Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٢٨] ربط مضمون کے لحاظ سے تو اس کا یہی مطلب ہے کہ ان قریبی رشتہ داروں سے جو آپ پر ایمان لے آئیں اور آپ کی دعوت کو تسلیم کرلیں آپ ان سے تواضع سے پیش آئیے۔ اور جو نہ مانیں انھیں صاف سنا دیجئے کہ قیامت کے دن میں تمہارے کسی کام نہ آسکوں گا۔ تمہیں اپنے ان شرکیہ اعمال و افعال کا نتیجہ خود ہی بھگتنا پڑے گا۔ تاہم یہ حکم عام ہے۔ جس میں آپ کے رشتہ دار اور غیر رشتہ دار سب قسم کے لوگ شامل ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَاِنْ عَصَوْكَ فَقُلْ ۔۔ : یعنی پھر اگر وہ تیری نافرمانی کریں، تیرے قریب ترین رشتہ دار ہوں یا کوئی اور، تو ان کے ساتھ مومنوں کے لیے نرمی والے معاملے کے بجائے ان سے الگ ہوجا اور کہہ دے کہ تم جس نافرمانی کا ارتکاب کر رہے ہو میں اس سے بری ہوں۔ ممکن ہے تیرا لاتعلقی کا اعلان ہی انھیں واپس لے آئے، یا کم از کم تو اللہ کے ہاں بری ہوجائے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَاِنْ عَصَوْكَ فَقُلْ اِنِّىْ بَرِيْۗءٌ مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ۝ ٢١٦ۚ- عصا - العَصَا أصله من الواو، وعَصَى عِصْيَاناً : إذا خرج عن الطاعة، وأصله أن يتمنّع بِعَصَاهُ. آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] . - ( ع ص ی ) العصا - ( لاٹھی ) یہ اصل میں ناقص وادی ہے۔ عصی عصیانا کے معنی اطاعت سے نکل جانے کے ہیں دراصل اس کے معنی ہیں اس نے لاٹھی ( عصا ) سے اپنا بچاؤ کیا ۔ قرآن میں ہے : آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] ( جواب ملا کہ ) اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ۔ - برأ - أصل البُرْءِ والبَرَاءِ والتَبَرِّي : التقصّي مما يكره مجاورته، ولذلک قيل : بَرَأْتُ من المرض وبَرِئْتُ من فلان وتَبَرَّأْتُ وأَبْرَأْتُهُ من کذا، وبَرَّأْتُهُ ، ورجل بَرِيءٌ ، وقوم بُرَآء وبَرِيئُون .- قال عزّ وجلّ : بَراءَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ التوبة 1] ،- ( ب ر ء ) البرء والبراء والتبری - کے اصل معنی کسی مکردہ امر سے نجات حاصل کرتا کے ہیں ۔ اس لئے کہا جاتا ہے ۔ برءت من المریض میں تندرست ہوا ۔ برءت من فلان وتبرءت میں فلاں سے بیزار ہوں ۔ ابررتہ من کذا وبرء تہ میں نے اس کو تہمت یا مرض سے بری کردیا ۔ رجل بریء پاک اور بےگناہ آدمی ج برآء بریئوں قرآن میں ہے ؛۔ بَرَاءَةٌ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ ( سورة التوبة 1) اور اس کے رسول کی طرف سے بیزاری کا اعلان ہے ۔ - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢١٦ (فَاِنْ عَصَوْکَ فَقُلْ اِنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ ) ” - سورۃ الکافرون میں بھی اسی طرح دو ٹوک انداز میں حکم دیا گیا ہے : (قُلْ یٰٓاَیُّہَا الْکٰفِرُوْنَ ۔ لَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ ۔ وَلَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآاَعْبُدُ ) ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیجیے کہ اے کافرو میں عبادت نہیں کرتا اس کی جس کی تم لوگ عبادت کرتے ہو۔ اور نہ تم عبادت کرنے والے ہو اس کی جس کی میں عبادت کرتا ہوں “۔ اور پھر آخر میں بہت واضح طور پر اعلان براءت کردیا گیا : (لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ ) ” تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :136 اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ تمہارے رشتہ داروں میں سے جو لوگ ایمان لا کر تمہاری پیروی اختیار کریں ان کے ساتھ نرمی اور ملاطفت اور تواضع کا رویہ اختیار کرو ، اور جو تمہاری بات نہ مانیں ان سے اعلان برأت کر دو ۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ ارشاد صرف ان رشتہ داروں سے متعلق نہ ہو جنہیں متنبہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا ، بلکہ سب کے لیے عام ہو ۔ یعنی جو بھی ایمان لا کر تمہارا اتباع کرے اس کے ساتھ تواضع برتو اور جو بھی تمہاری نافرمانی کرے اس کو خبردار کر دو کہ تیرے اعمال سے میں بری الذمّہ ہوں ۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت قریش اور آس پاس کے اہل عرب میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے قائل ہو گئے تھے ، مگر انہوں نے عملاً آپ کی پیروی اختیار نہ کی تھی ، بلکہ وہ بد ستور اپنی گمراہ سوسائٹی میں مل جل کر اسی طرح کی زندگی بس کر رہے تھے جیسی دوسرے کفار کی تھی ۔ اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے ماننے والوں کو ان اہل ایمان سے الگ قرار دیا جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت تسلیم کرنے کے بعد آپ کا اتباع بھی اختیار کر لیا تھا ۔ تواضع برتنے کا حکم صرف اسی مؤخر الذکر گروہ کے لیے تھا ۔ باقی رہے وہ لوگ جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی فرماں برداری سے منہ موڑے ہوئے تھے ، جن میں آپ کی صداقت کو ماننے والے بھی شامل تھے اور آپ کا انکار کر دینے والے بھی ، ان کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت کی گئی کہ ان سے بے تعلقی کا اظہار کر دو اور صاف صاف کہہ دو کہ اپنے اعمال کا نتیجہ تم خود بھگتو گے ، تمہیں خبردار کر دینے کے بعد اب مجھ پر تمہارے کسی فعل کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani