Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

191چیونٹی جیسی حقیر مخلوق کی گفتگو سن کر سمجھ لینے سے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے دل میں شکر گزاری کا احساس پیدا ہوا کہ اللہ نے مجھ پر کتنا انعام فرمایا ہے۔ 192اس سے معلوم ہوا کہ جنت مومنوں ہی کا گھر ہے اس میں کوئی بھی اللہ کی رحمت کے بغیر داخل نہیں ہو سکے گا اسی لیے حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سیدھے سیدھے اور حق کے قریب رہو اور یہ بات جان لو کہ کوئی شخص بھی صرف اپنے عمل سے جنت میں نہیں جائے گا صحابہ (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ بھی ؟ آپ نے فرمایا ہاں میں بھی اس وقت تک جنت میں نہیں جاؤں گا جب تک اللہ کی رحمت مجھے اپنے دامن میں نہیں ڈھانک لے گی۔ صحیح بخاری۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢١] آپ نے چیونٹی کی یہ بات سمجھ کر فرط سرور و انبساط سے ہنش دیئے اور اللہ کی اس نعمت کا شکر ادا کیا۔ پھر دست بدعا ہو کر فرمایا : پروردگار مجھے ان نعمتوں کے شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرما تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کیں۔ اور ایک روایت میں ہے کہ ایک دفعہ حضرت سلیمان لوگوں کے ہمراہ نماز استسقاء کے لئے ایک میدان کی طرف نکلے۔ وہاں ایک چیونٹی کو دیکھا جو چت لیٹ کر اور اپنے پاؤں اوپر اٹھائے ہوئے اللہ سے دعا کر رہا تھی کہ یا اللہ میں بھی تیری مخلوق ہوں اگر تو کھانے پینے کو نہ دے گا تو میں کیسے زندہ رہ سکتی ہوں یا ہمیں کھانے کو دے یا مار ڈال۔ حضرت سلیمان نے چیونٹی کی یہ دعا سن کر لوگوں سے فرمایا : اب اپنے اپنے گھروں میں لوٹ جاؤ۔ ایک چیونٹی نے تمہارا کام پورا کردیا۔ اب انشاء اللہ بارش ہوگی۔ ) دارقطنی بحوالہ مشکوۃ۔ کتاب الصلوۃ۔ باب الاستسقاء فصل ثالث (- [٢٢] یہاں اوزعنی کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اور وزع کا لغوی معنی روکتا یا روکے رکھتا ہے۔ اور وزع الجیش یعنی فوج کو ترتیب دار صفوں میں رکھنا ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) دعا یہ فرما رہے ہیں کہ جس قدر تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر انعامات کی بارش کی ہے۔ اس پر کہیں میرا نفس بےقابو اور بےلگام ہو کر سرکشی کی راہ نہ اختیار کرلے۔ جسیا کہ عموماً اللہ کی طرف سے انعامات کی فراوانی اکثر لوگوں کے ذہنوں کی بگاڑ دیتی ہے۔ مجھے ایسے لوگوں اور ایسی ژہنیت سے روکے رکھنا اور اس بات کی توفیق عطا فرما کہ میں ان نعمتوں پر تیرا شکر گزار بندہ بنوں اور وہی کام کروں جو تجھے پسند ہیں۔- عقل پرستوں نے اس وادی نمل کے قصہ میں بھی اپنی عقل کی جولانیاں دکھاوی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وادی نمل فلاں مقام پر ایک بستی کا نام ہے اور نمل ایک قبیلہ کا نام تھا۔ اس کے افراد بھی نمل کہلاتے تھے۔ سلیمان (علیہ السلام) کا لاؤ لشکر دیکھ کر ایک نملہ نے دوسرے نملہ سے یہ بات کہی تھی کہ اس تاویل یا تحریف میں جتنا وزن ہوسکتا ہے۔ وہ ان آیات کے سیاق وسباق میں رکھ کر دیکھ لیجوے کہ آیا اس تاویل میں کیوں معقولیت نظر آتی ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا مِّنْ قَوْلِهَا : تبسم بعض اوقات غصے اور ناراضی کی وجہ سے بھی ہوتا ہے، جیسا کہ کعب بن مالک (رض) کی حدیث توبہ میں ہے : ( تَبَسَّمَ تَبَسُّمَ الْمُغْضَبِ ) [ بخاري : ٤٤١٨ ] کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے دیکھ کر مسکرائے، غصے والے کی طرح مسکرانا۔ تبسم کے بعد ” ضَاحِكًا “ اس لیے فرمایا کہ یہ مسکراہٹ ہنسنے کا پیش خیمہ تھی، جو خوشی کا اظہار ہوتا ہے۔ مسکرانے اور ہنسنے کی وجہ ایک تو چیونٹی کی دانش مندی اور اپنی قوم کی خیر خواہی پر تعجب تھا، دوسری وجہ اپنی نیک شہرت پر خوشی تھی کہ چیونٹیاں تک جانتی ہیں کہ سلیمان دانستہ کسی پر زیادتی نہیں کرتا۔- وَقَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِيْٓ ۔۔ : چیونٹی کی آواز سن لینا، پھر اس کی بات سمجھ لینا، پھر اپنی نیک شہرت، یہ سب ایسی چیزیں تھیں کہ سلیمان (علیہ السلام) کا دل فخر و غرور کے بجائے شکر کے جذبات سے لبریز ہوگیا۔ مگر یہ سوچ کر کہ میں اس نعمت کا اور ان تمام نعمتوں کا شکر ادا کر ہی نہیں سکتا جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر اور میرے والدین پر کی ہیں، انھوں نے اللہ تعالیٰ سے شکر کی توفیق عطا کرنے کی دعا کی۔ والدین پر نعمت بھی آدمی کے حق میں نعمت ہوتی ہے۔ - وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰىهُ : عمل صالح وہ ہے جو خالص اللہ کے لیے ہو اور اس کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ہو۔ سلیمان (علیہ السلام) کو علم عطا ہونے پر عمل کی فکر دامن گیر ہوئی، کیونکہ عمل کے بغیر علم انسان کے خلاف حجت ہوتا ہے۔- وَاَدْخِلْنِيْ بِرَحْمَتِكَ فِيْ عِبَادِكَ الصّٰلِحِيْنَ : اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے صالح بندوں میں شمولیت اور جنّت کا حصول اللہ کی رحمت کے بغیر ممکن نہیں۔ ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، آپ نے فرمایا : ( لَنْ یُّدْخِلَ أَحَدًا عَمَلُہُ الْجَنَّۃَ ، قَالُوْا وَلَا أَنْتَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ؟ قَالَ لَا، وَلَا أَنَا إِلَّا أَنْ یَّتَغَمَّدَنِيَ اللّٰہُ بِفَضْلٍ وَ رَحْمَۃٍ ) [ بخاري، المرضٰی، باب تمني المریض الموت : ٥٦٧٣ ] ” کسی شخص کو اس کا عمل جنت میں داخل نہیں کرے گا۔ “ لوگوں نے کہا : ” یا رسول اللہ کیا آپ کو بھی نہیں ؟ “ فرمایا : ” نہیں میں بھی نہیں مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنے فضل اور رحمت کے ساتھ ڈھانپ لے۔ “ - 3 سلیمان (علیہ السلام) نے نبی ہو کر صالحین میں داخل ہونے کی دعا کیوں کی ؟ دیکھیے سورة یوسف (١٠١) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰىهُ ، یہاں رضا بمعنے قبول ہے۔ معنے یہ ہیں کہ یا اللہ مجھے ایسے عمل صالح کی توفیق دیجئے جو آپ کے نزدیک مقبول ہو۔ روح المعانی میں اس سے اس پر استدلال کیا ہے کہ عمل صالح کے لئے قبولیت لازم نہیں ہے بلکہ قبولیت کچھ شرائط پر موقوف ہوتی ہے اور فرمایا کہ صالح اور مقبول ہونے میں نہ عقلاً کوئی لزوم ہے نہ شرعاً اسی لئے انبیاء (علیہم السلام) کی سنت ہے کہ اپنے اعمال صالحہ کے مقبول ہونے کی بھی دعا کرتے تھے جیسے حضرت ابراہیم و اسماعیل (علیہما السلام) نے بیت اللہ کی تعمیر کے وقت دعا فرمائی، رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا، اس سے معلوم ہوا کہ جو عمل نیک ہے صرف اس کو کر کے بےفکر ہونا نہیں چاہئے، اللہ تعالیٰ سے یہ بھی دعا کرے کہ اس کو قبول فرما دے۔- عمل صالح اور مقبول ہونے کے باوجود جنت میں داخل ہونا بغیر فضل خداوندی کے نہیں ہوگا :- وَاَدْخِلْنِيْ بِرَحْمَتِكَ فِيْ عِبَادِكَ الصّٰلِحِيْنَ ، عمل صالح اور اس کے قبول ہونے کے باوجود جنت میں داخل ہونا اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم ہی سے ہوگا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کوئی شخص اپنے اعمال کے بھروسہ پر جنت میں داخل نہیں ہوگا، صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ بھی، تو آپ نے فرمایا کہ ہاں میں بھی لیکن مجھے میرے خدا کی رحمت اور فضل گھیرے ہوئے ہے۔ (روح المعانی)- حضرت سلیمان (علیہ السلام) بھی ان کلمات میں دخول جنت کے لئے فضل ربی کی دعا فرما رہے ہیں یعنی اے اللہ، مجھے وہ فضل بھی عطا فرما جس سے جنت کا مستحق ہوجاؤں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا مِّنْ قَوْلِہَا وَقَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِيْٓ اَنْ اَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِيْٓ اَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلٰي وَالِدَيَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰىہُ وَاَدْخِلْنِيْ بِرَحْمَتِكَ فِيْ عِبَادِكَ الصّٰلِحِيْنَ۝ ١٩- بسم - قال تعالی: فَتَبَسَّمَ ضاحِكاً مِنْ قَوْلِها[ النمل 19] .- ضحك - الضَّحِكُ : انبساطُ الوجه وتكشّر الأسنان من سرور النّفس، ولظهور الأسنان عنده سمّيت مقدّمات الأسنان الضَّوَاحِكِ. - قال تعالیٰ “ وَامْرَأَتُهُ قائِمَةٌ فَضَحِكَتْ [هود 71] ، وضَحِكُهَا کان للتّعجّب بدلالة قوله : أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ [هود 73] ، ويدلّ علی ذلك أيضا قوله : أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ إلى قوله : عَجِيبٌ [هود 72] ، وقول من قال : حاضت، فلیس ذلک تفسیرا لقوله : فَضَحِكَتْ كما تصوّره بعض المفسّرين «1» ، فقال : ضَحِكَتْ بمعنی حاضت، وإنّما ذکر ذلک تنصیصا لحالها، وأنّ اللہ تعالیٰ جعل ذلک أمارة لما بشّرت به، فحاضت في الوقت ليعلم أنّ حملها ليس بمنکر، إذ کانت المرأة ما دامت تحیض فإنها تحبل،- ( ض ح ک ) الضحک - ( س) کے معنی چہرہ کے انبساط اور خوشی سے دانتوں کا ظاہر ہوجانا کے ہیں اور ہنستے وقت چونکہ سامنے کے دانت ظاہر ہوجاتے ہیں اس لئے ان کو ضواحک کہاجاتا ہے اور بطور استعارہ ضحک بمعنی تمسخر بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ ضحکت منہ کے معنی ہیں میں نے اس کا مذاق اڑایا اور جس شخص کا لوگ مذاق اڑائیں اسے ضحکۃ اور جو دوسروں کا مذاق اڑائے اسے ضحکۃ ( بفتح الحاء ) کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَامْرَأَتُهُ قائِمَةٌ فَضَحِكَتْ [هود 71] اور حضرت ابراہیم کی بیوی ( جوپ اس ) کھڑیتی ہنس پڑی ۔ میں ان کی بیوی ہنسنا تعجب کی بنا پر تھا جیسا کہ اس کے بعد کی آیت : أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ [هود 73] کیا خدا کی قدرت سے تعجب کرتی ہو سے معلوم ہوتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ : أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ إلى قوله : عَجِيبٌ [هود 72] اسے ہے میرے بچو ہوگا ؟ میں تو بڑھیا ہوں ۔۔۔۔ بڑی عجیب بات ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ اور جن لوگوں نے یہاں ضحکت کے معنی حاضت کئے ہیں انہوں نے ضحکت کی تفسیر نہیں کی ہے ۔ جیسا کہ بعض مفسرین نے سمجھا سے بلکہ اس سے حضرت ابراہیم کی بیوی کی حالت کا بیان کرنا مقصود ہے کہ جب ان کو خوشخبری دی گئی تو بطور علامت کے انہیں اسی وقت حیض آگیا ۔ تاکہ معلوم ہوجائے کہ ان کا حاملہ ہونا بھی کچھ بعید نہیں ہے ۔ کیونکہ عورت کو جب تک حیض آتا ہے وہ حاملہ ہوسکتی ہے - وزع - يقال : وَزَعْتُهُ عن کذا : کففته عنه . قال تعالی: وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ إلى قوله : فَهُمْ يُوزَعُونَ- [ النمل 17] فقوله : يُوزَعُونَ [ النمل 17] إشارةٌ إلى أنهم مع کثرتهم وتفاوتهم لم يکونوا مهملین ومبعدین، كما يكون الجیش الکثير المتأذّى بمعرّتهم بل کانوا مسوسین ومقموعین . وقیل في قوله : يُوزَعُونَ أي : حبس أولهم علی آخرهم، وقوله : وَيَوْمَ يُحْشَرُ إلى قوله : فَهُمْ يُوزَعُونَ [ فصلت 19] فهذا وَزْعٌ علی سبیل العقوبة، کقوله : وَلَهُمْ مَقامِعُ مِنْ حَدِيدٍ [ الحج 21] وقیل : لا بدّ للسّلطان من وَزَعَةٍ وقیل : الوُزُوعُ الولوعُ بالشیء . يقال : أَوْزَعَ اللهُ فلاناً : إذا ألهمه الشّكر، وقیل : هو من أُوْزِعَ بالشیء : إذا أُولِعَ به، كأن اللہ تعالیٰ يُوزِعُهُ بشكره، ورجلٌ وَزُوعٌ ، وقوله : رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ [ النمل 19] قيل : معناه :- ألهمني وتحقیقه : أولعني ذلك، واجعلني بحیث أَزِعُ نفسي عن الکفران .