Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیھما السلام پر خصوصی انعامات ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ ان نعمتوں کی خبر دے رہا ہے جو اس نے اپنے بندے اور نبی حضرت سلیمان اور حضرت داؤد علیہ السلام پر فرمائی تھیں کہ کس طرح دونوں جہان کی دولت سے انہیں مالا مال فرمایا ۔ ان نعمتوں کے ساتھ ہی اپنے شکرئیے کی بھی توفیق دی تھی ۔ دونوں باپ بیٹے ہر وقت اللہ کی نعمتوں پر اس کی شکر گزاری کیا کرتے تھے اور اس کی تعریفیں بیان کرتے رہتے تھے ۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے لکھاہے کہ جس بندے کو اللہ تعالیٰ جو نعمتیں دے اور ان پر وہ اللہ کی حمد کرے تو اس کی حمد ان نعمتوں سے بہت افضل ہے دیکھو خود کتاب اللہ میں یہ نکتہ موجود ہے پھر آپ نے یہی آیت لکھ کر لکھا کہ ان دونوں پیغمبروں کو جو نعمت دی گئی تھی اس سے افضل نعمت کیا ہوگی ۔ حضرت داؤد کے وارث حضرت سلیمان ہوئے اس سے مراد مال کی وراثت نہیں بلکہ ملک ونبوت کی وراثت ہے ۔ اگر مالی میراث مراد ہوتی تو اس میں صرف حضرت سلیمان علیہ السلام کا نام نہ آتا کیونکہ حضرت داؤد کی سو بیویاں تھیں ۔ انبیاء کی مال کی میراث نہیں بٹتی ۔ چنانچہ سید الانبیاء علیہ السلام کا ارشاد ہے ہم جماعت انبیاء ہیں ہمارے ورثے نہیں بٹا کرتے ہم جو کچھ چھوڑ جائیں صدقہ ہے حضرت سلیمان اللہ کی نعمتیں یاد کرتے فرماتے ہیں یہ پورا ملک اور یہ زبردست طاقت کہ انسان جن پرند سب تابع فرمان ہیں پرندوں کی زبان بھی سمجھ لیتے ہیں یہ خاص اللہ کا فضل وکرم ہے ۔ جو کسی انسان پر نہیں ہوا ۔ بعض جاہلوں نے کہا ہے کہ اس وقت پرند بھی انسانی زبان بولتے تھے ۔ یہ محض ان کی بےعلمی ہے بھلا سمجھو تو سہی اگر واقعی یہی بات ہوتی تو پھر اس میں حضرت سلیمان کی خصوصیت ہی کیا تھی جسے آپ اس فخر سے بیان فرماتے کہ ہمیں پرندوں کی زبان سکھا دی گئی پھر تو ہر شخص پرند کی بولی سمجھتا اور حضرت سلیمان کی خصوصیت جاتی رہتی ۔ یہ محض غلط ہے پرند اور حیوانات ہمیشہ سے ہی ایسے ہی رہے ان کی بولیاں بھی ایسی ہی رہیں ۔ یہ خاص اللہ کا فضل تھا کہ حضرت سلیمان ہر چرند پرند کی زبان سمجھتے تھے ۔ ساتھ ہی یہ نعمت بھی حاصل ہوئی تھی ۔ کہ ایک بادشاہت میں جن جن چیزوں کی ضروت ہوتی ہے سب حضرت سلیمان علیہ السلام کو قدرت نے مہیا کردی تھیں ۔ یہ تھا اللہ کا کھلا احسان آپ پر ۔ مسند امام احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں حضرت داؤد علیہ السلام بہت ہی غیرت والے تھے جب آپ گھر سے باہر جاتے تو دروازے بند کر جاتے پھر کسی کو اندر جانے کی اجازت نہ تھی ایک مرتبہ آپ اسی طرح باہر تشریف لے گئے ۔ تھوڑی دیر بعد ایک بیوی صاحبہ کی نظر اٹھی تو دیکھتی ہیں کہ گھر کے بیچوں بیچ ایک صاحب کھڑے ہیں حیران ہوگئیں اور دوسروں کو دکھایا ۔ آپس میں سب کہنے لگیں یہ کہاں سے آگئے؟ دروازے بند ہیں یہ کہاں سے آگئے ؟ اس نے جواب دیا وہ جسے کوئی روک اور دروازہ روک نہ سکے وہ کسی بڑے سے بڑے کی مطلق پرواہ نہ کرے ۔ حضرت داؤد علیہ السلام سمجھ گئے اور فرمانے لگے مرحبا مرحبا آپ ملک الموت ہیں اسی وقت ملک الموت نے آپ کی روح قبض کی ۔ سورج نکل آیا اور آپ پر دھوپ آگئی تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے پرندوں کو حکم دیا کہ وہ حضرت داؤد پر سایہ کریں انہوں نے اپنے پر کھول کر ایسی گہری چھاؤں کردی کہ زمین پر اندھیرا سا چھا گیا پھر حکم دیا کہ ایک ایک کرکے اپنے سب پروں کو سمیٹ لو ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرندوں نے پھر پر کیسے سمیٹے؟ آپ نے فرمایا اپنا ہاتھ سمیٹ کر بتلایا کہ اس طرح ۔ اس پر اس دن سرخ رنگ گدھ غالب آگئے ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کا لشکر جمع ہوا جس میں انسان جن پرند سب تھے ۔ آپ سے قریب انسان تھے پھر جن تھے پرند آپ کے سروں پر رہتے تھے ۔ گرمیوں میں سایہ کرلیتے تھے ۔ سب اپنے اپنے مرتبے پر قائم تھے ۔ جس کی جو جگہ مقررر تھی وہ وہیں رہتا ۔ جب ان لشکروں کو لے کر حضرت سلیمان علیہ السلام چلے ۔ ایک جنگل پر گذر ہوا جہاں چیونٹیوں کا لشکر تھا ۔ لشکر سلیمان کو دیکھ کر ایک چیونٹی نے دوسری چیونٹیوں سے کہاکہ جاؤ اپنے اپنے سوراخوں میں چلی جاؤ کہیں ایسا نہ ہو کہ لشکر سلیمان چلتا ہوا تمہیں روند ڈالے اور انہیں علم بھی نہ ہو ۔ حضرت حسن فرماتے ہیں اس چیونٹی کا نام حرمس تھا یہ بنو شعبان کے قبیلے سے تھی ۔ تھی بھی لنگڑی بقدر بھیڑیئے کے اسے خوف ہوا کہیں سب روندی جائیں گی اور پس جائیگی یہ سن کر حضرت سلیمان علیہ السلام کو تبسم بلکہ ہنسی آگئی اور اسی وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے اللہ مجھے اپنی ان نعمتوں کا شکریہ ادا کرنا الہام کر جو تونے مجھ پر انعام کی ہیں مثلا پرندوں اور حیوانوں کی زبان سکھا دینا وغیرہ ۔ نیز جو نعمتیں تونے میرے والدین پر انعام کی ہیں کہ وہ مسلمان مومن ہوئے وغیرہ ۔ اور مجھے نیک عمل کرنے کی توفیق دے جن سے تو خوش ہوا اور جب میری موت آجائے تو مجھے اپنے نیک بندوں اور بلند رفقاء میں ملادے جو تیے دوست ہیں ۔ مفسین کا قول ہے کہ یہ وادی شام میں تھی ۔ بعض اور جگہ بتاتے ہیں ۔ یہ جیونٹی مثل مکھوں کے پردار تھی ۔ اور بھی اقوال ہیں نوف بکالی کہتے ہیں یہ بھیڑئیے کے برابر تھی ۔ ممکن ہے اصل میں لفظ ذباب ہو یعنی مکھی کے برابر اور کاتب کی غلطی وہ ذیاب لکھ دیا گیا ہو یعنی بھیڑیا ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام چونکہ جانوروں کی بولیاں سمجھتے تھے اس کی بات کو بھی سمجھ گئے اور بے اختیار ہنسی آگئی ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت سلیمان علیہ السلام بن داؤد علیہ السلام استسقاء کے لئے نکلے تو دیکھا کہ ایک چیونٹی الٹی لیٹی ہوئی اپنے پاؤں آسمان کی طرف اٹھائے ہوئے دعا کر رہی ہے کہ اے اللہ ہم بھی تیری مخلوق ہیں پانی برسنے کی محتاجی ہمیں بھی ہے ۔ اگر پانی نہ برسا تو ہم ہلاک ہوجائیں گے یہ دعا اس چیونٹی کی سن کر آپ نے لوگوں میں اعلان کیا لوٹ چلو کسی اور ہی کی دعا سے تم پانی پلائے گئے ۔ حضور فرماتے ہیں نبیوں میں سے کسی نبی کو ایک چیونٹی نے کاٹ لیا انہوں نے چیونٹیوں کے سوراخ میں آگ لگانے کا حکم دے دیا اسی وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آئی کہ اے پیغمبر محض ایک چونٹی کے کاٹنے پر تو نے ایک گروہ کے گروہ کو جو ہماری تسبیح خواں تھا ۔ ہلاک کردیا ۔ تجھے بدلہ لینا تھا تو اسی سے لیتا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

