Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

701اس سے معلوم ہوا کہ دنیا میں خالص توبہ سے ہر گناہ معاف ہوسکتا ہے، چاہے وہ کتنا ہی بڑا ہو، اور سورة نساء کی آیت93میں جو مومن کے قتل کی سزا جہنم بتلائی گئی ہے، تو وہ اس صورت پر معمول ہوگی، جب قاتل نے توبہ نہ کی ہو اور بغیر توبہ کئے فوت ہوگیا۔ ورنہ حدیث میں آتا ہے کہ سو آدمی کے قاتل نے بھی خالص توبہ کی تو اللہ نے اسے معاف فرمایا (صحیح مسلم) 702اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کا حال تبدیل فرما دیتا ہے اسلام قبول کرنے سے پہلے وہ برائیاں کرتا تھا، اب نیکیاں کرتا ہے، پہلے شرک کرتا تھا، اب صرف اللہ واحد کی عبادت کرتا ہے، پہلے کافروں کے ساتھ ملکر مسلمانوں سے لڑتا تھا، اب مسلمانوں کی طرف سے کافروں سے لڑتا ہے وغیرۃ وغیرہ۔ دوسرے معنی یہ ہوئے کہ اس کی برائیوں کو نیکیوں میں بدل دیا جاتا ہے اس کی تائید حدیث میں بھی ہوتی ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں اس شخص کو جانتا ہوں، جو سب سے آخر میں جنت میں داخل ہونے والا ہے اور سب آخر میں جہنم سے نکلنے والا ہوگا۔ یہ وہ آدمی ہوگا کہ قیامت کے دن اس پر اس کے چھوٹے چھوٹے گناہ پیش کئے جائیں گے، بڑے ایک طرف رکھ دیئے جائیں گے۔ اس کو کہا جائیگا کہ تو نے فلاں فلاں دن فلاں فلاں کام کیا تھا ؟ وہ ہاں میں جواب دے گا، انکار کی اسے طاقت نہ ہوگی، علاوہ ازیں وہ اس بات سے بھی ڈر رہا ہوگا کہ ابھی تو بڑے گناہ بھی پیش کئے جائیں گے۔ کہ اتنے میں اس سے کہا جائے گا کہ جا تیرے لئے ہر برائی کے بدلے ایک نیکی ہے۔ اللہ کی مہربانی دیکھ کر کہے گا، کہ ابھی تو میرے بہت سے اعمال ایسے ہیں کہ میں انھیں یہاں نہیں دیکھ رہا، یہ بیان کر کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہنس پڑے، یہاں تک کہ آپ کے دانت ظاہر ہوگئے (صحیح مسلم)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٧] یعنی ایسے شدید جرم کرنے والے کافروں میں سے بھی جو شخص ایمان لائے گا۔ اللہ اس کے سابقہ گناہوں کو کلیتاً معاف فرما دے گا۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے۔- ١۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا : یارسول اللہ ہم نے جو گناہ جاہلیت کے زمانہ میں کئے ہیں کیا ہم سے ان کا مواخذہ ہوگا ؟ آپ نے فرمایا : جو شخص اسلام لایا پھر نیک عمل کرتا رہا اس سے جاہلیت کے گناہوں کا مواخذہ نہیں ہوگا ( بخاری۔ کتاب استتابہ المرقدین )- ٢۔ حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں مکہ ایک شخص ( دوران چہارم ( رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا۔ وہ اپنا چہرہ لوہے کے ہتھیاروں سے چھپائے ہوئے تھا۔ کہنے لگا : اے اللہ کے رسول کیا میں پہلے کافروں سے لڑائی کرو یا اسلام لاؤں ؟ آپ نے فرمایا : پہلے اسلام لاؤ، پھر لڑائی کرو تو وہ مسلمان ہوگیا پھر لڑنے لگا حتیٰ کہ شہید ہوگیا۔ آپ نے فرمایا : دیکھو اس نے عمل تو تھوڑا کیا مگر ثواب بہت زیادہ پایا ( بخاری۔ کتاب الجہاد والسیر۔ باب عمل صالح قبل انقال (- ٣۔ حضرت حکیم بن حزام کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا : یارسول اللہ میں نے جاہلیت کے زمانہ میں جو اچھے کام کئے تھے مثلاً قرابت داروں سے حسن سلوک، غلام کو آزاد کرنا یا صدقہ و خیرات دینا۔ کیا مجھے ان کا اجر ملے گا ؟ آپ نے فرمایا : کیوں نہیں۔ تم جو اسلام لائے ہو تو سابقہ نیکیوں کو برقرار رکھتے ہوئے اسلام لائے ہو ( بخاری۔ کتاب البیوع۔ باب شراء المملوک من الحربی۔۔ (- ان احادیث سے نتیجہ نکلا کہ اسلام لانے کے دو بڑے فائدے ہیں۔ ایک یہ کہ سابقہ سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور اسلام لانے والا گناہوں سے اس طرح پاک صاف ہوجاتا ہے جیسے آج ہی پیدا ہوا اور دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس کے سابقہ نیک اعمال کا اسے اجر بھی ملے گا جبکہ بحالت کفر مرنے پر اسے نیک اعمال کا اسے اجر نہیں ملے سکتا تھا۔- ایک تو یہ صورت ہوئی دوسری صورت یہ ہے کہ اسلام لانے والے کے اعمال نامہ میں فی الواقعہ اس کی برائیوں کی جگہ نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں۔ تیسری صورت یہ ہے کہ جو شخص اعمال صالحہ کا خوگر ہوجائے اس سے برائیوں کی عادت چھوٹ جاتی ہے اور سابقہ برائیاں معاف کردی جاتی ہے۔ اسی طرح جس معاشرہ میں نیکیاں رواج پاجائیں۔ برائیاں از خود مٹتی چلی جاتی ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا ۔۔ : ابن عباس (رض) نے فرمایا : ” اہل شرک میں سے کچھ لوگوں نے قتل کیے اور بہت کیے اور زنا کیے اور بہت کیے، پھر وہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہنے لگے : ” آپ جو بات کہتے ہیں اور جس کی دعوت دیتے ہیں وہ بہت اچھی ہے، اگر آپ ہمیں یہ بتادیں کہ ہم نے جو کچھ کیا اس کا کوئی کفارہ ہے ؟ “ تو یہ آیت اتری : (وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ ۔۔ ) [ الفرقان : ٦٨ ] اور یہ آیت اتری : (يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ ) [ الزمر : ٥٣ ] ” اے میرے بندو جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہوجاؤ۔ “ [ مسلم، الإیمان، باب کون الإسلام یھدم ما قبلہ۔۔ : ١٢٢ ] یہ آیت ان لوگوں کے لیے بشارت ہے جن کی زندگی پہلے طرح طرح کے جرائم سے آلودہ رہی ہو اور اب وہ اپنی اصلاح پر آمادہ ہوں، یہی عام معافی کا دن تھا جس نے اس بگڑے ہوئے معاشرے کے لاکھوں انسانوں کو سہارا دے کر مستقبل کے بگاڑ سے بچا لیا اور انھیں امید کی روشنی دکھا کر اصلاح پر آمادہ کیا۔ اگر ان سے کہا جاتا کہ جو گناہ تم کرچکے ہو ان کی سزا سے اب تم کسی طرح بچ نہیں سکتے تو وہ ہمیشہ کے لیے بدی کے بھنور میں پھنس جاتے۔ توبہ کی اس نعمت نے بگڑے ہوئے لوگوں کو کس طرح سنبھالا، اس کا اندازہ ان بہت سے واقعات سے ہوتا ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں پیش آئے، عمرو بن عاص (رض) فرماتے ہیں : ” جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کی محبت میرے دل میں ڈال دی تو میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور آپ سے عرض کی : ” اپنا دایاں ہاتھ آگے کیجیے، تاکہ میں آپ کی بیعت کروں۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا دایاں ہاتھ آگے بڑھایا تو میں نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اے عمرو تجھے کیا ہوا ؟ “ میں نے کہا : ” میری ایک شرط ہے۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تیری کیا شرط ہے ؟ “ میں نے کہا : ( أَنْ یُّغْفَرَ لِیْ ، قَالَ أَمَا عَلِمْتَ یَا عَمْرُو أَنَّ الإِْسْلَامَ یَھْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہُ ؟ وَ أَنَّ الْھِجْرَۃَ تَھْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَھَا ؟ وَأَنَّ الْحَجَّ یَھْدِمُ مَا کَانَ قبْلَہُ ؟ ) [ مسلم، الإیمان، باب کون الإسلام یھدم ما قبلہ و کذا الھجرۃ والحج : ١٢١ ] ”(میری شرط یہ ہے) کہ میرے گناہ معاف ہوں (جو اب تک کیے ہیں) ۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اے عمرو کیا تو جانتا نہیں کہ اسلام اپنے سے پہلے کے گناہوں کو ختم کردیتا ہے ؟ اور یہ کہ ہجرت اپنے سے پہلے گناہوں کو مٹا دیتی ہے ؟ اور یہ کہ حج اپنے سے پہلے گناہوں کو ختم کردیتا ہے ؟ “- 3 اللہ تعالیٰ نے برائیوں کو نیکیوں میں بدلنے کے لیے تین شرطیں رکھی ہیں، پہلی توبہ، یعنی گناہ سے باز آجانا، گزشتہ گناہوں پر ندامت اور آئندہ کے لیے گناہ نہ کرنے کا عزم۔ دوسری شرط ایمان ہے، کیونکہ ایمان کے بغیر کوئی عمل قبول ہی نہیں اور تیسری شرط عمل صالح ہے، یعنی اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق عمل کرنا۔ ” عَمَلًا صَالِحًا “ نکرہ ہونے کی وجہ سے ترجمہ کیا ہے ” اور عمل کیا، کچھ نیک عمل۔ “ شاہ عبد القادر (رض) نے ترجمہ کیا ہے ” اور کیا کچھ نیک کام۔ “ اس میں بشارت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں توبہ اور ایمان کے ساتھ تھوڑے عمل صالح کی بھی بہت قدر ہے۔ - فَاُولٰۗىِٕكَ يُبَدِّلُ اللّٰهُ سَـيِّاٰتِهِمْ حَسَنٰتٍ : اس کی دو تفسیریں ہیں، ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں انھیں گناہوں کی جگہ نیکیوں کی توفیق دے گا، کفر اور شرک کی جگہ وہ ایمان اور توحید پر قائم ہوں گے، مومنوں کو قتل کرنے کے بجائے میدان جنگ میں کفار کو قتل کریں گے۔ زنا کی جگہ پاک دامنی پر، جھوٹ کی جگہ صدق پر اور نافرمانی کی جگہ فرماں برداری پر قائم ہوں گے۔ (و علی ہذا القیاس) یہ تفسیر ابن عباس (رض) سے معتبر سند کے ساتھ طبری نے نقل فرمائی ہے۔ - دوسری یہ کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کے تمام گناہوں کو نیکیوں میں بدل دے گا، یہ تفسیر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آئی ہے۔ ابوذر غفاری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنِّيْ لَأَعْلَمُ آخِرَ أَھْلِ الْجَنَّۃِ دُخُوْلًا الْجَنَّۃَ ، وَآخِرَ أَھْلِ النَّارِ خُرُوْجًا مِنْھَا، رَجُلٌ یُؤْتٰی بِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، فَیُقَالُ اعْرِضُوْا عَلَیْہِ صِغَارَ ذُنُوْبِہِ وَارْفَعُوْا عَنْہُ کِبَارَھَا، فَتُعْرَضُ عَلَیْہِ صِغَارُ ذُنُوْبِہِ ، فَیُقَالُ عَمِلْتَ یَوْمَ کَذَا وَ کَذَا، کَذَا وَ کَذَا، وَ عَمِلْتَ یَوْمَ کَذَا وَ کَذَا، کَذَا وَ کَذَا، فَیَقُوْلُ نَعَمْ ، لَا یَسْتَطِیْعُ أَنْ یُّنْکِرَ ، وَھُوَ مُشْفِقٌ مِنْ کِبَارِ ذُنُوْبِہِ أَنْ تُّعْرَضَ عَلَیْہِ ، فَیُقَالُ لَہُ فَإِنَّ لَکَ مَکَانَ کُلِّ سَیِّءَۃٍ حَسَنَۃً ، فَیَقُوْلُ رَبِّ قَدْ عَمِلْتُ أَشْیَاءَ لَا أَرَاھَا ھٰھُنَا، فَلَقَدْ رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ ضَحِکَ حَتّٰی بَدَتْ نَوَاجِذُہُ ) [ مسلم، الإیمان، باب أدنٰی أہل الجنۃ منزلۃ فیھا : ١٩٠ ] ” میں اس شخص کو جانتا ہوں جو جنت میں داخل ہونے والوں میں سب سے آخری اور جہنم سے نکلنے والوں میں سب سے آخری ہوگا، وہ ایسا آدمی ہوگا جسے قیامت کے دن لایا جائے گا اور کہا جائے گا : ” اس کے سامنے اس کے چھوٹے گناہ پیش کرو اور اس کے بڑے گناہ بچائے رکھو۔ “ تو اس کے سامنے اس کے چھوٹے گناہ پیش کیے جائیں گے اور کہا جائے گا : ” تو نے فلاں فلاں دن یہ یہ عمل کیے تھے اور فلاں فلاں دن یہ یہ عمل کیے تھے ؟ “ وہ کہے گا : ” ہاں “ انکار نہیں کرسکے گا اور وہ اپنے بڑے گناہوں کے پیش کیے جانے سے ڈر رہا ہوگا، تو اس سے کہا جائے گا : ” تمہارے لیے ہر برائی کی جگہ ایک نیکی ہے۔ “ تو وہ کہے گا : ” اے میرے رب میں نے کئی کام کیے ہیں جو مجھے یہاں دکھائی نہیں دے رہے۔ “ (ابو ذر (رض) کہتے ہیں) : ” تو میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا آپ ہنسے یہاں تک کہ آپ کی ڈاڑھیں ظاہر ہوگئیں۔ “- 3 اہل علم نے گناہوں کو نیکیوں میں بدلنے کی توجیہ یہ بیان فرمائی ہے کہ گناہ جتنی بار یاد آتے ہیں ان پر ندامت اور استغفار مسلسل نیکی ہے، اسی طرح توبہ کے بعد یہ عزم کہ آئندہ اگر موقع ملا تو میں ہمیشہ برائی کے بجائے نیکی کروں گا، یہ عزم ایسی نیکی ہے جو انسان کو جنت کا ابدی وارث بنا دیتی ہے۔ گزشتہ پر ندامت یا آئندہ کا عزم اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم گناہوں کو نیکیوں میں بدلنے کا باعث بن جائے گا۔ (بقاعی) ایک اور توجیہ یہ ہے کہ وہ شخص جس نے گناہ کیا ہی نہیں، مثلاً زنا یا چوری کی ہی نہیں، اسے گناہ سے بچنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی، بخلاف اس شخص کے جو زنا کا مرتکب رہا ہے، اسے زنا چھوڑنے میں جس قدر دشواری پیش آتی ہے اسے برداشت کرنا اور گناہ نہ کرنا بہت بڑی نیکی ہے۔ - وَكَان اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا : بظاہر گناہوں کو نیکیوں میں بدلنا بعید معلوم ہوتا ہے، اس کا جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے گناہوں پر پردہ ڈالنے والا اور بیحد رحم کرنے والا ہے، اس سے یہ کرم کچھ بھی بعید نہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰۗىِٕكَ يُبَدِّلُ اللہُ سَـيِّاٰتِہِمْ حَسَنٰتٍ۝ ٠ۭ وَكَانَ اللہُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا۝ ٧٠- توب - التَّوْبُ : ترک الذنب علی أجمل الوجوه وهو أبلغ وجوه الاعتذار،- فإنّ الاعتذار علی ثلاثة أوجه : إمّا أن يقول المعتذر : لم أفعل، أو يقول :- فعلت لأجل کذا، أو فعلت وأسأت وقد أقلعت، ولا رابع لذلک، وهذا الأخير هو التوبة، والتَّوْبَةُ في الشرع :- ترک الذنب لقبحه والندم علی ما فرط منه، والعزیمة علی ترک المعاودة، وتدارک ما أمكنه أن يتدارک من الأعمال بالأعمال بالإعادة، فمتی اجتمعت هذه الأربع فقد کملت شرائط التوبة . وتاب إلى الله، فذکر «إلى الله» يقتضي الإنابة، نحو : فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة 54] - ( ت و ب ) التوب - ( ن) کے معنی گناہ کے باحسن وجود ترک کرنے کے ہیں اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے - کیونکہ اعتذار کی تین ہی صورتیں ہیں - ۔ پہلی صورت - یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کردے اور کہہ دے لم افعلہ کہ میں نے کیا ہی نہیں ۔ - دوسری صورت - یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ جواز تلاش کرے اور بہانے تراشے لگ جائے ۔ - تیسری صورت - یہ ہے کہ اعتراف جرم کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا یقین بھی دلائے افرض اعتزار کی یہ تین ہی صورتیں ہیں اور کوئی چوتھی صورت نہیں ہے اور اس آخری صورت کو تو بہ کہا جاتا ہ مگر - شرعا توبہ - جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اگر ان گناہوں کی تلافی ممکن ہو تو حتی الامکان تلافی کی کوشش کرے پس تو بہ کی یہ چار شرطیں ہیں جن کے پائے جانے سے توبہ مکمل ہوتی ہے ۔ تاب الی اللہ ان باتوں کا تصور کرنا جو انابت الی اللہ کی مقتضی ہوں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً [ النور 31] سب خدا کے آگے تو بہ کرو ۔- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - صالح - الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] - ( ص ل ح ) الصالح - ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ - بدل - الإبدال والتَّبدیل والتَّبَدُّل والاستبدال : جعل شيء مکان آخر، وهو أعمّ من العوض، فإنّ العوض هو أن يصير لک الثاني بإعطاء الأول، والتبدیل قد يقال للتغيير مطلقا وإن لم يأت ببدله، قال تعالی: فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة 59] ، وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً [ النور 55] وقال تعالی: فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان 70] قيل : أن يعملوا أعمالا صالحة تبطل ما قدّموه من الإساءة، وقیل : هو أن يعفو تعالیٰ عن سيئاتهم ويحتسب بحسناتهم «5» .- وقال تعالی: فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَ ما سَمِعَهُ [ البقرة 181] ، وَإِذا بَدَّلْنا آيَةً مَكانَ آيَةٍ [ النحل 101] ، وَبَدَّلْناهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ [ سبأ 16] ، ثُمَّ بَدَّلْنا مَكانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ [ الأعراف 95] ، يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ [إبراهيم 48] أي : تغيّر عن حالها، أَنْ يُبَدِّلَ دِينَكُمْ [ غافر 26] ، وَمَنْ يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمانِ [ البقرة 108] ، وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ [ محمد 38] ، وقوله : ما يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَ [ ق 29] أي : لا يغيّر ما سبق في اللوح المحفوظ، تنبيها علی أنّ ما علمه أن سيكون يكون علی ما قد علمه لا يتغيّرعن حاله . وقیل : لا يقع في قوله خلف . وعلی الوجهين قوله تعالی: تَبْدِيلَ لِكَلِماتِ اللَّهِ [يونس 64] ، لا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ [ الروم 30] قيل : معناه أمر وهو نهي عن الخصاء . والأَبْدَال : قوم صالحون يجعلهم اللہ مکان آخرین مثلهم ماضین «1» . وحقیقته : هم الذین بدلوا أحوالهم الذمیمة بأحوالهم الحمیدة، وهم المشار إليهم بقوله تعالی: فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان 70] - والبَأْدَلَة : ما بين العنق إلى الترقوة، والجمع :- البَئَادِل «2» ، قال الشاعر :- 41-- ولا رهل لبّاته وبآدله - ( ب د ل ) الا بدال والتبدیل والتبدل الاستبدال - کے معنی ایک چیز کو دوسری کی جگہ رکھنا کے ہیں ۔ یہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض میں پہلی چیز کے بدلہ میں دوسری چیز لینا شرط ہوتا ہے لیکن تبدیل مطلق تغیر کو کہتے ہیں ۔ خواہ اس کی جگہ پر دوسری چیز نہ لائے قرآن میں ہے فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة 59] تو جو ظالم تھے انہوں نے اس لفظ کو جس کا ان کو حکم دیا گیا تھا بدل کو اس کی جگہ اور لفظ کہنا شروع گیا ۔ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً [ النور 55] اور خوف کے بعد ان کو امن بخشے گا ۔ اور آیت : فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان 70] کے معنی بعض نے یہ کئے ہیں کہ وہ ایسے نیک کام کریں جو ان کی سابقہ برائیوں کو مٹادیں اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو معاف فرمادیگا اور ان کے نیک عملوں کا انہیں ثواب عطا کریئگا فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَ ما سَمِعَهُ [ البقرة 181] تو جو شخص وصیت کو سننے کے بعد بدل ڈالے ۔ وَإِذا بَدَّلْنا آيَةً مَكانَ آيَةٍ [ النحل 101] جب ہم گوئی آیت کسی آیت کی جگہ بدل دیتے ہیں ۔ وَبَدَّلْناهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ [ سبأ 16] ثُمَّ بَدَّلْنا مَكانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ [ الأعراف 95] پھر ہم نے تکلیف کو آسودگی سے بدل دیا ۔ اور آیت کریمہ : يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ [إبراهيم 48] کے معنی یہ ہیں کہ زمین کی موجودہ حالت تبدیل کردی جائے گی ۔ أَنْ يُبَدِّلَ دِينَكُمْ [ غافر 26] کہ وہ ( کہیں گی ) تہمارے دین کو ( نہ ) بدل دے ۔ وَمَنْ يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمانِ [ البقرة 108] اور جس شخص نے ایمان ( چھوڑ کر اس کے بدلے کفر اختیار کیا وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ [ محمد 38] 47 ۔ 38 ) اور اگر تم منہ پھروگے تو وہ تہماری جگہ اور لوگوں کو لے آئیگا ۔ اور آیت کریمہ : ما يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَ [ ق 29] ہمارے ہاں بات بدلا نہیں کرتی ۔ کا مفہوم یہ ہے کہ لوح محفوظ میں جو کچھ لکھا جا چکا ہے وہ تبدیل نہیں ہوتا پس اس میں تنبیہ ہے کہ جس چیز کے متعلق اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ وقوع پذیر ہوگی وہ اس کے علم کے مطابق ہی وقوع پذیر ہوگی اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آسکتی ۔ بعض نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ اس کے وعدہ میں خلف نہیں ہوتا ۔ اور فرمان بار ی تعالیٰ : وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِ اللهِ ( سورة الأَنعام 34) قوانین خدا وندی کو تبدیل کرنے والا نہیں ۔ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللهِ ( سورة الروم 30) نیز : لا تبدیل لخلق اللہ فطرت الہیٰ میں تبدیل نہیں ہوسکتی ( 30 ۔ 30 ) بھی ہر دو معافی پر محمول ہوسکتے ہیں مگر بعض نے کہاں ہے کہ اس آخری آیت میں خبر بمعنی امر ہے اس میں اختصاء کی ممانعت ہے الا ابدال وہ پاکیزہ لوگ کہ جب کوئی شخص ان میں سے مرجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ دوسرے کو اس کا قائم مقام فرمادیتے ہیں ؟ درحقیقت ابدال وہ لوگ ہیں ۔ درحقیقت ابدال وہ لوگ ہیں جہنوں نے صفات ذمیمہ کی بجائے صفات حسنہ کو اختیار کرلیا ہو ۔ اور یہ وہی لوگ ہیں جنکی طرف آیت : فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان 70] میں ارشاد فرمایا ہے ۔ البادلۃ گردن اور ہنسلی کے درمیان کا حصہ اس کی جمع بادل ہے ع ( طویل ) ولارھل لباتہ وبآدلہ اس کے سینہ اور بغلوں کا گوشت ڈھیلا نہیں تھا ۔- سَّيِّئَةُ :- الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] - سَّيِّئَةُ :- اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :،- ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] جو برے کام کرے - حسنة- والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، والسيئة تضادّها . وهما من الألفاظ المشترکة، کالحیوان، الواقع علی أنواع مختلفة کالفرس والإنسان وغیرهما، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] ، أي : خصب وسعة وظفر، وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ أي : جدب وضیق وخیبة «1» ، يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِكَ قُلْ : كُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] - والفرق بين الحسن والحسنة والحسنی - أنّ الحَسَنَ يقال في الأعيان والأحداث، وکذلک الحَسَنَة إذا کانت وصفا، وإذا کانت اسما فمتعارف في الأحداث، والحُسْنَى لا يقال إلا في الأحداث دون الأعيان، والحسن أكثر ما يقال في تعارف العامة في المستحسن بالبصر، يقال : رجل حَسَنٌ وحُسَّان، وامرأة حَسْنَاء وحُسَّانَة، وأكثر ما جاء في القرآن من الحسن فللمستحسن من جهة البصیرة، وقوله تعالی: الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر 18] ، أي : الأ بعد عن الشبهة، - ( ح س ن ) الحسن - الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ میں حسنتہ سے مراد فراخ سالی وسعت اور نا کامی مراد ہے - الحسن والحسنتہ اور الحسنی یہ تین لفظ ہیں ۔- اور ان میں فرق یہ ہے کہ حسن اعیان واغراض دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اسی طرح حسنتہ جب بطور صفت استعمال ہو تو دونوں پر بولا جاتا ہے اور اسم ہوکر استعمال ہو تو زیادہ تر احدث ( احوال ) میں استعمال ہوتا ہے اور حسنی کا لفظ صرف احداث کے متعلق بو لاجاتا ہے ۔ اعیان کے لئے استعمال نہیں ہوتا ۔ اور الحسن کا لفظ عرف عام میں اس چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو بظاہر دیکھنے میں بھلی معلوم ہو جیسے کہا جاتا ہے رجل حسن حسان وامرءۃ حسنتہ وحسانتہ لیکن قرآن میں حسن کا لفظ زیادہ تر اس چیز کے متعلق استعمال ہوا ہے جو عقل وبصیرت کی رو سے اچھی ہو اور آیتکریمہ : الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر 18] جو بات کو سنتے اور اچھی باتوں کی پیروی کرتے ہیں ۔ - غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه»- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ،

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧٠) مگر جو شرک و گناہوں سے توبہ کرے گا اور ایمان لانے کے بعد نیک کام کرتا رہے تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے کفر کو ایمان کی برکت سے اور گناہوں کو اطاعت کی برکت سے اور جو غیر اللہ کی عبادت کی تھی اس کو عبادت خداوندی کی برکت سے اور برائیوں کو نیکیوں کی برکت سے معاف فرما دے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ تائب کی مغفرت فرمانے والا اور جو توبہ پر مرے اس پر رحمت فرمانے والا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧٠ (اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا) ” - گویا جو شخص اس طرح کے کبیرہ گناہوں میں ملوث ہوتا ہے اگرچہ قانوناً اس کا شمار کافروں میں نہیں ہوتا مگر حقیقی ایمان اس کے دل سے نکل جاتا ہے۔ اس لیے یہاں توبہ کے بعد ایمان کی شرط بھی رکھی گئی ہے۔ چناچہ ایسے شخص کی توبہ دراصل از سر نو ایمان لانے کے مترادف ہے۔ بہر حال اگر اس نے موت کے آثار نظر آنے سے پہلے پہلے ( مَا لَمْ یُغَرْغِرْ ) توبہ کرلی تو اس کو عذاب سے استثناء مل سکتا ہے۔- (فَاُولٰٓءِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِہِمْ حَسَنٰتٍ ط) ” - اس کے دو معنی ہیں۔ ایک تو یہ کہ نامۂ اعمال میں جو برائیوں کا اندراج تھا وہ صاف کردیا جائے گا اور اس کی جگہ نیکیوں کا اندراج ہوجائے گا۔ اور دوسرے یہ کہ توبہ کرنے سے انسان کے دامن اخلاق کے دھبےّ دُھل جاتے ہیں اور اس کا دامن صاف شفافّ ہوجاتا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :86 یہ بشارت ہے ان لوگوں کے لیے جن کی زندگی پہلے طرح طرح کے جرائم سے آلودہ رہی ہو اور اب وہ اپنے اصلاح پر آمادہ ہوں ۔ یہی عام معافی ( ) کا اعلان تھا جس نے اس بگڑے ہوئے معاشرے کے لاکھوں افراد کو سہارا دے کر مستقل بگاڑ سے بچا لیا ۔ اسی نے ان کو امید کی روشنی دکھائی اور اصلاح حال پر آمادہ کیا ۔ ورنہ اگر ان سے یہ کہا جاتا کہ جو گناہ تم کر چکے ہو ان کی سزا سے اب تم کسی طرح نہیں بچ سکتے ، تو یہ انہیں مایوس کر کے ہمیشہ کے لیے بدی کے بھنور میں پھسا دیتا اور کبھی ان کی اصلاح نہ ہو سکتی ۔ مجرم انسان کو صرف معافی امید ہی جرم کے چکر سے نکال سکتی ہے ۔ مایوس ہو کر وہ ابلیس بن جاتا ہے ۔ توبہ کی اس نعمت نے عرب کے بگڑے ہوئے لوگوں کو کس طرح سنبھالا ، اس کا اندازہ ان بہت سے واقعات سے ہوتا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں پیش آئے ۔ مثال کے طور پر ایک واقعہ ملاحظہ ہو جسے ابن جریر اور طبرانی نے روایت کیا ہے ۔ حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ ایک روز میں مسجد نبوی سے عشا کی نماز پڑھ کر پلٹا تو دیکھا کہ ایک عورت میرے دروازے پر کھڑی ہے ۔ میں اس کو سلام کر کے اپنے حجرے میں چلا گیا اور دروازہ بند کر کے نوافل پڑھنے لگا ۔ کچھ دیر کے بعد اس نے دروازہ کھٹکھٹایا ۔ میں نے اٹھ کر دروازہ کھولا اور پوچھا کیا چاہتی ہے ؟ وہ کہنے لگی میں آپ سے ایک سوال کرنے آئی ہوں ۔ مجھ سے زنا کا ارتکاب ہوا ۔ ناجائز حمل ہوا ۔ بچہ پیدا ہوا تو میں نے اسے مار ڈالا ۔ اب میں یہ معلوم کرنا چاہتی ہوں کہ میرا گناہ معاف ہونے کی بھی کوئی صورت ہے ؟ میں نے کہا ہرگز نہیں ۔ وہ بڑی حسرت کے ساتھ آہیں بھرتی ہوئی واپس چلی گئی ، اور کہنے لگی افسوس ، یہ حسن آگ کے لیے پیدا ہوا تھا ۔ صبح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ کر جب میں فارغ ہوا تو میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو رات کا قصہ سنایا ۔ آپ نے فرمایا ، بڑا غلط جواب دیا ابو ہریرہ تم نے ، کیا یہ آیت قرآن میں تم نے نہیں پڑھی : وَالَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللہِ اِلٰھاً اٰخَرَ ..........اِلّا مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلاً صَالِحاً ؟ حضور کا یہ جواب سن کر میں نکلا اور اس عورت کو تلاش کرنا شروع کیا ۔ رات کو عشا ہی کے وقت وہ ملی ۔ میں نے اسے بشارت دی اور بتایا کہ سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرے سوال کا یہ جواب دیا ہے ۔ وہ سنتے ہی سجدے میں گر گئی اور کہنے لگی شکر ہے اس خدائے پاک کا جس نے میرے لیے معافی کا دروازہ کھولا ۔ پھر اس نے گناہ سے توبہ کی اور اپنی لونڈی کو اس کے بیٹے سمیت آزاد کر دیا ۔ اس سے ملتا جلتا واقعہ احادیث میں ایک بڈھے کا آیا ہے جس نے آ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا تھا کہ یا رسول اللہ ، ساری زندگی گناہوں میں گزری ہے ۔ کوئی گناہ ایسا نہیں جس کا ارتکاب نہ کر چکا ہوں ۔ اپنے گناہ تمام روئے زمین کے باشندوں پر بھی تقسیم کر دوں تو سب کو لے ڈوبیں ۔ کیا اب بھی میری معافی کی کوئی صورت ہے ؟ فرمایا کیا تو نے اسلام قبول کر لیا ہے ؟ اس نے عرض کیا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔ فرمایا جا ، اللہ معاف کرنے والا اور تیری برائیوں کو بھلائی سے بدل دینے والا ہے ۔ اس نے عرض کیا میرے سارے جرم اور قصور؟ فرمایا ہاں ، تیرے سارے جرم اور قصور ( ابن کثیر ، بحوالہ ابن ابی حاتم ) ۔ سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :87 اس کے دو مطلب ہیں ۔ ایک یہ کہ جب وہ توبہ کرلیں گے تو کفر کی زندگی میں جو برے افعال وہ پہلے کیا کرتے تھے ان کی جگہ اب طاعت اور ایمان کی زندگی میں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے نیک افعال کرنے لگیں گے اور تمام برائیوں کی جگہ بھلائیاں لے لیں گی ۔ دوسرے یہ کہ توبہ کے نتیجہ میں صرف اتنا ہی نہ ہو گا کہ ان کے ماہ اعمال سے وہ تمام قصور کاٹ دیے جائیں گے جو انہوں نے کفر و گناہ کی زندگی میں کیے تھے ، بلکہ ان کی جگہ ہر ایک کے نامہ اعمال میں یہ نیکی لکھ دی جائے گی کیونکہ یہ وہ بندہ ہے جس نے بغاوت اور نافرمانی کو چھوڑ کر طاعت و فرمانبرداری اختیار کر لی ۔ پھر جتنی بار بھی وہ اپنی سابقہ زندگی کے برے اعمال کو یاد کر کے نادم ہو گا اور اس نے اپنے خدا سے استغفار کیا ہو گا ۔ اس کے حساب میں اتنی ہی نیکیاں لکھ دی جائیں گی ، کیونکہ خطا پر شرمسار ہونا اور معافی مانگنا بجائے خود ایک نیکی ہے ۔ اس طرح اس کے نامہ اعمال میں تمام پچھلی برائیوں کی جگہ بھلائیاں لے لیں گی اور اس کا انجام صرف سزا سے بچ جانے تک ہی محدود نہ رہے گا بلکہ وہ الٹا انعامات سے سرفراز ہو گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

25: یعنی حالت کفر میں انہوں نے جو برے کام کیے تھے، وہ ان کے نامہ اعمال سے مٹا دئیے جائیں گے، اور اسلام لا کر جو نیک عمل کیے ہوں گے وہ ان کی جگہ لے لیں گے۔