Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

عباد الرحمن کے اوصاف عباد الرحمن کے اور نیک اوصاف بیان ہو رہے ہیں کہ وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے یعنی شرک نہیں کرتے ، بت پرستی سے بچتے ہیں ، جھوٹ نہیں بولتے فسق وفجور نہیں کرتے کفر سے الگ رہتے ہیں لغو اور باطل کاموں سے پرہیز کرتے ہیں گانا نہیں سنتے مشرکوں کی عیدیں نہیں مناتے خیانت نہیں کرتے بری مجلسوں میں نشست نہیں رکھتے شرابیں نہیں پیتے شراب خانوں میں نہیں جاتے اس کی رغبت نہیں کرتے حدیث میں بھی ہے کہ سچے مومن کو چاہئے کہ اس دسترخوان پر نہ بیٹھے جس پر دور شراب چل رہا ہو اور یہ بھی مطلب ہے کہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے ۔ بخاری ومسلم میں ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں سب سے بڑا گناہ بتادوں؟ تین دفعہ یہی فرمایا صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے کہا ہاں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے فرمایا اللہ کے ساتھ شرک کرنا ماں باپ کی نافرمانی کرنا اس وقت تک آپ تکیہ لگائے بیٹھے ہوئے تھے اب اس سے الگ ہو کر فرمانے لگے سنو اور جھوٹی بات کہنا سنو اور جھوٹی گواہی دینا اسے باربار فرماتے رہے یہاں تک کہ ہم اپنے دل میں کہنے لگے کاش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اب خاموش ہوجاتے ۔ زیادہ ظاہر لفظوں سے تو یہ ہے کہ وہ جھوٹ کے پاس نہیں جاتے ۔ اللہ کے ان بزرگ بندوں کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ قرآن کی آیتیں سن کر ان کے دل ہل جاتے ہیں ان کے ایمان اور توکل بڑھ جاتے ہیں بخلاف کفار کے کہ ان پر کلام الٰہی کا اثر نہیں ہوتا وہ اپنی بد اعمالیوں سے باز نہیں رہتے ۔ نہ اپنا کفر چھوڑتے ہیں نہ سرکشی ، طغیانی اور جہالت وضلالت سے باز آتے ہیں ایمان والوں کے ایمان بڑھ جاتے ہیں اور بیمار دل والوں کی گندگی ابھر آتی ہے پس کافر اللہ کی آیتوں سے بہرے اور اندھے ہوجاتے ہیں ۔ ان مومنوں کی حالت ان کے برعکس ہے نہ یہ حق سے بہرے ہیں نہ حق سے اندھے ہیں ۔ سنتے ہیں سمجھتے ہیں نفع حاصل کرتے ہیں اپنی اصلاح کرتے ہیں ۔ ایسے بہت سے لوگ ہیں جو پڑھتے تو ہیں لیکن اندھا پن بہرا پن نہیں چھوڑتے ۔ حضرت شعبی رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا کہ ایک شخص آتا ہے اور دوسروں کو سجدے میں پاتا ہے لیکن اسے نہیں معلوم کہ کس آیت کو پڑھ کر سجدہ کیا ہے؟ تو کیا وہ بھی ان کیساتھ سجدہ کرلے؟ تو آپ نے یہی آیت پڑھی یعنی سجدہ نہ کرے اس لیے کہ اس نے نہ سجدے کی آیت پڑھی نہ سنی نہ سوچی تو مومن کا کوئی کام اندھا دھند نہ کرنا چاہئے جب تک اسکے سامنے کسی چیز کی حقیقت نہ ہو اسے شامل نہ ہونا چائیے ۔ پھر ان بزرگ بندوں کی ایک دعا بیان ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے طلب کرتے ہیں کہ ان کی اولادیں بھی ان کی طرح رب کی فرمانبردار عبادت گزار موحد اور غیر مشرک ہوں تاکہ دنیا میں بھی اس نیک اولاد سے ان کا دل ٹھنڈا رہے اور آخرت میں بھی یہ انہیں اچھی حالت میں دیکھ کر خوش ہوں ۔ اس دعا سے ان کی غرض خوبصورتی اور جمال نہیں بلکہ نیکی اور خوش خلقی کی ہے ۔ مسلمان کی سچی خوشی اسی میں ہے کہ وہ اپنے اہل وعیال کو دوست احباب کو اللہ کا فرماں بردار دیکھے ۔ وہ ظالم نہ ہو بدکار نہ ہو ۔ سچے مسلمان ہوں ۔ حضرت مقداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھ کر ایک صاحب فرمانے لگے ان کی آنکھوں کو مبارک باد ہو جنہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی ہے ۔ کاش کہ ہم بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے اور تمہاری طرح فیض صحبت حاصل کرتے ۔ اس پر حضرت مقداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ ناراض ہوئے تو نفیر کہتے ہیں مجھے تعجب معلوم ہوا کہ اس بات میں کوئی برائی نہیں پھر یہ خفا کیوں ہو رہے ہیں؟ اتنے میں حضرت مقداد رضی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ اس چیز کی آرزو کرتے ہیں کہ جو قدرت نے انہیں نہیں دی ۔ اللہ ہی کو علم ہے کہ یہ اگر اس وقت ہوتے تو ان کا کیا حال ہوتا ؟ واللہ وہ لوگ بھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھے جنہوں نے نہ آپ کی تصدیق نہ تابعداری کی اور اوندھے منہ جہنم میں گئے ۔ تم اللہ کا یہ احسان نہیں مانتے کہ اللہ نے تمہیں اسلام میں اور مسلمان گھروں میں پیدا کیا ۔ پیدا ہوتے ہی تمہارے کانوں میں اللہ کی توحید اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پڑی اور ان بلاؤں سے تم بچالئے گئے جو تم سے اگلے لوگوں پر آئی تھیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو ایسے زمانے میں مبعوث ہوئے تھے جس وقت دنیا کی اندھیر نگری اپنی انتہا پر تھی ۔ اس وقت دنیا والوں کے نزدیک بت پرستی سے بہتر کوئی مذہب نہ تھا ۔ آپ فرقان لے کر آئے حق وباطل میں تمیز کی ۔ باپ بیٹے جدا ہوگئے ۔ مسلمان اپنے باپ دادوں بیٹوں پوتوں دوست احباب کو کفر پر دیکھتے ان سے انہیں کوئی محبت پیار نہیں ہوتا تھا بلکہ کڑہتے تھے کہ یہ جہنمی ہیں اسی لئے ان کی دعائیں ہوتی تھیں ۔ اس دعا کا آخر یہ ہے کہ ہمیں لوگوں کا رہبر بنا دے کہ ہم انہیں نیکی کی تعلیم دیں ، لوگ بھلائی میں ہماری اقتدا کریں ۔ ہماری اولاد ہماری راہ چلے تاکہ ثواب بڑھ جائے اور ان کی نیکیوں کا باعث بھی ہم بن جائیں ۔ رسول کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم فرماتے ہیں کہ انسان کے مرتے ہی اس کے اعمال ختم ہوجاتے ہیں مگر تین چیزیں ۔ نیک اولاد جو اس کے لئے دعا کرے یا علم جس سے اس کے بعد نفع اٹھایا جائے یا صدقہ جاریہ ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

721زور کے معنی جھوٹ کے ہیں۔ ہر باطل چیز بھی جھوٹ ہے، اس لئے جھوٹی گواہی سے لے کر کفر و شرک اور ہر طرح کی غلط چیزیں مثلاً ، گانا اور دیگر بےہودہ جاہلانہ رسوم و افعال، سب اس میں شامل ہیں اور اللہ کے نیک بندوں کی یہ صفت بھی ہے کہ وہ کسی بھی جھوٹ میں اور جھوٹی مجلس میں حاضر نہیں ہوتے۔ 722لَغْو ہر وہ بات اور کام ہے، جس میں شرعاً کوئی فائدہ نہیں۔ یعنی ایسے کاموں اور باتوں میں بھی شرکت نہیں کرتے بلکہ خاموشی کے ساتھ عزت اور وقار سے گزر جاتے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٩] اس کا ایک ترجمہ تو وہی ہے جو ترجمہ سے واضح ہے البتہ یہ وضاحت باقی رہ جاتی ہے کہ زور کا معنی محض جھوٹ نہیں بلکہ ہر باطل اور لغو کام بھی زور میں شامل ہے۔ اسی طرح شہادۃ الزور سے مراد محض جھوٹی شہادت نہیں۔ جبکہ گول مول سی شہادت دینا، شہادت کا کچھ حصہ چھپا جانا اور بیان نہ کرنا یا ایسی ہیراپھیری کرنا کہ غیر اہم بات نہایت اہم اور اہم بات نہایت معمول معلوم ہونے لگے یہ ایسی سب باتیں شہادۃ الزور میں داخل ہیں۔ اور ایسی شہادت کا مقصد کسی نہ کسی فریق کی ناجائز حمایت اور طرفداری ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں فریق ثانی کی از خود حق تلفی ہوجاتی ہے۔ ایسی شہادت کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بڑے بڑے گناہوں میں شمار کیا ہے۔ ( بخاری۔ کتاب الشہادت۔ باب ماقبل فی شہادۃ الزور (- اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ جہاں کوئی لغو اور بےہودہ قسم کا کام ہو رہا ہو۔ اللہ کے بندے وہاں حاضر ہو کر تماشائی نہیں بنتے اور ان کی طبیعت قطعاً یہ گوارا نہیں کرتی کہ وہ ایسی مجالس میں شریک ہوں جیسا کہ اس آیت کے اگلے حصہ سے یہی مفہوم متبادر ہوتا ہے۔ جہاں ایسے بےہودہ قسم کے کھیل تماشے یا مجالس منعقد ہوں گے وہاں وہ نہ رکنا گوارا کرتے ہیں نہ انھیں دیکھنا پسند کرتے ہیں بلکہ شریفانہ طور پر وہاں سے آگے گزر جاتے ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَالَّذِيْنَ لَا يَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَ : اہل ایمان کی تین بنیادی صفات کے بعد اب چند مزید صفات کا ذکر ہوتا ہے، جن کے ساتھ ایمان میں کمال حاصل ہوتا ہے۔ ” شَھِدَ یَشْھَدُ “ حاضر ہونے کے معنی میں آتا ہے اور اس کا اصل مفہوم یہی ہے، جیسا کہ فرمایا : (فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ) [ البقرۃ : ١٨٥ ] ” تو تم میں سے جو اس مہینے میں حاضر ہو وہ اس کا روزہ رکھے۔ “ اور کسی چیز کے متعلق گواہی دینے کے لیے بھی آتا ہے، جس میں وہ حاضر رہا ہو یا جانتا ہو، جیسا کہ فرمایا : (وَّاَشْهِدُوْا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنْكُمْ ) [ الطلاق : ٢ ] ” اور اپنوں میں سے دو صاحب عدل آدمی گواہ بنا لو۔ “ اور فرمایا : (شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۙ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ وَاُولُوا الْعِلْمِ قَاۗىِٕمًۢا بالْقِسْطِ ) [ آل عمران : ١٨ ]” اللہ نے گواہی دی کہ بیشک حقیقت یہ ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتوں نے اور علم والوں نے بھی، اس حال میں کہ وہ انصاف پر قائم ہے۔ “- اس آیت کے دو معنی ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ وہ باطل کی مجلسوں میں حاضر نہیں ہوتے، جن میں مشرکین حاضر ہوتے ہیں۔ وہ لہو و لعب، گانے بجانے، غیبت یا بدکاری کی مجلسیں ہوں یا ظلم و زیادتی یا کسی بھی گناہ کی منصوبہ بندی کی مجلسیں، یا کفار کے جشنوں، ان کے کھیل تماشوں کی مجلسیں، غرض ایسی ہر مجلس میں شرکت سے وہ اجتناب کرتے ہیں۔ اس صورت میں لفظ ” الزُّوْرَ “ ” لَا يَشْهَدُوْنَ “ کا مفعول بہ ہوگا۔ یہی مفہوم سورة انعام میں بیان ہوا ہے، فرمایا : (وَاِذَا رَاَيْتَ الَّذِيْنَ يَخُوْضُوْنَ فِيْٓ اٰيٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتّٰي يَخُوْضُوْا فِيْ حَدِيْثٍ غَيْرِهٖ ۭ وَاِمَّا يُنْسِيَنَّكَ الشَّيْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰي مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ ) [ الأنعام : ٦٨ ] ” اور جب تو ان لوگوں کو دیکھے جو ہماری آیات کے بارے میں (فضول) بحث کرتے ہیں تو ان سے کنارہ کر، یہاں تک کہ وہ اس کے علاوہ بات میں مشغول ہوجائیں اور اگر کبھی شیطان تجھے ضرور ہی بھلا دے تو یا د آنے کے بعد ایسے ظالم لوگوں کے ساتھ مت بیٹھ۔ “ اور ” یَشْھَدُوْنَ “ کا معنی گواہی بھی ہوسکتا ہے، اس صورت میں ” لَا يَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَ “ سے مراد ” لَا یَشْھَدُوْنَ بالزُّوْرِ “ یا ” لَا یَشْھَدُوْنَ شَھَادَۃَ الزُّوْرِ “ ہوگا کہ وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔ انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کبیرہ گناہوں کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَلإِْشْرَاک باللّٰہِ وَ عُقُوْقُ الْوَالِدَیْنِ وَ قَتْلُ النَّفْسِ وَ شَھَادَۃُ الزُّوْرِ ) [ بخاري، الشھادات، باب ما قیل في شھادۃ الزور : ٢٦٥٣ ] ” اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا، والدین کو ستانا، کسی جان کو قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔ “ ابن کثیر (رض) نے فرمایا : ” آیات کے سیاق سے زیادہ ظاہر بات یہی ہے کہ وہ جھوٹ اور باطل کی مجلس میں شریک نہیں ہوتے۔ “- وَاِذَا مَرُّوْا باللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا :” كِرَامًا “ کریم کا اصل معنی وہ چیز ہے جو اپنی قسم میں سب سے عمدہ ہو، جیسا کہ فرمایا : (فَاَنْۢبَتْنَا فِيْهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيْمٍ ) [ لقمان : ١٠ ] ” پھر ہم نے اس میں ہر طرح کی عمدہ قسم اگائی۔ “ ” لغو “ کا معنی بےفائدہ اور بےکار چیز، یعنی ” کُلَّ مَا یَنْبَغِيْ أَنْ یُّلْغٰی وَ یُطْرَحُ “ کہ ہر وہ چیز جو بےکار کیے جانے اور پھینکے جانے کے لائق ہو۔ (کشاف) اس میں ہر گناہ آجاتا ہے، یعنی رحمٰن کے بندے بےہودہ مجالس میں شریک نہیں ہوتے اور اگر ایسی کسی مجلس پر ان کا گزر ہو تو الجھنے اور لڑنے کے بجائے بہت باعزت اور عمدہ ترین طریقے سے گزر جاتے ہیں۔ دوسری جگہ فرمایا : (وَذَرِ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا دِيْنَهُمْ لَعِبًا وَّلَهْوًا) [ الأنعام : ٧٠ ] ” اور ان لوگوں کو چھوڑ دے جنھوں نے اپنے دین کو کھیل اور دل لگی بنا لیا۔ “ اور فرمایا : (وَاِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْهُ وَقَالُوْا لَنَآ اَعْمَالُنَا وَلَكُمْ اَعْمَالُكُمْ ۡ سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ ۡ لَا نَبْتَغِي الْجٰهِلِيْنَ ) [ القصص : ٥٥ ] ” اور جب وہ لغو بات سنتے ہیں تو اس سے کنارہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لیے تمہارے اعمال۔ سلام ہے تم پر، ہم جاہلوں کو نہیں چاہتے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

دسویں صفت : وَالَّذِيْنَ لَا يَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَ ، یعنی یہ لوگ جھوٹ اور باطل کی مجلسوں میں شریک نہیں ہوتے۔ سب سے بڑا جھوٹ اور باطل تو شرک و کفر ہے اس کے بعد عام جھوٹ اور گناہ کے کام ہیں۔ مطلب آیت کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے ایسی مجلسوں میں شرکت سے بھی گریز کرتے ہیں۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ اس سے مراد مشرکین کی عیدیں اور میلے ٹھیلے ہیں حضرت مجاہد اور محمد بن حنفیہ نے فرمایا کہ اس سے مراد گانے بجانے کی محفلیں ہیں۔ عمرو بن قیس نے فرمایا کہ بےحیائی اور ناچ رنگ کی محفلیں مراد ہیں۔ زہری، امام مالک نے فرمایا کہ شراب پینے پلانے کی مجلسیں مراد ہیں (ابن کثیر) اور حقیقت یہ ہے کہ ان اقوال میں کوئی اختلاف نہیں، یہ ساری ہی مجلسیں مجلس زور کی مصداق ہیں۔ اللہ کے نیک بندوں کو ایسی محفلوں ہی سے پرہیز کرنا چاہئے کیونکہ لغو و باطل کا بالقصد دیکھنا بھی اس کی شرکت کے حکم میں ہے۔ (مظہری) اور بعض حضرات مفسرین نے لَا يَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَ میں یشہدون کو شہادت بمعنے گواہی سے لیا ہے اور معنی آیت کے یہ قرار دیئے کہ یہ لوگ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔ جھوٹی گواہی کا گناہ کبیرہ اور وبال عظیم ہونا قرآن و سنت میں معروف و مشہور ہے۔ بخاری و مسلم میں حضرت انس کی روایات ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جھوٹی گواہی کو اکبر کبائر فرمایا ہے۔- حضرت فاروق اعظم نے فرمایا کہ جس شخص کے متعلق ثابت ہوجائے کہ اس نے جھوٹی شہادت دی ہے تو اس کو چالیس کوڑوں کی سزا دی جائے اور اس کا منہ کالا کر کے بازار میں پھرایا جائے اور رسوا کیا جائے پھر طویل زمانے تک قید میں رکھا جائے۔ (رواہ ابن ابی شیبہ و عبدالرزاق۔ مظہری)- گیارہویں صفت : وَاِذَا مَرُّوْا باللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا یعنی اگر لغو اور بیہودہ مجلسوں پر کبھی ان کا گزر اتفاقا ہوجائے تو وہ سنجیدگی اور شرافت کے ساتھ گزر جاتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ایسی مجلسوں میں یہ لوگ جس طرح بقصد و ارادہ شریک نہیں ہوتے اسی طرح اگر کہیں اتفاقی طور پر ان کا کسی ایسی مجلس پر گزر ہوجاوے تو اس فسق و فجور اور گناہ کی مجلس پر سے شرافت کے ساتھ گزرے چلے جاتے ہیں۔ یعنی ان کے اس فعل کو برا اور قابل نفرت جانتے ہوئے۔ نہ گناہوں میں مبتلا لوگوں کی تحقیر کرتے ہیں اور نہ خود اپنے آپ کو ان سے افضل و بہتر سمجھ کر تکبر میں مبتلا ہوتے ہیں۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود کا اتفاق سے ایک روز کسی بیہودہ لغو مجلس پر گزر ہوگیا تو وہاں ٹھہرے نہیں گزرے چلے گئے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ معلوم ہوا تو فرمایا کہ ابن مسعود کریم ہوگئے اور یہ آیت تلاوت فرمائی جس میں بیہودہ مجلس سے کریموں شریفوں کی طرح گزر جانے کا حکم ہے (ابن کثیر)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ لَا يَشْہَدُوْنَ الزُّوْرَ۝ ٠ۙ وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا۝ ٧٢- شهد - وشَهِدْتُ يقال علی ضربین :- أحدهما - جار مجری العلم، وبلفظه تقام الشّهادة، ويقال : أَشْهَدُ بکذا، ولا يرضی من الشّاهد أن يقول : أعلم، بل يحتاج أن يقول :- أشهد . والثاني يجري مجری القسم،- فيقول : أشهد بالله أنّ زيدا منطلق، فيكون قسما، ومنهم من يقول : إن قال : أشهد، ولم يقل : بالله يكون قسما، - ( ش ھ د ) المشھود والشھادۃ - شھدت کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔- ( 1) علم کی جگہ آتا ہے اور اسی سے شہادت ادا ہوتی ہے مگر اشھد بکذا کی بجائے اگر اعلم کہا جائے تو شہادت قبول ہوگی بلکہ اشھد ہی کہنا ضروری ہے ۔ ( 2) قسم کی جگہ پر آتا ہے چناچہ اشھد باللہ ان زید ا منطلق میں اشھد بمعنی اقسم ہے - زور - الزَّوْرُ : أعلی الصّدر، وزُرْتُ فلانا : تلقّيته بزوري، أو قصدت زوره، نحو : وجهته، ورجل زَائِرٌ ، وقوم زَوْرٌ ، نحو سافر وسفر، وقد يقال : رجل زَوْرٌ ، فيكون مصدرا موصوفا به نحو :- ضيف، والزَّوَرُ : ميل في الزّور، والْأَزْوَرُ : المائلُ الزّور، وقوله : تَتَزاوَرُ عَنْ كَهْفِهِمْ- [ الكهف 17] ، أي : تمیل، قرئ بتخفیف الزاي وتشدیده «1» وقرئ : تَزْوَرُّ «2» . قال أبو الحسن : لا معنی لتزورّ هاهنا، لأنّ الِازْوِرَارَ الانقباض، يقال : تَزَاوَرَ عنه، وازْوَرَّ عنه، ورجلٌ أَزْوَرُ ، وقومٌ زَوَّرٌ ، وبئرٌ زَوْرَاءُ : مائلة الحفر وقیل لِلْكَذِبِ : زُورٌ ، لکونه مائلا عن جهته، قال : ظُلْماً وَزُوراً [ الفرقان 4] ، وقَوْلَ الزُّورِ [ الحج 30] ، مِنَ الْقَوْلِ وَزُوراً [ المجادلة 2] ، لا يَشْهَدُونَ الزُّورَ [ الفرقان 72] ، ويسمّى الصّنم زُوراً في قول الشاعر :- جاء وا بزوريهم وجئنا بالأصم لکون ذلک کذبا ومیلا عن الحقّ.- ( ز و ر ) الزور ۔- سینہ کا بالائی حصہ اور زرت فلانا کے معنی ہیں میں نے اپنا سینہ اس کے سامنے کیا یا اس کے سینہ کا قصد ( کیا اس کی ملا قات کی ) جیسا کہ وجھتہ کا محاورہ ہے یعنی اس کے سامنے اپنا چہرہ کیا یا اس کے چہرہ کا قصد کیا رجل زائر : ملاقاتی ۔ زائر کی جمع زور آتی ہے جیسا کہ سافر کی جمع سفر مگر کبھی رجل زور بھی آجاتا ہے اس صورت میں یہ مصدر ہوتا ہے جیسا کہ ضعیف کا لفظ ہے نیز الزور کے معنی سینہ کے ایک طرف جھکا ہونا کے ہیں اور جس کے سینہ میں ٹیٹرھا پن ہو اسے الازور کہتے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ تَتَزاوَرُ عَنْ كَهْفِهِمْ [ الكهف 17] کے معنی یہ ہیں کہ سورج ان کے غار سے ایک طرف کو ہٹ کر نکل جاتا ہے یہاں تز اور میں حرف زاد پر تشدید بھی پڑھی جاتی ہے اور بغیر تشدید کے بھی اور بعض نے تزور ( افعال ) پڑھا ہے مگر الحسن (رض) فرماتے ہیں یہ قرات یہاں موزوں نہیں ہے کیونکہ الازورار کے معنی ہیں منقبض ہونا ۔ کہا جاتا ہے تز اور عنہ وازور عنہ اس نے اس سے پہلو تہی کی ۔ اس سے ایک جانب ہٹ گیا اور جس کنویں کی کھدائی میں ٹیڑھا پن ہوا سے بئر زوراء کہا جاتا ہے ۔ اسی سے جھوٹ کو الزور کہتے میں کیونکہ وہ بھی جہت راست سے ہٹا ہوا ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ ظُلْماً وَزُوراً [ الفرقان 4] ظلم اور جھوٹ سے ۔ وقَوْلَ الزُّورِ [ الحج 30] جھوٹی بات سے ۔ مِنَ الْقَوْلِ وَزُوراً [ المجادلة 2] اور جھوٹی بات کہتے ہیں ۔ لا يَشْهَدُونَ الزُّورَ [ الفرقان 72] وہ جھوٹی شہادت نہیں دیتے ۔ اور شاعر کے قول ۔ جاء وا بزوريهم وجئنا بالأصموہ اپنے وہ جھوٹے خدا لے کر آگئے اور ہم اپنے بہادر سردار کو میں زور کے معنی بت کے ہیں کیونکہ بت پرستی بھی جھوٹ اور حق سے ہٹ جانے کا نام ہے ۔- مرر - المُرُورُ : المضيّ والاجتیاز بالشیء . قال تعالی: وَإِذا مَرُّوا بِهِمْ يَتَغامَزُونَ- [ المطففین 30] - ( م ر ر ) المرور - کے معنی کسی چیز کے پاس سے گزر جانے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِذا مَرُّوا بِهِمْ يَتَغامَزُونَ [ المطففین 30] اور جب ان کے پاس سے گزرتے تو باہم آنکھوں سے اشارہ کرتے - لغو - اللَّغْوُ من الکلام : ما لا يعتدّ به، وهو الذي يورد لا عن رويّة وفكر، فيجري مجری اللَّغَا، وهو صوت العصافیر ونحوها من الطّيور، قال أبو عبیدة : لَغْوٌ ولَغًا، نحو : عيب وعاب وأنشدهم :- 407-- عن اللّغا ورفث التّكلّم - «5» يقال : لَغِيتُ تَلْغَى. نحو : لقیت تلقی، وقد يسمّى كلّ کلام قبیح لغوا . قال : لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا كِذَّاباً [ النبأ 35] ، وقال : وَإِذا سَمِعُوا اللَّغْوَ أَعْرَضُوا عَنْهُ [ القصص 55] ، لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا تَأْثِيماً [ الواقعة 25] ، وقال : وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ [ المؤمنون 3] ، وقوله : وَإِذا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِراماً [ الفرقان 72] ، أي : كنّوا عن القبیح لم يصرّحوا، وقیل : معناه : إذا صادفوا أهل اللّغو لم يخوضوا معهم . ويستعمل اللغو فيما لا يعتدّ به، ومنه اللَّغْوُ في الأيمان . أي : ما لا عقد عليه، وذلک ما يجري وصلا للکلام بضرب من العادة . قال : لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ [ البقرة 225] ومن هذا أخذ الشاعر فقال :- 408-- ولست بمأخوذ بلغو تقوله ... إذا لم تعمّد عاقدات العزائم - «1» وقوله : لا تَسْمَعُ فِيها لاغِيَةً [ الغاشية 11] أي : لغوا، فجعل اسم الفاعل وصفا للکلام نحو : کاذبة، وقیل لما لا يعتدّ به في الدّية من الإبل : لغو، وقال الشاعر :- 409 ۔ كما أَلْغَيْتَ في الدّية الحوارا - «2» ولَغِيَ بکذا . أي : لهج به لهج العصفور بِلَغَاه . أي : بصوته، ومنه قيل للکلام الذي يلهج به فرقة فرقة : لُغَةٌ. - ( ل غ و ) اللغو - ۔ ( ن ) کے معنی بےمعنی بات کے ہے جو کسی گنتی شمار میں نہ ہو یعنی جو سوچ سمجھ کر نہ کی جائے گویا وہ پرندوں کی آواز کی طرح منہ سے نکال دی جائے ابو عبیدہ کا قول ہے کہ اس میں ایک لغت لغا بھی ہے ۔ جیسے عیب وعاب شاعر نے کہا ہے ( الرجز) ( 394) عن اللغ اور فث التکم جو بہیودہ اور فحش گفتگو سے خاموش ہیں ۔ اس کا فعل لغیث تلغیٰ یعنی سمع سے ہے ۔ اور کبھی ہر قبیح بات کو لغو کہہ دیا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا كِذَّاباً [ النبأ 35] وہاں نہ بیہودہ بات سنیں گے نہ جھوٹ اور خرافات وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ [ المؤمنون 3] اور جو بہیودہ باتوں سے اعراض کرتے ہیں ۔ وَإِذا سَمِعُوا اللَّغْوَ أَعْرَضُوا عَنْهُ [ القصص 55] اور جب بیہودہ بات سنتے ہیں تو اس سے منہ پھیر لیتے ہیں ۔ لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا تَأْثِيماً [ الواقعة 25] وہاں نہ بیہودہ بات سنیں گے اور نہ الزام تراشی ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِراماً [ الفرقان 72] اور جب ان کو بیہودہ چیزوں کے باس سے گزرنے کا اتفاق ہو تو شریفا نہ انداز سے گرزتے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ فحش بات کبھی صراحت سے نہیں کہتے ۔ بلکہ ہمیشہ کنایہ سے کام لیتے ہیں ۔ اور بعض نے اس کے یہ معنی کئے ہیں کہ اگر کہیں اتفاق سے وہ ایسی مجلس میں چلے جاتے ہیں ۔ جہاں بیہودہ باتیں ہو رہی ہوتی ہیں تو اس سے دامن بچاکر نکل جاتے ہیں ۔ پس لغو ہر اس بات کا کہاجاتا ہے جو کسی شمار قطار میں نہ ہو ۔ اور اسی سے لغو فی الایمان ہے ۔ یعنی وہ قسم جو یونہی بلا ارادہ زبان سے نکل جائے چناچہ قرآن میں ہے : لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ [ البقرة 225] خدا تمہاری لغو قسموں پر تم سے مواخذہ نہیں کرے گا اور شاعر نے کہا ہے ( البسیط) (395) ولست بماخود بلغو تقولہ اذالم تعمد عاقدات العزائم لغو قسم کھانے پر تم سے مواخذہ نہیں ہوگا بشرطیکہ قصدا غرم قلب کے ساتھ قسم نہ کھائی جائے ۔ اور آیت کریمہ لا تَسْمَعُ فِيها لاغِيَةً [ الغاشية 11] وہاں کسی طرح کی بکواس نہیں سنیں گے ۔ میں لاغیۃ بمعنی لغو کے ہے اور یہ ( اسم فاعل ) کلام کی صفت واقع ہوا ہے جیسا کہ کاذبۃ وغیرہ ۔ اور خونبہا میں لغو اونٹ کے ان بچوں کو کہا جاتا ہے جو گنتی میں شمار نہ کئے جائیں ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہے ( الوافر) (396) کما الغیت فی الدابۃ الحوارجیسا کہ اونٹ کے چھوٹے بچے کو خونبہا میں ناقابل شمار سمجھا جاتا ہے لغی بکذا کے معنی چڑیا کے چہچہانے کی طرح کسی چیز کا بار بار تذکرہ کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور اسی سے ہر گز وہ کی زبان اور بولی جس کے ذریعے وہ بات کرتا ہ لغۃ کہلاتی ہے ۔- كرم - الكَرَمُ إذا وصف اللہ تعالیٰ به فهو اسم لإحسانه وإنعامه المتظاهر، نحو قوله : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل 40] ، وإذا وصف به الإنسان فهو اسم للأخلاق والأفعال المحمودة التي تظهر منه، ولا يقال : هو كريم حتی يظهر ذلک منه . قال بعض العلماء : الكَرَمُ کالحرّيّة إلّا أنّ الحرّيّة قد تقال في المحاسن الصّغيرة والکبيرة، والکرم لا يقال إلا في المحاسن الکبيرة، كمن ينفق مالا في تجهيز جيش في سبیل الله، وتحمّل حمالة ترقئ دماء قوم، وقوله تعالی: إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات 13] فإنما کان کذلک لأنّ الْكَرَمَ الأفعال المحمودة، وأكرمها وأشرفها ما يقصد به وجه اللہ تعالی، فمن قصد ذلک بمحاسن فعله فهو التّقيّ ، فإذا أكرم الناس أتقاهم، وكلّ شيء شرف في بابه فإنه يوصف بالکرم . قال تعالی:- فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان 10] ، وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان 26] ، إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] ، وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء 23] .- والإِكْرَامُ والتَّكْرِيمُ :- أن يوصل إلى الإنسان إکرام، أي : نفع لا يلحقه فيه غضاضة، أو أن يجعل ما يوصل إليه شيئا كَرِيماً ، أي : شریفا، قال : هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ- [ الذاریات 24] . وقوله : بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء 26] أي : جعلهم کراما، قال : كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار 11] ، وقال : بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس 15 16] ، وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس 27] ، وقوله : ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن 27] منطو علی المعنيين .- ( ک ر م ) الکرم - ۔ جب اللہ کی صفت ہو تو اس سے احسان وانعام مراد ہوتا ہے جو ذات باری تعالیٰ سے صادر ہوتا رہتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل 40] تو میر اپروردگار بےپرواہ اور کرم کرنے والا ہے ۔ اور جب انسان کی صفت ہو تو پسندیدہ اخلاق اور افعال مراد ہوتے ہیں جو کسی انسان سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ اور کسی شخص کو اس وقت تک کریمہ نہیں کہاجاسکتا جب تک کہ اس سے کرم کا ظہور نہ ہوچکا ہو ۔ بعض نے علماء کہا ہے کہ حریت اور کرم ہم معنی ہیں لیکن حریت کا لفظ جھوٹی بڑی ہر قسم کی خوبیوں پر بولا جا تا ہے اور کرم صرف بڑے بڑے محاسن کو کہتے ہیں مثلا جہاد میں فوج کے لئے سازو سامان مہیا کرنا یا کیس ایسے بھاری تا وان کو اٹھا لینا جس سے قوم کے خون اور جان کی حفاظت ہوتی ہو ۔ اور آیت : ۔ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات 13] اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا ہے جو زیادہ پرہیز گار ہیں ۔ میں القی یعنی سب سے زیادہ پرہیز گا ۔ کو اکرم یعنی سب سے زیادہ عزت و تکریم کا مستحق ٹہھر انے کی وجہ یہ ہے کہ کرم بہترین صفات کو کہتے ہیں اور سب سے بہتر اور پسند یدہ کام وہی ہوسکتے ہیں جن سے رضا الہیٰ کے حصول کا قصد کیا جائے لہذا جو جس قدر زیادہ پرہیز گار ہوگا اسی قدر زیادہ واجب التکریم ہوگا ۔ نیز الکریم ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنی چیز کو کہتے ہیں جو اپنی ہم نوع چیزوں میں سب سے زیادہ باشرف ہو چناچہ فرمایا : ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان 10] پھر ( اس سے ) اس میں ہر قسم کی نفیس چیزیں اگائیں ۔ وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان 26] اور کھیتیاں اور نفیس مکان ۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء 23] اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا ۔ - الا کرام والتکریم - کے معنی ہیں کسی کو اس طرح نفع پہچانا کہ اس میں اس کی کسی طرح کی سبکی اور خفت نہ ہو یا جو نفع پہچا یا جائے وہ نہایت باشرف اور اعلٰی ہو اور المکرم کے معنی معزز اور با شرف کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات 24] بھلا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے ؛ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء 26] کے معنی یہ ہیں کہ وہ اللہ کے معزز بندے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس 27] اور مجھے عزت والوں میں کیا ۔ كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار 11] عالی قدر تمہاری باتوں کے لکھنے والے ۔ بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس 15 16] ( ایسے ) لکھنے والوں کے ہاتھوں میں جو سر دار اور نیوک کار ہیں ۔ اور آیت : ۔ ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن 27] اور جو صاحب جلال اور عظمت ہے ۔ میں اکرام کا لفظ ہر دو معنی پر مشتمل ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ عزت و تکریم بھی عطا کرتا ہے اور باشرف چیزیں بھی بخشتا ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

زور سے مراد آلات موسیقی - قول باری ہے : (والذین لا یشھدون الزور۔ ) اور جو جھوٹ کے گواہ نہیں بنتے۔ امام ابوحنیفہ سے مروی ہے کہ زور ، غنا یعنی موسیقی اور گانے بجانے کو کہتے ہیں۔ قول باری : (ومن یشتری لھو الحدیث) اور جو شخص لہو ولعب کی باتیں خریدتا ہے کہ تفسیر میں حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو گانے والی عورت خریدتا ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے بھی یہی مروی ہے۔- مجاہد نے اس آیت کی تفسیر میں کا ہے کہ اس غنا اور ہر لہو ولعب مراد ہے۔ ابن ابی لیلیٰ نے عطا سے اور انہوں نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” مجھے دو بیہودہ قسم کی احمقانہ آوازوں سے روکا گیا ہے ، مصیبت کے وقت رونے کی آواز سے جس کے ساتھ چہرہ نوچنا ، گریبان پھاڑنا اور شیطان کی طرح آواز بلند کرنا ہوتا ہے ، نیز گانے کی آواز سے جس کے ساتھ لہو ولعب اور شیطانی آلات موسیقی ہوتے ہیں۔ “- عبیداللہ بن زحر نے بکربن سوادہ سے ، انہوں نے قیس بن سعد (رض) بن عبادہ سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ (ان اللہ حرم علی الخمروالکویۃ والعناء) اللہ تعالیٰ نے مجھ پر شراب ، شطرنج اور غنا یعنی گانا بجانا حرام کردیا ہے ۔ محمد ابن الحنیفہ نے قول باری (لا یشھدون الزور) کی تفسیر میں کہا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ تم اس چیز کے پیچھے مت پڑو جس کے متعلق کچھ علم نہ ہو۔ کان، آنکھ اور دل سے ان کے اعمال کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی۔- ابوبکر حبصاص اس تفسیر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ احتمال ہے کہ محمد بن الحنیفہ نے اس سے غنا یعنی گانا بجانا مراد لیا ہو جیسا کہ سلف سے اس کی یہی تفسیر منقول ہے اور یہ احتمال بھی ہے کہ ان کے نزدیک اس سے ایسی بات کہنا مراد ہو جس کا کہنے والے کو کوئی علم نہ ہو آیت کے لفظ کے عموم کی بنا پر اسے ان دونوں باتوں پر محمول کیا جاسکتا ہے۔- قول باری ہے : (واذا امروا باللغو مرواکراما) اور کسی لغو چیز پر ان کا گزر ہوجائے تو شریف آدمیوں کی طرح گزرجاتے ہیں۔ سعید بن جبیر اور مجاہد کا قول ہے کہ جب ان کی ایذارسانی کی جاتی ہے تو درگزر کرتے ہوئے شریف آدمیوں کی طرح گزر جاتے ہیں۔ ابومحزوم نے سنان سے روایت کی ہے کہ جب ان کا گزر فحش گوئی اور گندی گفتگو کی مجلس پر ہوتا ہے تو وہ اس میں شرکت سے باز رہتے ہیں۔ حسن کا قول ہے کہ لغو سارے کا سارا معاصی ہے۔ سدی کا قول ہے کہ یہ سورت مکی ہے۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ سدی کی مراد یہ ہے کہ یہ آیتیں مشرکین کے ساتھ قتال کے حکم سے پہلے نازل ہوئی تھیں۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧٢) اور اللہ تعالیٰ کے خصوصی بندوں میں یہ بات ہے کہ وہ بیہودہ باتوں کی مجالس میں شریک نہیں ہوتے اور اگر اتفاقی طور پر ایسی مجالس پر سے گزرنا پڑجائے تو وہ سنجید گی ومتانت کے ساتھ گزر جاتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧٢ (وَالَّذِیْنَ لَا یَشْہَدُوْنَ الزُّوْرَلا) ” - یہ صرف جھوٹ کی گواہی سے بچنے کی بات نہیں بلکہ اس سے ایسی بلند تر کیفیت کا ذکر ہے جس کے اندر جھوٹی گواہی سے بچنے کا مفہوم ضمنی طور پر خود بخود آجاتا ہے۔ یعنی اللہ کے یہ نیک بندے حق و صداقت کی غیرت و حمیت میں اس قدر پختہ ہوتے ہیں کہ کسی ایسی جگہ پر وہ اپنی موجودگی بھی گوارا نہیں کرتے جہاں جھوٹ بولا جا رہا ہو یا جھوٹ پر مبنی کوئی دھندا ہو رہا ہو۔- (وَاِذَا مَرُّوْا باللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا ) ” - اگر ان لوگوں کا کہیں اتفاق سے کسی کھیل تماشے اور لغو کام پر سے گزر ہو تو وہ اس سے اپنا دامن بچا کر بےنیازی سے گزر جاتے ہیں۔ یہی مضمون سورة المؤمنون میں اس طرح آیا ہے : (وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ ) کہ مؤمنین ہر قسم کی لغویات سے اعراض کرتے ہیں ۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :89 اس کے بھی دو مطلب ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ کسی جھوٹی بات کی گواہی نہیں دیتے اور کسی ایسی چیز کو واقعہ اور حقیقت قرار نہیں دیتے جس کے واقعہ اور حقیقت ہونے کا انہیں علم نہ ہو ، یا جس کے خلاف واقعہ و حقیقت ہونے کا انہیں اطمینان ہو ۔ دوسرے یہ کہ وہ جھوٹ کا مشاہدہ نہیں کرتے ، اس کے تماشائی نہیں بنتے ، اس کو دیکھنے کا قصد نہیں کرتے ۔ اس دوسرے مطلب کے اعتبار سے جھوٹ کا لفظ باطل اور شر کا ہم معنی ہے ۔ انسان جس برائی کی طرف بھی جاتا ہے ، لذت یا خوشنمائی یا ظاہری فائدے کے اس جھوٹے ملمع کی وجہ سے جاتا ہے جو شیطان نے اس پر چڑھا رکھا ہے یہ ملمع اتر جائے تو ہر بدی سراسر کھوٹ ہی کھوٹ ہے جس پر انسان کبھی نہیں ریجھ سکتا ۔ لہٰذا ہر باطل ، ہر گناہ اور ہر بدی اس لحاظ سے جھوٹ ہے کہ وہ اپنی جھوٹی چمک دمک کی وجہ ہی سے اپنی طرف لوگوں کو کھنچتی ہے ۔ مومن چونکہ حق کی معرفت حاصل کر لیتا ہے ، اس لیے وہ اس جھوٹ کو ہر روپ میں پہچان جاتا ہے ، خواہ وہ کیسے ہی دلفریب دلائل ، یا نظر فریب آرٹ ، یا سماعت فریب خوش آوازیوں کا جامہ پہن کر آئے ۔ سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :90 لغو کا لفظ اس جھوٹ پر بھی حاوی ہے جس کی تشریح اوپر کی جاچکی ہے ، اور اس کے ساتھ تمام فضول ، لا یعنی اور بے فائدہ باتیں اور کام بھی اس کے مفہوم میں شامل ہیں ۔ اللہ کے صالح بندوں کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ جان بوجھ کر اس طرح کی چیزیں دیکھنے یا سننے یا ان میں حصہ لینے کے لیے نہیں جاتے ، اور اگر کبھی ان کے راستے میں ایسی کوئی چیز آ جائے تو ایک نگاہ غلط انداز تک ڈالے بغیر اس پر سے اس طرح گزر جاتے ہیں جیسے ایک نفیس مزاج آدمی گندگی کے ڈھیر سے گزر جاتا ہے ۔ غلاظت اور تعفُّن سے دلچسپی ایک بد ذوق اور پلید آدمی تو لے سکتا ہے مگر ایک خوش ذوق اور مہذب انسان مجبوری کے بغیر اس کے پاس سے بھی گزرنا گوارا نہیں کر سکتا ، کجا کہ وہ بدبو سے مستفید ہونے کے لیے ایک سانس بھی وہاں لے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، المومنون حاشیہ 4 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

26: قرآن کریم میں اصل لفظ ’’ زور‘‘ استعمال ہوا ہے جس کے معنی جھوٹ کے ہیں۔ اور ہر باطل اور ناحق کو بھی ’’ زور‘‘ کہا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جہاں ناحق اور ناجائز کام ہو رہے ہوں، اللہ تعالیٰ کے نیک بندے ان میں شامل نہیں ہوتے۔ اور اس کا ایک یہ ترجمہ بھی ممکن ہے کہ وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔ 27: یعنی نہ تو اس لغو اور بے ہودہ کام میں شریک ہوتے ہیں، اور نہ ان لوگوں کی تحقیر کرتے ہیں جو ان کاموں میں مبتلا ہیں، البتہ اس برے کام کو برا سمجھتے ہوئے وقار کے ساتھ وہاں سے گذر جاتے ہیں۔