گا یاحنان یامنان تب اللہ تعالیٰ حضرت جبرائیل علیہ السلام سے فرمائے گا جاؤ دیکھو یہ کیا کہہ رہا ہے ۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام آکر دیکھیں گے کہ سب جہنمی برے حال سر جھکائے آہ وزاری کررہے ہیں ۔ جاکر جناب باری تعالیٰ میں خبر کریں گے اللہ تعالیٰ فرمائے گا پھر جاؤ فلاں فلاں جگہ یہ شخص ہے جاؤ اور اسے لے آؤ ۔ یہ بحکم الٰہی جائیں گے اور اسے لاکر سامنے کھڑا کردیں گے ۔ اللہ تعالیٰ اس سے دریافت فرمائے گا کہ تو کیسی جگہ ہے ؟ یہ جواب دے گا کہ اے اللہ ٹھہرنے کی بھی بری جگہ اور سونے بیٹھے کی بھی بدترین جگہ ہے ۔ اللہ فرمائے گا اچھا اب اسے اس کی جگہ واپس لے جاؤ تو یہ گڑگڑائے گا عرض کرے گا کہ اے میرے ارحم الرحمین اللہ جب کہ تو نے مجھے اس سے باہر نکالا تو تیری ذات ایسی نہیں کہ پھر مجھے اسمیں داخل کردے مجھے تو تجھ سے رحم وکرم کی ہی امید ہے ۔ اے اللہ بس اب مجھ پر کرم فرما ۔ جب تو نے مجھے جہنم سے نکالا تو میں خوش ہوگیا تھا کہ اب تو اس میں نہ ڈالے گا ۔ اس مالک ورحمن ورحیم اللہ کو بھی رحم آجائے گا اور فرمائے گا اچھا میرے بندے کو چھوڑ دو ۔ پھر ان کا ایک اور وصف بیان ہوتا ہے کہ وہ نہ مسرف ہیں نہ بخیل ہیں نہ بےجا خرچ کرتے ہیں نہ ضروری اخراجات میں کوتاہی کرتے ہیں بلکہ میانہ روی سے کام لیتے ہیں نہ ہی ایسا کرتے ہیں کہ اپنے والوں کو اہل وعیال کو بھی تنگ رکھیں ۔ نہ ایسا کرتے ہیں کہ جو ہو سب لٹادیں ۔ اسی کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے فرماتا ہے آیت ( وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَـقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا 29؀ ) 17- الإسراء:29 ) یعنی نہ تو اپنے ہاتھ اپنی گردن سے باندھ اور نہ انہیں بالکل ہی چھوڑ دے ۔ مسند احمد میں فرمان رسول ہے کہ اپنی گزران میں میانہ روی کرنا انسان کی سمجھ داری کی دلیل ہے ۔ اور حدیث میں ہے جو افراط تفریط سے بچتا ہے وہ کبھی فقیر ومحتاج نہیں ہوتا ۔ بزار کی حدیث میں ہے کہ امیری میں فقیری میں عبادت میں درمیانہ روی بڑی ہی بہتر اور احسن چیز ہے ۔ امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اللہ کی راہ میں کتنا ہی چاہو دو اس کا نام اسراف نہیں ہے ۔ حضرت ایاس بن معاویہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جہاں کہیں تو حکم اللہ سے آگے بڑھ جائے وہی اسراف ہے ۔ اور بزرگوں کا قول ہے اللہ کی نافرمانی کا خرچ اسراف کہلاتا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

631سلام سے مراد یہاں اعراض اور ترک بحث ہے۔ یعنی اہل ایمان، اہل جہالت سے الجھتے نہیں ہیں بلکہ ایسے موقع پر پرہیز اور گریز کی پالیسی اختیار کرتے ہیں اور بےفائدہ بحث نہیں کرتے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٠] سابقہ آیات میں رحمن اور رحمن کی نشاندہی کا ذکر چلا رہا تھا تو یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی نسبت اپنی طرف کرنے کے بجائے رحمن کی طرف منسوب کرکے واضح کردیا کہ رحمن بھی اللہ تعالیٰ ہی کا ذاتی نام ہے۔ ویسے تو جتنی بھی اللہ کی مخلوق ہے سب ہی رحمن کے بندے ہیں۔ لیکن یہاں اس سے مراد اللہ کے وہ بندے ہیں۔ جو اللہ کو محبوب ہیں۔ اگلی آیات میں ایسے ہی اللہ کے بندوں کی کچھ صفات مذکور ہیں۔ ان آیات میں دراصل رحمن کے بندوں اور شیطان کے بندوں کی طرز زندگی اور ان کے اعمال و افعال کا تقابل پیش کیا جارہا ہے۔ پہلے شیطان کے بندوں کا ذکر چل رہا تھا۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی صفات بیان کرکے بہت سی باتوں کو انسان کے فہم پر چھوڑ دیا ہے۔- اللہ کے بندوں کی پہلی صفت یہ بیان فرمائی کہ ان کی چال میں انکساری ہوتی ہے تکبر کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ انسان کی چال ایسی چیز ہے جو اس کے زمین کی پوری پوری عکاسی کردیتی ہے۔ ایک شریف النفس اور سیم الفیع انسان کی چال اور قسم کی ہوتی ہے۔ کسی ظالم و جابر کی اور قسم کی، اوباش اور غنڈوں کی اور قسم، اور متکبر اور شیخی باز لوگوں کی اور قسم کی۔ گویا ہر انسان کے چال ڈھال سے پہلی نظر میں ہی معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ انسان کون سے طبقہ سے تعلق رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں چال کی صفت میں ھونا کا لفظ استعمال فرمایا ھونا نہیں فرمایا۔ ھونا کا مطلب ایسی چال ہے جس میں تواضع، سبک اور وقار پایا جائے۔ چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی چال ایسی ہی ہوتی تھی۔ قدم چھوٹے مگر تیز گام اور چال میں وقار ہوتا تھا اور ھونا کا مطلب ایسی چال ہے جس میں کمزوری، کم ہمتی اور ذلت کا پہلو محسوس ہوتا ہے جسے کسی بیمار اور بڑے بوڑھے کی چال یا کسی ایسے ریا کار کی چال جو لوگوں میں اپنی انکساری کا سکہ بٹھلانا چاہتا ہو۔ جیسے متکربانہ چال ممنوع ہے ویسے ہی اس طرح کی چال بھی ممنوع ہے۔ ( نیز دیکھئے سورة بن اسرائیل کی آیت نمبر ٣٧ کا حاشیہ (- [٨١] جاہلی سے مراد بےعلم یا کم علم یا نادان نہیں بلکہ کج بحث قسم کے لوگ ہیں۔ جن کا بحث میں مقصود کچھ سبق حاصل کرنا نہیں ہوتا بلکہ مخاطب کو نیچا دکھانا یا اس کا مذاق اڑانا ہوتا ہے۔ اللہ کے بندوں کا شیوہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ایسی فضول اور بےہودہ باتوں میں پڑ کر اپنا وقت ضائع نہیں کرتے۔ نہ ہی وہ ایسے لوگوں کی بدتمیزی یا بیہودگی کو برداشت کرتے ہیں۔ مگر اگر کسی ایسے شخص سے سابقہ پڑ بھی جائے تو سلام کہہ کر اس سے کنی کترا جاتے ہیں۔ وہ گالی کا جواب گالی سے یا اینٹ کا جواب پتھر سے دینے والوں سے کنارہ کش رہتے ہیں اور نہ ایسے لوگ کے نزدیک بھی بھٹکتے

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَعِبَاد الرَّحْمٰنِ الَّذِيْنَ يَمْشُوْنَ ۔۔ : اللہ تعالیٰ کا عبد (بندہ) ہونے کی دو حیثیتیں ہیں، ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ رب ہے اور یہ اس کا بندہ ہے، اس بندگی میں ساری مخلوق شریک ہے، مسلم ہوں یا کافر، نیک ہوں یا بد، سب اللہ کے عبد (بندے) ہیں، وہ سب کا رب ہے، فرمایا : (اِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اِلَّآ اٰتِي الرَّحْمٰنِ عَبْدًا)[ مریم : ٩٣ ] ” آسمانوں اور زمین میں جو کوئی بھی ہے وہ رحمٰن کے پاس غلام بن کر آنے والا ہے۔ “ دوسری حیثیت عبد ہونے کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ معبود ہے اور یہ اس کی عبادت اور بندگی کرنے والا ہے۔ اس معنی میں عباد الرحمن (رحمان کے بندے) صرف انبیاء، اولیاء اور اس کے نیک بندے ہیں۔ اس لحاظ سے جب کسی کو عبداللہ (اللہ کا بندہ) کہا جاتا ہے، تو اسے مخلوق کے مرتبوں میں سے سب سے اونچے مرتبے پر فائز کیا جاتا ہے۔ دیکھیے سورة بنی اسرائیل (١) اور سورة جن (١٩) ۔