Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

161اس سے مراد نبوت اور بادشاہت کی وراثت ہے، جس کے وارث صرف سلیمان (علیہ السلام) قرار پائے۔ ورنہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے اور بھی بیٹے تھے جو اس کی وراثت سے محروم رہے۔ ویسے بھی انبیاء کی وراثت علم میں ہی ہوتی ہے، جو مال اسباب وہ چھوڑ جاتے ہیں، وہ صدقہ ہوتا ہے، جیسا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (البخاری کتاب الفرائض و مسلم، کتاب الجہاد) 162بولیاں تو تمام جانور کی سکھلائی گئی تھیں لیکن پرندوں کا ذکر بطور خاص اس لئے کیا گیا ہے کہ پرندے سائے کے لئے ہر وقت ساتھ رہتے تھے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ صرف پرندوں کی بولیاں سکھلائی گئی تھیں اور چونٹیاں بھی منجملہ پرندوں کے ہیں۔ (فتح القدیر) 163جس کی ان کو ضرورت تھی، جیسے علم، نبوت، حکمت، مال، جن و انس اور طیور و حیوانات کی تسخیر وغیرہ۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٦] یہاں وراثت سے مراد حضرت داؤد کے ذاتی مال و دولت کی وراثت نہیں بلکہ نبوت اور جہاں بانی کی وراثت مراد ہے۔- [١٧] اللہ تعالیٰ کی حیران کن قدرتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ تمام انسان ایک ہی جیسی شکل رکھتے ہیں۔ ہر شخص کی ایک ناک، دو کان، دو آنکھیں، دوبازو اور دو پاؤں ہوتے ہیں لیکن اس قدر یکسانیت کے باوجود ہر ایک کی شکل دوسرے سے مختلف ہوتی ہے پھر ایک شخص کے اگر چھ لڑکے ہیں تو دوسرے لوگ یہ توبتلا سکتے ہیں ان سب میں یک گونہ مشابہت پائی جاتی ہے مگر ان میں نمبر صرف والدین اور قریبی رشتہ دار ہی یا دوست احباب ہی کرسکتے ہیں۔ پھر یہ اختلاف صرف شکل و صورت تک محدود نہیں۔ ہر انسان کی بولنے کی آواز کھانسنے کی آواز حتیٰ کہ پاؤں کی چاپ اور۔۔ مسائل میں بھی اختلاف ہوتا ہے۔ قریبی لوگ کسی کے بولنے، کھانسنے یا چال ڈھال سے ہی یہ معلوم کرلیتے ہیں کہ یہ فلاں شخص ہے۔ بالکل ایسی ہی سلسلہ جانوروں اور پرندوں میں بھی ملتا ہے۔ جانوروں اور پرندوں کی بھی ایک بولی ہے۔ جسے انسان سمجھ نہیں سمجھتے مگر وہ آپس میں خوب سمجھتے ہیں۔ مثلاً ایک پرندہ جب اپنے جوڑہ کو بلاتا یا دانہ دینے کے لئے اپنے بچوں کو بلاتا یا انھیں کسی خطرہ سے آگاہ کرتا ہے تو ان تمام صورتوں میں اس کی بولی اور لب و لہجہ ایک جیسا نہیں ہوتا۔ اور اس فرق کو اس کے مخاطب پوری طرح سمجھتے اور اس کے مطابق عمل کرتے ہیں اور جب یہ پرندے مل کر عموماً صبح کے وقت چہچہاتے ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کر رہے ہوتے ہیں۔ اگرچہ ہم ان مختلف حالات میں ان کی بولی میں تمیز نہیں کرسکتے، لیکن وہ آپس میں خوب سمجھتے ہیں۔ اس کی مثال یوں سمجھئے جیسے ایک ٹیلیگراف ماسٹر جب تار کے ذریعہ کوئی پیغام بھیجتا ہے تو آپ خواہ گھنٹوں اس کے پاس بیٹھے رہیں۔ کھٹ کھٹ اور ٹک ٹک کی بےمعنی آوازوں کے سوائے آپ کے کچھ پلے نہیں پڑے گا۔ لیکن اس فن کو جاننے والا شخص فوراً بتلادے گا کہ یہ پیغام فلاں جگہ پر فلاں آدمی کے نام ہے اور اس پیغام کا مضمون یہ ہے۔- پھر یہ بات صرف انسانوں، جانوروں اور پرندوں تک ہی محدود نہیں بلکہ حشرات الارض، نباتات اور جمادات تک میں احساسات کا یہ سلسلہ چلتا ہے اور یہ سب اشیاء اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہیں مگر اسے ہم سمجھ نہیں سکتے (١٧: ٤٤) اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ پرندوں کی بولی بول سکتے تھے بلکہ یہ ہے کہ پرندے وغیرہ آپس میں ایک دوسرے سے جو باتیں کرتے ہیں انھیں آپ سمجھ جاتے تھے۔ پھر آپ جو کچھ کہنا چاہتے پرندے بھی اسے سمجھ جاتے تھے۔ اور دوسری نعمت یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری ضرورت کی تمام چیزیں ہمیں مہیا فرما دی ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَوَرِثَ سُلَيْمٰنُ دَاوٗدَ ۔۔ : اس سے مراد مال و جائداد کی وراثت نہیں بلکہ نبوت و سلطنت اور علم و عمل کی وراثت ہے۔ اگر مال و جائداد کی وراثت ہوتی تو وارث کے طور پر صرف سلیمان (علیہ السلام) کا ذکر نہ ہوتا بلکہ اس میں داؤد (علیہ السلام) کے دوسرے بیٹے بھی شریک ہوتے۔ علاوہ ازیں اگر ان کے ذاتی اموال کی وراثت ہی مراد ہو تو سلیمان (علیہ السلام) کا ” يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ “ کہہ کر سب لوگوں کو بتانا بےمعنی ہوجاتا ہے۔ انبیائے کرام (علیہ السلام) کے اموال و جائداد کا کوئی وارث نہیں ہوتا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَا نُوْرَثُ مَا تَرَکْنَا صَدَقَۃٌ ) [ بخاري، الفرائض، باب قول النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لا نورث۔۔ : ٦٧٢٧، عن عائشۃ ] ” ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا، ہم جو چھوڑ جائیں صدقہ ہے۔ “ اور ابوالدرداء (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (إِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَۃُ الْأَنْبِیَاءِ وَ إِنَّ الْأَنْبِیَاءَ لَمْ یُوَرِّثُوْا دِیْنَارًا وَلَا دِرْھَمًا، وَرَّثُوا الْعِلْمَ فَمَنْ أَخَذَہُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ ) [ أبوداوٗد، العلم، باب في فضل العلم : ٣٦٤١، قال الألباني صحیح ] ” یقیناً علماء ہی انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء نے ورثے میں دینار و درہم نہیں چھوڑے، انھوں نے صرف علم کا ورثہ چھوڑا ہے، تو جو اسے حاصل کرلے اس نے بہت بڑا حصہ حاصل کرلیا۔ “ مزید دیکھیے سورة مریم (٥، ٦) ۔- يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّيْرِ : یعنی ہمیں پرندوں کی بولی سمجھنا سکھایا گیا ہے، بلکہ بولنا بھی، جیسا کہ سلیمان (علیہ السلام) کا ہُد ہُد سے مکالمہ آگے آ رہا ہے، پھر انھیں صرف پرندوں ہی نہیں بلکہ تمام حیوانات کی بولی سکھائی گئی تھی، جیسا کہ چیونٹی کی بات سننے کا ذکر آگے آ رہا ہے۔ پرندوں کا ذکر اختصار کے لیے ہے، کیونکہ پرندے تمام جانداروں سے زیادہ انسان سے دور رہنے اور بدکنے والے ہیں۔ جب داؤد اور سلیمان (علیہ السلام) ان کی بولی جانتے تھے تو دوسرے جانوروں کی بولی کا علم تو انھیں بالاولیٰ تھا، جو انسان کے قریب رہتے ہیں۔ تمام جانوروں میں سے پرندوں کا ذکر خاص طور پر اس لیے بھی ہے کہ وہ ان کی فوج کا باقاعدہ حصہ تھے۔ پرندوں کی بولی کے علم سے مراد اندازوں پر مبنی علم نہیں، جو علم الحیوانات کے ماہرین ایجاد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، بلکہ مراد واضح طور پر ان کی باتوں کو سمجھنا ہے، جو ان کے لیے اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ خاص معجزہ تھا۔ - يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّيْرِ وَاُوْتِيْنَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ :” كُلِّ شَيْءٍ “ سے مراد ہر وہ چیز ہے جس کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔ اس میں علم و نبوت، مال و حکمت حتیٰ کہ جنوں، انسانوں، پرندوں، حیوانات اور ہوا وغیرہ کی تسخیر سبھی چیزیں شامل ہیں۔ (شوکانی) یہاں ” كُلِّ “ کا لفظ کثیر کے معنی میں ہے، جیسا کہ ہُد ہُد نے ملکہ سبا کے متعلق کہا تھا : (وَاُوْتِیَت مِنْ كُلِّ شَيْءٍ ) [ النمل : ٢٣ ]” اور اسے ہر چیز میں سے حصہ دیا گیا ہے۔ “ حالانکہ صاف ظاہر ہے کہ اسے ہر چیز میں سے حصہ تو نہیں ملا تھا، اور جیسا کہ قوم عاد پر آنے والی آندھی کے متعلق فرمایا : ( تُدَمِّرُ كُلَّ شَيْءٍۢ بِاَمْرِ رَبِّهَا ) [ الأحقاف : ٢٥ ] ” وہ (آندھی) ہر چیز کو اپنے رب کے حکم سے برباد کر دے گی۔ “- اِنَّ ھٰذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِيْنُ : فضل کا معنی برتری ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ نعمتیں عطا کرنے کے لیے بیشمار انسانوں میں سے ہمیں منتخب فرمایا، یقیناً یہ واضح برتری ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائی ہے۔ یہ بتانے سے سلیمان (علیہ السلام) کا مقصد فخر کا نہیں بلکہ شکر کا اظہار تھا۔ اس کے علاوہ لوگوں کو یہ بات بتانا ان کی ذمہ داری تھی، تاکہ لوگ ان کی قدر پہچانیں اور ان کی اطاعت کریں، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( أَنَا سَیِّدُ وَلَدِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَا فَخْرَ ) [ ترمذي، تفسیر القرآن، باب ومن سورة بني إسرائیل : ٣١٤٨، قال الألباني صحیح ] ” میں قیامت کے دن اولاد آدم کا سردار ہوں اور کوئی فخر نہیں۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

