Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

181اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ حیوانات میں بھی ایک خاص قسم کا شعور موجود ہوتا ہے۔ گو وہ انسانوں سے بہت کم اور مختلف ہے۔ دوسرا، یہ کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اتنی عظمت و فضیلت کے باوجود عالم الغیب نہیں تھے۔ اس لئے چیونٹیوں کو خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں بیخبر ی میں ہم روند نہ دی جائیں۔ تیسرا یہ کہ حیوانات بھی اس عقیدہ صحیحہ سے بہرہ ور تھے اور ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں۔ جیسا کہ آگے آنے والے ہدہد کے واقعے سے بھی اس کی مذید تائید ہوتی ہے۔ چوتھا یہ کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) پرندوں کے علاوہ دیگر جانوروں کی بولیاں بھی سمجھتے تھے۔ یہ علم بطور اعجاز اللہ تعالیٰ نے انھیں عطا فرمایا تھا، جس طرح تسخیر جنات وغیرہ اعجازی شان تھی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٩] علمائے حیوانات کی جدید تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ جس طرح انسان اپنے اجتماعی اور سیاسی نظام کے لئے چند مخصوص ضوابط کی پابندی کرتا ہے۔ چیونٹی جیسے حقیر ترین جانور کی بستیوں میں بھی اسی سے ملتا جلتا نظام پایا جاتا ہے۔ آدمیوں کی طرح چیونٹیوں کے بھی خاندان اور قبائل ہوتے ہیں ان میں باہمی تعاون اور تقسیم کار کا اصول اور نظام حکومت کے ادارت پائے جاتے ہیں ان کی بھی زبان ہے جس کو سب چیونٹیاں سمجھتی ہیں۔- [٢٠] حضرت سلیمان اپنے لاؤ لشکر سمیت کسی مہم پر جارہے تھے کہ چیونٹیوں کی ایک بستی پر ان کا گزر ہوا تو آپ نے ایک چیونٹی کو دوسری چیونٹی سے یوں خطاب کرتے ہو سنا۔ وہ شاید ان چیونٹیوں کی سردار چیونٹی تھی جو دوسری چیونٹیوں کو خبر اور یہ ہدایت دے رہی تھی کہ دیکھو سلیمان اور اس کا لاؤ لشکر تمہارے سروں پر پہنچ رہا ہے۔ لہذا جلد از جلد اپنے اپنے بلوں میں گھس جاؤ ایسا نہ ہو کہ تم ان کے پاؤں کے نیچے پس جاؤ۔ اور انھیں یہ خبر بھی نہ ہو کہ تمہاری جانوں پر کیسا حادثہ گزر گیا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

حَتّىٰٓ اِذَآ اَتَوْا عَلٰي وَاد النَّمْلِ ۔۔ : اس آیت سے بہت سے مسائل معلوم ہوتے ہیں : 1 چیونٹیوں کو اللہ تعالیٰ نے اجتماعیت کا شعور بخشا ہے، چناچہ وہ بستیوں کی صورت میں رہتی ہیں۔ ان کی باقاعدہ ایک ملکہ ہوتی ہے، جس کے احکام کے تحت وہ زندگی بسر کرتی ہیں۔ ان کی بستیوں کے اندر حیرت انگیز ترتیب کے ساتھ مکانات، ان کی دہلیزیں، چھتیں، راستے، غرض سب کچھ ہوتا ہے۔ وہ آنے والے وقت کے لیے غذا جمع کرتی ہیں اور اسے ایسے طریقے سے محفوظ کرتی ہیں کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے، چناچہ وہ غلے کے ہر دانے کو کاٹ کر دو حصوں میں کردیتی ہیں، تاکہ وہ نمی سے اگ نہ جائے۔ ان میں پہرے دار، لڑاکا دستے، خوراک جمع کرنے والے اور صفائی کرنے والے، غرض ہر طرح کے مجموعے ہوتے ہیں۔ ان کی زندگی پر مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں۔ یہ وادی جس پر سے سلیمان (علیہ السلام) گزرنے والے تھے ایسی ہی وادی تھی جس میں چیونٹیوں کی بستیاں تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا محل وقوع بیان نہیں فرمایا، نہ ہدایت کے مقصد کے لیے اس کی ضرورت تھی۔ مفسرین میں سے کوئی وہ وادی شام میں بیان کرتا ہے، کوئی طائف میں۔ اصل مقام کوئی بھی نہیں جانتا۔ 2 سلیمان (علیہ السلام) کے اس وادی کے قریب آنے پر ایک چیونٹی نے کہا : ” اے چیونٹیو اپنے گھروں میں داخل ہوجاؤ۔ “ اس سے معلوم ہوا کہ اس بظاہر حقیر سی مخلوق کا ایک فرد اپنی ساری قوم کے لیے فکر مند ہے اور انھیں بچنے کی تدبیر سے آگاہ کر رہا ہے۔ یہ زندہ قوموں کی علامت ہے۔ جب کسی قوم کے افراد صرف اپنی فکر میں پڑجائیں تو اس قوم کو ذلت اور بربادی سے کوئی چیز نہیں بچا سکتی، جیسا کہ اس وقت امت مسلمہ کے اکثر افراد کا حال ہوچکا ہے۔- 3 سلیمان (علیہ السلام) کا عالم الغیب نہ ہونا چیونٹیوں کو بھی معلوم تھا، چناچہ اس چیونٹی نے کہا، کہیں سلیمان اور اس کے لشکر تمہیں کچل نہ دیں، جب کہ وہ شعور نہ رکھتے ہوں۔ 4 اس میں سلیمان (علیہ السلام) اور ان کے لشکروں کی تعریف بھی ہے کہ وہ جانتے بوجھتے ہوئے کبھی زیادتی نہیں کرتے، لاعلمی میں کوئی ان کی یلغار میں کچلا جائے تو الگ بات ہے۔ اصحاب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بھی یہی شان تھی، جیسا کہ فرمایا : (وَلَوْلَا رِجَالٌ مُّؤْمِنُوْنَ وَنِسَاۗءٌ مُّؤْمِنٰتٌ لَّمْ تَعْلَمُوْهُمْ اَنْ تَـــطَــــُٔوْهُمْ فَتُصِيْبَكُمْ مِّنْهُمْ مَّعَرَّةٌۢ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۚ ) [ الفتح : ٢٥ ] ” اور اگر کچھ مومن مرد اور مومن عورتیں نہ ہوتیں، جنھیں تم نہیں جانتے تھے (اگر یہ نہ ہوتا) کہ تم انھیں روند ڈالو گے تو تم پر لا علمی میں ان کی وجہ سے عیب لگ جائے گا (تو ان پر حملہ کردیا جاتا) ۔ “ 5 اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عام راستے پر چلنے والوں کی یہ ذمہ داری نہیں کہ وہ چیونٹیوں وغیرہ کو بچائیں، یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ اپنا بچاؤ خود کریں۔ 6 یہ بھی معلوم ہوا کہ سلیمان (علیہ السلام) پرندوں کے علاوہ دوسرے جانوروں کی بولی بھی سمجھتے تھے، یہ ان کا معجزہ تھا۔ 7 چیونٹی کی آواز آدمی کو سنائی نہیں دیتی، سلیمان (علیہ السلام) نے سن لی، یہ چیونٹی کی بولی سمجھنے کے علاوہ مزید معجزہ ہے۔ 8 معجزات کے بعض منکروں نے لکھا ہے کہ ” وادی النمل “ بنو نمل قبیلے کا مسکن تھی اور یہ نملہ چیونٹی نہیں تھی بلکہ اس قبیلے کا ایک آدمی تھا۔ مگر یہ قرآن کی بدترین تحریف ہے، کیونکہ چیونٹی کے قول ” وَهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ “ سے صاف ظاہر ہے کہ وہ عام چیونٹیاں تھیں جو زمین پر رینگتی پھرتی ہیں، کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی لشکر انسانوں سے بھری ہوئی وادی کو کچلتا ہوا گزر جائے اور اسے پتا ہی نہ چلے۔ علاوہ ازیں اس صورت میں آیت کا اس علم سے کوئی تعلق نہیں رہتا جس کے عطا ہونے پر سلیمان (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ سے شکر نعمت کی توفیق مانگ رہے ہیں۔ نہ تاریخ میں بنو نمل نامی قبیلے کا کوئی وجود پایا جاتا ہے، نہ عربی زبان میں۔ بنو کلب قبیلے کے آدمی کو کلب یا بنو اسد قبیلے کے آدمی کو اسد کہا جاتا ہے کہ بنو نمل قبیلے کے آدمی کو نملہ کہا جائے معجزات کے منکروں کی مشکل یہ ہے کہ وہ قرآن کا صاف انکار کرنے کی جرأت نہیں رکھتے، اس لیے اس کے معانی میں تحریف کرتے رہتے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

حَتّٰٓي اِذَآ اَتَوْا عَلٰي وَادِ النَّمْلِ۝ ٠ ۙ قَالَتْ نَمْــلَۃٌ يّٰٓاَيُّہَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسٰكِنَكُمْ۝ ٠ۚ لَا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمٰنُ وَجُنُوْدُہٗ۝ ٠ ۙ وَہُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ۝ ١٨- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه - ( ا ت ی ) الاتیان - ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے - وادي - قال تعالی: إِنَّكَ بِالْوادِ الْمُقَدَّسِ [ طه 12] أصل الوَادِي : الموضع الذي يسيل فيه الماء، ومنه سُمِّيَ المَفْرَجُ بين الجبلین وَادِياً ، وجمعه : أَوْدِيَةٌ ، نحو : ناد وأندية، وناج وأنجية، ويستعار الوادِي للطّريقة کالمذهب والأسلوب، فيقال : فلان في وَادٍ غير وَادِيكَ. قال تعالی:- أَلَمْ تَرَ أَنَّهُمْ فِي كُلِّ وادٍ يَهِيمُونَ [ الشعراء 225] فإنه يعني أسالیب الکلام من المدح والهجاء، والجدل والغزل «2» ، وغیر ذلک من الأنواع . قال الشاعر : 460-- إذا ما قطعنا وَادِياً من حدیثنا ... إلى غيره زدنا الأحادیث وادیاً- «3» وقال عليه الصلاة والسلام : «لو کان لابن آدم وَادِيَانِ من ذهب لابتغی إليهما ثالثا» «4» ، وقال تعالی: فَسالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِها[ الرعد 17] أي : بقَدْرِ مياهها . - ( و د ی ) الوادی - ۔ اصل میں اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں پانی بہتا ہو اسی سے دو پہاڑوں کے درمیان کشادہ زمین کو وادی کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّكَ بِالْوادِ الْمُقَدَّسِ [ طه 12] تم ( یہاں ) پاک میدان ( یعنی ) طوی میں ہو ۔ اس کی جمع اودیتہ اتی ہے جیسے ناد کی جمع اندیتہ اور ناج کی جمع انجیتہ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَسالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِها[ الرعد 17] پھر اس سے اپنے اپنے انداز کے مطابق نالے بہ نکلے ۔ اور حدیث میں ہے ۔ لوکان لابن ادم وادیان من ذھب لابتغی ثالثا کہ اگر ابن ادم کے پاس سونے کی دو وادیاں ہوں تو وہ تیسری کا خواہش مند ہوگا ۔ - نمل - قال تعالی: قالَتْ نَمْلَةٌ يا أَيُّهَا النَّمْلُ [ النمل 18] وطَعَامٌ مَنْمُولٌ: فيه النَّمْلُ ، والنَّمْلَةُ : قُرْحَةٌ تَخْرُجُ بالجَنْبِ تشبيهاً بالنَّمْلِ في الهَيْئَةِ ، وشَقٌّ في الحافِر، ومنه : فَرَسٌ نَمِلُ القَوَائِمِ : خَفِيفُهَا . ويُستعارُ النَّمْلُ للنَّمِيمَةِ تَصَوُّراً لدَبِيبِهِ ، فيقال : هو نَمِلٌ ، وذُو نَمْلَةٍ ، ونَمَّالٌ. أي : نَمَّامٌ ، وتَنَمَّلَ القَوْمُ : تَفَرَّقُوا للجَمْعِ تَفَرُّقَ النَّمْلِ ، ولذلک يقال : هُوَ أَجْمَعُ مِنْ نَمْلَةٍ «3» ، والأُنْمُلَةُ : طَرَفُ الأَصَابِعِ ، وجمْعُه : أَنَامِلُ.- ( ن م ل ) نملۃ ۔ چیوٹنی ( ج ۔ نمل قرآن پاک میں ہے : قالَتْ نَمْلَةٌ يا أَيُّهَا النَّمْلُ [ النمل 18] تو ایک چیونٹی نے کہا اے چیونٹیو۔ طعام منمول ۔ طعام جس میں چیونٹیاں پڑگئی ہوں ۔ نملۃ (1) ایک قسم کا پھوڑا ۔ جو پہلو میں نکلتا ہے ۔ اور اس کی شکل چیوٹنی جیسی ہوتی ہے (2) جانور کے کھڑکا شگاف ۔ اور اسی سے فرس نمل القوائم کا محاورہ ہے یعنی سبک پاؤں والا گھوڑا جو ایک جگہ پر سکون سے کھڑا نہ ہوا اور مجازا النمل بمعنی نمیمۃ بھی آتا ہے ۔ اور یہ معنی چیونٹی کی چال سے ماخوذ ہ ۔ اور ھو نمل وذونملۃ و نمال کے معنی چیونٹی معنی چغل خور کے ہیں ۔ تنمل القوم ۔ مال جمع کرنے کے لئے جیونٹیوں کی طرح پھیل گئے ۔ اسی سے ھوا جمع من نملۃ کا محاورہ ہے ۔ یعنی وہ چیونٹی سے بھی زیادہ ذخیرہ اندوز ہے ۔ الانملۃ ۔ انگلیوں کے اطراف ۔ ج۔ انامل - دخل - الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58]- ( دخ ل ) الدخول - ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔- سكن - السُّكُونُ : ثبوت الشیء بعد تحرّك، ويستعمل في الاستیطان نحو : سَكَنَ فلان مکان کذا، أي : استوطنه، واسم المکان مَسْكَنُ ، والجمع مَسَاكِنُ ، قال تعالی: لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف 25] ، - ( س ک ن ) السکون ( ن )- حرکت کے بعد ٹھہر جانے کو سکون کہتے ہیں اور کسی جگہ رہائش اختیار کرلینے پر بھی یہ لفط بولا جاتا ہے اور سکن فلان مکان کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں جگہ رہائش اختیار کرلی ۔ اسی اعتبار سے جائے رہائش کو مسکن کہا جاتا ہے اس کی جمع مساکن آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف 25] کہ ان کے گھروں کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا تھا ۔