- 3 رحمٰن کی عبادت کے لحاظ سے بندوں کی ایک قسم کا ذکر پچھلی آیات میں گزرا ہے کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ رحمٰن کو سجدہ کرو تو وہ جانتے بوجھتے ہوئے شوخی و شرارت اور سرکشی و تکبر کے ساتھ رحمٰن کو جاننے ہی سے انکار کردیتے ہیں اور کہتے ہیں رحمٰن ہے کیا چیز ؟ اور مزید بدک جاتے ہیں، حالانکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ رحمٰن کون ہے۔ اب رحمٰن کے ان بندوں کا ذکر ہے جو واقعی رحمٰن کی بندگی کرتے ہیں اور رات دن کے یکے بعد دیگرے آنے جانے سے اور کائنات کی ہر چیز سے نصیحت حاصل کرتے اور مالک کا شکر ادا کرتے ہیں، فرمایا : (لِّمَنْ اَرَادَ اَنْ يَّذَّكَّرَ اَوْ اَرَادَ شُكُوْرًا) [ الفرقان : ٦٢ ] ” اس کے لیے جو چاہے کہ نصیحت حاصل کرے، یا کچھ شکر کرنا چاہے۔ “ اور ان کی ان صفات کا ذکر ہے جو رحمٰن کی بندگی سے پیدا ہوتی ہیں، جن سے وہ لوگ سراسر محروم رہتے ہیں جو رحمٰن کو سجدہ کرنے کے حکم پر سرکشی اور نفرت کا اظہار کرتے ہیں اور نہ نصیحت حاصل کرتے ہیں، نہ شکر ادا کرتے ہیں۔ - وَعِبَاد الرَّحْمٰنِ کے لفظ میں اشارہ ہے کہ ان کی یہ صفات ان پر رحمٰن کی رحمت کا نتیجہ ہیں۔ - ” عباد الرحمان “ کے سب سے پہلے مصداق صحابہ کرام (رض) ہیں جو ان آیات میں ذکر کردہ تمام صفات کے ساتھ متصف تھے۔ (دیکھیے فتح : ٢٩) اس کے بعد قیامت تک آنے والے تمام متقی مومن اس کے مصداق ہیں۔ اسی طرح ” عباد الشیطان “ کے سب سے پہلے مصداق ابو لہب، ابوجہل اور ان کے ساتھی ہیں، ان کے بعد قیامت تک آنے والے تمام کفار و فجار۔ - 3 عباد الرحمان کی صفات جو اس مقام پر بیان ہوئی ہیں، چار قسم کی ہیں، پہلی قسم ان کا دینی کمالات کے ساتھ آراستہ ہونا ہے، ان کی ابتدا ” الَّذِيْنَ يَمْشُوْنَ عَلَي الْاَرْضِ هَوْنًا “ سے ہوتی ہے۔ دوسری قسم ان کا ہر طرح کے رذائل اور کمینگیوں سے پاک ہونا ہے، یہ ” وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ “ سے شروع ہوتی ہے۔ تیسری قسم ان کا اسلام کے احکام پر کار بند ہونا ہے، ان صفات کا ذکر آیت (٦٤) : (وَالَّذِيْنَ يَبِيْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّقِيَامًا ) اور آیت (٦٧) : (وَالَّذِيْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا ۔۔ ) اور آیت (٦٨) : (وَلَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ ) سے لے کر آیت (٧٢) : (وَالَّذِيْنَ لَا يَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَ ) تک میں ہے اور چوتھی قسم ان کی طرف سے اس بات کی مسلسل کوشش اور اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ان کی دینی حالت بہتر سے بہتر ہوتی چلی جائے، اس کا ذکر آیت (٧٤) : (وَالَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيّٰتِنَا قُرَّةَ اَعْيُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًا ) میں ہے۔ (ابن عاشور)- يَمْشُوْنَ عَلَي الْاَرْضِ هَوْنًا : ” هَوْنًا “ نرمی، مصدر بمعنی اسم فاعل برائے مبالغہ ہے : ” أَيْ مَشْیًا ذَا ھَوْنٍ “ یعنی بہت نرمی والی چال چلتے ہیں۔ یعنی رحمٰن کے محبوب بندے وہ ہیں جو تواضع اور عاجزی اختیار کرتے ہیں اور جب زمین پر چلتے ہیں تو نرمی کے ساتھ چلتے ہیں نہ کہ فساد برپا کرنے والوں اور ظلم و جبر کرنے والوں کی طرح اینٹھتے اور اکڑتے ہوئے۔ لقمان حکیم نے اپنے بیٹے کو وصیت فرمائی : (وَلَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْـتَالٍ فَخُــوْر) [ لقمان : ١٨ ] ” اور زمین میں اکڑ کر نہ چل، بیشک اللہ کسی اکڑنے والے، فخر کرنے والے سے محبت نہیں کرتا۔ “ نرمی کی چال سے مراد سکون اور وقار کی چال ہے نہ کہ دکھاوے کے لیے بناوٹ کے ساتھ مریضوں کی طرح چلنا۔ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مضبوط قدم رکھتے ہوئے چلتے تھے، چناچہ علی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس طرح چلتے تھے : ” کَأَنَّمَا یَنْحَطُّ عَنْ صَبَبٍ “ (گویا ڈھلوان کی طرف اتر رہے ہوں۔ ) [ مسند أحمد : ١؍٩٦، ح : ٧٤٩، قال المحقق سندہ قوي ] ابو طفیل (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں بیان کرتے ہیں : ( کَانَ أَبْیَضَ مَلِیْحًا، إِذَا مَشَی کَأَنَّمَا یَھْوِیْ فِيْ صَبُوْبٍ ) [ أبوداوٗد، الأدب، باب في ھدی الرجل : ٤٨٦٤، وقال الألبانی صحیح ] ” آپ سفید رنگ اور انتہائی خوبصورت تھے، جب چلتے تو گویا ڈھلوان میں اتر رہے ہوں۔ “ زمین پر نرمی کے ساتھ چلنے میں عام زندگی کا چال چلن بھی شامل ہے، کیونکہ آدمی کی چال اس کے چلن ہی کے مطابق ہوتی ہے۔ رحمٰن کے بندوں کی چال اور ان کا چلن دونوں سے تواضع اور نرمی کا اظہار ہوتا ہے، ان میں نہ تکبر ہوتا ہے نہ شدت، ہاں، کفار کے مقابلے میں وہ اکڑ کر بھی چلتے ہیں اور ان میں شدت بھی ہوتی ہے، جیسا کہ طواف کے اندر رمل کے حکم سے ظاہر ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ ۭ وَالَّذِيْنَ مَعَهٗٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَهُمْ ) [ الفتح : ٢٩ ] ” محمد اللہ کا رسول ہے اور وہ لوگ جو اس کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر بہت سخت ہیں، آپس میں نہایت رحم دل ہیں۔ “ اور فرمایا : (اَذِلَّةٍ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اَعِزَّةٍ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ ) [ المائدۃ : ٥٤ ] ” مومنوں پر بہت نرم ہوں گے، کافروں پر بہت سخت۔ “- وَّاِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا : ” جَھْل “ کا لفظ یہاں ” علم “ کے مقابلے میں نہیں بلکہ ” حلم “ کے مقابلے میں ہے۔” الْجٰهِلُوْنَ “ کے لفظ سے یہ بات سمجھ میں آرہی ہے کہ عباد الرحمن لوگوں سے ہمیشہ علیحدگی اور ترک کلام اختیار نہیں کرتے، بلکہ صرف ان کی جہالت اور اکھڑ پن کے رویے پر انھیں ترکی بہ ترکی جواب دینے اور جھگڑنے کے بجائے سلام کہہ کر گزر جاتے ہیں۔ دوسری جگہ فرمایا : (وَاِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْهُ وَقَالُوْا لَنَآ اَعْمَالُنَا وَلَكُمْ اَعْمَالُكُمْ ۡ سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ ۡ لَا نَبْتَغِي الْجٰهِلِيْنَ ) [ القصص : ٥٥ ] ” اور جب وہ لغو بات سنتے ہیں تو اس سے کنارہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لیے تمہارے اعمال۔ سلام ہے تم پر، ہم جاہلوں کو نہیں چاہتے۔ “ ابوامامہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( أَنَا زَعِیْمٌ بِبَیْتٍ فِيْ رَبَضِ الْجَنَّۃِ لِمَنْ تَرَکَ الْمِرَاءَ وَإِنْ کَانَ مُحِقًّا، وَ بِبَیْتٍ فِيْ وَسَطِ الْجَنَّۃِ لِمَنْ تَرَکَ الْکَذِبَ وَإِنْ کَانَ مَازِحًا، وَ بِبَیْتٍ فِيْ أَعْلَی الْجَنَّۃِ لِمَنْ حَسَّنَ خُلُقَہُ ) [ أبوداوٗد، الأدب، باب في حسن الخلق : ٤٨٠٠، و حسنہ الألباني ] ” میں جنت کے اطراف میں مکان کا ضامن ہوں، اس شخص کے لیے جو جھگڑا چھوڑ دے خواہ حق دار ہو اور جنت کے وسط میں مکان کا ضامن ہوں اس شخص کے لیے جو جھوٹ چھوڑ دے خواہ مذاق سے ہو اور جنت کے سب سے بلند مقام پر مکان کا ضامن ہوں اس شخص کے لیے جو اپنا خلق (اخلاق) اچھا بنا لے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور (حضرت) رحمن کے (خاص) بندے وہ ہیں جو زمین پر عاجزی کے ساتھ چلتے ہیں (مطلب یہ کہ ان کے مزاج میں تواضح ہے تمام امور میں اور اسی کا اثر چلنے میں بھی ظاہر ہوتا ہے اور خاص چال کی ہیئت بیان کرنا مقصود نہیں کیونکہ دماغ داری کے ساتھ نرم رفتاری موجب مدح نہیں اور یہ تواضح تو ان کا طرز خاص اپنے اعمال میں ہے) اور (دوسروں کے ساتھ ان کا طرز یہ ہے کہ) جب ان سے جہالت والے لوگ (جہالت کی) بات (چیت) کرتے ہیں تو وہ رفع شر کی بات کہتے ہیں۔ (مطلب یہ کہ اپنے نفس کے لئے انتقام قولی یا فعلی نہیں لیتے اور جو خشونت تادیب و اصلاح و سیاست شرعیہ یا اعلاء کلمتہ اللہ کے لئے ہو اس کی نفی مقصود نہیں) اور جو (اللہ کے ساتھ اپنا یہ طرز رکھتے ہیں کہ) راتوں کو اپنے رب کے آگے سجدہ اور قیام (یعنی نماز) میں لگے رہتے ہیں اور جو (باوجود ادائے حقوق اللہ و حقوق العباد کے اللہ تعالیٰ سے اس قدر ڈرتے ہیں کہ) دعائیں مانگتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ہم سے جہنم کے عذاب کو دور رکھئے کیونکہ اس کا عذاب پوری تباہی ہے، بیشک وہ جہنم برا ٹھکانا اور برا مقام ہے (یہ تو ان کی حالت طاعات بدنیہ میں ہے) اور (طاعات مالیہ میں ان کا یہ طریقہ ہے) وہ جب خرچ کرنے لگتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں (کہ معصیت میں صرف کرنے لگیں) اور نہ تنگی کرتے ہیں (کہ اطاعت ضروریہ میں بھی خرچ کی کوتاہی کریں اور اسراف میں وہ خرچ بھی آ گیا کہ بلاضرورت استطاعت سے زیادہ مباحات میں یا طاعات غیر ضروریہ میں خرچ کریں جس کا انجام اخیر میں بےصبری اور حرص و بد نیتی ہو کیونکہ یہ امور معصیت ہیں اور جو چیز معصیت کا سبب بنے وہ بھی معصیت ہے اس لئے وہ بھی معصیت ہی میں خرچ کرنا انجام کار ہوگیا۔ اسی طرح طاعات ضروریہ میں بالکل خرچ نہ کرنے کی مذمت لَمْ يَـقْتُرُوْا سے مفہوم ہوگئی کیونکہ جب خرچ میں کمی کرنا جائز نہیں تو عدم انفاق تو بدرجہ اولی ناجائز ہوگا پس یہ شبہ نہ رہا کہ خرچ میں کمی کرنے کی تو نفی اور نہی ہوگئی لیکن عدم الانفاق بالکلیہ کی نفی اور نہی نہ ہوئی، غرض وہ انفاق میں افراط وتفریط دونوں سے مبرا ہیں) ان کا خرچ کرنا اس (افراط وتفریط) کے درمیان اعتدال پر ہوتا ہے ( اور یہ حالت مذکورہ تو طاعات کی ادائیگی سے متعلق تھی) اور جو (گناہ سے بچنے میں یہ شان رکھتے ہیں) کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور معبود کی پرستش نہیں کرتے (جو معصیت متعلق عقائد کے ہے) اور جس شخص ( کے قتل کرنے) کو اللہ تعالیٰ نے (قواعد شرعیہ کی رو سے) حرام فرمایا ہے اس کو قتل نہیں کرتے ہیں مگر حق پر (یعنی جب قتل کے وجوب یا اباحت کا کوئی سبب شرعی پایا جاوے اس وقت اور بات ہے) اور وہ زنا نہیں کرتے (کہ یہ قتل و زنا اعمال کے متعلقہ گناہوں میں سے ہیں) اور جو شخص ایسے کام کرے گا ( کہ شرک کرے یا شرک کے ساتھ قتل ناحق بھی کرے یا زنا بھی کرے جیسے مشرکین مکہ تھے) تو سزا سے اس کو سابقہ پڑے گا کہ قیامت کے روز اس کا عذاب بڑھتا چلا جائے گا (جیسا کفار کے حق میں دوسری آیات میں آیا ہے زِدْنٰهُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ ) اور وہ اس (عذاب) میں ہمیشہ ہمیشہ ذلیل (و خوار) ہو کر رہے گا (تاکہ عذاب جسمانی کے ساتھ ذلت کا عذاب روحانی بھی ہو اور شدت عذاب یعنی تضاعف کے ساتھ مقدار کی زیادتی یعنی خلود بھی ہو اور مراد اس وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ سے کفار و مشرکین ہیں بقرنیہ یضاعف و یخلد و مہاناً و آمن کیونکہ مومن گناہگار کے لئے عذاب میں زیادتی اور خلود نہ ہوگا بلکہ اس کا عذاب اس کو پاک صاف کرنے کے لئے ہوگا نہ کہ اہانت کے لئے اور اس کے لئے تجدید ایمان کی ضرورت نہیں صرف توبہ کافی ہے جس کا آگے بیان ہے وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ الخ نیز قرائن مذکورہ کے سوا صحیحین میں ابن عباس سے شان نزول بھی اس کا یہی منقول ہے کہ مشرکین کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی) مگر جو (شرک و معاصی سے) توبہ کرلے اور (اس توبہ کے قبول ہونے کی شرط یہ ہے کہ) ایمان (بھی) لے آوے اور نیک کام کرتا رہے (یعنی ضروری طاعات کو بجا لاتا رہے) تو (اس کو جہنم میں خلود تو کیا ہوتا جہنم سے ذرا بھی مس نہ ہوگا بلکہ) اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے (گزشتہ) گناہوں (کو محو کر کے ان) کی جگہ (آئندہ) نیکیاں عنایت فرمائے گا (یعنی چونکہ گزشتہ کفر و گناہ زمانہ کفر کے بعد اسلام کی برکت سے معاف ہوجاویں گے اور آئندہ بوجہ اعمال صالحہ کے حسنات لکھی جاتی رہیں گی اور ان پر ثواب ملے گا اس لئے جہنم سے ان کا کچھ تعلق نہ ہوگا پس الا استثناء منقطع ہے اور مَنْ تَابَ کی خبر فَاُولٰۗىِٕكَ الخ ہے اور مقصود بالحکم تبدیل سیئات بالحسنات ہے جو مجموعہ ایمان و توبہ و عمل صالح پر مرتب ہے اور جہنم کی آگ سے محفوظ رہنا اس کا لازمی اثر ہے اور جہنم میں دخول ہی نہیں تو خلود نہ ہونا ظاہر ہے، یا استثناء متصل ہو اور عدم خلود کے لئے مجموعہ ایمان و توبہ و عمل صالح شرط نہ ہو مگر مجموعہ کے ساتھ عدم خلود کا پایا جانا اس آیت میں مذکور ہوا اور صرف ایمان پر عدم خلود کا مرتب ہونا دوسرے دلائل سے ثابت ہو) اور (یہ محو سیئات و ثبت حسنات اس لئے ہوا کہ) اللہ تعالیٰ غفور ہے (اس لئے سیئات کو محو کردیا اور) رحیم ہے ( اس لئے حسنات کو قائم فرمایا۔ یہ تو تائب عن الکفر کا بیان تھا۔ ) اور (آگے اس مومن کا ذکر ہے جو گناہ سے توبہ کرے تاکہ مضمون توبہ کا پورا ہوجائے و نیز مقبول بندوں کے بقیہ اوصاف کا بیان ہے کہ وہ لوگ ہمیشہ طاعات کے پابند اور سیئات سے پرہیز کے عادی رہتے ہیں لیکن اگر احیاناً صدور معصیت ہوجائے تو توبہ کرلیتے ہیں اس لئے تائبین کا حال ارشاد فرمایا (یعنی) جو شخص (جس معصیت سے) توبہ کرتا ہے اور نیک کام کرتا ہے (یعنی آئندہ معصیت سے بچتا ہے) تو وہ (بھی عذاب سے بچا رہے گا کیونکہ وہ) اللہ تعالیٰ کی طرف خاص طور پر رجوع کر رہا ہے (یعنی خوف و اخلاص کے ساتھ کہ شرط توبہ ہے، آگے پھر عباد رحمٰن کے اوصاف بیان فرماتے ہیں یعنی) اور (ان میں یہ بات ہے کہ) وہ بیہودہ باتوں میں (جیسے لہو و لعب خلاف شرع) شامل نہیں ہوتے اور اگر (اتفاقاً بلاقصد) بیہودہ مشغلوں کے پاس کو ہو کر گزریں تو سنجیدگی (و شرافت) کے ساتھ گزر جاتے ہیں (یعنی نہ اس کی طرف مشغول ہوتے ہیں اور نہ ان کے آثار سے گناہگاروں کی تحقیر اور اپنا ترفع اور تکبر ظاہر ہوتا ہے) اور وہ ایسے ہیں کہ جس وقت ان کو اللہ کے احکام کے ذریعہ سے نصیحت کی جاتی ہے تو ان (احکام) پر بہرے اندھے ہو کر نہیں گرتے (جس طرح کافر قرآن پر ایک نئی بات سمجھ کر تماشے کے طور پر اور نیز اس میں اعتراضات پیدا کرنے کے لئے اس کے حقائق و معارف سے اندھے بہرے ہو کر اندھا دھند بےترتیب ہجوم کرلیتے تھے جیسا کہ دوسری جگہ قرآن کا ارشاد ہے کادُوْا يَكُوْنُوْنَ عَلَيْهِ لِبَدًا (علی بعض التفاسیر) سو عباد مذکورین ایسا نہیں کرتے، بلکہ عقل و فہم کے ساتھ قرآن پر متوجہ اور اس کی طرف دوڑتے ہیں جس کا ثمرہ زیادہ ایمان و عمل بالاحکام ہے پس مقصود آیت میں اندھے بہرے ہونے کی نفی کرنا ہے نہ کہ قرآن کی طرف شوق کے ساتھ متوجہ ہونے اس پر گرنے کی، کیونکہ وہ عین مطلوب ہے۔ اور اس سے کافر کے لئے بھی قرآن پر گرنا تو ثابت ہوتا ہے مگر وہ مخالفت اور مزاحمت کے طور پر اور اندھے بہروں کی طرح تھا اس لئے وہ مذموم ہے) اور وہ ایسے ہیں کہ (خود جیسے دین کے عاشق ہیں اسی طرح اپنے اہل و عیال کے لئے بھی اس کے ساعی اور داعی ہیں، چناچہ عملی کوشش کے ساتھ حق تعالیٰ سے بھی) دعا کرتے رہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ہم کو ہماری بیبیوں اور ہماری اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک (یعنی راحت) عطا فرما (یعنی ان کو دیندار بنا دے اور ہم کو ہماری اس سعی دینداری میں کامیاب فرما کر ان کو دینداری میں کامیاب فرما کہ ان کو دینداری کی حالت میں دیکھ کر راحت اور سرور ہو) اور (تو نے ہم کو ہمارے خاندان کا افسر تو بنایا ہی ہے مگر ہماری دعا یہ ہے کہ ان سب کو متقی کر کے) ہم کو متقیوں کا افسر بنا دے (تو اصل مقصود افسری مانگنا نہیں ہے گو اس میں بھی قباحت نہیں مگر مقام دلالت نہیں کرتا بلکہ اصل مقصود اپنے خاندان کے متقی ہونے کی درخواست ہے یعنی بجائے اس کے کہ ہم صرف خاندان کے افسر ہیں ہم کو متقی خاندان کا افسر بنا دیجئے، یہاں تک عباد رحمان کے اوصاف کا بیان تھا آگے ان کی جزا ہے یعنی) ایسے لوگوں کو (بہشت میں رہنے کو) بالاخانے ملیں گے بوجہ ان کے (دین و اطاعت پر) ثابت قدم رہنے کے اور ان کو اس (بہشت) میں (فرشتوں کی جانب سے) بقاء کی دعا اور سلام ملے گا (اور) اس (بہشت) میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، وہ کیسا اچھا ٹھکانا اور مقام ہے (جیسا جہنم کے بارے میں سَاۗءَتْ مُسْتَــقَرًّا وَّمُقَامًا فرمایا ہے، اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ (عام طور پر لوگوں سے) کہہ دیجئے کہ میرا رب تمہاری ذرا بھی پروا نہ کرے گا اگر تم عبادت نہ کرو گے سو (اس سے سمجھ لینا چاہئے کہ اے کفار) تم تم (احکام الہیہ کو) جھوٹا سمجھتے ہو تو عنقریب یہ (جھوٹا سمجھنا تمہارے لئے) وبال (جان) ہو (کر رہے) گا، (خواہ دنیا میں جیسے واقعہ بدر میں کفار پر مصیبت آئی یا آخرت میں اور وہ ظاہر ہے۔ )- معارف و مسائل - سورة فرقان کے بیشتر مضامین رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت و نبوت کے ثبوت اور کفار و مشرکین جو اس پر اعتراض کرتے تھے ان کے جوابات پر مشتمل تھے اور اس میں کفار و مشرکین اور احکام کی نافرمانی کرنے والوں پر عذاب و سزا کا بھی ذکر تھا۔ آخر سورت میں اپنے ان مخصوص اور مقبول بندوں کا ذکر فرماتے ہیں جن کا رسالت پر ایمان بھی مکمل ہے اور ان کے عقائد اعمال، اخلاق، عادات سب اللہ و رسول کی مرضی کے تابع احکام شرعیہ کے مطابق ہیں۔- قرآن کریم نے ایسے مخصوص بندوں کو عباد الرحمٰن کا لقب عطا فرمایا جو ان کا سب سے بڑا اعزاز ہے۔ یوں تو ساری ہی مخلوق تکوینی اور جبری طور پر اللہ کی بندگی اور اس کی مشیت و ارادہ کے تابع ہے اس کے ارادے کے بغیر کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔ مگر یہاں بندگی سے مراد تشریعی اور اختیاری بندگی ہے یعنی اپنے اختیار سے اپنے وجود اور اپنی تمام خواہشات اور تمام کاموں کو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے تابع بنادینا ایسے مخصوص بندے جن کو حق تعالیٰ نے خود اپنا بند کہہ کر عزت بخشی ہے ان کے اوصاف آخر سورت تک بیان کئے گئے ہیں درمیان میں کفر و معصیت سے توبہ اور اس کے اثرات کا ذکر آیا ہے۔- یہاں ان مخصوص بندوں کو اپنا بندہ فرما کر ان کو اعزازی لقب دینا تھا مگر اپنی طرف نسبت کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے سب اسماء حسنی اور صفات کمال میں سے اس جگہ لفظ رحمن کا انتخاب شاید اس لئے کیا گیا کہ مقبولین کی عادات وصفات اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت کی ترجمان اور مظہر ہونا چاہئیں اس کی طرف اشارہ کرنا منظور ہے۔- اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں کی مخصوص صفات و علامات :- آیات مذکورہ میں اللہ کے مخصوص اور مقبول بندوں کی تیرہ صفات و علامات کا ذکر آیا ہے جن میں عقائد کی درستی اور اپنے ذاتی اعمال میں خواہ وہ بدن سے متعلق ہوں یا مال سے، سب میں اللہ و رسول کے احکام اور مرضی کی پابندی۔ دوسرے انسان کے ساتھ معاشرت اور تعلقات کی نوعیت، رات دن کی عبادت گزاری کے ساتھ خوف خدا۔ تمام گناہوں سے بچنے کا اہتمام اور اپنے ساتھ اپنی اولاد و ازواج کی اصلاح کی فکر وغیرہ شامل ہیں۔- ان کا سب سے پھلا وصف عباد ہونا ہے۔ عباد عبد کی جمع ہے عبد کا ترجمہ ہے بندہ جو اپنے آقا کا مملوک ہو، اس کا وجود اور اس کے تمام اختیارات و اعمال آقا کے حکم ومرضی پر دائر ہوتے ہیں۔- اللہ تعالیٰ کا بندہ کہلانے کا مستحق وہی شخص ہوسکتا ہے جو اپنے عقائد و خیالات کو اور اپنے ہر ارادے اور خواہش کو اور اپنی ہر حرکت و سکون کو اپنے رب کے حکم اور مرضی کے تابع رکھے ہر وقت گوش برآواز رہے کہ جس کام کا حکم ہو وہ بجا لاؤں۔- دوسری صفت : يَمْشُوْنَ عَلَي الْاَرْضِ هَوْنًا، یعنی چلتے ہیں وہ زمین پر تواضع کے ساتھ لفظ ہوں کا مفہوم اس جگہ سکینت و وقار اور تواضع ہے کہ اکڑ کر نہ چلے، قدم مکتبرانہ انداز سے نہ رکھے بہت آہستہ چلنا مراد نہیں، کیونکہ وہ بلا ضرورت ہو تو خلاف سنت ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چلنے کی جو صفت شمائل نبویہ میں منقول ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا چلنا بہت آہستہ نہیں بلکہ کسی قدر تیزی کے ساتھ تھا۔ حدیث میں ہے کانما الارض تطوی لہ، یعنی آپ ایسا چلتے تھے کہ گویا زمین آپ کے لئے سمٹتی ہے (ابن کثیر) اسی لئے سلف صالحین نے بتکلف مریضوں کی طرح آہستہ چلتے کو علامت تکبر و تصنع ہونے کے سبب مکروہ قرار دیا ہے۔ فاروق اعظم نے ایک نوجوان کو دیکھا کہ بہت آہستہ چل رہا ہے، پوچھا : کیا تم بیمار ہو۔ اس نے کہا نہیں، تو آپ نے اس پر درہ اٹھایا اور حکم دیا کہ قوت کے ساتھ چلا کرو۔ (ابن کثیر)- حضرت حسن بصری نے اس آیت يَمْشُوْنَ عَلَي الْاَرْضِ هَوْنًا کی تفسیر میں فرمایا کہ مومنین مخلصین کے تمام اعضاء وجوارح آنکھ، کان، ہاتھ، پاؤں سب اللہ کے سامنے ذلیل و عاجز ہوتے ہیں ناواقف ان کو دیکھ کر معذور عاجز سمجھتا ہے حالانکہ نہ وہ بیمار ہیں نہ معذور بلکہ تندرست قوی ہیں مگر ان پر حق تعالیٰ کا خوف ایسا طاری ہے جو دوسروں پر نہیں ہے۔ ان کو دنیا کے دھندوں سے آخرت کی فکر نے روکا ہوا ہے اور جو شخص اللہ پر بھروسہ نہیں کرتا اور اس کی ساری فکر دنیا ہی کے کاموں میں لگی رہتی ہے تو وہ ہمیشہ حسرت ہی حسرت میں رہتا ہے (کہ دنیا تو ساری ملتی نہیں اور آخرت میں اس نے حصہ نہیں لیا) اور جس شخص نے اللہ کی نعمت صرف کھانے پینے کی ہی چیزوں کو سمجھا ہے اور اعلی اخلاق کی طرف دھیان نہیں دیا، اس کا علم بہت تھوڑا ہے اور عذاب اس کے لئے تیار ہے۔ (از ابن کثیر ملخصاً )- تیسری صفت : وَّاِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا یعنی جب جہالت والے ان سے خطاب کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں، سلام۔ یہاں جاہلون کا ترجمہ جہالت والوں سے کر کے یہ بات واضح کردی گئی ہے کہ مراد اس سے بےعلم آدمی نہیں بلکہ وہ جو جہالت کے کام اور جاہلانہ باتیں کرے خواہ واقع میں وہ ذی علم بھی ہو۔ اور لفظ سلام سے مراد یہاں عرفی سلام نہیں بلکہ سلامتی کی بات ہے۔ قرطبی نے نحاس سے نقل کیا ہے کہ اس جگہ سلام تسلیم سے مشتق نہیں بلکہ تسلم سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں سلامت رہنا۔ مراد یہ ہے کہ جاہلوں کے جواب میں وہ سلامتی کی بات کہتے ہیں جس سے دوسروں کو ایذا نہ پہنچے اور یہ گناہگار نہ ہو۔ یہی تفسیر حضرت مجاہد، مقاتل وغیرہ سے منقول ہے۔ (مظہری) - حاصل یہ ہے کہ بیوقوف جاہلانہ باتیں کرنے والوں سے یہ حضرات انتقامی معاملہ نہیں کرتے بلکہ ان سے درگزر کرتے ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِيْنَ يَمْشُوْنَ عَلَي الْاَرْضِ ہَوْنًا وَّاِذَا خَاطَبَہُمُ الْجٰہِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا۝ ٦٣- عبد - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه»- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - مشی - المشي : الانتقال من مکان إلى مکان بإرادة . قال اللہ تعالی: كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ- [ البقرة 20] ، وقال : فَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلى بَطْنِهِ [ النور 45] ، إلى آخر الآية . يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ، فَامْشُوا فِي مَناكِبِها[ الملک 15] ، ويكنّى بالمشي عن النّميمة . قال تعالی: هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ [ القلم 11] ، ويكنّى به عن شرب المسهل، فقیل : شربت مِشْياً ومَشْواً ، والماشية : الأغنام، وقیل : امرأة ماشية : كثر أولادها .- ( م ش ی ) المشی - ( ج ) کے معنی ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف قصد اور ارادہ کے ساتھ منتقل ہونے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] جب بجلی چمکتی اور ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ فَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلى بَطْنِهِ [ النور 45] ان میں سے بعض ایسے ہیں جو پیٹ کے بل چلتے ہیں يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں ۔ فَامْشُوا فِي مَناكِبِها[ الملک 15] تو اس کی راہوں میں چلو پھرو ۔ اور کنایۃ مشی کا لفظ چغلی کھانے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ [ القلم 11] طعن آمیز اشارتیں کرنے والا چغلیاں لئے پھرنے والا ۔ اور کنایۃ کے طور پر مشئی کے معنی مسہل پینا بھی آتے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ شربت مشیا ومشو ا میں نے مسہل دواپی الما شیۃ مویشی یعنی بھیڑ بکری کے ریوڑ کو کہتے ہیں اور امراۃ ماشیۃ اس عورت کو کہتے ہیں جس کے بچے بہت ہوں ۔- هين - الْهَوَانُ علی وجهين :- أحدهما : تذلّل الإنسان في نفسه لما لا يلحق به غضاضة، فيمدح به نحو قوله : وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ونحو ما روي عن النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم :«المؤمن هَيِّنٌ ليّن»- الثاني : أن يكون من جهة متسلّط مستخفّ بهفيذمّ به . وعلی الثاني قوله تعالی: الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام 93] ، فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت 17] ، وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة 90] ، وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران 178] ، فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج 57] ، وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج 18] ويقال : هانَ الأمْرُ علی فلان : سهل . قال اللہ تعالی: هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم 21] ، وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ- [ الروم 27] ، وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور 15] والْهَاوُونَ : فاعول من الهون، ولا يقال هارون، لأنه ليس في کلامهم فاعل .- ( ھ و ن ) الھوان - اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے انسان کا کسی ایسے موقعہ پر نر می کا اظہار کرتا جس میں اس کی سبکی نہ ہو قابل ستائش ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر متواضع ہوکر چلتے ہیں ۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے المؤمن هَيِّنٌ ليّن» کہ مومن متواضع اور نرم مزاج ہوتا ہے دوم ھان بمعنی ذلت اور رسوائی کے آتا ہے یعنی دوسرا انسان اس پر متسلط ہو کر اسے سبکسار کرے تو یہ قابل مذمت ہے چناچہ اس معنی میں فرمایا : ۔ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام 93] سو آج تم کو ذلت کا عذاب ہے ۔ فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت 17] تو۔ کڑک نے ان کو آپکڑا اور وہ ذلت کا عذاب تھا وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة 90] اور کافروں کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہے ۔ وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران 178] اور آخر کار ان کو ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج 57] انکے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج 18] اور جس کو خدا ذلیل کرے اس کو کوئی عزت دینے ولاا نہیں ۔ علی کے ساتھ کے معنی کسی معاملہ کے آسان ہو نیکے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم 21] کہ یہ مجھے آسان ہے ۔ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ [ الروم 27] اور یہ اس پر بہت آسان ہے ۔ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور 15] اور تم اسے ایک ہلکی بات سمجھتے ہو ۔ ھاودن کمزور یہ ھون سے ہے اور چونکہ قاعل کا وزن کلام عرب میں نہیں پایا اسلئے ھاون کی بجائے ہارون بروزن فا عول کہا جاتا ہے ۔- خطب - الخَطْبُ «2» والمُخَاطَبَة والتَّخَاطُب : المراجعة في الکلام، ومنه : الخُطْبَة والخِطْبَة لکن الخطبة تختصّ بالموعظة، والخطبة بطلب المرأة قال تعالی: وَلا جُناحَ عَلَيْكُمْ فِيما عَرَّضْتُمْ بِهِ مِنْ خِطْبَةِ النِّساءِ [ البقرة 235] ، وأصل الخطبة : الحالة التي عليها الإنسان إذا خطب نحو الجلسة والقعدة، ويقال من الخُطْبَة : خاطب وخطیب، ومن الخِطْبَة خاطب لا غير، والفعل منهما خَطَبَ. والخَطْبُ : الأمر العظیم الذي يكثر فيه التخاطب، قال تعالی: فَما خَطْبُكَ يا سامِرِيُّ [ طه 95] ، فَما خَطْبُكُمْ أَيُّهَا الْمُرْسَلُونَ [ الذاریات 31] ، وفصل الخِطَاب : ما ينفصل به الأمر من الخطاب .- ( خ ط ب ) الخطب - والمخاطبۃ والتخاطب ۔ باہم گفتگو کرنا ۔ ایک دوسرے کی طرف بات لوٹانا اسی سے خطبۃ اور خطبۃ کا لفظ ہے لیکن خطبۃ وعظ و نصیحت کے معنی میں آتا ہے اور خطبۃ کے معنی ہیں نکاح کا پیغام ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلا جُناحَ عَلَيْكُمْ فِيما عَرَّضْتُمْ بِهِ مِنْ خِطْبَةِ النِّساءِ [ البقرة 235] اگر تم کنایہ کہ باتوں میں عورتوں کو نکاح کا پیغام بھیجو ۔۔ ۔ تم تم پر کچھ گناہ نہیں ۔ اصل میں خطبۃ اسی حالت کو کہتے ہیں جو بات کرتے وقت ہوتی ہے جیسا کہ جلسۃ اور قعدۃ پھر خطبۃ سے تو خاطب اور خطیب ( دونوں لفظ استعمال ہوتے ہیں مگر خطبۃ سے صرف خاطب کا لفظ ہی بولا جاتا ہے ۔ اور خطب فعل دونوں معنی کے لئے آتا ہے ۔ الخطب ۔ اہم معاملہ جس کے بارے میں کثرت سے تخاطب ہو ۔ قرآن میں ہے :۔ فَما خَطْبُكَ يا سامِرِيُّ [ طه 95] پھر سامری سے کہنے لگے ) سامری تیرا کیا حال ہے ۔ فَما خَطْبُكُمْ أَيُّهَا الْمُرْسَلُونَ [ الذاریات 31] کہ فرشتوں تمہارا مدعا کیا ہے ۔ فصل الخطاب دو ٹوک بات ، فیصلہ کن بات جس سے نزاع ختم ہوجائے ۔- جهل - الجهل علی ثلاثة أضرب :- الأول : وهو خلوّ النفس من العلم، هذا هو الأصل، وقد جعل ذلک بعض المتکلمین معنی مقتضیا للأفعال الخارجة عن النظام، كما جعل العلم معنی مقتضیا للأفعال الجارية علی النظام .- والثاني : اعتقاد الشیء بخلاف ما هو عليه .- والثالث : فعل الشیء بخلاف ما حقّه أن يفعل، سواء اعتقد فيه اعتقادا صحیحا أو فاسدا، كمن يترک الصلاة متعمدا، وعلی ذلک قوله تعالی: قالُوا : أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67]- ( ج ھ ل ) الجھل - ۔ ( جہالت ) نادانی جہالت تین قسم پر ہے - ۔ ( 1) انسان کے ذہن کا علم سے خالی ہونا اور یہی اس کے اصل معنی ہیں اور بعض متکلمین نے کہا ہے کہ انسان کے وہ افعال جو نظام طبعی کے خلاف جاری ہوتے ہیں ان کا مقتضی بھی یہی معنی جہالت ہے ۔- ( 2) کسی چیز کے خلاف واقع یقین و اعتقاد قائم کرلینا ۔ - ( 3) کسی کام کو جس طرح سر انجام دینا چاہئے اس کے خلاف سر انجام دنیا ہم ان سے کہ متعلق اعتقاد صحیح ہو یا غلط مثلا کوئی شخص دیا ۔ دانستہ نماز ترک کردے چناچہ اسی معنی کے اعتبار سے آیت : أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67] میں ھزوا کو جہالت قرار دیا گیا ہے ۔- سلام - السِّلْمُ والسَّلَامَةُ : التّعرّي من الآفات الظاهرة والباطنة، قال : بِقَلْبٍ سَلِيمٍ- [ الشعراء 89] ، أي : متعرّ من الدّغل، فهذا في الباطن، وقال تعالی: مُسَلَّمَةٌ لا شِيَةَ فِيها - [ البقرة 71] ، فهذا في الظاهر، وقد سَلِمَ يَسْلَمُ سَلَامَةً ، وسَلَاماً ، وسَلَّمَهُ الله، قال تعالی: وَلكِنَّ اللَّهَ سَلَّمَ [ الأنفال 43] ، وقال : ادْخُلُوها بِسَلامٍ آمِنِينَ [ الحجر 46] ، أي : سلامة، وکذا قوله : اهْبِطْ بِسَلامٍ مِنَّا[هود 48] . والسّلامة الحقیقيّة ليست إلّا في الجنّة، إذ فيها بقاء بلا فناء، وغنی بلا فقر، وعزّ بلا ذلّ ، وصحّة بلا سقم، كما قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ، أي : السلام ة، قال : وَاللَّهُ يَدْعُوا إِلى دارِ السَّلامِ [يونس 25] ، وقال تعالی: يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوانَهُ سُبُلَ السَّلامِ [ المائدة 16] ، يجوز أن يكون کلّ ذلک من السّلامة . وقیل : السَّلَامُ اسم من أسماء اللہ تعالیٰ «1» ، وکذا قيل في قوله : لَهُمْ دارُ السَّلامِ [ الأنعام 127] ، والسَّلامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ [ الحشر 23] ، قيل : وصف بذلک من حيث لا يلحقه العیوب والآفات التي تلحق الخلق، وقوله : سَلامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ [يس 58] ، سَلامٌ عَلَيْكُمْ بِما صَبَرْتُمْ [ الرعد 24] ، سلام علی آل ياسین «2» كلّ ذلک من الناس بالقول، ومن اللہ تعالیٰ بالفعل، وهو إعطاء ما تقدّم ذكره ممّا يكون في الجنّة من السّلامة، وقوله : وَإِذا خاطَبَهُمُ الْجاهِلُونَ قالُوا سَلاماً [ الفرقان 63] ، أي : نطلب منکم السّلامة، فيكون قوله ( سلاما) نصبا بإضمار فعل، وقیل : معناه : قالوا سَلَاماً ، أي : سدادا من القول، فعلی هذا يكون صفة لمصدر محذوف . وقوله تعالی: إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقالُوا سَلاماً قالَ سَلامٌ [ الذاریات 25] ، فإنما رفع الثاني، لأنّ الرّفع في باب الدّعاء أبلغ «3» ، فكأنّه تحرّى في باب الأدب المأمور به في قوله : وَإِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها [ النساء 86] ، ومن قرأ سلم «4» فلأنّ السّلام لمّا کان يقتضي السّلم، وکان إبراهيم عليه السلام قد أوجس منهم خيفة، فلمّا رآهم مُسَلِّمِينَ تصوّر من تَسْلِيمِهِمْ أنهم قد بذلوا له سلما، فقال في جو ابهم : ( سلم) ، تنبيها أنّ ذلک من جهتي لکم كما حصل من جهتكم لي . وقوله تعالی: لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا تَأْثِيماً إِلَّا قِيلًا سَلاماً سَلاماً [ الواقعة 25- 26] ، فهذا لا يكون لهم بالقول فقط، بل ذلک بالقول والفعل جمیعا . وعلی ذلک قوله تعالی: فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة 91] ، وقوله : وَقُلْ سَلامٌ [ الزخرف 89] ، فهذا في الظاهر أن تُسَلِّمَ عليهم، وفي الحقیقة سؤال اللہ السَّلَامَةَ منهم، وقوله تعالی: سَلامٌ عَلى نُوحٍ فِي الْعالَمِينَ [ الصافات 79] ، سَلامٌ عَلى مُوسی وَهارُونَ [ الصافات 120] ، سَلامٌ عَلى إِبْراهِيمَ [ الصافات 109] ، كلّ هذا تنبيه من اللہ تعالیٰ أنّه جعلهم بحیث يثنی - __________- عليهم، ويدعی لهم . وقال تعالی: فَإِذا دَخَلْتُمْ بُيُوتاً فَسَلِّمُوا عَلى أَنْفُسِكُمْ- [ النور 61] ، أي : ليسلّم بعضکم علی بعض .- ( س ل م ) السلم والسلامۃ - کے معنی ظاہری اور باطنی آفات سے پاک اور محفوظ رہنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : بِقَلْبٍ سَلِيمٍ [ الشعراء - 89] پاک دل ( لے کر آیا وہ بچ جائیگا یعنی وہ دل جو دغا اور کھوٹ سے پاک ہو تو یہ سلامت باطن کے متعلق ہے اور ظاہری عیوب سے سلامتی کے متعلق فرمایا : مُسَلَّمَةٌ لا شِيَةَ فِيها[ البقرة 71] اس میں کسی طرح کا داغ نہ ہو ۔ پس سلم یسلم سلامۃ وسلاما کے معنی سلامت رہنے اور سلمۃ اللہ ( تفعیل ) کے معنی سلامت رکھنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَلكِنَّ اللَّهَ سَلَّمَ [ الأنفال 43] لیکن خدا نے ( تمہیں ) اس سے بچالیا ۔ ادْخُلُوها بِسَلامٍ آمِنِينَ [ الحجر 46] ان میں سلامتی اور ( خاطر جمع ) سے داخل ہوجاؤ ۔ اسی طرح فرمایا :۔ اهْبِطْ بِسَلامٍ مِنَّا[هود 48] ہماری طرف سے سلامتی کے ساتھ ۔۔۔ اترآؤ ۔ اور حقیقی سلامتی تو جنت ہی میں حاصل ہوگی جہاں بقائ ہے ۔ فنا نہیں ، غنا ہے احتیاج نہیں ، عزت ہے ذلت نہیں ، صحت ہے بیماری نہیں چناچہ اہل جنت کے متعلق فرمایا :۔ لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ان کے لیے سلامتی کا گھر ہے ۔ وَاللَّهُ يَدْعُوا إِلى دارِ السَّلامِ [يونس 25] اور خدا سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے ۔ يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوانَهُ سُبُلَ السَّلامِ [ المائدة 16] جس سے خدا اپنی رضامندی پر چلنے والوں کو نجات کے رستے دکھاتا ہے ۔ ان تمام آیات میں سلام بمعنی سلامتی کے ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں السلام اسمائے حسنیٰ سے ہے اور یہی معنی آیت لَهُمْ دارُ السَّلامِ [ الأنعام 127] میں بیان کئے گئے ہیں ۔ اور آیت :۔ السَّلامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ [ الحشر 23] سلامتی امن دینے والا نگہبان ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وصف کلام کے ساتھ موصوف ہونے کے معنی یہ ہیں کہ جو عیوب و آفات اور مخلوق کو لاحق ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سب سے پاک ہے ۔ اور آیت :۔ سَلامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ [يس 58] پروردگار مہربان کی طرف سے سلام ( کہاجائیگا ) سَلامٌ عَلَيْكُمْ بِما صَبَرْتُمْ [ الرعد 24] اور کہیں گے ) تم رحمت ہو ( یہ ) تمہاری ثابت قدمی کا بدلہ ہے ۔ سلام علی آل ياسین «2» کہ ایسا پر سلام اور اس مفہوم کی دیگر آیات میں سلام علیٰ آیا ہے تو ان لوگوں کی جانب سے تو سلامتی بذریعہ قول مراد ہے یعنی سلام علی ٰ الخ کے ساتھ دعا کرنا اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے سلامتی بالفعل مراد ہے یعنی جنت عطافرمانا ۔ جہاں کہ حقیقی سلامتی حاصل ہوگی ۔ جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں اور آیت :۔ وَإِذا خاطَبَهُمُ الْجاهِلُونَ قالُوا سَلاماً [ الفرقان 63] اور جب جاہل لوگ ان سے ( جاہلانہ ) گفتگو کرتے ہیں ۔ تو سلام کہتے ہیں ۔ مٰیں قالوا سلاما کے معنی ہیں ہم تم سے سلامتی چاہتے ہیں ۔ تو اس صورت میں سلاما منصوب اور بعض نے قالوا سلاحا کے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ اچھی بات کہتے ہیں تو اس صورت میں یہ مصدر مخذوف ( یعنی قولا ) کی صٖت ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقالُوا سَلاماً قالَ سَلامٌ [ الذاریات 25] جب وہ ان کے پاس آئے تو سلام کہا ۔ انہوں نے بھی ( جواب میں ) سلام کہا ۔ میں دوسری سلام پر رفع اس لئے ہے کہ یہ باب دعا سے ہے اور صیغہ دعا میں رفع زیادہ بلیغ ہے گویا اس میں حضرت ابراہیم نے اس اد ب کو ملحوظ رکھا ہے جس کا کہ آیت : وَإِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها [ النساء 86] اور جب تم کوئی دعا دے تو ( جواب میں ) تم اس سے بہتر ( کا مے) سے ( اسے ) دعا دو ۔ میں ھکم دیا گیا ہے اور ایک قرآت میں سلم ہے تو یہ اس بنا پر ہے کہ سلام سلم ( صلح) کو چاہتا تھا اور حضرت ابراہیم السلام ان سے خوف محسوس کرچکے تھے جب انہیں سلام کہتے ہوئے ۔ ستاتو اس کو پیغام صلح پر محمول کیا اور جواب میں سلام کہہ کر اس بات پر متنبہ کی کہ جیسے تم نے پیغام صلح قبول ہو ۔ اور آیت کریمہ : لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا تَأْثِيماً إِلَّا قِيلًا سَلاماً سَلاماً [ الواقعة 25- 26] وہاں نہ بیہودہ بات سنیں گے ار نہ گالی گلوچ ہاں ان کا کلام سلام سلام ( ہوگا ) کے معنی یہ ہیں کہ یہ بات صرف بذیعہ قول نہیں ہوگی ۔ بلکہ اور فعلا دونوں طرح ہوگئی ۔ اسی طرح آیت :: فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة - 91] تو ( کہا جائیگا کہ ) تم پر پر داہنے ہاتھ والوں کی طرف سے سلام میں بھی سلام دونوں معنی پر محمول ہوسکتا ہے اور آیت : وَقُلْ سَلامٌ [ الزخرف 89] اور سلام کہدو ۔ میں بظارہر تو سلام کہنے کا حکم ہے لیکن فی الحققیت ان کے شر سے سللامتی کی دعا کرنے کا حکم ہے اور آیات سلام جیسے سلامٌ عَلى نُوحٍ فِي الْعالَمِينَ [ الصافات 79]( یعنی ) تمام جہان میں نوح (علیہ السلام) پر سلام کہ موسیٰ اور ہارون پر سلام ۔ ۔ سَلامٌ عَلى مُوسی وَهارُونَ [ الصافات 120] ابراہیم پر سلام ۔ سَلامٌ عَلى إِبْراهِيمَ [ الصافات 109] میں اس بات پر تنبیہ ہی کہ اللہ تعالیٰ نے ان انبیاء ابراہیم کو اس قدر بلند مرتبہ عطا کیا تھا کہ لوگ ہمیشہ ان کی تعریف کرتے اور ان کے لئے سلامتی کے ساتھ دعا کرتے رہیں گے اور فرمایا : فَإِذا دَخَلْتُمْ بُيُوتاً فَسَلِّمُوا عَلى أَنْفُسِكُمْ [ النور 61] اور جب گھروں میں جایا کرو تو اپنے ( گھر والوں ) کو سلام کیا کرو ۔ یعنی تم ایک دوسرے کو سلام کہاکرو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

رحمن کے اصلی بندے - قول باری ہے : (وعبادالرحمن الذین یمشون علی الارض ھونا۔ ) رحمن کے (اصلی) بندے وہ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں، ابن نجیح نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ (ھونا) کا مفہوم وقار اور سکون ہے یعنی ” وہ زمین پر بڑے وقار اور سکون سے چلتے ہیں۔ “ قول باری : (واذا اخاطبھم الجاھلون قالوا سلاما۔ ) اور جاہل ان کے منہ آئیں تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام کی تفسیر میں ان کا قول ہے جب جاہل ان کے منہ آئیں تو وہ درست بات کہتے ہیں۔- حسن سے (یمشون علی الارض ھون) کی تفسیر میں منقول ہے کہ ” بہت ہی متحمل مزاج بن کر چلتے ہیں کسی سے نہیں الجھتے اور اگر کوئی الجھے تو بردباری کا مظاہرہ کرتے ہیں گویا کہ ڈر گئے ہوں حالانکہ ان میں تیروں کی طرح لچک ہوتی ہے۔ اللہ کے بندوں کے دن اس طرح گزرتے ہیں اور وہ اسی تحمل مزاجی کے ساتھ لوگوں میں چلتے پھرتے رہتے ہیں۔ “- قول باری : والذین یبتون لربھم سجا وقیاما جو اپنے رب کے حضور سجدے اور قیام میں راتیں گزارتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ” اللہ کے بندوں کی یہ راتیں ہیں۔ جب رات آجاتی ہے تو ان کے چاروں طرف پردے ڈال دیتی ہے اور پھر یہ رب کے سامنے رہ جاتے ہیں۔ “ حضرت ابن عباس (رض) سے (یمشون علی الارض ھوز) کی تفسیر میں منقول ہے کہ ” اللہ کے بندے زمین میں تواضع اور انکساری کی چال چلتے ہیں اور کسی تکبر کا مظاہر ہ نہیں کرتے۔ “