انبیاء میں مال کی وراثت نہیں ہوتی :- وَوَرِثَ سُلَيْمٰنُ دَاوٗدَ ، وَرِثَ سے وراثت علم اور نبوت مراد ہے وراثت مال نہیں کیونکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (نحن معاشر الانبیآء لا نرث ولا نورث) یعنی انبیاء نہ وارث ہوتے ہیں اور نہ مورث، حضرت ابوالدرداء سے ترمذی اور ابو داؤد میں روایت ہے۔ العلماء ورثۃ الانبیاء و ان الانبیاء لم یورثوا دینارا ولا درھما ولکن ورثوا العلم فمن اخذہ اخذ بحظ وافر۔ یعنی علماء انبیاء کے وارث ہیں، لیکن انبیاء میں وراثت علم اور نبوت کی ہوتی ہے مال کی نہیں ہوتی۔ حضرت ابوعبداللہ (جعفر صادق) کی روایت اس مسئلہ کو اور زیادہ واضح کردیتی ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) حضرت داؤد (علیہ السلام) کے وارث ہوئے اور سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے وارث ہوئے (روح عن الکلینی) عقلی طور پر بھی یہاں وراثت مال مراد نہیں ہو سکتی کیونکہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی وفات کے وقت آپ کی اولاد میں انیس بیٹوں کا ذکر آتا ہے اگر وراثت مال مراد ہو تو یہ بیٹے سب کے سب وارث ٹھہریں گے پھر وراثت میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی تخصیص کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی۔ اس سے ثابت ہوا کہ وراثت وہ مراد ہے جس میں بھائی شریک نہ تھے بلکہ صرف حضرت سلیمان (علیہ السلام) وارث بنے اور وہ صرف علم اور نبوت کی وراثت ہی ہو سکتی ہے اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کا ملک و سلطنت بھی حضرت سلیمان کو عطا فرما دیا اور اس میں مزید اضافہ اس کا کردیا کہ آپ کی حکمت جنات اور دحوش و طیور تک عام کردی، ہوا کو آپ کے لئے مسخر کردیا۔ ان دلائل کے بعد طبرسی کی وہ روایت غلط ہوجائے گی جس میں انہوں نے بعض ائمہ اہل بیت کے حوالے سے مال کی وراثت مراد لی ہے۔ (روح) - حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی وفات اور خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت کے درمیان ایک ہزار سات سو سال کا فاصلہ ہے اور یہود یہ فاصلہ ایک ہزار چار سو سال کا بتلاتے ہیں۔ سلیمان (علیہ السلام) کی عمر پچاس سال سے کچھ اوپر ہوئی ہے۔ (قرطبی)- اپنے لئے جمع کا صیغہ بولنا جائز ہے بشرطیکہ تکبراً نہ ہو :- عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّيْرِ وَاُوْتِيْنَا الخ، حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے باوجود خود اکیلے ہونے کے اپنے لئے جمع کا صیغہ شاہانہ محاورہ کے طور پر استعمال کیا ہے تاکہ رعایا پر رعب پڑے اور رعایا اطاعت خداوندی اور اطاعت سلیمان (علیہ السلام) میں سستی نہ کریں۔ اسی طرح امراء، حکام اور افسران کو اپنی رعایا کی موجودگی میں اپنے لئے جمع کا صیغہ استعمال کرنے میں مضائقہ نہیں جبکہ وہ سیاست اور اظہار نعمت کی غرض سے ہو تکبر و تعلی کے لئے نہ ہو۔ - پرندوں اور چوپاؤں میں بھی عقل و شعور ہے :- اس واقعہ سے ثابت ہوا کہ پرندے، چرندے اور تمام حیوانات میں بھی عقل و شعور کسی درجہ میں موجود ہے۔ البتہ ان کی عقول اس درجہ کی نہیں کہ ان کو احکام شرع کا مکلف بنایا جاتا اور انسان اور جنات کو عقل و شعور کا وہ کامل درجہ عطا ہوا ہے جس کی بناء پر وہ اللہ تعالیٰ کے مخاطب ہو سکیں اور ان پر عمل کرسکیں۔ امام شافعی نے فرمایا کہ کبوتر سب پرندوں میں زیادہ عقلمند ہے ابن عطیہ نے فرمایا کہ چیونٹی ذہین عقلمند جانور ہے اس کی قوت شامہ بڑی تیز ہے جو کوئی دانہ اس کے قبضہ میں آتا ہے اس کے دو ٹکڑے کردیتی ہے تاکہ اگے نہیں اور سردی کے زمانے کے لئے اپنی غذا کا ذخیرہ جمع کرتی ہے۔ (قرطبی)- فائدہ : آیت میں منطق الطیر یعنی پرندوں کی بولی کی تخصیص ہدہد کے واقعہ کی وجہ سے ہے جو پرندہ ہے ورنہ حضرت سلیمان کو پرندے چرندے اور تمام حشرات الارض کی بولیاں سکھائی گئی تھیں جیسا کہ اگلی آیت میں چیونٹی کی بولی سمجھنے کا ذکر موجود ہے۔ امام قرطبی نے اپنی تفسیر میں اس مقام پر مختلف پرندوں کی بولیاں اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا اس پر یہ فرمانا کہ یہ پرندہ یہ بات کہہ رہا ہے تفصیل سے نقل کیا ہے اور تقریباً ہر پرندہ کی بولی کوئی نصیحت کا جملہ ہے۔- وَاُوْتِيْنَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ ۔ لفظ کل اصل لغت کے اعتبار سے تمام افراد جنس کو عام ہوتا ہے مگر بسا اوقات عموم کلی مراد نہیں ہوتا بلکہ کسی خاص مقصد کی حد تک عموم مراد ہوتا ہے جیسا یہاں مراد ان اشیاء کا عموم ہے جن کی سلطنت و حکومت میں ضرورت ہوتی ہے ورنہ ظاہر ہے کہ ہوائی جہاز، موٹر، ریل وغیرہ ان کے پاس نہ تھے۔ رَبِّ اَوْزِعْنِيْٓ وزع سے مشتق ہے جس کے لفظی معنے روکنے کے ہیں۔ مطلب اس جگہ یہ ہے کہ مجھے اس کی توفیق دیدیجئے کہ میں شکر نعمت کو ہر وقت ساتھ رکھوں اس سے کسی وقت جدا نہ ہوں جس کا حاصل مداومت اور پابندی ہے۔ اس سے پہلی آیت میں فَهُمْ يُوْزَعُوْنَ اسی معنی میں آیا ہے کہ لشکر کو کثرت کی وجہ سے انتشار سے بچانے کے لئے روکا جاتا تھا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَوَرِثَ سُلَيْمٰنُ دَاوٗدَ وَقَالَ يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّيْرِ وَاُوْتِيْنَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ۝ ٠ۭ اِنَّ ھٰذَا لَہُوَالْفَضْلُ الْمُبِيْنُ۝ ١٦- ورث - الوِرَاثَةُ والإِرْثُ : انتقال قنية إليك عن غيرک من غير عقد، ولا ما يجري مجری العقد، وسمّي بذلک المنتقل عن الميّت فيقال للقنيةِ المَوْرُوثَةِ : مِيرَاثٌ وإِرْثٌ. وتُرَاثٌ أصله وُرَاثٌ ، فقلبت الواو ألفا وتاء، قال تعالی: وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر 19] وقال عليه الصلاة والسلام : «اثبتوا علی مشاعرکم فإنّكم علی إِرْثِ أبيكم» «2» أي :- أصله وبقيّته، قال الشاعر :- 461-- فينظر في صحف کالرّيا ... ط فيهنّ إِرْثٌ کتاب محيّ- «3» ويقال : وَرِثْتُ مالًا عن زيد، ووَرِثْتُ زيداً :- قال تعالی: وَوَرِثَ سُلَيْمانُ داوُدَ [ النمل 16] ، وَوَرِثَهُ أَبَواهُ [ النساء 11] ، وَعَلَى الْوارِثِ مِثْلُ ذلِكَ [ البقرة 233] ويقال : أَوْرَثَنِي الميّتُ كذا، وقال : وَإِنْ كانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلالَةً- [ النساء 12] وأَوْرَثَنِي اللهُ كذا، قال : وَأَوْرَثْناها بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 59] ، وَأَوْرَثْناها قَوْماً آخَرِينَ [ الدخان 28] ، وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ [ الأحزاب 27] ، وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ- الآية [ الأعراف 137] ، وقال : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّساءَ كَرْهاً- [ النساء 19] ويقال لكلّ من حصل له شيء من غير تعب : قد وَرِثَ كذا، ويقال لمن خُوِّلَ شيئا مهنّئا : أُورِثَ ، قال تعالی: وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوها[ الزخرف 72] ، أُولئِكَ هُمُ الْوارِثُونَ الَّذِينَ يَرِثُونَ [ المؤمنون 10- 11] وقوله : وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ- [ مریم 6] فإنه يعني وِرَاثَةَ النّبوّةِ والعلمِ ، والفضیلةِ دون المال، فالمال لا قدر له عند الأنبیاء حتی يتنافسوا فيه، بل قلّما يقتنون المال ويملکونه، ألا تری أنه قال عليه الصلاة- ( ور ث ) الوارثۃ - ولا رث کے معنی عقد شرعی یا جو عقد کے قائم مقام ہے اوکے بغیر کسی چیز کے ایک عقد کے قائم مقام ہے کے بغیر کسی چیز کے ایک شخص کی ملکیت سے نکل کر دسرے کی ملکیت میں چلے جانا کئے ہیں اسی سے میت کی جانب سے جو مال ورثاء کی طرف منتقل ہوتا ہے اسے اذث تراث اور کیراث کہا جاتا ہے اور تراث اصل میں وراث ہے واؤ مضموم کے شروع میں آنے کی وجہ سے اسے تا سے تبدیل کرلو اسے چناچہ قرآن میں سے ۔ وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر 19] اور حج کے موقعہ پر آنحضرت نے فرمایا : ۔ کہ اپنے مشاعر ( مواضع نسکہ ) پر ٹھہرے رہو تم اپنے باپ ( ابراہیم کے ورثہ پر ہو ۔ تو یہاں ارث کے معنی اصل اور بقیہ نشان کے ہیں ۔۔ شاعر نے کہا ہے ( 446 ) فینظر فی صحف کالریا فیھن ارث کتاب محی وہ صحیفوں میں تالت باندھنے والے کی طرح غور کرتا ہے جن میں کہ مٹی ہوئی کتابت کا بقیہ ہے ۔ اور محاورہ میں ورث مالا عن زید وو رثت زیدا ( میں زید کا وارث بنا دونوں طرح بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَوَرِثَ سُلَيْمانُ داوُدَ [ النمل 16] اور سلیمان داؤد کے قائم مقام ہوئے ۔ وَوَرِثَهُ أَبَواهُ [ النساء 11] اور صرف ماں باپ ہی اس کے وارث ہوں ۔- وَعَلَى الْوارِثِ مِثْلُ ذلِكَ [ البقرة 233] اور اسی طرح نان ونفقہ بچے کے وارث کے ذمہ ہے - يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّساءَ كَرْهاً [ النساء 19] مومنوں تم کو جائز نہیں ہے کہ زبر دستی عورتوں کے وارث بن جاؤ ۔ اور اوثنی المیت کذا کے معنی ہیں میت نے مجھے اتنے مال کا وارث بنایا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ كانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلالَةً [ النساء 12] اور اگر ایسے مرد یا عورت کی میراث ہو جس کے نہ باپ ہو نہ بیٹا ۔ اور اور ثنی اللہ کذا کے معنی کسی چیز کا وارث بنا دینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَأَوْرَثْناها بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 59] اور بنی اسرائیل کو کتاب کا وارث بنایا ۔ وَأَوْرَثْناها قَوْماً آخَرِينَ [ الدخان 28] اور ان کی زمین کا تم کو وارث بنایا : ۔ وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ [ الأحزاب 27] اور جو لوگ ( کمزور سمجھے جاتے تھے ان کو وارث کردیا ۔ وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الآية [ الأعراف 137] ہر وہ چیز جو بلا محنت ومشقت حاصل ہوجائے اس کے متعلق ورث کذا کہتے ہیں اور جب کسی کو خوشگوار چیز بطور دی جانے تو اورث کہا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔- وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوها[ الزخرف 72] اور یہ جنت جس کے تم مالک کردیئے گئے ہو - نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب،- قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - علم ( تعلیم)- اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] ، فمن التَّعْلِيمُ قوله : الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن 1- 2] ، عَلَّمَ بِالْقَلَمِ [ العلق 4] ، وَعُلِّمْتُمْ ما لَمْ تَعْلَمُوا[ الأنعام 91] ، عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ النمل 16] ، وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ البقرة 129] ، ونحو ذلك . وقوله : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31]- تعلیم - کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛ وَعُلِّمْتُمْ ما لَمْ تَعْلَمُوا[ الأنعام 91] اور تم کو وہ باتیں سکھائی گئیں جن کو نہ تم جانتے تھے عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ النمل 16] ہمیں خدا کی طرف ست جانوروں کی بولی سکھائی گئی ہے ۔ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ البقرة 129] اور خدا کی کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ۔ وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31] اور اس نے ادم کو سب چیزوں کے نام سکھائے ۔ میں آدم (علیہ السلام) کو اسماء کی تعلیم دینے کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کے اندر بولنے کی صلاحیت اور استعدادرکھ دی جس کے ذریعہ اس نے ہر چیز کے لئے ایک نام وضع کرلیا یعنی اس کے دل میں القا کردیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حیوانات کو ان کے کام سکھا دیئے ہیں جسے وہ سر انجام دیتے رہتے ہیں اور آواز دی ہے جسے وہ نکالتے رہتے ہیٰ - نطق - [ النُّطْقُ في التّعارُف : الأصواتُ المُقَطّعة التي يُظْهِرُها اللسّانُ وتَعِيهَا الآذَانُ ] . قال تعالی: ما لَكُمْ لا تَنْطِقُونَ [ الصافات 92] ولا يكاد يقال إلّا للإنسان، ولا يقال لغیره إلّا علی سبیل التَّبَع .