- حطم - الحَطْمُ : کسر الشیء مثل الهشم ونحوه، ثمّ استعمل لكلّ کسر متناه، قال اللہ تعالی: لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل 18] ، وحَطَمْتُهُ فانحطم حَطْماً ، وسائقٌ حُطَمٌ: يحطم الإبل لفرط سوقه، وسمیت الجحیم حُطَمَة، قال اللہ تعالیٰ في الحطمة : وَما أَدْراكَ مَا الْحُطَمَةُ [ الهمزة 5] ، وقیل للأكول : حطمة، تشبيها بالجحیم، تصوّرا لقول الشاعر : كأنّما في جو فه تنّور ودرع حُطَمِيَّة : منسوبة إلى ناسجها أومستعملها، وحطیم وزمزم : مکانان، والحُطَام : ما يتكسّر من الیبس، قال عزّ وجل : ثُمَّ يَهِيجُ فَتَراهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَجْعَلُهُ حُطاماً [ الزمر 21] .- ( ح ط م ) الحطم کے اصل معنی کسی چیز کو توڑنے کے ہیں جیسا ک الھشیم وغیرہ الفاظ اسی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ پھر کسی چیز کو ریزہ زیزہ کردینے اور روندنے پر حطم کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل 18] ایسا نہ ہوگہ سلیمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔ کہاجاتا ہے حطمتہ فانحطم میں نے اسے توڑا چناچہ وہ چیز ٹوٹ گئی ) سائق حطم بےرحم چر واہا ۔ جو اونٹوں کو سخت ہنگا کر ان پر ظلم کرے ۔ اور دوزخ کو حطمۃ کہا گیا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَما أَدْراكَ مَا الْحُطَمَةُ [ الهمزة 5] حطیمہ میں ۔۔۔ اور تم کیا سمجھے کہ حطمہ کیا ہے ۔ اور تشبیہ کے طور پر بہت زیادہ کھانے والے کو بھی حطمۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ شاعر نے پیٹ کو تنور کے ساتھ ، تشبیہ دی ہے ۔ ع ؎ گو یا اس کے پیٹ میں تنور ہے ۔ درع حطمیۃ زرہ بننے والے یا ستعمال کرنے والے کی طرف منسوب ہے اور حطیم وزمزم ( حرم میں ) دو جگہوں کے نام ہیں ۔ الحطام جو خشک ہو کر ریزہ ریزہ ہوجائے ۔ قرآن میں ہے :۔ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَراهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَجْعَلُهُ حُطاماً [ الزمر 21] پھر وہ خشک ہوجاتی ہے تو تم اس کو دیکھتے ہو ( کہ زرد ہوگئ ہے ) پھر اسے چورا چورا کردیتا ہے ۔- شعور - الحواسّ ، وقوله : وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات 2] ، ونحو ذلك، معناه : لا تدرکونه بالحواسّ ، ولو في كثير ممّا جاء فيه لا يَشْعُرُونَ : لا يعقلون، لم يكن يجوز، إذ کان کثير ممّا لا يكون محسوسا قد يكون معقولا .- شعور - حواس کو کہتے ہیں لہذا آیت کریمہ ؛ وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات 2] اور تم کو خبر بھی نہ ہو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم حواس سے اس کا ادرک نہیں کرسکتے ۔ اور اکثر مقامات میں جہاں لایشعرون کا صیغہ آیا ہے اس کی بجائے ۔ لایعقلون کہنا صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو محسوس تو نہیں ہوسکتی لیکن عقل سے ان کا ادراک ہوسکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٨) چناچہ ایک مرتبہ سرزمین شام میں ایک چیونٹیوں کے میدان پر سے گزر ہوا تو عرجاء یا منذرہ نامی ایک چیونٹی نے دوسری چیونٹیوں سے کہا اے چیونٹیو اپنے سوراخوں میں جا گھسو کہیں تمہیں سلیمان اور ان کا لشکر بیخبر ی میں نہ کچل ڈالیں یا یہ کہ سلیمان (علیہ السلام) کے لشکر نے چیونٹی کی یہ بات نہیں سمجھی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٨ (حَتّٰٓی اِذَآ اَتَوْا عَلٰی وَاد النَّمْلِلا) ” - حضرت سلیمان ( علیہ السلام) اپنے لشکروں کے ساتھ سفر کرتے ہوئے ایک ایسے علاقے سے گزرے جہاں چیونٹیاں کثرت سے پائی جاتی تھیں۔- (لَا یَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْمٰنُ وَجُنُوْدُہٗلا وَہُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ ) ” - انہیں احساس بھی نہیں ہوگا کہ ان کے قدموں اور گھوڑوں کے سموں تلے کتنی ننھی جانیں مسلی جا رہی ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النمل حاشیہ نمبر : 24 اس آیت کو بھی آج کل کے بعض مفسرین نے تاویل کے اوپر چڑھایا ہے ، وہ کہتے ہیں کہ وادی النمل سے مراد چیونٹیوں کی وادی نہیں ہے بلکہ یہ ایک وادی کا نام ہے جو شام کے علاقے میں تھی اور نملۃ کے معنی ایک چیونٹی کے نہیں ہیں بلکہ یہ ایک قبیلہ کا نام ہے ، اس طرح وہ آیت کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت سلیمان وادی النمل میں پہنچے تو ایک نمل نے کہا کہ اسے قبیلہ نمل کے لوگو لیکن یہ بھی ایسی تاویل ہے کہ جس کا ساتھ قرآن کے الفاظ نہیں دیتے ، اگر بالفرض وادی النمل کو اس وادی کا نام مان لیا جائے ، اور یہ بھی مان لیا جائے کہ وہاں بنی النمل نام کا کوئی قبیلہ رہتا تھا ، تب بھی یہ بات عربی زبان کے استعمالات کے بالکل خلاف ہے کہ قبیلہ نمل کے ایک فرد کو نملہ کہا جائے گا ، اگرچہ جانوروں کے نام پر عرب کے بہت سے قبائل کے نام ہیں ، مثلا کلب ، اسد وغیرہ ، لیکن کوئی عرب قبیلہ کلب کے کسی فرد کے متعلق قال کلب ( ایک کتے نے یہ کہا ) یا قبیلہ اسد کے کسی شخص کے متعلق قال اسد ( ایک شیر نے کہا ) ہرگز نہیں بولے گا ، اس لیے بنی النمل کے ایک فرد کے متعلق یہ کہنا کہ قالت نملۃ ( ایک چیونٹی یہ بولی ) قطعا عربی محاورہ استعمال کے خلاف ہے ، پھر قبیلہ نمل کے ایک فرد کا بنی النمل کو پکار کر یہ کہنا کہ اے نملیو ، اپنے گھروں میں گھس جاؤ کہیں ایسا نہ ہو کہ سلیمان کے لشکر تم کو کچل ڈالیں اور انہیں خبر بھی ہو ، بالکل بے معنی ہے ، انسانوں کے کسی گروہ کو انسانوں کا کوئی لشکر بے خبری میں نہیں کچلا کرتا ۔ اگر وہ ان پر حملے کی نیت سے آیا ہو تو ان کا اپنے گھروں میں گھس جانا لا حاصل ہے ، حملہ آور ان کے گھروں میں گھس کر انہیں اور زیادہ اچھی طرح کچلیں گے ، اور اگر وہ محض کوچ کرتا ہوا گزر رہا ہو تو اس کے لیے بس راستہ صاف چھوڑ دینا کافی ہے ، کوچ کرنے والوں کی لپیٹ میں آکر انسانوں کو نقصان تو پہنچ سکتا ہے ، مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ چلتے ہوئے انسان بے خبری میں انسانوں کو کچل ڈالیں ، لہذا اگر بنی النمل کوئی انسانی قبیلہ ہوتا اور اس کا کوئی فرد اپنے قبیلے کے لوگوں کو خبردار کرنا چاہتا ہو تو حملے کے خطرے کی صورت میں وہ کہتا کہ اے نملیو ، بھاگ چلو اور پہاڑوں میں پنا لو تاکہ سلیمان کے لشکر تمہیں تباہ نہ کریں ۔ اور حملے کا خطرہ نہ ہونے کی صورت میں وہ کہتا کہ اے نملیو ، راستہ سے ہٹ جاؤ تاکہ تم میں سے کوئی شخص سلیمان کے لشکروں کی جھپٹ میں نہ آجائے ۔ یہ تو وہ غلطی ہے جو اس تاویل میں عربی زبان اور مضمون عبارت کے اعتبار سے ہے ، رہی یہ بات کہ وادی النمل دراصل اس وادی کا نام تھا اور وہاں بنی النمل نامی کوئی قبیلہ رہتا تھا ، یہ محض ایک مفروضہ ہے جس کے لیے کوئی علمی ثبوت موجود نہیں ہے ، جن لوگوں نے اسے وادی کا نام قرار دیا ہے انہوں نے خود یہ تصریح کی ہے کہ اسے چیونٹیوں کی کثرت کے باعث یہ نام دیا گیا تھا ۔ قتادہ اور مقاتل کہتے ہیں کہ واد بارض الشام کثیر النمل وہ ایک وادی ہے سرزمین شام میں جہاں چیونٹیاں بہت ہیں ۔ لیکن تاریخ و جغرافیہ کی کسی کتاب میں اور آثار قدیمہ کی کسی تحقیقات میں یہ مذکور نہیں ہے کہ اس وادی میں بنی النمل نامی کوئی قبیلہ بھی رہتا تھا ۔ یہ صرف ایک من گھڑت ہے جو اپنی تاویل کی گاڑی چلانے کے لیے وضع کرلی گئی ہے ۔ بنی اسرائیل کی روایات میں بھی یہ قصہ پایا جاتا ہے ، مگر اس کا آخری حصہ قرآن کے خلاف ہے اور حضرت سلیمان کی شان کے خلاف بھی ہے ، اس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت سلیمان جب ایک وادی سے گزر رہے تھے جس میں چیونٹیاں بہت تھیں تو انہوں نے سنا کہ ایک چیونٹی پکار کر دوسری چیونٹیوں سے کہہ رہی ہے کہ اپنے گھروں میں داخل ہوجاؤ ورنہ سلیمان کے لشکر تمہیں کچل ڈالیں گے ۔ اس پر حضرت سلیمان نے اس چیونٹی کے سامنے بڑے تکبر کا اظہار کیا اور جواب میں اس چیونٹی نے ان سے کہا کہ تمہاری حقیقت کیا ہے ، ایک حقیر سے تو تم پیدا ہوئے ہو ، یہ سن کر حضرت سلیمان شرمندہ ہوگئے ( جیوش انسائیکلو پیڈیا ، ج 11 ، ص 440 ) اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن کس طرح بنی اسرائیل کی غلط روایات کی تصحیح کرتا ہے اور ان گندگیوں کو صاف کرتا ہے جو انہوں نے خود اپنے پیغمبروں کی سیرتوں پر ڈال دی تھی ، ان روایات کے متعلق مغربی مستشرقین بے شرمی کے ساتھ یہ دعوی کرتے ہیں کہ قرآن نے سب کچھ ان سے سرقہ کرلیا ہے ۔ عقلی حیثیت سے یہ بات کچھ بھی بعید نہیں ہے کہ ایک چیونٹی اپنی جنس کے افراد کو کسی آتے ہوئے خطرے سے خبردار کرے اور بلوں میں گھس جانے کے لیے کہے ۔ رہی یہ بات کہ حضرت سلیمن نے اس کی بات کیسے سن لی ، تو جس شخص کے حواس کلام وحی جیسی لطیف چیز کا ادراک کرسکتے ہوں ، اس کے لیے چیونٹی کے کلام جیسی کثیف ( ) چیز کا ادراک کرلینا کوئی بڑی مشکل بات نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani