1 7 1اس میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی اس انفرادی خصوصیت و فضیلت کا ذکر ہے، جس میں وہ پوری تاریخ انسانیت میں ممتاز ہیں کہ ان کی حکمرانی صرف انسانوں پر ہی نہ تھی بلکہ جنات، حیوانات اور چرند پرند حتٰی کہ ہوا تک ان کے ماتحت تھی، اس میں کہا گیا ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) کے تمام لشکر یعنی جنوں، انسانوں اور پرندوں سب کو جمع کیا گیا۔ یعنی کہیں جانے کے لئے یہ لاؤ لشکر جمع کیا گیا۔ 1 7 2یعنی سب کو الگ الگ گروہوں میں تقسیم (قسم وار) کردیا جاتا تھا، مثلًا انسانوں، جنوں کا گروہ، پرندوں اور حیوانات کا گروہ وغیرہ وغیرہ۔
[١٨] یہ دراصل سابقہ آیت میں کل شئی کی تفصیل ہے۔ یعنی آپ کا لشکر تین انواع پر مشتمل ہوتا تھا۔ اس میں انسان بھی شامل تھے، جن بھی اور پرندے بھی اور ان سے آپ مختلف قسم کے کام لیتے تھے اور یہ لشکر ملا جلا نہیں ہوتا تھا۔ بلکہ جب آپ کسی مہم پر جاتے تو انسانوں کا لشکر الگ، جنوں کا الگ اور پرندوں کا لشکر الگ الگ ساتھ چلتا تھا۔ بھاری اور زیادہ مشقت طلب کام آپ جنوں سے لیتے تھے اور پیغام رسانی، سراغ رسانی اور پانی وغیرہ کی تاش کا کام آپ پرندوں سے لیتے تھے۔ نیز بعض دفعہ پرندوں کے جھنڈ سے لشکر پر سایہ کرنے کا کام بھی لیا جاتا تھا۔- جو لوگ معجزات اور خرق عادت امور سے گھٹن محسوس کرتے ہیں اور ایسے واقعات کی تاویلات کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ان کی تاویلات کے مطابق یہاں جن سے مراد جفاکش دیہاتی لوگ ہیں۔ اور الطبیر سے وہ طیارے مراد لیتے ہیں۔ یعنی حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے پاس ہوائی فوج بی موجود تھی ایسی تاویلات دراصل تاویلات نہیں بلکہ تحریفات ہیں جن کا قرآن کریم کا سیاق وسباق نہیں دیتا اسی تاویلات کا تجزیہ کرنا یہاں مشکل ہے۔ البتہ ایسی تمام تر تاویلات کا تفصیلا تجزیہ میں نے اپنی تصنیف عقل پرستی اور انکار معجزات میں پیش کردیا ہے۔
وَحُشِرَ لِسُلَيْمٰنَ جُنُوْدُهٗ ۔۔ : ” فَهُمْ يُوْزَعُوْنَ “ اگر ” وَزَعَ یَزَعُ “ بروزن ” وَضَعَ یَضَعُ “ سے ہو تو اس کا معنی روکنا ہے اور اگر ” أَوْزَعَ یُوْزِعُ “ (افعال) سے ہو تو اس کا معنی تقسیم کرنا ہے۔ (قاموس) اس میں سلیمان (علیہ السلام) کی اس خصوصیت و فضیلت کا ذکر ہے جس میں وہ پوری انسانی تاریخ میں منفرد ہیں کہ ان کی حکمرانی صرف انسانوں ہی پر نہ تھی، بلکہ جنّات، حیوانات اور پرندے حتیٰ کہ ہوا تک ان کے تابع فرمان تھی۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ سلیمان (علیہ السلام) کے تمام لشکروں یعنی انسانوں، جنوں اور پرندوں سب کو جمع کیا گیا۔ ظاہر ہے یہ اہتمام جہاد فی سبیل اللہ ہی کے لیے کیا جاتا تھا، تاکہ ساری دنیا میں اللہ کا دین غالب اور اس کا بول بالا ہوجائے۔ اس کی دلیل آگے آرہی ہے کہ کس طرح ملکہ سبا اور اس کی قوم کے شرک کا علم ہونے پر سلیمان (علیہ السلام) نے اسے تابع فرمان ہو کر حاضر ہونے کا حکم دیا اور حکم عدولی کی صورت میں اسے اپنے لشکروں کی دھمکی دی، فرمایا : (فَلَنَاْتِيَنَّهُمْ بِجُنُوْدٍ لَّا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا ) [ النمل : ٣٧ ] ” اب ہر صورت ہم ان پر ایسے لشکر لے کر آئیں گے جن کے مقابلے کی ان میں کوئی طاقت نہیں۔ “- فَهُمْ يُوْزَعُوْنَ : یعنی سب کو الگ الگ گروہوں میں تقسیم کیا جاتا تھا، مثلاً جنوں کا گروہ الگ، انسانوں کا گروہ الگ اور پرندوں کا گروہ الگ، پھر فوجی ترتیب کے مطابق ان کی تقسیم کی جاتی، مثلاً دس دس آدمیوں پر ایک امیر، پھر سو آدمیوں پر امیر، پھر ہزار پر۔ غرض تمام لشکر بہترین تقسیم کے ساتھ مرتب تھے، جس سے نہایت مختصر وقت میں ان کا جائزہ بھی لیا جاسکتا تھا اور جنگی احکام پر عمل درآمد بھی ہوجاتا تھا۔
وَحُشِرَ لِسُلَيْمٰنَ جُنُوْدُہٗ مِنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ وَالطَّيْرِ فَہُمْ يُوْزَعُوْنَ ١٧- حشر - ، وسمي يوم القیامة يوم الحشر کما سمّي يوم البعث والنشر، ورجل حَشْرُ الأذنین، أي : في أذنيه انتشار وحدّة .- ( ح ش ر ) الحشر ( ن )- اور قیامت کے دن کو یوم الحشر بھی کہا جاتا ہے جیسا ک اسے یوم البعث اور یوم النشور کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے لطیف اور باریک کانوں والا ۔- جند - يقال للعسکر الجُنْد اعتبارا بالغلظة، من الجند، أي : الأرض الغلیظة التي فيها حجارة ثم يقال لكلّ مجتمع جند، نحو : «الأرواح جُنُودٌ مُجَنَّدَة» «2» . قال تعالی: إِنَّ جُنْدَنا لَهُمُ الْغالِبُونَ [ الصافات 173] - ( ج ن د ) الجند - کے اصل معنی سنگستان کے ہیں معنی غفلت اور شدت کے اعتبار سے لشکر کو جند کہا جانے لگا ہے ۔ اور مجازا ہر گروہ اور جماعت پر جند پر لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے ( حدیث میں ہے ) کہ ارواح کئ بھی گروہ اور جماعتیں ہیں قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ جُنْدَنا لَهُمُ الْغالِبُونَ [ الصافات 173] اور ہمارا لشکر غالب رہے گا ۔- جِنَّة :- جماعة الجن . قال تعالی: مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس 6] ، وقال تعالی:- وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات 158] .- ۔ الجنتہ - جنوں کی جماعت ۔ قرآن میں ہے ۔ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس 6] جنات سے ( ہو ) یا انسانوں میں سے وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات 158] اور انہوں نے خدا میں اور جنوں میں رشتہ مقرر کیا ۔- وزع - يقال : وَزَعْتُهُ عن کذا : کففته عنه . قال تعالی: وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ إلى قوله : فَهُمْ يُوزَعُونَ- [ النمل 17] فقوله : يُوزَعُونَ [ النمل 17] إشارةٌ إلى أنهم مع کثرتهم وتفاوتهم لم يکونوا مهملین ومبعدین، كما يكون الجیش الکثير المتأذّى بمعرّتهم بل کانوا مسوسین ومقموعین . وقیل في قوله : يُوزَعُونَ أي : حبس أولهم علی آخرهم، وقوله : وَيَوْمَ يُحْشَرُ إلى قوله : فَهُمْ يُوزَعُونَ [ فصلت 19] فهذا وَزْعٌ علی سبیل العقوبة، کقوله : وَلَهُمْ مَقامِعُ مِنْ حَدِيدٍ [ الحج 21] وقیل : لا بدّ للسّلطان من وَزَعَةٍ وقیل : الوُزُوعُ الولوعُ بالشیء . يقال : أَوْزَعَ اللهُ فلاناً : إذا ألهمه الشّكر، وقیل : هو من أُوْزِعَ بالشیء : إذا أُولِعَ به، كأن اللہ تعالیٰ يُوزِعُهُ بشكره، ورجلٌ وَزُوعٌ ، وقوله : رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ [ النمل 19] قيل : معناه :- ألهمني وتحقیقه : أولعني ذلك، واجعلني بحیث أَزِعُ نفسي عن الکفران .- ( و ز ع ) وزعتہ عن کذا کے معنی کسی آدمی کو کسی کام سے روک دینا کے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ إلى قوله : فَهُمْ يُوزَعُونَ [ النمل 17] اور سلیمان (علیہ السلام) کے لئے جنون اور انسانوں کے لشکر جمع کئے گئے اور وہ قسم دار کئے گئے تھے ۔ تو یوزعون میں نے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ عسا کر باوجود کثیر التعداد اور متفاوت ہونے کے غیر مرتب اور منتشر نہیں تھے جیسا کہ عام طور پر کثیر التعداد افواج کا حال ہوتا ہے بلکہ وہ نظم وضبط میں تھے کہ کبھی سر کشی اختیار نہیں کرتے تھے اور بعض نے یو زعون کے یہ معنی کئے ہیں کہ لشکر کا اگلا حصہ پچھلے کی خاطر رکا رہتا تھا ۔ اور آیت : ۔ وَيَوْمَ يُحْشَرُ إلى قوله : فَهُمْ يُوزَعُونَ [ فصلت 19] جس دن خدا کے دشمن دو زخ کی طرف چلائے جائیں گے تو ترتیب وار کر لئے جائیں گے ۔ میں یوزعون سے انہیں عقوبت کے طور پر روک لینا مراد ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَلَهُمْ مَقامِعُ مِنْ حَدِيدٍ [ الحج 21] اور ان کے مارنے ٹھوکنے ) کے لئے لوہے کے ہتھوڑے ہو نگے محاورہ ہے کہ سلطان کے لئے محافظ دستہ یا کار ندوں کا ہونا ضروری ہے ۔ جو لوگوں کو بےقانون ہونے سے روکیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ وزوع کے معنی کسی چیز پر فریضۃ ہونے کے ہیں اور محاورہ ہے : ۔ اوزع اللہ فلانا اللہ تعالیٰ نے فلاں کو شکر گزرای کا الہام کیا بعض نے کہا کہ یہ بھی اوزع باالشئی سے ماخوز ہے جس کے معنی کسی چیز کا شیدائی بننے کے ہیں تو اوزع اللہ فلانا سے مراد یہ ہے کہ گویا اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی شکر گزاری کا شیدائی بنادیا اور رجل وزوع کے معنی کسی چیز پر فریضۃ ہونے والا کے ہیں ۔ اس بنا پر آیت کریمہ : ۔ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ [ النمل 19] اے پروردگار مجھے توفیق عنایت کر کہ جو احسان تونے مجھے کئے ہیں ان کا شکر کروں ۔ میں بعض نے اوزعنی کے معنی الھمنی کئے ہیں یعنی مجھے شکر گزاری کا الہام کر مگر اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ مجھے شکر گزاری کا الہام کر مگر اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ مجھے شکر گزاری کا اس قدر شیفۃ بنا کہ میں اپنے نفس کو تیر ی ناشکری سے روک لوں ۔
(١٧) اور سلیمان (علیہ السلام) کے لیے جو ان کا تمام لشکر جمع کیا گیا تو اس کو چلنے کے وقت روکا جایا کرتا تھا تاکہ سب جمع ہوجائیں اور متفرق نہ ہوں۔
آیت ١٧ (وَحُشِرَ لِسُلَیْمٰنَ جُنُوْدُہٗ مِنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ وَالطَّیْرِ فَہُمْ یُوْزَعُوْنَ ) ” - ہر قسم اور ہر جنس کے لشکر کی علیحدہ علیحدہ جماعتیں ( ) بنا کر انہیں ہر طرح سے منظم کیا گیا تھا۔