- ( و ز ع ) وزعتہ عن کذا کے معنی کسی آدمی کو کسی کام سے روک دینا کے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ إلى قوله : فَهُمْ يُوزَعُونَ [ النمل 17] اور سلیمان (علیہ السلام) کے لئے جنون اور انسانوں کے لشکر جمع کئے گئے اور وہ قسم دار کئے گئے تھے ۔ تو یوزعون میں نے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ عسا کر باوجود کثیر التعداد اور متفاوت ہونے کے غیر مرتب اور منتشر نہیں تھے جیسا کہ عام طور پر کثیر التعداد افواج کا حال ہوتا ہے بلکہ وہ نظم وضبط میں تھے کہ کبھی سر کشی اختیار نہیں کرتے تھے اور بعض نے یو زعون کے یہ معنی کئے ہیں کہ لشکر کا اگلا حصہ پچھلے کی خاطر رکا رہتا تھا ۔ اور آیت : ۔ وَيَوْمَ يُحْشَرُ إلى قوله : فَهُمْ يُوزَعُونَ [ فصلت 19] جس دن خدا کے دشمن دو زخ کی طرف چلائے جائیں گے تو ترتیب وار کر لئے جائیں گے ۔ میں یوزعون سے انہیں عقوبت کے طور پر روک لینا مراد ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَلَهُمْ مَقامِعُ مِنْ حَدِيدٍ [ الحج 21] اور ان کے مارنے ٹھوکنے ) کے لئے لوہے کے ہتھوڑے ہو نگے محاورہ ہے کہ سلطان کے لئے محافظ دستہ یا کار ندوں کا ہونا ضروری ہے ۔ جو لوگوں کو بےقانون ہونے سے روکیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ وزوع کے معنی کسی چیز پر فریضۃ ہونے کے ہیں اور محاورہ ہے : ۔ اوزع اللہ فلانا اللہ تعالیٰ نے فلاں کو شکر گزرای کا الہام کیا بعض نے کہا کہ یہ بھی اوزع باالشئی سے ماخوز ہے جس کے معنی کسی چیز کا شیدائی بننے کے ہیں تو اوزع اللہ فلانا سے مراد یہ ہے کہ گویا اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی شکر گزاری کا شیدائی بنادیا اور رجل وزوع کے معنی کسی چیز پر فریضۃ ہونے والا کے ہیں ۔ اس بنا پر آیت کریمہ : ۔ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ [ النمل 19] اے پروردگار مجھے توفیق عنایت کر کہ جو احسان تونے مجھے کئے ہیں ان کا شکر کروں ۔ میں بعض نے اوزعنی کے معنی الھمنی کئے ہیں یعنی مجھے شکر گزاری کا الہام کر مگر اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ مجھے شکر گزاری کا الہام کر مگر اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ مجھے شکر گزاری کا اس قدر شیفۃ بنا کہ میں اپنے نفس کو تیر ی ناشکری سے روک لوں ۔- شكر - الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها، ودابّة شکور : مظهرة بسمنها إسداء صاحبها إليها، وقیل : أصله من عين شكرى، أي :- ممتلئة، فَالشُّكْرُ علی هذا هو الامتلاء من ذکر المنعم عليه . - والشُّكْرُ ثلاثة أضرب :- شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة .- وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم .- وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه .- وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] ،- ( ش ک ر ) الشکر - کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں اور دابۃ شکور اس چوپائے کو کہتے ہیں جو اپنی فربہی سے یہ ظاہر کر رہا ہو کہ اس کے مالک نے اس کی خوب پرورش اور حفاظت کی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ عین شکریٰ سے ماخوذ ہے جس کے معنی آنسووں سے بھرپور آنکھ کے ہیں اس لحاظ سے شکر کے معنی ہوں گے منعم کے ذکر سے بھرجانا ۔ - شکر تین قسم پر ہے - شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجورح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکانات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔- نعم - النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] - ( ن ع م ) النعمۃ - اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - صالح - الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] - ( ص ل ح ) الصالح - ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ - رضي - يقال : رَضِيَ يَرْضَى رِضًا، فهو مَرْضِيٌّ ومَرْضُوٌّ. ورِضَا العبد عن اللہ : أن لا يكره ما يجري به قضاؤه، ورِضَا اللہ عن العبد هو أن يراه مؤتمرا لأمره، ومنتهيا عن نهيه، قال اللہ تعالی:- رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة 119] ، وقال تعالی: لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ، وقال تعالی: وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة 3] ، وقال تعالی: أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة 38] ، وقال تعالی: يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ- [ التوبة 8] ، وقال عزّ وجلّ : وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب 51] ، والرِّضْوَانُ :- الرّضا الکثير، ولمّا کان أعظم الرِّضَا رضا اللہ تعالیٰ خصّ لفظ الرّضوان في القرآن بما کان من اللہ تعالی: قال عزّ وجلّ : وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ- [ الحدید 27] ، وقال تعالی: يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح 29] ، وقال : يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة 21] ، وقوله تعالی: إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ- [ البقرة 232] ، أي : أظهر كلّ واحد منهم الرّضا بصاحبه ورَضِيَهُ.- ( ر ض و ) رضی - ( س ) رضا فھو مرضی و مرضو ۔ راضی ہونا ۔ واضح رہے کہ بندے کا اللہ تعالیٰ سے راضی ہونا یہ ہے کہ جو کچھ قضائے الہیٰ سے اس پر وارد ہو وہ اسے خوشی سے بر داشت کرے اور اللہ تعالیٰ کے بندے پر راضی ہونے کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اسے اپنے اوامر کا بجا لانے والا اور منہیات سے رکنے والا پائے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة 119] اللہ تعالیٰ ان سے خوش اور وہ اللہ تعالیٰ سے خوش ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] تو اللہ تعالیٰ ضرور ان مسلمانوں سے خوش ہوتا ہے وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة 3] اور ہم نے تمہارے لئے دین اسلام کو پسند فرمایا : ۔ أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة 38] کیا آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی پر قناعت کر بیٹھے ہو ۔ يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة 8] اپنی زبانی باتوں سے تو تم کو رضا مند کردیتے ہیں اور ان کے دل ہیں کہ ان باتوں سے انکار کرتے ہیں ۔ وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب 51] اور آزردہ خاطر نہ ہوں گی اور جو کچھ ( بھی ) تم ان کو دوگے وہ ( لے کر سب ) راضی ہوجائیں گی ۔ الرضوان رضائے کثیر یعنی نہایت خوشنودی کو کہتے ہیں ۔ چونکہ سب سے بڑی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہے اس لئے قرآن پاک میں خاص کر رضا الہی ٰ کے لئے رضوان کا لفظ استعما ل ہوا ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : ۔ وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید 27] اور ( لذت ) دنیا کا چھوڑ بیٹھنا جس کو انہوں نے از خود ایجاد کیا تھا ہم نے وہ طریق ان پر فرض نہیں کیا تھا مگر ( ہاں ) انہوں نے اس کو خدا ( ہی ) کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ایجاد کیا تھا ۔ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح 29] اور خدا کے فضل اور خوشنودی کی طلب گاری میں لگے رہتے ہیں ۔ يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة 21] ان کا پروردگار ان کو اپنی مہربانی اور رضامندی کی خوشخبری دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔۔ : إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة 232] ، جب جائز طور پر آپس میں وہ راضی ہوجائیں ۔ میں تراضوا باب تفاعل سے ہے جس کے معنی باہم اظہار رضامندی کے ہیں ،- رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه»- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ،

