ہدہد ہدہد فوج سلیمان میں مہندس کا کام کرتا تھا وہ بتلاتا تھا کہ پانی کہاں ہے؟ زمین کے اندر کا پانی اس کو اسطرح نظر آتا تھا جیسے کہ زمین کے اوپر کی چیز لوگوں کو نظر آتی ہے ۔ جب سلیمان علیہ السلام جنگل میں ہوتے اس سے دریافت فرماتے کہ پانی کہاں ہے؟ یہ بتا دیتا کہ فلاں جگہ ہے ۔ اتنا نیچا ہے اتنا اونچا ہے وغیرہ ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام اسی وقت جنات کو حکم دیتے اور کنواں کھود لیا جاتا پانی کی تلاش کا حکم دیا اتفاق سے وہ موجود نہ تھا ۔ اس پر آپ نے فرمایا آج ہدہد نظر نہیں آتا کیا پرندوں میں کہیں وہ چھپ گیا جو مجھے نظر نہ آیا ۔ یا واقع میں وہ حاضر نہیں؟ ایک مرتبہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ تفسیر سن کر نافع بن ارزق خارجی نے اعتراض کیا تھا یہ بکواسی ہر وقت حضرت عبداللہ کی باتوں پر بےجا اعتراض کیا کرتا تھا کہنے لگا آج تو تم ہارگئے ۔ حضرت عبداللہ نے فرمایا کیوں؟ اس نے کہا آپ جو یہ فرماتے ہو کہ ہدہد زمین کے تلے کا پانی دیکھ لیتا تھا یہ کیسے صحیح ہوسکتا ہے ایک بچہ جال بچھاکر اسے مٹی سے ڈھک کر دانہ ڈال کر ہدہد کا شکار کرلیتا ہے اگر وہ زمین کے اندر کا پانی دیکھتا ہے تو زمین کے اوپر کا جال اسے کیوں نظر نہیں آتا ؟ آپ نے فرمایا اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ تو یہ سمجھ جائے گا کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ لاجواب ہوگیا تو مجھے جواب کی ضرورت نہ تھی سن جس وقت قضا آجاتی ہے آنکھیں اندھی ہوجاتی ہیں اور عقل جاتی رہتی ہے ۔ نافع لاجواب ہوگیا اور کہا واللہ اب میں آپ پر اعتراض نہ کرونگا ۔ حضرت عبداللہ برزی ایک ولی کامل شخص تھے پیر جمعرات کا روزہ پابندی سے رکھا کرتے تھے ۔ اسی سال کی عمر تھی ایک آنکھ سے کانے تھے ۔ سلیمان بن زید نے ان سے آنکھ کے جانے کا سبب دریافت کیا تو آپ نے اس کے بتانے سے انکار کردیا ۔ یہ بھی پیچھے پڑ گئے مہینوں گذر گئے نہ وہ بتاتے نہ یہ سوال چھوڑتے آخر تنگ آکر فرمایا لو سن لو میرے پاس لولو خراسانی برزہ میں ( جو دمشق کے پاس ایک شہر ہے ) آئے اور مجھ سے کہا کہ میں انہیں برزہ کی وادی میں لے جاؤں میں انہیں وہاں لے گیا ۔ انہوں نے انگیٹھیاں نکالیں بخور نکالے اور جلانے شروع کئے یہاں تک کہ تمام وادی خوشبو سے مہکنے لگی ۔ اور ہر طرف سے سانپوں کی آمد شروع ہوگئی ۔ لیکن بےپرواہی سے بیٹھے رہے کسی سانپ کی طرف التفات نہ کرتے تھے ۔ تھوڑی دیر میں ایک سانپ آیا جو ہاتھ بھر کا تھا اور اسکی آنکھیں سونے کی طرح چمک رہی تھیں ۔ یہ بہت ہی خوش ہوئے اور کہنے لگے اللہ کا شکر ہے ہماری سال بھر محنت ٹھکانے لگی ۔ انہوں نے اس سانپ کو لے کر اس کی آنکھوں میں سلائی پھیر کر اپنی آنکھوں میں وہ سلائی پھیرلی میں نے ان سے کہاکہ میری آنکھوں میں بھی یہ سلائی پھیردو ۔ انہوں نے انکار کردیا میں نے ان سے منت سماجت کی بہ مشکل وہ راضی ہوئے اور میری داہنی آنکھ میں وہ سلائی پھیر دی اب جو میں دیکھتا ہوں تو زمین مجھے ایک شیشے کی طرح معلوم ہونے لگی جیسی اوپر کی چیزیں نظر آتی تھیں ایسی ہی زمین کے اندر کی چیزیں بھی دیکھ رہا تھا انہوں نے مجھے کہاچل اب آپ ہمارے ساتھ ہی کچھ دورچلے میں نے منظور کرلیا وہ باتیں کرتے ہوئے مجھے ساتھ لئے ہوئے چلے جب میں بستی سے بہت دور نکل گیا تو دونوں نے مجھے دونوں طرف سے پکڑلیا اور ایک نے اپنی انگلی ڈال کر میری آنکھ نکالی اور اسے پھینک دیا ۔ اور مجھیے یونہی بندھا ہوا وہیں پٹخ کر دونوں کہیں چل دئیے ۔ اتفاقا وہاں سے ایک قافلہ گذرا اور انہوں نے مجھے اس حالت میں دیکھ کررحم کھایا قیدوبند سے مجھے آزاد کردیا اور میں چلا آیا یہ قصہ ہے میری آنکھ کے جانے کا ( ابن عساکر ) حضرت سلیمان کے اس ہدہد کا نام عنبر تھا ، آپ فرماتے ہیں اگر فی الواقع وہ غیر حاضر ہے تو میں اسے سخت سزادوں گا اسکے پر نچوادوں گا اور اس کو پھنک دوں گا کہ کیڑے مکوڑے کھاجائیں یا میں اسے حلال کردونگا ۔ یا یہ کہ وہ اپنے غیر حاضر ہونے کی کوئی معقول وجہ پیش کردے ۔ اتنے میں ہدہد آگیا جانوروں نے اسے خبردی کہ آج تیری خیر نہیں ۔ بادشاہ سلامت عہد کرچکے ہیں کہ وہ تجھے مار ڈالیں گے ۔ اس نے کہایہ بیان کرو کہ آپ کے الفاظ کیا تھے؟ انہوں نے بیان کئے تو خوش ہو کر کہنے لگا پھر تو میں بچ جاؤں گا ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں اس کے بچاؤ کی وجہ اس کا اپنی ماں کے ساتھ سلوک تھا ۔
2 0 1یعنی موجود تو ہے، مجھے نظر نہیں آرہا یا یہاں موجود ہی نہیں ہے۔
وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ فَقَالَ مَا لِيَ لَآ اَرَى ۔۔ : اس سے سلیمان (علیہ السلام) کے کمال احتیاط، نظم و ترتیب اور بڑے سے بڑے اور چھوٹے سے چھوٹے معاملے کی ذاتی طور پر نگرانی کا پتا چلتا ہے، حتیٰ کہ پرندوں میں سے ایک پرندے ہُد ہُد اور ہُد ہُد میں سے ایک خاص ہُد ہُد کی عدم موجودگی بھی ان سے مخفی نہ رہ سکی۔ خلفائے راشدین (رض) بھی چھوٹے سے چھوٹے معاملے کی بہ نفس نفیس خبر رکھتے تھے۔ امیر المومنین عمر بن خطاب (رض) کے حالات، خصوصاً ان کا شام کا سفر اس کی بہترین مثال ہے۔ - فَقَالَ مَا لِيَ لَآ اَرَى : یعنی معاملہ کیا ہے، آیا ہُد ہُد یہاں موجود ہے اور مجھے نظر نہیں آ رہا، یا وہ ان میں سے ہے جو غائب ہیں ؟ معلوم ہوا جائزے میں اور بھی کئی لوگ غائب تھے، مگر ان کے متعلق باز پرس کا یہاں ذکر نہیں کیا گیا۔ ممکن ہے وہ اجازت سے غائب ہوں، یا ان کے تذکرے کی ضرورت نہ ہو۔ اس واقعہ سے انبیاء ( علیہ السلام) کے عالم الغیب ہونے کی نفی ہوتی ہے، کیونکہ اگر سلیمان (علیہ السلام) کو ہُد ہُد کے متعلق علم ہوتا تو یہ بات نہ کہتے۔ - 3 اکثر مفسرین لکھتے ہیں کہ سلیمان (علیہ السلام) نے ہُد ہُد کو اس لیے طلب کیا تھا کہ وہ زمین کے نیچے پانی دیکھ لیتا تھا، مگر یہ بات بےدلیل ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالیٰ بتادیتا، یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کا ذکر فرما دیتے۔ آیت کے الفاظ بھی اس مفہوم کے خلاف ہیں، کیونکہ اس میں ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) نے تمام پرندوں کا جائزہ لیا تو ایک خاص ہُد ہُد (الھدھد) کو غائب پایا۔ اس میں پانی کی ضرورت کے لیے ہُد ہُد کو طلب کرنے کا کوئی ذکر نہیں۔ ہُد ہُد کے متعلق سوال کی وجہ لشکر کا جائزہ تھا اور لشکر کا جائزہ مجاہدین کی معمول کی بات ہے۔ علاوہ ازیں پانی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے سلیمان (علیہ السلام) کو ہُد ہُد کی کوئی محتاجی نہ تھی، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں جنوں اور عفریتوں کی وہ فوج عطا کر رکھی تھی جسے کسی بھی جگہ سے پانی لانا کچھ مشکل نہ تھا (جیسا کہ آنکھ جھپکنے میں ملکہ سبا کا تخت آجانا، اس کی واضح مثال ہے) ۔ کوئی قدیم مفسر اس قسم کی کوئی بےسروپا اسرائیلی روایت نقل کردیتا ہے تو بعد والے مفسرین اسے اندھا دھند نقل کرتے جاتے ہیں، یہ سوچتے ہی نہیں کہ اس کا کوئی ثبوت بھی ہے یا نہیں، حتیٰ کہ ایسی بہت سی بےسروپا باتوں کو متفق علیہ حقیقت سمجھ لیا جاتا ہے۔ (تفسیر السعدی)
خلاصہ تفسیر - (اور ایک بار یہ قصہ ہوا کہ) سلیمان (علیہ السلام) نے پرندوں کی حاضری لی تو (ہدہد کو نہ دیکھا) فرمانے لگے کہ کیا بات ہے کہ میں ہدہد کو نہیں دیکھتا کیا کہیں غائب ہوگیا ہے (اور جب معلوم ہوا کہ واقع میں غائب ہے تو فرمانے لگے) میں اس کو (غیر حاضری پر) سخت سزا دوں گا یا اس کو ذبح کر ڈالوں گا یا وہ کوئی صاف دلیل (اور غیر حاضری کا عذر) میرے سامنے پیش کردے (تو خیر چھوڑ دوں گا) تھوڑی دیر بعد وہ آ گیا اور سلیمان (علیہ السلام سے) کہنے لگا کہ ایسی بات معلوم کر کے آیا ہوں جو آپ کو معلوم نہیں ہوئی اور (اجمالی بیان اس کا یہ ہے کہ) میں آپ کے پاس قبیلہ سبا کی ایک پختہ خبر لایا ہوں (جس کا تفصیلی بیان یہ ہے کہ) میں نے ایک عورت کو دیکھا کہ وہ ان لوگوں پر بادشاہی کر رہی ہے اور اس کو (بادشاہی کے لوازم میں سے) ہر قسم کا سامان حاصل ہے اور اس کے پاس ایک بڑا تخت ہے (اور مذہبی حالت ان کی یہ ہے کہ) میں نے اس (عورت) کو اور اس کی قوم کو دیکھا کہ وہ خدا (کی عبادت) کو چھوڑ کر آفتاب کو سجدہ کرتے ہیں اور شیطان نے ان کے (ان) اعمال (کفر) کو ان کی نظر میں مرغوب کر رکھا ہے (اور ان اعمال بد کو مزین کرنے کے سبب) ان کو راہ (حق) سے روک رکھا ہے اس لئے وہ راہ (حق) پر نہیں چلتے کہ اس خدا کو سجدہ نہیں کرتے جو (ایسا قدرت والا ہے کہ آسمان اور زمین کی پوشیدہ چیزوں کو (جن میں سے بارش اور زمین کی نباتات بھی ہیں) باہر لاتا ہے اور (ایسا جاننے والا ہے کہ) تم لوگ (یعنی تمام مخلوق) جو کچھ (دل میں) پوشیدہ رکھتے ہو اور جو کچھ (زبان اور جسم کے اعضاء سے) ظاہر کرتے ہو وہ سب کو جانتا ہے (اس لئے) اللہ ہی ایسا ہے کہ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور وہ عرش عظیم کا مالک ہے سلیمان (علیہ السلام) نے (یہ سن کر) فرمایا کہ ہم ابھی دیکھ لیتے ہیں کہ تو سچ کہتا ہے یا تو جھوٹوں میں سے ہے (اچھا) میرا یہ خط لے جا اور اس کو ان کے پاس ڈال دینا پھر (ذرا وہاں سے) ہٹ جانا، پھر دیکھنا کہ آپس میں کیا سوال و جواب کرتے ہیں ( پھر تو یہاں چلے آنا وہ لوگ جو کچھ کارروائی کریں گے اس سے تیرا سچ جھوٹ معلوم ہوجاوے گا۔ )- معارف و مسائل - وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ ، تفقد کے لفظی معنے کسی مجمع کے متعلق حاضر و غیر حاضر کی تحقیق کرنے کے ہیں۔ اس لئے اس کا ترجمہ خبر گیری اور نگہبانی سے کیا جاتا ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو حق تعالیٰ نے انسانوں کے علاوہ جنات اور دحوش و طیور پر حکومت عطا فرمائی تھی اور جیسا کہ حکمرانی کا اصول ہے رعایا کے ہر طبقہ کی نگرانی اور خبر گیری حاکم کے فرائض میں سے ہے اس کے مطابق اس آیت میں بیان فرمایا تَفَقَّدَ الطَّيْرَ یعنی سلیمان (علیہ السلام) نے اپنی رعایا کے طیور کا معائنہ فرمایا اور یہ دیکھا کہ ان میں کون حاضر ہے کون غیر حاضر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بھی عادت شریفہ یہ تھی کہ صحابہ کرام کے حالات سے باخبر رہنے کا اہتمام فرماتے تھے جو شخص غیر حاضر ہوتا اگر بیمار ہے تو عیادت کے لئے تشرف لے جاتے تھے تیمار داری کرتے اور کسی تکلیف میں مبتلا ہے تو اس کے لئے تدبیر فرماتے تھے۔- حاکم کو اپنی رعیت کی اور مشائخ کو اپنے شاگردوں اور مریدوں کی خبر گیری ضروری ہے :- آیت مذکورہ سے ثابت ہوا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اپنی رعایا کے ہر طبقہ پر نظر رکھتے اور ان کے حالات سے اتنے باخبر رہتے تھے کہ ہدہد جو طیور میں چھوٹا اور کمزور بھی ہے اور اس کی تعداد بھی دنیا میں بہ نسبت دوسرے طیور کے کم ہے وہ بھی حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی نظر سے اوجھل نہیں ہوا، بلکہ خاص ہدہد کے متعلق جو سوال آپ نے فرمایا اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ زمرہ طیور میں کم تعداد اور کمزور ہے، اس لئے اپنی رعیت کے کمزوروں پر نظر رکھنے کا زیادہ اہتمام فرمایا۔ صحابہ کرام میں حضرت فاروق اعظم نے اپنے زمانہ خلافت میں اس سنت انبیاء کو پوری طرح جاری کیا۔ راتوں کو مدینہ منورہ کی گلیوں میں پھرتے تھے کہ سب لوگوں کے حالات سے باخبر رہیں جس شخص کو کسی مصیبت و تکلیف میں گرفتار پاتے اس کی امداد فرماتے تھے جس کے بہت سے واقعات ان کی سیرت میں مذکور ہیں۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ " اگر دریائے فرات کے کنارہ پر کسی بھیڑیئے نے کسی بکری کے بچے کو پھاڑ ڈالا تو اس کا بھی عمر سے سوال ہو گا "۔ (قرطبی)- یہ تھے وہ اصول جہانبانی و حکمرانی جو انبیاء (علیہم السلام) نے لوگوں کو سکھائے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ان کو عملاً جاری کر کے دکھلایا اور جس کے نتیجہ میں پوری مسلم و غیر مسلم رعایا امن و اطمینان کے ساتھ زندگی بسر کرتی تھی، اور ان کے بعد زمین و آسمان نے ایسے عدل و انصاف اور عام دنیا کے امن و سکون اور اطمینان کا یہ منظر نہیں دیکھا۔- مَا لِيَ لَآ اَرَى الْهُدْهُدَ اَمْ كَانَ مِنَ الْغَاۗىِٕـبِيْنَ ، سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا کہ مجھے کیا ہوگیا کہ میں ہدہد کو مجمع میں نہیں دیکھتا۔- اپنے نفس کا محاسبہ :- یہاں موقع تو یہ فرمانے کا تھا کہ ہدہد کو کیا ہوگیا کہ وہ مجمع میں حاضر نہیں۔ عنوان شاید اس لئے بدلا کہ ہدہد اور تمام طیور کا مسخر ہونا حق تعالیٰ کا ایک انعام خاص تھا۔ ہدہد کی غیر حاضری پر ابتداء میں یہ خوف دل میں پیدا ہوا کہ شاید میرے کسی قصور سے اس نعمت میں کمی آئی کہ ایک صنف طیور کی یعنی ہدہد غائب ہوگیا اس لئے اپنے نفس سے سوال کیا کہ ایسا کیوں ہوا ؟ جیسا کہ مشائخ صوفیہ کا معمول ہے کہ جب ان کو کسی نعمت میں کمی آئے یا کوئی تکلیف و پریشانی لاحق ہو تو وہ اس کے ازالہ کے لئے مادی اسباب کی طرف توجہ کرنے سے پہلے اپنے نفس کا محاسبہ کرتے تھے کہ ہم سے اللہ تعالیٰ کے حق شکر میں کونسی کوتاہی ہوئی جس کے سبب یہ نعمت ہم سے لے لی گئی۔ قرطبی نے اس جگہ بحوالہ ابن عربی ان بزرگوں کا یہ حال نقل کیا ہے۔ - اذا فقدوا امالھم تفقدوا اعمالھم۔- یعنی ان حضرات کو جب اپنی مراد میں کامیابی نہیں ہوتی تو یہ اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے ہیں کہ ہم سے کیا قصور سرزد ہوا۔- اس ابتدائی محاسبہ نفس اور غور و فکر کے بعد فرمایا اَمْ كَانَ مِنَ الْغَاۗىِٕـبِيْنَ اس جگہ حرف ام بمعنے بل ہے (قرطبی) معنے یہ ہیں کہ یہ بات نہیں کہ ہدہد کے دیکھنے میں میری نظر نے خطاء کی بلکہ وہ حاضر ہی نہیں۔- طیور میں سے ہدہد کی تخصیص کی وجہ اور ایک اہم عبرت :- حضرت عبداللہ بن عباس سے سوال کیا گیا کہ تمام پرندوں میں ہدہد کی تفتیش کی کیا وجہ پیش آئی تو آپ نے فرمایا کہ سلیمان (علیہ السلام) نے کسی ایسے مقام میں قیام فرمایا جہاں پانی نہیں تھا اور اللہ تعالیٰ نے ہدہد کو یہ خاصیت عطا فرمائی ہے کہ وہ زمین کے اندر کی چیزوں کو اور زمین کے اندر بہنے والے چشموں کو دیکھ لیتا ہے۔ مقصود حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا یہ تھا کہ ہدہد سے یہ معلوم کریں کہ اس میدان میں پانی کتنی گہرائی میں ہے اور کس جگہ زمین کھودنے سے پانی کافی مل سکتا ہے۔ ہدہد کی اس نشاندہی کے بعد وہ جنات کو حکم دیدیتے کہ اس زمین کو کھود کر پانی نکال لو وہ بڑی جلد کھود کر پانی نکال لیتے تھے۔ ہدہد اپنی تیز نظر اور بصیرت کے باوجود شکاری کے جال میں پھنس جاتا ہے اس پر حضرت ابن عباس نے فرمایا۔- قف یا وقاف کیف یری الھدھد باطن الارض وھو لا یری الفخ حین یقع فیہ (قرطبی)- جاننے والو اس حقیقت کو پہچانو کہ ہدہد زمین کی گہرائی کی چیزوں کو دیکھ لیتا ہے مگر زمین کے اوپر پھیلا ہوا جال اس کی نظر سے اوجھل ہوجاتا ہے جس میں پھنس جاتا ہے۔- مقصد یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے جو امر تکلیف یا راحت کا کسی کے لئے مقدر کردیا ہے تو تقدیر الٰہی نافذ ہو کر رہتی ہے کوئی شخص اپنی فہم و بصیرت یا زور و زر کی طاقت کے ذریعہ اس سے نہیں بچ سکتا۔
وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ فَقَالَ مَا لِيَ لَآ اَرَى الْہُدْہُدَ ٠ۡۖ اَمْ كَانَ مِنَ الْغَاۗىِٕـبِيْنَ ٢٠- فقد - الفَقْدُ : عدم الشیء بعد وجوده، فهو أخصّ من العدم، لأن العدم يقال فيه وفیما لم يوجد بعد . قال تعالی: ماذا تَفْقِدُونَ قالُوا : نَفْقِدُ صُواعَ الْمَلِكِ [يوسف 71- 72] - ( ف ق د ) الفقد - کے معنی ہیں کسی چیز کے وجود کے بعد اس کا نہ پایا جانا اور یہ عدم سے اخص ہے کیونکہ عدم فقد کو بھی کہتے ہیں ۔ اور کسی چیز کے سرے سے موجود نہ ہونے کو بھی قرآن میں ہے : ماذا تَفْقِدُونَ قالُوا : نَفْقِدُ صُواعَ الْمَلِكِ [يوسف 71- 72] تمہاری کیا چیز کھوئی گئی ہے ہو بولے کہ بادشاہ کے پانی پینے کا کلاس کھویا گیا ۔- طير - الطَّائِرُ : كلُّ ذي جناحٍ يسبح في الهواء، يقال : طَارَ يَطِيرُ طَيَرَاناً ، وجمعُ الطَّائِرِ : طَيْرٌ «3» ، كرَاكِبٍ ورَكْبٍ. قال تعالی: وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام 38] ، وَالطَّيْرَ مَحْشُورَةً- [ ص 19] ، وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور 41] وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ- [ النمل 17] ، وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ [ النمل 20] - ( ط ی ر ) الطائر - ہر پر دار جانور جو فضا میں حرکت کرتا ہے طار یطیر طیرا نا پرند کا اڑنا ۔ الطیر ۔ یہ طائر کی جمع ہے جیسے راکب کی جمع رکب آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام 38] یا پرند جو اپنے پر دل سے اڑتا ہے ۔ وَالطَّيْرَ مَحْشُورَةً [ ص 19] اور پرندوں کو بھی جو کہ جمع رہتے تھے ۔ وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور 41] اور پر پھیلائے ہوئے جانور بھی ۔ وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ [ النمل 17] اور سلیمان کے لئے جنون اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کئے گئے ۔ وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ [ النمل 20] انہوں نے جانوروں کا جائزہ لیا ۔ - هدد - الهَدُّ : هدم له وقع، وسقوط شيء ثقیل، والهَدَّة : صوت وقعه . قال تعالی: وَتَنْشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبالُ هَدًّا[ مریم 90] وهدّدت البقرة : إذا أوقعتها للذّبح، والهِدُّ :- المهدود کالذّبح للمذبوح، ويعبّر به عن الضّعيف والجبان، وقیل : مررت برجل هَدَّكَ من رجل کقولک : حسبک، وتحقیقه : يَهُدُّكَ ويزعجک وجود مثله، وهَدَّدْتُ فلانا وتَهَدَّدْتُهُ : إذا زعزعته بالوعید، والهَدْهَدَة : تحريك الصّبيّ لينام، والهُدْهُدُ : طائر معروف . قال تعالی:- ما لِيَ لا أَرَى الْهُدْهُدَ [ النمل 20] وجمعه : هَدَاهِد، والهُدَاهِد بالضّمّ واحد، قال الشاعر :- كهداهد کسر الرّماة جناحه ... يدعو بقارعة الطریق هديلا - ( ھ دد ) الھد - کے معنی کسی چیز کو زور کی آواز کے ساتھ گرادینے یا کسی بھاری چیز کے گرپڑنے کے ہیں اور کسی چزی کے گرنے کی آواز کو ھدۃ کہا جاتا ہے : ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَتَنْشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبالُ هَدًّا[ مریم 90] زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوکر گرپڑیں ۔ اور ھدوت البقرۃ کے معنی گائے کو ذبح کرنے کے لئے زمین پر گرانے کے ہیں اور ھد بمعنی مھد ود یعنی گرائی ہوئی چیز کے آتا ہے جیسے ذبح بمعنی مذبوح اور کمزور بزدل آدمی کو بھی ھد کہا جاتا ہے ۔ ایک محاورہ ہے : ۔ مررت برجل ھدک من رجل میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو تیرے لئے فلاں سے کافی ہے ۔ اصل میں اس کے معنی ہیں کہ وجود تجھے بےچین اور مضطرب کرتا ہے ۔ ھددت فلانا وتھددتہ میں نے اسے دھکایا اور ڈاریا ۔ الھد ھدۃ بچے کو سلانے کے لئے تھپکی دینا اور ہلا نا الھد ھد ۔ ایک جانور کا نام ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ ما لِيَ لا أَرَى الْهُدْهُدَ [ النمل 20] کیا سبب ہے کہ ہد ہد نظر نہیں آتا ۔ اس کی جمع ھدا ھد آتی ہے اور ھد ا ھد ضمہ کے ساتھ واحد ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( المکامل ) ( 451 ) کھد اھد کسرا الرماۃ جناحتہ بدعو لقارعتہ الطریق ھدیلا وہ اس حمام کی طرح پریشان تھا جس کے بازو شکاریوں نے توڑدیئے ہوں اور وہ راستہ میں کھڑا وادیلا کررہاہو ۔- غيب - الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20]- ( غ ی ب ) الغیب ( ض )- غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے
(٢٠) ایک بار یہ قصہ ہوا کہ سلیمان (علیہ السلام) نے تمام پرندوں کی حاضری لی تو ہدہد کو نہ دیکھا تو فرمانے لگے کیا بات ہے کہ میں ہدہد کو اس کی جگہ پر نہیں پاتا اگر وہ پرندوں میں سے کہیں غائب ہوگیا ہے۔
سورة النمل حاشیہ نمبر : 27 یعنی ان پرندوں کا جن کے متعلق اوپر ذکر کیا جا چکا ہے کہ جن اور انس کی طرح ان کے لشکر بھی حضرت سلیمان کے عساکر میں شامل تھے ، ممکن ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام ان سے خبر رسانی ، شکار اور اسی طرح کے دوسرے کام لیتے ہوں ۔