سورة النمل حاشیہ نمبر : 23 بائیبل میں اس کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے کہ جن حضرت سلیمان کے لشکروں میں شامل تھے اور وہ ان سے خدمت لیتے تھے ، لیکن تلمود اور تبیوں کی روایات میں اس کا تفصیلی ذکر ملتا ہے ( جیوش انسائیکلوپیڈیا جلد 11 صفحہ 440 ) موجودہ زمانہ کے بعض لوگوں نے یہ ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے کہ جن اور طیر سے مراد جنات اور پرندے نہیں ہیں بلکہ انسان ہی ہیں جو حضرت سلیمان کے لشکر میں مختلف کام کرتے تھے ، وہ کہتے ہیں کہ جن سے مراد پہاڑی قبائل کے وہ ولگ ہیں جنہیں حضرت سلیمان نے مسخر کیا تھا اور وہ ان کے ہاں حیرت انگیز طاقت اور محنت کے کام کرتے تھے ، اور طیر سے مراد گھوڑ سواروں کے دستے ہیں جو پیدل دستوں کی بہ نسبت بہت زیادہ تیزی سے نقل و حرکت کرتے تھے ۔ لیکن یہ قرآن مجید میں بے جا تاویل کی بدترین مثالیں ہیں ، قرآن یہاں جن ، انس اور طیر ، تین الگ الگ اقسام کے لشکر بیان کر رہا ہے اور تینوں پر الف ل تعریف جنس کے لیے لایا گیا ہے ، اس لیے لا محالہ الجن اور الطیر الانس میں شامل نہیں ہوسکے بلکہ وہ اس سے مختلف دو الگ اجناس ہی ہوسکتی ہیں ۔ علاوہ بریں کوئی شخص جو عربی زبان سے ذرہ برابر بھی واقفیت رکھتا ہو یہ تصور نہیں کرسکتا کہ اس زبان میں محض لفظ الجن بول کو انسانوں کا کوئی گروہ یا محض الطیر بول کر سواروں کا رسالہ کبھی مراد لیا جاسکتا ہے اور کوئی عرب ان الفاظ کو سن کر ان کے یہ معنی سمجھ سکتا ہے ، محض محاورے میں کسی انسان کو اس کے فوق العادۃ کام کی وجہ سے جن یا کسی عورت کو اس کے حسن کی وجہ سے پری ، اور کسی تیز رفتار انسان ہی کے ہوجائیں ، ان الفاظ کے یہ معنی تو مجازی ہیں نہ کہ حقیقی ، اور کسی کلام میں کسی لفظ کو حقیقی معنی چھوڑ کر مجازی معنوں میں صرف اسی وقت استعمال کیا جاتا ہے ، اور سننے والے بھی ان کو مجازی معنوں میں صرف اسی وقت لے سکتے ہیں جبکہ آس پاس کوئی واضح قرینہ ایسا موجود ہو جو اس کے مجاز ہونے پر دلالت کرتا ہو ۔ یہاں آخر کون سا قرینہ پایا جاتا ہے جس سے یہ گمان کیا جاسکے کہ جن اور طیر کے الفاظ اپنے حقیقی لغوی معنوں میں نہیں بلکہ مجازی معنوں میں استعمال کیے گئے ہیں؟ بلکہ آگے ان دونوں گروہوں کے ایک ایک فرد کا جو حال اور کام بیان کیا گیا ہے وہ تو اس تاویل کے بالکل خلاف معنی پر صریح دلالت کررہا ہے ۔ کسی شخص کا دل اگر قرآن کی بات پر یقین نہ کرنا چاہتا ہو تو اسے صاف کہنا چاہیے کہ میں اس بات کو نہیں مانتا ۔ لیکن یہ بڑی اخلاقی بزدلی اور علمی خیانت ہے کہ آدمی قرآن کے صاف صاف الفاظ کو توڑ مروڑ کر اپنے من مانے معنی پر ڈھالے اور یہ ظاہر ہے کہ وہ قرآن کے بیان کو مانتا ہے حالانکہ دراصل قرآن نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ اسے نہیں بلکہ خود اپنے زبردستی گھڑے ہوئے مفہوم کو مانتا ہے ۔
9: یہاں بتانا یہ مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو جو سلطنت عطا فرمائی تھی، وہ صرف انسانوں پر ہی نہیں، بلکہ جنات اور پرندوں پر بھی تھی، چنانچہ جب ان کا لشکر چلتا تھا تو اس میں جنات، انسان اور پرندے سب شامل ہوتے تھے، اور اس طرح لشکر کے افراد اتنے زیادہ ہوجاتے تھے کہ انہیں قابو میں رکھنے کا خاص اہتمام کرنا پڑتا تھا، لیکن نظم و ضبط پھر بھی قائم رہتا تھا۔