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٩) غرض کہ سلیمان (علیہ السلام) نے اس کی بات سنی اور اس عقل مندی متعجب ہو کر مسکراتے ہوئے ہنس پڑے اور ان کا لشکر اس کی بات نہ سمجھ سکا اور کہنے لگے اے میرے رب مجھے اس بات کی توفیق دیجیے کہ میں آپ کی ان نعمتوں کا شکر ادا کیا کروں جو آپ نے توحید کے صلہ میں مجھ کو اور میرے ماں باپ کو عطا فرمائی ہیں اور یہ کہ میں ایسے نیک کام کروں جن کو آپ قبول فرمائیں اور مجھ کو اپنے خصوصی فضل سے جنت میں اپنے نیک بندوں یعنی انبیاء کرام میں شامل کر لیجیے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٩ (فَتَبَسَّمَ ضَاحِکًا مِّنْ قَوْلِہَا) ” - حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے چیونٹی کی اس بات کو سن بھی لیا اور سمجھ بھی لیا۔ چناچہ جذبات تشکرّ کے باعث آپ ( علیہ السلام) کے چہرے پر بےاختیار تبسم آگیا اور زبان پر ترانۂ حمد جاری ہوگیا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النمل حاشیہ نمبر : 25 اصل الفاظ ہیں رَبِّ اَوْزِعْنِيْٓ ۔ وزع کے اصل معنی عربی زبان میں روکنے کے ہیں ، اس موقع پر حضرت سلیمان کا یہ کہنا کہ اَوْزِعْنِيْٓ اَنْ اَشْكُرَ نِعْمَتَكَ ( مجھے روک کہ میں تیرے احسان کا شکر ادا کروں ) ہمارے نزدیک دراصل یہ معنی دیتا ہے کہ اے میرے رب جو عظیم الشان قوتیں اور قابلیتیں تونے مجھے دی ہیں وہ ایسی ہیں کہ اگر میں ذرا سی غفلت میں بھی مبتلا ہوجاؤں تو حد بندگی سے خارج ہوکر اپنی کبریائی کے خبط میں نہ معلوم کہاں سے کہاں نکل جاؤں ، اس لیے اسے میرے پروردگار تو مجھے قابو میں رکھ تاکہ میں کافر نعمت بننے کے بجائے شکر نعمت پر قائم رہوں ۔ سورة النمل حاشیہ نمبر : 26 صالح بندوں میں داخل کرنے سے مراد غالبا یہ ہے کہ آخرت میں میرا انجام صالح بندوں کے ساتھ ہو اور میں ان کے ساتھ جنت میں داخل ہوں ۔ اس لیے کہ آدمی جب عمل صالح کرے گا تو صالح تو وہ آپ سے آپ ہوگا ہی ، البتہ آخعرت میں کسی کا جنت میں داخل ہونا محض اس کے عمل صالح کے بل بوتے پر نہیں ہوسکتا بلکہ یہ اللہ کی رحمت پر موقوف ہے ۔ حدیث میں آیا ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لن یدخل احکم الجنۃ عملہ تم میں سے کسی کو بھی محض اس کا عمل جنت میں نہیں پہنچاوے گا ۔ عرض کیا گیا کہ ولا انت یا رسول اللہ کیا حضور کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے ؟ فرمایا ولا انا الا ان یتغمد فی اللہ تعالی برحمتہ ہاں میں بھی محض اپنے عمل کے بل بوتے پر جنت میں نہ چلا جاؤں گا جب تک اللہ تعالی اپنی رحمت سے مجھے نہ ڈھانک لے ۔ حضرت سلیمان کی یہ دعا اس موقع پر بالکل بے محل ہوجاتی ہے اگر النمل سے مراد انسانوں کا کوئی قبیلہ لے لیا جائے اور نملۃ کے معنی قبیلہ نمل کے ایک فرد کے لے لیے جائیں ، ایک بادشاہ کے لشکر جرار سے ڈر کر کسی انسانی قبیلہ کے ایک فرد کا اپنے قبیلے کو خطرہ سے خبردار کرنا آخر کون سی ایسی غیر معمولی بات ہے کہ وہ جلیل القدر بادشاہ اس پر خدا سے یہ دعا کرنے لگے ۔ البتہ ایک شخص کو اتنی زبردست قوت ادراک حاصل ہونا کہ وہ دور سے ایک چیونٹی کی آواز بھی سن لے اور اس کا مطلب سمجھ جائے ضرور ایسی بات ہے جس سے آدمی کے غرور نفس میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ ہو ۔ اسی صورت میں حضرت سلیمان کی یہ دعا بر محل ہوسکتی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani