Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

141یعنی علم کے باوجود جو انہوں نے انکار کیا تو اس کی وجہ ان کا ظلم اور استکبار تھا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٣] موسیٰ (علیہ السلام) اپنے بھائی ہارون کے ہمراہ فرعون کے دربار میں پہنچے اسے اللہ کا پیغام بھی پہنچایا اور اپنی رسالت کی صداقت کے طور پر یہ دونوں معجزات بھی دکھلائے لیکن ان لوگوں نے ان معجزات کو جادو کے کرشمے یا شعبدہ بازیاں کہہ دیا۔ حالانکہ ان کے دلوں میں یہ یقین آگیا تھا۔ کہ یہ معجزات فی الواقعہ اللہ کی عطا کردہ نشانیاں ہیں۔ جادو کے کرشمے نہیں ہیں۔ اور موسیٰ (علیہ السلام) فی الواقعہ اللہ کے رسول ہیں اور دل میں یقین کے برعکس ان کا سزان سے انکار کردینا محض تکبر کی بنا پر تھا اور یہ بہت بڑی بےانصافی کی بات تھی۔- واضح رہے کہ تصدیق و تکذیب کے لحاظ سے ایمان اور کفر کے چار قسمیں ہیں۔ ایک یہ کہ دل بھی رسالت کی تصدیق کرے اور زبان سے بھی اقرار کرے یہ صحیح اور خالص ایمان ہے۔ دوسرے یہ کہ دل بھی تکذیب کرے اور زبان بھی انکار کرے۔ یہ خالص کفر ہے۔ تیسرے یہ کہ دل تکذیب کرے یعنی دل کفر ہو اور زبان سے ایمان کا اقرار کرے۔ یہ نفاق ہے۔ چوتھے یہ کہ دل تصدیق کرے لیکن زبان سے انکار کرے یہ جحور ہے۔ ان میں صرف پہلی قسم اللہ کے ہاں مقبول اور پسندیدہ ہے۔ اور تیسری اور چوتھی قسم بھی اگرچہ کفر میں شامل ہیں لیکن یہ بدترین قسم کا کفر ہیں۔ اور ایسے لوگ عام کافروں سے زیادہ سزا یا عذاب کے مستحق ہوتے ہیں۔ کیونکہ یہ دونوں اپنے دلی کیفیت کے خلاف گواہی دیتے ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَجَحَدُوْا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَآ اَنْفُسُهُمْ ۔۔ : ” أَیْقَنَ یُوْقِنُ “ کا معنی بھی یقین کرنا ہے، ” اِسْتَیْقَنَ “ میں حروف زیادہ ہونے کی وجہ سے معنی کیا گیا ہے ” اچھی طرح یقین کرلیا۔ “ جحود یہ ہے کہ دل سے ایک بات کو درست سمجھتے ہوئے زبان سے اس کا انکار کر دے، یعنی فرعون اور اس کی قوم نے ان معجزوں کے سچا ہونے کے یقین کے باوجود ان کا انکار کردیا۔ یہی بات موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون سے کہی تھی : (قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَآ اَنْزَلَ هٰٓؤُلَاۗءِ اِلَّا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ) [ بني إسرائیل : ١٠٢ ] ” بلاشبہ یقیناً تو جان چکا ہے کہ انھیں آسمانوں اور زمین کے رب کے سوا کسی نے نہیں اتارا۔ “- ظُلْمًا وَّعُلُوًّا : یعنی پوری طرح یقین کے باوجود ان کے انکار کی دو وجہیں تھیں، ایک ظلم، دوسرا علو۔ ظلم یہ کہ انھوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو رسول ماننے کے بجائے جھوٹا کہہ دیا، بلکہ جادوگر قرار دے دیا اور علو کا بیان ان آیات میں ہے : (ثُمَّ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى وَاَخَاهُ هٰرُوْنَ ڏ بِاٰيٰتِنَا وَ سُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَمَلَا۟ىِٕهٖ فَاسْتَكْبَرُوْا وَكَانُوْا قَوْمًا عَالِيْنَ فَقَالُوْٓا اَنُؤْمِنُ لِبَشَرَيْنِ مِثْلِنَا وَقَوْمُهُمَا لَنَا عٰبِدُوْنَ ) [ المؤمنون : ٤٥ تا ٤٧ ] ” پھر ہم نے موسیٰ اور اس کے بھائی ہارون کو اپنی آیات اور واضح دلیل دے کر بھیجا۔ فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف تو انھوں نے تکبر کیا اور وہ سرکش لوگ تھے۔ تو انھوں نے کہا کیا ہم اپنے جیسے دو آدمیوں پر ایمان لے آئیں، حالانکہ ان کے لوگ ہمارے غلام ہیں۔ “- فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِيْنَ : اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی اور آپ کو جھٹلانے والوں کے لیے وعید ہے۔ ” فَانْظُرْ “ (پس دیکھ) کا مخاطب ہر شخص بھی ہوسکتا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَجَحَدُوْا بِہَا وَاسْتَيْقَنَتْہَآ اَنْفُسُہُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا۝ ٠ۭ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَۃُ الْمُفْسِدِيْنَ۝ ١٤ۧ- جحد - الجُحُود : نفي ما في القلب إثباته، وإثبات ما في القلب نفيه، يقال : جَحَدَ جُحُوداً وجَحْداً قال عزّ وجل : وَجَحَدُوا بِها وَاسْتَيْقَنَتْها أَنْفُسُهُمْ [ النمل 14] ، وقال عزّ وجل : بِآياتِنا يَجْحَدُونَ [ الأعراف 51] . وتَجَحَّدَ تَخَصَّصَ بفعل ذلك، يقال : رجل جَحِدٌ: شحیح قلیل الخیر يظهر الفقر، وأرض جَحْدَة : قلیلة النبت، يقال : جَحَداً له ونَكَداً ، وأَجْحَدَ : صار ذا جحد .- ( ج ح د ) حجد ( ف ) جحد - وجحودا ( رجان بوجھ کر انکار کردینا ) معنی دل میں جس چیز کا اقرار ہو اس کا انکار اور جس کا انکار ہو اس کا اقرار کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَحَدُوا بِها وَاسْتَيْقَنَتْها أَنْفُسُهُمْ [ النمل 14] اور ان سے انکار کیا کہ انکے دل انکو مان چکے تھے بِآياتِنا يَجْحَدُونَ [ الأعراف 51] اور ہماری آیتوں سے منکر ہورہے تھے ۔ کہا جاتا ہے : ۔ رجل جحد یعنی کنجوس اور قلیل الخیر آدمی جو فقر کو ظاہر کرے ۔ ارض جحدۃ خشک زمین جس میں روئید گی نہ ہو ۔ محاورہ ہے : ۔ اسے خبر حاصل نہ ہو ۔ اجحد ۔ ( افعال ، انکار کرنا ۔ منکر ہونا ۔- يقن - اليَقِينُ من صفة العلم فوق المعرفة والدّراية وأخواتها، يقال : علم يَقِينٍ ، ولا يقال : معرفة يَقِينٍ ، وهو سکون الفهم مع ثبات الحکم، وقال : عِلْمَ الْيَقِينِ [ التکاثر 5] «2» ، وعَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 7] «3» وحَقُّ الْيَقِينِ [ الواقعة 95] وبینها فروق مذکورة في غير هذا الکتاب، يقال : اسْتَيْقَنَ وأَيْقَنَ ، قال تعالی: إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَما نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ [ الجاثية 32] ، وَفِي الْأَرْضِ آياتٌ لِلْمُوقِنِينَ [ الذاریات 20] ، لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ [ البقرة 118] وقوله عزّ وجلّ : وَما قَتَلُوهُ يَقِيناً [ النساء 157] أي : ما قتلوه قتلا تَيَقَّنُوهُ ، بل إنما حکموا تخمینا ووهما .- ( ی ق ن ) الیقین - کے معنی کسی امر کو پوری طرح سمجھ لینے کے ساتھ اس کے پایہ ثبوت تک پہنچ جانے کے ہیں اسی لئے یہ صفات علم سے ہے اور معرفت اور وغیرہ سے اس کا در جہ اوپر ہے یہی وجہ ہے کہ کا محاورہ تو استعمال ہوات ہے لیکن معرفۃ الیقین نہیں بولتے اور قدر معنوی فرق پایا جاتا ہے جسے ہم اس کتاب کے بعد بیان کریں گے استیتن والقن یقین کرنا قرآن میں ہے : ۔ - إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَما نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ [ الجاثية 32] ہم اس کو محض ظن ہی خیال کرتے ہیں اور ہمیں یقین نہیں آتا ۔ وَفِي الْأَرْضِ آياتٌ لِلْمُوقِنِينَ [ الذاریات 20] اور یقین کرنے والوں کے لئے زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں ۔ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ [ البقرة 118] یقین کرنے والوں کیلئے اور آیت کریمہ : ۔ وَما قَتَلُوهُ يَقِيناً [ النساء 157] اور انہوں نے عیسیٰ کو یقینا نہیں کیا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ انہیں ان کے قتل ہوجانے کا یقین نہیں ہے بلکہ ظن وتخمین سے ان کے قتل ہوجانے کا ھکم لگاتے ہیں ۔- نفس - الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، - ( ن ف س ) النفس - کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے - علا - العُلْوُ : ضدّ السُّفْل، والعُلْوِيُّ والسُّفْليُّ المنسوب إليهما، والعُلُوُّ : الارتفاعُ ، وقد عَلَا يَعْلُو عُلُوّاً وهو عَالٍ وعَلِيَ يَعْلَى عَلَاءً فهو عَلِيٌّ فَعَلَا بالفتح في الأمكنة والأجسام أكثر . قال تعالی:- عالِيَهُمْ ثِيابُ سُندُسٍ [ الإنسان 21] . وقیل : إنّ ( عَلَا) يقال في المحمود والمذموم، و ( عَلِيَ ) لا يقال إلّا في المحمود، قال : إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلا فِي الْأَرْضِ [ القصص 4] - ( ع ل و ) العلو - کسی چیز کا بلند ترین حصہ یہ سفل کی ضد ہے ان کی طرف نسبت کے وقت علوی اسفلی کہا جاتا ہے اور العوا بلند ہونا عال صفت فاعلی بلند علی علی مگر علا ( فعل ) کا استعمال زیادہ تر کسی جگہ کے یا جسم کے بلند ہونے پر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ عالِيَهُمْ ثِيابُ سُندُسٍ [ الإنسان 21] ان کے بدنوں پر دیبا کے کپڑے ہوں گے ۔ بعض نے علا اور علی میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ علان ( ن ) محمود اور مذموم دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے لیکن علی ( س ) صرف مستحن معنوں میں بولا جاتا ہے : ۔ قرآن میں ہے : ۔- إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلا فِي الْأَرْضِ [ القصص 4] فرعون نے ملک میں سر اٹھا رکھا تھا ۔- نظر - النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] أي : تَأَمَّلُوا .- والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] ،- ( ن ظ ر ) النظر - کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔- اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں - عاقب - والعاقِبةَ إطلاقها يختصّ بالثّواب نحو : وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص 83] ، وبالإضافة قد تستعمل في العقوبة نحو : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم 10] ،- ( ع ق ب ) العاقب - اور عاقبتہ کا لفظ بھی ثواب کے لئے مخصوص ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص 83] اور انجام نیک تو پرہیز گاروں ہی کا ہے ۔ مگر یہ اضافت کی صورت میں کبھی آجاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔- فسد - الفَسَادُ : خروج الشیء عن الاعتدال، قلیلا کان الخروج عنه أو كثيرا،. قال تعالی: لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون 71] ، - ( ف س د ) الفساد - یہ فسد ( ن ) الشئی فھو فاسد کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کے حد اعتدال سے تجاوز کر جانا کے ہیں عام اس سے کہ وہ تجاوز کم ہو یا زیادہ قرآن میں ہے : ۔ لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون 71] تو آسمان و زمین سب درہم برہم ہوجائيں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٤) اور غضب یہ کہ ظلم وعناد اور تکبر کی وجہ سے ان معجزات کے منکر ہوگئے حالانکہ ان کے دلوں نے اس بات کا یقین کرلیا تھا کہ یہ اللہ کی طرف سے ہیں تو آپ دیکھیے کہ ان مشرکین یعنی فرعون اور اس کی قوم کا کیسا برا انجام ہوا کہ ہم نے سب کو دریا میں غرق کردیا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٤ (وَجَحَدُوْا بِہَا وَاسْتَیْقَنَتْہَآ اَنْفُسُہُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا ط) ” - اس فقرے میں ظُلْمًا وَّعُلُوًّا کا تعلق آغاز کے لفظ وَجَحَدُوْا کے ساتھ ہے۔ مضمون کے اعتبار سے یہ بہت اہم آیت ہے۔ اگرچہ انہوں نے بظاہر ان تمام نشانیوں کو جادو قرار دے کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو پیغمبر ماننے سے انکار کردیا تھا لیکن ان کا یہ انکار سراسر ناانصافی اور سرکشی پر مبنی تھا ‘ کیونکہ ان کے دل یہ حقیقت تسلیم کرچکے تھے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) واقعی اللہ کے رسول ہیں اور یہ تمام خرق عادت واقعات حقیقت میں معجزات ہیں۔ ممکن ہے ان کے عوام کو یہ شعور نہ ہو لیکن کم از کم فرعون اور قوم کے بڑے بڑے سرداروں کی اس وقت یہی کیفیت تھی۔- (فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُفْسِدِیْنَ ) ” - اس رکوع میں اجمالاً حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا تذکرہ تھا ‘ اب اگلے رکوع سے حضرت داؤد اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا ذکر شروع ہو رہا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النمل حاشیہ نمبر :17 قرآن میں دوسرے مقامات پر بیان کیا گیا ہے کہ جب موسی علیہ اللام کے اعلان کے مطابق کوئی بلائے عام مصڑ پر نازل ہوتی تھی تو فرعون حضرت موسی سے کہتا تھا کہ تم اپنے خدا سے دعا کر کے اس بلا کو ٹلوا دو ، پھر جو کچھ تم کہتے ہو وہ ہم مان لیں گے ، مگر جب وہ بلا ٹل جاتی تھی تو فرعون اپنی اسی ہٹ دھرمی پر تل جاتا تھا ( الاعراف ، آیت 134 ، الزخرف ، آیت 50 ، 49 ) بائیبل میں بھی اس کا ذکر موجود ہے ( خروج ، باب 8 تا 10 ) اور ویسے بھی یہ بات کسی طرح تصور میں نہ آسکتی تھی کہ ایک پورے ملک پر قحط اور طوفان اور ٹڈی دلوں کا ٹوٹ پڑنا اور مینڈکوں اور سرسریوں کے بے شمار لشکروں کا امڈ آنا کسی جادو کا کرشہ ہوسکتا ہے ، یہ ایسے کھلے ہوئے معجزے تھے جن کو دیکھ کر ایک بیوقوف سے بیوقوف آدمی بھی یہ سمجھ سکتا تھا کہ پیغمبر کے کہنے پر ایسی ملک یر بلاؤں کا آنا اور پھر اس کے کہنے پر پر ان کا دور ہوجانا صرف اللہ رب العالمین ہی کے تصرف کا نتیجہ ہوسکتا ہے ۔ اسی بنا پر حضرت موسی نے فرعون سے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ لَقَدْ عَلِمْتَ مَآ اَنْزَلَ هٰٓؤُلَاۗءِ اِلَّا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ تو خوب جان چکا ہے کہ یہ نشانیاں مالک زمین و آسمان کے سوا کسی اور نے نازل نہیں کی ہیں ۔ ( بنی اسرائیل ، اایت 1002 ) لیکن جس وجہ سے فرعون اور اس کی قوم کے س رداروں نے جان بوجھ کر ان کا انکار کیا وہ یہ تھی کہ اَنُؤْمِنُ لِبَشَرَيْنِ مِثْلِنَا وَقَوْمُهُمَا لَنَا عٰبِدُوْنَ کیا ہم اپنے ہی جیسے دو آدمیوں کی بات مان لیں حالانکہ ان کی قوم ہماری غلام ہے؟ ( المومنون ، آیت 47 )

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

6: اس انجام کا مفصل ذکر سورۂ یونس : 90 تا 92 اور سورۃ شعراء : 60 تا 66 میں گذر چکا ہے۔