7 3 1یعنی وہ ان سے اعراض و غفلت نہیں برتتے جیسے وہ بہرے ہوں کہ سنیں ہی نہیں یا اندھے ہوں کہ دیکھیں ہی نہیں۔ بلکہ وہ غور اور توجہ سے سنتے اور انھیں آویزہ گوش اور حرز جان بناتے ہیں۔
[٩٠] یعنی جب اللہ کے بندوں کو آیات الٰہی سے نصیحت اور یاددہانی کرائی جاتی ہے تو اس نصیحت سے ان کے دل پوری طرح اثر قبول کرتے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں وہ اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتے ہیں۔ بعض عقل پرست حضرات اس آیت کا مفہوم یہ لیتے ہیں کہ اللہ کے بندوں کو جب آیات سنائی جاتی ہیں تو وہ بلا سوچے سمجھے ان پر نہیں گرے پڑتے۔ بلکہ اگر وہ آیات عقل کے مطابق ہوں تو تب انھیں قبول کرتے ہیں اور اس سے مزید نتیجہ یہ نکالتے ہیں کہ قرآن کا کوئی حکم ایسا نہیں جو عقل انسان کے مطابق نہ ہو۔ اس طرح وہ وحی الٰہی کو عقل کے تابع بنادیتے ہیں۔ یہ سلوک تو ان کا قرآن سے ہے اور جو سلوک ان کا احادیث نبویہ سے ہوسکتا ہے اس کا آپ خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ حالانکہ دین میں جتنے بھی تعیدی امور ہیں وہ سب ایسے ہیں جن تک عقلی کی رسائی ممکن نہیں۔ مثلاً یہ کہ حدث یا ہوا نکلنے سے وضو کیوں ٹوٹ جاتا ہے اور صاف ستھرے اجزائے بدن کو از سر نو کیوں دھونا پڑتا ہے۔ یا مثلاً یہ کہ اگر ذبح کرتے وقت جانور پر اللہ کا نام نہ لیا جائے تو وہ حرام کیوں ہوجاتا ہے اور اس کے گوشت میں کیا تبدیلی واقع ہوتی ہے کہ اس کا کھانا حرام قرار دیا گیا ہے۔ اور ایسی مثالیں بیشمار ہیں۔- گویا اصل مفہوم کے لحاظ سے اس آیت کا مقصد اللہ کی آیات میں غور و فکر اور اثر پذیری ہے لیکن عقل پرستوں کے نزدیک اس آیت کا مقصد اللہ کے احکام کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنا ہے۔ اگر وہ پوری اترے تو اسے قبول کرلیا جائے ورنہ اس کی تاویل کر ڈالی جائے۔- [٩١] مکی دور میں مسلمانوں کی زندگی کچھ اس طرح گزر رہی تھی کہ اگر باپ مسلمان ہے تو اولاد کافر ہے اور اولاد مسلمان ہے تو والدین کافر ہیں۔ شوہر مسلمان ہے تو بیوی کافر ہے اور بیوی مسلمان ہے تو شوہر کافر ہے۔ یہ صورت حال بھی مسلمانوں کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کا باعث بنی ہوئی تھی۔ لہذا اللہ کے بندوں کی صفات میں سے ایک صفت یہ بھی بیان کی گئی کہ وہ یہ بھی دعا کرتے رہتے ہیں کہ ہمارے ازواج اور ہماری اولاد کو بھی ایمان کی دولت نصیب فرما تاکہ ہمارے اس قلق و الم کا تدارک ہوسکے۔- واضح رہے کہ جس طرح ہر عورت کے لئے اس کا خاوند زوج ہے اسی طرح ہر مرد کے لئے اس کی بیوی اس کا زوج ہے اور اولاد دونوں کی ہوتی ہے اس لحاظ سے یہ دعا ہر مسلمان مرد اور عورت سب کے لئے یکساں ہے۔- پھر یہ دعا صرف اس دور کے مسلمانوں سے ہی مخصوص نہیں۔ ہر دور میں اس کی ضرورت برقرار ہے۔ بیوی اور اولاد ایسے چیزیں ہیں۔ جن سے انسان کو فطرۃ محبت ہوتی ہے اور اس کے لئے آزمائش کا سبب بن جاتی ہے لہذا ہر مسلمان کو جس طرح اپنے حق میں دعائے خیر کرنا ضروری ہے۔ ویسے ہی ان کے حق میں بھی ضروری ہے کہ وہ اللہ کے نافرمان اور دین سے بیگانہ رہ کر اس کے لئے پریشانیوں کا سبب نہ بن جائیں۔ بلکہ اللہ کے فرمانبردار اور دین کے خادم بن کر اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک ثابت ہوں۔
وَالَّذِيْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ ۔۔ : ” بہرے اور اندھے ہو کر نہیں گرتے “ بلکہ وہ انھیں نہایت غور و فکر سے سنتے اور ان کا گہرا اثر قبول کرتے ہیں۔ اس میں کفار پر چوٹ ہے کہ وہ اپنے رب کی آیات سن کر ذرہ بھر متاثر نہیں ہوتے، بلکہ اپنے کفر پر سختی سے جمے رہتے ہیں۔ نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے کفار کا یہی نقشہ کھینچا ہے، فرمایا : (وَاِنِّىْ كُلَّمَا دَعَوْتُهُمْ لِتَغْفِرَ لَهُمْ جَعَلُوْٓا اَصَابِعَهُمْ فِيْٓ اٰذَانِهِمْ وَاسْتَغْشَوْا ثِيَابَهُمْ وَاَصَرُّوْا وَاسْتَكْبَرُوا اسْتِكْبَارًا ) [ نوح : ٧ ] ” اور بیشک میں نے جب بھی انھیں دعوت دی، تاکہ تو انھیں معاف کردے، انھوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ڈال لیں اور اپنے کپڑے اوڑھ لیے اور اڑ گئے اور تکبر کیا، بڑا تکبر کرنا۔ “ کفار کی اس حالت کے بیان کے لیے دیکھیے سورة حم السجدہ (٥، ٢٦) ۔ زمخشری نے فرمایا کہ اس کا معنی یہ نہیں کہ رحمٰن کے بندے آیات کے ساتھ نصیحت سن کر گرتے نہیں، بلکہ مطلب یہ ہے کہ اندھے بہرے ہو کر نہیں گرتے بلکہ سنتے اور دیکھتے ہوئے گرجاتے ہیں، جیسا کہ فرمایا : (اِنَّمَا يُؤْمِنُ بِاٰيٰتِنَا الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِهَا خَرُّوْا سُجَّدًا وَّسَبَّحُوْا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ ) [ السجدۃ : ١٥ ] ” ہماری آیات پر تو وہی لوگ ایمان لاتے ہیں کہ جب انھیں ان کے ساتھ نصیحت کی جاتی ہے تو وہ سجدہ کرتے ہوئے گرپڑتے ہیں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے۔ “ اور فرمایا : (اِذَا تُتْلٰى عَلَيْهِمْ اٰيٰتُ الرَّحْمٰنِ خَرُّوْا سُجَّدًا وَّبُكِيًّا) [ مریم : ٥٨ ] ” جب ان پر رحمٰن کی آیات پڑھی جاتی تھیں وہ سجدہ کرتے اور روتے ہوئے گرجاتے تھے۔ “
بارہویں صفت : وَالَّذِيْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِـرُّوْا عَلَيْهَا صُمًّا وَّعُمْيَانًا یعنی ان مقبول بندوں کی یہ شان ہے کہ جب ان کو اللہ کی آیات اور آخرت کی یاد دلائی جاتی ہے تو وہ ان آیات کی طرف اندھے بہروں کی طرح متوجہ نہیں ہوتے بلکہ سمیع وبصیر انسان کی طرح ان میں غور کرتے ہیں اور ان پر عمل کرتے ہیں۔ غافل اور مغفل لوگوں کی طرح ایسا معاملہ نہیں کرتے کہ انہوں نے سنا ہی نہیں یا دیکھا ہی نہیں۔ اس آیت میں دو چیزیں مذکور ہیں ایک آیات الہیہ پر گر پڑنا یعنی اہمتام کے ساتھ متوجہ ہونا یہ تو امر محمود و مقصود اور بہت بڑی نیکی ہے۔ دوسرے اندھے بہروں کی طرح گرنا کہ قرآن کی آیات پر توجہ تو دیں مگر یا تو اس پر عمل کرنے میں معاملہ ایسا کریں کہ گویا انہوں نے سنا اور دیکھا ہی نہیں اور یا آیات قرآن پر عمل بھی کریں مگر ان کو اصول صحیحہ اور تفسیر صحابہ وتابعین کے خلاف اپنی رائے یا سنی سنائی باتوں کے تابع کر کے غلط عمل کریں یہ بھی ایک طرح سے اندھے بہرے ہو کر گرنے کے حکم میں ہے۔- احکام دین کا صرف مطالعہ کافی نہیں بلکہ اسلاف کی تفسیر کے مطابق سمجھ کر عمل کرنا ضروری ہے :- آیات مذکورہ میں جس طرح اس امر کی سخت مذمت ہے کہ آیات الہیہ کی طرف توجہ ہی نہ دیں، اندھے بہروں کا سا معاملہ کریں، اسی طرح اس کی بھی مذمت ہے کہ توجہ تو دیں اور عمل بھی کریں مگر بےسمجھے بےبصیرتی کے ساتھ اپنی رائے سے جس طرح چاہیں عمل کرنے لگیں۔ ابن کثیر نے ابن عون سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے حضرت شعبی سے پوچھا کہ اگر میں کسی مجلس میں پہنچوں جہاں لوگ سجدہ میں پڑے ہوں اور مجھے معلوم نہیں کہ کیسا سجدہ ہے تو کیا میں بھی ان کے ساتھ سجدہ میں شریک ہوجاؤں۔ حضرت شعبی نے فرمایا نہیں۔ مومن کے لئے یہ درست نہیں ہے کہ بےسمجھے کسی کام میں لگ جائے بلکہ اس پر لازم ہے کہ بصیرت کے ساتھ عمل کرے۔ جب تم نے وہ آیت سجدہ نہیں سنی جس کی بناء پر یہ لوگ سجدہ کر رہے ہیں اور تمہیں ان کے سجدہ کی حقیقت بھی معلوم نہیں تو اس طرح ان کے ساتھ سجدہ میں شریک ہونا جائز نہیں۔- اس زمانے میں یہ بات تو قابل شکر ہے کہ نوجوان اور نو تعلیم یافتہ طبقہ میں قرآن پڑھنے اور اس کے سمجھنے کی طرف کچھ توجہ پیدا ہوئی ہے اور اس کے تحت وہ بطور خود قرآن کا ترجمہ یا کسی کی تفسیر دیکھ کر قرآن کو خود سمجھنے کی کوشش بھی کرتے ہیں مگر یہ کوشش بالکل بےاصول ہے۔ اس لئے قرآن کو صحیح سمجھنے کے بجائے بہت سے مغالطوں کے شکار ہوجاتے ہیں۔ اصول کی بات یہ ہے کہ دنیا کا کوئی معمولی سے معمولی فن بھی نری کتاب کے مطالعہ سے کسی کو معتدبہ نہیں حاصل ہوسکتا جب تک اس کو کسی استاد سے نہ پڑھے۔ معلوم نہیں قرآن اور علوم قرآن ہی کو کیوں ایسا سمجھ لیا گیا ہے کہ جس کا جی چاہے خود ترجمہ دیکھ کر جو چاہے اس کی مراد متعین کرلے۔ یہ بےاصول مطالعہ جس میں کسی ماہر استاد کی رہنمائی شامل نہ ہو یہ بھی آیات الہیہ پر اندھے بہرے ہو کر گرنے کے مفہوم میں شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صراط مستقیم کی توفیق بخشیں۔
وَالَّذِيْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّہِمْ لَمْ يَخِـرُّوْا عَلَيْہَا صُمًّا وَّعُمْيَانًا ٧٣- ذكر ( نصیحت)- وذَكَّرْتُهُ كذا، قال تعالی: وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم 5] ، وقوله : فَتُذَكِّرَ إِحْداهُمَا الْأُخْرى [ البقرة 282] ، قيل : معناه تعید ذكره، وقد قيل : تجعلها ذکرا في الحکم «1» . قال بعض العلماء «2» في الفرق بين قوله : فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ [ البقرة 152] ، وبین قوله : اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ [ البقرة 40] : إنّ قوله : فَاذْكُرُونِي مخاطبة لأصحاب النبي صلّى اللہ عليه وسلم الذین حصل لهم فضل قوّة بمعرفته تعالی، فأمرهم بأن يذكروه بغیر واسطة، وقوله تعالی: اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ مخاطبة لبني إسرائيل الذین لم يعرفوا اللہ إلّا بآلائه، فأمرهم أن يتبصّروا نعمته، فيتوصّلوا بها إلى معرفته .- الذکریٰ ۔ کثرت سے ذکر الہی کرنا اس میں ، الذکر ، ، سے زیادہ مبالغہ ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ذَكَّرْتُهُ كذا قرآن میں ہے :۔ وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم 5] اور ان کو خدا کے دن یاد دلاؤ ۔ اور آیت کریمہ ؛فَتُذَكِّرَ إِحْداهُمَا الْأُخْرى [ البقرة 282] تو دوسری اسے یاد دلا دے گی ۔ کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اسے دوبارہ یاد دلاوے ۔ اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں وہ حکم لگانے میں دوسری کو ذکر بنادے گی ۔ بعض علماء نے آیت کریمہ ؛۔ فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ [ البقرة 152] سو تم مجھے یاد کیا کر میں تمہیں یاد کروں گا ۔ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ [ البقرة 40] اور میری وہ احسان یاد کرو ۔ میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ کے مخاطب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب ہیں جنہیں معرفت الہی میں فوقیت حاصل تھی اس لئے انہیں براہ راست اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اور دوسری آیت کے مخاطب بنی اسرائیل ہیں جو اللہ تعالیٰ کو اس نے انعامات کے ذریعہ سے پہچانتے تھے ۔ اس بنا پر انہیں حکم ہوا کہ انعامات الہی میں غور فکر کرتے رہو حتی کہ اس ذریعہ سے تم کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوجائے ۔ - الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- خر - فَكَأَنَّما خَرَّ مِنَ السَّماءِ [ الحج 31] ، وقال تعالی: فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ [ سبأ 14] ، وقال تعالی: فَخَرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ [ النحل 26] ، فمعنی خَرَّ سقط سقوطا يسمع منه خریر، والخَرِير يقال لصوت الماء والرّيح وغیر ذلک ممّا يسقط من علوّ.- وقوله تعالی: خَرُّوا سُجَّداً [ السجدة 15] - ( خ ر ر ) خر - ( ن ) خر یر ا کے معنی کسی چیز کے آواز کے ساتھ نیچے گرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ - فَكَأَنَّما خَرَّ مِنَ السَّماءِ [ الحج 31] جب عصا گر پرا تب جنوں کو معلوم ہوا ۔ تو وہ گویا ایسا ہے جیسے آسمان سے گر پڑے ۔ فَخَرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ [ النحل 26] اور چھت ان پر ان کے اوپر سے گر پڑی الخریر پانی وغیرہ کی آواز کو کہتے ہیں جو اوپر سے گر رہاہو اور آیت کریمہ : ۔ - خَرُّوا سُجَّداً [ السجدة 15] تو سجدے میں گر پڑتے میں خرو ا کا لفظ دو معنوں پر دلالت کرتا ہے یعنی ( 1) گرنا اور ( 2 ) ان سے تسبیح کی آواز کا آنا ۔ اور اس کے بعد آیت سے تنبیہ کی ہے کہ ان کا سجدہ ریز ہونا اللہ تعالیٰ کی تسبیح کے ساتھ تھا نہ کہ کسی اور امر کے ساتھ ۔- صمم - الصَّمَمُ : فقدانُ حاسّة السّمع، وبه يوصف من لا يُصغِي إلى الحقّ ولا يقبله . قال تعالی:- صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة 18] ،- ( ص م م ) الصمم - کے معنی حاصہ سماعت ضائع ہوجانا کے ہیں ( مجاز) اس کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوتا ہے جو نہ تو حق کی آواز سنے اور نہ ہی اسے قبول کرے ( بلکہ اپنی مرضی کرتا چلا جائے ) قرآن میں ہے : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة 18] بہرے ہیں گونگے ہیں اندھے ہیں ۔- عمی - العَمَى يقال في افتقاد البصر والبصیرة، ويقال في الأوّل : أَعْمَى، وفي الثاني : أَعْمَى وعَمٍ ، وعلی الأوّل قوله : أَنْ جاءَهُ الْأَعْمى[ عبس 2] ، وعلی الثاني ما ورد من ذمّ العَمَى في القرآن نحو قوله : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة 18] - ( ع م ی ) العمی ٰ- یہ بصارت اور بصیرت دونوں قسم اندھے پن کے لئے بولا جاتا ہے لیکن جو شخص بصارت کا اندھا ہو اس کے لئے صرف اعمیٰ اور جو بصیرت کا اندھا ہو اس کے لئے اعمیٰ وعم دونوں کا استعمال ہوتا ہے اور آیت کریمہ : أَنْ جاءَهُ الْأَعْمى[ عبس 2] کہ ان کے پاس ایک نا بینا آیا ۔ میں الاعمیٰ سے مراد بصارت کا اندھا ہے مگر جہاں کہیں قرآن نے العمیٰ کی مذمت کی ہے وہاں دوسرے معنی یعنی بصیرت کا اندھا پن مراد لیا ہے جیسے فرمایا : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة 18] یہ بہرے گونگے ہیں اندھے ہیں ۔ فَعَمُوا وَصَمُّوا[ المائدة 71] تو وہ اندھے اور بہرے ہوگئے ۔ بلکہ بصٰیرت کے اندھا پن کے مقابلہ میں بصارت کا اندھا پن ۔ قرآن کی نظر میں اندھا پن ہی نہیں ہے
(٧٣) اور وہ ایسے ہیں کہ جس وقت ان کو اللہ کے احکام کے ذریعے سے نصیحت کی جاتی ہے تو وہ احکام خداوندی پر بہرے ہو کر اور اندھے ہو کر اس پر نہیں گرتے بلکہ ان کو سنتے اور دیکھتے ہیں۔
آیت ٧٣ (وَالَّذِیْنَ اِذَا ذُکِّرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّہِمْ لَمْ یَخِرُّوْا عَلَیْہَا صُمًّا وَّعُمْیَانًا ) ” - اس کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ ایسے لوگ جب قرآنی آیات کو پڑھتے یا سنتے ہیں تو ان کا رویہ اندھوں یا بہروں جیسا نہیں ہوتا ‘ بلکہ وہ ان پر غور و فکر اور تدبر کرتے ہیں۔ اور دوسرا مفہوم یہ کہ وہ قریش مکہّ کی طرح اندھے اور بہرے بن کر اللہ کی آیات کی مخالفت پر کمر نہیں کس لیتے۔ اس مفہوم میں اس آیت کا انداز طنزیہ ہوگا کہ جو رویہ مشرکین مکہّ نے کلام اللہ کے ساتھ اپنا رکھا ہے ‘ اللہ کے نیک بندوں کا ایسا رویہ نہیں ہوتا۔ سورة محمد میں کفار کے اس رویے کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے : (اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُہَا ) ” کیا یہ لوگ قرآن میں تدبر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر قفل پڑگئے ہیں ؟ “ بہر حال ” عبادالرحمن “ کے مقام و مرتبہ سے یہ بات فروتر ہے کہ وہ قرآن کو اندھے اور بہرے ہو کر مانیں یا پڑھیں۔
سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :91 اصل میں الفاظ ہیں لَمْ یَخِرُّوْا عَلَیھَا صُمّاً وَّ عَمْیَاناً ، جن کا لفظی ترجمہ یہ ہے : وہ ان پر اندھے بہرے بن کر نہیں گرتے ۔ لیکن یہاں گرنے کا لفظ اپنے لغوی معنی کے لیے نہیں بلکہ محاورے کے طور پر استعمال ہوا ہے ۔ جیسے ہم اردو میں کہتے ہیں جہاد کا حکم سن کر بیٹھے رہ گئے ۔ اس میں بیٹھنے کا لفظ اپنے لغوی معنی میں نہیں بلکہ جہاد کے لیے شرکت نہ کرنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ پس آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایسے لوگ نہیں ہیں جو اللہ کی آیات سن کر ٹس سے مس نہ ہوں ، بلکہ وہ ان کا گہرا اثر قبول کرتے ہیں ۔ جو ہدایت ان آیات میں آئی ہو اس کی پیروی کرتے ہیں ، جس چیز کو فرض قرار دیا گیا ہو اسے بجا لاتے ہیں ، جس چیز کی مذمت بیان کی گئی ہو اس سے رک جاتے ہیں ، اور جس عذاب سے ڈرایا گیا ہو اس کے تصور سے کانپ اٹھتے ہیں ۔
28: یہ منافقین پر طنز ہے کہ اللہ تعالیٰ کی آیتیں سن کر وہ بظاہر تو بڑے اشتیاق کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ ان کے آگے گرے اور جھکے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن حقیقت میں انہوں نے حق بات کے لیے اپنے کان بند کیے ہوتے ہیں، اور آنکھیں اندھی بنائی ہوتی ہیں اس لیے ان آیتوں سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ کے نیک بندے ان آیتوں کا شوق سے استقبال کرتے ہیں تو ان کے مضامین کو توجہ سے سنتے بھی ہیں، اور جن حقائق کی طرف وہ توجہ دلاتی ہیں، انہیں کھلی آنکھوں سمجھنے اور محسوس کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