- نحو : النَّاطِقُ والصَّامِتُ ، فيراد بالناطق ما له صوت، وبالصامت ما ليس له صوت، [ ولا يقال للحیوانات ناطق إلّا مقيَّداً ، وعلی طریق التشبيه کقول الشاعر :- 445-- عَجِبْتُ لَهَا أَنَّى يَكُونُ غِنَاؤُهَا ... فَصِيحاً وَلَمْ تَفْغَرْ لِمَنْطِقِهَا فَماً ]- «1» والمنطقيُّون يُسَمُّون القوَّةَ التي منها النّطقُ نُطْقاً ، وإِيَّاهَا عَنَوْا حيث حَدُّوا الإنسانَ ، فقالوا :- هُوَ الحيُّ الناطقُ المَائِتُ «2» ، فالنّطقُ لفظٌ مشترکٌ عندهم بين القوَّة الإنسانيَّة التي يكون بها الکلامُ ، وبین الکلامِ المُبْرَزِ بالصَّوْت، وقد يقال النَّاطِقُ لما يدلُّ علی شيء، وعلی هذا قيل لحكيم : ما الناطقُ الصامتُ ؟ فقال : الدَّلائلُ المُخْبِرَةُ والعِبَرُ الواعظةُ. وقوله تعالی: لَقَدْ عَلِمْتَ ما هؤُلاءِ يَنْطِقُونَ [ الأنبیاء 65] إشارة إلى أنّهم ليسوا من جِنْس النَّاطِقِينَ ذوي العقول، وقوله : قالُوا أَنْطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ [ فصلت 21] فقد قيل : أراد الاعتبارَ ، فمعلومٌ أنَّ الأشياءَ كلّها ليستْ تَنْطِقُ إلّا من حيثُ العِبْرَةُ ، وقوله : عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ النمل 16] فإنه سَمَّى أصواتَ الطَّيْر نُطْقاً اعتباراً بسلیمان الذي کان يَفْهَمُهُ ، فمن فَهِمَ من شيء معنًى فذلک الشیء بالإضافة إليه نَاطِقٌ وإن کان صامتاً ، وبالإضافة إلى من لا يَفْهَمُ عنه صامتٌ وإن کان ناطقاً. وقوله : هذا كِتابُنا يَنْطِقُ عَلَيْكُمْ بِالْحَقِ [ الجاثية 29] فإن الکتابَ ناطقٌ لکن نُطْقُهُ تُدْرِكُهُ العَيْنُ كما أنّ الکلام کتابٌ لکن يُدْرِكُهُ السَّمْعُ. وقوله : وَقالُوا لِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنا قالُوا أَنْطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ- [ فصلت 21] فقد قيل : إن ذلك يكونُ بالصَّوْت المسموعِ ، وقیل : يكونُ بالاعتبار، واللهُ أعلمُ بما يكون في النَّشْأَةِ الآخرةِ. وقیل :- حقیقةُ النُّطْقِ اللَّفْظُ الّذي هو كَالنِّطَاقِ للمعنی في ضَمِّهِ وحصْرِهِ. وَالمِنْطَقُ والمِنْطَقَةُ : ما يُشَدُّ به الوَسَطُ وقول الشاعر :- 446-- وَأَبْرَحُ مَا أَدَامَ اللَّهُ قَوْمِي ... بِحَمْدِ اللَّهِ مُنْتَطِقاً مُجِيداً- «1» فقد قيل : مُنْتَطِقاً : جَانِباً. أي : قَائِداً فَرَساً لم يَرْكَبْهُ ، فإن لم يكن في هذا المعنی غيرُ هذا البیت فإنه يحتمل أن يكون أراد بِالمُنْتَطِقِ الذي شَدَّ النِّطَاقَ ، کقوله : مَنْ يَطُلْ ذَيْلُ أَبِيهِ يَنْتَطِقْ بِهِ «2» ، وقیل : معنی المُنْتَطِقِ المُجِيدِ : هو الذي يقول قولا فَيُجِيدُ فيه .- ( ن ط ق )- عرف میں نطق ان اصات مقطعہ کو کیا جاتا ہے جو زبان سے نکلتی ہیں اور کان انہیں سنکر محفوظ کرلیتے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ ما لَكُمْ لا تَنْطِقُونَ [ الصافات 92] تمہیں کیا ہوا کہ تم بولتے نہیں ۔ یہ لفط بالذات صرف انسان کے متعلق بولا جاتا ہے دوسرے حیوانات کے لئے بالتبع استعمال ہوات ہے جیسے المال الناطق والصامت کا محاورہ ہے جس میں ناطق سے حیوان اور صامت سے سونا چاندی مراد ہے ان کے علاوہ دیگر حیوانات پر ناطق کا لفظ مقید یا بطور تشبیہ استعمال ہوتا ہے جسیا کہ شاعر نے کہا ہے ( 430 ) عجبت لھا انی یکون غناؤ ھا فصیحا ولم تفعلو لنطقھا فما مجھے تعجب ہو ا کہ وہ کتنا فصیح گانا گاتی ہے حالانکہ اس نے گویائی کے لئے منہ نہیں کھولا ۔ اہل منطق قوت گو یائی کو نطق کہتے ہیں جب وہ انسان کی تعریف کرتے ہوئے الحی الناطق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہتے ہیں ناطق سے ان کی یہی مراد ہونی ہے ۔ معلوم ہوا کہ نطق کا لفظ مشترک ہے جو قوت نطیقہ اور کلام ملفوظ دونوں پر بولا جاتا ہے کبھی ناطق کے معنی الدال علی الشئی کے بھی آتے ہیں اسی بنا پر ایک حکیم جب پوچھا گیا کہ الناطق الصامت کسے کہتے ہیں تو اس نے جواب دیا لادلائل المخبرۃ والعبر ولوا عظۃ اور آیت کریمہ : ۔ لَقَدْ عَلِمْتَ ما هؤُلاءِ يَنْطِقُونَ [ الأنبیاء 65] کہ تم جانتے ہو یہ بولتے نہیں ۔ میں اس بات کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ کہ وہ ذوی النطق اور ذوی العقول کی جنس سے نہیں ہیں اور آیت کریمہ : ۔ قالُوا أَنْطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ [ فصلت 21] جس خدا نے سب چیزوں کو نطق بخشا اس نے ہم کو بھی گویائی دی ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ نطق اعتبار ی مراد ہے کیونکہ یہ بات بالکل بد یہی ہے کہ تمام چیزیں حقیقتا ناطق نہیں ہیں اور آیت کریمہ : ۔ عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ النمل 16] ہمیں خدا کی طرف سے جانوروں کی بولی سکھائی گئی ہے میں پرندوں کی آواز کو محض حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لحاظ سے نطق کہا ہے ۔ کیونکہ وہ ان کی آوازوں کو سمجھتے تھے اور جو شخص کسی چیز سے کوئی معنی سمجھا ہو تو وہ چیزخواہ صامت ہی کیوں نہ ہو ۔ اس کے لحاظ سے تو ناطق کا حکم رکھتی ہے اور آیت کریمہ : هذا كِتابُنا يَنْطِقُ عَلَيْكُمْ بِالْحَقِ [ الجاثية 29] یہ ہماری کتاب تمہارے بارے میں سچ سچ بیان کردے گی ۔ میں کتاب کو ناطق کہا ہے لیکن اس کے نطق کا ادراک صرف آنکھ ہی کرسکتی ہے ۔ جیسا کہ کلام بھی ا یک کتاب ہے لیکن اس کا ادراک حاسہ سماعت سے ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَقالُوا لِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنا قالُوا أَنْطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ [ فصلت 21] اور وہ اپنے چمڑوں یعنی اعضاء سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف کیوں شہادت دی وہ کہیں گے جس خدا نے سب چیزوں کو نطق بخشا اسی نے ہم کو بھی گویائی دی ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ نطق صوقی مراد ہے ۔ اور بعض نے نطق اعتباری مراد لیا ہے ۔ اور عالم آخرت کی اصل حقیقت تو خدا ہی جانتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ نطق درحقیقت لفظ کو کہتے ہیں ۔ کیونکہ وہ معنی کو لپیٹنے اور محصور کرنے میں بمنزلہ نطاق کے ہوتا ہے ۔ المنطق والمنطقۃ کمر بند کو کہتے ہیں اور شاعر کے قول ۔ (431) وابرح ما ادام اللہ قومی بحمداللہ منتطقا مجیدا جب تک میری قوم زندہ ہے ۔ میں بحمداللہ عمدگی شاعر رہوں گا ۔ میں بعض نے کہا ہے منتطقا کے معنی جانبا کے ہیں یعنی میں گھوڑے کو آگے سے پکڑ کر کھینچتا رہوں گا اور اس پر سوار نہیں ہوں گا ہاں یہ اگر اس معنی میں کوئی دوسرا شعر نہ آیا تو یہاں منطق سے مراد وہ شخص بھی ہوسکتا ہے جس نے کمرپر نطاق باندھا ہوا ہو ۔ جیسا کہ مقولہ مشہو رہے ۔ ومن یطل ذیل ابیہ ینتطق بہ یعنی جس کے باپ کے فرزند زیادہ ہوں گے ۔ تو وہ ان کی وجہ سے طاقت ور اور توانا ہوجائے گا ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ منتطق کے معنی عمدگو کے ہیں ۔- طير - الطَّائِرُ : كلُّ ذي جناحٍ يسبح في الهواء، يقال : طَارَ يَطِيرُ طَيَرَاناً ، وجمعُ الطَّائِرِ : طَيْرٌ «3» ، كرَاكِبٍ ورَكْبٍ. قال تعالی: وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام 38] ، وَالطَّيْرَ مَحْشُورَةً- [ ص 19] ، وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور 41] وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ- [ النمل 17] ، وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ [ النمل 20] - ( ط ی ر ) الطائر - ہر پر دار جانور جو فضا میں حرکت کرتا ہے طار یطیر طیرا نا پرند کا اڑنا ۔ الطیر ۔ یہ طائر کی جمع ہے جیسے راکب کی جمع رکب آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام 38] یا پرند جو اپنے پر دل سے اڑتا ہے ۔ وَالطَّيْرَ مَحْشُورَةً [ ص 19] اور پرندوں کو بھی جو کہ جمع رہتے تھے ۔ وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور 41] اور پر پھیلائے ہوئے جانور بھی ۔ وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ [ النمل 17] اور سلیمان کے لئے جنون اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کئے گئے ۔ وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ [ النمل 20] انہوں نے جانوروں کا جائزہ لیا ۔ - شيء - الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم .- ( ش ی ء ) الشئی - بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ،

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٦) ان سب میں داؤد (علیہ السلام) کی وفات کے بعد ان کی سلطنت کے جانشین سلیمان (علیہ السلام) ہوئے اور سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا اے لوگو ہمیں کو پرندوں کی بولی سمجھنے کی تعلیم دی گئی اور سامان سلطنت کے متعلق ہر قسم کی ضروری چیزوں کا علم دیا گیا، حقیقت یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے میرے اوپر بہت بڑا انعام ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النمل حاشیہ نمبر :20 وراثت سے مراد یہاں مال و جائداد کی وراثت نہیں بلکہ نبوت اور خلافت میں حضرت داؤد کی جانشینی ہے ، مال و جائداد کی میراث اگر بالفرض منتقل ہوئی بھی ہو تو وہ تنہا حضرت سلیمان ہی کی طرف منتقل نہیں ہوسکتی تھی کیونکہ حضرت داؤد کی دوسری اولاد بھی موجود تھی ، اس لیے اس آیت کو اس حدیث کی تردید میں پیش نہیں کیا جاسکتا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ لا نورث ما ترکنا صدقۃ ، ہم انبیاء کی وراثت تقسیم نہیں ہوتی ، جو کچھ ہم نے چھوڑا وہ صدقہ ہے ۔ ( بخاری ، کتاب فرض الخمس ) اور ان النبی لا یورث انما میراثہ فی فقراء المسلمین والمساکین نبی کا وارث کوئی نہیں ہوتا ، جو کچھ وہ چھوڑتا ہے وہ مسلمانوں کے فقراء اور مساکین میں تقسیم کیا جاتاہے ( مسند احمد ، مرویات ابوبکر صدیق ، حدیث نمبر 60 و 78 ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام حضرت داؤد کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے ، ان کا اصل عبرانی نام سولومون تھا جو سلیم کا ہم معنی ہے ۔ 965 قبل مسیح میں حضرت داؤد کے جانشین ہونے اور 926 ق م تک تقریبا چالیس سال فرمانروا رہے ۔ ان کے حالات کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہم القرآن جلد دو ، الحجر ، حاشیہ 7 ، جلد سوم ، الانبیاء حواشی 75 ، 74 ، ان کے حدود سلطنت کے متعلق ہمارے مفسرین نے بہت مبالغہ سے کام لیا ہے ، وہ انہیں دنیا کے بہت بڑے حصے کا حکمراں بتاتے ہیں ، حالانکہ ان کی مملکت صرف موجودہ فلسطین و شرق اردن پر مشتمل تھی اور شام کا ایک حصۃ بھی اس میں شامل تھا ، ( ملاحظہ ہو نقشہ ملک سلیمان ، تفہیم القرآن جلدو دوم ص 598 ) سورة النمل حاشیہ نمبر :21 بائیبل اس ذکر سے خالی ہے کہ حضرت سلیمان کو پرندوں اور جانوروں کی بولیوں کا علم دیا گیا تھا ، لیکن بنی اسرائیل کی روایات سے اس کی صراحت موجود ہے ( جیوش انسائیکلوپیڈیا ، جلد 11 ، ص439 ) سورة النمل حاشیہ نمبر : 22 یعنی اللہ کا دیا ہمارے پاس سب کچھ موجود ہے ، اس بات کو لفظی معنوں میں لینا درست نہیں ہے ، بلکہ اس سے مراد اللہ کے بخشے ہوئے مال و دولت اور سازو سامان کی کثرت ہے ، یہ بات حضرت سلمان نے فخریہ نہیں فرمائی تھی بلکہ اللہ کے فضل اور اس کی عطا و بخشش کا شکریہ ادا کرنا مقصود تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

7: یاد رہے کہ ایک صحیح حدیث کے مطابق انبیا علیہم السلام کا ترکہ اُن کے وارثوں میں تقسیم نہیں ہوتا، اس لئے یہاں وراثت ملنے کا مطلب یہ ہے کہ نبوّت اور سلطنت میں وہ اپنے والد حضرت داؤد علیہ السلام کے جانشین ہوئے۔ 8: حضرت سلیمان علیہ السلام کو اﷲ تعالیٰ نے پرندوں کی بولیاں سکھادی تھیں، جس کی وجہ سے ان کو پتہ چل جاتا تھا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں، بلکہ آگے چیونٹی کا جو واقعہ آرہا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُنہیں پرندوں کے علاوہ دوسرے جانوروں کی بولی بھی سکھائی گئی تھی۔ بعض معاصرین نے نہ جانے اس بات کو تسلیم کرنے میں کیا دشواری محسوس کی ہے جس کی وجہ سے اُنہوں نے اِن آیتوں میں دوراز کار تأویلات کا دروازہ کھول دیا ہے، حالانکہ یہ کٔھلی ہوئی بات ہے کہ جانوروں کی ایک بولی ہوتی ہے، ہم چاہیں اسے نہ سمجھیں، لیکن جس پروردگار نے انہیں پیدا کیا ہے، اور بولنے پر قدرت عطا فرمائی ہے، ظاہر ہے کہ وہ اُن کی بولی کو بھی جانتا اور سمجھتا ہے، لہٰذا اگر وہ بولی اپنے کسی پیغمبر کو سکھادے تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے؟