تذکرہ نوح علیہ السلام لمبی مدت تک جناب نوح علیہ السلام ان میں رہے دن رات چھپے کھلے انہیں اللہ کی راہ کی دعوت دیتے رہے لیکن جوں جوں آپ علیہ السلام اپنی نیکی میں بڑھتے گئے وہ اپنی بدی میں سوار ہوتے گئے بالآخر زور باندھتے باندھتے صاف کہہ دیا کہ اگر اب ہمیں اپنے دین کی دعوت دی تو ہم تجھ پر پتھراؤ کر کے تیری جان لے لیں گے ۔ آپ کے ہاتھ بھی جناب باری میں اٹھ گئے قوم کی تکذیب کی شکایت آسمان کی طرف بلند ہوئی ۔ اور آپ نے فتح کی دعا کی فرمایا کہ اے اللہ میں مغلوب اور عاجز ہوں میری مدد کر میرے ساتھ میرے ساتھیوں کو بھی بچا لے ۔ پس جناب باری عزوجل نے آپ کی دعا قبول کی ۔ انسانوں جانوروں اور سامان اسباب سے کچھا کچھ بھری ہوئی کشتی میں سوار ہوجانے کا حکم دے دیا ۔ یقینا یہ واقعہ بھی عبرت آموز ہے لیکن اکثر لوگ بےیقین ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رب بڑے غلبے والا لیکن وہ مہربان بھی بہت ہے ۔
[٧٨] لفظ من المرجومین کے بھی دو مطلب ہیں۔ رجم کے معنی دور سے پتھر، کنکر وغیرہ پھینکنا اور جان سے مار ڈالنا یا سنگسار کرنا ہے اور یہ معنی ترجمہ میں مذکور ہیں۔ پھر یہ لفظ مادی اور معنوی دونوں طرح استعمال ہوگا ہے۔ اور رجیم اور مرجوم وہ شخص یا چیز ہے۔ جسپر لعنت اور پھٹکار پڑتی رہے۔ یعنی قوم نوح کے چودھریوں نے حضرت نوح (علیہ السلام) سے کہا کہ اگر تم اپنی دعوت و تبلیغ سے باز نہ آئے تو ہر طرف سے تم پر لعنت اور پھٹکار پڑتی رہا کرے گی۔
قَالُوْا لَىِٕنْ لَّمْ تَنْتَهِ يٰنُوْحُ ۔۔ : نوح (علیہ السلام) اور ان کی قوم کی یہ گفتگو دو چار مواقع کی بات نہیں بلکہ ان کے ساتھ ان کی قوم کی یہ کش مکش ساڑھے نو سو (٩٥٠) برس جاری رہی۔ جیسے جیسے آپ دعوت کے کام میں آگے بڑھتے گئے وہ بدی میں آگے بڑھتے گئے۔ آخر کار تمام ظالم و جابر لوگوں کی طرح، جو دلیل میں لاجواب ہو کر دھمکیوں اور تشدد پر اتر آتے ہیں، نوح (علیہ السلام) کی قوم نے بھی صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ آئندہ اگر تم اپنی دعوت سے باز نہ آئے تو ہم پتھر مار مار کر تمہیں ختم کردیں گے۔
قَالُوْا لَىِٕنْ لَّمْ تَنْتَہِ يٰنُوْحُ لَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْمَرْجُوْمِيْنَ ١١٦ۭ- نهى- النهي : الزّجر عن الشیء . قال تعالی: أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق 9- 10]- ( ن ھ ی ) النهي - کسی چیز سے منع کردینا ۔ قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق 9- 10] بھلاتم نے اس شخص کو دیکھا جو منع کرتا ہے ( یعنی ) ایک بندے کو جب وہ نماز پڑھنے لگتا ہے ۔- نوح - نوح اسم نبيّ ، والنَّوْح : مصدر ناح أي : صاح بعویل، يقال : ناحت الحمامة نَوْحاً وأصل النَّوْح : اجتماع النّساء في المَنَاحَة، وهو من التّناوح . أي : التّقابل، يقال : جبلان يتناوحان، وریحان يتناوحان، وهذه الرّيح نَيْحَة تلك . أي : مقابلتها، والنَّوَائِح : النّساء، والمَنُوح : المجلس .- ( ن و ح ) نوح - ۔ یہ ایک نبی کا نام ہے دراصل یہ ناح ینوح کا مصدر ہے جس کے معنی بلند آواز کے ساتھ گریہ کرنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ناحت الحمامۃ نوحا فاختہ کا نوحہ کرنا نوح کے اصل معنی عورتوں کے ماتم کدہ میں جمع ہونے کے ہیں اور یہ تناوح سے مشتق ہے جس کے معنی ثقابل کے ہیں جیسے بجلان متنا وحان دو متقابل پہاڑ ۔ ریحان یتنا وحان وہ متقابل ہوائیں ۔ النوائع نوحہ گر عورتیں ۔ المنوح ۔ مجلس گریہ ۔- رجم - الرِّجَامُ : الحجارة، والرَّجْمُ : الرّمي بالرِّجَامِ. يقال : رُجِمَ فهو مَرْجُومٌ ، قال تعالی: لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ يا نُوحُ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمَرْجُومِينَ [ الشعراء 116] ، أي : المقتولین أقبح قتلة، وقال :- وَلَوْلا رَهْطُكَ لَرَجَمْناكَ [هود 91] ، إِنَّهُمْ إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوكُمْ [ الكهف 20] ، ويستعار الرّجم للرّمي بالظّنّ ، والتّوهّم، وللشّتم والطّرد، نحو قوله تعالی: رَجْماً بِالْغَيْبِ وما هو عنها بالحدیث المرجّم - «7» وقوله تعالی: لَأَرْجُمَنَّكَ وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا - [ مریم 46] ، أي : لأقولنّ فيك ما تكره والشّيطان الرَّجِيمُ : المطرود عن الخیرات، وعن منازل الملإ الأعلی. قال تعالی: فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطانِ الرَّجِيمِ [ النحل 98] ، وقال تعالی: فَاخْرُجْ مِنْها فَإِنَّكَ رَجِيمٌ [ الحجر 34] ، وقال في الشّهب : رُجُوماً لِلشَّياطِينِ- [ الملک 5] - ( ر ج م ) الرجام - ۔ پتھر اسی سے الرجیم ہے جس کے معنی سنگسار کرنا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے رجمۃ ۔ اسے سنگسار کیا اور جسے سنگسار کیا گیا ہوا سے مرجوم کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛ لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ يا نُوحُ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمَرْجُومِينَ [ الشعراء 116] کہ تم ضرور سنگسار کردیئے جاؤ گے ۔ إِنَّهُمْ إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوكُمْ [ الكهف 20] کیونکہ تمہاری قوم کے لوگ تمہاری خبر پائیں گے تو تمہیں سنگسار کردیں گے ۔ پھر استعارہ کے طور پر رجم کا لفظ جھوٹے گمان تو ہم ، سب وشتم اور کسی کو دھتکار دینے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے رَجْماً بِالْغَيْب یہ سب غیب کی باتوں میں اٹکل کے تکے چلاتے ہیں ۔ (176) ، ، وماھو عنھا بالحدیث المرکم ، ، اور لڑائی کے متعلق یہ بات محض انداز سے نہیں ہے ۔ اور شیطان کو رجیم اس لئے کہاجاتا ہے کہ وہ خیرات اور ملائم اعلیٰ کے مراتب سے راندہ ہوا ہے قرآن میں ہے :۔ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطانِ الرَّجِيمِ [ النحل 98] تو شیطان مردود کے وسواس سے خدا کی پناہ مانگ لیاکرو ۔ فَاخْرُجْ مِنْها فَإِنَّكَ رَجِيمٌ [ الحجر 34] تو بہشت سے نکل جا کہ راندہ درگاہ ہے ۔ اور شھب ( ستاروں ) کو رجوم کہا گیا ہے قرآن میں ہے :۔ رُجُوماً لِلشَّياطِينِ [ الملک 5] ان کی شیاطین کے لئے ایک طرح کا زوبنایا ہے ۔ رجمۃ ورجمۃ ۔ قبر کا پتھر جو بطور نشان اس پر نصب کیا جاتا ہے ۔
(١١٦) وہ لوگ کہنے لگے اے نوح (علیہ السلام) اگر تم اپنے اس کہنے سننے سے باز آؤ گے تو ضرور قتل کردیے جاؤ گے جیسا کہ تمہارے ماننے والوں میں سے غریبوں کو قتل کیا گیا۔
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :84 اصل الفاظ ہیں لَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْمَرْجُوْمِیْنَ ۔ اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ تم کو رجم کیا جائے گا ، یعنی پتھر مار مار کر ہلاک کر دیا جائے گا ۔ دوسرے معنی یہ ہو سکتے ہیں کہ تم پر ہر طرف سے گالیوں کی بوچھاڑ کی جائے گی ، جہاں جاؤ گے دھتکارے اور پھٹکارے جاؤ گے ۔ عربی محاورے کے لحاظ سے ان الفاظ کے یہ دونوں معنی لیے جا سکتے ہیں ۔