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٣) اور اللہ تعالیٰ کے خاص بندے وہ ہیں جو خوف خداوندی سے زمین پر عاجزی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب ان سے کافر وفاسق جہالت کی بات چیت کرتے ہیں تو وہ نرمی کے ساتھ جواب دیتے ہیں اور برائی کو دور کرنے کی بات کہتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦٣ (وَعِبَاد الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ہَوْنًا ) ” - وہ اپنے آپ کو آقا اور مالک نہیں بلکہ اللہ کے بندے اور غلام سمجھتے ہیں۔ وہ چلتے بھی غلاموں ہی کی طرح ہیں۔ ان کی چال میں اکڑ کی بجائے عاجزی اور فروتنی ہوتی ہے۔- (وَّاِذَا خَاطَبَہُمُ الْجٰہِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا ) ” - عربی میں جاہل کا معنی اَن پڑھ یا بےعلم آدمی نہیں ‘ بلکہ اس سے مراد اجڈ اور مشتعل مزاج شخص ہے جو جہالت پر اتر آئے اور کسی شریف آدمی سے بدتمیزی کا برتاؤ کرے۔ - ” عباد الرحمن “ کی دوسری صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ جب وہ دیکھتے ہیں کہ جاہل اور اجڈ قسم کے لوگ ان کی بات کو سمجھنے اور اس سے اثر لینے کی بجائے پنجابی محاورہ کے مطابق ان سے محض سینگ پھنسانا چاہتے ہیں یعنی انہیں خواہ مخواہ بحث و مباحثہ میں الجھانا چاہتے ہیں تو انہیں سلام کرکے وہ اپنی راہ لیتے ہیں۔ کیونکہ ایسی گفتگو یا بحث سے وقت کے ضیاع کے علاوہ کچھ حاصل ہونے کی توقع نہیں ہوتی۔ چناچہ ایک سمجھدار اور معقول آدمی کو چاہیے کہ وہ مناسب انداز میں دوسرے کو اپنی بات سمجھانے کی کوشش کرے ‘ لیکن جب اسے محسوس ہو کہ اس کا مخاطب جان بوجھ کر بات کو سمجھنا نہیں چاہتا اور خواہ مخواہ کی بحث میں الجھنا چاہتا ہے تو وہ کسی قسم کی بد مزگی پیدا کیے بغیر خود کو ایسی صورت حال سے الگ کرلے ۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :78 یعنی جس رحمان کو سجدہ کرنے کے لیے تم سے کہا جا رہا ہے اور تم اس سے انحراف کر رہے ہو اس کے پیدائشی بندے تو سب ہی ہیں ، مگر اس کے محبوب و پسندیدہ بندے وہ ہیں جو شعوری طور پر بندگی اختیار کر کے یہ اور یہ صفات اپنے اندر پیدا کرتے ہیں ۔ نیز یہ کہ وہ سجدہ جس کی تمہیں دعوت دی جا رہی ہے اس کے نتائج یہ ہیں جو اس کی بندگی قبول کرنے والوں کی زندگی میں نظر آتے ہیں ، اور اس سے انکار کے نتائج وہ ہیں جو تم لوگوں کی زندگی میں عیاں ہیں ۔ اس مقام پر اصل مقصود سیرت و اخلاق کے دو نمونوں کا تقابل ہے ۔ ایک وہ نمونہ جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی قبول کرنے والوں میں پیدا ہو رہا تھا ، اور دوسرا وہ جو جاہلیت پر جمے ہوئے لوگوں میں ہر طرف پایا جاتا تھا ۔ لیکن اس تقابل کے لیے طریقہ یہ اختیار کیا گیا ہے کہ صرف پہلے نمونے کی نمایاں خصوصیات کو سامنے رکھ دیا ، اور دوسرے نمونے کو ہر دیکھنے والی آنکھ اور سوچنے والے ذہن پر چھوڑ دیا کہ وہ آپ ہی مقابل کی تصویر کو دیکھے اور آپ ہی دونوں کا موازنہ کر لے ۔ اس کے بیان کی حاجت نہ تھی ، کیونکہ وہ گرد و پیش سارے معاشرے میں موجود تھا ۔ سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :79 یعنی تکبر کے ساتھ اکڑتے اور اینٹھتے ہوئے نہیں چلتے ، جباروں اور مفسدوں کی طرح اپنی رفتار سے اپنا زور جتانے کی کوشش نہیں کرتے ، بلکہ ان کی چال ایک شریف اور سلیم الطبع اور نیک مزاج آدمی کی سی چال ہوتی ہے ۔ نرم چال سے مراد ضعیفانہ اور مریضانہ چال نہیں ہے ، اور نہ وہ چال ہے جو ایک ریا کار آدمی اپنے انکسار کی نمائش کرنے یا اپنی خدا ترسی کا مظاہرہ کرنے کے لیے تصنع سے اختیار کرتا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود اس طرح مضبوط قدم رکھتے ہوئے چلتے تھے کہ گویا نشیب کی طرف اتر رہے ہیں ۔ حضرت عمر کے متعلق روایات میں آیا ہے کہ انہوں نے ایک جوان آدمی کو مَریَل چال چلتے دیکھا تو روک کر پوچھا کیا تم بیمار ہو؟ اس نے عرض کیا نہیں ۔ آپ نے درہ اٹھا کر اسے دھمکایا اور بولے ۔ قوت کے ساتھ چلو ۔ اس سے معلوم ہوا کہ نرم چال سے مراد ایک بھلے مانس کی سی فطری چال ہے نہ کہ وہ جو بناوٹ سے منکسرانہ بنائی گئی ہو یا جس سے خواہ مخواہ کی مسکنت اور ضعیفی ٹپکتی ہو ۔ مگر غور طلب پہلو یہ ہے کہ آدمی کی چال میں آخر وہ کیا اہمیت ہے جس کی وجہ سے اللہ کے نیک بندوں کی خصوصیات گناتے ہوئے سب سے پہلے اس کا ذکر کیا گیا ؟ اس سوال کو ذرا تامل کی نگاہ سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آدمی کی چال محض اس کے انداز رفتار ہی کا نام نہیں ہے بلکہ درحقیقت وہ اس کے ذہن اور اس کی سیرت و کردار کی اولین ترجمان بھی ہوتی ہے ۔ ایک عیار آدمی کی چال ، ایک غنڈے بد معاش کی چال ، ایک ظالم و جابر کی چال ، ایک خود پسند متکبر کی چال ، ایک باوقار مہذب آدمی کی چال ، ایک غریب مسکین کی چال ، اور اسی طرح مختلف اقسام کے دوسرے انسانوں کی چالیں ایک دوسرے سے اس قدر مختلف ہوتی ہیں کہ ہر ایک کو دیکھ کر بآسانی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کس چال کے پیچھے کس طرح کی شخصیت جلوہ گر ہے ۔ پس آیت کا مدعا یہ ہے کہ رحمان کے بندوں کو تو تم عام آدمیوں کے درمیان چلتے پھرتے دیکھ کر ہی بغیر کسی سابقہ تعارف کے الگ پہچان لو گے کہ یہ کس طرز کے لوگ ہیں ۔ اس بندگی نے ان کی ذہنیت اور ان کی سیرت کو جیسا کچھ بنا دیا ہے اس کا اثر ان کی چال تک میں نمایاں ہے ۔ ایک آدمی انہیں دیکھ کر پہلی نظر میں جان سکتا ہے کہ یہ شریف اور حلیم اور ہمدرد لوگ ہیں ، ان سے کسی شر کی توقع نہیں کی جا سکتی ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، بنی اسرائیل ، حاشیہ 43 ۔ جلد چہارم ، لقمان ، حاشیہ 33 ) ۔ سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :80 جاہل سے مراد ان پڑھ یا بے علم آدمی نہیں ، بلکہ وہ شخص ہے جو جہالت پر اتر آئے اور کسی شریف آدمی سے بد تمیزی کا برتاؤ کرنے لگے ۔ رحمان کے بندوں کا طریقہ یہ ہے کہ وہ گالی کا جواب گالی سے اور بہتان سے اور اسی طرح کی ہر بیہودگی کا جواب ویسی ہی بیہودگی سے نہیں دیتے بلکہ جو ان کے ساتھ یہ رویہ اختیار کرتا ہے وہ اس کو سلام کر کے الگ ہو جاتے ہیں ۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا: وَاِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْہُ وَقَالُوْا لَنَا اَعْمَالُنَا وَلَکُمْ اَعْمَالُکُمْ ، سَلَامٌ عَلَیْکُمْ لَا نَبْتَغِی الْجَاھِلِیْنَ ( القصص آیت 55 ) اور جب وہ کوئی بیہودہ بات سنتے ہیں تو اسے نظر انداز کر دیتے ہیں ، کہتے ہیں بھائی ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے ، سلام ہے تم کو ، ہم جاہلوں کے منہ نہیں لگتے ۔ ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، القصص ، حواشی 72 ۔ 78 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

23: یعنی ان کی بدکلامی اور گالی گفتار کا جواب برے الفاظ میں دینے کے بجائے شریفانہ انداز میں دیتے ہیں۔