151سورت کے شروع میں فرمایا گیا تھا کہ یہ قرآن اللہ کی طرف سے سکھلایا جاتا ہے اس کی دلیل کے طور پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا مختصرا قصہ بیان فرمایا اور اب دوسری دلیل حضرت داؤد (علیہ السلام) و سلیمان (علیہ السلام) کا یہ قصہ ہے انبیا (علیہم السلام) کے یہ واقعات اس بات کی دلیل ہیں کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے سچے رسول ہیں علم سے مراد نبوت کے علم کے علاوہ وہ علم ہے جن سے حضرت داؤد (علیہ السلام) اور سلیمان (علیہ السلام) کو بطور خاص نوازا گیا تھا جیسے حضرت داؤد (علیہ السلام) کو لوہے کی صنعت کا علم اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو جانوروں کی بولیوں کا علم عطا کیا گیا تھا ان دونوں باپ بیٹوں کو اور بھی بہت کچھ عطا کیا گیا تھا لیکن یہاں صرف علم کا ذکر کیا گیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ علم اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٤] حضرت داؤد (علیہ السلام) کے چھ اور بھائی تھے آپ سب سے چھوٹے تھے۔ ریوڑ چڑایا کرتے تھے۔ پست قامت اور مضبوط جسم کے مالک تھے۔ تیر اندازی اور نشانہ بازی میں خوب ماہر تھے اور یہ آپ کی پیشہ ورانہ ضرورت تھی۔ جالوت سے لڑائی کے وقت یہ طالوت کے لشکر میں محض ایک سپاہی تھے۔ نشانہ بازی میں مہارت کی بنا پر آپ نے تلافن میں ایک پتھر کا نشانہ بنا کر جالوت کو موت کے گھاٹ اتارا تھا۔ بعد طالوت نے اپنی بیٹی کا ان سے نکاح کردیا۔ اسی طرح طالوت کے بعد بادشاہی بھی ان کی طرف منتقل ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے نبوت سے بھی سرفراز فرمایا اور یہ تفصیل سورة بقرہ کی آیت نمبر ٢٥١ کے تحت پہلے گزر چکی ہے۔ پھر ان کی اولاد انیس بیٹے تھے۔ ان میں سے حضرت سلیمان ہی سب سے چھوٹے تھے اللہ تعالیٰ نے نبوت اور بادشاہی کے لئے انھیں ہی منتخب فرمایا تھا۔- [١٥] علم سے مراد علم شریعت بھی ہوسکتا ہے۔ حکمرانی اور جہاں بانی کا علم بھی۔ لوگوں کے مقدمات کا فیصلہ کرنے کا علم بھی اور یہ علم بھی اگر اللہ تعالیٰ اس شخص کو اپنے مزید انعامات سے نوازے۔ مندرجہ بالا مفاہیم میں سے اس مقام پر چوتھا مفہوم ہی زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا دَاوٗدَ وَسُلَيْمٰنَ عِلْمًا : موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے قصّے میں ان لوگوں کا نمونہ ملتا ہے جنھوں نے جانتے بوجھتے ہوئے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا انکار کیا، جیسے ابو لہب اور ابوجہل وغیرہ اور سلیمان (علیہ السلام) اور ملکہ سبا کے قصّے میں ان لوگوں کا نمونہ ہے جو حق واضح ہونے پر ایمان لے آئے اور فرعون کے طرز عمل کے برعکس ان کی سلطنت ان کے لیے حق کے اعتراف میں رکاوٹ نہیں بنی۔ یہی حال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے والوں کا تھا۔ یمن کا بادشاہ نجاشی ہو یا سرداران قریش میں سے ایمان لانے والے ہوں، یا مدینہ کے اوس و خزرج کے سردار۔ - ” عِلْماً “ کی تنوین تنکیر کے لیے بھی ہوسکتی ہے، جس سے ایک قسم کا علم مراد ہو، یعنی ہم نے ان دونوں کو ایک علم عطا کیا جو دوسروں کو عطا نہیں کیا گیا۔ مراد پرندوں کی بولی کا علم ہے۔ ابن کثیر فرماتے ہیں : ” ہمیں ان دو پیغمبروں کے سوا کسی کے متعلق معلوم نہیں کہ ان کو یہ علم دیا گیا ہو۔ “ اور یہ تنوین تعظیم کے لیے بھی ہوسکتی ہے، یعنی ہم نے ان دونوں کو عظیم الشان علم عطا کیا، جس میں نبوت و حکمت، قضا و سلطنت، پرندوں کی بولی اور سائنس کے علوم شامل تھے۔ جن کی بدولت ان کے زمانے میں ان کی سلطنت برّی، بحری اور فضائی اعتبار سے اپنے دور کی سب سے طاقت ور حکومت تھی، بلکہ سلیمان (علیہ السلام) کو تو وہ حکومت عطا کی کہ قیامت تک آنے والی کوئی سلطنت بھی ان کی سلطنت جیسی نہیں ہوسکتی، کیونکہ انھوں نے دعا کی تھی : (رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَهَبْ لِيْ مُلْكًا لَّا يَنْۢبَغِيْ لِاَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِيْ ) [ صٓ : ٣٥ ] ” اے میرے رب مجھے بخش دے اور مجھے ایسی بادشاہی عطا فرماجو میرے بعد کسی کے لائق نہ ہو۔ “- وَقَالَا الْحَمْدُ لِلّٰهِ ۔۔ : یہ بھی اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ علم کا حصہ تھا کہ ان تمام نعمتوں پر مغرور ہونے کے بجائے انھوں نے انھیں اللہ تعالیٰ کا انعام سمجھا اور اس کا شکر ادا کیا۔- الَّذِيْ فَضَّلَنَا عَلٰي كَثِيْرٍ ۔۔ : ” جس نے ہمیں اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت دی “ سب پر فضیلت کا دعویٰ اس لیے نہیں کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو اس دعویٰ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عتاب ہوا تھا اور داؤد اور سلیمان ( علیہ السلام) جو موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت پر چلتے تھے، یہ جانتے ہوئے تمام بندوں پر فضیلت کا دعویٰ نہیں کرسکتے تھے اور اس لیے کہ تمام اولاد آدم پر فضیلت تو صرف خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کو حاصل ہے، جیسا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( أَنَا سَیِّدُ وَلَدِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَ أَوَّلُ مَنْ یَنْشَقُّ عَنْہُ الْقَبْرُ وَ أَوَّلُ شَافِعٍ وَ أَوَّلُ مُشَفَّعٍ ) [ مسلم، الفضائل، باب تفضیل نبینا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) علی جمیع الخلائق۔۔ : ٢٢٧٨ ] ” میں قیامت کے دن اولاد آدم کا سردار ہوں اور پہلا شخص ہوں جس سے قبر پھٹے گی اور پہلا سفارش کرنے والا ہوں اور پہلا شخص ہوں جس کی سفارش قبول کی جائے گی۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور ہم نے داؤد (علیہ السلام) اور سلیمان (علیہ السلام) کو (شریعت اور حکمرانی کا) علم عطا فرمایا اور ان دونوں نے (ادائے شکر کے لئے) کہا کہ تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے سزاوار ہیں جس نے ہم کو اپنے بہت سے ایمان والے بندوں پر فضیلت دی اور داؤد (علیہ السلام کی وفات کے بعد ان) قائم مقام سلیمان (علیہ السلام) ہوئے (یعنی ان کو سلطنت وغیرہ ملی) اور انہوں نے (اظہار شکر کے لئے) کہا کہ اے لوگو : ہم کو پرندوں کی بولی (سمجھنے) کی تعلیم کی گئی ہے (جو دوسرے بادشاہوں کو حاصل نہیں) اور ہم کو (سامان سلطنت کے متعلق) ہر قسم کی (ضروری) چیزیں دی گئی ہیں ( جیسے فوج، لشکر مال اور آلات جنگ وغیرہ) واقعی یہ (اللہ تعالیٰ کا) کھلا ہوا فضل ہے اور سلیمان (علیہ السلام کے پاس سامان سلطنت بھی عجیب و غریب تھا چناچہ ان) کے لئے (جو) ان کا لشکر جمع کیا گیا (تھا ان میں) جن بھی (تھے) اور انسان بھی اور پرندے بھی (جو کسی بادشاہ کے تابع نہیں ہوتے) اور (پھر تھے بھی اس کثرت سے کہ) ان کو (چلنے کے قوت) روکا (جایا کرتا) تھا (تاکہ متفرق نہ ہوجاویں پیچھے والے بھی پہنچ جاویں یہ بات عادة نہایت کثرت میں ہوتی ہے کیونکہ تھوڑے مجمع میں تو اگلا آدمی خود ہی ایسے وقت رک جاتا ہے اور بڑے مجمع میں اگلوں کو پچھلوں کی خبر بھی نہیں ہوتی اس لئے اس کا انتظام کرنا پڑتا ہے۔ ایک بار اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ تشریف لئے جاتے تھے) یہاں تک کہ جب وہ چیونٹیوں کے ایک میدان میں آئے تو ایک چیونٹی نے (دوسری چیونٹیوں سے) کہا کہ اے چیونٹیو، اپنے اپنے سوراخوں میں جا گھسو، کہیں تم کو سلیمان اور ان کا لشکر بیخبر ی میں کچل نہ ڈالے سو سلیمان (علیہ السلام نے اس کی بات سنی اور) اس کی بات سے (متعجب ہو کر کہ اس چھوٹے وجود پر یہ ہوشیاری اور احتیاط) مسکراتے ہوئے ہنس پڑے اور (یہ دیکھ کر کہ میں اس کی بولی سمجھ گیا جو کہ معجزہ ہونے کی وجہ سے ایک نعمت عظیمہ ہے اور نعمتیں بھی یاد آگئیں اور) کہنے لگے کہ اے میرے رب مجھ کو اس پر ہمیشگی دیجئے کہ میں آپ کی ان نعمتوں کا شکر کیا کروں جو آپ نے مجھ کو اور میرے ماں باپ کو عطا فرمائی ہیں (یعنی ایمان اور علم سب کو اور نبوت خود کو اور اپنے والد داؤد (علیہ السلام) کو) اور (اس پر بھی ہمیشگی دیجئے کہ) میں نیک کام کیا کروں جس سے آپ خوش ہوں (یعنی عمل مقبول ہو کیونکہ اگر حقیقت میں عمل نیک ہو اور آداب و شرائط کی کمی کی وجہ سے مقبول نہ ہو وہ مقصود نہیں ہے) اور مجھ کو اپنی رحمت (خاصہ) سے اپنے (اعلی درجہ کے) نیک بندوں (انبیاء) میں داخل رکھئے (یعنی قرب کو بعد میں تبدیل نہ کیجئے۔ )- معارف و مسائل - وَلَقَدْ اٰتَيْنَا دَاوٗدَ وَسُلَيْمٰنَ عِلْمًا، ظاہر ہے کہ اس سے مراد علوم انبیاء ہیں جو نبوت و رسالت سے متعلق ہوتے ہیں۔ اس کے عموم میں دوسرے علوم و فنون بھی شامل ہوں تو بعید نہیں جیسے حضرت داؤد (علیہ السلام) کو زرہ سازی کی صنعت سکھا دی گئی تھی۔ حضرت داؤد اور سلیمان (علیہما السلام) زمرہ انبیاء میں ایک خاص امتیاز یہ رکھتے ہیں کہ ان کو نبوت و رسالت کے ساتھ سلطنت بھی دی گئی تھی اور سلطنت بھی ایسی بےنظیر کہ صرف انسانوں پر نہیں بلکہ جنات اور جانوروں پر بھی ان کی حکمرانی تھی ان سب عظیم الشان نعمتوں سے پہلے حق تعالیٰ کی نعمت علم کا ذکر فرمانے سے اس طرف اشارہ ہوگیا کہ نعمت علم تمام دوسری نعمتوں سے فائق اور بالاتر ہے۔ (قرطبی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا دَاوٗدَ وَسُلَيْمٰنَ عِلْمًا۝ ٠ۚ وَقَالَا الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِيْ فَضَّلَنَا عَلٰي كَثِيْرٍ مِّنْ عِبَادِہِ الْمُؤْمِنِيْنَ۝ ١٥- داود - داود اسم أعجميّ.- ( د و د ) داؤد ) (علیہ السلام) یہ عجمی نام ہے اور عجمہ وعلمیت کی بنا پر غیر منصرف ہے )- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - حمد - الحَمْدُ لله تعالی: الثناء عليه بالفضیلة، وهو أخصّ من المدح وأعمّ من الشکر، فإنّ المدح يقال فيما يكون من الإنسان باختیاره، ومما يقال منه وفيه بالتسخیر، فقد يمدح الإنسان بطول قامته وصباحة وجهه، كما يمدح ببذل ماله وسخائه وعلمه، والحمد يكون في الثاني دون الأول، والشّكر لا يقال إلا في مقابلة نعمة، فكلّ شکر حمد، ولیس کل حمد شکرا، وکل حمد مدح ولیس کل مدح حمدا، ويقال : فلان محمود :- إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد، وحُمَادَاكَ أن تفعل کذا «3» ، أي : غایتک المحمودة، وقوله عزّ وجل : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] ، فأحمد إشارة إلى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم باسمه وفعله، تنبيها أنه كما وجد اسمه أحمد يوجد وهو محمود في أخلاقه وأحواله، وخصّ لفظة أحمد فيما بشّر به عيسى صلّى اللہ عليه وسلم تنبيها أنه أحمد منه ومن الذین قبله، وقوله تعالی: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ- [ الفتح 29] ، فمحمد هاهنا وإن کان من وجه اسما له علما۔ ففيه إشارة إلى وصفه بذلک وتخصیصه بمعناه كما مضی ذلک في قوله تعالی: إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] ، أنه علی معنی الحیاة كما بيّن في بابه «4» إن شاء اللہ .- ( ح م د ) الحمدللہ - ( تعالیٰ ) کے معنی اللہ تعالے کی فضیلت کے ساتھ اس کی ثنا بیان کرنے کے ہیں ۔ یہ مدح سے خاص اور شکر سے عام ہے کیونکہ مدح ان افعال پر بھی ہوتی ہے جو انسان سے اختیاری طور پر سرزد ہوتے ہیں اور ان اوصاف پر بھی جو پیدا کشی طور پر اس میں پائے جاتے ہیں چناچہ جس طرح خرچ کرنے اور علم وسخا پر انسان کی مدح ہوتی ہے اس طرح اسکی درازی قدو قامت اور چہرہ کی خوبصورتی پر بھی تعریف کی جاتی ہے ۔ لیکن حمد صرف افعال اختیار یہ پر ہوتی ہے ۔ نہ کہ اوصاف اضطرار ہپ پر اور شکر تو صرف کسی کے احسان کی وجہ سے اس کی تعریف کو کہتے ہیں ۔ لہذا ہر شکر حمد ہے ۔ مگر ہر شکر نہیں ہے اور ہر حمد مدح ہے مگر ہر مدح حمد نہیں ہے ۔ اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی حماد اک ان تفعل کذا یعنی ایسا کرنے میں تمہارا انجام بخیر ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا ان کی بشارت سناتاہوں ۔ میں لفظ احمد سے آنحضرت کی ذات کی طرف اشارہ ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ جس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام احمد ہوگا اسی طرح آپ اپنے اخلاق واطوار کے اعتبار سے بھی محمود ہوں گے اور عیٰسی (علیہ السلام) کا اپنی بشارت میں لفظ احمد ( صیغہ تفضیل ) بولنے سے اس بات پر تنبیہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کے بیشتر وجملہ انبیاء سے افضل ہیں اور آیت کریمہ : مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح 29] محمد خدا کے پیغمبر ہیں ۔ میں لفظ محمد گومن وجہ آنحضرت کا نام ہے لیکن اس میں آنجناب کے اوصاف حمیدہ کی طرف بھی اشنار پایا جاتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] میں بیان ہوچکا ہے کہ ان کا یہ نام معنی حیات پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اس کے مقام پرند کو ہے ۔- فضل - الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر - فعلی ثلاثة أضرب :- فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات .- وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله :- وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا - وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] ، يعني : المال وما يکتسب،- ( ف ض ل ) الفضل - کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70]- اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔- كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔- عبد - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٥) اور ہم نے داؤد (علیہ السلام) اور سلیمان (علیہ السلام) کو شریعت اور حکومت کا علم اور فہم عطا فرمائی اور ان دونوں نے شکر ادا کرنے کے لیے فرمایا کہ تمام تعریفوں کا اللہ تعالیٰ ہی حق دار ہے جس نے ہمیں علم اور فہم عطا فرمائی اور ان دونوں نے شکر ادا کرنے کے لیے فرمایا کہ تمام تعریفوں کا اللہ تعالیٰ ہی حق دار ہے جس نے ہمیں علم اور نبوت کے ذریعے اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت دی اور داؤد (علیہ السلام) کے نو لڑکے تھے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(وَقَالَا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ فَضَّلَنَا عَلٰی کَثِیْرٍ مِّنْ عِبَادِہِ الْمُؤْمِنِیْنَ ) ” - وہ اللہ کا شکر ادا کرتے تھے کہ اللہ نے انہیں مؤمنین کے درمیان ایک خاص مرتبہ عطا کیا تھا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النمل حاشیہ نمبر :18 یعنی حقیقت کا علم ۔ اس بات کا علم کہ درحقیقت ان کے پاس اپنا کچھ بھی نہیں ہے جو کچھ ہے اللہ کا عطیہ ہے اور اس پر تصرف کرنے کے جو اختیارات بھی ان کو بخشے گئے ہیں انہیں اللہ ہی کی مرضی کے مطابق استعمال کیا جانا چاہیے ، اور اس اختیار کے صحیح و غلط استعمال پر انہیں مالک حقیقی کے حضور جواب دہی کرنی ہے ، یہ علم اس جہالت کی ضد ہے جس میں فرعون مبتلا تھا ، اس جہالت نے جو سیرت تعمیر کی تھی اس کا نمونہ وپر مذکور ہوا ، اب بتایا جاتا ہے کہ یہ علم کیسی سیرت کا نمونہ تیار کرتاہے ، بادشاہی ، دولت ، حشمت ، طاقت ، دونوں طرف یکساں ہے ، فرعون کو بھی یہ ملی تھی اور داؤد و سلیمان علیہما السلام کو بھی ۔ لیکن جہالت اور علم کے فرق نے ان کے درمیان کتنا عظیم الشان فرق پیدا کردیا ۔ سورة النمل حاشیہ نمبر :19 یعنی دوسرے مومن بندے بھی ایسے موجود تھے جن کو خلافت عطا کی جاسکتی تھی ، لیکن یہ ہماری کو٤ی ذاتی خوبی نہیں بلکہ محض اللہ کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں اس مملکت کی فرمانروائی کے لیے منتخب فرمایا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani