Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

711پہلی توبہ کا تعلق کفر و شرک سے ہے۔ اس توبہ کا تعلق دیگر معاصی اور کوتاہیوں سے ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٨] سابقہ آیت میں ان لوگوں کا ذکر تھا جو کفر سے توبہ کرتے اور دائرہ اسلام میں داخل ہوتے ہیں۔ اس آیت میں ان مسلمانوں کا ذکر ہے جن سے گناہ سرزد ہوجائیں اور وہ توبہ کرتے ہیں۔ توبہ کی قبولیت کی شرائط یہ ہیں کہ وہ فی الواقعہ اپنے کئے پر نادم ہو۔ پھر اللہ سے استغفار کرے۔ توبہ استغفار کے بعد اپنی اصلاح کرے اور کم از کم اس سے وہ گناہ سرزد نہ ہو جس سے اس نے توبہ کی تھی۔ اب وہ توبہ استغفار کے بعد جس قدر اپنی اصلاح کرتا اور اعمال صالحہ بجا لاتا رہے گا اسی قدر وہ اللہ کے حضور مقرب بنتا جائے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّهٗ يَتُوْبُ ۔۔ : یہاں ایک سوال یہ ہے کہ پچھلی آیت میں توبہ کے ذکر کے بعد دوبارہ توبہ کے ذکر میں کیا حکمت ہے ؟ اور ایک یہ کہ یہ کہنا کہ ” جو شخص توبہ کرے تو وہ توبہ کرتا ہے۔۔ “ ایسے ہی ہے جیسے کوئی کہے ” مَنْ قَامَ فَإِنَّہُ یَقُوْمُ “ یعنی جو کھڑا ہو تو وہ کھڑا ہوتا ہے، تو اس سے کیا فائدہ حاصل ہوا ؟ اس کا جواب کئی طرح سے دیا گیا ہے، ایک یہ کہ اس میں توبہ کی ترغیب دلائی گئی ہے کہ جو شخص توبہ کرے اور عمل صالح کرے، تو اسے جان لینا چاہیے کہ وہ اس توبہ کے ساتھ کسی معمولی ہستی کی طرف پلٹ کر نہیں جا رہا، بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف پلٹ کر جا رہا ہے، جو بندے کی توبہ سے بہت محبت کرتا ہے اور اس کی توبہ معمولی نہیں بلکہ بڑی شان والی اور سچی توبہ ہے۔- دوسرا یہ کہ اگرچہ پچھلی آیت میں بھی عمل صالح کا ذکر تھا مگر اس کی اہمیت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے اسے پھر دہرایا اور فرمایا کہ صرف زبانی توبہ اللہ کے ہاں معتبر نہیں، اس کے مطابق عمل بھی ضروری ہے، چناچہ جو شخص توبہ کرے اور نیک اعمال کرے وہ اللہ کی طرف سچی اور حقیقی توبہ کرتا ہے اور جو قدرت کے باوجود عمل نہ کرے اس کا توبہ کا دعویٰ قبول نہیں اور اس کی توبہ سچی اور حقیقی نہیں، بلکہ جھوٹی اور بےکار ہے۔ تیسرا یہ کہ پچھلی آیت میں کفر کے زمانے میں کیے ہوئے گناہوں سے توبہ کا ذکر تھا، اس آیت میں مسلمان ہونے کے بعد کیے ہوئے گناہوں سے توبہ کا ذکر ہے کہ مسلمان ہونے کے بعد بھی کوئی شخص کسی بھی گناہ سے توبہ کرے تو اس کی توبہ بھی سچی اور مقبول توبہ ہوگی۔ ابن عباس (رض) مسلمان قاتل کی توبہ قبول ہونے کے قائل نہیں، اس آیت سے اس کی توبہ کا قبول ہونا بھی ثابت ہوتا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة نساء کی آیت (٩٣) : (وَمَنْ يَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا) کی تفسیر۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّهٗ يَتُوْبُ اِلَى اللّٰهِ مَتَابًا، بظاہر یہ اسی مضمون کا تکرار ہے جو اس سے پہلے آیت میں آیا ہے اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا اور قرطبی نے قفال سے یہ نقل کیا ہے کہ یہ توبہ پہلی توبہ سے مختلف اور الگ ہے کیونکہ پہلا معاملہ کافر و مشرکین کا تھا جو قتل و زنا میں بھی مبتلا ہوئے تھے، پھر ایمان لے آئے تو ان کی سیئات حسنات سے بدل دی گئیں اور یہاں مسلمان گناہگاروں کی توبہ کا ذکر ہے۔ اسی لئے پہلی توبہ کے ساتھ وَاٰمَنَ یعنی اس کے ایمان لانے کا ذکر تھا، اس دوسری توبہ میں وہ مذکور نہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ توبہ ان لوگوں کی ذکر کی گئی ہے جو پہلے سے مومن ہی تھے مگر غفلت سے قتل و زنا میں مبتلا ہوگئے تو ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی کہ ایسے لوگ اگر توبہ کرلینے کے بعد صرف زبانی توبہ پر اکتفا نہ کریں بلکہ آئندہ کے لئے اپنے عمل کو بھی صالح اور درست بنالیں تو ان کا توبہ کرنا صحیح اور درست سمجھا جائے گا۔ اسی لئے بطور شرط کے توبہ کرلینے کے ابتدائی حال ذکر کرنے کے بعد اس کی جزاء میں پھر يَتُوْبُ کا ذکر کرنا صحیح ہوگیا کیونکہ شرط میں جس توبہ کا ذکر ہے وہ صرف زبانی توبہ ہے اور جزاء میں جس توبہ کا ذکر ہے وہ عمل صالح پر مرتب ہے۔ مطلب یہ ہوگیا کہ جس نے توبہ کرلی پھر اپنے عمل سے بھی اس توبہ کا ثبوت دیا تو وہ صحیح طور پر اللہ کی طرف رجوع کرنے والا سمجھا جائے گا بخلاف اس کے جس نے پچھلے گناہ سے توبہ تو کی مگر آئندہ عمل میں اس کا کوئی ثبوت نہ فراہم کیا تو اس کی توبہ گویا توبہ ہی نہیں۔ خلاصہ مضمون اس آیت کا یہ ہوگیا کہ جو مسلمان غفلت سے گناہ میں مبتلا ہوگیا پھر توبہ کرلی اور اس توبہ کے بعد اپنے عمل کی بھی ایسی اصلاح کرلی کہ اس کے عمل سے توبہ کا ثبوت ملنے لگا تو یہ توبہ بھی عنداللہ مقبول ہوگی اور بظاہر اس کا فائدہ بھی وہی ہوگا جو پہلی آیت میں بتلایا گیا ہے کہ اس کے سیئات کو حسنات سے بدل دیا جائے گا۔- اللہ کے مخصوص اور مقبول بندوں کی خاص صفات کا بیان اوپر سے ہو رہا تھا، درمیان میں گناہ کے بعد توبہ کرلینے کے احکام کا بیان آیا اس کے بعد باقی صفات کا بیان ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّہٗ يَتُوْبُ اِلَى اللہِ مَتَابًا۝ ٧١- توب - التَّوْبُ : ترک الذنب علی أجمل الوجوه وهو أبلغ وجوه الاعتذار،- فإنّ الاعتذار علی ثلاثة أوجه : إمّا أن يقول المعتذر : لم أفعل، أو يقول :- فعلت لأجل کذا، أو فعلت وأسأت وقد أقلعت، ولا رابع لذلک، وهذا الأخير هو التوبة، والتَّوْبَةُ في الشرع :- ترک الذنب لقبحه والندم علی ما فرط منه، والعزیمة علی ترک المعاودة، وتدارک ما أمكنه أن يتدارک من الأعمال بالأعمال بالإعادة، فمتی اجتمعت هذه الأربع فقد کملت شرائط التوبة . وتاب إلى الله، فذکر «إلى الله» يقتضي الإنابة، نحو : فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة 54] - ( ت و ب ) التوب - ( ن) کے معنی گناہ کے باحسن وجود ترک کرنے کے ہیں اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے - کیونکہ اعتذار کی تین ہی صورتیں ہیں - ۔ پہلی صورت - یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کردے اور کہہ دے لم افعلہ کہ میں نے کیا ہی نہیں ۔ - دوسری صورت - یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ جواز تلاش کرے اور بہانے تراشے لگ جائے ۔ - تیسری صورت - یہ ہے کہ اعتراف جرم کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا یقین بھی دلائے افرض اعتزار کی یہ تین ہی صورتیں ہیں اور کوئی چوتھی صورت نہیں ہے اور اس آخری صورت کو تو بہ کہا جاتا ہ مگر - شرعا توبہ - جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اگر ان گناہوں کی تلافی ممکن ہو تو حتی الامکان تلافی کی کوشش کرے پس تو بہ کی یہ چار شرطیں ہیں جن کے پائے جانے سے توبہ مکمل ہوتی ہے ۔ تاب الی اللہ ان باتوں کا تصور کرنا جو انابت الی اللہ کی مقتضی ہوں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً [ النور 31] سب خدا کے آگے تو بہ کرو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧١) اور جو شخص گناہوں سے توبہ کرتا ہے اور خلوص کے ساتھ اعمال صالحہ کرتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں پختہ توبہ کرنے والا ہوگا اور اس توبہ کا ثواب وہ اللہ تعالیٰ کے دربان میں پائے گا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧١ (وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّہٗ یَتُوْبُ اِلَی اللّٰہِ مَتَابًا ) ” - یعنی توبہ کے بعد گناہوں سے کنارہ کش ہوگیا اور تقویٰ کی روش اختیار کرلی تو یہی اصل توبہ ہے۔ اس کے برعکس اگر ایک شخص زبان سے توبہ توبہ کے الفاظ ادا کرتا رہے اور استغفار کی تسبیحات پڑھتا رہے ‘ سوا لاکھ مرتبہ آیت کریمہ پڑھوا کر ختم بھی دلائے مگر اس کی حرام خوری جوں کی توں رہے اور وہ گناہوں سے باز نہ آئے تو اس کی توبہ کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :88 یعنی فطرت کے اعتبار سے بھی بندے کا اصلی مرجع اسی کی بارگاہ ہے ، اور اخلاقی حیثیت سے بھی وہی ایک بارگاہ ہے جس کی طرف اسے پلٹنا چاہیے ، اور نتیجے کے اعتبار سے بھی اس بارگاہ کی طرف پلٹنا مفید ہے ، ورنہ کوئی دوسری جگہ ایسی نہیں ہے جدھر رجوع کر کے وہ سزا سے بچ سکتے یا ثواب پا سکے ۔ علاوہ بریں اس کا مطلب یہ بھی کہ وہ پلٹ کر ایک ایسی بارگاہ کی طرف جاتا ہے جو واقعی ہے ہی پلٹنے کے قابل جگہ ، بہترین بارگاہ ، جہاں سے تمام بھلائیاں ملتی ہیں ، جہاں سے قصوروں پر شرمسار ہونے والے دھتکارے نہیں جاتے بلکہ معافی اور انعام سے نوازے جاتے ہیں ، جہاں معافی مانگنے والے کے جرم نہیں گنے جاتے بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس نے توبہ کر کے اپنی اصلاح کتنی کر لی ، جہاں بندے کو وہ آقا ملتا ہے جو انتقام پر خار کھائے نہیں بیٹھا ہے بلکہ اپنے ہر شرمسار غلام کے لیے دامن رحمت کھولے ہوئے ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani